Tumgik
#انصاف شعر
faheemkhan882 · 8 days
Text
Tumblr media
6 notes · View notes
hads1992 · 1 year
Text
Tumblr media
3 notes · View notes
katoisha11 · 8 months
Text
والعذر بعض الأحيان مايلقى القبول
‏في وسع صدرٍ تحمل زعل لين امتلا
‏مشكلة غلطتك ماتقبل انصاف الحلول
‏والمصيبه لك معزه وتقدير وغلا
‏قلت سامحني وأنا الصدق مدري شقول
‏خايف أسامحك مره .. وتاخذها حلا .
#شعر
19 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 6 months
Text
ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
2 notes · View notes
notdoni · 4 months
Text
نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
نت دونی , نت کیبورد , نت متوسط کیبورد , نت کیبورد آصف آریا , notdoni , نت های کیبورد آصف آریا , نت های کیبورد , کیبورد , آصف آریا , نت آصف آریا , نت های آصف آریا , نت های ترنم عزتی , نت های متوسط کیبورد , نت کیبورد متوسط
پیش نمایش نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
Tumblr media
نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
دانلود نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
خرید نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
جهت خرید نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد روی لینک زیر کلیک کنید
نت کیبورد آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
نت کیبورد نیمه من حامد همایون
آهنگساز : حامد همایون
تنظیم نت کیبورد : ترنم عزتی
نکته : جهت سادگی هرچه بیشتر در اجرا متن آهنگ زیر نت های کیبورد نوشته شده است نسخه های دیگر نت نیمه من حامد همایون برای ساز های دیگر را می توانید از طریق لینک های زیر دریافت کنید
_______________
نت گیتار نیمه من حامد همایون
نت پیانو نیمه من حامد همایون
نت ویولن نیمه من حامد همایون
نت سنتور نیمه من حامد همایون
نت کیبورد نیمه من حامد همایون
متن آهنگ نیمه من از حامد همایون
همیشه یادم هست لبخندت چه کرده با قلبم میباری به جان من نم نم میخواهی مرا ولی کم کم ببر مرا گاهی آنجایی که دلبری کردی عشقت را به قلبم آوردی دل دارد هوای شبگردی یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب خوش به دلم گر تو عذابم کنی شعر بخوان شعر که خوابم کنی وای به روزی که دهی دل به من از می احساس خرابم کنی اینکه تو نیمه ی منی لاف نیست رشته نکن پنبه که انصاف نیست هردو شبیهیم مگر موی تو مثل دل ساده ی من صاف نیست یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب
کلمات کلیدی : نت کیبورد نیمه من حامد همایون, نت آهنگ نیمه من حامد همایون برای کیبورد, خرید نت نیمه من حامد همایون با کیبورد, نت موسیقی آهنگ نیمه من از حامد همایون , نت آهنگ های حامد همایون , سایت خرید نت های کیبورد ,
کلمات کلیدی : نت دونی , نت کیبورد , نت متوسط کیبورد , نت کیبورد آصف آریا , notdoni , نت های کیبورد آصف آریا , نت های کیبورد , کیبورد , آصف آریا , نت آصف آریا , نت های آصف آریا , نت های ترنم عزتی , نت های متوسط کیبورد , نت کیبورد متوسط
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
تحریک انصاف کا مستقبل؟
Tumblr media
تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔ اس پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا ہے تو ایسے برسا ہے جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بن سکتی تھی مگر افسوس اسے درویش کا تصرف بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مقبول قومی سیاسی جماعت جس کے ساتھ بہت سارے نوجوانوں کا رومان لپٹا ہے ، غیر ضروری مہم جوئی کی وجہ سے برف کی صورت دھوپ میں رکھی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی یہ کشتہِ مرجان اپنی ترکیب میں ہے کیا چیز؟ یہ ایک سیاسی جماعت ہے، کوئی قافلہ انقلاب ہے، عشاق کا ’لوّرز کلب‘ ہے ، کوئی شعوری تحریک ہے، ایک سماجی کلٹ ہے، سیاسی فرقہ ہے، کوئی نادیدہ اور پراسرار سی قوت ہے، کسی کی پراکسی ہے ، صرف اقوال زریں کا ایک مجموعہ ہے یا محض ایک جنون ہے جو گاہے فاشزم کی دہلیز پر دستک دے آتا ہے؟ میر نے کہا تھا: زمین و آسماں زیر و زبر ہے نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کہاں وہ وقت کہ دوست ایک نازو ادا سے کہتے تھے آنے والا دس سال کے لیے آیا ہے، زاد راہ اس کے ساتھ ہے اور کہاں یہ وقت کہ چار سالوں میں ہی وقت قیامت کی چال چل گیا اور عشاق بیٹھے سوچ رہے ہیں، یہ رخِ یار سچ میں لعلِ احمر تھا یا پانیوں پر کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ کیا سے کیا ہو گیا دیکھتے دیکھتے۔ اندوہ عشق میں تحریک انصاف نے جتنے غمزے عشوے دکھائے تھے، 9 مئی کی وحشتوں میں جل کر راکھ ہو گئے۔ یہ سیاست نہ تھی یہ وحشت تھی ۔ یہ احتجاج نہ تھا یہ جنون کی آتش تھی۔ اس کی چنگاریوں سے اب اس کا اپنا دامن سلگ رہا ہے۔ ہر وہ فرد جرم جو اس نے دوسروں پر عائد کی تھی، آج اس کے اپنے دامنِ سیماب سے لپٹی پڑی ہے۔ باز گشت کی طرح ایک ایک الزام پلٹ کر آرہا ہے۔ ہر دعویٰ خزاں کے پتے کی طرح پامال ہوا۔ تبدیلی کیا کھلی، امید کے سارے پیرہن ہی چاک ہو گئے۔ کہاں وہ دن کہ تبدیلی صبح روشن کی طرح دہکتی تھی، کہاں یہ شام کہ اب وہ اجڑے خیموں کی راکھ ہوئی پڑی ہے۔ کہاں وہ التفاتِ ناز کہ روز کوئی وکٹ گرا کرتی تھی اور تحریک انصاف کے پرچم کی خلعت فاخرہ نئے مہمانوں کے گلے میں ڈالی جاتی اور کہاں یہ آشوبِ غم کہ ساتھی ایک ایک کر کے خیمہ گاہ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ سوچتا ہوں، کیا یہی وہ دن ہیں جو اللہ اپنے بندوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے؟
Tumblr media
یہ تبدیلی تھی یا دائروں کا سفر۔ اس کے آخر پر کوئی منزل نہیں۔ ان مسافتوں کا حاصل صرف دھول ہے۔ دھواں ہے۔ رائیگانی ہے۔ عمر جہاں سے چلے تھے ہیں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی چار قدم پیچھے، کھائی کے کنارے۔ عمران کی سیاست کا پہلا دور حسرتوں کا دیوان تھا۔ سرگودھا میں، میری فیملی نے کالج بنایا تو افتتاح کے لیے ہم نے عمران خان کو بلایا۔ ہم اسلام آباد سے سر گودھا کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک کے کنارے پورے چار لوگوں نے گاڑی روکی اورعمران کوپھولوں کا ہار پہنایا۔ میں نے پوچھا یہ کون تھے۔ جواب ملا یہ سرگودھا پی ٹی آئی کے صدر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عمران غزل سنا کر بھی اکیلے ہی کھڑے ہوتے تھے۔ خود ہی مکرر مکرر کا مطالبہ کرتے اور اپنے مطلع اور مقطع پر خود ہی واہ واہ کرتے رہتے۔ قریب تھا کہ کسی ادھورے شعر کی طرح ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا لیکن پھر وقت کا موسم بدلا اور جاڑے گلزار ہو گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی، روایت یہ ہے کہ سال کے ’بارہ موسموں‘ نے ان کا ہاتھ تھام لیا ۔ دسمبر گرم ہو گیا، جون میں برفیں پڑنے لگیں۔ ایک پیج پر ایسی قوس قزح اتری، مدعی، آرزو اور مدعا، سب عشق ہو گئے۔
سونامی جیسی تندی سے عمران سیاست کے دوسرے دور میں داخل ہوئے، یہ دور اسی نسبت عشقی کا دیوان تھا۔ وہ ایسے آئے جیسے ’چڑھی تیوری، چمن میں میر آیا۔‘ بے خودی، بے ادائی، بے نیازی، سارے نوشتے اس دیوان کا حصہ تھے۔ تحریک انصاف جھوم کے اٹھی اور ایک سونامی بن گئی۔ ڈی چوک سے لے کر کوچہِ اقتدار تک ایک بزمِ اطفال سی سج گئی۔ نہ کوئی غم نہ پریشانی، نہ ذمہ داری کا کوئی بوجھ نہ درد مندی اور معاملہ فہمی۔ انتہائی اہم قانون سازی کے مراحل بھی درپیش ہوئے تو کسی نے حزب اختلاف سے بات کرنا گوارا نہ کیا۔ لیکن پھر بھی جنگل کے بھید کی طرح ’قانون سازیاں‘ ہوتی رہیں اور حزب اختلاف تعاون فرماتی رہی۔ گالیاں کھا کر بھی بد مزہ نہ ہوئی۔ پوسٹ ٹروتھ کا ایک تاج محل تعمیر کیا گیا اور اس پر ’نیا پاکستان‘ لکھ دیا گیا۔ سارے نقوش کہن مٹا ہی دیے۔ اس عشق کی وارفتگی حیرت کدہ سے کم نہ تھی۔ آثار جلالی و جمالی یوں باہم ہوئے، آنکھیں خیرہ ہونے لگیں ۔’یا قربان‘ کا یہ سونامی تھما تو معلوم ہوا شہر مہرباں کی فصیل ساتھ بہا لے گیا۔ 
عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے الگ کر دیے جانے کے بعد عمران کی سیاست کا تیسرا دور شروع ہوا۔ عمران یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اقتدار سے الگ ہونے سے کسی کی سیاست ختم نہیں ہو جاتی اگر اس میں سیاسی بصیرت موجود ہو۔ بصیرت کے باب میں مگر تحریک انصاف کا ہاتھ تنگ تھا۔ یکے بعد دیگرے بحران اس کے دامن سے لپٹتے چلے گئے۔ آج عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔ عجیب سا ایک طنطنہ تھا۔ خمار تھا۔ جذب و مستی کا عالم تھا۔ دس دس سال حکومتی بندوبست کے رجز پڑھے جاتے تھے۔ اور آج سب بدل چکا۔ جہاں چراغاں تھا وہاں دھول ہے۔ غرور عشق اب نڈھال پڑا ہے۔ نشاط کی جگہ حزن نے لے لی ہے۔ طنطنے کی جگہ اب شکوہ ہے۔ منڈیریں خالی ہیں پرندے اڑ رہے ہیں۔
بے بصیرتی کی وحشت سے پھوٹتی حسرتیں ہجوم کرتی ہیں اور دائروں کے سفر سے دل بوجھل ہوتا ہے تو افغان شاعر امیر جان صبوری یاد آتے ہیں:
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی جام خالی، سفرہ خالی، ساغرو پیمانہ خالی
کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایاں،عندلیباں باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
تحریک انصاف کا باغ بھی سونا ہو رہا ہے، رستے کوچے سب خالی ہو رہے ہیں۔باغچہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھی کوچ کرتے جا رہے ہیں ۔ بلبلیں اڑتی جا رہی ہیں۔دوست دوستوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ موسیقاروں نے ساز رکھ دیے ہیں۔ طبیب بیمار کو دیکھنے سے ڈرتا ہے، مسافر رستوں سے خوف زدہ ہیں۔ سر بکھیرنے والے تار بکھر گئے۔ آشنا نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ ویرانے کے پتھروں کی ریت سر میں آ رکی ہے۔ دریا سست چشمے خشک اور سونامی نڈھال ہو چکا ۔ عشق کی آگ نے اپنے ہی وجود جلا ڈالے۔ مہر جاناں کے استقبال میں اب کون پھول برسائے گا؟
 آصف محمود  
 بشکریہ روزنامہ ٩٢ نیوز 
0 notes
nima-shahsavarri · 1 year
Text
youtube
"ایوان"
شعر و کلام نیما شهسواری
شده ایران همه زندان و همه حصر در آن
به اوین خوانده که دانشگه ما اینجا خوان
همه زندانی این قوم اسیر و تسلیم
همه در بند خداوند اسارت ترسیم
بن اینان به نها بود به قعر زندان
همه را حصر برد قلب کلام قرآن
چه بگفتا به درونش همگی را تسلیم
عبد و بندار بسازد همگی در تعظیم
بزن و خار بکن خویشتنت را اذعان
تو شدی بنده و این عبد و عبید یزدان
و ببین حال که سازد همه ایران زندان
همگی را به گروگان بگرفتد ایران
این که نامش شده زندار اوین را گویم
همه نامی به دلش حصر شده در زندان
نفری معترض نان بود و در حصر است
هر کسی کارگر این خاک بود در بست است
دست دزدی که شده خواهش از نان گفت است
او برید و نفر انبار بدزدد خفت است
او به تاج شه و شاهی و ببین در قصر است
هر کسی خوانده ز من برد همو را کشت است
نفری را که به ایوان شده او در اذعان
نفران جاه مرا برده و حالا ایشان
شده شاهنشه و بیدار نفس این دزدان
دل او را به میان جرح کند او بریان
چه بگوید نفری کز دل دانش او خواند
قلب زندان شده جا منزل او در میدان
اگر از زیستن و این نفس از جان طبیعت او خواند
قلب زندان به دلش جاه بکارد اینسان
اگر از حق زنان خوانده و از این انصاف
به دل قعر جهنم جای او منزل داد
اگر از خویشتن آری به برون شعری خواند
دل زندان شده جایش و بدور این آزاد
اگر از حق نفس طفل نفر شعری خواند
به دل ده صد و این سال بخوان در زندان
اگر از حق رهایی و غزل با ما خواند
شب بیزار بخواند همه جانان پنهان
شده ایران همه زندان و همه حصر در آن
به اوین خوانده که دانشگه ما اینجا خوان
این سرا را که به ما فدیه ز خون می‌دادند
جایگه شد همه در حصر شدند و زندان
کشوری گشت به دل بودن ما این اذعان
این اوین گشته یکی شهر رهایی ایران
همه کس قلب همان زشت سیه چال خون
به دل حصر و همه قاتل و دزدان شد خان
بن این زشت اسارت همه باید کندن
به دلش کارد از این راه رهایی ایران
که تو فردای ببینی اگر از ما کس رفت
دل زندان به رهایی بنوازد ایمان
همه ایمان من و ما و رها در اذعان
همه آزاد در این قافله‌ی با ایمان
#شعر #ایوان
#شعر_آزاد
#شاعر #نیماشهسواری
برای دریافت آثار نیما شهسواری اعم از کتاب و شعر به وب‌سایت جهان آرمانی مراجعه کنید
https://idealistic-world.com
صفحات رسمی نیما شهسواری در شبکه‌های اجتماعی
https://zil.ink/nima_shahsavari
پادکست جهان آرمانی در فضای مجازی
https://zil.ink/Nimashahsavari
پرتال دسترسی به آثار
https://zil.ink/nima.shahsavari
صفحه رسمی اینستاگرام نیما شهسواری
@nima_shahsavarri
#هنر
#هنرمند
#شعر_آزاد
#شعر_کوتاه
#شعر_فارسی
#آزادی
#برابری
#شعر_ایران
#شعر_سیاسی
#شعر_ایرانی
#شعر_فارسی
#ایران
#ایران_آزاد
#ایران_رها
#آزادی_ایران
#نه_به_جمهوری_اسلامی
#نه_به_حکومت_دینی
#کودکان
#اعتراضات_سراسری
#مهسا_امینی
0 notes
arashfarhadi-9 · 2 years
Photo
Tumblr media
ولی امر ِ ویرانی! سرودهٔ آرش فرهادی شنيدم ز فردوسی پاك‌زاد / پس از قرن بيستم شهی بدنهاد بيايد دهد مُلكِ ايران به باد / برآرد جهان از ستم‌هاش داد نه شرمش‌ بوَد طفل و ناموس را / نه يارانِ پيشينِ پابوس را چو منبر كند تخت كاووس را / گرامی كند پست و سالوس را دروغ از دهانش چكد مثل خون / بنای تمدن‌كند سرنگون چرا كَس نيارست‌گفتن نه چون / ز ترسِ چماقی كه آرَد برون كُشد با شكنجه، زن و طفل و پير / تجاوزكند بر تنِ بچّهْ‌ ‌شير به دستان خالی زنَد تيغ و تير / دَدان را بنامد امير و دلير بپرسيدم از ريشۀ كينِ او / كه برخيزد ازكفرِ ديرينِ او؟ بِدين‌سان‌كه می بينم آيينِ او / مگر خون حلال است در دينِ او؟ چنين‌گفت دينش مسلمانی است / به پيشانيش مُهرِ ربّانی است به ظاهر همي يوسفِ ثانی است / به باطن ولی امرِ ويرانی است به شعر و احاديث لب وا كُنَد / ز قرآنِ احمد سخن‌ها كند جهان را بخواهد كه رسوا كند / ولي باطنِ خويش افشا كند به پولی خَرَد مردمِ ساده را / به حرفی پُر از خون‌كند جاده را به خاك افكنَد خونِ آزاده را / نهد روی خون، مُهر و سجّاده را بگفتم مگر دينِ اسلام چيست؟ / شنيدم‌كه جز مِهر و انصاف نيست! چوكامل‌ترين‌كيش، آدم‌كشی است / به دين‌های عالَم ببايد گريست چنين داد پاسخ: ستم در جهان / بزايد ز نو با ستم‌پيشه‌گان ستم بَرجَهد از دلِ مردمان / چه‌كافر چه مشرك چه دين‌ْباوران به نام ديانت بسی جنگ‌ها / به نام عدالت چه نيرنگ‌ها چو رنگي، نبيند دگر رنگ‌ها / شود پاك از خیزش سنگ‌ها بيا تا ببينيم فرجامِ‌كار / چه‌كس فاتح آيد از اين‌كارزار؟ كدامين ولايت شود بركنار؟ / كدامين حقيقت شود برقرار؟ به الماس يا همدگر را خَرَند / به چنگال يا همدگر را دَرند و چون جنگ را ارمغان آورند / به يك‌كشورِ خارجي بپّرند! آرش فرهادی جولای 2009 #انقلاب_ایرانی #زن_زندگی_آزادی #ژینا_مهسا_امینی #ایران_آزاد #Mahsa_Amini #HelpIran #OpIran https://www.instagram.com/p/CjUlNlFu4gc/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Video
تابلو نقاش را ثروتمند کرد  شعر شاعر به چند زبان ترجمه شد  کارگردان جایزه ها را درو کرد  و هنوز سر همان چهار راه واکس می زند کودکی که بهترین سوژه شد .. ! #شعر#شرافت#غیرت#بزرگی#کودک#کارکودک#کودک_کار#چهارراه#تکدی#معصوم#ساده#مسئول#داغ#درد#انصاف (at Fardis, Markazī, Iran) https://www.instagram.com/p/CTUmh-sIemS/?utm_medium=tumblr
0 notes
bazmeurdu · 2 years
Text
استاد مرحوم, ابنِ انشا کی یادگار تحریر
استاد مرحوم نے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے طبیعت بھی موزوں پائی تھی اور ہر طرح کا شعر کہنے پر قادر تھے۔ اردو، فارسی میں ان کے کلام کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے اگلی نسلوں کے کام آئے گا۔ اس علم و فضل کے باوجود انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اسکول میگزین میں جس کے یہ نگران تھے، ایڈیٹر نے استاد مرحوم کے متعلق یہ لکھا کہ وہ سعدی کے ہم پلہ ہیں، انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ سکول میگزین کا یہ پرچہ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور ایک ایک کو دکھاتے کہ دیکھو لوگوں کی میرے متعلق یہ رائے ہے حالانکہ من آنم کہ من دانم۔ ایڈیٹر کو بھی بلا کر سمجھایا کہ عزیزی یہ زمانہ اور طرح کا ہے۔ ایسی باتیں نہیں لکھا کرتے۔ لوگ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ حسد کے مارے جانے کیا کیا کہتے پھریں گے۔ اہل علم خصوصاً شعرا ء کے متعلق اکثر یہ سنا ہے کہ ہم عصروں اور پیشروؤں کے کمال کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں، استاد مرحوم میں یہ بات نہ تھی، بہت فراخ دل تھے۔ 
فرماتے، غالب اپنے زمانے کے لحاظ سے اچھا لکھتے تھے۔ میر کے بعض اشعار کی بھی تعریف کرتے۔ امیر خسرو کی ایک غزل استاد مرحوم کی زمین میں ہے۔ فرماتے، انصاف یہ ہے کہ پہلی نظر میں فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کون سی (غزل) بہتر ہے۔ پھر بتاتے کہ امیر خسرو سے کہاں کہاں محاورے کی لغزش ہوئی ہے۔ اقبال ؒ کے متعلق کہتے تھے کہ سیالکوٹ میں ایسا شاعر اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ اس شہر کو ان کی ذات پر فخر کرنا چاہیے۔ ایک بار بتایا کہ اقبالؒ سے میری خط و کتابت بھی رہی ہے۔ دو تین خط علامہ مرحوم کو انہوں نے لکھے تھے کہ کسی کو ثالث بنا کر مجھ سے شاعری کا مقابلہ کر لیجئے۔ راقم نے پوچھا نہیں کہ ان کا جواب آیا کہ نہیں۔ استاد مرحوم کو عموماً مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا تھا کیوں کہ سب پر چھا جاتے تھے اور اچھے اچھے شاعروں کو خفیف ہونا پڑتا۔ خود بھی نہ جاتے تھے کہ مجھ فقیر کو ان ہنگاموں سے کیا مطلب۔ البتہ جوبلی کا مشاعرہ ہوا تو ہمارے اصرار پر اس میں شریک ہوئے اور ہر چند کہ مدعو نہ تھے منتظمین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
دیوانہ کسمنڈوی، خیال گڑگانوی اور حسرت بانس بریلوی جیسے اساتذہ سٹیج پر موجود تھے، اس کے باوجود استاد مرحوم کو سب سے پہلے پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ وہ منظر اب تک راقم کی آنکھوں میں ہے کہ استاد نہایت تمکنت سے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مائیک پر پہنچے اور ترنم سے اپنی مشہور غزل پڑھنی شروع کی ۔ ہے رشت غم اور دلِ مجبور کی گردن ہے اپنے لئے اب یہ بڑی دور کی گردن ہال میں سناٹا سا چھا گیا۔ لوگوں نے سانس روک لئے۔ استاد مرحوم نے داد کے لئے صاحب صدر کی طرف دیکھا لیکن وہ ابھی تشریف نہ لائے تھے، کرسیِٔ صدارت ابھی خالی پڑی تھی۔ دوسرا شعر اس سے بھی زور دار تھا۔ صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا اور دار پہ ہے حضرتِ منصور کی گردن دوسرا مصرع تمام نہ ہوا تھا کہ داد کا طوفان پھٹ پڑا۔ مشاعرے کی چھت اڑنا سنا ضرور تھا، دیکھنے کا اتفاق آج ہوا۔ اب تک شعراء ایک شعر میں ایک مضمون باندھتے رہے ہیں اور وہ بھی بمشکل۔ اس شعر میں استاد مرحوم نے ہر مصرع میں ایک مکمل مضمون باندھا ہے اور خوب باندھا ہے۔
لوگ سٹیج کی طرف دوڑے۔ غالباً استاد مرحوم کی پابوسی کے لئے۔ لیکن رضا کاروں نے انہیں باز رکھا۔ سٹیج پر بیٹھے استادوں نے جو یہ رنگ دیکھا تو اپنی غزلیں پھاڑ دیں اور اٹھ گئے۔ جان گئے تھے کہ اب ہمارا رنگ کیا جمے گا۔ ادھر لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ تیسرے شعر پر ہی فرمائش ہونے لگی مقطع پڑھیے مقطع پڑھیے۔۔۔۔ چوتھے شعر پر مجمع بے قابو ہو رہا تھا کہ صدرِ جلسہ کی سواری آگئی اور منتظمین نے بہت بہت شکریہ ادا کر کے استاد مرحوم کو بغلی دروازے کے باہر چھوڑ کر اجازت چاہی۔ اب ضمناً ایک لطیفہ سن لیجئے۔ دوسری صبح روزنامہ''پتنگ‘‘نے لکھا کہ جن استادوں نے غزلیں پھاڑ دی تھیں، وہ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ عجب نامعقول مشاعرے میں آ گئے ہیں۔ لوگوں کی بے محابا داد کو ہوٹنگ کا نام دیا اور استاد مرحوم کے اس مصرع کو'' صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا‘‘، لا علمی ، شرارت اور ''سرقہ‘‘ قرار دیا۔ پھر اس قسم کے فقروں کا کیا جواز ہے کہ ''استاد چراغ شعر نہیں پڑھ رہے تھے روئی دھن رہے تھے۔‘‘ صحیح محاورہ روئی دھننا نہیں روئی دھنکنا ہے۔ اس دن کے بعد سے مشاعرے والے استاد مرحوم کا ایسا ادب کرنے لگے کہ اگر استاد اپنی کریم النفسی سے مجبور ہو کر پیغام بھجوا دیتے کہ میں شریک ہونے کے لئے آ رہا ہوں تو وہ خود معذرت کرنے کے لئے دوڑے آتے کہ آپ کی صحت اور مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہمیں (ان کے نا چیز شاگردوں کو) بھی رقعہ آ جاتا کہ معمولی مشاعرہ ہے، آپ کے لائق نہیں۔ زحمت نہ فرمائیں۔
بشکریہ دنیا نیوز
4 notes · View notes
urduclassic · 3 years
Text
مجھے نوبل انعام کی خواہش نہیں
مجھے پوری امید تھی کہ اِمسال ادب کا نوبل انعام اِس فقیر کو دیا جائے گا (یہاں فقیر سے مراد فدوی اور فدوی سے مراد میں خو د ہوں ) لیکن ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی مغربی اداروں نے تعصب سے کام لیتے ہوئے کسی نا معلوم امریکی شاعرہ کو ادب کا نوبل انعام دے دیا ہے ۔ صاحب طرز ادیب اور کالم نگار مسعود اشعر صاحب (اِس پائے کے اب چند لوگ ہی ہمارے درمیان رہ گئے ہیں ) نے اپنے تازہ کالم میں اِس شاعرہ کی نظم کے ایک حصے کا ترجمہ لکھا ہے اور ساتھ ہی پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کو مشورہ دیا ہے کہ اگر نوبل انعام کمیٹی والوں کا دل جیتنا ہے تو اِس قسم کی نظمیں لکھا کرو۔ یہ نظم پڑھ کر مجھے شفیق الرحمن کے مضمون میں جدید شاعری کے نمونے کی ایک نظم یاد آگئی ، وہ بھی کچھ اسی قسم کی تھی ، ملاحظہ ہو: ’’لڑ رہی ہیں بلیاں/اف بلیاں/بل/لیاں/باغ میں اس وقت شاید لڑ رہی ہیں بلیاں/دھندلکا ہے شام کا/وقت ہے آرام کا/کام کا/انعام کا/اور لڑ رہی ہیں بلیاں/ہوں گی شاید چار یہ/یا تین ہوں/لیکن ذرا سا یہ شبہ دل میں ہے میرے بڑھ گیا کہ بلیاں یہ پانچ ہیں/اور چھ تو ہو سکتی نہیں/اور چاندنی سی رات ہے/اور چاند ہے نکلا ہوا/اور چاندنی ہے چار سو/اور چار دن کی چاندنی/اور پھر اندھیری رات ہے/کیا کہہ رہا تھا میں بھلا/افوہ! ابھی تو یاد تھا/اس حافظے کو کیا ہوا/کم بخت سے سمجھے خدا/ہاں مجھ کو یاد آ ہی گیا/کہ لڑ رہی ہیں بلیاں/باغ میں اس وقت شاید لڑرہی ہیں بلیاں۔‘‘
یہ نظم یاد کر کے دل کو کچھ تسلی ہوئی کہ اگر نوبل انعام کے متعصب ججوں نے چھہتر برس قبل اردو شاعری کے اِس شاہکار کو کسی قابل نہیں سمجھا تھا تو آج کے میرے علامتی و انقلابی کالم بھلا کس کھیت کی مولی ہیں۔ اِس کے باوجود نہ جانے کیوں ہر سال مجھے ایک موہوم سی امید ہوتی ہے کہ شاید اِس مرتبہ نوبل انعام والے تعصب کی عینک اتار کر میرے کالم پڑھیں گے مگر افسوس مغربی مفکرین کی دانائی اور انصاف پسندی کے بارے میں میرا انداز ہ غلط نکلا۔ اردو علامتی شاعری کے بانی اور ہمدم دیرینہ جناب عاشق چمٹے والا سے جب میں نے مغرب کی اِس فکری مفلسی کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے چِمٹے سے اپنی کمر پر خارش کرتے ہوئے اپنا ایک علامتی شعر پڑھ کر گویا دریا کوکوزے میں بند کر دیا کہ’’ اے غازی یہ تیرے پراسرا بندے ، جنہیں تو نے بخشا ہے نوبل انعام‘‘!
نوبل انعام کے طریقہ کار کے بارے میں قدرے سیانے دوست سے بات ہوئی تو اُس نے سنجیدگی سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ادب کا نوبل انعام دراصل سویڈش اکیڈمی دیتی ہے اور طریقہ کار اِس کا یہ ہے کہ ہر سال یہ ادارہ قریباً چھ ہزار لوگوں سے درخواست کرتا ہے کہ وہ انعام کا حقدار سمجھنے والوں کا نام تجویز کر کے اکیڈمی کو بھیجیں۔ یہ نامزدگیاں کرنے والوں میں کچھ توخود نوبل انعام یافتہ ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سویڈش اکیڈمی کے ممبران، عالمی شہرت یافتہ ادیب اور دنیا کی نامور جامعات سے وابستہ استاد اور دانشور بھی نوبل انعام کے لیے نامزدگیاں بھیجتے ہیں۔ اِس پورے عمل کے نتیجے میں سو سے اڑھائی سو نامزدگیاں موصول ہوتی ہیں اور پھر نوبل کمیٹی اِن کی چھان پھٹک کر کے کسی خوش قسمت ادیب کو نوبل انعام سے نوازتی ہے۔ اپنے عقل مند دوست کی یہ باتیں سُن کر میں بہت خوش ہوا کہ بظاہر یہ تمام مراحل بہت کٹھن لگتے ہیں مگر سو لوگوں سے مقابلہ کر کے انعام جیتنا کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے ۔ 
نظریہ احتمال (Probability Theory) کے تحت اگر میں ہر سال دس کالجوں کے پروفیسروں سے بھی اپنی نامزدگی ’فارورڈ‘ کر وا لوں تو اگلے دس پندرہ برس میں سویڈش کمیٹی مجھے یہ انعام دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ لیکن میرے دوست نے یہ کہہ کر میری امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ اول تو اپنی نامزدگی کرنے والا از خود نا اہل ہو جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ سویڈش اکیڈمی جن تعلیمی اداروں کی نامزدگیوں پر غور کرتی ہے اُن میں گورنمنٹ کالج برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن، تاندلیانوالہ بہر حال شامل نہیں۔ تفنن برطر ف، نوبل انعام پر زیادہ تنقید ادب اور امن کے شعبوں میں دئیے جانے والے تمغوں پر ہوتا ہے۔1901 میں جب نوبل انعام کا سلسلہ شروع ہوا اُس وقت ٹالسٹائی زندہ تھا، جنگ اور امن تہلکہ مچا چکا تھا، مگر کمیٹی نے اسے نوبل انعام کے قابل نہیں سمجھا۔ اسی طرح کافکا، جیمز جوائس، بورخیث، گورکی، بریخت، تھامس ہارڈی، مارک ٹوین، چیخوف بھی نوبل انعام کے حقدار نہیں سمجھے گئے جبکہ اِن کے مقابلے میں سکینڈینیویا کے کئی غیر معروف ادیبوں کو یہ ایوارڈ آسانی سے مل گیا۔
ادھر برصغیر میں یہ ایوارڈ کوئی سو سال پہلے ٹیگور کو دیا گیا تھا ، اس کے بعد علامہ اقبال، قرہ العین حیدر، بیدی، منٹو، اشفاق احمد، کرشن چندر، غلام عباس، نیر مسعود ، مشتاق یوسفی وغیرہ میں سے کسی کو اِس انعام کے قابل نہیں سمجھا گیا۔آگ کا دریا کا ترجمہ خود قرہ العین حیدر نے کیا تھا مگر سنا ہے کہ وہ ترجمہ اعلی ٰ معیار کا نہیں تھا، اسی طر ح حال ہی میں آب ِ گم کا ترجمہ بھی شائع ہوا ہے مگر بات نہیں بنی ۔ بنے بھی کیسے۔ یوسفی صاحب نے تو اپنے دیباچے کا عنوان ہی ’’پس و پیش لفظ ‘‘ رکھا ہے ، بھلا اِس کا کیا ترجمہ ہو سکتا ہے اور کیسے سویڈش اکیڈمی والوں کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ یوپی سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے کردار ’قبلہ ‘ جب اپنی اجڑی ہوئی حویلی کی تصویر دکھا کر ہر کسی کو کہتے پھرتے ہیں کہ ’’یہ چھوڑ کر آئے ہیں ‘‘ تو اس ایک فقرے میں کیا جہان آباد ہے۔ بہرکیف، مجھے خوشی ہے کہ مارک ٹوین سے لے کر ٹالسٹائی تک اور قرہ العین حیدر سے لے کر مشتاق یوسفی تک کسی کو ادب کا نوبل انعام نہیں ملا، اب میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے نوبل انعام کی کوئی خواہش نہیں۔ البتہ عاشق چمٹے والے کی طرح اگر کوئی دوست سویڈش اکیڈمی کو میری نامزدگی بھیجے گا تو ٹالسٹائی کی طرح میں کوئی اعتراض بھی نہیں کروں گا، آخر اُن غریبوں کا اچھا بھلا روز گار لگا ہے، کیوں میری وجہ سے خراب ہو!
یاسر پیر زادہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
urduinspire · 4 years
Text
یونائیٹڈ فروٹ کمپنی اور مرہٹہ مافیا--وجاہت مسعود
Tumblr media
افتخار عارف نے ہمارے عہد میں آہوئے رمیدہ کی درماندگی کو شعر کیا، آفت کی آشفتگی کو گداز دیا۔ ہمارے اندیشوں کو آہ سرد کی زبان بخشی اور لکھا… محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے۔ وقت کی گردش سے تو مفر نہیں۔ لیکن دشنہ جبر کی چبھن کا علاج تو ممکن تھا۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز تھا۔ جولائی کا پہلا ہفتہ آن پہنچا۔ دو جولائی 1972ء کو بھٹو صاحب نے شملہ معاہدے پر دستخط کر کے 93ہزار جنگی قیدی رہا کرائے تھے۔ ہمارے ہاں کسے یاد ہے کہ اس معاہدے کے لئے ابتدائی کام بھٹو صاحب نے 19اور 20دسمبر 1971ء کی درمیانی رات مشرقی پاکستان کے آخری چیف سیکریٹری مظفر حسین کی اہلیہ لیلیٰ حسین کی وساطت سے ہیتھرو ایئر پورٹ پر ہی مکمل کر لیا تھا۔ 4جولائی 1999ء کی سہ پہر نواز شریف نے کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر بل کلنٹن سے ملاقات کر کے کارگل کے برف پوش جہنم میں محصور پاکستانی بیٹوں کی واپسی کو یقینی بنایا تھا۔ جولائی کے اسی ہفتے میں 5جولائی 1977ء کی صبح بھی آئے گی، ہماری تاریخ کا ایک دائمی سیاہ نشان۔ مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر… ایک صاحب زادے نے اگلے روز ٹیلی وژن پر فرمایا کہ ہمیں جمہوریت کوromanticize کرنا بند کر دینا چاہیے۔ صاحب، حکم کی تعمیل ممکن نہیں ہے۔ عشق کی دردمندی فرد کی افتاد نہیں، نسلوں کی میراث ہے۔ اس مکتب فریب کے بہت سے گرہ کٹ ان دنوں اوندھے منہ خاک چاٹ رہے ہیں۔ بساط جہل و ریا کی تازہ کمک کا انجام بھی ہمیں معلوم ہے۔ مجرم اور مخبر سازش کا تار و پود جانتے ہیں، انصاف کی سنگی دیوار پر محررہ شہادت نہیں پڑھتے۔ ڈاکٹر صفدر محمود سے روایت ہے کہ خواجہ ناظم الدین کو غلام محمد نے برطرف کیا تو مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ نور الامیں فوراً کراچی پہنچے اور اہلکار کی چیرہ دستی کے خلاف Read the full article
1 note · View note
risingpakistan · 5 years
Text
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
کئی برس قبل عوامی شاعر حبیب جالب نے ایک نظم پڑھی تھی جس کا ایک شعر ہر دور کے حکمرانوں اور بیورو کریٹس پر پوری طرح فٹ نظر آتا ہے۔ سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں حبیب جالب نے یہ شعر یقیناً کسی ایسے دور کے حاکم کے بارے میں کہا ہو گا جس نے عوام کو بہت سبز باغ دکھائے او اس کا زور صرف تقریروں پر رہا۔ راز کو راز ہی رہنے دینا چاہئے لیکن اس شعر کو ادا کرنے کے بعد انہوں نے مشاعرے میں یہ بات کہی کہ جب بھی وہ تقریر کرتے ہیں اس کے بعد مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ آج بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ اِدھر وزیراعظم تقریر کرتے ہیں، اُدھر مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔
پی ٹی آئی نے ایسے خواب دکھائے تھے کہ قوم نے سمجھا کہ یہ حکومت آئی تو اگلے دن سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ ہر نوجوان کے پاس روزگار ہو گا، عوام کو سستا انصاف اور اسپتالوں میں علاج، ادویات مفت ملیں گی، مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی جبکہ آج ہمارا ملک مسائل کا ایک گڑھ بن جا چکا ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ڈینگی کے خلاف تقریریں کر رہی ہیں مگر ہر روز بیس پچیس افراد ڈینگی وائرس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں صرف چوبیس گھنٹے کے دوران 170 نئے مریض ڈینگی بخار میں مبتلا ہو گئے۔ 1200 مزید مقامات سے لاروا برآمد ہو چکا ہے۔ 
اس سال پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے ایک بھی عوام کی آگہی کے لئے سیمینار منعقد نہیں کرایا حالانکہ ڈاکٹر محمد اجمل خاں جب تک ادارے کے سربراہ رہے، اکثر شہروں میں عوام کو ڈینگی سے بچانے کے لئے بھرپور سیمینار منعقد کراتے جس کی وجہ سے ڈینگی کا ایک بھی کیس نہیں ہوا۔ سر گنگا رام اسپتال میں بڑی تعداد میں ڈینگی لاروا برآمد ہوا، پتا نہیں اور کتنے سرکاری اسپتالوں سے ڈینگی لاروا برآمد ہونا ہے۔ حال ہی میں کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق گٹکا کھانے سے ہر 300 میں سے 100 افراد کو منہ کا سرطان ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں میں گٹکا اور مین پوری کھانے سے منہ کا کینسر بڑھ رہا ہے، دوسری طرف سندھ حکومت صرف تقریریں کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ 
بلاول بھٹو ہر روز کوئی نیا بیان دے دیتے ہیں حالانکہ پچھلے تیس برس سے سندھ میں پی پی کی حکومت ہے، پھر بھی پورا سندھ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ کراچی میں کانگو وائرس اور نگلیریا سے لوگ مر رہے ہیں مگر مجال ہے سندھ کے وزیر صحت نے کوئی اقدام کیا ہو۔ فقط تقریریں ہی تقریریں ہیں۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ایک مرتبہ پھر وائی ڈی اے کے کہنے پر ہڑتال جاری ہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ بات وہی کہ عمران خان تقریر بہت اچھی کرتے ہیں اور عملاً کیا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جب ڈاکٹرز، فوج اور پولیس کا شمار لازمی سروس میں ہوتا ہے تو پھر ڈاکٹرز کس طرح ہڑتال کر سکتے ہیں؟
کس طرح وہ مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ پچھلے کئی دن سے مریض سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت میں سے کسی نے ڈاکٹروں کی ہڑتال پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ مریض رل گئے۔ صرف تقریریں جاری ہیں۔ پچھلے 72 برس میں پاکستان کا ہر اچھا سرکاری تعلیمی ادارہ تباہ و برباد ہو گیا۔ انگریزوں نے گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول اور جونیئر ماڈل اسکول لوئر مال قائم کئے۔ آج سے 100 برس قبل سینٹرل ماڈل اسکول میں داخلہ ایسے تھا جیسے آپ کو قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ یہ اسکول 136 برس پرانا ہے۔
اگر ہم اس اسکول میں زیر تعلیم معروف لوگوں کی لسٹ لکھنا شروع کریں تو دفتر کے دفتر خرچ ہو جائیں۔ اس اسکول کا شمار مرحوم جی این بٹ کے زمانے تک پاکستان کے بہترین اسکولوں میں ہوتا رہا۔ 70 کی دہائی کے بعد اس اسکول کی تباہی شروع ہوئی اور آج یہ عالم ہے کہ اس اسکول میں کوئی داخلہ لینا پسند نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن معروف لوگوں نے اس اسکول سے تعلیم حاصل کی انہوں نے اپنے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرا دیئے اور یوں اس اسکول کا معیار گرنا شروع ہو گیا۔ اس تاریخی اسکول سے جسٹس جاوید اقبال، چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری شجاعت حسین، جسٹس خلیل رمدے، ایئر مارشل طارق بٹ، ملک معراج خالد، جسٹس نسیم حسن شاہ، مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر ممتاز حسن، ڈاکٹر نفیس ناگی، ڈاکٹر غیاث النبی طیب، ڈاکٹر ساجد نثار، ڈاکٹر فرید احمد خاں سمیت کئی نامور لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ 
وہ لاہور جس میں کئی نامور اسکول ہوا کرتے تھے، آج اس کے تعلیمی اداروں کا معیار پست ہو چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ان تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے یہ نامور لوگ اپنے بچوں کو بھی یہاں داخل کراتے تو یقیناً ان اسکولوں کا معیار برقرار رہتا۔ ہم پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس سے کہیں گے کہ وہ تمام قدیم اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کریں، وہ اسکولوں کی بہتری کے لئے بہت کام بھی کر رہے ہیں۔ اسکولوں میں پی ایچ ڈی اساتذہ لائیں، اردو زبان کی ترقی و فروغ کے لئے کام کریں۔ کسی زمانے میں پاکستان کی 70 فیصد بیورو کریسی، فوج اور 80 فیصد نامور ڈاکٹرز کا تعلق انہی نامور اسکولوں سے تھا۔
حال ہی میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ذہنی دبائو کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے نوجوان کے پاس فالتو اوقات میں اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ملک کے غیر یقینی حالات اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال بھی نوجوان نسل کو ذہنی دبائو میں مبتلا کر رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کے بہتر مستقبل کے لئے تاحال اس حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا، بس؎
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
واصف ناگی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
emergingkarachi · 5 years
Text
’’کراچی کہیں جسے‘‘
کراچی کے ساتھ یادوں کا سلسلہ اس قدر طویل ہے کہ اب اس کا ابتدائی زمانہ یاد کرنے میں بھی دِقت ہوتی ہے۔ میری عمر اس وقت کوئی نو یا دس برس کی ہو گی۔ میرے بڑے ماموں محمد اسلم نیشنل ٹائر بنانے والی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اُن دنوں ان کی پوسٹنگ کراچی میں تھی۔ ان کے پاس ایک دو کمروں کا کوارٹر نما سا گھر تھا اور گلی کے کنارے پر ایک چائے خانہ کا ہوٹل تھا جس کی مالکن اور مینیجر ایک بہت شفیق خاتون تھی جسے سب لوگ خالہ ہوٹل والی کہہ کر پکارتے تھے۔ اس علاقے کا نام غالباً پیر الٰہی بخش کالونی تھا۔
دوسری یاد رہ جانے والی یہ ہے کہ وہاں دُور دُور تک سبزے کا نام و نشان نہیں تھا کوئی پندرہ بیس برس بعد دوبارہ جانا ہوا تو نہ صرف شہر بہت بڑا ہو چکا تھا بلکہ اب کہیں کہیں سبزہ بھی آنے لگا تھا اور وہاں ایک ایسا کلچر جنم لے چکا تھا جس میں پاکستان کے ہر علاقے کی نمائندگی ہو رہی تھی اور لوگوں کا عمومی مزاج بہت دوستانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے تعصب سے پاک تھا۔ رزق کے مواقع کی فراوانی کے باعث ہر طرف سے لوگ آ آکر یہاں آباد ہو رہے تھے اور محنت کر کے اپنے اپنے حصے کا رزق کھا رہے تھے اور رات کے دو بجے بھی شہر آباد اور محفوظ نظر آتا تھا۔ 
تب سے اب تک اس کی آبادی سبزے اور جغرافیائی حدود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن دلوں کی کشادگی بوجوہ پہلے سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے نہ صرف اس کے امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے بلکہ روّیوں میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کچھ دن قبل مجھے ایک سندھی ٹوپی میلے میں وہاں کی نوجوان نسل نے دی اور بالخصوص سندھی نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا اور میں وہاں سے بہت خوشگوار تاثر کے ساتھ واپس آیا کہ مجھے ایک بار پھر سے اس کشادہ قلب، وسیع نظر، غریب پرور اور انصاف پسند کراچی کی جھلک نظر آئی جو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے اپنی تہذیبی شناخت سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ 
گزشتہ ہفتے کی رات الخدمت فائونڈیشن پاکستان کی کراچی شاخ کے ایک فنڈ ریزر میں اس خوشگوار تبدیلی کی مہک تو ایسی تھی جس سے اب تک جسم و جان مہکے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کراچی کے انسان دوست شہریوں نے اللہ کی خوشنودی اور انسانوں کی خدمت کے لیے کھڑے کھڑے سات کروڑ سے زیادہ کے عطیات بہم کر دیئے۔ افتخار عارف، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور مجھے اس پروگرام میں کلام سنانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ پروگرام کے آغاز سے قبل الخدمت پاکستان کے صدر برادرم میاں عبدالشکور میرے کمرے میں تشریف لائے تو باتوں باتوں میں میں نے اپنے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی لکھی ہوئی کتاب ’’امجد فہمی‘‘ کا ایک نسخہ ان کو پیش کیا کہ اسے پروگرام میں میری طرف سے نیلامی کے لیے رکھ دیجیے گا اور جو رقم اس سے حاصل ہو اُسے میری طرف سے عطیہ سمجھ کر قبول کر لیجیے گا۔
میں اپنے دستخطوں سے یہ کتاب خریدنے والے کا نام لکھ کر انھیں پیش کر دوں گا۔ میرا اندازہ تھا کہ اس طرح پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک کی آفر آ جائے گی لیکن حیرت اور خوشی کی بات یہ ہوئی کہ پہلی بولی ہی ایک لاکھ کی لگی ایک اور صاحب نے ایک لاکھ ایکاون ہزار کی آواز لگائی جب کہ آخری بولی دو لاکھ تک پہنچ گئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر تو کتاب صرف آخری بولی والے محترم کو ہی ملی لیکن بقیہ دونوں حضرات نے اعلان کر دیا کہ وہ کتاب نہ ملنے کے باوجود بھی اپنی اعلان کردہ رقم اس کے حواے سے بطور عطیہ پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ میں نے بعد میں برادرم اجمل سراج کی معرفت ان کو بھی کتابیں بھجوا دیں مگر ان کی اس جذبہ محبت نے نہ صرف میرا دل جیت لیا بلکہ میرے اس ایمان کو بھی تقویت دی کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔
اگلے روز صبح مجھے Getz Pharma والوں نے ایک ایسی خصوصی تقریب میں مدعو کر رکھا تھا جس میں صرف مجھے اپنی شاعری سنانا تھی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے متعلق کمپنیاں ڈاکٹر حضرات سے اپنے تعلقات کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لیے ڈانسرز، ڈانس گانے کی پارٹیاں یا غیر ملکی تفریحی دوروں کا اہتمام کرتی ہیں اور شعر وا دب، فنونِ لطیفہ یا تہذیب، اخلاقیات اور جمالیات سے اُن کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن فارم ایوو کے بعد گیٹز فارما والوں نے اس روائت کی ابتدا کر کے ایک ایسا احسن قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ اس وقت نئی اور پرانی نسل کے درمیان پُل تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور بلاشبہ شعر و ادب کی بنیاد پر تعمیر کیا جا نے والا پُل وقت کے اس دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے بروقت بھی ہے اور بہترین بھی۔
محفل کے حاضرین اور منتظمین سب کے سب کا بنیادی تعلق میڈیکل سائنس سے تھا جو انھیں ایک اچھا اور کامیاب پروفیشنل تو بنا سکتی ہے مگر ایک متوازن اور معقول انسان بننے کے لیے شعر و ادب اور سوشل سائنسز کے رول سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اس محفل کے حاضرین نے جب توجہ اور محبت سے شاعری سنی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یہاں صَرف کیے گئے وقت کو اپنی زندگی کے بہترین کوالٹی ٹائم کا حصہ بنایا وہ بہت ہی خوش کن تجربہ تھا اس سے قطع نظر کہ یہ محفل میرے لیے ترتیب دی گئی تھی اس کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ اس کے توسط سے ہمارے معاشرے کے کامیاب اور لائق انسانوں کو اخلاق ، رزق اور رُوح کی تشکیل اور فروغ کا ایک ایسا موقع مہیا کیا گیا جس کا تسلسل ہماری تاریخ اور تہذیب کے اُس اضافی بوجھ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے جسے ہم خواہ مخواہ ہی اُٹھائے پھر رہے ہیں ۔
عرفان اویس سے میری دوستی اور محبت کا دورانیہ تو کوئی بہت زیادہ نہیں مگر اپنی اپنائیت اور باہمی محبت کی شدّت کی وجہ سے وہ میرے نوجوان دوستوں میں سب سے آگے ہے۔ وہ جتنا اچھا سرکاری افسر ہے اتنا ہی اچھا لکھاری اور صاحبِ مطالعہ آدمی ہے۔ اس بار بھی اُس نے رات کے کھانے پر میرے لیے ایک عظیم محفل دوستاں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں ہوٹل سے برادرم اشرف شاہین کے گھر منتقل ہو گیا تھا کہ اس سے دل کی باتیں کیے اور محفل جمائے بہت عرصہ ہو گیا تھا۔ سو گھر میں گپ شب کے بعد اُس کی پسندیدہ کریک کلب میں کافی دی گئی اور پھر بار بی کیو ٹو نائٹ میں کھانے کے دوران گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ چلا جس میں کسی موضوع کو اپنی شکل واضح کرنے کی سہولت نہیں مل سکی۔ تو بے تکلف دوستوں کی محفل کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں دلیل اور محبت کا مقام آئے بات کا رُخ فوراً کسی اور طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
چار دنوں میں لاہور، دبئی، کراچی اور کراچی لاہور کے سفر نے تھکایا تو یقیناً مگر تین اچھی تقریبات اور دوستوں سے ملاقات کے لطف نے جسمانی تھکن کو اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس حوالے سے ایک پرانی غزل کا سدا تارہ رہنے والا شعر یاد آ رہا ہے کہ:
نشاطِ وصل کا لمحہ عجیب لمحہ تھا کہاں رہا ہوں میں اتنے برس، نہیں معلوم!
امجد اسلام امجد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
قندپارسی
آشوب آرزو / وقار خان
اب آپ سے کیا پردہ، ہمیں فارسی اور سرائیکی بہت پسند ہیں۔ اگرچہ ہم ان زبانوں پر اتنی بھی دسترس نہیں رکھتے، جتنی واپڈا بجلی کی ترسیل پر یا عدالتیں انصاف کی فراہمی پر رکھتی ہیں، البتہ الفاظ کی نشست و برخاست، برجستگی، طرز تکلم و طرز تخاطب اور جملوں، محاوروں اور اشعار کا جامعیت سے بھرپور اختصار ہمیں بہت بھاتا ہے۔ اگر مقرر فارسی یا سرائیکی لہجے میں موتی پرونے والی کوئی خوش اطوار سی خاتون ہو تو واللہ، اس کی گلفشانی کی پھوار ہمیں براہ راست اپنے قلب پر محسوس ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ہم دستیاب مال سے بھی اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں، چاہے وہ آغا پٹھان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ’’سماع وعظ کجا، نغمہ رباب کجا‘‘
آغا افغانی کی مادری زبان فارسی ہے۔ وہ کئی سالوں سے ہمارے علاقے میں مزدوری کر رہا ہے۔ بوڑھا پٹھان اَن پڑھ ہے مگر سرمست حافظ شیرازی کی زبان بولتا ہے تو وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن سخت گرمی میں ہمارے گھر کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ پسینے میں شرابور تھا اور نقاہت اور تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ہم نے اس کی خیریت دریافت کی ’’حال شما خوب است؟‘‘ (کیا تمہارا حال اچھا ہے؟) اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’خوب نیست، جوانی رفت‘‘ (اچھا نہیں، جوانی گزر گئی ہے) ہماری کج فہمی کہتی ہے کہ ایسے مختصر ترین مگر کوزے میں دریا بند کرنے والے جملے شاید ہی کسی زبان میں ملتے ہوں۔ ایسا ہی غالب کا ایک شعر یاد آیا ’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت /جوانی مگو، زندگانی گزشت‘‘ آغا کی اردو بھی فارسیت زدہ ہے۔ شام اندھیرا ہونے سے پہلے گھر روانہ ہوتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے ’’میرے سائیکل میں چراغ نہیں‘‘ ہمارے ملک میں کچھ پرانے لوگ کہتے ہیں ’’چشم ما روشن، دل ماشاد‘‘ ایران میں ہم نے دیکھا کہ لوگ مہمان کے سامنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور قدرے جھک کر انہی معنوں میں مختصراً ایک لفظ بولتے ہیں’’چشم‘‘... یہ لفظ اپنے اندر خلوص اور وسعت کا جہاں سمیٹے ہوتا ہے۔ وہ لوگ مٹھاس سے لبریز لہجے میں کہتے ہیں ’’تو نورچشم ما ای‘‘ شاید اسی لئے فارسی کو ’’قند پارسی‘‘یعنی شکر کی طرح میٹھی زبان کہا جاتا ہے۔
دسمبر کی اس خنک اور خشک شب ہمیں کچھ بھولی بسری خوش گفتار خواتین کی نرماہٹ سے آراستہ اور رس گھولتی، نشاط انگیز فارسی گفتگو اس لئے یاد آئی ہے کہ جناب انوؔر مسعود نے جیو کے ’’جرگہ‘‘ میں کہا ہے کہ فارسی ہمارا ہزار سالہ حافظہ ہے، جسے چھوڑ دینے سے اردو پر ہماری گرفت کمزور ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا ’’اردو کو بچانے کے لئے ہمیں دوبارہ فارسی سے رجوع کرنا پڑے گا‘‘ خوب است! لیکن ہمارے خیال میں اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا.....تیز رفتار ترقی کے اس سفر میں ہماری تہذیبی اقدار یوں گرد گرد ہوئی ہیں کہ اب یہاں نوشت و خواند، اہل علم کی صحبتیں، صاحب مطالعہ اور اہل زباں جیسے الفاظ اور اعمال بطور فیشن تو تھوڑے بہت استعمال ہوتے ہی ہیں مگر عملی طور پر متروک اور قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
آج ہم نے برصغیر میں فارسی کی تاریخ بیان نہیں کرنی۔ مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ یقیناً ہمارا حافظہ ہزار سالہ ہو گا لیکن اب یہ حافظہ اتنا لاغر ہو گیا ہے کہ ہزار سال تو دور کی بات، اس میں تو سات دہائیاں قبل کی سب سے ضروری بات بھی محفوظ نہیں کہ محمدعلی جناح کس طرح کا ملک چاہتے تھے؟ اپنی بوسیدہ اقدار سے جان چھڑاتے ہوئے ہم نے کمپیوٹر کے عہد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ایسی قیامت خیز چال چلی کہ ’’کلاغی تگ کبک را گوش کرد، تو خودش را فراموش کرد‘‘ یعنی کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ امروز فارسی اور اردو کی مہار ہمارے ایسے ’’ایں چیست؟ پکوڑے تلیست‘‘ برانڈ ’’اہل علم‘‘ لکھاریوں اور اینکرز کے ہاتھ ہے، جو ’’داشتہ بکار آید‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ’’داشتہ کار پر آتی ہے‘‘ موزوں سمجھتے ہیں۔ اردو معلی پر دسترس کی بھی وہی مثال کافی ہے کہ استاد نے طلبا سے پوچھا کہ اس جملے میں گرامر کے لحاظ سے کون سا زمانہ پایا جاتا ہے ’’بچے نقل کررہے ہیں‘‘ شاگرد نے کہا ’’امتحان کا زمانہ‘‘ ٹی وی چینلز پر ہمارے برادران و ہمشیرگان نے گیسوئے اردو سنوارتے ہوئے اسے فارسی سے پاک کر کے انگریزی کا ایسا تڑکہ لگایا ہے کہ ریختہ کی عظمت بال کھولے بین کر رہی ہے۔ خدا معلوم یہ زبان اور اقدار کا کیسا ارتقا ہے کہ اب ہمیں واعظ شیریں لساں، خزینہ علم وحکمت اور منبع فصاحت وبلاغت تو تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں مگر فصاحت اور حکمت تو کجا، خطبات سے رتی برابر شیرینی برآمد کرنا محال ہے۔ بس شعلہ بار لہجے ہیں اور دشنہ و خنجرکا انداز بیاں ۔
آج ہم نے بات فارسی کی وسعت اور مٹھاس تک محدود رکھنی تھی مگر بموجب نوشتہ تقدیر کے کڑواہٹ کی طرف نکل گئی۔ ہمیں اکثر ملکی حالات پر فارسی کے محاورے اور کہاوتیں یاد آتی ہیں۔ کب اور کیوں یاد آتی ہیں؟ یہ آپ نے خود اخذ کرنا ہے۔ سنئے ’’آنچہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد ازخرابی بسیار‘‘ (دانا جو کام کرتا ہے، کرتا ناداں بھی وہی ہے لیکن نقصان اٹھانے کے بعد) آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ (جس کا دامن صاف ہے، وہ محاسبے سے خوفزدہ کیوں ہے؟) ’’برزبان تسبیح و دردل گاوخر‘‘ (ظاہر میں نیک، دل میں لالچ) ’’ہرکہ درکان نمک رفت،نمک شد‘‘ (جو بھی نمک کی کان میں گیا، نمک ہو گیا) ’’ماتم زدہ را عید بود ماتم دیگر‘‘ (مفلس کی خوشی بھی ماتم سے خالی نہیں ہوتی)
’’آب آید،تیمم برخاست‘‘ (پانی مل جائے تو تیمم کی اجازت نہیں) اور ان الفاظ کا ہمیں مطلب تو معلوم نہیں مگر ان میں ردم کمال کا ہے کہ’’جواب جاہلاں، باشد خموشی‘‘(شیخ سعدی اختصار اور جامعیت کا بادشاہ ہے۔ صرف دو جملے نقل کرتے ہیں کہ ’’بخشیدم،گرچہ مصلحت ندیدم‘‘ (معاف کر دیا اگرچہ مجھے اس میں اچھائی نظر نہیں آتی) اور وہ جو بادشاہ نے ہزار دینار کی تھیلی ننگ دھڑنگ فقیر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ دامن پھیلا درویش، تو اس نے کیاجواب دیا؟....’’دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (میں دامن کہاں سے لائوں ،میرے تن پر تو لباس ہی نہیں) انوؔر مسعود صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری کو بھی یاد کیا ہے،سو ہم اقبال کے ان سدا بہارفارسی اشعار پر بات ختم کرتے ہیں:
زمن بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی ؐرا
(میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام کہ انہوں نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا لیکن پیغام کی تاویل انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ خود خدا، جبرئیل اورمصطفیﷺ بھی حیران رہ گئے)
8 notes · View notes
notdoni · 7 months
Text
نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
نت دونی , نت پیانو , نت متوسط پیانو , نت پیانو آصف آریا , notdoni , نت های پیانو آصف آریا , نت های پیانو , پیانو , آصف آریا , نت آصف آریا , نت های آصف آریا , نت های ترنم عزتی , نت های متوسط پیانو , نت پیانو متوسط
پیش نمایش نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
Tumblr media
نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
دانلود نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
خرید نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
جهت خرید نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد روی لینک زیر کلیک کنید
نت پیانو آهنگ نیمه من از حامد همایون به همراه آکورد
نت پیانو نیمه من حامد همایون
آهنگساز : حامد همایون
تنظیم نت پیانو : ترنم عزتی
نکته : جهت سادگی هرچه بیشتر در اجرا متن آهنگ زیر نت های پیانو نوشته شده است نسخه های دیگر نت نیمه من حامد همایون برای ساز های دیگر را می توانید از طریق لینک های زیر دریافت کنید
_______________
نت گیتار نیمه من حامد همایون
نت پیانو نیمه من حامد همایون
نت ویولن نیمه من حامد همایون
نت سنتور نیمه من حامد همایون
نت کیبورد نیمه من حامد همایون
متن آهنگ نیمه من از حامد همایون
همیشه یادم هست لبخندت چه کرده با قلبم میباری به جان من نم نم میخواهی مرا ولی کم کم ببر مرا گاهی آنجایی که دلبری کردی عشقت را به قلبم آوردی دل دارد هوای شبگردی یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب خوش به دلم گر تو عذابم کنی شعر بخوان شعر که خوابم کنی وای به روزی که دهی دل به من از می احساس خرابم کنی اینکه تو نیمه ی منی لاف نیست رشته نکن پنبه که انصاف نیست هردو شبیهیم مگر موی تو مثل دل ساده ی من صاف نیست یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب یارم همه کس و کارم هوای تو دارم دوباره امشب باید از آسمان بی وقفه بی امان باران ببارد امشب
کلمات کلیدی : نت پیانو نیمه من حامد همایون, نت آهنگ نیمه من حامد همایون برای پیانو, خرید نت نیمه من حامد همایون با پیانو, نت موسیقی آهنگ نیمه من از حامد همایون , نت آهنگ های حامد همایون , سایت خرید نت های پیانو ,
کلمات کلیدی : نت دونی , نت پیانو , نت متوسط پیانو , نت پیانو آصف آریا , notdoni , نت های پیانو آصف آریا , نت های پیانو , پیانو , آصف آریا , نت آصف آریا , نت های آصف آریا , نت های ترنم عزتی , نت های متوسط پیانو , نت پیانو متوسط
0 notes