Tumgik
#سپر پاور
emergingpakistan · 1 year
Text
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری
Tumblr media
 پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تو سابق کیا، موجودہ حکمرانوں کی گرفتاریاں، مقدمات حتیٰ کہ پھانسی کی سزائیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے ایک سابق صدر کو ایک دو نہیں 34 فوجداری الزامات میں گرفتار کر لیا گیا اور ملزم گرفتاری دینے کے لئے خود عدالتی کمپلیکس پہنچا۔ امریکہ میں تاریخ رقم کرنے والے یہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہیں اپنے کاروبار سے متعلق جھوٹے بیانات پر گرفتار کر لیا گیا۔ ارب پتی ٹرمپ جو اپنی شعلہ بیانی اور بڑبولا ہونے کی شہرت رکھتے ہیں گرفتاری خود دی اور اس مقصد کے لئے فلوریڈا سے اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں طویل فاصلہ طے کر کے نیویارک پہنچے ۔ 
Tumblr media
عدالتی کمپلیکس کے باہر ان کے حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد موجود تھی جو ان کے حق یا مخالفت میں نعرے لگارہے تھے تاہم اس موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے جس کی وجہ سے توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کا مظاہرہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں اکثرکیا جاتا ہے۔ عدالت میں ٹرمپ کے فنگر پرنٹس لئے گئے اور تصویریں کھینچی گئیں۔ پھر رہا بھی کر دیا گیا۔ ان پر باقاعدہ مقدمہ کی کارروائی دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ پاکستان ہوتا تو ٹرمپ گرفتاری دینے کے لئے اتنا کلف نہ کرتے اور کہہ دیتے کہ میں گرفتار ہونے کو تیار ہوں مگر میرے کارکن اجازت نہیں دیتے۔ مگر یہ امریکہ ہے جہاں اس کے ایک سابق طاقتور صدر نے بلا جوں وچرا خود کو قانون کے حوالے کر دیا۔ ان کے اس فعل کے پیچھے کئی سبق پنہاں ہیں جو پاکستان یا ایسے ہی دوسرے ممالک میں نظر نہیں آتے۔ قانون کی عملداری کی یہ نظیر امریکہ جیسے جمہوری ملکوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
pakistanpress · 3 months
Text
غزہ کا مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
تھامس فریڈ مین ایک مغربی صحافی ہیں انھوں نے اسرائیل حماس کے حوالے سے غزہ جنگ کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے شروع دن سے ہی یہ فکر لاحق تھی کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے کسی منصوبہ بندی کے بغیر حملہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات میں ایک ہفتہ قیام اور عرب دنیا کے لوگوں کے خیالات اور احساسات جاننے کے بعد میری اس فکر اور تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل پر امریکا اور دیگر اتحادیوں کا شدید دباؤ ہے کہ اسرائیل جلد از جلد اس جنگ کو ختم کرے۔ جب کہ اسرائیل کے مطابق حماس نے غزہ میں زیر زمین سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ اس لیے وہ ان سرنگوں کا خاتمہ کیے بغیر اس جنگ کو ختم نہیں کر سکتا۔ فریڈ مین کہتے ہیں کہ حماس نے پہلے تو اسرائیل کے خلاف ایک ناقابل یقین حملے کا منصوبہ بنایا اور پھر اس پر پوری شدت سے حملہ کر دیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اسرائیل کو اتنا اشتعال دلایا جائے کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر ایک جنگی مہم کا آغاز کر دے اور اسرائیل نے اس جال میں پھنس کر بالکل ایسا ہی کیا جیسا کہ حماس والوں نے منصوبہ بنا رکھا تھا اور ہم آج تک اس کے نتائج کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ہنری کسنجر جنکی حال ہی میں وفات ہوئی ہے انھوں نے بھی بالکل یہی بات کہی کہ اسرائیل نے اس معاملے میں سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کی مدد حاصل کرنے کے بجائے حماس کے جال میں پھنس کر غزہ پر فوری حملہ کر کے غیر دانشمندانہ اقدام کیا۔ اسرائیل کا پلان یہ تھا کہ حماس کی ملٹری مشین کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے اور اس کی اعلیٰ قیادت کا پوری طرح صفایا کر دیا جائے۔ اسرائیل نے غزہ کے ہزاروں بے گناہ باسیوں کو شہید اور زخمی کیا ہے۔ حماس کو اس امر کا بھر پور ادراک تھا کہ ایسا ہی ہو گا اسی لیے اس نے اس پلان کے نتائج کی سنگینی کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک بڑے انسانی المیہ کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے جس کے ازالے کے لیے ہمیں برسوں مل کر غزہ کی تعمیر نو کا کام کرنا ہو گا۔ حال ہی میں دی ٹائمز نے انکشاف کیا کہ سیٹلائٹ سے ملنے والی تصاویر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ کے ہر کونے میں بھاری تباہی ہوئی ہے۔ کم از کم 6 ہزار عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں جس میں سے ایک تہائی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
Tumblr media
غزہ کی تعمیر نو اربوں ڈالر کا پر��جیکٹ ہو گا اور اس میں کئی برس لگ جائیں گے۔ یہاں عرب دنیا میں ہونے والی میری بات چیت کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی خلیجی ملک رقم سے بھرے بیگ لے کر غزہ نہیں آرہا تاوقتیکہ اسرائیل دو ریاستی حل پر مذاکرات کا وعدہ نہ کرے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک انٹرویو میں یو این او میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا کہ غزہ میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو پر بات کرنے سے پہلے ہمیں دو ریاستی حل کے منصوبے کو قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاض میں سعودی حکام اور پھر امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد جب سے میں یہاں آیا ہوں مجھے جو بات سب سے زیادہ پر امید نظر آئی ہے وہ یہ کہ جب غزہ کی جنگ ختم ہو جائے گی تو مذاکرات کا سلسلہ اسی مرحلے سے شروع ہو گا جو سات اکتوبر کے حملوں سے پہلے جاری تھا۔ سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اسرائیل فوری طور پر غزہ میں جنگ بند کر دے کیونکہ غزہ میں موت اور تباہی سے فلسطینیوں کی نوجوان نسل میں شدت پسندی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
عرب ممالک کا خیال ہے کہ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر نیست و نابود نہیں کر سکتا۔ انھیں یہ تشویش ہے کہ ایسا کرنے کی کوشش کے دوران غزہ کو اس قدر نقصان پہنچ جائے گا کہ اس کے بہت ہی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ بلاشبہ میں یہ جانتا ہوں کہ سعودی امریکی اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کا یہ سلسلہ بحال کرنا کتنا مشکل ہو گا خواہ اسرائیل میں کتنی ہی اعتدال پسند حکومت کیوں نہ قائم ہو۔ وہ فی الحال ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی جب کہ اس وقت تو اسرائیل میں انتہائی جنونی عناصر امور حکومت چلا رہے ہیں۔ جو اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ مغربی کنارے کو بھی اسرائیل میں ضم کر لیا جائے اور جو ان میں انتہائی شدت پسند ہیں وہ غزہ کو بھی اسرائیل میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ تباہی کے بعد غزہ ایک ایسا دیو بن کر سامنے آئے گا جو اپنے سینے کے زخموں کو خود ہی چاٹ رہا ہو گا جس سے اسرائیل کو عسکری معاشی اور اخلاقی نقطہ نظر سے بہت نقصان پہنچائے گا اور یہ اس کے سرپرست امریکا کی سپر پاور حیثیت کو بھی متاثر کرے گا اور اسے ایک دیر پا نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل اس طویل مدتی سیاسی وژن پر پیش رفت نہیں کرتا کہ دنیا غزہ میں تعمیر نو کے لیے فنڈز دینے پر تیار ہو تو اسے سفارتی اور معاشی میدان میں سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ لیکن اس وقت اسرائیل پر جو مذہبی جنونی دہشت گرد ٹولہ حکومت کر رہا ہے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ خالی کروانے پر تلا ہوا ہے دراصل اس کا مشرق وسطیٰ پر مکمل قبضے کا یہ ابتدائی منصوبہ ہے۔
زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 4 months
Text
’تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے‘
Tumblr media
صرف 24 لاکھ لوگ یعنی شنگھائی کی آبادی کا بھی 5 فیصد اور ایک سپر پاور نے انہیں دھمکانے کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیے تاکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بن یامین نیتن یاہو کو اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا جا سکے۔ سلام ہے غزہ کے لوگوں کو۔ کیا اسرائیلی حملے کی مزاحمت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ بھی کوئی بہادر ہوسکتا ہے؟ حیرت انگیز بات تو امریکی، برطانوی اور فرانسیسی لیڈروں کا ایک صف میں کھڑے ہونا اور نیتن یاہو کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہیکلِ ثالث کا مستقبل تھرڈ رائیخ سے مختلف ہو گا۔ یہ ہیکل ثالث بھی ارضِ اسرائیل کے لیے مزید زمین چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے رائیخ کو لیبینسروم درکار تھا۔ نازی تو روس میں زمین کے متلاشی تھے جبکہ صہیونی، جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے درست طور پر اشارہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی قیمت پر ایسا چاہتے ہیں۔ مزید زمین کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اسرائیلی لالچ کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کی بات نہ کی جائے کیونکہ یہ نیتن یاہو کی خواہش نہیں۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے اور اسے ویٹو بھی حاصل ہے۔ امریکی مندوب تو محض وائٹ ہاؤس کے ذریعے اسرائیل سے آنے والے احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے حکم سے انکار کے کیا نتائج ہوں گے۔ نومبر کے آخر میں، اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یرغمالیوں کے تبادلے کے بعد، نیتن یاہو نے غزہ کے شہری اہداف پر دوبارہ بمباری شروع کر دی، اور سلامتی کونسل جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ عام طور پر، جب سلامتی کونسل کوئی مشکل جغرافیائی سیاسی مسئلہ اٹھاتی ہے اور مندوبین کسی حل پر متفق ہونے میں ناکام رہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ یہ کرتے ہیں کہ خونریزی کے خاتمے کے لیے ایک بے ضرر قرارداد منظور کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، اس طرح کی تحریک اسرائیلی غصے کو جنم دے گی، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کی جاری نسل کشی کو روک دے گی۔
Tumblr media
اسرائیل کے وفادار اتحادیوں کے طور پر، کونسل کے مغربی اراکین نے جنگ بندی کی قرارداد کو روک کر ایک ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جیسے ڈاکٹر بے ہوش کیے بغیر کسی مریض کا آپریشن کر دے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہمیں بیلسن اور ٹریبلنکا میں رائیخس فیوہرر ہملر کی ایس ایس کے فوجیوں کی یاد دلاتی ہے۔ صہیونیوں کو صرف لوگوں قتل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زخمی اور حاملہ خواتین کو درد سے کراہتے ہوئے اور اس طبی امداد کے انتظار میں دیکھ کر افسوسناک خوشی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے جو ایسا لگتا تھا کہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ توقع کے عین مطابق واشنگٹن نے رفح میں اسرائیلی ہدایات کی تعمیل کی۔ اسرائیل کے حکم پر اور مصری حکومت کے تعاون سے خوراک اور طبی سامان لے جانے والے طیارے العریش ہوائی اڈے پر اترے اور سامان لے جانے والے ٹرک رفح جانے کے بجائے 206 کلومیٹر طویل مصری اسرائیل سرحد پر کسی رابطہ مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ معائنے کے بعد وہ رفح کراسنگ پر گئے جہاں اسرائیلی حکام نے زخمیوں اور امداد کے منتظر لوگوں کو امداد کی جلد فراہمی روکنے کے لیے اس عمل میں مزید تاخیر کی۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک یہودی ریاست ہے لیکن دو صہیونی حکومتیں ہیں، ایک مقبوضہ بیت المقدس میں اور دوسری واشنگٹن میں۔ مؤخر الذکر یروشلم کی حکومت کے تابع ہے، اس کا کام بنیادی طور پر اسرائیل کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ الاہلی ہسپتال پر بمباری کے جرم سے لیکود پارٹی کی حکومت کو بری الذمہ کرنے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے پر غور کریں۔ بائیڈن کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی، وہ اسرائیل میں تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف وہی بات دہرائی جو ��یتن یاہو نے ان سے کہی تھی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ ایک اسرائیلی میزائل تھا جس نے ہسپتال کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ کیا امریکی سیاست پر صہیونی اثرات مبالغہ آمیز ہیں؟ دو امریکی پروفیسر، جان جے میرشیمر اور اسٹیفن ایم والٹ کی کتاب ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں اس کا ایک علمی جواب ملتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لیکود پارٹی کی حکومت ’اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت‘ ہے اور یہ کہ نیتن یاہو کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کرسکتا‘۔ تاہم اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں سچائی ایک ایسے شخص نے بیان کی جو ہر لحاظ سے صہیونی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے صبرا شاتیلہ میں قتل عام کی وجہ سے بیروت کا قصائی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں کابینہ کے اجلاس کے دوران، اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی وزیر اعظم ایریل شیرون کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ایریل شیرون نے غصے میں آتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ مجھے کہتے ہیں کہ امریکی ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے۔ ’میں آپ کو ایک بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، اسرائیل پر امریکی دباؤ کی فکر نہ کریں، ہم، یہودی لوگ، امریکا کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اسے جانتے ہیں‘۔ یہ خبر ایک اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کول اسرائیل نے نشر کی تھی۔
محمد علی صدیقی  یہ مضمون 16 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
اقتصادی ترقی : چین سے کیا سیکھیں؟
Tumblr media
عوامی جمہوریہ چین کے 74ویں یوم تاسیس پر جہاں پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور اہم شخصیات دونوں ممالک کی لازوال دوستی کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہیں ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے چین آج دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور بن چکا ہے اور ہم دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران غیر معمولی اقتصادی ترقی کا تجربہ کیا ہے، جس سے وہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک ماڈل بن گیا ہے۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں نظریاتی اختلافات کے باوجود چین سے تعلقات کے معاملے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح چین نے بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ چین نے پاکستان کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ بھی اسی لئے شروع کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے معاشی تعلقات میں اضافہ کیا جائے۔ 
64 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر سنکیانگ کو گوادر سے سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کے ذریعے کارگو، تیل اور گیس کی ترسیل کیلئے ملایا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے اور لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیلئے متعدد بجلی گھر بھی کام شروع کر چکے ہیں جبکہ کچھ دیگر منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ صنعتی تعاون کے اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بننے والے نو خصوصی ترجیحی اکنامک زونز ہیں جہاں پر چینی کمپنیوں نے صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور روزگار فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے چار اکنامک زونز کو فاسٹ ٹریک پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت پنجاب کا واحد اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد میں بنایا جا رہا ہے جس کا 35 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ رشاکائی اسپیشل اکنامک زون خیبر پختونخواپر 30 فیصد، بوستان اسپیشل اکنامک زون بلوچستان پر 20 فیصد اور دھابیجی اسپیشل اکنامک زون سندھ پر پانچ فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔ 
Tumblr media
اس سلسلے میں طے شدہ اہداف کے مطابق تمام اکنامک زونز 2020ء تک مکمل ہونے تھے تاہم کورونا کی وبا کے باعث ان کی تکمیل تاخیر کا شکار ہوئی لیکن اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ اکنامک زونز جلد سے جلد مکمل ہو جائیں گے جس سے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ چین کے سرمایہ کار پاکستان کی ترقی اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے حوالے سے جو اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا بطور چیئرمین فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (فیڈمک) میں خود مشاہدہ کر چکا ہوں۔ فیڈمک کے زیر انتظام بننے والے سی پیک کے سب سے بڑے ترجیحی اسپیشل اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹری سٹی کا سنگ بنیاد جنوری 2020ء میں رکھا گیا تھا۔ اس اکنامک زون میں چین کی 150سے زائد کمپنیاں اور سرمایہ کار تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں فیڈمک کی طرف سے سرمایہ کاروں کو دس سال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس اکنامک زون میں بعض صنعتی یونٹس کی جانب سے پروڈکشن یونٹس لگا کر پیداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ چینی سرمایہ کار اس اکنامک زون سمیت ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
چین سے صنعتی تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے بھی چین کی پیروی کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ چین نے 40 سال کی مدت میں 80 کروڑ چینی عوام کو غربت سے نجات دلا کر انسانی تاریخ کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین نے پاکستان سے دو سال بعد آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کا یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی فوجی اور اقتصادی قوت ہے۔ اس لئے اگر ہم بھی چینی تعاون سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلیں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہ صرف غربت سے نجات حاصل کر سکتا ہے بلکہ صنعتی ترقی کی حقیقی منزل سے بھی ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ چین تخفیف غربت کیلئے پاکستان سے تعاون کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں دونوں ممالک کے مابین مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہو چکے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان غربت کے خاتمے کیلئے چین کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ اسی طرح پاکستان کو چین کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے تعلیم اور افرادی قوت کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ 
ملک میں بہتر ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک سے جدید معیشت بنایا جا سکے۔ چینی ماڈل کے مطابق ہمارے لئے دوسرا اہم قومی ہدف گرین انرجی اور پائیدار ترقی کا فروغ ہونا چاہیے۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے، آلودگی کم کرنے اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہم چین کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے حقیقی معنوں میں عالم اسلام اور اقوام عالم کا ایک اہم رکن بننا ہے تو یہ ہدف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے ہی چین نے ای کامرس، ٹیلی کمیونیکیشن اور مینوفیکچرنگ سمیت مختلف شعبوں کو فروغ دیا ہے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
اٹھائیس دن میں سب نکل جائیں گے؟
Tumblr media
حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطنوں 28 دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑ دو، ورنہ۔۔۔ اگر بچے سکول میں پڑھتے ہیں تو سکول والوں کو بتا دو، اگر اتنے غریب ہو کہ بچے کسی ورکشاپ، کسی دکان میں کام کرتے ہیں تو آخری ہفتے کی تنخواہ وصول کر لو، اگر بہت ہی زیادہ غریب ہو اور بچے کچرا اٹھاتے ہیں تو کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، کچرا اٹھانے والے کچھ اور بھی آ جائیں گے۔ اگر خود کہیں نوکری کرتے ہو تو نوٹس دے دو، اگر اتنے خوش قسمت ہو کہ اپنا گھر بنا لیا تھا تو کسی پراپرٹی ڈیلر کے ہاتھ چابیاں دو اور اونے پونے پیسے پکڑ لو، اگر کرائے کے گھر میں رہتے ہو یا کسی کچی بستی میں بسیرا ہے تو اپنی آخری جمع پونجی کسی پک اپ، کسی ٹرک والے کو دو، سامان لادو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ اگر پلے کوئی پیسہ نہیں تو شاید بیگم یا کسی بچی کے پاس بالیاں ہوں گی وہ بیچو، موٹرسائیکل یا سائیکل کا بھی کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔ اگر سب کچھ بیچ کر بھی واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تو بھی جیب میں کچھ پیسے رکھو۔
پولیس والے، سکیورٹی ایجنسیوں والے اور اب نادرا والے بھی تمھاری تلاش میں ہیں، جب وہ تمھاری جھونپڑی تک پہنچیں تو وہ پیسے اُن کی جیب میں منتقل کرنا، پیروں کو ہاتھ لگانا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانا، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دینا، ہو سکتا ہے اُن کے دل میں رحم آ جائے اور وہ تمھاری جھونپڑی چھوڑ کر تمہارے ہمسائے اور اس کے بچوں کو اٹھا کر لے جائیں۔ کبھی یہ نہ کہنا کہ میں تو پیدا ہی اِسی دھرتی پر ہوا تھا، جس ملک میں تم مجھے واپس بھیج رہے ہو اسے تو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں، صرف ماں باپ سے اس ملک کی کہانیاں سنی ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر ڈراؤنی ہیں۔ سُنا تھا اس ملک میں ایک قانون بھی موجود ہے کہ اگر آپ یہاں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کے پاس یہاں رہنے کا قانونی حق موجود ہے۔ جب سرکاری ہرکارے تمہیں اس مملکت خداداد سے بے دخل کرنے آئیں تو پرانے قصے لے کر نہ بیٹھ جانا۔ یہ نہ یاد دلانا کہ ہمارے باپ دادا کا تو تم نے کُھلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ کیا ہم نے تمھارے ساتھ مل کر سوویت یونین کو پاش پاش نہیں کیا تھا؟ کیا ہمارے افغان آباؤ و اجداد کو تم نے امت مسلمہ کا ہراول دستہ نہیں کہا تھا؟
Tumblr media
یہ مت یاد کروانا کہ حکمنامے میں تو صرف غیر قانونی تارکین وطن لکھا گیا ہے لیکن اس بار نشانہ صرف افغان مہاجر اور ان کی وہ نسلیں ہیں جنھوں نے کابل قندھار صرف کہانیوں میں سُنا ہے اور وہ خالصتاً پاکستان کی ’جم پل‘ ہیں۔ یہ بھی مت کہنا کہ اس ملک میں لاکھوں بنگلہ دیشی بھی ہیں، جو بنگلہ دیش بننے سے بہت پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں، انھوں نے نہ کبھی ملک سے غداری کی، نہ دہشت گردی کی، نہ کوئی مذہبی جتھہ بنایا لیکن پھر بھی ان کی تیسری نسل کچی بستیوں میں بغیر شناختی کارڈوں کے ریاست کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔ ہاتھ باندھ کر یاد دلانا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ کب سے پاکستان میں رہنے والے سارے افغان دہشت گرد، منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہو گئے۔ دہشت گرد اپنی کارروائی سے پہلے شناختی کارڈ نہیں لیتے، نہ ہی انھیں پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ یاد مت کرانا کہ جو طالبان رہنما پاکستان کی سرحدوں کے اندر مقیم تھے انھیں پاسپورٹ کہاں سے جاری ہوئے تھے۔
کیا سویت یونین کے بعد ہم نے افغانستان میں ایک دوسری سپر پاور امریکہ کو آپ کی مدد سے شکست نہیں دی۔ کیا ہم نے غلامی کی زنجیریں نہیں توڑیں، کیا آپ نے ہمارے لیے ’نصر من اللہ و فتح قریب‘ کی دعائیں نہیں دیں۔ کیا پاکستان کے طاقتور ترین جنرل اس فتح کا جشن منانے کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل نہیں پہنچے اور کیمروں کے سامنے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ نہیں کہا کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا؟ ہمیں یہ مت یاد دلانا کہ ہم افغانستان سے اپنے گھروں، کھیتوں، شہروں، دیہاتوں کو چھوڑ کر اس لیے بھاگے تھے کہ آپ کے چہیتے طالبان ہمیں مارتے تھے، دھندہ نہیں کرنے دیتے تھے، بچیوں کو سکول نہیں جانے دیتے تھے۔ ہم نے بھاگ کر اپنے آباؤ و اجداد کی طرح یہاں پناہ ڈھونڈی اب طالبان آپ کی بات نہیں سنتے (کیونکہ وہ غلامی کی زنجیریں توڑ چکے) تو آپ پاکستان میں ہمارے ساتھ وہی کریں گے جو طالبان نے ہمارے ساتھ افغانستان میں کیا تھا۔ حکمنامہ جاری ہو چکا کہ 28 دن میں پاکستان چھوڑ دو ورنہ۔۔۔ ایسے حکمناموں کا جواب ہم نے پہلے بھی سُن رکھا ہے: ’اگر نہ چھوڑیں تو۔۔۔‘
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
islamfamily · 10 months
Text
Quran Juz 26 Summary / Khulasa HaaMeem Urdu (قرآن جز 26 خلاصہ - حم)
#quranjuz26khulasaurdu #quranjuz26summaryurdu
#quranpara26khulasaurdu #quranpara26summaryurdu Do visit 👇
Tumblr media
0 notes
spitonews · 1 year
Text
پاک افغان سیریز؛ عماد وسیم، اعظم خان، احسان اللہ کو موقع ملنے کا امکان
سنئیر کھلاڑیوں کو آرام دیکر نوجوانوں کو موقع دینے کی تجویز زیر غور، ذرائع (فوٹو: فائل)  لاہور: شارجہ میں افغانستان کے خللاف رواں ماہ ہونے والی تین ٹی20 میچز کی سیریز کے لیے پاکستانی ٹیم کے انتخاب پر مشاورت شروع کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شاندار کارکردگی کے بعد پاور ہٹر اعظم خان، آل راونڈر عماد وسیم، فاسٹ بولر احسان اللہ اور لیگ اسپنر اسامہ میر کی شمولیت یقینی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
دورۂ یوکرین سے بائیڈن کے اشارے
عالمی لیڈران الفاظ کے سہارے ہی اپنے موقف کا اظہار نہیں کرتے، اپنے ہاؤ بھاؤ اورعمل سے بھی موقف کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا یوکرین کے دارالحکومت کیف اچانک پہنچ جانا محض اتفاق نہیں ہے، یہ امریکہ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے یوکرین دورے سے روس کے ساتھ یوروپ اور باقی دنیا کے ممالک کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ امریکہ کی طاقت کو سمجھیں، یہ سمجھیں کہ سپر پاور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
دورۂ یوکرین سے بائیڈن کے اشارے
عالمی لیڈران الفاظ کے سہارے ہی اپنے موقف کا اظہار نہیں کرتے، اپنے ہاؤ بھاؤ اورعمل سے بھی موقف کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا یوکرین کے دارالحکومت کیف اچانک پہنچ جانا محض اتفاق نہیں ہے، یہ امریکہ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے یوکرین دورے سے روس کے ساتھ یوروپ اور باقی دنیا کے ممالک کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ امریکہ کی طاقت کو سمجھیں، یہ سمجھیں کہ سپر پاور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
خلا میں امریکا کیلیے سب سے بڑا خطرہ کون؟
امریکا کو اس کرہ ارض پر اس وقت کوئی چلینج کر رہا ہے تو وہ ملک صرف چین ہے مگر یہ ملک اب خلا میں بھی سپر پاور کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک امریکی جنرل نے چین کو ’بڑا خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلحے کے دوڑ کی وجہ سے محض چند برسوں میں خلا کی صورتحال میں ’بنیادی سطح کی تبدیلی‘ واقع ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ چیلنجنگ خطرہ چین سے ہے تاہم یہ خطرہ روس سے بھی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 1 year
Text
یہ اچھی خبر نہیں ہے - پاکستان ٹوڈے کا منافع
یہ اچھی خبر نہیں ہے – پاکستان ٹوڈے کا منافع
ایک ماہر معاشیات کے طور پر جو اعداد و شمار، حقائق، اعداد اور رجحانات کو دیکھتا ہے، خبریں بری ہیں۔ پاکستان اگلے 75 سالوں میں سپر پاور نہیں رہے گا۔ دو ماہ قبل سیلاب میں 30 ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ پاکستان زوال کی کہانی کی نمائندگی کرتا ہے، اور ہمارے پاس ایسے اعداد و شمار موجود ہیں جو اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان انسانی ترقی کے انڈیکس میں پھسل گیا: 154 سے اب 189 ممالک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
کیا ٹی وی تیسری سپر پاور ہے
کل (سوموار) ٹیلی ویژن کا عالمی دن منایا گیا۔ انیس سو چھیانوے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رابطے، ترقی اور عالمگیریت کے فروغ میں ٹیلی ویژن کی کرداری اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اکیس نومبر کو ٹی وی سے معنون کر دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ریڈیو وجود میں آیا اور دوسری دہائی میں ٹیلی ویژن کی پیدائش ہوئی۔ برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ انیس سو چوبیس میں ایک اسکاٹش انجینئر جان لوئی بئیرڈ نے تصاویر کو لہروں کے ذریعے ایک مشین سے دوسرے مشین تک ارسال کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ جب کہ امریکیوں کا دعوی ہے کہ فلو ٹیلر فارن ورتھ نامی لڑکا جس کے گھر میں بجلی بھی نہیں تھی۔ اسے پندرہ برس کی عمر میں خیال آیا کہ ایسا کیا جائے کہ متحرک تصاویر کو ریاضیاتی کوڈ میں بدل کے ریڈیائی لہروں کے ذریعے ایک ایسے آلے تک منتقل کیا جا سکے جو ان لہروں کو دوبارہ ڈی کوڈ کر کے اسکرین پر دکھا سکے۔ فارن ورتھ کی کوششیں اکیس برس کی عمر میں بر آئیں جب الیکٹرونک بیم کے ذریعے اس نے ڈالر کی تصویر اپنی بنائی ایک مشین سے دوسری مشین تک بھیجنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
امریکی ٹی وی کی ایجاد کو اس کے عالمگیر اثرات کے اعتبار سے پندرھویں صدی میں جرمن چھاپہ خانے کی ایجاد کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔ اسے تیسری سپر پاور کا نام بھی دیا جاتا ہے اور بعض دل جلے اسے ایڈییٹ باکس بھی سمجھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن نے بطور ایک نئے موثر میڈیم آنے والے برسوں میں امریکی معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔ اور ان اثرات کو پھر باقی دنیا نے محسوس کیا اور اسی ماڈل کو اپنایا۔ انیس سو چالیس کے عشرے میں ٹی وی پر مصنوعاتی اشتہارات آنے لگے اور امریکا میں صارف کلچر (کنزیومرازم) کا تیز رفتاری سے فروغ ہوا۔ تجارتی اداروں نے اس میڈیم کا اتنے بڑے پیمانے پر تشہیری استعمال شروع کیا کہ کچھ لوگوں نے ٹی وی کو ایڈیٹ باکس ہونے کا طعنہ دیا۔ یہ تاثر پیدا ہونے لگا کہ ٹی وی دراصل مصنوعات کے منافع بخش فروغ کا ذریعہ ہے اور صارفین کو اس میڈیم سے جوڑے رکھنے میں اشتہارات کے بیچ کچھ ڈرامے اور روزمرہ دلچسپی کے موضوعات بھی شامل کر دیے جاتے ہیں۔
انیس سو پچاس تک دنیا میں صرف نصف کروڑ ٹی وی سیٹس تھے۔ ان میں سے دو تہائی امریکی گھرانوں میں تھے۔ آج ایک سو ستر ارب گھرانوں میں ٹی وی ہے اور اس پر نشر ہونے والے اشتہارات کا حجم پونے دو کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ انیس سو باون میں آئزن ہاور پہلے صدارتی امیدوار تھے جنھوں نے اپنی مہم کے اشتہارات کمرشل سطح پر ٹی وی پر نشر کروانے شروع کیے یعنی امریکی سیاست میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ مگر ٹی وی کی فیصلہ کن سیاسی طاقت کا مظاہرہ انیس سو ساٹھ میں سامنے آیا۔ جب تجربہ کار ریپبلیکن امیدوار رچرڈ نکسن اورجواں سال ڈیموکریٹ امیدوار جان ایف کینیڈی کا پہلی بار ٹی وی اسکرین پر منعقد ہونے والے ایک صدارتی مباحثے میں آمنا سامنا ہوا۔ اس سے پہلے ووٹروں میں نکسن کی مقبولیت زیادہ تھی۔ البتہ ٹی وی پر دو بدو مباحثے نے پانسہ کینیڈی کے حق میں پلٹ دیا اور وہ لگ بھگ ایک لاکھ بارہ ہزار ووٹوں کی اکثریت سے صدر بن گئے۔ آج صورت یہ ہے کہ پچاس فیصد امریکی ووٹر ٹیلی ویژن نشریات دیکھ کر اپنی سیاسی رائے بناتے ہیں۔
امریکا نے اس میڈیم کو بطور سافٹ پاور بھی استعمال کیا۔ ایک امریکی سیریز ’’ لٹل ہاؤس آن دی پریری‘‘ ایک سو دس ممالک میں نشر ہوئی۔ انیس سو اسی کے عشرے تک ایکویڈور کی ستر فیصد، کینیا کی ساٹھ فیصد، آسٹریلیا کی چھیالیس فیصد اور اسپین کی پینتیس فیصد ٹی وی نشریات امپورٹڈ امریکی پروگراموں کی مرہونِ منت تھیں۔ آج نیٹ فلیکس کے دو سو ملین سے زائد اور ڈزنی پلس کے پچھتر ملین سبسکرائبر ہیں۔ دونوں امریکی کمپنیاں ہیں۔ ٹی وی کی عالمگیر مقبولیت میں کچھ اہم واقعات نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ مثلاً جولائی انیس سو انہتر میں عالمی سطح پر چھ سو باون ملین ناظرین نے چاند پر نیل آرمسٹرانگ کی لینڈنگ دیکھی۔ محمد علی کی باکسنگ فائٹس دیکھنے کے لیے راتوں رات بے تحاشا ٹی وی سیٹ دنیا بھر میں فروخت ہوتے تھے۔ انیس سو پچاسی میں افریقہ کی قحط سالی سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے لندن میں ہونے والا ’’ لائیو ایڈ کنسرٹ ‘‘ ڈیڑھ سو ممالک میں دکھایا گیا۔ انیس سو ستانوے میں لیڈی ڈیانا کا جنازہ براہ راست دو ارب ناظرین نے اپنے ٹی وی سیٹ پر دیکھا۔
بھارت میں دور درشن کی آزمائشی نشریات انیس سو انسٹھ میں دلی سے شروع ہوئیں۔ یہ نشریات ہفتے میں دو دن ایک ایک گھنٹے کے لیے نشر ہوتی تھیں۔ پھر انیس سو سڑسٹھ میں باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔ انیس سو چھہتر تک دور درشن آل انڈیا ریڈیو کے ایک ذیلی شعبے کے طور پر کام کرتا رہا۔ انیس سو بیاسی میں دور درشن کو ایک علیحدہ اتھارٹی کی شکل ملی۔ پاکستان میں باقاعدہ ٹی وی نشریات چھبیس نومبر انیس سو چونسٹھ کو ریڈیو پاکستان لاہور کے احاطے میں ایک خیمے سے جاپانی نشریاتی ادارے نپون الیکٹرک کارپوریشن اور برطانوی ادارے تھامس ٹیلی ویژن انٹرنیشنل کی تکنیکی مدد سے شروع ہوئیں۔ انیس سو پچھتر میں رنگین نشریات کا آغاز ہوا۔ انیس سو نوے کے عشرے تک پی ٹی وی کی شناخت اس کا معیاری ڈرامہ تھا۔ اس کے علاوہ ہر عمر کے ناظرین کے لیے موسیقی کے پروگرام بھی ترتیب دیے جانے لگے۔ چھپن فیصد تفریحی پروگرام جب کہ پچیس فیصد پروگرام حالاتِ حاضرہ اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق تھے۔ انیس س�� اسی تک پی ٹی وی پاکستان کے نوے فیصد رقبے میں دیکھا جا سکتا تھا۔
نوے کی دہائی میں پاکستان میں نجی شعبے کو ٹی وی نشریات کی اجازت ملی اور سن دو ہزار میں پرویز مشرف دور میں پرائیویٹ سیکٹر میں ٹی وی نشریات کے بیسیوں لائسنس جاری ہوئے۔ اس وقت ملک میں اردو کے علاوہ مقامی قومتی زبانوں میں حالاتِ حاضرہ اور تفریحی پروگراموں کے متعدد چینلز ناظرین کے لیے دستیاب ہیں۔ ملک میں انگریزی زبان کے نیوز چینل بھی کھولے گئے۔ مگر آج انگریزی میں ایک بھی نجی چینل نہیں۔ البتہ پی ٹی وی کا ایک چینل انگریزی زبان میں نشریات کے لیے وقف ہے۔ انیس سو اسی کے عشرے میں سی این این نے عالمی سطح پر اپنی نشریات شروع کیں تو حالاتِ حاضرہ کی پیش کاری کا تصور بھی بدل گیا۔ اس وقت بی بی سی ورلڈ اور الجزیرہ عالمی سطح پر مقبول نیٹ ورکس کے صفحہ اول پر ہیں۔ مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ عام آدمی کا انحصار ڈیجیٹل اور الیکٹرونک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑھتا جا رہا ہے۔ جس طرح کاغذ کے بجائے اخبار کو ویب سائٹ پر دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ِہے۔ اسی طرح قوی امکان ہے کہ روایتی ٹی وی چینلز رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھوتے چلے جائیں۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
چین کی مستقل مزاجی اور نئی سرد جنگ
اکتوبر 2022ء چین کے عروج کے حوالے سے تاریخی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ صدر شی جن پنگ کو مرکزی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے، وہ تیسری مدت کیلئے چین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ بے مثال کامیابی شی جن پنگ کو چین کا مقبول ترین رہنما ثابت کرتی ہے، جو ماؤزے تنگ کے پیش رو ہیں۔ شی جن پنگ کے تیسری مدت کیلئےانتخاب کا مطلب یہ ہے کہ چین ترقی، اقتصادی برتری، عالمی وعلاقائی روابط اور سالمیت کی اپنی موجودہ پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ بیجنگ کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتے اثر و رسوخ پر دنیا محض حیرت میں مبتلا ہے جبکہ مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ انتہائی خوف میں مبتلا ہے۔ دنیا بھر کیلئے ماضی میں چین کے ساتھ اپنے معاملات پر نظرِ ثانی اور مستقبل کا لائحہِ عمل مرتب کرنے کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔ سوویت یونین اس کا براہ راست حریف تھا۔ جنگ کے خاتمے سے لے کر 1989 میں سوویت یونین کی تحلیل تک دنیا دو دھڑوں میں تقسیم رہی۔ 
لبرل دنیا کے نظریہ سازوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی پالیسی اپنائی۔ اس وقت چین ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ یہ غربت، جنگوں اور ٹوٹ پھوٹ کے مسائل سے دو چار تھا۔ چین کو روس کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کیلئے امریکہ نے چین کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا اور اسے عالمی تجارت کے مرکزی دھارے میں رسائی دی۔ یوں جب امریکی یورپ پر اپنے تسلط کو یقینی بنانے میں مصروف تھے، چین نے مستقل مزاجی سے اپنی معیشت کو ترقی دی۔ وہ ٹیکنالوجی کے فروغ کی پالیسی پر عمل کے ساتھ ساتھ برآمدات کو وسعت دینے کی پالیسی پر عمل کرنے میں کامیاب رہا۔ صنعت و تجارت کے شعبے مرکزی کمیونسٹ پارٹی کی توجہ کے مرکز بن گئے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کو یونی پولر دنیا ورثے میں ملی، امریکہ لبرل ازم پر عمل پیرا رہا۔ چین ڈبلیو ٹی او کے اہم ارکان میں سے ایک بن گیا۔ اس کی سستی لیبر، سخت محنت اور مستقل مزاجی نے امریکی کمپنیوں کو چینی فیکٹریوں کے دروازوں تک پہنچا دیا۔ 
ایک زمانے میں، چینی مصنوعات کو کمتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہ دن گزر چکے، کیونکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت نے اپنی مینوفیکچرنگ شین زین اور شنگھائی کی فیکٹریوں میں منتقل کر دی۔ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، چین اور اس کے عوام نے تمام اندازے اور اعداد و شمار الٹ کے رکھ دیے ہیں۔ اب چین کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ چکا ہے، یورپ پہلے ہی چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔ چین نے عسکری طور پر بھی غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ جاپان میں اس کی موجودگی اور تائیوان میں اس کے اسٹرٹیجک اثاثے امریکہ کیلئے ناقابلِ برداشت ہیں۔ اب ایک نئی سرد جنگ نمو پا چکی ہے جو سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ سے کہیں زیادہ گنجلک ہو سکتی ہے۔ چین عددی برتری رکھتا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں اس کی موجودگی ہے۔ 
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی شروعات امریکہ نے سوویت معیشت کو نقصان پہنچا کر کی، چین کے معاملے میں صورتحال الٹ ہے۔ چین کھلی اور آزاد منڈی میں امریکی معیشت کا مقابلہ کر رہا ہے، جو سوویت یونین کبھی نہیں کر سکا۔ اس وقت مارکیٹ پر امریکی مصنوعات اور معیشت کا غلبہ تھا اور ان کھلی منڈی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کھلے عام اس کا اعتراف کیا اور تجارتی تحفظ پسندی کا فلسفہ متعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ چینی مصنوعات امریکی منڈیوں میں غیر منصفانہ مراعات کے ساتھ فروخت ہو رہی ہیں۔ امریکی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ کی معیشت غیر منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے خسارے میں جا رہی ہے، جبکہ یہ امریکی صنعتوں کی ناکامی اور چینی برآمدات کی کم لاگت کا اثرہے۔ نئی سرد جنگ میں امریکہ اپنی ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسی کی وجہ سے پسپا ہو رہا ہے۔ یہ ویت نام، عراق، افغانستان اور شام میں بڑی ناکامیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ امریکہ مزید فوجی مہمات کا متحمل نہیں رہا۔
نیٹو کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے، یورپ جنگ کے دہانے پر ہے۔ اس بار یوکرین پر روسی حملے اور یوکرین کیلئے مغرب کی حمایت نے چین کے خلاف روسی تعاون کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف اقدامات کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ چین اپنی فوجی اور اقتصادی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین نے ایشیا میں اپنے قدم جمانے کے بعد اب افریقہ اور وسطی ایشیا تک دائرہ پھیلا لیا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ چین کو الگ تھلگ رکھ کر اور اسے تیسری دنیا کے مسائل میں الجھا کر ترقی سے روکا جا سکتا ہے لیکن اب، بہت دیر ہو چکی ہے، یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ چین ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں کرۂ ارض پر غلبہ پالے گا۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ امریکہ کی بجائے بیجنگ کے اتحادی ہوں گے۔ مغربی دنیا کے حقیقت پسند چین کے عروج کو امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لبرل ازم ختم ہو چکا ہے۔ 
چین دنیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ صرف چند سو سال پرانی ہے۔ چین اپنی عدم تشدد کی پالیسی، دیگر اقوام کے احترام اور باہمی ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ سرمایہ دارانہ لالچ ، فاسٹ فوڈ کلچر، ہالی ووڈ اور جمہوریت کے نام پر جنگوں سے دنیا کو متعارف کرواتا رہا جس نے عراق، ویت نام اور افغانستان جیسے ممالک کو تباہ کیا۔ اسرائیل جیسی ظالم قوموں کی پشت پناہی کی اورفلسطینیوں کے قتلِ عام کی کھلی اجازت دی۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی شاذ و نادر ہی پرامن رہی ہے، طاقت کے پرانے نظام اتنی آسانی سے مفلوج نہیں ہوں گے، ہم ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر ہیں۔
امتیاز رفیع بٹ (مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
addnoral · 1 year
Text
کنگنا رناوت نے یہ دعویٰ کرنے کے بعد تجویز کیا کہ ان کے پاس سپر پاور ہیں سابق ٹویٹر سربراہوں کے عذاب کی پیش گوئی
کنگنا رناوت نے یہ دعویٰ کرنے کے بعد تجویز کیا کہ ان کے پاس سپر پاور ہیں سابق ٹویٹر سربراہوں کے عذاب کی پیش گوئی
ایلون مسک کے ٹویٹر پر متنازعہ قبضے کے بعد سے، بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت امید کر رہی ہیں کہ ان کا معطل کردہ ٹویٹر اکاؤنٹ دوبارہ فعال ہو جائے گا۔ اداکار انسٹاگرام کی کہانیوں پر پوسٹ کر رہی ہیں کہ وہ اپنے “ٹویٹر دوستوں” کو کیسے یاد کر رہی ہیں، جو اس کی قیادت میں تبدیلی کے بعد، سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر واپس آنے کے بارے میں میمز شیئر کر رہی ہیں۔ کنگنا کو گزشتہ سال ٹویٹر سے مستقل طور پر معطل کر دیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
امریکہ کو یکطرفہ پابندیاں عائد کرنے کے تسلط پسندانہ عمل کو روکنا چاہیے ، چینی وزارت خارجہ
امریکہ کو یکطرفہ پابندیاں عائد کرنے کے تسلط پسندانہ عمل کو روکنا چاہیے ، چینی وزارت خارجہ
بیجنگ (عکس آن لائن) چینی وزارت خا رجہ کے تر جمان وانگ وین بن نے کہا ہے کہ امریکہ واقعی بے جا پابندیاں عائد کرنے والی سپر پاور ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2000 سے 2021 تک امریکہ کی طرف سے دوسرے ممالک پر عائد کی گئی پابندیوں میں 933 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ٕ اب تک، امریکہ نے دنیا کے تقریباً 40 ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جس سے دنیا کی تقریباً نصف آبادی متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے سنگین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
لو جہاد کے فرضی ٹریپ
لو جہاد کے فرضی ٹریپ
لو جہاد کے فرضی ٹریپ ازقلم:شہاب مرزا، 9595024421   جب تاریخ لکھی جائے گی تو مو��خ لکھے گا کہ 21 ویں صدی میں جب چین، کوریا، امریکہ جیسے ملک نیوکلیئر بم بنا رہا تھا ، جاپان، فرانس، آسٹریلیا جیسے ممالک ٹیکنالوجی کی دنیا میں سپر پاور بن رہے تھے۔ اور بھارت کی حکومت اور اس کا غلام میڈیا، شہریوں کو روزگار کے مواقع دینے کے بجائے گائے کے گوبر، گائے کا پیشاب، مندر، مسجد، طلاق، لو جہاد، گائے ذبیحہ، حجاب،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes