Tumgik
#Maryam Nawaz
pressnewsagencyllc · 1 hour
Text
Pakistan should not fight with its neighbours, says Maryam Nawaz quoting her father while addressing Sikhs
Lahore, Chief Minister of Pakistan’s Punjab province Maryam Nawaz on Thursday invoked Punjabi pride, met a group of Sikh pilgrims, mostly from India, and reminded the gathering at the Kartarpur Sahib Gurdwara that her father Nawaz Sharif said the country should not fight with its neighbours. Pakistan should not fight with its neighbours, says Maryam Nawaz quoting her father while addressing…
View On WordPress
0 notes
prabodhjamwal · 2 months
Text
Pak Coalition Takeover 'Overshadowed' By Economic Challenges, Focus On Personalities
By Pranjal Pandey* On February 8, 2024, Pakistan conducted its parliamentary elections with 44 political parties contesting for 265 seats in the National Assembly. This marked the 12th general election in the country since it gained independence 76 years ago. After the announcement of results on February 11, the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N), under the leadership of Nawaz Sharif, and the…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mushshu1979 · 1 year
Text
Tumblr media
Guess who?
0 notes
theviralclip · 2 years
Text
While speaking to flood victims in Rajanpur, Maryam Nawaz stumbles off the stage (VIDEO)
While speaking to flood victims in Rajanpur, Maryam Nawaz stumbles off the stage (VIDEO) #MaryamNawaz
In Lahore. Vice-president of the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N), Maryam Nawaz, fell from a platform on Wednesday while speaking to flood victims in the far southwest of Punjab province, although she was unharmed. A video posted to social media shows the PML-N leader in Rajanpur when the temporary stage collapsed while he was flanked by party leaders. The politician, who is 48 years old,…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
policypursuit · 2 years
Photo
Tumblr media
(via "Where are prison vans?" Asks social media users as PMLN goes into hiding - Policy Pursuit)
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
ن لیگ خوفناک دوراہے پر
پرائمری کی سطح کے طالب علم بھی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ 1906 میں ڈھاکا میں بنی اور اب ڈھاکا پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے، یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ مسلم لیگ کا ہیڈ کوارٹر لکھنؤ میں تھا اور لکھنؤ ماضی ہی کی طرح آج بھی ہندوستان کا حصہ ہے۔ گویا مسلم لیگ کی جہاں پیدائش ہوئی اور جہاں وہ نوخیزی سے جوانی تک جا پہنچی، وہ دونوں مقامات پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، اسی طرح 1906 میں معرض وجود میں آنے والی مسلم لیگ کا بھی اب پاکستان میں نام ونشان نہیں ہے۔ ہوا یہ تھا کہ 1937 اور 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں سے پذیرائی نہیں ملی تھی، قیام پاکستان کے قریب پاکستانی فیوڈل لارڈز، نوابوں اور خان بہادروں نے قائد اعظم کی مسلم لیگ میں جوق در جوق شمولیت اختیار کر لی اور اس طرح سول و فوجی نوکر شاہی سے ملکر بعدازاں اقتدارپر قبضہ کر لیا اور آج تک ان کی نسلیں پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہیں، قائداعظم محمد علی جناح نے غالباً اسی سبب کہا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ 
یہ کھوٹے سکے ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کے غریب عوام کی قسمت کھوٹی کر کے رکھ دی ہے۔ خیر ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت کی مسلم لیگ آج عنقا ہے اور جو مس��م لیگیں آج مختلف ناموں سے معروف ہیں، یہ 1962ء میں ٹوٹنے والی مسلم لیگ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ اس وقت سے مسلم لیگ مختلف حصوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور آج بھی انواع و اقسام کی مسلم لیگیں موجود ہیں، ان میں مگر ن لیگ کے نام سے جو مسلم لیگ ہے، عوام اُسی کو اصل سمجھتے ہیں، یہ جماعت میاں نواز شریف کی زیر قیادت 1988ء سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے مسلم لیگ کو نئی جہت دی، اگرچہ ابتدا میں یہ مسلم لیگ بھی اقتدار پرستی کے حوالے سے روایتی جانی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ سیاسی نشیب وفراز یا پھر میاں صاحب اور مقتدرہ کے مزاج کے فرق نے اسے ماضی کی مسلم لیگوں سے ممتاز کر دیا۔ 
سب سے بڑی آبادی رکھنے والے صوبے کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوصف اگرچہ ن لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت قراردی جاسکتی ہے لیکن دیگر صوبوں میں اس کی مقبولیت میں اضافہ پرویز مشرف کے دور کے بعد اُس وقت شروع ہوا جب اس جماعت کے قائد نے اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف اپنایا، بعدازاں پیپلزپارٹی سے میثاقِ جمہوریت کر کے اس جماعت کی قدر میں مزید اضافہ ہوا، ان دنوں بھی اس جماعت کی ملک بھر میں مقبولیت کی ایک یا پھر شاید بنیادی وجہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہے جو بالخصوص میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ کے پرجوش انداز فکروعمل کا مرہونِ منت ہے، تاہم ماضی میں موسم لیگ قراردی جانے والی اس مسلم لیگ کے تمام عہدیداروں اور ارکان اسمبلی نے بھی روایتی سوچ و انداز تبدیل کرتے ہوئے اس بیانیے کو نہ صرف اون کیا بلکہ اس سلسلے میں ن لیگ میں دراڑ ڈالنے والوں کے تمام منصوبے بھی خاک میں ملا دئیے۔ 
یوں تو مختلف اوقات میں اس جماعت کو کئی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں میاں صاحب کی جدہ جلاوطنی اور ابتلا کے دیگر ادوار شامل ہیں، لیکن عمران خان حکومت کے جانے کے بعد حالات و واقعات نے اس جماعت کو ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جو بہت سے خطرات سے پُراور مشکل ترین ہے۔ اس وقت مہنگائی کی وجہ سے وہ فضا جو پی ٹی آئی مخالف تھی بڑی تیزی سے پی ٹی آئی کے حق میں تبدیلی ہوتی جارہی ہے، وہی کفن چور والا معاملہ یہاں بھی ہو گیا ہے کہ لوگ کفن چور کو بھول گئے تھے اور اُس کے بیٹے نے چونکہ کفن چور سے بھی زیادہ عوام کی ناک میں دم کر رکھا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ خدا بخشے کفن چور کو جو صرف کفن چوری کرتا تھا یہ (نیا والا) تو کفن چوری کے ساتھ مُردے کی بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا احوال نامہ ہو بہو اس وقت یہی ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں نہ تو اتنی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور نہ ہی اتنی مہنگائی تھی۔ 
یہ درست ہے کہ ایسے ہی بحرانی حالات ہوتےہیں جب قیادت کے جوہر کھل کر سامنے آجاتے ہیں لیکن یہاں بظاہر معجزے کے ماسوا کوئی اور تدبیر یا راستہ نظر نہیں آتا۔ بہترین موقع وہ تھا کہ عدم اعتماد کے فوری بعد عام انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا، اس سے جہاں مہنگائی کے الزام سے عمران خان کو بری الذمہ یا اُن کے دور کی مہنگائی کو بھلانے کا موقع میسر نہ آتا وہاں ن لیگ کی وہ مقبولیت جو اُن دنوں تھی وہ عام انتخابات میں کیش ہو جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ ن لیگ کی پلاننگ یہی تھی لیکن پیپلزپارٹی اور مولانا صاحب نے حکومت سازی کا مشورہ دیا، اب یہ دونوں جماعتیں تو مختلف وجوہ کی بنا پر فائدہ میں ہیں اور مزید کی توقع رکھتی ہیں لیکن مہنگائی کا سارا ملبہ ن لیگ کے سر پر گر رہا ہے۔ گویا ن لیگ کو دو محاذوں پر اب اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے، اول معیشت کو سنبھالا دیتے ہوئے مہنگائی پر قابو پانا، دوئم عوام میں عدم اعتماد سے قبل کا اعتماد بحال کرنا۔ دوسراراستہ عام انتخابات کا فوری اعلان کر کے رہی سہی ساکھ کو بچانا ہے، ہر دو صورتوں میں ن لیگ کے پاس پانے سے زیادہ کھونے کے امکانات زیادہ ہیں، دیکھتے ہیں یہ جماعت اس دوراہے سے گزر کر کس طرح خود کو عوام وتاریخ میں منواتی ہے۔
اجمل خٹک کثر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
don-lichterman · 2 years
Text
Imran warns of Pak's denuclearisation, split; Maryam says ‘lost sanity after…’ | World News
Imran warns of Pak’s denuclearisation, split; Maryam says ‘lost sanity after…’ | World News
Pakistan Muslim League Nawaz (PML-N) vice-president Maryam Nawaz on Thursday hit out at former Prime Minister Imran Khan over his comment on the country’s future in the wake of a severe economic crisis. During a TV interview, the ousted PM was asked about his future strategy if the “establishment” is not with him “irrespective of your popularity as was the case with Benazir Bhutto.” Khan warned…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
قوم کی قسمت کے فیصلے اور ہجوم
اللہ مغفرت فرمائے، کرشماتی افسانہ نگار انتظار حسین یاد آتے ہیں۔ کہنے کو کون نہیں جو ��چھ نہ کچھ کہہ لے لیکن انتظار صاحب محاورے میں بات کہتے اور مجمع لوٹ لیتے۔ مثلاً شدت کی گرمی کو انھوں نے بہت گرمی کبھی نہیں کہا۔ وہ کچھ ایسی بات کہتے کہ جیسے گرمی ایسی ہے کہ چیل بھی انڈہ چھوڑ جائے۔ اس روز بھی گرمی کی کیفیت کچھ ایسی تھی جب میں بغرض مجبوری گھر سے نکلا اور ایک محلے کی دکان پر پہنچا۔ خواہش اور امید تو یہی ہوتی ہے کہ بندہ پیسے دے، چیز لے اور گھر پہنچے لیکن یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی کسی بات نے دکان دار کو خفا کر دیا تھا اور دیہی مزاج کا یہ شخص بے بھاؤ کی سنا رہا تھا۔ دوسری طرف گاہکوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ بس اسی پر انتظار صاحب یاد آگئے۔ ٹیلی ویژن سے جیسا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حالات حاضرہ سے م��علق ایک تبصرہ نما خبر یا تجزیہ نشر ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کہنے والوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے کہہ دیا ہے کہ عمران خان اگر پچیس تیس ہزار بندے لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں تو زیادہ اینڈنے کی ضرورت نہیں۔ بس، الیکشن کا اعلان کرو، اپنا بوریا بستر لپیٹو اور گھر جاؤ۔
بڑے شہروں میں کاروبار کی صورت مختلف ہوتی ہے۔ لوگوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے اور وہ جلدی میں ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھ لیا، ایک ہاتھ دیا اور یہ جا وہ جا۔ دیہی مزاج کے بازاروں اور گاؤں دیہات میں جو پاکستان کے ساٹھ باسٹھ فیصد سے زاید ہیں، نسبتاً مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی شخص کسی بڑے شہر کا چکر لگا آئے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ سناؤ کیا دیکھ کر آئے ہو؟ گویا کوئی بات بغیر نوٹس کے نہیں جاتی۔ اسلام آباد کی نواحی بستیوں کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تو ان صاحب نے بیس پچیس ہزار کے مجمعے اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کی بات سنی تو خفا ہو گئے۔ ان کی خفگی کو ہوا ایک اور صاحب جو ٹی وی اینکر ہیں ایک جملے سے دی۔ یہ وہی جملہ تھا کہ صاحبان معاملہ دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ بس اسی چیز نے ان صاحب کا پارہ چڑھا دیا اور کھری کھری سنانے لگے۔ مفہوم ان کی بات کا یہ تھا کہ اگر عمران چند ہزار کے ہجوم کی طاقت سے حکومت کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کیا دوسروں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ وہ بھی لاؤ لشکر کے ساتھ آئیں گے اور اپنی بات منوا لیں گے۔ ہم میڈیا کے اسیروں اور سوشل میڈیا کی چمک دمک میں کھو جانے والوں کے لیے بر سر زمیں سننے کو ملنے والے اس ردعمل نے ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔
تو بات ہے کہ ایک مرکزی دھارے کی میڈیا کی دنیا ہے جس کا اپنا مزاج اور مجبوریاں ہیں اور ایک سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس پر خواہشات کی حکمرانی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں کی خوبی یہ ہے کہ یہ بڑی آسانی کے ساتھ گلی محلے میں رونے، چیخنے اور چلانے والے کی آواز اور تصویر دونوں کو غائب کر سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کیا پوری دنیا ہی اس تجربے سے گزر رہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تاثر یہ ہے کہ عمران خان جو پوری طلاقت لسانی کے ساتھ میدان میں نکلے ہیں اور اپنے گرد ہجوم کو متحرک کرنے میں بھی کام یاب رہے ہیں، معرکہ مار چکے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی تمام تر جادوگری کے باوجود پاکستان کی اکثریت اس صورت حال کا تجزیہ کسی دوسرے کے ذہن کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وہ اسے اپنے تجربے اور اپنے دکھوں کی روشنی میں دیکھتی ہے اور ایسا تجزیہ کرتی ہے جس کی جڑیں زمین سے اٹھتی ہیں۔
اس دکان دار کا یہ کہنا کہ دوسرے کیا چوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے تبصروں کی طرح بڑا بلیغ تبصرہ ہے۔ اس کا مطلب فقط یہ نہیں ہے کہ یہ جنگ دو سیاسی قوتوں کے درمیان ہے یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف۔ یہ تجزیہ کچھ اور بتاتا ہے۔ اس تجزیے کو سمجھنے کے لیے موجودہ اتحادی حکومت کی ہیئت ترکیبی کو سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کتنی بھی بڑی جماعت ہو، وہ کتنے بڑے جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی قدرت رکھتی ہو، اس کے مقابل کھڑی سیاسی جماعتیں جدوجہد اور مزاحمت کا زیادہ بڑا تجربہ اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمارے دانش ور سیاسی کارکن ناصر الدین محمود بھی تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ اگر سڑکوں پر ہونا ہے تو پھر جان رکھیے کہ سڑکوں پر گھمسان کا رن پڑے گا اور پھر جو کچھ ہو گا، وہ کسی کے سنبھالے سنبھلے گا نہیں۔ اس بات کا مطلب کیا ہے؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کر کے دیکھ لیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جمعیت علمائے اسلام اس وقت حکومت میں ہے۔
حکومت میں ہونے کے باوجود وہ اس وقت ایوان اقتدار کی پرسکون فضاؤں میں نہیں بیٹھے بلکہ حزب اختلاف کے کسی راہ نما کی طرح سڑکوں پر ہیں اور جلسے کر رہے ہیں۔ جلسوں کی کوریج کے بارے میں عمران خان نے اگرچہ کہہ دیا ہے کہ روشنی ہی سب کچھ ہے۔ یعنی روشنیوں کی چکا چوند سے اصل حقائق چھپا کر من مرضی کے حقائق تخلیق کیے جاسکتے ہیں۔ عمران خان ایسا کر دکھانے میں بھی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن نے روشنیوں کے چمتکار کے بغیر ہی بڑے بڑے جلسے کر دکھائے ہیں۔ ان کے جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی مولانا فضل الرحمن ہی کی طرح سڑکوں پر ہیں اور بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں۔ حکمراں اتحاد کی یہ دو بڑی جماعتیں ہیں۔ اب ذرا دیگر جماعتوں کی تاریخ، مزاج اور صلاحیت کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ اگر ہجوم ہی کو فیصلوں کا معیار بنا لیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، پختونخوا میپ اور ان کی دیگر تمام ساتھی جماعتیں بھی مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل آئیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
اس لیے عقل کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کا حوصلہ جواب دے گیا ہے تو وہ اپنے حوصلے کی دوا کرے لیکن پاکستان کی قسمت کو ہجوم کے ہاتھ میں دینے سے گریز کرے۔ اس بار اگر ایسا ہو گیا تو آئین قانون، ضابطہ اور سیاسی طور طریقے سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور ملک اس راہ پر چل نکلے گا جس کے نتیجے جیتی جاگتی زندگیاں مٹی کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں۔
فاروق عادل 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pressnewsagencyllc · 11 days
Text
PTI leaders hit out at Maryam Nawaz for labelling Khyber Pakhtunkhwa as 'corridor of terrorists' - Times of India
ISLAMABAD: Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) leaders on Saturday lashed out at Punjab Chief Minister Maryam Nawaz for calling Khyber Pakhtunkhwa as ‘a corridor of terrorists and smugglers,’ Dawn reported, adding that the PTI leaders blamed the Pakistan Democratic Movement (PDM) government for the resurgence of terrorism in the country.Addressing the press conference along with Punjab PTI Secretary…
View On WordPress
0 notes
mylove-and-dreams · 2 years
Text
Tumblr media
1 note · View note
farooq-rashid · 5 months
Text
Tumblr media
1 note · View note
Text
Pakistan economy | pakistan economy news | imran khan | imran khan news | imran khan pakistan | Maryam Nawaz Sharif
Pakistan: Even in Bengali, political temper-marium made Imran’s insult, saying – ‘Shut up and sit down’ In Pakistan, which is facing an economic plight, politics is not even taking the name of diminishing। The matter was even reached that Maryam Nawaz Sharif told Imran Khan directly – sit quietly. Image Source: FILE PHOTOMary Nawaz lashes Imran Khan Pakistan: In Pakistan, which is facing an…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
policypursuit · 2 years
Photo
Tumblr media
(via Asma Shirazi quote retweets fake image of flooded BRT Peshawar - Policy Pursuit)
0 notes
globalcourant · 2 years
Text
Maryam Nawaz falls off table while addressing flood affectees in Rajanpur
Maryam Nawaz falls off table while addressing flood affectees in Rajanpur
RAJANPUR: PML-N Vice President Maryam Nawaz on Wednesday suddenly fell from a table when she was addressing flood affectees in Rajanpur district of Punjab. In the video available with Geo News, Maryam Nawaz, surrounded by the flood victims, can be seen delivering her speech. Suddenly, the table, she was standing on, collapsed and she fell to the floor. Fortunately, the PML-N leader was not…
View On WordPress
0 notes