Tumgik
#عالم اسلام
ypeerzada · 1 year
Text
‏میری طرف سے تمام اہل وطن اور عالم اسلام کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔ عید کے اس پر مسرت موقع پر اپنے آس پاس کے ضرورت مندوں کا ضرور خیال رکھیں۔
#عیدمبارک
#عید_الفطر_مبارک
#عیدمبارک⚘_سب⚘_دوستوں⚘_کو⚘
#islam #pageforyou #pleasesupport #pfypシ #LaysEverywhere #shorts #graphicdesignersoftiktok #pleasemakethisviral #viraltiktok #islamicposts #islamic_media #eidmubarak #eid2023❤
#Eid #eid2023🕌🤲
17 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 6 days
Text
🌹🌹𝗟𝗜𝗩𝗘𝗟𝗜𝗛𝗢𝗢𝗗.
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
8️⃣3️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗟𝗜𝗩𝗘𝗟𝗜𝗛𝗢𝗢𝗗:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗔𝗹𝗹𝗮𝗵 𝗹𝗼𝘃𝗲𝘀 𝗛𝗶𝘀 𝘀𝗲𝗿𝘃𝗮𝗻𝘁 𝘄𝗵𝗼 𝗲𝗮𝗿𝗻𝘀 𝗵𝗶𝘀 𝗹𝗶𝘃𝗲𝗹𝗶𝗵𝗼𝗼𝗱 𝘁𝗵𝗿𝗼𝘂𝗴𝗵 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸.
(AlMaqasidulHasanah, Hadith No. 246)
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗲𝘅𝗽𝗹𝗮𝗶𝗻𝘀
𝘁𝗵𝗲 𝗶𝗺𝗽𝗼𝗿𝘁𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗲𝗮𝗿𝗻𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴.
● 𝗠𝗮𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴 𝗯𝘆 𝘄𝗼𝗿𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝗶𝘀 𝗻𝗼𝘁 𝗮 𝘀𝗶𝗺𝗽𝗹𝗲 𝗺𝗮𝘁𝘁𝗲𝗿.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗳𝗮𝗰𝘁 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝗼𝘂𝗿𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝗮𝗹𝗹 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻 𝘃𝗶𝗿𝘁𝘂𝗲𝘀.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝘀𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝗹𝗮𝗯𝗼𝗿 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗺𝗼𝘀𝘁 𝗹𝗮𝘄𝗳𝘂𝗹.
● 𝗘𝗮𝗿𝗻𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗺𝗮𝗸𝗲𝘀 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗴𝗿𝗼𝘂𝗻𝗱𝗲𝗱 𝗶𝗻 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗶𝘁𝘆.
● 𝗧𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝘀𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝗵𝗮𝗿𝗱
𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗰𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲𝘀 𝗮 𝘁𝗲𝗺𝗽𝗲𝗿𝗮𝗺𝗲𝗻𝘁 𝗼𝗳 𝘀𝗶𝗺𝗽𝗹𝗶𝗰𝗶𝘁𝘆 𝗶𝗻 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻.
● 𝗛𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝘀𝗮𝘃𝗲𝘀 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗲𝗮𝘀𝗲.
● 𝗛𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗶𝘀 𝗮𝗻 𝗶𝗺𝗽𝗼𝗿𝘁𝗮𝗻𝘁 𝗺𝗲𝗮𝗻𝘀 𝗼𝗳 𝗱𝗲𝘃𝗲𝗹𝗼𝗽𝗶𝗻𝗴 𝗼𝗻𝗲’𝘀 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻𝗮𝗹𝗶𝘁𝘆.
● 𝗘𝘃𝗲𝗻 𝗶𝗳 𝘁𝗵𝗲𝗿𝗲 𝗶𝘀 𝗻𝗼 𝗰𝗼𝗺𝗽𝘂𝗹𝘀𝗶𝗼𝗻, 𝗺𝗮𝗻 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗮𝗱𝗼𝗽𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗺𝗲𝘁𝗵𝗼𝗱 𝗼𝗳 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝗳𝗼𝗿 𝗵𝗶𝘀 𝗹𝗶𝗳𝗲.
● 𝗜𝗻 𝗮𝗹𝗹 𝗰𝗶𝗿𝗰𝘂𝗺𝘀𝘁𝗮𝗻𝗰𝗲𝘀, 𝗵𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗿𝗲𝗳𝗿𝗮𝗶𝗻 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝘀𝗲𝗲𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗮 𝗹𝗶𝗳𝗲 𝗼𝗳 𝗲𝗮𝘀𝗲.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 ذریعہ معاش:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہے جو محنت سے روزی کماتا ہے۔
(المقصد الحسنۃ، حدیث نمبر 246)
● یہ روایت روزی کمانے کی اہمیت کی وضاحت کرتی ہے۔
● محنت کر کے روزی کمانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
● حقیقت یہ ہے کہ محنت ہی تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔
● محنت مزدوری سب سے زیادہ حلال ہے۔
● محنت سے روزی کمانا انسان کو حقیقت میں اباد کرتا ہے۔
● محنت سے کمائی ہوئی روزی انسان میں سادگی کا مزاج پیدا کرتی ہے۔
● محنت انسان کو آسانی سے بچاتی ہے۔
● محنت کسی کی شخصیت کی نشوونما کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
● کوئی مجبوری نہ ہو تب بھی انسان کو اپنی زندگی کے لیے محنت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
● انسان کو ہر حال میں آرام کی زندگی کی تلاش سے گریز کرنا چاہیے۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت کی عظمت اور کسبِ حلال کی اہمیت :
● اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں وہ واحد مذہب ہے،جس نے کسب حلال کے لیے محنت کو نہ صرف عظمت بخشی،بلکہ محنت کشوں کے حقوق متعین کیے۔
● اسلامی نظریۂ محنت کے تحت ہر فرد معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کا ذمے دار ہے‘ اور ہر شخص ہر حلال اور جائز پیشہ اپناسکتا ہے۔
● پیشوں کے انتخاب میں کوئی پابندی نہیں، سوائے ان کے جو شرعی طور پر ممنوع ہوں، ہر وہ شخص جو شرعی حدود میں رہ کر محنت کرتا ہے اسلام اسے عظمت عطا کرتا ہے۔
● اسلام محنت اور محنت کشی کو سراہتے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
● محنت کا مقام اور محنت کرنے کی ترغیب کے حوالے سے ارشادات ربانی ملاحظہ ہوں۔
🔹ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کی اس نے کوشش کی ہو۔( سورۃ النجم)
🔹 ایک مقام پر فرمایاگیا:’’ اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھول۔ ( سورۃ القصص)
🔹 نیز فرمایا گیا! ’’اور پھر جب نماز (جمعہ) ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور پھر اﷲ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے لگو‘‘۔(سورۃ الجمعہ)
🔹 ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘(سورۃ النساء) ’’پس تم اﷲ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجایا لایا کرو‘‘۔(سورۃ العنکبوت)
🔹 ہادی عالم ‘ نبی رحمت‘ سرکار دو عالمﷺ نے محنت کرنے والوں کو جو جاں فشانی سے رزق حلال کماتے ہیں،اﷲ کا دوست و محبوب قرار دیا ہے اور خود آپ ﷺ نے محنت کرنے والے ہاتھوں کو چوم کر تاقیامت انہیں عظمت عطا فرمائی اور محنت کشوں کے حقوق کو ان الفاظ سے سند عطا فرمائی’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘۔( بیہقی‘ شعب الایمان)
🔹 محنت کی عظمت سے متعلق آپ ﷺ کے چند ارشادات گرامی ملاحظہ ہوں۔
🔹 ’’رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے‘‘۔ (طبرانی)
🔹 ’’رزق زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو‘‘۔ ( طبرانی‘المعجم الاوسط)
🔹 ’’کسی شخص نے کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر کھائے‘ اﷲ کے نبی حضرت دائودؑ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے‘‘ (الجامع الصحیح)
🔹 ’’بعض گناہ ایسے ہیں جنہیں سوائے رزق حلال اورطلب معیشت کے اور کوئی چیز نہیں دور کرتی‘‘۔(طبرانی)
🔹 ’’بے شک اﷲ محنت کرنے والے مومن کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔(طبرانی)
🔹 ’’بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے بشرط یہ کہ کام خلوص اور خیرخواہی سے کرے‘‘۔ (دیلمی‘ الفردوس)
🔹 ’’فجر کی نماز سے لے کر طلوع شمس تک رزق کی جدوجہد کیے بغیر نیند نہ کرو‘‘۔(عسقلانی‘القول المسدود)
● اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جاں فشانی‘ محنت و مشقت‘ سعی و کوشش کے بغیر کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی‘ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت وسعی لازم ہے۔
● اگر ہم اپنے ماضی پر روشنی ڈالیں، یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عرب کے بادیہ نشینوں نے محنت و جدوجہد کو اپنایا تو وہ صحرائے عرب سے اٹھ کر ایک عالم پر چھاگئے اور دنیا کے ہر شعبے میں چاہے وہ عبادات ہوں‘ معاملات ہوں‘ معیشت ہو یا معاشرت‘ سائنس ہو یا شعر وادب ،غرض اپنی محنت و جاںفشانی سے بحر و بر مسخر کرلیے اور پوری دنیا میں ہدایت و علم کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنے۔
● آپ ﷺ کے فرامین اور عملی زندگی سے ہمیں عمل پیہم‘محنت و مشقت اور جان فشانی کی تلقین ملتی ہے۔
● آپ ﷺ نے بچپن میں بکریاں چرائیں‘ بعثت سے پہلے باقاعدہ تجارت کی اور تجارت کی غرض سے طویل اسفار بھی کیے۔
● بیت اﷲ کی تعمیر میں حصہ لیا‘ رسول اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد مسجد قبا اور مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حصہ لیا اور صحابہ ؓ کے ساتھ مزدوروں کی طرح کام کیا‘ غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے میں بہ نفس نفیس شریک ہوئے۔
● آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا یہ پہلو تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے تھے۔
● آپ ﷺ اپنی جوتیوں کی خود مرمت فرمالیتے اور سیتے تھے۔
● انبیائے کرام ؑ جہاں اﷲ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی ذمے داریاں مکمل طور سے ادا فرماتے اور رسالت کی تبلیغ فرماتے وہاں دنیوی اعتبار سے بھی ان کی محنت‘ سعی اور کوشش کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
● سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھیوں نے بھی کبھی محنت سے جی نہیں چرایا اور کوئی بھی حلال پیشہ اپنانے میں عار نہ سمجھا، بلکہ اپنے عمل سے امت پر یہ ثابت کردیا کہ عزت و عظمت معاشی جدوجہد میں مضمر ہے۔
● ایک دن جب حضرت سعد ؓ نے نبی پاک ﷺ سے ہاتھ ملایا تو آپ ﷺ نے ہاتھوں کی سختی کی وجہ دریافت فرمائی تو حضرت سعد ؓ نے عرض کیا،اپنے اہل وعیال کے لیے روزی کماتا ہوں‘ اس لیے ہاتھوں کا یہ حال ہوا ہے تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مبارک لبوں سے حضرت سعد ؓ کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا: ’’یہی وہ ہاتھ ہیں جنہیں جہنم کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی‘‘۔ (ابن اثیر)
● اسلام نے سب سے پہلے محنت کشوں کے حقوق مقررفرمائے۔
🔹 آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ ان پر اتنا کام نہ لادو جو انہیں مغلوب کردے اور اگر ان پر بار ڈالو تو ان کی مدد و اعانت کرو‘‘۔ (امام بخاری‘ الجامع الصحیح)
🔹 آپ ﷺ نے مزدوروں کے حقوق سے متعلق یہ مشہور عالم ہدایت فرمائی: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا کرو‘‘۔ (ابن ماجہ‘ السنن)
🔹آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اور کام لینے میں اسے اتنی تکلیف نہ دی جائے جو کہ وہ برداشت نہ کرسکے‘‘۔ (مسلم‘ الصحیح)
● محنت کی عظمت اور محنت کشوں کے حقوق سے متعلق اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔
● اسلام نے محنت کی عظمت ہی کو دنیا اور آخرت کی ترقی اور کامیابی کا ذریعہ قرار دیا اور سب سے زیادہ محنت کشوں کے حقوق کی اسلام نے پاس داری کی ہے۔
● آئیے ہم سب مل کر وطن عزیز کی تعمیر کریں‘ محنت سے جی نہ چرائیں،ایک دوسری کے حقوق کی پاس داری کریں اور پھر سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی روایات کو زندہ کریں۔
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
hoseingh · 10 days
Text
تاریخ نگاری اسلامی-نگاهی به کتاب اف رابینسون
تاریخ نگاری اسلامی-نگاهی به کتاب اف رابینسون http://wp.me/p2iGa8-2S
سیر تاریخ نگاری در اسلام یکی از مورد علاقه های من برای مطالعه تاریخ بوده و هست. کما اینکه به تاریخ فقه و فقها نیز علاقه مندم . به طور کلی مطالعه ی سیر تاریخ یک علم به خصوص در علوم همچون تاریخ،فقه و اصول در نتیجه گیری های دقیق در آن علم نیز تاثیری عمیق دارد. چند وقت پیش کتاب تاریخ نگاری در اسلام نوشته دکتر سید صادق سجادی و هادی عالم زاده را مطالعه می کردم.به نظرم این کتاب در تاریخ نگاری اسلامی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 months
Text
قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟
Tumblr media
نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شاید یہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی ایک سال میں قریب 135 دن اجلاس منعقد کرتی ہے۔ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ اس دوران کئی بار تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیے گئے۔ پوچھنے والا تو کوئی تھا نہیں کہ پارلیمان خود ہی فیصلہ ساز تھی اور اپنی مراعات کے فیصلے خود ہی کرتی تھی۔ ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی اور اوسط اخراجات برھتے ہی جا رہے تھے۔ چند سال تک میں اس مشق سے جڑا رہا اور مراعات و معاوضے میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے حساب سے تخمینہ لگاتا رہا کہ بات اب کہاں تک پہنچی ہے۔
قریب 2020 میں تنگ آ کر اور تھک کر جب میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کیونکہ متعلقہ وزارتوں سے تازہ ترین معلومات اکٹھے کرتے رہنا ایک بلاوجہ کی مشقت تھی اور اس سے بہتر تھا کہ جنگل میں جا کر کسی چرواہے سے بانسری سن لی جائے۔ جس وقت یہ سلسلہ منقطع کیا اس وقت تک محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ اخراجات دگنے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان۔ اخراجات، مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق اگر جمع تقسیم کی جائے اور انتہائی محتاط جمع تقسیم کی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے۔ نہ جھکنے والے ، نہ بکنے والے ، عوام کے خیر خواہ ، کردار کے غازیوں اور بے داغ ماضیوں میں سے کوئی ایوان میں سوال کر دے کہ اسمبلی کے آخری مالی سال کے بجٹ کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار کیا ہیں اور مہنگائی کی اس لہر میں قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس اوسطا قوم کو کتنے میں پڑتا ہے تو جواب سن کر شاید بہت ساروں کو دن میں وہ تارے بھی نظر آ جائیں جو آج تک ماہرین فلکیات بھی نہیں دیکھ سکے۔
Tumblr media
سوال البتہ اخراجات کا نہیں ہے۔ پارلیمان چلانی ہے تو اخراجات تو اٹھیں گے۔احساس کیا جائے تو اخراجات کم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہوں گے تو سہی۔ اس لیے سوال اخراجات کا نہیں بلکہ کارکردگی کا ہے۔ چارجڈ ماحول میں ایک آدھ اجلاس تلخی اور اودھم کی نذر ہو جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن اگر یہ مشق مسلسل جاری رہنے لگے تو پھر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اس اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں میں سب سے کم حاضریاں عمران خان کی تھیں تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں لیکن اب جس اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم بنایا تو اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔
اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے مسلسل چالیس اجلاس کی شرط کیسی سفاک ہنر کاری ہے۔ غریب قوم کا یہ حق تو ہے کہ وہ اپنی پارلیمان سے سنجیدگی کی توقع رکھے۔ بنیادی تنخواہ، اس کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس الگ سے ، ٹیلی فون الاؤنس ، اسکے ساتھ ایک عدد ایڈ ہاک ریلیف الائونس، لاکھوں روپے کے سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس کے ہزاروں الگ سے، اور پھر پارلیمانی لاجز کے باوجود ہاؤسنگ الاؤنس۔ 
یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔ سپیکر صاحبان نے جاتے جاتے خود کے لیے جو مراعات منظور کیں وہ داستان ہوش ربا اس سب سے الگ ہے۔ مسئلہ پارلیمان کے اخراجات ہی کا نہیں، مسئلہ کارکردگی کا بھی ہے۔ کارکردگی اگر اطمینان بخش ہو تو یہ اخراجات بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری پارلیمان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اب جو طرز گفتگو اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وہ زمانے بیت گئے جب نا مناسب گفتگو کو غیر پارلیمانی کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ گالم گلوچ اور غیر معیاری خطابات فرمائے جاتے ہیں اور خواتین پر جوتے اچھالے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو کسی کارپوریٹ میٹنگ جیسا تو یقینا نہیں بنایا جا سکتا اور اس میں عوامی رنگ بہر حال غالب ہی رہتا ہے لیکن رویے اگر ایک معیار سے گر جائیں تو پھر یہ تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔ پارلیمان اسی بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔
سوال اٹھایا جائے تو اراکین پارلیمان جواب آں غزل سناتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے اخراجات بھی تو ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ فلاں اور فلاں کے اخراجات کو بھی ایک حد میں پارلیمان نے ہی رکھنا ہے۔ پارلیمان اگر اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کرے تو پھر وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھا سکتی ہے لیکن وہ اگر یہاں بے نیازی کرے تو پھر وہ فلاں اور فلاں کے اخراجات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس وقت معاشی مسائل کا حل چاہیے۔ صرف عوام کی رگوں سے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر لہو نچوڑ لینا کوئی حکمت نہیں۔ کب تک اور کتنا نچوڑیں گے؟ اصل چیز معاشی بحالی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کا ماحول بہتر ہو اور یہاں سنگین موضوعات پوری معنویت سے زیر بحث آئیں۔
آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
minhajbooks · 2 months
Text
🔰 دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور (دستور مدینہ اور جدید دساتیر عالم کا تقابلی جائزہ)
🛒 کتاب آرڈر کرنے کیلئے کلک کریں👇 🚚 فری ہوم ڈیلیوری! https://www.minhaj.biz/item/dastur-e-madina-awr-falahi-riyasat-ka-tasawwur-dustur-e-madina-awr-jadid-dasatir-e-alam-ka-taqabuli-jaiza-byl-0001
🧾 زبان: اردو 📖 صفحات: 1376 (2 والیم) 🔖 رعایتی قیمت: 3600 (خصوصی ڈسکاؤنٹ)
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇 https://wa.me/923224384066
دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ نہ صرف امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفسِ مضمون کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری اور آئینی خصوصیات کا مظہر ہے۔ اگر جدید آئینی و دستوری معیارات اور ضوابط کی روشنی میں میثاقِ مدینہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ تمام بنیادی خصوصیات جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں، میثاق مدینہ میں بہ تمام و کمال نظر آتی ہیں۔
اس موضوع پر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اُردو زبان میں دو جلدوں میں تقریباً 1,400 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ’’دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر عالم کا تقابلی جائزہ)‘‘ کے نام سے تصنیف کی ہے (جب کہ عربی اور انگریزی میں بھی یہ فقید المثال تحقیقی کاوِش طبع شدہ ہے)۔
🧾 اس کتاب کے درج ذیل 7 اَبواب ہیں:
عالمِ مغرب اور عالمِ اسلام میں قانون سازی کا ارتقاء
دستورِ مدینہ کی توثیق و تصدیق (دستورِ مدینہ کی روایات و آرٹیکلز کی تخریج اور راویوں کے اَحوال)
دستورِ مدینہ (تحقیقی جائزہ)
ریاست کے عناصرِ تشکیلی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)
دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر میں نظامِ حکومت کے عمومی اُصول
حقوقِ انسانی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)
ریاستی اختیارات (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)
پہلی جلد اَوّل الذکر تین ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ دوسری جلد آخری چار ابواب پر محیط ہے۔ اس کتاب میں دستورِ مدینہ کا جدید دساتیر کے ساتھ تقابل کرکے واضح کیا گیا ہے کہ دستورِ مدینہ ریاست کی نوعیت و حیثیت، اَفرادِ ریاست کی آئینی حیثیت، ریاست کے حقوق و فرائض، ریاست کے باشندوں کے حقوق و فرائض اور دیگر ریاستی اُمور سمیت تمام تفصیلات کا جامع اِحاطہ کرتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اِس موضوع پر اِمتیازی شان کی حامل یہ اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے۔
0 notes
mohammadwaliashna · 2 months
Text
يو شمېر نجوني په ډير ناز او نخرو د عزيزيه مدرسي تر څنګ تيريدلي...
د شاه محمد اسماعيل شهيد سترګې پري ولږيدي... پوښتنه يي وکړه دا څوک دي ؟ ملګرو ورته وويل: دا سندرغاړی ، نڅاګري او کنجري دي او کوم ځانګړې د فحشا محفل ته رواني دي
شاه صاحب ورته وويل: د کوم مذهب پوري تړاو لري؟
هغوي ځواب ورکړ: دوي اسلام د بدنامي سبب ګرځېدلی او ځان ته مسلماناني وايي.
شاه صاحب چې کله دا خبري واوريدي نو وويل: دا قبلوم چې بدعمله او بد کرداره دي ليکن د کلمه ويونکو په حيث خو زمونږ مسلماني خويندي دي لهذا دوي ته بايد نصيحت وکړو ممکن له ګناهونو توبه ګاري شي ...
ملګرو ورته وويل: په دوي به خاوري نصيحت اثر وکړي! دوي خو نصيحت کوونکې لا نور بدناموي....
شاه صاحب وفرمايل: نو څه به وشي؟ زه خو خپله فريضه ادا کوم.... که خلک هر سنګه فکر کوي هغوي پوري اړه لري..
ملګرو ورته وويل: ستاسو تلل د هغوي ځاي ته مصلحت ندي! تاسو ته معلومه ده چې ټول هندوستان کی ستا مذهبي مخالفين شتون لری هغوي به ستا د بدنامولو هيڅ موقع د لاسه ورنکړي!
شاه صاحب وفرمايل: هيڅ پروا نلري تاسو پدي اړه تشويش مه کوي. لدي وروسته شاه صاحب درويشانه د ملنګانو لباس واغوسته او يواځې د هغو نڅاګرو نجونو حولي لوري ته روان شو. شاه صاحب چې کله دروازي ته ورسید نو په لوړ آواز يي غږ کړ چې اي د الله تعالی بندګانو! دروازه خلاصه کړي او د يوه فقير آواز واورئ!
آواز اوريدو سره څو نجونو دروازه خلاصه کړه ګوري چې نوراني درويش سپين ږيري دروازي ته ولاړ دي.
هغو فکر وکړ چې کوم فقير سوالګر دي څو پيسې يي ورته ورکولې ليکن درويش اصرار درلود چې حولي ته د ننوتو اجازه ورکړ شي.. بالاخره شاه صاحب حولي ته ننوت...
شاه صاحب ګوري چې څلورو خواوو ته څراغونه روښانه دي.. د طبلو او زنګ جامن آوازونه دي ، هر لوري ته سندري او نڅاګاني دي او يو ځانګړي عجيب منظر دي...
کله چي ټولو نجونو په نوراني درويش سترګي ولږيدي هر لوري ته خاموشي شوه..
هغوي وپيژانده چي فقيرانه لباس کي درويش د هندوستان لوي عالم شاه اسماعیل شهيد د حضرت شاه ولی الله رحمة الله علیه لمسي او د شاه عبدالعزيز رحمة الله علیه وراره دي!
ټولي نجونې له خپله ځايه پاسيدي ، ځانونه يي راټول کړل او په ډير آدب او احترام د شاه صاحب مخامخ کښيناستي او وويل: حضرت شاه صاحب! تاسی ولی زمونږ ګنهګارو ځاي ته د راتلو زحمت وويست تاسو به څوک راليږلي ول مونږ به خپله ستاسو خدمت ته راغلي وو..
شاه صاحب ځواب ورکړ: تاسو ټول عمر خلکو ته سندرې ويلي نن څو شيبې زمونږ فقيرانو آواز هم واوري!
هغو په ډير آدب ځواب ورکړ او وويل: مونږ په شوق او توجه ستاسو آواز اورو...
شاه اسماعیل شهيد د سورت التين تلاوت پيل کړ د شاه صاحب تلاوت دومره پر سوزه ، وجد آفرين او دردمن وو چې آوريدو سره يو شمېر نجونې بي خوده شوي او خپل توازن يي د لاسه ورکړ لدي وروسته شاه صاحب د اياتونو ښکلي ترجمه وکړه او خپله روح پروره وينا يي پيل کړه . شاه صاحب چې دعوتي پر کيفيته ژبه درلوده له ويناوو سره يي له سترګو دردمندي وښکوو بدرګه کيدلي.. د شاه وينا په نجونو دومره اثر وکړ چې بي اختياره ژړاګاني پيل شوي يو شمېر نجونې بي هوشه شوي...
کله چي شاه صاحب دغه حالت وليد د خپل وينا لوري بدل کړ او د توبی فضايل او د الله تعالی د رحمن او رحیم صفتونو په اړه او هغه موارد بيان کړل چي الله تعالی له خپل بنده څخه د توبی په اساس څومره خوشحاليږئ بيا د الله تعالی سره د دوستۍ او محبت فضايل ، واقعات او اجرونه يي بيان کړل..
په کومه طريقه ښاريانو ته دا خبر ورسېد.. خلک جوپي جوپي دروازي تر شاه راټول شول يو شمېر په ديوالونو وختل او غوښتل يي چي د شاه اسماعیل شهيد بيان واوري..
شاه صاحب نجونو ته د اوداسه او دوه رکعته نفل لمونځ هدايت وکړ.. نجونې چي کله الله تعالی ته په سجده پريتوتي بل لوري ته شاه صاحب قبلی لوري ته ودريد او په لوړ آواز يي الله تعالی ته دغه ډول فرياد وکړ.. اي مقلب القلوب او مصرف الاحوال ذاته!
زه ستا د حکم د تعميل لپاره دومره کولای شم چي ستا بندګاني نن تا ته په سجده پرتي دي.. ته د دوي زړونه پاک کړه.. ګناهونه معاف کړه.. ابرومند ژوند ورکول ستا لپاره هيڅ مشکل ندي.. ابرومند ژوند ورکړه .. هدايت ورنصيب کړه او په نيکو بندګانو کي يي شامل کړه....
يو لوري دعا ختمه شوه او بل لوري ته په سجده پرتو نجونو په سلګو سلګو د الله تعالی څخه د توبی ګاري شوي...
له همدې ورسته ټولو نجونو توبه وکړه.. د فحاشۍ هډه د تل لپاره بنده شو.. ځوانانو نجونو نکاح ګاني وکړي.. پاخه عمر لرونکو ښځو په خپلو کورنو کي خواري مزدوري پيل کړه...
په دغه نجونې کي تر ټولو ښايسته او مشهوره چې په موتي بيګم یاديده.... په خپل عبادت او د خلکو په اجتماعي خدمت کي تر ټولو مخکښ شوه.
څو کاله ورسته هغي د مجاهدينو ته د خوراک تيارولو کار په غاړه واخيست... په خپلو لاسو به يي خوراک تيارو.. ژوند يي دين ته وقف کړ په غريبانه او ساده لباس کي چا تري پوښتنه وکړه چې څه احساس کوي....
هغي وويل: په الله تعالی سوګند يادوم کله ما هم د ژوند څخه دومره لطف او خوند ندي اخستي لکه څومره يي چې زه د الله تعالی بندګانو په خدمت کي اخلم...
قدرمنو ورونو: مونږ هميشه د ګناه پر ځاي د انسانانو نفرت کړي.. د خپلو ګناهونو لپاره وکيل او نورو انسانانو ګناهونو لپاره قاضيان او مفتيان يو... هميشه خپل ګناهونه راته واړه او د نورو راته غټ ښکاري. د ځان د حالت څخه خبر نه يو ليکن د نورو ځاي راته په جهنم کي معلوم وي..
الله تعالی دي لمړي ما ته هدایت نصيب کړي.....
( تذکرہ الشہید )
Tumblr media
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
ایک فتنہ معاشی لحاظ سے ملک تباہ کرنے آیا تھا، مولانا فضل الرحمان
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت سوچ سمجھ کر ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی،سوائے اس ایک فتنے کے جو ملک کو معاشی لحاظ سے تباہ کرنے آیا تھا،یہ بات میں بلاوجہ نہیں سوچ سمجھ کر آن ریکارڈ کہہ رہا ہوں۔ ملتان کے دینی تعلیم کے ادارے قاسم العلوم میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عالم بننے کیلئے عالم کی استعداد پیدا کرنا ضروری ہے،سیاست کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فرور�� کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔ 
Tumblr media
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
تعلیماتِ خاتم النبیینؐ پیغامِ امن عالم
اسلام نام ہے زندگی گزارنے کے اس طریقے کا جو آخری رسول کریم حضرت محمد ﷺ سے پہلے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کا تھا اور بعد میں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا، اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا میں انبیاء کرامؑ کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’اﷲ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا، اور جس کی وحی آپؐ کو کی گئی، اور جس کا حکم موسٰی اور عیسٰی کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
versesnmoon · 7 months
Text
کتنی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ تم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوتے ہو اور تمھاری روح چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ یہ میری جگہ نہیں اور نہ میرا اس عالم سے کوئی تعلق ہے...!
دوستوفسکی
[ترجمانی: طاہر اسلام عسکری]
Tumblr media
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
میڈیا کی ڈولی بھی لٹک رہی ہے
Tumblr media
بٹگرام میں لٹکتی ڈولی سے تو بچوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے لیکن کیا میڈیا کے سینیئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کو کچھ خبر ہے کہ میڈیا کی اپنی ڈولی بھی لٹک رہی ہے؟ ہے کوئی صاحب خان جیسا رضاکار جو اس ڈولی کو سیدھا کرے؟ بٹگرام میں بچے صبح سے ڈولی میں پھنسے ہوئے تھے۔ شام اترنے لگی تو سورج کے ساتھ دل بھی ڈوبتا محسوس ہوا۔ پریشانی کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو وجود میں سیسہ اتر گیا۔ نیوز کاسٹر چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ ’ناظرین، دیکھیے یہ ہم ہیں اور ہم نے سب سے پہلے قوم کو خبر دی تھی کہ یہاں بچے پھنس چکے ہیں۔‘ ایک ہی سانس میں، چیختے چلاتے کوئی نصف درجن بار ’سب سے پہلے‘ کا یہ پہاڑا ختم ہوا تو نیا سلسلہ شروع ہو گیا: ’ناظرین، یہ ایکسکلوزیو مناظر صرف ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں!‘ ( اور مناظر وہ تھے جو چار گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر دیکھے جا چکے تھے اور وہ ان میڈیا والوں نے نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائے تھے)۔ اس کے بعد سینیئر تجزیہ کاروں کی مدد سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ شروع ہو گیا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں فی الحال جونئیر تجزیہ کاروں کی پیدائش پر پابندی ہے)۔
سوال ہوا، ’بتائیے گا وہاں کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟‘ اور اس سوال کا جواب وہ صاحب دے رہے تھے جو مبلغ ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بٹگرام کی تازہ ترین صورت حال کے نام پر وہ سارا رواں تبصرہ فرما دیا جو سوشل میڈیا پر دستیاب تھا۔ خبر پڑھنے اور سوال کرنے کا انداز بیاں اور لہجہ ایسا تھا جیسے شوق اور سرمستی میں آدمی یوں جوش میں آ جائے کہ سرشاری میں خود پر قابو نہ پا سکے۔ یہ گویا ایک دہری اذیت تھی، وحشت کے عام میں ٹی وی بند کرنا پڑا۔ ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا کہ سوگواری کے عالم میں خبر پہنچانے کا اسلوب جدا ہوتا ہے۔ آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے متانت مانگتے ہیں، سنجیدگی، ٹھہراؤ اور وقار۔ جہاں سنجیدگی اور گداز اختیار کرنا چاہیے یہ وہاں بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پرسہ دینا ہو وہاں یہ ’می رقصم‘ ہو جاتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ہر وقت اور ہر مقام ڈگڈگی بجانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ کیا سوگواری کے لمحات کے صحافتی آداب نہیں ہوتے؟ ایک پہر کے لیے ہی سہی؟
Tumblr media
’آزادیِ صحافت‘ کے کچھ مناظر، جو میرے مشاہدے میں ہیں، درد کی صورت وجود میں گڑے ہیں۔ کوئٹہ میں بلاسٹ ہوا، ہمارے وکیل دوست ٹکڑوں کی صورت بکھر گئے، چینل پر خبر چل رہی تھی اور ہم لہو رو رہے تھے، مگر اگلے ہی لمحے شوخی بھری کمرشل بریک چل پڑی: ہم سا حسین ہونا چاہتے ہو؟ لودھراں میں ایک معصوم بچے کا ریپ کے بعد قتل ہوا۔ لاشہ گھر میں رکھا تھا اور لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ نیوز کاسٹر نے رپورٹر سے کہا، ’کیا آپ ہماری مقتول کی والدہ سے بات کروا سکتے ہیں؟‘ رپورٹر نے مائیک غم کی ماری ماں کے سامنے کر دیا۔ بیٹے کے لاشے کے پاس بیٹھی ماں سے نیوز اینکر نے سوال پوچھا، ’آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں؟‘ سیلاب کا ایک منظر ہے۔ اگست کے دن ہیں۔ ایک بوڑھا سیلاب کے پانی میں سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑی سی ٹوکری ہے۔ ٹوکری میں دو سہمے ہوئے معصوم سے بچے اور ایک مرغی ہے۔ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ پر ایک اینکر نے سوال پوچھا، ’کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنا سکتے ہیں؟‘
دکھوں کا مارا وہ بوڑھا بے بسی اور حیرت سے اینکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ سکندر نامی ایک شخص نے بلیو ایریا میں اپنے ہی اہل خانہ کو یرغمال بنایا تو چینلوں پر اس کی لائیو کوریج شروع ہو گئی۔ اس کوریج کے دوران ایک وقت آیا سکندر صاحب رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جا گھسے۔ نیوز کاسٹر نے شدت جذبات سے اعلان فرمایا: ’ناظرین یہ لائیو مناظر صرف آپ ہماری سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔‘ سکندر صاحب رفع حاجت کر کے واپس آ گئے مگر نیوز کاسٹر نے کتنی ہی دیر قوم کی رہنمائی جاری رکھی کہ ’ناظرین، یہ ہے وہ خصوصی منظر جو آپ صرف اور صرف ہماری سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔‘ یہ اپنے مشاہدے میں سے چند صحافتی نگینے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ آپ اپنے مشاہدات کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ حسیات میں پیوست کانٹوں کی پوری ایک مالا بن سکتی ہے۔ میڈیا کی ڈولی لٹک رہی ہے۔ اسے ریسکیو کرنے کون آئے گا؟
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
hassanriyazzsblog · 8 months
Text
🌹🌹 🅣🅗🅔 🅢🅤🅟🅔🅡🅘🅞🅡🅘🅣🅨
🅞🅕 🅚🅝🅞🅦🅛🅔🅓🅖🅔
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL LIVING**🔹
0️⃣7️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💧 *THE SUPERIORITY OF KNOWLEDGE :*
*According to a tradition, The Prophet of Islam ﷺ once said, “The ink of a scholar’s pen is superior to the blood of a martyr.”*
(Tarikh Baghdad by Al-Khatib Al-Baghdadi, Vol. 2, p. 190)
*This tradition shows that knowledge is greater than all other things.*
Learning is like food for our minds. It expands our mental horizons. A higher level of education is associated with better mental functioning, with better planning.
Any physical activity is finite. After a certain point, we reach our physical limitations. But the case of knowledge is different.
*Since there is no limit to knowledge, a person possessing the wealth of knowledge becomes limitless.*
🌹🌹 *_And the journey_ _Continues_ ...* *________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💧 *علم کی خوبی :*
*ایک روایت کے مطابق ، پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک بار فرمایا ، "عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے افضل ہے۔"*
(تاریخ بغداد از الخطیب البغدادی، جلد 2، صفحہ 190)
*اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علم تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے۔*
علم ہمارے دماغ کے لیے غذا کی طرح ہے۔ یہ ہمارے ذہنی اُفُقْ (دائرۂ نظر) کو وسعت دیتا ہے۔ اعلیٰ سطح کی تعلیم کا تعلق ، بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ بہترین ذہنی کام کرنے سے ہے ۔
کوئی بھی جسمانی سرگرمی محدود ہوتی ہے۔ لیکن علم کا معاملہ مختلف ہے۔
*چونکہ علم کی کوئی حد نہیں، اس لیے جس کے پاس علم کی دولت ہے وہ لا محدود ہو جاتا ہے۔*
🌹🌹 *اور سفر جاری ہے....*
0 notes
khabeer09 · 8 months
Text
عملية شد الثدي كم تكلف
عملية شد الثدي كم تكلف عملية شد الثدي كم تكلف تعد أسعار عمليات شد الثدي في مصر محط اهتمام الكثير من السيدات، تلجأ السيدات إلى هذا النوع من جراحات التجميل للتغلب على ترهل وتدلي الثدي بشكل واضح، يرجع أسباب هذا التدلي إلى العديد من العوامل منها الحمل، الرضاعة الطبيعية وفقدان الوزن المفاجيء، تزداد حدة هذا التدلي مع التقدم بالعمر، لقد ساهم التطور الكبير الذي تشهده جراحات التجميل مؤخراً في جعل عملية شد ورفع الثدي واحدة من العمليات التي تُحقق نتائج ممتازة وتُلاحظ المريضة نتائج فورية بمجرد الخروج من غرفة العمليات.
عملية شد الثدي كم تكلف عوامل تحديد أسعار عمليات شد الثدي في مصر تعد مصر واحدة من الدول الرائدة في عالم جراحات التجميل لا سيما عمليات شد الثدي ويرجع هذا إلى:
مهارة جراحي التجميل في مصر. انخفاض أسعار عمليات شد الثدي في مصر مقارنة بالدول الأخرى. من الصعب تحديد رقم معين على أنه تكلفة عملية شد الثدي في مصر؛ وذلك بسبب اختلاف سعر العملية من حالة لأخرى باختلاف مجموعة من العوامل مثل:
مهارة الجراح. نوع عملية الرفع (جراحية، بالليزر، بالخيوط). تكلفة الإقامة في المستشفى. مستوى الرعاية الصحية المُقدمة. تكاليف التحاليل اللازمة قبل الخضوع إلى العملية. حجم الترهل أو التدلي نفسه. كل تلك العوامل بالتأكيد متغيرة من حالة لأخرى وعليه تختلف التكلفة، إلا أننا إذا أردنا ذكر متوسط أسعار عمليات شد الثدي في مصر لتكون مؤشر للراغبين في الخضوع إلى العملية فهي تتراوح بين 50 إلى 65 ألف جنيه مصري، قد تنخفض أو ترتفع التكلفة حسب العوامل السابق ذكرها.
ما هو مفهوم عملية تجميل الثدي؟ وضح الدكتور اسلام حسني جراح التجميل الهدف من إجراء عملية تجميل الثدي وهو التمتع بثديين أكثر صلابة وانتصاب عن طريق استخدام التقنيات الحديثة في شد ورفع الثديين لأعلى وازالة الجلد الزائد المتسبب في ترهلات الثديين ثم يتم حقن الثدي أو تركيب دعامة ليصبح أكثر استدارة وامتلاءً مع تعزيز افراز كولاجين الجلد لكي يتمتع الثدي بالمرونة مما ينعكس على ثقة المرأة في نفسها.
المرشح الأمثل لعملية تجميل الثدي ذكر الدكتور اسلام حسني سمات المرشحات للخوض في تجربة تجميل الثدي على النحو التالي:
السيدات اللاتي تعاني من ترهل في الثديين. السيدات اللاتي تواجهن مشكلة تغيير اتجاه حلمات الصدر إلى أسفل الثنيات بسبب ارتخاء عضلة الصدر. السيدات اللاتي تواجهن عقبة امتداد الهالة السوداء بما لا يتلائم مع شكل الثديين. علاج مشكلة عدم التماثل في حجم وشكل الثديين. السيدات اللاتي لا يخططن للحمل في الفترة المقبلة. الفتيات التي تعاني من صغر حجم الثديين وترغب في امتلاك ثديين أكثر صلابة واستدارة. السيدات الراغبات في اخفاء علامات تقدم العمر من الثديين.
الاستفسار الرجاء التوصل مع افضل دكتور تجميل انف و افضل دكتور تجميل صدر في مصر
0 notes
emergingpakistan · 2 months
Text
میں کس کو ووٹ دوں؟
Tumblr media
آج الیکشن کا دن ہے اور میں الجھن میں ہوں کہ کس کو ووٹ دوں۔ میری پہلی پہلی پریشانی یہ ہے کہ میرے حلقے میں سارے امیدوار ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ سنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت باقاعدہ چھانٹی کے بعد یہ طے کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ مجھے تو آج تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسی نیک ہستیاں اتنی بڑی تعداد میں میرے حلقے میں رہتی ہیں۔ میں اب سر پکڑ کر بیٹھا ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے اللہ والوں میں سے کس کو ووٹ دوں اور کس کو نہ دوں۔ کافی سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سب کو ووٹ دینا چاہیے لیکن معلوم ہوا کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایک ماہر قانون سے رابطہ کیا کہ کوئی قانونی گنجائش نکالو تا کہ سب بزرگوں کو ووٹ دے سکوں تو اس نے کہا کہ جو تم چاہتے ہو یہ تو نہیں ہو سکتا البتہ اس نے مفت قانونی مشورہ دیا ہے کہ میں پولنگ سٹیشن جانے کی بجائے کسی اچھے طبیب کے پاس چلا جاؤں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ میں ووٹ ڈالنے جاؤں یا طبیب کے پاس جاؤں۔
دوسری پریشانی یہ بنی کہ ابھی ابھی ایک سیانے نے بتایا ہے کہ ووٹوں سے بننے والا وزیراعظم یہاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے حکمت اسی میں ہے کہ صرف نگران وزیراعظم کو منتخب کیا جائے۔ اس نے سمجھایا کہ منتخب وزیراعظم پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ اس بے چارے کی حکومت مدت ہی پوری نہیں کر پاتی اور بعد میں وہ سیدھا جیل جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اس کو ووٹ دوں گا جو نگران وزیراعظم بننا چاہے گا۔ معلوم ہوا کہ ووٹ سے نگران وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ ووٹوں سے صرف منتخب وزیراعظم بنتے ہیں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کیا مجھے ان برگزیدہ لوگوں میں سے کسی کو ووٹ دے کر مصیبت میں ڈالنا چاہیے؟ ابھی اسی شش و پنج ہی میں تھا کہ ایک سیانے نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے والا آدمی اہم نہیں ہوتا ووٹ گننے والا اہم ہوتا ہے۔ میں نے اس افواہ پر کان تو بالکل نہیں دھرے لیکن سچی بات ہے کہ اپنی اس ناقدری پر دل کچھ پھیکا سا ہو گیا ہے۔ اسی پریشانی میں سوچا کہ نواز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریر سنتا ہوں اور جو مشورہ یہ دیں گے، اس پر عمل کروں گا۔ 
Tumblr media
بلاول صاحب فرمانے لگے کہ پرانے سیاست دانوں کو ہرگز ووٹ نہ دینا اور میاں صاحب نے حکم دیا کہ باریاں لینے والوں کو تو بالکل بھی ووٹ نہ دینا۔ میں نے ان دونوں کی بات پلے باندھ لی اور ان دونوں کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ میری الجھن مزید بڑھ گئی کہ اب کیا کروں۔ ایک خیال آیا کہ اب لگے ہاتھوں عمران خان صاحب کا خطاب بھی سن لوں اور پھر فیصلہ کر لوں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی سماعتوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ یہ عزیمت کا سفر ہے اور اب مزید ان کے بس کی بات نہیں۔ پھر سوچا میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ووٹ دے دیتا ہوں لیکن معلوم ہوا کہ ان کا تو مخاطب ووٹر ہی صرف ایک مکتب فکر ہے، ان کے امیدواران کی اکثریت بھی اسی پس منظر سے ہے۔ انہیں ایک عامی کے ووٹ کی جب ضرورت ہی نہیں تو مجھے اس تکلف سے انہیں بد مزہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر میں نے مختلف جماعتوں کے منشور دیکھے، یہ اقوالِ زریں کا خوب صورت مجموعہ تھے۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ایک بار پھر سب جماعتوں کو ووٹ دینے کا سوچا مگر یاد آ یا کہ اس کی تو اجازت ہی نہیں۔
روایتی سیاست سے بے زاری تھی مگر تبدیلی کے سونامی نے جو تارا مسیحائی کی تو سارے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اب وہ عالم بھی نہیں ہے کہ کوئی نعروں اور جذبات سے بے وقوف بنا لے کیونکہ اب سبھی کا نامہ اعمال ہمارے سامنے ہے۔ سبھی اقتدار میں رہ چکے اور سبھی کم و بیش ایک جیسے نکلے، بلکہ جنہیں تبدیلی کا دعویٰ تھا ان کے دستِ ہنر نے اس معاشرے کو دوسروں سے زیادہ گھاؤ دیے۔ بھٹو صاحب زندہ ہیں لیکن اتفاق دیکھیے کہ ان سے ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی۔ جہاں جہاں شعور کی سطح بڑھتی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کا وجود سمٹتا جا رہا ہے۔ ووٹ کو عزت کیسے دینی ہے یہ اب کوئی بتا ہی نہیں رہا۔ جو دوسروں کے نامہ سیاہ کی تیرگی تھی وہ اپنی زلف میں آئی تو ضد ہے کہ اسے حسن کہا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو حسبِ ضرورت اسلام دشمن قرار دے کر دونوں کی قربت میں رہنے والے مولانا ویسے ہی اقتدار کے کوہ کن ہیں، حکومت کسی کی بھی ہوئی کابینہ میں ان کا حصہ بقدر جثہ یقینی ہے۔ تبدیلی ویسے ہی ایک بھیانک خواب نکلی۔ سونامی، اسم با مسمی ثابت ہوا۔
اب پھر ووٹ کس کو دیا جائے اور کیوں دیا جائے؟ اگر آپ میری رہنمائی کر دیں تو ابھی جا کر جلدی سے ووٹ ڈال کر اپنا قومی فریضہ ادا کر آؤں۔ لیکن اگر آپ میری رہنمائی نہ بھی فرمائی تو آپ کی عین نوازش ہو گی کیونکہ خوش قسمتی سے یہ سب وہ لوگ ہیں جو آرٹیکل 62 کے تحت مستند قسم کے نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار ، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ ان میں سے جو بھی جیت جائے، فتح حق کی ہو گی۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
urdudottoday · 8 months
Text
 خیرپور يونين آف جرنلسٹس کی جانب سے سينيئر صحافی جان محمد مہر کے قتل کی مذمت
اردو ٹوڈے، خیرپور پی ايف يو جے رہنماء صوفی محمد اسحاق سومرو، خیرپور یونین آف جرنلسٹس کے صدر سید اکبر عباس زیدی، شجاعت صدیقی ، علی بخش بروہی، اطہر صدیقی، بشیر راجپوت، مقبول شیخ، آغا شیر عالم، اسد علی ناریجو، ثاقب صدیقی، مہتاب باقری، اشرف مغل، عباس باقری، ارتضیٰ زیدی،اویس سومرو، اظہر ابڑو، اسلام الدین شیخ، رمضان آرائیں، اسد علی راجپر، اسلام الدین عباسی، غلام جعفر راجپر سمیت دیگر صحافیوں نے کا کہنا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
فیض آباد دھرنا کمیشن نے ابتدائی طور پر تمام ریکارڈ طلب کر لیا
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کا پہلا باضابطہ اجلاس ہوا۔ کمیشن نے ابتدائی طور پر تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن کا اجلاس سابق آئی جی اختر شاہ کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس میں کمیشن کے رکن ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ بھی شریک ہوئے جبکہ ایک اور رکن سابق آئی جی طاہر عالم اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔ ذرائع نے بتایا کہ انکوائری کمیشن نے ابتدائی طور پر تمام ریکارڈ طلب کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes