Tumgik
#PML N
emergingpakistan · 19 days
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
luqmansiddiqui13024 · 2 months
Text
0 notes
news-wave · 2 months
Text
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
راہ رو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا
Tumblr media
اب سے پانچ دن پہلے فتح محمد ملک کے بیٹے طارق ملک نے نادرا کی سربراہی سے دوسری بار استعفیٰ دے دیا۔ دو ہزار چودہ میں بھی مسلم لیگ ن کے دور میں اسی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا کیونکہ اس وقت کے انا پرست وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو طارق ملک میں ’’ یس سر جی سر بالکل سر‘‘ کی شدید قلت کے سبب ان کی شکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ چوہدری صاحب یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ ووٹروں اور حامیوں کی توقعات اپنی جگہ مگر طارق ملک کا نادرا ایک ٹکنیکل ادارہ ہے اس لیے دیگر سرکاری اداروں کے برعکس یہاں پرچی کے بجائے میرٹ پر ہی بھرتیاں ہو سکتی ہیں۔ نیز یہ کہ ٹیکنالوجی اختیار کر کے شفاف ای گورنمنٹ تشکیل دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر ٹیکنالوجی کو سیاسی مصلحتوں کی لگام سے کنٹرول کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ تازہ استعفی محض سادہ استعفی نہیں بلکہ یہ ہمارے اس اشرافی کردار کا آئینہ ہے جو زبان پے کچھ اور عمل میں کچھ ہے۔ چیئرمین نادرا نے اپنے تیاگ پتر میں لکھا کہ انھیں جون دو ہزار اکیس میں متعدد انٹرویوز کے بعد ایک سو سے زائد امیدواروں میں سے اس منصب کے لیے چنا گیا۔
تب وہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے نیویارک ہیڈ کوارٹر میں بطور چیف ٹکنیکل ایڈوائزر کام کر رہے تھے۔ مگر پاکستان چونکہ ہمیشہ سے ان کی پہلی محبت ہے لہٰذا جب انھیں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب کیا گیا تو وہ پینتالیس نئے اہداف لے کر واپس آئے اور دو برس کی قلیل مدت میں سب کے سب مکمل بھی کر لیے۔ ان اہداف میں آٹو میٹڈ فنگر آئیڈینٹٹی سسٹم کا نفاز بھی تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اڑسٹھ بلین ڈالر کی عالمی بائیومیٹرک سلوشن مارکیٹ میں امریکا، برطانیہ ، یورپی یونین اور روس کے ہم پلہ ہونے کے قابل ہو گیا۔ پاکستان موبائل ایپ کے ذریعے ایک عام صارف کو دستاویزات کی آن لائن بائیومیٹرک توثیق و تصدیق کی سہولت فراہم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفکیٹس کے اجرائی نظام کے سبب روائیتی عدالتی بوجھ میں تیس فیصد تک کمی آ گئی اور خواتین ورثا کی جائداد میں حصہ داری کی دعویداری کا عمل بھی سہل اور شفاف ہو گیا۔ مختلف وزارتوں ، اداروں اور ایجنسیوں کی کارکردگی کو ای گورننس کے قالب میں ڈھالنے کے لیے ڈیجیٹل پاکستان پروگرام شروع ہوا۔
Tumblr media
اس عرصے میں تئیس ہزار اہلکاروں پر مشتمل اس ادارے کو میرٹ کے اصول پر اس طرح ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سماج کے تمام طبقات کو بلاامتیاز و حیل و حجت ڈیجیٹل شناخت و تصدیق سمیت دیگر سہولتوں کی چھتری تلے لا سکے۔ ان اصلاحات کے سبب ڈیجیٹل سہولتوں سے استفادے میں حائل صنفی فرق کو چودہ فیصد سے گھٹا کے آٹھ فیصد تک لانے میں کامیابی ہوئی۔ گزشتہ دو برس میں ساڑھے پانچ لاکھ خصوصی افراد، پچاس لاکھ اقلیتی شہریوں اور ہزاروں ٹرانس جنڈر پاکستانیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔ پہلی قومی ڈیجیٹل مردم شماری کو شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے خصوصی سافٹ وئیر سے مزین ایک لاکھ چھبیس ہزار ڈیجیٹل ٹیبلٹس محمکہ شماریات کو فراہم کی گئیں۔ وہ ضعیف شہری جن کے انگوٹھے کے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے تصدیق سروس، ڈیجیٹل پاور آف اٹارنی کا اجرا، اور شہریوں کے کوائف استعمال کرنے سے پہلے ان کی پیشگی اجازت کے لیے ڈیجیٹل سروس متعارف کروائی گئی۔ کوویڈ اور سیلاب کے بحرانی دنوں میں ضرورت مندوں کی بروقت امداد کے لیے ان کے شناختی ڈیٹا کی متعلقہ اداروں کو فراہمی و توثیق میں نادرا نے بنیادی کردار نبھایا۔
مگر کسی بھی غیرجانبدار پروفیشنل اہل کار کے لیے یکسوئی سے کام کرنا روز بروز مشکل ہوتا چلا جاتا ہے جب سیاسی فضا مکدر ہوتی چلی جائے اور پروفیشنل لوگوں اور اداروں کو بھی ’’ ہم اور تم ‘‘ کے میزان پر تولا جانے لگے۔ سیاسی وفاداری میرٹ سے افضل سمجھی جانے لگے۔ قطع نظر کون سی پارٹی اقتدار میں ہے اور کون حکمران ہے۔ میں نے شرحِ صدر کے ساتھ تمام حکومتوں کے ساتھ ذاتی وقار و شائستگی ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فرائض نبھانے اور ہر رکنِ پارلیمان اور پارلیمانی کمیٹیوں کے استفسارات بلا امتیاز نمٹانے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن سے تعاون کرتے ہوئے ووٹرز لسٹ کی تیاری کے دوران تین سو سے زائد سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو تحریری دعوت دی کہ وہ اپنے کسی بھی سوال یا تحفظ کے بارے میں براہ راست رابطہ کر کے وضاحت مانگ سکتے ہیں۔مگر موجودہ منقسم اور کشیدہ سیاسی ماحول میں یہ پیشہ ورانہ توازن برقرار رکھنا میرے لیے مشکل تر ہو رہا ہے۔ لہٰذا میں استعفی پیش کر رہا ہوں۔ 
بس اتنی درخواست ہے کہ اس جگہ کسی حاضر یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے بجائے ایسے شخص کا تقرر کیا جائے جو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل مینیجمنٹ کے تقاضوں کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ نادرا ان گنے چنے اداروں میں شامل ہے جو پاکستان میں بہترین کارکردگی کا مثالیہ کہے جا سکتے ہیں۔ ایسے ادارے مزید سیاسی تجربوں یا دباؤ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہماری ٹیکنیکل ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک قومی سرمایہ ہیں اور اس سرمائے کا تحفظ قومی زمہ داری ہے۔ ان کے بغیر یہ ادارہ اتنا آگے نہیں جا سکتا تھا۔ میں ان سب کے لیے نیک تمناؤں کا طالب ہوں۔ پاکستان زندہ باد۔ یہ ایک پڑھے لکھے مڈل کلاس پاکستانی کی کہانی ہے۔ اس نے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بتیس برس پہلے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کیا۔ جرمنی میں شلر یونیورسٹی ہائڈل برگ سے انٹرنیشنل بزنس مینیجمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ ہارورڈ کینیڈی اسکول اور پرنسٹن سے جدید ادارہ سازی کا نصاب پڑھا۔ دو برس حکومتِ بحرین کے انفارمیشن سسٹم کا مشیر رہا۔ امریکی ریاست مشی گن کی وئین کاؤنٹی کے ڈیجیٹل پروجیکٹ مینیجمنٹ سسٹم کی تشکیل میں چھ برس مختلف حیثیتوں میں کلیدی کردار نبھایا۔پھر پاکستان لوٹ آیا۔
دو ہزار آٹھ تا بارہ نادرا کے ٹیکنالوجی ڈویژن کا سربراہ رہا۔ اس حیثیت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا مینیجمنٹ سسٹم ، آفات سے متاثر افراد کی مالی مدد میں شفافیت لانے کے لیے بائیومیٹرک کیش گرانٹ سسٹم کے علاوہ افغان مہاجرین کی ڈیجیٹل رجسٹریشن سسٹم ، موبائیل فون پیمنٹ سسٹم اور اسمارٹ کارڈ کے منصوبوں کی داغ بیل ڈالی۔ دو ہزار بارہ تا چودہ بطور چیئرمین نادرا کو ایک خود کفیل منافع بخش وفاقی ادارہ بنایا۔ ریونیو میں تین سو فیصد تک اضافہ کیا۔ شفاف انتخابات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے لیے بائیو میٹرک ڈیٹا بیس بنایا۔ دو ہزار چودہ تا سولہ امریکا کی ٹیرا ڈاٹا کارپوریشن میں بطور سینیر انڈسٹری کنسلٹنٹ ریاستی ، مقامی اور وفاقی حکومت کو ڈیٹا مینیجمنٹ اور ای گورنمنٹ کے بارے میں مشاورت فراہم کی۔ ایک سال ورلڈ بینک میں ٹکنیکل کنسلٹینسی کی۔ اگلے چار برس اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی فنڈ ( یو این ڈی پی ) کے چیف ٹکنیکل ایڈوائزر رہے۔ بائیس جون دو ہزار اکیس تا تیرہ جون دو ہزار تئیس دوسری بار نادرا کے سربراہ بنے۔
طارق ملک کا شمار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے وابستہ چوٹی کے ایک سو عالمی انلفوئنسرز میں ہوتا ہے۔ امریکا ، یورپ ، روس ، سعودی عرب ، کینیا، نائجیریا، صومالیہ ، سوڈان ، تنزانیہ ، ملاوی ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی سرکاریں بھی ان کی مشاورت سے فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ طارق ملک جیسوں کے لیے دنیا پہلے بھی بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔ اب بھی کھڑی ہے۔ اب وہ بھی ان سات لاکھ سے زائد پروفیشنلز میں شامل ہونے والے ہیں جو پچھلے دو برس میں یہ ملک دل پے پتھر رکھ کے چھوڑ گئے اور چھوڑتے ہی چلے جا رہے ہیں اور پتھر دن بدن وزنی ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص ’’ موسمِ ڈار‘‘ آنے کے بعد تو ڈار کی ڈار پرواز بھرتی جا رہی ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
satiresale · 2 years
Photo
Tumblr media
ائے شو باز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ میٹرو اپنی منزل کی جانب رواں دواں
#SatireSale #PakistaniMemes #PakistaniMemer #Memes #Satire #Sarcasm #Funny #ShahbazSharif #MetroBus #MetroStation #GandaNala #PoliticalMemes #Politics #DailyMemes #Trending #Viral #FunnyMotivation
0 notes
arabellaseraphim · 2 months
Text
Time to forget about Pokemon Presents for the rest of today (until 9 pm in my place) so it can come faster
Tumblr media
8 notes · View notes
boyfrillish · 1 year
Text
I only started playing masters right at the end of october (fashionably late, yes) when I instantly zoomed when I heard about Unova chapter dropping, so I missed out on like every story event ever and am so confused on what’s supposed to be the timelines (but that goes for main series games since around ORAS & Gen VII too tbh especially bc I went hiatus-mode mid Gen VII but anyway) but I cry a lot about masters!Nate because he’s a treasure and I hope he gets an alt soon
Also masters!Cheren adopting every angsty emo rival is my favorite thing
2 notes · View notes
shiningpakistan · 2 months
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
Tumblr media
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت خ��م کر دی گئی۔ 
Tumblr media
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
prabodhjamwal · 2 months
Text
Pakistan Elections: The ‘Militablishment’ May Have Won The Battle, But Is It Losing The War?
“Pakistan’s multiple socio-economic and geographic challenges will only worsen if the country’s powerful military continues to try to control the nation’s decision-making processes” Ershad Mahmud* The recent general elections in Pakistan, the results of which are yet to be finalised, gave birth to distinct themes, echoing with clarity and significance. Among these, a resounding message becomes…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpress · 2 months
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 20 days
Text
پرانے چہرے، نئی وزارتیں
Tumblr media
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی تعیناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہو گا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
Tumblr media
کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہو گا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہو گا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہو گی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہو چکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے اور وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔ ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہو گی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہو گی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی کے باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جو کہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔ 
اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔
زاہد حسین 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
pakistantime · 6 months
Text
نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان
Tumblr media
میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا
انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں
ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
Tumblr media
گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔
نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔
ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔
میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
کیسے اور کس کو ووٹ دینے کا وقت ہے
Tumblr media
پاکستان کے عام انتخابات جن کے بارے میں بہت ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالا آخر پولنگ کا وقت آہی پہنچا ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہو گی۔ اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔ پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے، ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔
بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیاد�� امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہو گا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہو گی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔ اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے ووٹر کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔
Tumblr media
یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہو گا۔ انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہو گی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہو گی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔
پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔ میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔ ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ 
پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔ پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔
مزمل سہروردی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 11 months
Text
سیاسی پارٹیوں میں مطلق العنانی
Tumblr media
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں میراث ہے نہ مطلق العنانی بلکہ جمہوریت ہے۔ جہاں امیر جماعت کی من مانی کی بجائے پارٹی مشاورت سے کام ہوتا ہے اور مقررہ مدت کے بعد طریقہ کار کے مطابق امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور امارت کے حصول کے لیے کوئی رہنما از خود امیدوار نہیں بنتا بلکہ جماعت کے مجوزہ طریقے کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے ذریعے مرکزی امیر منتخب کر لیا جاتا ہے جو حلف اٹھانے کے بعد من مانے فیصلے کر کے عہدیدار مقرر نہیں کرتا جب کہ باقی کسی جماعت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ پارٹی قائم کرنے والا ہی سربراہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی میں اپنی مرضی ہی کے عہدیدار نامزد کرتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی تقرری اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔ ہر پارٹی اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی بورڈ ضرور بناتی ہے اور پارلیمانی بورڈ اپنی سفارشات ہی پیش کر سکتا ہے حتمی فیصلہ پارٹی سربراہوں کا ہی ہوتا ہے۔ آصف زرداری کو پیپلز پارٹی، نواز شریف کو مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو جے یو آئی بنی بنائی ملی۔ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر جتنے گروپ مسلم لیگ میں بنے اور کامیاب بھی رہے۔
غیر سول آمروں نے جب بھی اقتدار سنبھالا انھوں نے اپنی مرضی کی مسلم لیگ بنوائی اور اقتدار میں شریک کیا۔ جنرل ایوب کی مسلم لیگ کنونشن کا تو کوئی وجود نہیں رہا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیگم پی پی کی چیئرمین بنی تھیں۔ جنھیں فارغ کر کے بے نظیر بھٹو نے پارٹی سنبھال لی تھی جن کی شہادت کے بعد آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی کے وارث تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بنے گا اور وہ خود چیئرمین بن گئے مگر پارٹی میں وہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی گئی جس کی حکومت تین سال ہی میں جنرل ضیا نے ختم کر دی تھی جو بعد میں جونیجو لیگ کہلائی جس کے نواز شریف سربراہ بنے جو اب (ن) لیگ کہلاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) قائم کر کے اس کی حکومت بنوائی جس نے 5 سال حکومت کی اور اس کے تین وزیر اعظم رہے، اگر بے نظیر کی شہادت نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ق) 2008 میں دوبارہ حکومت بناتی۔ (ق) لیگ کی سربراہی میاں اظہر اور چوہدری شجاعت کے پاس تھی اس کے حقیقی سربراہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔ (ق) لیگ سکڑ کر چوہدریوں تک رہ گئی ہے۔ 
Tumblr media
پیر پگاڑا مرحوم کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ف) بھی وراثت میں موجودہ پیر پگاڑا کو ملی ہے جو سندھ کے چند اضلاع اور پگاڑا خاندان تک محدود ہے۔ مسلم لیگ کے سب سے زیادہ گروپ بنے اور (ن) لیگ اب نواز شریف کی سربراہی میں کام کر رہی ہے اور انھی کی مرضی اور پالیسی کے مطابق چلائی جا رہی ہے اب میاں صاحب نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بھی بنا دیا ہے۔ میاں صاحب کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پر اب (ن) لیگ کے سینئر رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں اور نواز شریف دو سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں اور (ن) لیگ اب باپ بیٹی کے گرد گھومتی ہے اور (ن) لیگ میں دکھاؤے کے الیکشن بھی نہیں کرائے جا رہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی من مانیوں کا راج ہے جو اب بھٹو خاندان سے ختم ہو کر زرداری خاندان کی ذاتی جاگیر بن چکی ہے اور پی پی کے سینئر رہنماؤں پر 32 سالہ بلاول زرداری کی حکمرانی ہے کیونکہ وہ وراثتی چیئرمین ہیں۔ جے یو آئی کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں اہم سیاسی پارٹی ہے جو پنجاب میں اہمیت کی حامل نہیں اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، جہاں دکھاؤے کے الیکشن ہوتے ہیں۔ جے یو آئی کے سینئر رہنماؤں نے بلوچستان میں جے یو آئی کا نظریاتی گروپ ضرور بنایا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی عمران خان نے بنائی تھی اور پی پی اور (ن) لیگ سے نالاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں اور ممتاز وکلا نے عمران خان سے اچھی توقعات وابستہ کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی مگر جب انھوں نے قریب جا کر عمران خان کی من مانیاں اور پارٹی میں آمریت دیکھی تو ان رہنماؤں نے پی ٹی آئی چھوڑنا شروع کر دی تھی جس کا عمران خان پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ ان کے اصول بدلتے رہے اور انھوں نے مخلص اور نظریاتی رہنماؤں کو نظرانداز کر کے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اہمیت دینا اور الیکٹیبلز رہنماؤں کو بالاتروں کی مدد سے پی ٹی آئی میں لینا شروع کر دیا تھا کیونکہ عمران خان ہر قیمت پر اقتدار چاہتے تھے۔ انھوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کر کے انھیں سہانے خواب دکھائے، بالاتروں کو متاثر کر کے ان کی حمایت حاصل کی اور اقتدار میں آ کر جو من مانی کی وہ دنیا نے دیکھ لی۔ عمران خان بیانیے تبدیل کرنے کے ماہر نکلے اور ساری پارٹیوں میں قائدین کی من مانیاں جاری ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
therigh · 1 year
Text
Fawad's challenge to see Rana Sana out in his own city without guards
Fawad’s challenge to see Rana Sana out in his own city without guards
After hearing about the election, the rulers start having panic attacks, Tehreek-e-Insaf‘s decisions have been taken, if the federal government does not want to contribute, then it is their will, Fawad Chaudhry. Fawad’s challenge is to see Rana Sana out in his own city without guards. Hearing about the election, the rulers start having panic attacks, Tehreek-e-Insaf‘s decisions have been made,…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
اقتداری اور سیاسی مصلحتیں
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں اپنی بے بسی کا جو اعتراف کیا وہ نیا نہیں بلکہ اب تک ہر سیاسی جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ بے بسی کا مسئلہ رہا ہے صرف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا مگر بعد میں ان کے خلاف بھی ملک میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں جس کے نتیجے میں انھیں راولپنڈی کے جلسے میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھ��۔ لیاقت علی خان کے بعد آنے والے تمام ہی وزیر اعظم مختصر عرصہ بعد اقتدار سے ہٹائے گئے کہ بھارتی وزیر اعظم نہرو کو کہنا پڑا تھا کہ ’’ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔‘‘ پاکستان کے چار فوجی حکمرانوں نے تین عشروں سے زیادہ اور تقریباً چار عشروں تک سیاسی وزرائے اعظم نے حکومت کی۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے دور میں کوئی سیاسی وزیر اعظم نہیں تھا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کے بعد جنرل یحییٰ سے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرایا گیا تھا اور بھٹو صاحب غیر منتخب صدر اور پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں 1973 کے متفقہ آئین کے تحت وزیر اعظم بنے تھے۔ جنرل یحییٰ نے 1970 میں غیر جانبدارانہ انتخابات اپنی مصلحت کے تحت کرائے تاکہ وہ صدر برقرار رہ سکتے مگر انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس آئے تھے۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی سے قبل سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلائی تھی جس کی ناکامی کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھال لیا تھا اور دو سالہ صدارت میں وہ مزید صدارت کے خواہاں تھے مگر ملک ٹوٹ گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آتے ہی سیاسی حمایت کے حصول کے لیے بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کیا تھا جو انتخابات نہ کرائے جانے پر حکومت چھوڑ گئی تھیں اور 1985 میں انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کروا کر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا مگر وہ واحد اصول پرست سیاستدان تھے۔ جنھوں نے جنرل ضیا کی مرضی کے خلاف فیصلے کیے تو جنرل ضیا نے انھیں ہٹا دیا تھا اور میاں نواز شریف واحد وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جنھیں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا تھا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا اور 2002 میں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کرائے اور ان کی صدارت میں ملک کو تین وزیر اعظم ملے جن میں چوہدری شجاعت اور ظفراللہ جمالی سیاسی وزیر اعظم تھے۔
جنرل پرویز مشرف کو اپنا مفاد غیر سیاسی شوکت عزیز میں نظر آیا مگر اپنے مزید اقتدار کے لیے انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ یو اے ای جا کر این آر او کیا اور وہ بے نظیر کی وطن واپسی نہیں چاہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف خود نواز شریف اور بے نظیر کے اسی طرح خلاف تھے جیسے آج عمران خان میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے صدارت بچانے کے لیے بے نظیر سے معاہدہ کیا اور بے نظیر نے وزیر اعظم بننے کے لیے وطن واپسی کو ترجیح دی اور دو ماہ میں شہید کردی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف 2007 میں 8 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی ملک کا مزید صدر بننا چاہتے تھے۔ 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت نے جنرل پرویز مشرف کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف پیپلز پارٹی کے امین فہیم اور اعتزاز احسن کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں وردی میں صدر منتخب کرایا مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں ملک کا وزیر اعظم نہیں بنایا جس پر وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے ظفراللہ جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا تھا جن کے وہ اب سخت ترین مخالف ہیں۔
1970 کے بعد 2022 تک 52 سالوں میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تقریباً 20 سال اور سیاسی وزرائے اعظم محمد خان جونیجو سے عمران خان تک جتنے وزرائے اعظم اقتدار میں آئے ان کا عرصہ اقتدار تقریباً 32 سال بنتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب، ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے اور باہمی اختلاف پر حکومت سے علیحدہ ہو کر انھوں نے صدر ایوب کے خلاف کھل کر تحریک چلائی تھی۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف طویل عرصہ اقتدار میں رہے مگر مصلحتوں کا شکار رہے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف تینوں بار وقت سے قبل اقتدار سے نکالے گئے۔ اب ان کے بھائی شہباز شریف اقتدار میں ہیں جو پہلی بار تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے مگر عمران خان نہیں مانتے اور اپنے ہٹائے جانے کا ذمے دار کبھی امریکا کو کبھی غیر جانبدار ہو جانے والوں کو قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کو آر ٹی ایس کے باعث اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادی دلا کر وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور اپنے اتحادیوں کے الگ ہونے کے بعد وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔ 
عمران خان نے بھی اقتدار کے لیے 5 قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کو دو اور سات نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم کو ایک وزارت دی تھی اور اختر مینگل والے اصول پرست رہنما تھے جنھوں نے 4 نشستوں کے باوجود کوئی وزارت نہیں لی تھی اور عمران حکومت میں ہی وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت کی حمایت چھوڑ دی تھی۔ جنرل ضیا کے دور میں محمد خان جونیجو ان کی جی حضوری کر کے وزیر اعظم رہ سکتے تھے مگر وہ اصولوں پر قائم رہے جس پر انھیں ہٹایا گیا تھا۔ سابق وزراء اعظم میں سے کوئی بھی اصول پرستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سب نے اقتدار کو اصولوں پر ترجیح دی اور مفاداتی سیاست کی۔ عمران خان نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کیا تھا۔ انھیں بالاتروں کی جتنی حمایت ملی کسی اور وزیر اعظم کو کبھی نہیں ملی تھی اور وہ اب بھی غیر سیاسی ہو جانے والوں کو اقتدار میں پھر آنے کے لیے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ غیرجانبداری ختم کر کے انھیں دوبارہ لائیں۔ عمران خان کی طرح کسی سابق وزیر اعظم نے ماضی میں کبھی ایسا نہیں کہا تھا جس سے تمام سابق حکمرانوں اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes