سیکسی عورت کی چال
قسط 04 - آخری
شگفتہ کے منہ میں شانی کا لنڈ تھا جسے وہ بڑے چاؤ سے چوس رہی تھی۔
میرا پیارا جان دلارا شانی اپنے کمرے کے بیڈ پر ننگ دھڑنگ چت لیٹا ہؤا تھا
اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اس کے دونوں ہاتھ دوپٹوں سے دونوں طرف بیڈ سے بندھے ہوئے تھے
اس کی دونوں پیر بھی دونوں اطرف سے بندھے ہوئے تھے
وہ بالکل بے بس ہمارے رحم و کرم پر تھا
وہ انگریزی کے لفظ ایکس کی شکل اختیار کئے ہؤا تھا۔
اسکی رانوں کے درمیان شگفتہ جھکی ہوئی اسکے لنڈ کو حلق تک اتارے ہوئے چوسے لگا رہی تھی۔
وہ اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل کتیا بنی ہوئی صرف منہ سے لنڈ کا چوپا لگا رہی تھی۔
اور میں کسی تماشائی کی طرح کرسی پر بیٹھی لایو پورن کا نظارہ کر رہی تھی۔
شگفتہ ننگی ہو کر اور بھی پرکشش لگ رہی تھی اسکے جسم کے اعضاء اگرچہ بڑے نہیں تھے لیکن بے حد متناسب تھے۔
اسکا پیٹ بےشکن اور کسی ماڈل کی طرح ہموار ہوا تھا ۔
اسکے ابھار کسی نوعمر لڑکی کی طرح ٹھوس اور گول تھے۔
ہپس اگرچہ بڑے نہیں تھے مگر خوبصورت شیپ میں تھے۔
ڈوگی سٹائل میں اسکے ہپس بالکل علیحدہ علیحدہ تھے درمیان میں پھدی کے ہونٹ ابھرے ہوے تھے جن پر دو تین دن کے چھوٹے چھوٹے رواں جیسے بال تھے۔
وہ تقریباً پانچ منٹ سے مسلسل چوپا لگا رہی تھی۔
وہ زبان کی نوک سےٹٹوں کو برش کرتے ہوے لنڈ کے ٹوپے پر جاتی اسے ٹوپے پر گول گھماتی۔پھر ہونٹوں میں دبوچ کر پورے لوڑے کو حلق تک اتار لیتی۔۔
پھر آرام سے لنڈ سے منہ اوپر کھنچتی اور ہونٹوں سے توپے کو چوستے ہوے باہر نکالتی۔
شانی مدہوشی میں سسس سی سس نگی نگی سسس کی آوازیں نکال رہاتھا۔
وہ اپنی دانست میں اپنی محبوبہ نگہت عرف نگی سے چوپے لگوا دیا تھا۔
اج پلان کے مطابق شانی کے آنے سے پہلے ہی شگفتہ آ گئی تھی اور جیسے ہی شانی آیا وہ میرے بیڈ روم چھپنے چلی گئی تھی۔
باہر میں نے شانی کو کھانا وغیرہ سرو کیا
اور اسے لے کر شانی کے بیڈ روم میں آ گئی تھی۔
شانی میری بےتابی دیکھ کر مسکرا کر بولا،
'لگتا ہے آج کچھ زیادہ ہی مزہ آنے والا ہے"
میں اس کی شرٹ نکالتے ہوئے بولی،
“جی جناب آج کا دن آپ کے لیئے کچھ خاص ہے آج کچھ ایسے مزہ دوں گی کہ کبھی بھول نہیں پاؤ گے "
اسے ننگا کر کے میں نے اپنے کپڑے بھی اتار ڈالے۔ اور اسے کھڑے کھڑے جپھی ڈال کر فرنچ کسنگ کرنے لگی۔
انی کا قد مجھ سے بڑا تھا اور گردن نیچے کر کے بوس وکنار کر رہا تھا۔
اسکے ہاتھ میرے ننگے بدن کو سہلانے لگے
اپنے ہاتھوں میں میری ہپس کو دبوچ وار نوچ ریا تھا میں بھی اسکی ہپس کو دبا رہی تھی۔
اس کارروائی سے اس کا ہتھیار بیدار ہونے لگا
پہلے چھوہارے سے کیلا بنا پھر کھیرے کی طرح سخت ہو گیا
مجھے اپنے پیٹ پر اسکے اوزار کی سختی محسوس ہوی تو میں نے اسے بیڈ کی طرف دھکیلا۔
وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے پاس آ کر اپنی رانی کو اسکے منہ پر لگا دیا
اس نے میرا اشارہ سمجھتے ہوئے میری رانی کو چومنا شروع کر دیا۔
مگر اس طرح اسکی زبان صرف دانے کو ہی چھو پارہی تھی۔ اس لیے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر اس کے شانے پر دھر دی اس طرح چوت کا منہ کھل کر شانی کی زبان کی پہنچ میں آ گیا۔
اس نے میری چوت کو لپالپ چاٹنا شروع کردیا۔
چوت کے ہونٹوں کو نیچے سے اوپر تک اپنی زبان تک چاٹا۔پھر دانے کو پہلے ہونٹوں سے دبایا۔
پھر دانتوں سے ہلکا سا کاٹا۔جس سے میرے منہ منہ سے آییں نکلنے لگیں۔
وہ اتنے شوق سے پھدی چاٹ رہا تھا کہ مزے سے میں اپنا آج کا سارا پلان ہی بھول گئی تھی۔
پھر مزے سے مجھے ایک ارگیزم ہؤا ۔
میری چوت کا رس سے اس کا منہ گیلا ہو گیا۔
میں نے اسے پیار سے علیحدہ کتے ہوے اپنی ٹانگ نیچے اتاری۔
اسکے ہونٹوں پر کس کیا تو اپنی چوت کے رس کا نمکین ذائقہ چکھا۔
ایک دفعہ پھدی کا جوش ٹھنڈا ہوا ،
تو میں کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوی۔
میں نے اسے بیڈ پر دھکیل کر لٹا دیا اور اس کے لوڑے کو منہ میں ڈال لیا۔اور شافٹ کو چوسنے لگی۔
چوستے ہوے جب ہیڈ ہونٹوں میں آتا تو میں دانتوں سے کاٹتی۔ جس سے وہ تڑپ جاتا اور میرے سر کو پکڑ لیتا۔
جب دو تین بار اس نے میرے سر کو پکڑا تو مین ڈانٹ کر بولی۔
" یہ کیا حرکت ہے میری چیز ہے جو مرضی کروں۔ چوموں یا دانتوں سے کاٹوں,اگر اب مجھے روکا تو تجھے مذہ چکھا دینا ہے"
" اچھا ٹھیک ہے اب کچھ نہیں کروں گا، آپ جو مرضی کریں"
میں زبان سے اس کے ہیڈ کو چھیڑنے کرنے لگی مگر منہ میں نہی لے رہی تھی وہ بے تابیِ سے دیکھ رہا تھاکہ کب منہ میں لوں۔
پھر اس پر ترس کھا کر دو تین منہ بھر کر چوپے لگاے۔
اور دوبارا لنڈ کی شافٹ اور ہیڈ کو زبان سے برش کرنے لگی۔
میں اسے جان بوجھ کر ستا رہی تھی۔ منہ کو ہیڈ پر لا کر ہونٹ گول کر ہیڈ پکڑ کر چھوڑ دیتی۔پھر پکڑتی چھوڈ دیتی۔
پھر ہیڈ کو ہونٹوں سے دبوچا ہی تھا کہ اس نے اضطراری طور پر میرا سر پکڑ کر لنڈ پر دبا دیا۔اور لنڈ میرے حلق سے جا ٹکرایا۔
جس سے مجھے پھندا سا لگ گیا اور گلے میں خراش سی آ گیی میں کھانستے ہوئے بیڈ سے اتر گئی
میری آنکھوں میں کھانسی سے پانی آ گیا تھا۔
میں نے اس کی طرف خفگی سے دیکھا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔
میں آٹھ کر کچن میں ا گئی گلاس پانی کا پییا اور آتے ہوےاپنے بیڈروم کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے ڈالی۔ یہ شگفتہ کے لئے تیاری کا اشارہ تھا۔
شانی شرمندگی سے بولا،
“ سوری انٹی، یہ بس جوش میں ہو گیا۔مجھے معاف کردیں۔اب نہیں کروں گا"
میں خفگی سے بولی،
“ جان نکالنی ہے کیا، کیسے بدتمیزی سے سارا ہی گھسا دیا۔اگر سانس رک جاتا تو؟"
“ اب رہنے دو آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے"
وہ اٹھ کر میرے پاس آ گیا اور مجھے چومتے ہوئے بولا۔
“ معاف کردیں ناں، اب ایسا نہیں کروں گا"
میں ہلکی ناراضگی سے بولی،
“ آج اتنا دل تھا اورل سیکس کرنے کو، سارا موڈ ہی خراب کر دیاتم نے"
وہ میرے گالوں کو چوم کر بولا،
“ چلیں غصہ تھوکیں، ابھی تو رانی اور راجہ کو بھی ملانا ہے۔ زیادہ بات ہے تو میرے ہاتھ باندھ دیں۔
میں تیزی سے بولی ،
“ بچو تیرے ہاتھ ہی نہیں پاؤں بھی باندھوں گی۔ اگر آج مزید کھیل ہو گا تو میری مرضی سے ہوگا"
وہ خوشی سے بولا،
“ مجھے ہر شرط منظور ہے۔ آپ بس اب راضی ہو جائیں"
میں نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ کر بولا" تو چلو بیڈ پر جا کر سیدھے لیٹ جاؤ"
وہ اچھے بچوں کی طرح بیڈ پر لیٹ گیا۔میں نے اپنے دوپٹوں سے اس کے ہاتھ پیر باندھے۔
پھر ایک دوپٹے سے اس کی آنکھوں پر پٹی سی باندھ دی ۔
وہ چپ چاپ پڑا رہا۔
جب سب تیار ہوگیا تو میں اس کی کھلی رانوں کے درمیان بیٹھ گئ اور بولی ،
بیٹا اب مزے لو۔
چھوہارے کو منہ میں لے لیا۔چھو ہارا منہ میں کی گرمی پاتے ہی بڑا ہونے لگا ، اور کچھ ہی منٹوں میں اپنے سایز میں ا گیا۔
میں نے ایک پیار بھرا تپھڑ شیطان کو رسید کیا۔
شانی مزے سے کرایا۔
میں اونچی آواز سے بولی۔اب کروگے شیطانی"
وہ سسکا۔
نہیں خالہ اب نہیں کروں گا۔
میری آواز سن کر کمرے کے باہر کھڑی شگفتہ دبے پاؤں اندر آ گئی۔
میں نے کبھی حقیقت میں کسی عورت کو ننگا نہیں دیکھا تھا
وہ بالکل الف ننگی تھی میں مبہوت ہو کر اس کے نشیب و فراز کو دیکھنے لگی۔
وہ دبے پاؤںچلتی ہوی بیڈ کے پاس ا گئی میں چپکے سے بیڈ سے اتر آئی اور اس نے میری جگہ لے لی۔
اور کتیا بن کر اپنے ہاتھوں پاؤ ں پر وزن ڈال کر لنڈ کو اپنے منہ میں دبوچ لیا ۔
اور صرف منہ سے لنڈ کی چسائی شروع کردی
لنڈ کی پوری شافٹ منہ میں گھسا لیتی پھر اپنا منہ دھیرے سے اٹھاتی کہ لنڈ منہ سے نہ نکلے۔
پھر ہیڈ کے آخری کنارے سے دوبارا واپسی کا سفر شروع کرتی۔یہ
شگفتہ اپنے منہ کو چوت کی طرح استعمال کر رہی تھی۔
وہ ہاتھوں کا استعمال اس لئے بھی نہیں کر رہی تھی کہ وہ اس کے ہاتھوں کو کہیں پہچان نہ لے۔ کہ یہ میرے ہاتھ نہیں کیونکہ شگفتہ کے ہاتھ مجھ سے چھوٹے تھے۔
میں کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھی ہوئی ستایشی نگاہوں سے اس کی فنکاری کو سراہ رہی تھی۔۔
شانی مزے سے کراہ رہا تھا۔
"بہت اچھے سے کر رہی ہو ۔سسس نگی سسس۔
اہ،نگی یہ آج کیا کردیا مزہ آ گیا۔"
شانی بے ربط الفاظ بڑبڑا رہا تھا۔ساتھ اس کا جسم وقتا فوقتاً لزت سے جھر کھرا بھی رہا تھا۔
مجھے لگا کہیں شگفتہ صرف منہ سے ہی اسے فارغ نہ کر دے۔ لہزا میں نے اسے اشارے سے روکا۔
اور اگلے مرحلے پر جانے کا کہا۔
وہ میری بات سمجھتے ہوے لنڈ چسائی کو دھیما کرتے ہوئے رک گئی۔اور آٹھ کر اپنے پاؤں شانے کے دونوں اطراف رکھ اپنی چوت کو لنڈ کے اوپر لے آئی۔
میں نے ہاتھ بڑھا کر شانی کا لنڈ سیدھا کر کے چوت کے دہانے پر لگا۔
شگفتہ کی چوت پانی سے لبریز تھی اس لیے ہلکے سے دباؤ سے لنڈ پھسلتا ہوا چوت میں داخل ہو گیا۔
اب میرا کام ختم اور شگفتہ کا شروع ہو گیا۔
وہ بڑے ماہرانہ انداز میں اپنے پنجوں کے بل لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔لنڈ کو چوت میں دبوچے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔۔
اور اتنے محتاط انداز میں ہورہی تھی کہ اس کے جسم میں سے صرف چوت کی لنڈ کو چھو رہی تھی باقی کام کا کوئی حصہ شانی کو ٹچ نہی کیا تھا۔
کچھ ہی دیر میں پھدی کا رس لنڈ کو بھگوتے ہوے شانی کے ٹٹوں اور زیر ناف حصے کو گیلا کرنے لگا۔
لنڈ اور پھدی کے ملاپ سے پچ ،پرچ ،پچ کی آوازیں پیدا ہورہی تھیی۔
شانی بھی آہ ،ہا امم کی آوازوں میں غرا رہا تھا۔
مگر شاباش تھی شگفتہ کو وہ کمال ضبط سے
خاموشی سے لنڈ کو چود رہی تھی۔
اور اضطراب میں اپنے ہونٹ کو دانتوں میں دبائے ہوئے تھی۔
کچھ ہی دیر میں شگفتہ کی جمپنگ سپیڈ تیز تر ہوتی گئی
پھر اسکی منہ سے ہمممم کی آوازہ نکلا اور
پھدی سے پانی کے چھینٹے بکھر گئے۔
ارگیزم کیے زور سے وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور شانی کی رانوں پر بیٹھتی گئی۔
مگر شانی بھی مزے سرشاری تھا۔ وہ اس کے کولہوں کی اجنبیت بھانپ نہ پایا۔
شگفتہ نے بھی معاملے کو سنبھال لیتے ہوے پنجوں کی بجاے اب گھٹنوں کے بل لنڈ کی سواری جاری ۔
کمرے میں پچک پچک کے ساتھ اب تھپ تھپ کی آواز بھی گونجنے لگی۔ کچھ دیر یہ دلفریب گیت بجتا ریا۔
میں پیچھے بیٹھی لنڈ پھدی کی کشتی دیکھتے ہوے اپنی رانی کی رگڑائی کرتی رہی۔
شانی پورے جوش میں۔ ا گیا تھا بندھا ہونے کے باوجود نیچے سے لنڈ کو اچھالا دے رہا تھا۔
اب شانی کی باری تھی اور غراہٹ کے ساتھ اس کا جسم کانپنے لگا اور لنڈ نے گیلی چوت میں مزید کیچ�� بھر دیا۔ جو بہہ کر نکلنے لگا
شگفتہ بھی تھک کر رک گیی تھی مگر لنڈ کو چوت میں دبائے بیٹھی تھی۔
شانی مزے سے بولا۔۔
“ آج تو نگی آپ نے جان ہی نکال دی۔اتنا مذہ تو شاید پہلے نہیں ایا۔"
"اب پلیز ہاتھ پیر کھول دیں کچھ وقفہ کرتے ہیں"
اب اس ڈرامے کے ڈراپ سین کا ٹایم ا گیا تھا۔
میں بیڈ پر چڑھ گئی اور اس کے منہ میں منہ ڈال کر زبان چوسنے لگی۔
میں اس کے سینے سے چھاتیاں ملاے اسکے اوپر لیٹی ہوئی تھی۔یوں لگ رہا تھا جیسے میں ہی اس کے لنڈ پر بیٹھے بیٹھے آگے جھک کر کسنگ کر رہی ہوں
اور ایک ہاتھ سے اس کی آنکھوں کی پٹی گھولنے لگی۔
پٹی کھلتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے میرا چہرہ تھا۔ میرے چہرہ شگفتہ کے وجود کو اوجھل کیے ہوئے تھا۔
میں مسکرا کر بولی کیسا لگا۔۔
وہ بولا ،
“ بہت مزہ آیا، اج تو اپ نے جنت کی سیر کرا دی،ا آج تو انوکھا ہی سواد ایا"
میں شرارت سے چہکی،
" بچو میرے ساتھ ایسے ہی مزے کرو گے چلو میری یہ خواہش تو پوری ہو گی اب تھری سم کا کیا پلان ہے، بلا لوں شگفتہ کو؟"
شانی بولا ،
،”پہلے مجھے کھولیں تو سہی پھر بات کرتے ہیں ، پھر ویسے بھی آج آپ کی رات ہے بے شک بلا لیں ، آپ ایسے ہی مزاق کرتیں ہیں ،
اس معصوم بیچاری کو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ ہم اس کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں"
میں دیدے گھما کر بولی،
"اچھا اگر میں اس معصوم عورت کو ابھی بلا لوں۔تو مانو گے خالہ کو؟"
وہ زچ ہو کر بولا۔
"جی خالہ چلیں دیکھ لیتے ہیں آپ بھی ناں۔
میرا مزاق اڑا رہی ہیں"
"اچھا تو یہ لو آ گئی, کیا یاد کرو گے کیسی خالہ ملی ہے"
یہ کہتے ہوے میں اس کی نگاہوں کے سامنے سے ہٹ گئی۔
اور شانی کی نظریں سیدھی شگفتہ پر پڑیں۔
جسے دیکھنے ہی شانی نے اضطراب میں اٹھنے کی کوشش کی جو بندھا ہونے کے باعث ناکام گئی
اور وہ بھونچکا ٹک ٹک اپنے لنڈ پر بیٹھی شگفتہ کو دیکھنے لگا۔جس نے مصنوعی شرم سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ لئے تھے۔ ہم مہزب لوگوں کی طرح شرٹ اور ٹراؤزر پہنے ٹی وی لاونج میں بیٹھے تھے۔ شانی حیرت و استعجاب کی کیفیت سے نکل آیا تھا۔
اور موجودہ تبدیل۔ شدہ صورتحال سے لطف اندوز ہو ریا تھا
سب کے ہاتھوں میں کافی کے مگ تھے اور ہم گرم کافی کی چسکیوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہے تھے۔
شانی اور شگفتہ کے بیچ اجنبیت کا پردہ ختم ہو گیا تھا میں نے شگفتہ کی پوشیدہ شخصیت کا باقاعدہ تعارف کروا دیا تھا۔
اس کے بارے میں سب کچھ تو نہیں مگر جتنا ضروری تھا بتا دیا تھا۔
شگفتہ تو شانی کے بارے میں سب جانتی ہی تھی۔
اور اب شانی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ شگفتہ ہماری ہم راز بن چکی ہے۔
اس لیے ہم بے دھڑک ہو کر گفتگو کر رہے تھے
شگفتہ چہکی،
“ تو جناب بڑی تعریفیں سنی ہیں آپ کے گھوڑے کی پرفارمینس کی۔
پہلے راؤنڈ میں سواری کا لطف بھی اٹھا یا۔"
مگر سوال یہ ہے کہ
آپ کا گھوڑا دو دو سواروں کا بوجھ اگلے راؤنڈ کی ریس میں اٹھا پائے گا"
شانی نے بڑی متانت سے جواب دیا،
“ پہلے تو آپ نے گھوڑے کو باندھ کر سواری کی تھی،گھوڑے کو اپنی طاقت
دیکھانے کا موقع ہی کب دیا،
ابھی چلیے دکھا دیتے ہیں گھوڑے کی طاقت،میدان کو تلپٹ نہ کر دیا تو شک
گھوڑے کا قیمہ بنا ددینا
شگفتہ نے جواب دینے کو ہی تھی کہ میں نے انہیں مزید نوک جھونک سے
روکتے ہوئے کہا۔
،” آج ہمارا یہی پروگرام ہے، مگر کیوں نا اگر مزہ کرنا ہی ہے تو زرا گھوڑے
کو بھی طاقت کی دوا دے دیں۔
شانی بولا،
"میرے گھوڑے کو ایسی کسی دوا کی ضرورت نہیں ، پہلے کبھی ضرورت
پڑی ہے؟"
میں نے ترنت جواب دیا۔
“ نہیں جی، آج بہرحال اگلے راؤنڈ کے لیے ویاگرا کا ایک ڈوز دے ہی دیتے ہیں تاکہ بے فکر ہو کر کھل کر کھیلیں، ویسے بھی اس گیم کے لیئے گھوڑے کو سٹیمنا اور طاقت چاہیے"
یہ کہہ کر میں اٹھ گیی اؤر کپ بورڈ سے ایک ویاگرا ٹیبلیٹ لا کر شانی کو
لا کر دی۔
جو اس نے پانی سے نگل لی۔اور اوپر سے کافی کے سپ لینے لگ گیا۔
مجھے پتہ تھا کہ اس کا اثر کم از کم آدھ گھنٹے بعد شروع ہونا ہے۔
لہزا میں نے ٹی وی پر نیوز چینل لگا دیا۔
حالات حاضرہ اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔
میں چونک کر بولی۔
شگفتہ بی بی ، گھر کیا کہہ کر آئی ہو،
وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ میں بولی
میں انہیں بتا کر آئی ہوں کہ نگھت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور اس کی بیٹی کی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں تواس لیے آج کی رات تمہاری طرف ہی گزارنی ہے کل صبح تک کی چھٹی ہے "
ہم کافی پی کر تازہ دم ہو چکے تھے۔
اس لیئے میں نے انہیں بیڈروم میں چلنے کا کہا۔
بیڈروم میں پہنچتے ہی شگفتہ نے پہلے شرٹ پھر ٹراؤزر اتار پھینکا اور اسکا نںگا بدن لایٹ میں دمکنے لگا۔گول سخت چھاتیاں غرور سے تنی ہوئی تھیں۔یموار پیٹ کے نیچے زیر ناف ہلکے ہلکے بال تھے کسی ماڈل کی طرح سڈول رانیں اسے جاذب نظر بنا رہیں تھیں ہماری نگاہیں اپنے جسم پر مرکوز پا کروہ اپنے مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے شرمی سےبولی،
"چلو دوستو،پارٹی شروع کرتے ہیں شانی ڈییر،نکالو اپنا گھوڑا اور کرواؤ سواری"
اسکی دیکھا دیکھی شانی بھی پیدائشی لباس میں آ گیا اس کے کسرتی جسم کی تو میں پہلے سے فین تھی مگر شگفتہ اسے للچائی نگاہوں سے تک رہی تھی۔ شانی کا گھوڑا چواڑا اور موٹا تھا شگفتہ کے ننگے بدن کو دیکھتے ہی اس کے لوڑے نے انگڑائی لے لی تھی،اور تن کر کھڑا ہوگیا تھا۔لوڑے کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور معمول سے زیادہ بڑا اور سخت لگ رہاتھا،سخت تناؤ سےلوڑے کا منہ آسمان کی طرف تھا۔اور جوش سے پھنکار رہا تھا۔جیسے سانپ بین کے آگے رقص کرتا ہے۔
شگفتہ نے آگے بڑھ کر شانی سے معانقہ کیا چھوٹے قد کے باعث اسکا منہ شانی کےسینے تک ہی پہنچا۔
اس نے شانی کی چھاتی پر بوسے دینے شروع کر دیئے۔
اور پیٹ میں شانی کا لنڈ پیوست ہو گیا۔
شانی میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
میں نے بائیں آنکھ میچ کر اسے مزے کرن�� کا اشارہ کیا۔
میں نے بھی اپنی شرٹ اور ٹراؤزر اتار ڈالا اور مادر زاد ننگی ہو کر بیڈ پر ٹیک لگا کر ان کا نظارہ کرنے لگی۔
شانی ننگا کھڑا تھا اور شگفتہ اسکے سینے پر بوسے کرتی ہوئی نیچے جا رہی تھی زبان اور ہونٹوں سے سے چومتے ہوے سینے سے پیٹ پر آی ۔
پھر ناف تک پہنچی ۔ناف میں زبان کی نوک گول گول گھمائی۔
پھر نیچے لنڈ کی شافٹ تک پہنچ کر فرش پر پنجوں کے بل اکڑوں بیٹھ کر لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی لمبائی اور موٹائی کا جائزہ لینے لگی۔
ساتھ ہی اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے سہلا بھی رہی تھی۔
شانی دم سادھے اسے پیار سے دیکھ رہا تھا
۔
میں غیر شعوری طور پر اپنےایک ہاتھ سے اپنی چوت کو رگڑ رہی تھی دوسرے ہاتھ سے اپنے مموں کو سہلا رہی تھی۔
کچھ دیر لنڈ کا معائنہ کرنے کے بعد شگفتہ نے منہ کھول کر زبان نکالی اور لنڈ کی شافٹ کو نیچے سے اوپر کی طرف چاٹنا شروع کر دیا۔
لنڈ کو جڑ سے چاٹتے ہوئے ٹوپے پر لائی۔
اور پھر ہونٹوں کو گول کر کے ھیڈ کے اوپررکھ کر دباؤ ڈالا۔
ہونٹ پھسلتے ہوئے پورے ہیڈ کو نگل گیے۔
اس نے ہیڈ کو ہونٹوں میں دبوچ کر پیچھے کھینچا تو "پوچ " کی آواز سے ٹوپا ہونٹوں کی گرفت سے آزاد ہو گیا
شانی کی ایک زوردار آہ نکلی۔
شگفتہ نے پھر لنڈ کے ٹوپے کے ساتھ کئی بار اسی طرح ہونٹوں سے بوسہ کیا۔
اور ہر بار شانی کی آہ نکلی۔
پھر ایک بار اس لنڈ کو ہونٹوں میں لیا تو شانی نے اس کے سر کو پکڑ کر پورا
لنڈ اس کے منہ میں حلق تک اتار دیا۔
شگفتہ کی "غوں غوں غوں غاں" کی آوازیں نکلنے لگیں شاید اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی مگر شانی بے نیاز اپنے لنڈ کو اس کے حلق میں ڈالے کھڑا تھا۔
۔شانی فل جوش میں اور بڑبڑا ریاتھا۔
لے چوس اسے رنڈی، لے مذہ میرے گھوڑے کا"
شگفتہ اپنے ہاتھوں سے اسکی رانوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کی حالت کو بھانپتے ہوئے اس نے
تھوڑی دیر میں اس کے سر کو نرمی سے پیچھے کیا تو شگفتہ کی سانسیں بحال ہوئیں مگر لنڈ ابھی بھی اسکے منہ میں تھا اور سر شانی کے مظبوط ہاتھوں کی گرفت میں۔
منہ کو چوت سمجھتے ہوئے اس نے اپنے لںڈ سے منہ کی چودائی شروع کردی۔
اپنے لنڈ کی آدھی لمبائی سے اسکے منہ کی ٹھکائی کر دی۔
شگفتہ کی رالیں اور تھوک نے لنڈ کو پورا گیلا کر دیا تھا شگفتہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
مگر شانی بے رحمی سے شگفتہ کا سر پکڑے اسکے منہ میں سٹروک پر سٹروک لگا رہا تھا۔
مجھے لگا کہ شگفتہ کی حالت شاید اب نازک ہےاور وہ تکلیف میں مبتلا ہے مگر غور سے دیکھا تو وہ اپنے ایک ہاتھ سے اپنی چوت کو مسل رہی تھی۔
کچھ دیر منہ کی چودائی کے بعد اسے چھوڈا تو شگفتہ تھوڑا سا لڑکھڑای اور پیچھےگرتے بچی، مگر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کھڑی ہو گی۔
اس کی ٹھوڑی پر تھوک اور رالیں اکھٹی تھیں جسے اس نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔
آنکھوں میں نمی اور چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ بیڈ پر لیٹ گئی پشت کے بل لیٹتے ہوے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنی پنڈلیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیروں کو اپنے شانوں سے لگا لیا۔
اسکی چوت اور گانڈ ابھر کر پوری واضح ہو گئی
۔اور اسکی پھدی کھل کر شانی کو دعوت مباشرت دے رہی تھی۔
شگفتہ شہوت زدہ رندے گلے سے بولی
،
“ آجاؤ اور چودو اپنی رنڈی کو"
شانی اپنےسخت اور گیلےلنڈ کو ہاتھ
میں پکڑ کر سیدھا کر کے بولا ،
“ میڈم زرا صبر کریں۔ اس چوت نے تو آج رات ایک بار مذہ لے لیا ہے پہلے اپنی خالہ کا حال نہ پوچھ لوں"
اس کی اس بات سے میں دل سے نہال ہو گئی۔
مجھے لگا کہ آج نئی چوت دیکھ کر شاید مجھے اتنی لفٹ ہی نہیں کراے گا۔
مگر شہوت کی آگ میں بھی اسے میرا خیال تھا۔
وہ بیڈ پر شگفتہ کو نظر انداز کرتے ہوئے میرے پاس اگیا۔ایک تکیہ اٹھا کر میری گانڈ کے نیچے رکھا۔
جس سے میری چوت اسکے سامنےابھر کر واضح ہو گئی پھر میری ٹانگیں کا بوجھ اپنے مظبوط شانوں پر رکھ لیا۔
اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا لنڈ میری چوت کے دہانے پر رکھ کر میرے اوپر جھکتا چلتا گیا۔
جس سے لنڈ خودبخود گیلی چوت میں پھسلتا ہوا اندر تک چلا گیا۔
اس نے میرے وجود کو اپنے وجود سے ڈھانپا ہوا تھا لنڈ مکمل جڑ تک چوت میں دھنسا ہوا تھا۔
میری آنکھوں میں سارے جہاں کا پیار سمیٹ کر دیکھتے ہوئے بولا،
"لو یو ،نگی جان ".
" لو یو شان"
میری شہوت سے ماری،لرزتی آواز نکلی۔
اس نے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبوچ کر نیچے لنڈ سے پیار بھرے سٹروک لگانے شروع کر دیے۔
میں لطف اور ہوس سے آہیں بھر ے لگی
شگفتہ بھی اٹھ کر ہمارے پاس اور شانی کی پیٹھ اور اور کولہوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
جس سے شانی مزید بھڑک اٹھا اور رفتار بڑھا دی۔
میں آج شام سے ہی لنڈ کو ترسی ہوئی تھی۔پہلے بھی صرف بلو جاب ہی کیا تھا پھر شگفتہ اور شانی کی چودائی نے جسم کی آگ مزید بھڑکا دی تھی۔
اس لیے شانی کو مجھے منزل کرنے میں زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑی۔
اور جند منٹوں میں ہی میری چوت نے ہار مانتے ہوئے لنڈ پر اپنی محبت کی آبشار کر دی۔
جس سے چوت کیچڑ سےلت پت ہو گئی۔میری چوت سے بہتا لیسدار گارا گانڈ کے سوراخ پر پہنچا تو مجے ایک جھرجھری آ گئی۔میں نے جزبات میں شانی کے شانے پر دانت گڑا دے۔
اور اپنیے بازوؤں کی گرفت میں اس کی پسلیوں کو دبا دیا۔
جسے محسوس کرتے ہی وہ سانس لینے کے رکا اور مجھے پیار سے دیکھنے لگا۔
میں موقعہ غنیمت جانتے ہوئےاسکی گرفت سے نکلی۔اور بولی۔
“ یار اپنے گھوڑے کو زرا روک کراس کی مالش کرو میں ذرا باتھ روم سے ہو آؤں".
دراصل جب لنڈ کی رگڑ چوت میں پڑتی ہے تو مثانے کے کچھ حصے بھی اس سے مشتعل ہوتے ہیں اور اکثر خواتین کو تسلی بخش چودائی کے بعد پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔بعض اوقات تو چودائی کا زور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کچھ خواتین پیشاب روک نہں پاتیں۔
اور مجامعت کے دوران ہی ان کا پیشاب خطا ہو ہو جاتا ہے۔
جسے انگریز سکورٹنگ کہتے ہیں۔
میں ننگی ہی چوت پر ہاتھ رکھ کر واش روم چلی گئی۔وہاں تسلی سے اپنا مثانہ خالی کیا اور پانی سے اچھے سے چوت کی صفائی کی۔
پھر اپنے بیڈروم کا آدھا دروازے کھول کر بیٹی کا جائزہ لیا وہ بے خبر سوئی پڑی تھی۔ دراصل اتنی دیر میں کبھی بھی اپنی بیٹی سے دور نہیں رہی تھی ۔
تو مجھے فکر تھی کہیں وہ بیچ میں اٹھ کر مجھے تلاش نہ کرنے لگ جائے۔
وہاں سے میں شانی کے بیڈروم میں داخل ہو گئی تو وہاں حسب توقع لنڈ کا کنٹرول شگفتہ صاحبہ نے کے پاس تھا
شانی بیڈ سے ٹیک لگائے ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا اور میڈم شگفتہ اس کی گود میں لنڈ کو اپنی چوت میں لئے اٹھک بیٹھک فرما رہی تھیں
اسکا منہ شانی کی مخالف سمت تھا۔
وہ پیروں کے بل لنڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اسکا اگلا دھرجھکا ہوا تھا ۔
شانی اس کے کولہوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اس کی مدد کر رہا تھا۔
گرچہ اسے اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی
شگفتہ اپنے کم وزن اور چھریرے بدن کے باعث اس طرح کے کرتب کرتے تھکتی نہیں تھی۔
وہ پاؤں کے بل بیٹھی بڑے آرام سے اوپر نیچے ہو کر لنڈ کو چود رہی تھی۔
میں اس کے پاس جا کر اس کی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کرنے لگی۔زنندگی میں پہلی بار کسی عورت کی ننگی چھاتیوں کو چھوا تھا۔ بہت ہی اچھا محسوس ہوا۔
اس کی چھاتیاں کسی نوعمر لڑکی کی طرح سخت اور گول تھیں ان کو پکڑنے سے میرے بدن میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔اس کے نپل چھوٹے تھے اور گول چھاتیوں پر چھوٹے نپل بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔
دل انہیں چوسنے کو مچلا مگر میں تھوڑا جھجھک گئی۔
شگفتہ کو شاید میری دلی تمنا کا اندازہ ہو گیا تھا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔وہ اس دوران لنڈ کی سواری کیے جارہی تھی۔
سینے پر میرا منہ لگا تو میں نے بے اختیار ہو کر اس کے سینے کے بوسے لینے شروع کر دیئے۔بوسے لیتے لیتے کب نپل میرے منہ میں آیا پتہ ہی نہیں چلا،مئں نے بے تابیِ سے اسے چوسنا شروع کردیا۔
کبھی ایک نپل چوستی تو کبھی دوسرا۔
میرے اس عمل سے شگفتہ کی سانسیں مزید تیز ہو گئیں۔
لنڈ پر جمپنگ بھی بڑھ گئی۔ اور اسکے منہ سے اوہ اوہ آہ آہ کی آوازیں بھی بڑھ گییں۔
نیچے لنڈ اور چوت سے پچک پچ کی صدائیں تو پہلے سے ا رہی تھیں ۔مگر اس کی بلند اچھل کود سے دھپ دھپ کی آواز بھی ان میں شامل ہو ��ئی۔
اب مجھے نپل چوسنے میں دشواری ہورہی تھی۔
میں اٹھ کربیڈ پر کھڑی ہو گئی اور اپنی چوت کو شگفتہ کے منہ پر لگا دیا۔جس نے شوق سے اپنی زبان میری چوت پر لگا دی۔
ہر اچھال پر میری چوت کو بھی رگڑ دے رہی تھی ساتھ ساتھ لنڈ سے اپنی چوت کو بھی شانت کر رہی تھی۔
میں نے بے چین ہو کر شگفتہ کا منہ اپنی جلتی چوت میں دبا دیا۔
اس نے بھی اپنی زبان میری چوت کے لبوں کے درمیان داخل کر دی۔
میری ٹانگیں اس کے چوت چاٹنے سے لڑکھرانے لگیں۔تومیں نے بڑھ کر بیڈکے بلند سرھانے کا سہارا لیا۔
اور اپنی ٹانگیں مزید پھیلا دیں ۔ تاکہ شگفتہ چوت کو آچھے سے چاٹ سکے۔
شگفتہ کی حالت سے لگتا تھا کہ اب انزال قریب تھا اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔
اور اسے سے اٹھا بیٹھا بھی نہیں جا ریا تھا مگر شانی نے اپنے ہاتھوں پر اس کے کولہے اٹھاے ہوے تھےاور چوت کو لنڈ سے مسلسل چوٹیں لگا رہا تھا۔
پھر حسب توقع شگفتہ ایک زوردار جھٹکے سے نیچے بیٹھی اور اسکا جسم کپکپانے لگا۔
وہ بھی ہار مان گئی تھی۔شانی نے اسے کس کر اپنے ساتھ لگا لیا۔
اور شگفتہ کانپتے کانپتے شانت ہو گیی۔
شگفتہ تھکے تھکے انداز میں اٹھی اور واش روم کو روانہ ہو گئی۔
شانی ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا۔ اس کا ہتھیار ابھی بھی تیار تھا۔
اس کا لؤڑا شگفتہ کے لیس دار مادے سے لتھڑا ہوا تھا۔نیچے بیڈ شیٹ بھی گندی ہو چکی تھی۔
جو مجھے تھوڑا سا عجیب لگا،دراصل انسان اپنی گندگی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے دوسرے کی گندگی سے تھوڑی کراہت کرتا ہے۔
میں اس کے ساتھ جڑکر بیٹھ گئی اور اس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے لگی۔
اس نے مجھے اپنے پاس پا کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملا دیا اور میرے ہونٹوں کی حلاوت کو اپنے ہونٹوں میں ملانے لگا۔
ہم نے کچھ دیر کسنگ کی ۔اتنی دیر میں شگفتہ میڈم بھی آ گئیں۔
اس کے آنے پر شانی واش روم میں چلا گیا۔شاید اسے محسوس ہو گیا تھا کہ میں نے اس کے گندے ہتھیار کو عجیب نظروں سے دیکھا تھا
آتے ہی وہ بیڈ پر گر پڑی۔اور بولی,
“ یار اتنا سکون بڑے عرصے بعد ملا ہے۔ میرا انگ انگ شانت ہو گیا یے۔
اتنا مزہ دو دو مردوں کے ساتھ تھری سم کا بھی نہیں ایا۔
نگھت جانی ،شانی کو اور اپنے آپ کو میرے ساتھ شیئر کرنے کا شکریہ.
اگر موقع ملا تو تمہارے اس مہربانی کا بدلہ چکاوں گی"
مجھے اس کی بات پر ہنسی آ گئی۔
“شکریے کی کا بات ہے بھلا،سیکس تو نقد سودا ہوتا ہے یہ مزے کا بدلہ مزہ ہے۔تمہارا بھی شکریہ کی تم نے یہ آفت بدن ہمارے ساتھ بانٹا۔"
اس جنسی دھما چوکڑی میں کچھ تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی تھی میں فریج سے کچھ کھجوریں اور سیب نکال لای ۔اور شگفتہ کو بھی دیں اور خود بھی کھائیں۔ جن سے ہماری توانائی بحال ہو گئی۔اتنی دیر میں شانی بھی اپنا سانپ لہراتا ان موجود ہوا۔اور کھجوروں اور سیب سے اپنی ہلکی پھلکی بھوک مٹای۔
شانی تازہ دم ہو کر بولا۔
“تو جناب اب کس کی باری ہے یا دونوں پریاں اکھٹی سواری کرنا چاہیں گی"
"دونوں"
ہم اکھٹی بولیں۔اور اس ایک قہقہ لگایا۔
وقفے کی وجہ سے کمرے میں موجود واحد مرد کا اوزار ڈھیلا پڑ گیا تھا۔
اور شگفتہ ڈھیلے اوزاروں کو ٹھیک کرنے کی ماہر تھی۔وہ آگے بڑھی اور دونوں ہاتھوں کو جوڑ کرگول کر کے لنڈ کو مٹھیانے لگی۔
تھوڑی دیر میں ہی لنڈ اپنے جوبن پر آ گیا۔
شانی نے ہمیں بیڈ کے کنارے پر ڈوگی سٹائل میں کر دیا ہمارے سر بیڈ پر لگا دئیے۔ ہماری گانڈیں بلند اور سر نیچے تھے۔
شگفتہ کا قد چھوٹا ہونے کے باعث اسکی گانڈ میرے برابر نہیں تھی جس کو میرے برابر کرنے کے لئے اسکے گھٹنوں کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا۔
جبکہ شانی زمیں پر بیڈ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور گانڈوں کے سامنے پوزیشن لے لی۔
جب دشمن کے مورچے تیار ہو گیے تو فوجی نے اپنے میزائل کا رخ پہلے میری چھاؤنی پر داغا۔ جو ساری رکاوٹیں توڑتا ہوا ہیڈکوارٹر سے جا ٹکرایا۔
اس کے بعد شانی نے دھواں دار بمباری شروع کر دی۔
کچھ دیر بعد جب اسے ساتھ والے دشمن کی چھاؤنی میں ہلچل دک تو اپنے میزائل کو میری چھاؤنی سے نکال کر بے دھڑک شگفتہ کی چھاؤنی میں ڈال کر تباہی مچانے شروع کر دی دی۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے ہپس کو پکڑ رکھا تھا اور پوری طاقت سے لمبے لمبے سٹروک لگا رہا تھا پورے لنڈ کو مکمّل چوت کے دہانے تک کھنچتا اور وہیں سے زوردار دھکا ما رتا اور لنڈ دھومیں مچاتا چوت کے لبوں کو کچلتا ہؤا اندر آخری حصے تک پہنچ جاتا۔
کچھ ہی دیر میں شگفث کی آہ و بکا میں اضافہ ہو گیا۔اوہ آہ کی آوازوں میں ایک نیا لفظ " ہاے میں مر گئی" بھی پکارنے لگی۔
شگفتہ کی چوت میں زیادہ گیلا پن محسوس کر کے وہ پھر میری طرف آ گیا۔اپنے لنڈ کو بیڈ کی چادر سے خشک کر کے میری چوت میں گھسیڑ دیا۔ اور سٹروک لگانے شروع کردئیے۔
جب لنڈ کی بے تکان ٹھکائی سے میری چوت سے بھی پانی کی آبشار نکل گئی۔
تو وہ پھر سے شگفتہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ چوت کو کپڑے سے خشک کرکے لنڈ اندر داخل کر دیا۔
اور تیز گام چلا دی۔۔شگفتہ کا اگلا سٹیشن آنے کا پتہ اسکی امی جی امی جی کی لمبی آواز نے دیا ۔
اسے اسٹیشن پر چھوڈ کر اپنی گاڈی پھر میری پٹری پر چڑھا دی۔میں نے بھی چند منٹ کی چدائی کے بعد انجن کو چوت کے پانی سے لبریز کر دیا۔
اس طرح وہ بار بار دونوں محازوں پر لڑتا رہا۔ اور دشمن کی چھاؤنیوں کو تہہ و بالا کرتا رہا۔
چند منٹوں میں ہی ہم دونوں انزال ہو گئی تھیں۔
شگفتہ تو ڈوگی پوزیشن سے لڑھک کر ایک سائیڈ پر جاگری تھی۔
مگر میرا یار ابھی تک شادمان نہیں ہؤا تھا اور اس کا آخر تک ساتھ دینا میرے ذمے تھا۔
شانی اب بیڈ پر چڑھا میری ڈوگی سٹائل پوزیشن میں ابھری ہوئی ہپس کو پکڑے میری چدائی کیے جارہا تھا۔
میں پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہو چکی تھی۔
مرد اور عورت کے انزال کے اوقات ایک دوسرے کے الٹ ہوتے ہیں۔
مرد پہلے راؤنڈ میں جلد فارغ ہوتا ہے
دوسرے میں زیادہ وقت لگاتا ہے اور تیسرے میں تو اسکی مرضی ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے انزال ہو۔مگر شرط اچھے تناؤ کی ہے۔
جبکہ عورت پہلے راؤنڈ میں دیر سے فارغ ہوتی ہے دوسرے میں جلد اور تیسرے میں مسلسل فارغ ہونے کے علاؤہ اس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔جسے مٹی پل ارگیزم بھی کہتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی اس وقت یہی معاملہ چل رہا تھا۔شانی ویاگرا کے زیر اثر سخت تناؤ میں مبتلا تھا۔
پھر بار بار کے وقفوں سے اس کے جسم نے منی کو روکا ہؤا تھا۔
اور وہ اس تناؤ کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معصوم خالہ کی تنگ چوت کی دھجیاں بکھیر رہا تھا۔
میرے جسم میں ارگیزم کے اوپر تلے پھٹاکے پھوٹ رہے تھے۔
میں مدہوشی میں کسی اورہی دنیا میں تھی۔
شانی میری چوت میں موجود کیچڑ کو نظر انداز کئے ہوے اپنے سٹروک لگائے جارہے تھا۔
کمرے کا ماحول نہایت شہوت ناک تھا
ایک طرف ننگی شگفتہ اپنی جوانی بکھیرے پڑی تھی۔
شانی میرے اوپر کسی سانڈ کی طرح چڑھا میری بے حد گیلی چوت میں اپنا موٹا ڈنڈا ڈالے چودائی کر رہا تھا۔
چوت اور لنڈ پچ پچ کر رہے تھے۔
اسکا جسم میرے جسم سے تھپ ٹھپ ٹکرا رہا تھا۔
میرے منہ سے بے ربط الفاظ " آوے ،ہاے ہمم،اہ شان آہ " نکل رہے تھے
جبکہ شانی "آہ، ہاں ،نگی،رنڈی،جانی"
اور پتہ نہیں کیا کچھ بول ریا تھا
میری بس ہو چکی تھی مگر شگفتہ کی طرح میدان نہیں چھوڈنا چاہتی تھی۔
لہزا اسی انداز میں اپنے یار کو اپنی من مرضی کرنے دے رہی تھی۔
لگاتا ر چودائی سے شانی کے لنڈ پر بھی مسلسل رگڑ لگی۔اور وہ ایک زوردار جھٹکا مار کر غراتا ہوا مجھ پر ڈھے گیا۔
اس کے لنڈ نے پچکاریاں میری چوت کی گہرائیوں میں چھوڈنا شروع کردی۔
ان پچکاریوں کے طاقتور جھٹکوں سے میں ایک بار پھر مزے سے کانپ اٹھی۔
کمرے میں ہماری تیز سانسوں کے علاؤہ کوئی آواز نہیں تھی۔طوفان گزر چکا تھا۔
ہم پتہ نہیں کتنی دیر ایسے ہی پڑے رہے۔
پھر میں ہمت جمع کر کے اٹھی اور واش روم کو چل دی۔
مجھے غسل کی سخت ضرورت محسوس ہورہی تھی۔
غسل کر کے دوسرے کپڑے پہنے اور بیڈروم میں آ گیی۔
وہ دونوں ابھی تک ایسے ہی بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔
میں زور سی کھنکاری،
دونوں ہی چونک کر میری طرف دیکھنے لگے۔
میں ان کی طرف دیکھ مسکرا کر بولی
۔
“ اچھا دوستو، میں تو سونے جارہی ہوں ۔شب بخیر۔اور شگفتہ آپ بھی شانی کے بیڈ پر ہی سوجاؤ۔اب صبح ملاقات ہو گی۔”
یہ کہہ کر میں مڑ کر جانے لگی تو مجے شگفتہ کی آواز آئی۔
“ نگھت ہم دونوں ایک ہی بیڈ پر ہیں اور اگر تمہارے بغیر کوئی دل لگی کر لیں ۔ تو تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا"
میں نے سر گھما کر ان ننگ دھڑنگ جسموں کو دیکھا۔
" آج کی رات میری طرف سے کھلی اجازت ہے۔ جو مرضی کرو جو مرضی کھاؤ۔ فریج اور کچن میں سب کچھ۔ موجود ہے"
یہ کہہ کر میں اپنے بیڈروم میں آ گیی اؤر بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
ختم شدہ
1 note
·
View note