Tumgik
#سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن
akksofficial · 2 years
Text
اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر وکلا تنظیموں کی ہڑتال
اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر وکلا تنظیموں کی ہڑتال
لاہور (کورٹ رپورٹر)اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر ملک بھر کی مختلف وکلا تنظیموں کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عمر سومرو باری باری عدالتوں میں وکلا کے ہمراہ گئے اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے عدالتی امور معطل کرنے کی استدعا کی۔چیف جسٹس نے وکلا کو یقین دلایا جو وکیل پیش نہیں ہوگا، اس کے خلاف فیصلہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
چیف جسٹس گلزار احمد کون ہیں اور ان کا دور کتنا مشکل ہو گا ؟
جسٹس گلزار احمد 16 نومبر 2011 کو سپریم کورٹ کے جج بنے تھے اور انہوں نے گذشتہ آٹھ سال عدالت عظمیٰ میں کئی اہم مقدمات سنے۔ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے پانچ رکنی بینچ میں بھی شامل تھے۔ نئے چیف جسٹس دو فروری 1957 کو کراچی کے نامور وکیل نور محمد کے گھر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کراچی کے ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 18 جنوری 1986 کو بطور وکیل اپنے پیشے کا آغاز کیا جبکہ چار اپریل 1988 کو ہائیکورٹ کی وکالت شروع کی۔ جسٹس گلزار احمد نے 27 اگست 2002 کو بطور جج سندھ ہائی کورٹ اپنے عہدے کا حلف لیا تھا جس کے بعد 14 فروری 2011 کو سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج بنے۔ جسٹس گلزار احمد این ای ڈی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنر کے ممبر بھی رہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ایک ایسے وقت میں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے کہ جب عدلیہ کے ادارے پر ملک کے ہر شہری کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر کی گئی تقریر میں بھی کہا کہ عدلیہ کے خلاف مہم شروع کی جا چکی ہے۔ 
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حامد خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس گلزار احمد کے بارے میں کہا کہ ’ابھی تک تو انہوں نے خاصی غیر جانبداری اور آزادی کا مظاہرہ کیا ہے، بطور جج ان کی شہرت اچھی ہے۔ ایک آزاد جج کی شہرت ہے۔‘ وکیل رہنما کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج چیف جسٹس کے عہدے پر آتا ہے تب ہی اس کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس گلزار احمد مشکل وقت میں چیف جسٹس بن رہے ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ان حالات میں اپنی آزادی کو قائم رکھ سکیں گے اور عدلیہ کو لیڈر شپ دے سکیں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے اردو نیوز کو بتایا کہ جسٹس گلزار احمد عدالت میں وکیل کی بات سنتے ہیں اور اس کو سراہتے بھی ہیں اور اچھے جج کی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ دلائل کو سکون سے سنے اور فیصلے دے۔ 
فیصلہ جو بھی ہو وکیل کو اس سے مسئلہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس گلزار احمد میں اچھے جج کی خصوصیات موجود ہیں۔ کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’اگلے دو سال بڑے مشکل ہیں اور بڑا سخت وقت آیا ہوا ہے۔ بعض اداروں اور بعض لوگوں نے عدلیہ کے خلاف محاذ بنایا ہوا ہے اس لیے نئے چیف جسٹس کو نہایت دانائی کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ ان کو قانون کے مطابق معاملات کو لے کر چلنا اس وقت مشکل کام ہو گا اور ان کو پوری عدلیہ کے لیے یہ کرنا ہے۔‘ وکیل رہنما حامد خان نے کہا کہ ان کو نئے چیف جسٹس سے بہت توقعات ہیں کہ جسٹس گلزار بطور چیف جسٹس ان طاقتوں کے سامنے کھڑے ہو سکیں گے جو طاقتیں عدلیہ پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’نئے چیف جسٹس گلزار احمد اچھے جج ہیں وہ کوئی غیر معمولی شخصیت نہیں ہیں مگر ان میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔‘ 
کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کا نئے چیف جسٹس سے متعلق کہنا تھا کہ ’جج کے طور وہ ایک اچھے جج ہی رہیں گے مگر سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات بھی نئے چیف جسٹس کے پاس ہوں گے تو دیکھنا صرف یہ ہو گا کہ انتظامی معاملے میں جو ان کا امتحان شروع ہو رہا ہے اس میں وہ کیسے کامیاب ہوں گے۔ جسٹس گلزار احمد نے کراچی اور اسلام آباد میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے دائر درخواستوں پر اہم فیصلے دیے۔ انہوں نے کراچی شہر میں بل بورڈز اور ہورڈنگز ہٹانے کا حکم دیا جبکہ ایک مقدمے میں انہوں نے کہا کہ کراچی میں شاہراہ فیصل کے ساتھ دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمین پر شادی ہال کھول کر کاروبار کیا جا رہا ہے اسے بند کیا جائے۔ جسٹس گلزار احمد ماحولیات پر بھی توجہ دیتے ہیں اور انہوں نے کراچی کی بلدیہ کو کراچی شہر کو 1960 کی حالت میں واپس لانے کا حکم دیا تھا جبکہ وفاقی ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کو اسلام آباد کو ماسٹر پلان کے مطابق رکھنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔ جسٹس گلزار احمد کو قانون کی سختی سے پاسداری کرنے والے جج کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اے وحید مراد  
بشکریہ اردو نیوز 
1 note · View note
paknewsasia · 2 years
Text
- بول نیوزاسمبلیاں تحلیل کرنے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر وکلا تنظیموں کی ہڑتال
– بول نیوزاسمبلیاں تحلیل کرنے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر وکلا تنظیموں کی ہڑتال
اسمبلیاں تحلیل کرنے اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے معاملے پر ملک بھر کی مختلف وکلا تنظیموں کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عمر سومرو باری باری عدالتوں میں وکلا کے ہمراہ گئے اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے عدالتی امور معطل کرنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے وکلا کو یقین دلایا جو وکیل پیش نہیں ہوگا، اس کے خلاف فیصلہ نہیں ہوگا۔ ملیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
جونیئر ججوں کی تعیناتی پر سپریم کورٹ میں احتجاج
جونیئر ججوں کی تعیناتی پر سپریم کورٹ میں احتجاج
سپریم کورٹ میں سنیارٹی کو نظرانداز کرکے جونیئر ججز کا تقرر کرنے کیخلاف ملک بھر میں وکلا نے ہڑتال کی اور عدالتوں میں پیش نہ ہوئے۔ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن، خیبرپختونخوا بار کونسل، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت مختلف تنظیموں کی کال پر وکلا نے عدالتی بائیکاٹ کیا۔ انہوں نے عدالتوں کی مرکزی عمارتوں کے دروازے بند کردیے جس سے سائلین کا داخلہ بند ہوگیا۔ وکلا اور سائلین کی عدم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
سپریم کورٹ میں جونیئر ججز تقرری کیخلاف وکلا کی ملک گیر ہڑتال - اردو نیوز پیڈیا
سپریم کورٹ میں جونیئر ججز تقرری کیخلاف وکلا کی ملک گیر ہڑتال – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنیارٹی کو نظرانداز کرکے جونیئر ججز کا تقرر کرنے کیخلاف ملک بھر میں وکلا نے ہڑتال کی اور عدالتوں میں پیش نہ ہوئے۔ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن، خیبرپختونخوا بار کونسل، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت مختلف وکلا تنظیموں کی کال پر وکلا نے عدالتی بائیکاٹ کیا۔ وکلا نے عدالتوں کی مرکزی عمارتوں کے دروازے بند کردیے جس سے سائلین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
قومی زبان اردو اور عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ
قومی زبان اردو اور عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ
آج سے کم و بیش تیس برس پہلے واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سڈنی کابرٹ نے اردو زبان کی بین الاقوامی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دیا تھا۔ ایک اور سروے کے مطابق اردو برعظیم کے علاوہ دنیا کے چوالیس سے زیادہ ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ عالمی زبانوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک سروے میں چینی اور انگریزی کے بعد اردو کو تیسری بڑی عالمی زبان قرار دیا گیا۔ یہ امر بہرحال شبہے سے بالا ہے کہ اردو کا شمار عالمی زبانوں میں ہوتا ہے اور یہ بات بجائے خود اہلِ پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس عظیم زبان کو وطن عزیز میں ابھی تک وہ مقام نہیں ملا جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہے۔ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ ۱۹۸۸ء تک قومی زبان اردو کو پورے پاکستان میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جانا لازم ہے۔ یہ سنہ بھی گزر گیا اور اس پر تینتیس برس کا عرصہ گزر چکا مگر اونٹ اب تک کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔ اس دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت میں رٹ دائر کی گئی اور ایک لمبی بحث و تمحیص اور حکومت کے تاخیری حربوں کے باوجود اردو کے حق میں ایک تاریخ ساز فیصلے کا ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو ظہور ہوا۔ یہ رٹ جو دراصل دو الگ الگ رِ ٹوں کی صورت میں محمد کوکب اقبال اور سید محمود اختر نقوی نے داخل کی تھی، اپنے مضمونِ واحد کے باعث ایک ہی قرار دی گئی اور اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ ایک بنچ نے کیا جس میں خواجہ صاحب کی معاونت دو فاضل ججوں دوست محمد خاں اور قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں اعلیٰ عدالت کو کس ہفت خواں سے گزرنا پڑا، آئیے ان مراحل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
سال ۲۰۱۵ء میں جو اس کیس کا سالِ سماعت تھا، اس کیس کی اٹھارہ بار سماعت ہوئی اور ہر بار کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ تراشا گیا۔ چار بار تو ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوتے رہے اور جامع بیان جمع کرانے کے لیے ہر بار وقت مانگتے رہے۔ پانچویں پیشی پہ انھوں نے گویا ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات وغیرہ نے عدالتِ عظمیٰ کے احکامات پر کان نہیں دھرے۔ ایک مرحلے پر حلومت کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث حکومت پر ہرجانہ بھی عائد کیا گیا۔ ایک اور مرحلے پر کہا گیا کہ وزیر اعظم ملک سے باہر ہیں۔ ان افسوسناک حیلہ تراشیوں پر یاد آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں حنیف رامے نے، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے (پروفیسر فتح محمد ملک ان دنوں ان کے مشیر تھے) یہ فیصلہ کیا کہ کم از کم پنجاب کی حد تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے۔ رامے صاحب اور ملک صاحب اس معاملے میں بہت پُرجوش تھے مگر جب بھٹو صاحب سے اس کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے رامے صاحب سے کہا کہ پنجاب میں ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے کیونکہ ہمیں سندھ میں الیکشن بھی لڑنا اور جیتنا ہے!
سچی بات تو یہ ہے کہ برعظیم کی زبانوں میں اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جو اس کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور صرف وہی قومی اور سرکاری زبان بننے کی اہل تھی اور ہے مگر اس سلسلے میں سوائے ظاہری عذر تراشیوں اور درپردہ سیاسی اور لسانی تعصبات نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو طاقِ نسیاں پر رکھا ہوا ہے۔ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی مصلحت کیشی اور ذاتی منفعت کوشی کی سپاہِ سیاہ نے اردو کے نفاذ میں کس قدر روڑے اٹکائے اور معاملے کو اس قدر الجھائے رکھا کہ اب تک سلجھتا نظر نہیں آتا اور محبی افتخار عارف کا یہ شعر یاد آئے بغیر نہیں رہتا:
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے / یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا۔ مگر لگتا ہے کہ سازشوں اور لسانی تعصبات کے تماشے کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں گو کہ بالآخر نابود ہونا اس کا مقدر ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے مذکورہ حیلہ تراشیوں کے ضمن میں بڑا واضح موقف اختیار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اسے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱پر عمل نہ کرنے کا حق یا اجازت حاصل ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ آرٹیکل دوسو اکاون کی زبان پر غور کریں تو اس بارے میں کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کے متن میں لفظ ”شیل“ Shall کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد اختیاری یا کسی کی منشا کا پابند نہیں بلکہ یہ ایک لازمی امر ہے لہٰذا آرٹیکل دوسو اکاون کی حکم عدولی کی کوئی گنجائش نہیں۔ آگے چل کر عدالت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ آئین کی پابندی ہر شہری کا لازمی اور بلا استثنا فریضہ ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی یاد دلایا کہ ریاست کے تمام اعلیٰ حکام آئین کی بقا اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی اس ذمہ داری سے مستثنٰی قرار نہیں دیے جا سکتے۔ آئین کی حکمرانی تب قائم ہو سکتی ہے جب اس کی ابتدا صاحبِ اقتدار طبقے سے ہو۔ اگر حکومت خود آئینی احکامات کی پابندی نہیں کرتی تو وہ قانونی طور پر عوام کو بھی آئین کی پابندی پر مجبور کرنے کی مُجاز نہیں سمجھی جا سکتی۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس ضمن میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاق پاکستان کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کا یہ اٹھایا ہوا سوال قابل توجہ ہے: ��ہ کام عوام کے نمائندوں اور تمام سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ آیا اعلیٰ طبقات اور ریاست کے باقاعدہ قائم شدہ اداروں میں قانون کی حکمرانی غائب ہونے سے تو وہ لاقانونیت پیدا نہیں ہوئی جو ہمارے معاشرے میں آج سرایت کر چکی ہے۔ دراصل عدالت کے اس سوال کے پسِ پشت وہ بڑی صداقت کام کر رہی تھی کہ النّاسُ علیٰ دِینِ مُلوکِھِم یعنی عام لوگوں کا چلن اور طور طریقہ وہی ہوتا ہے جو ان کے حاکموں کا ہوتا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ آئینِ پاکستان کی دفعہ دو سو اکاون باقی دستور سے کوئی الگ تھلگ شق نہیں بلکہ دستور کی اس دفعہ کا شہریوں کے بنیادی حقوق سے گہرا تعلق ہے۔ دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضا ہے کہ ریاست ہر مرد و زن کی زبان کو چاہے وہ قومی ہو یا صوبائی، ایک قابل احترام زبان کا درجہ ضرور دے۔ آرٹیکل دو سو اکاون کا عدم نفاذ پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو جو ایک غیر ملکی زبان یعنی انگریزی سے ناواقف ہے، بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حاکم طبقات ایک بدیسی زبان یعنی انگریزی کے پاکستانی عوام پر تسلط سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ مقصد واضح ہے: حاکم طبقہ اور بیوروکریسی محدود مقاصد کی اسیر ہے اور یہ محدود مقاصد اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہ لوگ ایک بدیسی زبان کے ذریعے طبقاتی اونچ نیچ کا افسوسناک کھیل جاری رکھ سکیں۔ انھیں اندازہ نہیں کہ: صاحب نظراں نشہئ قوت ہے خطرناک!
نشہئ قوت میں مست و مغرور یہ طبقہ اپنے استعماری آقایانِ ولی نعمت کی تھپکیوں سے حوصلہ پکڑے ہوئے ہے۔ کاش یہ طبقہ ہوش کے ناخن لے اور آئینِ پاکستان کے تحت شہریوں کو دیے گئے لسانی حقوق سے انھیں محروم کر کے میکالے کی روح کو مسرور نہ کرے۔۔۔ وہی متکبر میکالے جو مغربی کتب کی ایک شیلف کو ایشیا اور عرب کے تمام ادبیات پر برتر اور بھاری گردانتا تھا۔ پاکستان کے عوام بیدار ہو رہے ہیں اور یہ بیداری اس خود غرض اسیرِ ذات استحصالی طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے:
دل نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس ہونا!
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا
(جاری ہے)  
Source link
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
فیس بُک پر ممبر اسمبلی علی وزیر کی رہائی اور ’چمکتے لانگ بوٹ‘ نامی نظم شیئر کرنے پر نادرا افسر ملازمت سے برطرف اعظم خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد6 اگست 2020، 20:20 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 8 گھنٹے قبل،تقریباً ایک سال قبل 27 مئی کو جب شہریوں کے کوائف کے اندارج کے قومی ادارے نادرا کے ایک افسر رضا خان سواتی نے آزاد رکن قومی اسملبی علی وزیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کی رہائی سے متعلق اپنے فیس بُک اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی تو شاید اُس وقت انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس کی انھیں کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔انھوں نے ناصرف علی وزیر کے حوالے سے شائع شدہ خبر شیئر کی بلکہ کمنٹس کے سکیشن میں سندھ کی مزاحمتی سیاست کے ایک بڑے نام رسول بخش پلیجو کی ایک نظم کا اُردو ترجمہ بھی پوسٹ کر دیا۔ سواتی کی پوسٹ کے مطابق اس نظم کا اُردو ترجمہ مشتاق علی شان نے کیا ہے اور کا عنوان ہے ’چمکتے لانگ بوٹ۔‘ رضا خان نے اپنی پوسٹ کے ساتھ ایک ’فوجی بوٹ‘ کی تصویر بھی شیئر کی۔سندھ کے شہر جامشورو میں نادرا میں سپریٹنڈنٹ کے فرائض انجام دینے والے رضا خان نادرا ورکرز یونین کے عہدے دار بھی تھے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کی بات بھی کرتے ہیں جبکہ وہ نادرا انتظامیہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سروس کے معاملات پر ہونے والے ایک کیس میں فریق بھی ہیں۔پاکستان میں سرکاری ملازمین کے حوالے سے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے موجود قواعد و ضوابط کیا ہیں اِن پر آگے چل کر بات ہو گی، پہلے پڑھیے کہ رضا خان کے ساتھ پھر کیا ہوا۔ یہ بھی پڑھیےیہ پوسٹس شیئر کرنے کے چند روز بعد یعنی چھ اگست 2019 کو نادرا انتظامیہ کی جانب سے ان پر عائد کردہ الزامات کی ایک فہرست جاری کی گئی۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے وہ ’غیرقانونی سرگرمی‘ یعنی ’سوشل میڈیا پر عوام کو پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے‘ میں مبینہ طور پر ملوث ہوئے ہیں۔رضا خان نے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔انھیں بتایا گیا کہ وہ ایک ’قومی ادارے‘ کے خلاف مبینہ طور پر ’نامناسب اور غیرقانونی مواد سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کا یہ عمل گورنمنٹ سرونٹس رولز کے تحت ’مس کنڈکٹ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔،NADRAاس کے بعد نادرا انتظامیہ کی جانب سے اسی روز جاری ہونے والی چارج شیٹ میں اگرچہ ’پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے‘ جیسے الزام کا ذکر تو نہیں تاہم سوشل میڈیا پر ’قابلِ اعتراض مواد‘ شیئر کرنے اور سیاسی نوعیت کے ٹرینڈ میں شمولیت اختیار کرنے کے الزامات برقرار رہے۔اسی روز اس معاملے کی تحقیق کے لیے نادرا انتظامیہ کی جانب سے ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کیا گیا۔انکوائری چلتی رہی اور 19 نومبر 2019 کو رضا خان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’پس یہ ثابت ہو گیا کہ آپ (رضا) سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔۔۔‘ شوکاز میں بتایا گیا کہ رضا خان کا یہ عمل گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964 کی خلاف ورزی ہے۔ شوکاز میں کہا گیا کہ اس مس کنڈکٹ کا ارتکارب کرنے پر ’کیوں نہ آپ کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے؟‘ساتھ ہی ملزم افسر کو سات دن کے اندر اندر اپنی آخری صفائی پیش کرنے کا کہا گیا۔’وہ بوٹ تو انڈین فوج کا تھا‘رضا خان کی جانب سے نادرا میں جمع کروائے جانے والے جواب میں ان تمام الزامات کی ناصرف سختی سے تردید کی گئی ہے بلکہ انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایک محب وطن شہری ہیں جو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔انھوں نے کہا کہ درحقیقت جو بوٹ انھوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا وہ انڈین فوج کا تھا اور اس کے ذریعے وہ یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ کیسے انڈین فوج کشمیر سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔ رسول بخش پلیجو کی نظم سے متعلق ان کا موقف تھا کہ یہ نظم سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود ہے اور اس پر ابھی تک کسی بھی اتھارٹی نے کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی ہے۔،تصویر کا کیپشنرسول بخش پلیجو کا انتقال سنہ 2018 میں ہوا تھارضا خان نے لکھا کہ وہ ملک کے ایک وفا شعار شہری ہیں اور وہ ہر سال 23 مارچ، 14 اگست اور چھ ستمبر خوب جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تصاویر اور مواد بھی شیئر کرتے ہیں۔انھوں نے کہا ان خصوصی ایام پر ان کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصاویر اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ غدار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اتنے واضح ثبوت کے باوجود نادرا انتظامیہ کے کچھ عناصر انھیں ادارے سے بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔نوکری سے فراغترضا خان کی جانب سے فراہم کردہ جواب سے انتظامیہ مطمئن نہ ہوئی اور 15 جولائی 2020 کو انھیں نوکری سے فراغت کا لیٹر موصول ہو گیا۔اس لیٹر میں لکھا تھا کہ ان کے خلاف تمام الزامات ثابت ہو گئے ہیں اور سنہ 1973 کے گورنمنٹ سروس رولز کے تحت نوکری سے ڈس مِس کیا جاتا ہے۔نادرا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم قومی اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والا مواد میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کر سکتا۔ ایک سال کی انکوائری کے بعد نادرا نے رضا خان کو تو برطرف کر دیا مگر یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آخر سرکاری ملازمین کے لیے میڈیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اظہار رائے سے متعلق کس حد ممانعت ہے اور رضا خان نے کس طرح ان حدود کی خلاف ورزی کی؟حکومت کے رولز ہیں کیا؟وفاقی حکومت نے گذشتہ ماہ 23 جولائی کو سرکاری ملازمین کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اس ڈویژن کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ ضابطے سے ہٹ کر سرکاری ملازمیں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ضابطے سے متعلق گورنمنٹ سروسز رولز 1964 کا حوالہ دیتے ہوئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم پر آ کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ 'پالیسی اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کے خلاف بات نہیں ہو سکتی‘سرکاری ملازمین کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ان رولز کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم اس حوالے سے موجود پالیسی اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کے خلاف بات نہیں کر سکتے۔اس میں مزید وضاحت کی گئی کہ ایسی بات نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہو، دوست ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکے یا جو وضع داری سے ہٹ کر ہو۔ عدالتوں میں سروسز کے مقدمات میں پیش ہونے والے سینیئر وکیل شعیب شاہین نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے سروسز رولز میں کچھ ایسی باتیں بھی شامل کر لی ہیں جو پہلے سے ہی آئین اور قانون کا حصہ ہیں اور ان پر ہر پاکستانی شہری کا عمل کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق آئیڈیالوجی آف پاکستان کے خلاف بات کرنے سے آئین منع کرتا ہے اور اس طرح ججز کی توہین کرنے سے بھی آئین روکتا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ آئین جہاں پابندیاں عائد کرتا ہے وہاں شہریوں کے آزادی اظہار رائے جیسے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی دیتا ہے۔ سروس رولز میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی حکومتی فیصلے اور پالیسی کے خلاف عوامی احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتا اور نہ فرقہ واریت پھیلانے جیسے پراپیگنڈے کا حصہ بن سکتا ہے۔ ،Shoib Shaheen،تصویر کا کیپشنعدالتوں میں سروسز کے مقدمات میں پیش ہونے والے سینیئر وکیل شعیب شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے سروسز رولز میں کچھ ایسی باتیں بھی شامل کر لی ہیں جو پہلے سے ہی آئین اور قانون کا حصہ ہیں'سروسز رولز پر کبھی عمل ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا‘شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ جہاں تک بات سروسز رولز 1964 کی ہے تو ان پر کبھی عمل ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔انھوں نے ایسے بہت سے سرکاری ملازمین کے نام بتائے جو اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور کچھ پالیسی ایشوز پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ان کے مطابق ایسے سرکاری ملازمین جن کو حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے وہ ان پالیسیوں پر عوامی پلیٹ فارمز پر تنقید نہیں کر سکتے اور اس کے لیے ان کے پاس ادارے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کا آپشن ہے یا وہ عدالتوں کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ شیعب شاہین کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی وزیر ریلوے نے ایک سرکاری ملازم خاتون کے خلاف اخبارات میں لکھنے پر کارروائی کا آغاز کیا تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا جہاں عدالت نے معمولی جرمانہ عائد کرنے کے بعد یہ قرار دیا کہ میڈیا پر آ کر تنقید کرنے سے پہلے سرکاری ملازم کے لیے سروسز رولز کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ شعیب شاہین کے مطابق بعض دفعہ ادارے ان رولز کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ملازمین کو یونین سازی اور ایسوسی ایشن کا حق آئین دیتا ہے اور وہ کھل کر اپنی بات کر سکتے ہیں اور ایک دائرے میں رہ کر احتجاج بھی کر سکتے ہیں۔انکوائری بورڈ جواب سے مطمئن نہ چیئرمین نادرارضا خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سب کچھ ان کے خلاف ایک انتقامی کارروائی ہے کیونکہ وہ ادارے میں بڑھتی بدعنوانیوں، لازمی سروسز ایکٹ کے نفاذ اور نادرا حکام کے ملازمین کے خلاف بڑھتے استحصال کے خلاف ہمیشہ ہی سے آواز بلند کرتے رہے اور انھیں یقین ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔‘یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ رضا خان کو نادرا نے برطرف کیا ہو۔ اس سے قبل وہ تین بار برطرف ہوئے اور ہر بار قانونی کارروائی کے ذریعے دوبارہ بحال ہوئے۔ چیئرمین نادرا عثمان مبین نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔تاہم ایک نادرا ترجمان کے مطابق رضا خان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ ان کی سرگرمیوں پر ایک سال تک انکوائری ہوتی رہی اور پھر ایک آزاد بورڈ نے ان کی برطرفی کی سفارش کی۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
cidnewspk · 4 years
Photo
Tumblr media
سندھ بار ایسو سی ایشن غداری کیس پر فیصلے کو چیلنج کرے گی کراچی —  سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ملک کی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد : وکیل سے سپریم کورٹ کے جج تک
جسٹس گلزار احمد نے ملک کے 27ویں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ گزشتہ روز اپنے پیش رو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد سنبھالا۔
جسٹس گلزار احمد کا تعارف: نام: گلزار احمد والد کا نام: مرحوم نور محمد، (آپ کا شمار کراچی کے معروف وکلا میں ہوتا تھا) ذات: راجپوت تاریخ پیدائش: 2 فروری 1957 جائے پیدائش: کراچی بچے: 4 بچے (دو بیٹیاں اور دو بیٹے)
جسٹس گلزار احمد 2 فروری 1957 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام نور محمد تھا جن کا شمار کراچی کے معروف وکلا میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں گلستان اسکول سے حاصل کرنے کے بعد نیشنل کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی جبکہ ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری مکمل کی۔
وکیل سے سپریم کورٹ کے جج تک آپ نے 18 جنوری 1986 کو خود کو بحیثیت ایڈووکیٹ انرول کروایا جبکہ 4 اپریل 1988 کو آپ نے ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر خود کو انرول کروایا۔ آپ نے 15 ستمبر 2001 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں خود کو ایڈووکیٹ کی حیثیت سے انرول کروایا۔ اس کے علاوہ جسٹس گلزار احمد سن 1999 سے 2000 کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعزازی سیکریٹری کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوئے۔ 2002 میں سندھ ہائی کورٹ کے جج منتخب ہونے سے قبل وہ کراچی کے 5 سرفہرست وکلا میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر میں سول، لیبر، بینکنگ، کمپنی قوانین اور کورپوریٹ سے متعلق کیسز میں وکالت کی۔
جسٹس گلزار احمد 27 اگست 2002 کو سندھ ہائی کورٹ کے جج منتخب ہوئے جبکہ 16 نومبر 2011 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے ترقی حاصل کی۔ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان میں ایک بھی شکایت موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس گلزار احمد انسٹیٹیوٹ آف بزنس اینڈ ٹیکنالوجی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، اقرا یونیورسٹی، احمد ای ایچ، جعفر فاؤنڈیشن اور آغا خان یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر جبکہ انرولمنٹ کمیٹی آف سندھ بار کونسل کراچی کے چیئرمین بھی رہے۔ وہ سندھ ہائی کورٹ کی ڈیوپلمنٹ کمیٹی اینڈ آئی ٹی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔
معروف فیصلے اور کیسز جسٹس گلزار احمد اپنے پیش رو جسٹس آصف سعید کھوسہ اور دیگر کے ساتھ پاناما بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے 20 اپریل 2017 کو پاناما کیس کی آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے کراچی میں قبضہ مافیا اور تجاوزات کیس اور رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا، ساتھ ہی عسکری اداروں کی جانب سے تجاوزات اور کمرشل سرگرمیوں کے کیسز کا فیصلہ بھی سنایا، ان کے فیصلے کے بعد شہر میں 500 غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا۔
اس کے علاوہ جسٹس گلزار احمد نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری کو سزا سنائی تھی اور نااہل قرار دیا تھا۔ علاوہ ازیں انہوں نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، تھرکول منصوبے میں کرپشن، کراچی میں بارش کے دوران کے الیکٹرک کی لاپروائی کے باعث ہلاکتوں اور امل قتل کیسز کی سماعت بھی کی اور ان کی جانب سے سخت ریمارکس دیکھنے میں آئے۔ یاد رہے کہ جسٹس گلزار احمد 20 دسمبر 2019 کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں ان کے بیرون ملک دوروں کے دوران متعدد مرتبہ قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
جناب صدر کیا واقعی میرے خلاف ریفرنس دائر ہوا ہے؟ جسٹس فائز کا خط
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے صدر مملکت عارف علوی کو خط لکھ کر اپنے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں کی تصدیق یا تردید کرنے کا کہا ہے۔ اردو نیوز کے نامہ نگار اے وحید مراد کے مطابق خط میں مستقبل کے چیف جسٹس نے صدر مملکت کو لکھا ہے کہ حکومتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ اپنے خط میں جسٹس عیسٰی نے استفسار کیا ہے کہ ’براہ کرم مجھے بتایا جائے کہ یہ درست ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہے تو انہیں ریفرنس کی کاپی مہیا کی جائے۔‘
انہوں نے لکھا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ آپ اس بات پر مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر میرے خلاف ریفرنس فائل کیا گیا ہے اور مجھ سے جواب مانگا گیا ہے تو اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت سے ہی حکومت ریفرنس کی تفصیلات اور میرا جواب ظاہر کر سکتی ہے۔‘ جسٹس عیسٰی کا کہنا ہے کہ مبینہ ریفرنس کے حوالے سے اس طرح لیک ان کی کردار کشی کے مترادف ہے جس کی وجہ سے ان کے فیئر ٹرائل اور قانونی عمل (ڈیو پراسس) کے حق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ سے عدلیہ کے ادارے کی بھی بے توقیری ہو رہی ہے۔‘ جسٹس عیسٰی نے خط کی کاپی رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزیراعظم کو بھی ارسال کر دی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ردعمل اس حوالے سے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو صدر کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جذبات میں آ کر خط نہیں لکھنا چاہیے تھا کیوں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی دیانتداری شک و شبے سے بالاتر ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی دیانت شک و شبے سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسٰی کا خاندان قیام پاکستان سے ہی ایک متمول خاندان سمجھا جاتا ہے اوران کی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جائیدادیں ہیں۔ کنرانی کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسٰی خود بھی کارپوریٹ وکیل رہے ہیں اور اگر ان کے خاندان نے کہیں کوئی جائیداد خریدی بھی ہے تو ان کے پاس اس کے جائز وسائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابلیت اوردیانت کے حوالے سے جسٹس عیسٰی کی شہرت بے داغ ہے۔
حکومتی موقف دوسری جانب ’اردو نیوز‘ کے رابطہ کرنے پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں کی تردید سے گریز کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے دو دن بعد موقف دے گی۔ اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر صدر پاکستان عارف علوی کے ترجمان میاں جہانگیر نے ججوں کے خلاف ریفرنس سے لاعلمی ظاہر کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا استعفٰی اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان زاہد ایف ابراہیم نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف صدر پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر ریفرنس دائر کیے جانے کے بعد استعفٰی دے دیا تھا۔ زاہد ابراہیم نے اپنے استعفے میں ان ججز کے نام تو نہیں بتائے تاہم اُنھوں نے ا�� میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کا ذکر کیا ہے۔ ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے زاہد ابراہیم نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ججوں کے خلاف ریفرنس کی تصدیق انہوں نے حکومت کی اعلٰی ترین شخصیات سے کر لی جس کے بعد استعفے کا فیصلہ کیا۔ زاہد ابراہیم کے استعفے میں سپریم کورٹ کے معزز جج کا ذکر ہے اور کہا گیا کہ ان کی ساکھ بے داغ ہے اور ان کے خلاف حکومت نے نظرثانی اپیل ایس ایم سی نمبر سات 2017 میں اپنی رائے خود ہی ظاہر کر دی ہے۔
استعفے میں جس نظر ثانی اپیل کا زکر ہے وہ تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے سے متعلق تھی۔ یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔ فیصلے میں جسٹس عیسی نے وزارت دفاع اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحتوں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جو نظرثانی کی پہلی اپیل دائر کی گئی تھی اس میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم بعد میں دوبارہ نظرثانی کی اپیل دائر ہوئی جس میں سپریم کورٹ کے جج کے خلاف لکھے گئے الفاظ حذف کر دیے گئے تھے۔
وسیم عباسی
 بشکریہ اردو نیوز، اسلام آباد
1 note · View note
paknewsasia · 2 years
Text
جس قوم کے پاس لائبریری ہو وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی، احمد علی شیخ
جس قوم کے پاس لائبریری ہو وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی، احمد علی شیخ
احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ جس قوم کے پاس لائبریری ہو وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار کو شاندار تقریب پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ حیدر آباد شہر کے ہر فرد کے لیے میرے دل میں بے پناہ محبت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لائبریری کے قیام کا جو وعدہ کیا وہ پورا کریں گے، جلد حیدر آباد میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
وکلا کا نو ستمبر کو ملک گیر ہڑتال اور دھرنے کا اعلان
وکلا کا نو ستمبر کو ملک گیر ہڑتال اور دھرنے کا اعلان
کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے شہدائے کوئٹہ ہال میں ہفتے کو آل پاکستان وکلا کنوینشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طے کیا گیا ہے کہ نو ستمبر کو ملک بھر کی عدالتوں میں ہڑتال کی جائے گی اور ججوں کی تقرری میں سینیارٹی کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جائے گی۔ کنونشن میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار ایسوسی ایشن سمیت ملک بھر کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
سپریم کورٹ کا جج بننے کا حق چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا تھا، وکلا - اردو نیوز پیڈیا
سپریم کورٹ کا جج بننے کا حق چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا تھا، وکلا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کراچی: سندھ بار کونسل اور کراچی بار ایسوسی ایشن نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کردیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں حال ہی میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار ہوئے وکلا تنظیموں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ججوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے، جسٹس محمد علی مظہر قابل جج ہیں مگر سنیارٹی میں وہ پانچویں نمبر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
جنسی ہراس کے خلاف ڈٹ جانے والی پاکستانی لڑکی کی کہانی جس نے عدالت میں اپنا کیس خود لڑا فرحت جاویدبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد20 منٹ قبل’اس کی ماں کی۔۔۔۔ میں دیکھتا ہوں کیسے کام کرتی ہے۔‘بات ماں کی گالی کی نہ ہوتی تو شاید اس دن بھی تحریم ان جملوں کو نظرانداز کرتے ہوئے سٹوڈیو میں جاتیں اور پروگرام ریکارڈ کرواتیں۔ ان کا پانچ سال سے یہی معمول تھا مگر آج جب انھوں نے اپنے کانوں سے یہ گالی سنی تو فیصلہ کیا کہ اب وہ خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ چند ماہ بعد تحریم کراچی کے ایک متمول علاقے میں موجود عدالت کے کمرے کے باہر بیٹھی تھیں۔ اُن کے مقدمے کو کئی مہینے گزر چکے تھے اور ان کے پاس دستاویزات کا ایک پلندہ تھا۔ ’میڈم آپ کے وکیل آج نہیں آ رہے۔‘ تحریم منیبہ نے حیرت سے دوسری پارٹی کے وکیل کو یہ کہتے سُنا اور اس وقت انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنا مقدمہ خود لڑیں گی۔ یوں ان کی زندگی کا ایک ایسا کٹھن سفر شروع ہوا جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’میں آج وہ نہیں رہی جو دو سال پہلے تھی۔ اس مقدمے نے میری زندگی اور میرا کریئر دونوں ہی بدل دیے ہیں۔‘وہ پانچ اگست 2016 کا دن تھا۔ ’بھائی کل بارش ہوئی۔ تحریم ٹائٹس پہن کر آئی ہوئی تھی۔ یہاں ٹیرس پر کھڑے ہو کر چائے پی رہی تھی۔ میں بھی یہیں کھڑا تھا۔ بلال مجھے ڈھونڈتا ہوا آیا۔ وہ آواز لگانے لگا۔ میں نے اسے اشارہ کیا ’چپ کر، اِدھر آ۔۔۔ وہ خاموش ہو گیا، میرے پاس آیا۔ پھر ہم دونوں نے مل کر چائے کے ساتھ جو مزے لیے۔ بھائی وا��ٹ کلر کی ٹائٹس اور یہاں بالکونی میں تیز ہوا چل رہی تھی۔ اب تو خود سوچ لے، کیا کیا نظر آ رہا ہو گا۔‘یہ الفاظ تحریم کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے عدیل نامی شخص کے تھے جو عدالت میں اس مقدمے کے واحد گواہ دانش نے بیان کیے ہیں۔ دانش نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ دفتر کے ایک ساتھی اور سپروائزر ایاز ابڑو نے دفتری ماحول خواتین کے لیے نہایت مشکل بنا دیا تھا۔ خود تحریم کے عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق ایک دن جب وہ سٹوڈیو جا رہی تھیں تو ان کے ایک ساتھی ان کے پیچھے چل رہے تھے، جس پر ایاز ابڑو نے بلند آواز میں کہا ’او بھائی، تو اِدھر آ جا۔۔۔ تجھے چُوس لے گی۔‘تحریم نے مڑ کر انھیں دیکھا، سر جھکایا اور اپنے کام میں مگن ہو گئیں۔ ایک دن جب وہ دفتر میں کوریڈور سے گزر رہی تھیں، ملزمان میں شامل زنیر شاہ نے انھیں دیکھا اور کہا: ’تربوز کا موسم تو نہیں آیا ابھی، لیکن آفس میں کیوں نظر آ رہے ہیں؟‘تحریم نے یہ الفاظ سنے اور سوچا کہ ان جملوں کا جواب دینے کی بجائے کام پر توجہ دینا زیادہ مناسب ہے اور وہ خاموشی سے کوریڈور سے گزر گئیں۔ مگر یہ سلسلہ نہ رکنا تھا اور نہ ہی رکا۔ان کی سوچ کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب انھیں عدالت کے ایک اہلکار نے آئندہ سماعت کی تاریخ بتائی۔ کمرہ عدالت کے باہر اب بھی چہل پہل تھی۔ کئی خواتین آتی ہیں، ہاتھوں میں فائلیں تھامے وہ اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں۔ یہاں آنے والی خواتین کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ کچھ خواتین اپنے وکیل کے ہمراہ ہوتی ہیں اور کچھ خود ہی اپنا مقدمہ لڑنے آ جاتی ہیں۔ایسے میں انتظار گاہ میں وہ ملزمان بھی موجود ہوتے تھے جن پر ان خواتین نے ہراساں کرنے کے الزامات لگائے ہوں۔ تحریم نے ان چند مہینوں میں یہ مشاہدہ کیا تھا کہ ہراسانی کے مقدمات میں ملزمان تنہا نہیں ہوتے، عام طور پر ان کے ساتھ ایک مجمع ہوتا ہے۔ یہ ان کے ساتھی ہوتے ہیں، ان کے وکلا اور ان کے دوست بھی ساتھ آتے ہیں۔ ادارے کے دیگر اہم عہدیدار بھی آتے ہیں۔ یہ سب شکایت درج کرانے والی خاتون کے لیے اعصابی تناؤ کا سبب تو بنتا ہی ہے مگر اس کمرۂ عدالت تک آنے والی خواتین پہلے ہی بہت کچھ سہہ کر آتی ہیں۔’میں خود بھی تو انھی میں سے ایک ہوں۔‘ یہ سوچتے ہوئے تحریم نے ثبوتوں کی فائل کو مضبوطی سے تھاما اور گھر کے لیے روانہ ہو گئیں۔عدالت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی ہراسانی ہی کے کسی مقدمے میں فریق ایک مرد کے ساتھ ہجوم سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ ’شاید جج صاحب کے پاس اگلا نمبر ان کا ہے۔ مردوں کی اکثریت عام طور پر ہجوم میں ہی کیوں ہراساں کرتی ہے، کیا سب کی سوچ ایک سی ہے؟‘خود سے یہ سوال کرتے ہی انھیں وہ دن یاد آیا جب دفتر میں ان کے دو ساتھی عدیل اور نعمان بٹ کوریڈور میں کھڑے تھے جہاں انھوں نے تحریم کو روک کر کہا ’یہ خواتین کے مزاج کے مسائل کیوں ہوتے ہیں؟‘ تحریم نے انھیں جواب دیا، ’میں نہیں جانتی لیکن مجھے یہ علم ہے کہ خواتین بہتر مزاج رکھتی ہیں۔‘اس پر نعمان بٹ نے جواب دیا ’جنت تو عورت کے قدموں کے نیچے نہیں بلکہ۔۔۔ بیچ میں ہوتی ہے۔‘ جب نعمان بٹ یہ جملہ کہہ رہے تھے تو ان کے ساتھ کھڑے ساتھی نے اسے مکمل کرنے میں مدد دی۔ تحریم کا سر شرم سے جھک گیا، وہ بنا کچھ کہے تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں مگر ان دونوں کا بلند قہقہہ دیر تک انھیں سنائی دیتا رہا۔ اسی طرح ایک روز جب تحریم ایک ٹی وی انٹرویو کے بعد دفتر پہنچیں تو ملزم زنیر شاہ نے انھیں دیکھ کر ذومعنی انداز میں کہا، ’آپ کیا چاہتی ہیں ہم آج گھر نہ جائیں؟‘یہ گذشتہ پانچ برس کے دوران تحریم کے ساتھ پیش آنے والے درجنوں واقعات میں سے چند ایک ہیں اور انھیں مقدمے کی فائل میں درج کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ یہ ان کے لیے اس قدر مشکل تھا کہ ان کے مقدمے کے گواہ سے جب انھوں نے درخواست کی کہ وہ کچھ واقعات شیئر کریں تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ وہ سب کچھ لکھ کر عدالت میں تو جمع کروا سکتے ہیں مگر ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ الفاظ اپنی زبان پر لا سکیں۔ جو واقعہ یہ مقدمہ لڑنے کی وجہ بنا وہ اگست 2018 کا ہے جب پروگرام کی ریکارڈنگ سے قبل ان کے سٹوڈیو میں بدبودار جوتے رکھے گئے۔ جب انھوں نے اس بارے میں متعلقہ عملے سے سوال پوچھے تو کسی نے جواب نہ دیا تاہم انھوں نے اس وقت ان کی بات سن لی جب وہ سٹوڈیو کے دروازے کے قریب تھیں۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا ’اس کی ماں کی۔۔۔ تُو دیکھ میں کرتا کیا ہوں اِس کے ساتھ۔۔۔ ہے کیا یہ۔۔۔ ابھی ای میل کرتا ہوں، شو (پروگرام) کرتی ہے نا یہ؟ اِس کی اوقات کیا ہے؟ اس کی ماں کی۔۔۔ تین گھنٹے کا شو ہے نا؟‘ تحریم نے اس واقعے کے بعد دفتر میں ہی شکایت درج کرائی مگر واقعے میں ملوث تمام افراد کو کلین چٹ دے دی گئی۔ ثبوت مٹانے کے لیے اس دن کی سٹوڈیو کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ڈیلیٹ کر دی گئی تھی۔تحریم کے ادارے نے ماضی میں ان پر نازیبا جملے کسنے کے معاملے کو اس بنیاد پر خارج کر دیا گیا کہ خاتون نے اس سے پہلے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی ان کے پاس ثبوت ہیں جبکہ جن پر نازیبا جملے کسنے کا الزام ہے ان کے ساتھی کارکنوں نے ایسے کسی رویے کی تردید کی ہے۔ ان کے دفتر نے یہ بھی کہا کہ ’گالی دینا ہراساں کرنے کے مترادف ہی نہیں ہے۔‘اس واقعے کے بعد تحریم کو احساس ہوا کہ وہ اب اس ماحول میں مزید کام نہیں کر سکتی ہیں۔ لہٰذا انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس استعفے اور ادارے میں خواتین کے لیے سازگار ماحول نہ ہونے سے متعلق ٹویٹ بھی کی۔ ان کی ٹویٹ کو بنیاد بنا کر دفتر کے حکام نے ٹھیک دو روز بعد ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا اور انھیں 50 کروڑ روپے کا ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا۔ یہ مقدمہ تادمِ تحریر سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ تحریم کہتی ہیں ’یہ بہت بڑا امتحان تھا۔ میں ایک مہینہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ میں نفسیاتی مریض بن گئی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر میں نے کیا کیا ہے۔ میں سوچتی تھی کہ میں اتنی بڑی رقم کیسے دوں گی اور یہ کہ میں اس قدر مضبوط گروپ کا مقابلہ کیسے کروں گی۔‘انھیں لگنے لگا کہ ان کی زندگی اور ان کا کریئر سب ختم ہو گیا ہے مگر ایک ماہ بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہراساں کیے جانے کے خلاف مقدمہ دائر کریں گی اور ان تمام افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لائیں گی جو ان کی اس قدر تذلیل کرتے رہے کہ وہ نفسیاتی مریض بن رہی تھیں۔ انھوں نے سما ایف ایم نامی نجی ریڈیو ادارے کے چیف آپریٹنگ افسر فہد ہارون سمیت یہاں کام کرنے والے سات افراد محمد شعیب، محمد نوید، نعمان بٹ، عدیل اختر، رضوان چودھری، ایاز ابڑو اور زنیر شاہ کے خلاف ہراسانی کا مقدمہ درج کروا دیا۔ واضح رہے کہ فہد ہارون اس وقت وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے اطلاعات تعینات ہیں۔ وہ پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔یہ شکایت کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف ایکٹ 2010 کے تحت صوبائی محتسب کی عدالت میں درج کی گئی اور یوں دو سال کا ایک کٹھن سفر شروع ہوا۔’چکنی لگ رہی ہو‘، ’آج تو غالب کا پاجامہ پہن کے آئی ہو‘، ’آج تو کالج کی بچی لگ رہی ہو‘، ’ارے دیکھو، جیکولن فرنینڈس کو، یہ فرنینڈس جیسی لگتی ہے نا‘، ’ارے یہ تو وہی پاجامہ ہے نا جو تم نے پرسوں پہنا تھا؟‘اس سفر کے دوران انھیں کئی بار یہ سب اور بہت کچھ کمرۂ عدالت میں دہرانا پڑا۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا مگر بالآخر اس سفر نے ختم ہونا تھا۔ تین ماہ میں مکمل ہونے والے مقدمے نے وکلا کی بار بار عدم حاضری کے باعث اس قدر طول پکڑا کہ آخرکار انھیں مقدمہ خود اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔تحریم کے لیے اس مقدمے کی سماعتوں کے دوران ایک مشکل دن وہ تھا جب انھیں علم ہوا کہ انھی کے دفتر کی دو خواتین ان کے خلاف گواہی دیں گی۔ ان میں سے ایک ثنا فاطمہ نے عدالت کو ملزمان کے حوالے سے بتایا کہ وہ ’میرے ساتھ نہایت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں اور کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا‘ اور یہ کہ انھوں نے ’دو مختلف مواقع پر شکایت کنندہ (تحریم) کو ملزمان کے ساتھ دیکھا اور انھیں قطعاً ایسا نہیں لگا کہ ان میں عزت و احترام کا تعلق نہیں ہے۔‘جب وہ یہ بیان دے رہی تھیں تحریم کو انگریزی فلم ’اینیمی آف دی سٹیٹ‘ یاد آئی جس میں مرکزی کردار کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے تھے۔ تاہم وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ ہراسانی کے کسی بھی مقدمے میں شکایت کنندہ کی کردار کشی ایک عام سی بات ہے اور ہراساں کرنے والے شخص کے کردار کی گواہی دینے والے ساتھیوں کا سامنے آنا بھی ہرگز غیر معمولی نہیں۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ عدالت بھی ایسے ہتھکنڈوں کو سمجھتی ہے اور عام طور پر جھوٹی گواہیاں اور کردار کشی جرح کے وقت خاک میں مل جاتی ہیں۔ انھیں اپنی ساتھی خواتین کے بیانات پر افسوس تو تھا مگر یہ تسلی تھی کہ عدالت میں یہ قابلِ قبول نہیں ہوں گی اور ایسا ہی ہوا۔ عدالت میں جرح کے دوران ان خواتین گواہان نے تسلیم کیا کہ انھوں نے جس گواہی کی دستاویز پر دستخط کیے وہ انھوں نے خود نہیں لکھی تھی بلکہ دفتر کی جانب سے ان کے گھر دستخط کے لیے بھیجی گئی تھی۔ یوں عدالت نے ان کی گواہی کو رد کر دیا۔ ملزمان کی جانب سے سماعت کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ گالی دینا یا جملے کسنا جنسی ہراس کے زمرے میں نہیں آتا اور یہ بھی کہ تحریم اس سے قبل ایسے تمام واقعات پر خاموش رہی ہیں اور کبھی شکایت درج نہیں کرائی، اس لیے یہ کیس خارج کیا جائے۔ تاہم ملزمان اپنی صفائی میں نہ تو کوئی ٹھوس ثبوت اور نہ ہی ایسے دلائل پیش کر کے جس سے ان کی بے گناہی ثابت ہو سکے۔ ان کی گواہیاں عدالت نے رد کر دیں، جبکہ ایک ملزم کی مختلف مواقع پر غلط بیانی بھی سامنے لائی گئی۔ سی سی ٹی وی کیمرے کے حوالے سے عدالت میں ادارے کے سی او او فہد ہارون نے بیان حلفی میں سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی سے ہی انکار کر دیا تھا، تاہم جرح کے دوران انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کا بیان غلط تھا کیونکہ سٹوڈیو میں کیمرہ موجود ہے۔انتظامیہ کے سربراہ علی احترام نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے واقعے کی صبح سٹوڈیو میں نصب کیمرے چیک کیے تھے جو بالکل ٹھیک کام کر رہے تھے تاہم یہ ان کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ واقعے کے دن سمیت نو دن کی فوٹیج غائب ہے۔ علی احترام نے تردید کی کہ انھوں نے شکایت کنندہ کو واقعے کے چند روز بعد فون پر یہ بتایا تھا کہ پاس ورڈز کا غلط استعمال کرتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کر دی گئی ہے تاہم تحریم کی جانب سے فون کالز کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کیے جانے کے بعد انھوں نے ان تمام الزامات کو تسلیم کر لیا۔ عدالت میں دیگر تمام ملزمان نے بھی بالآخر اعترافِ جرم کیا۔مقدمے کے فیصلے کی دستاویز میں دیگر اہم نکات میں سے ایک اہم وضاحت کی گئی ہے کہ ہراسانی کا مقدمہ دائر کرنے میں تاخیر کو وجہ بنا کر کسی کو ہراساں کرنے والے شحص کو بری نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’مظلوم کی خاموشی اُسے اس کے حق سے دستبردار کرتی ہے نہ ہی مجرم کو اس کے جرم سے آزاد کر سکتی ہے اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کے اس حق کا تحفظ یقینی بنائے۔‘عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ تحریم کو ناسازگار ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا، جس کے ان ذہنی صحت اور شخصیت ہر سنجیدہ اثرات مرتب ہو��ے۔ عدالت نے ملزمان کی جانب سے استعمال کیے تمام الفاظ اور جملوں کو متعصبانہ، غیر اخلاقی، گالی اور جنسی بنیادوں پر ادا کیے گئے جملے قرار دیا۔عدالت نے کہا کہ ان جملوں نے شکایت کنندہ کی عزت نفس اور ان کے وقار کو مجروح کیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر یہ الزامات مکمل طور پر سچ نہ ہوں تو کسی بھی خوددار اور عزت دار خاتون کے یہ تصور بھی محال ہے کہ وہ اپنی ذات سے جڑے ایسے جملے عدالت کے سامنے دہرائے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ خواتین کے خلاف معاشرے میں موجود تعصب انھیں مقدمہ درج کرنے سے روکتا ہے، یہ تعصب کہ خاتون خود اپنے رویے، لباس، حتیٰ کہ محض اپنی موجودگی سے ہی ہراساں کیے جانے کی دعوت دیتی ہے۔ اس لیے خواتین خاموشی اختیا�� کرتی ہیں کہ کہیں ان کی عزت، نوکری اور مستقبل ہی داؤ پر نہ لگ جائیں۔ دو سال بعد بالآخر تحریم کا مقدمہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ عدالت نے ان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے تمام ملزمان کو ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ تحریم چاہتی تھیں کہ جب یہ تھکا دینے والی جنگ ختم ہو تو ان کے پاس ان کے اپنے موجود ہوں، اس لیے وہ فیصلہ سننے کے لیے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ عدالت آئی تھیں۔ فیصلہ سنتے وقت ان کی انکھوں میں آنسو تھے اور وہ سوچ رہی ہیں کہ ان دو برس نے ان کی زندگی کیسے بدل دی۔ تحریم اب بے روزگار ہیں لیکن فی الحال ان کی زندگی میں عدالت کے چکر ختم نہیں ہوئے کیونکہ اب وہ سندھ ہائی کورٹ میں ہتک عزت کے اس مقدمے کی سماعت میں دلائل کی تیاری کر رہی ہیں جو سما ایف ایم نے ان کے خلاف دائر کر رکھا ہے۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes