Tumgik
#pakistan travel
risingpakistan · 3 months
Text
رنی کوٹ
Tumblr media
رنی کوٹ 62 کلومیٹر پر پھیلا ہوا دنیا کا بڑے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے۔ کراچی سے پانچ سو بائیس کلومیٹرز کے فاصلے پر، دادو کی جانب سفر کرتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹا قصبہ آتا ہے، جس کا نا م سن ہے۔ اس سے تھوڑا آگے بائیں طرف مڑتے ہوئے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر رنی کوٹ نظر آتا ہے۔ سندھ کے دیگر قلعے مختلف مٹیریل سے بنے ہیں۔ مثال کے طور پر مٹی کی پکی اینٹیں اور پتھر وغیرہ مگر یہ کوٹ مقامی پتھر سے بنا ہوا ہے، جس میں چونا، چیرولی اور مقامی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کوٹ میں اندر تین چھوٹے قلعے بھی موجود ہیں جن میں میری کوٹ، شیر گڑھ اور موہن کوٹ شامل ہیں۔ اس کے درمیان سے ایک برساتی نالہ گذرتا ہے، جس میں چشمے کا پانی بھی شامل ہے۔ جس کو ”نئیں” کہا جاتا ہے۔ سندھی میں” نئیں” کا مطلب برساتی نالہ ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا نام رنی کوٹ پڑا۔ رنی کا مطلب ہے بہتا ہوا پانی۔ گرد واطراف میں یہاں کے گبول، رستمانی اور کھوسہ رہائش پذیر ہیں، جو کھیتی باڑی کا کام کرنے کے ساتھ مویشی پالتے ہیں۔ شہر کی زندگی سے دور یہ ایک پرسکون تفریحی مقام ہے، جہاں جا کر انسان تازہ دم ہو جاتا ہے۔ شہر کی آلودہ ہوا سے دور یہاں کی فریش ہوا میں سانس لینے کا لطف ہی الگ ہے۔ ایک کھلی جگہ آپ کا استقبال کرے گی۔
Tumblr media
آپ سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر جائیں گے تو دور آسمان کے مٹیالے اور نیلے رنگ خوش آمدید کہیں گے۔ ہوا خوشگوار تھی اور اس کا جھونکا مقامی جھاڑیوں اور جنگلی پودوں کی خوشبو ساتھ لے کر آتا۔ اس قدامت میں ایک عجیب سحر تھا۔ میں فقط یہ سوچ رہی تھی کہ یہ کوٹ کس نے تعمیر کروایا ہو گا۔ اور وہ بھی ایک دور افتادہ جگہ پر۔ نامورآرکیلوجسٹ اشتیاق انصاری نے اپنی کتاب سندھ کے کوٹ اور قلعہ میں واضح تحریر کیا ہے کہ ’’اس قلعے کے قریب جاتے ہی طلسماتی کشش آپ کو گھیر لیتی ہے۔ یہ قلعہ سحرانگیز، پراسرار اور افسانوی داستان جیسا دکھائی دیتا ہے۔ کوٹ کے اند بڑی فصیلیں ہیں اور ان پر برج بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ قلعہ پہاڑ پر تعمیر کیا گیا ہے، لہٰذا اوپر جانے کے لیے اونچی سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کوٹ کے اندر کنواں اور تالاب موجود ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ ساسانی سلطنت جو فارس (موجودہ ایران) میں 622 غ سے 156 تک قائم رہی۔ ممکن ہے کہ حملہ آوروں سے بچنے کے لیے یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہو، یہ قلعہ کسی معمے سے کم نہیں ہے۔ ہم لوگ جیسے جیسے کوٹ کو دیکھتے گئے تجسس بڑھتا رہا کہ آخر اس کوٹ کے خالق کو اس کی تعمیر کا خیال کیسے آیا ہو گا۔ اس کی تعمیر کے حوالے سے کئی مفروضے تخلیق کیے گئے ہیں۔
Tumblr media
رنی کوٹ پر سندھ کے محقق بدر ابڑو نے بھی کتاب لکھی ہے۔ دوسرے محققین بھی رنی کوٹ پر کام کرتے رہے ہیں، اگر قبل مسیح کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو قلعے کی تعمیر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اسے یونانی، ساسانی اور کچھ محقق اسے ٹالپر دور سے منسوب کرتے ہیں۔ جب کہ ’’ سائرس اعظم’’کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ سائرس کا اصلی نام گورد یا کورش تھا اور عبرانی میں اس کا تلفظ خورس بتایا جاتا ہے۔ بسیار ارمیا اور دانیال کے صحائف میں جابجا اس نام کا ذکر آیا ہے۔ عربی میں خسرو یا خیسرو کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا پارسی نام چیہ تھا۔ یہ قدیم فارس (ایران) کا عظیم شہنشاہ تھا۔ جس کا عروج قبل مسیح 955 سے 530 تک رہا۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین میں ہوتا ہے۔ اس نے غیر معمولی شجاعت کے باعث ایک امیر سے ترقی کرتے ہوئے شہنشاہوں کی صف میں جگہ پیدا کی۔ اس نے تین بڑی سلطنتوں میڈیا، لیڈیا اور بابل کو زیر کر کے فارس کی چھوٹی ریاست کو عظیم الشان سلطنت میں بدل دیا۔ جو کورش کے حکومت کے خاتمے تک، سلطنت ایشیائے، کوچک اور اناطولیہ سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد، اس نے دریائے سیحوں (سندھ) اور دریائے جہوں کے درمیانی علائقے صغدیہ کو فتح کیا، یوں ان کی سلطنت ماورالنہر اور ہندوکش تک پھیل گئی۔ 
Tumblr media
ممکن ہے کہ دی گریٹ وال آف سندھ (رنی کوٹ) سائرس اعظم یعنی کورش اعظم نے تعمیر کا حکم دیا ہو، بہرکیف اس کوٹ کی تعمیر ایک حیرت انگیز تخلیق ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد قلعہ ہے، جو اپنی بناوٹ، محل وقوع اور تاریخی تناظر میں ایک شہ پارہ ہے۔ کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ یہاں پریاں آتی ہیں، لہٰذا اس کا نام پریوں کا تڑ پڑگیا۔ یعنی پریوں کا تالاب۔ وہاں پریاں تو نظر نہیں آئی مگر لینڈ اسکیپ خوبصورت تھا۔ خاموش اور باوقار۔ نیلے آسمان کے نیچے پہاڑ ماضی کی بھول بھلیوں میں گم تھے۔ اس کوٹ کے ارد گرد آبادی نہیں ہے۔ یہ بالکل الگ تھلگ اپنے وجود میں انفرادیت کا حامل ہے۔ یہاں کئی پوشیدہ غاریں ہیں۔ جن پر سائینٹیفک انداز میں کام ہونا چاہیے۔ آرکیالوجسٹ و انتھروپالوجسٹ اس پر مزید کام کریں۔ اس کوٹ کی بلند چوٹی کا نام ہنج چوٹی ہے، جو سطح سمندر سے دو ہزار فٹ بلند ہے۔ ہنج یعنی ہنس پرندہ ہے۔ میری دوست جو اس جگہ ہر موسم میں وزٹ کرتی رہی ہے اس کے بقول یہاں سورج ڈوبنے کا منظر حسین ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس جگہ پورے چاند کی رات کا منظر بھی خواب ناک ہو گا۔
میرے خیال میں نوجوانوں میں تاریخ کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ وقت میں نوجوان تاریخ سے ناواقف ہیں۔ سندھ کی تاریخ کے مختلف ادوار میں منفرد رنگ ملتے ہیں۔ یہاں مستقل گائیڈ مقرر ہونا چاہیے۔ بڑے شہروں سے ٹورسٹ بسیں چلنی چاہئیں تاکہ لوگ اس حیرت انگیز کوٹ کو دیکھ سکیں۔ حالیہ سیلاب نے اس کوٹ کو جو نقصان پہنچایا ہے مگر انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ اس کوٹ کی بحالی کا کام کروا رہے ہیں۔ قلعے کو عالمی معیار کے مطابق محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آثار قدیمہ کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ یہاں پر دنیا کے جدید قلعوں کی طرح سہولیات ہونی چاہئیں تاکہ آنیوالے لوگ یہاں رک کر آرام سے قلعے کو وزٹ کرسکیں۔
بلقیس سکندر 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
travellinghopper · 9 months
Text
Pakistan Travel Guide ( 2023 ) by Travelling Hopper
1 note · View note
thelifeofjord · 2 years
Video
youtube
DRIVING WORLD'S MOST BEAUTIFUL ROAD (PAKISTAN to CHINA)
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
پاکستانی پاسپورٹ ٹکے سیر کیسے ہوا؟
جدید پاسپورٹ کی عمر محض سو برس ہے۔ جب پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں جنگ سے متاثر لاکھوں لوگوں کی نقلِ مکانی اور آبادکاری کا مسئلہ درپیش ہوا تو لیگ آف نیشنز کے انیس سو بیس کے ایک خصوصی اجلاس میں رکن ممالک نے اس مسئلے سے بخوبی نپٹنے کے لیے راہداری کے اجازت نامے سے متعلق طرح طرح کی تجاویز پیش کیں۔ طے پایا کہ ایک ایسی دستاویز ریاستی سطح پر متعارف کروائی جائے جسے لیگ کے تمام رکن ممالک باہم تسلیم کریں۔ اس سفری دستاویز پر شہری کی تصویر اور بنیادی معلومات درج ہوں اور اس میں اتنے صفحات ہوں کہ آمد ورفت کے ریکارڈ کی خاطر مہر لگانے یا تحریری نوٹ درج کرنے کی گنجائش ہو۔ یوں امریکا انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے تحت پہلا ملک بنا جس نے جدید پاسپورٹ اپنایا۔ اس پہل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی بحران کے سبب یا بہتر زندگی کی تلاش میں سب سے زیادہ پناہ گزین امریکا کا رخ کرتے تھے۔
بھانت بھانت کے ان لوگوں کے بارے میں اندازہ نہیں تھا کہ کتنے جرائم پیشہ ہیں اور کتنے قانون پسند۔ چنانچہ نہ صرف امریکا نے اپنے شہریوں کے لیے بلکہ غیرملکیوں کے لیے بھی ایسی دستاویز کی شرط عائد کر دی جو ان کی ریاست نے جاری کی ہو۔ جو بھی یہ دستاویز دکھاتا اس پر نیویارک اور سان فرانسکو سمیت کسی بھی امیگریشن کے لیے نامزد بندرگاہ یا سرحدی راہ گزر پر پہنچتے ہی آمد کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ابتدا میں آنے والوں کے قیام کی مدت غیر معینہ تھی۔ رفتہ رفتہ ویزہ جاری ہونے لگا۔ اس سے پہلے ہزاروں برس سے انسان سرحدوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے عادی تھے۔ سیاحت و تفریح کے لیے بیرونِ ملک جانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ فاصلے طویل اور انجان تھے۔ اقوام ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ تر سنی سنائی معلومات رکھتی تھیں۔ تاجر طبقہ ، سرکاری عہدیدار، ظلم و ستم کے مارے یا پھر مفرور لوگ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک آتے جاتے تھے۔ان کے کوائف متعلقہ کوتوال یا ناظم کے پاس درج ہو جاتے اور یوں انھیں قیام اور پناہ کا حق مل جاتا۔
پاسپورٹ دراصل بیسویں صدی میں انسان کے انسان پر شکوک و شبہات اور بین الاقوامی بدظنی کی دستاویزی پیداوار ہے۔ مگر پاسپورٹ پر سفر چند عشروں پہلے تک بہت آسان تھا۔ ویزے کے لیے اتنے زیادہ دستاویزی ثبوت مہیا نہیں کرنے پڑتے تھے۔ زبان پر زیادہ اعتبار تھا۔ اور ویزہ پیشگی لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ پاکستانی پاسپورٹ پر انیس سو پینسٹھ کی جنگ تک سوائے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستوں کے بھارت سمیت ہر ملک کے لیے پیشگی ویزے کے بغیر سفر کیا جا سکتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے شہریوں کے لیے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کی اور وقت کے ساتھ ساتھ شرائط میں سختی بڑھتی چلی گئی۔ انیس سو ستر میں امریکا نے پاکستانی پاسپورٹ پر آن ارائیول ویزہ ختم کر کے پیشگی ویزہ حاصل کرنے کی شرط عائد کر دی۔
انیس سو بہتر میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کے حصول کا طریقِ کار انتہائی سہل بنا دیا۔ اس کے سبب خلیجی ممالک میں روزگار کے حصول کے لیے عام پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سفر کرنے کے قابل ہوئی۔بھٹو سے پہلے عام شہری کو بین الاقوامی پاسپورٹ اتنی آسانی سے جاری نہیں ہوتا تھا۔ اسے صرف حج پاسپورٹ سہل انداز میں جاری ہوتا تھا۔ انیس سو چوہتر میں پاکستانی پاسپورٹ پر ایک اضافی مہر لگنا شروع ہوئی کہ یہ دستاویز سوائے اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے ہر ملک کے سفر کے لیے کارآمد ہے۔ ( آج اسرائیل واحد ملک ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ پر جانے کی اجازت نہیں )۔ انیس سو اناسی میں افغان خانہ جنگی کے دوران مغربی ممالک اور ضیا حکومت میں ایک طرف یاریاں بڑھیں تو دوسری جانب انیس سو تراسی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کے لیے آن ارائیول ویزے کی سہولت ختم کر دی۔ اور پھر رفتہ رفتہ یہ سہولت برادر خلیجی ممالک نے بھی واپس لے لی۔
نائن الیون کے بعد یہ بے توقیری مزید بڑھی۔ جیسے جیسے بین الاقوامی سطح پر دھشت گردی میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے یا انسانی اسمگلنگ و منشیات کی گذرگاہ کا تاثر جڑ پکڑتا گیا۔ پاکستانی پاسپورٹ کا اثر بھی سکڑتا چلا گیا۔ وہ پاسپورٹ جو چالیس برس پہلے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاسپورٹ کا ہم پلہ تھا۔آج یہ حال ہے کہ اس پر ایک سو ننانوے ممالک میں سے صرف بتیس ممالک کے لیے بغیر پیشگی ویزے کے سفر ممکن ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش کے پاسپورٹ پر اکتالیس اور بھارت کے پاسپورٹ پر اکسٹھ ممالک کا بنا پیشگی ویزہ سفر ممکن ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف شام، عراق اور افغانستان ہیں۔ جن کے شہری علی الترتیب تیس ، انتیس اور ستائیس ممالک میں بنا پیشگی ویزے کے داخل ہو سکتے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کی فہرست میں ہم نیچے سے پانچویں تھے مگر ایک اور ملک نے پیشگی ویزے کی سہولت واپس لے لی اور اب ہم نیچے سے چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور یہ رینکنگ کم و بیش دو ہزار سولہ کے بعد سے مسلسل برقرار ہے۔
پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز اس وقت اٹھائیس ممالک کے پیشگی ای ویزہ کے لیے آن لائن اپلائی کر سکتے ہیں (اینٹی گوا اینڈ باربادوس ، سورینام، بولیویا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس ، ساؤتھ تومپ اینڈ پرنسپی، ایتھوپیا ، کانگو ، ڈی آر سی ، آئیوری کوسٹ ، گنی ، جنوبی افریقہ ، زمبیا ، زمبابوے ، بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا، لیسوتھو ، ملاوی ، یوگنڈا ، کرغزستان ، تاجکستان ، آزر بائیجان ، ملیشیا ، میانمار ، کمبوڈیا ، یواے ای ، بحرین )۔ بیس ممالک میں ای ویزے کے ساتھ ساتھ ویزہ آن آرائیول کی سہولت ہے ( بینن ، کینیا ، مڈغاسگر ، روانڈا ، یوگنڈا ، پالاؤ ، برونائی ، برونڈی ، کیپ ویردی ، کوموروز ، گنی بساؤ ، مالدیپ ، ماریطانیہ ، نیپال ، سیشلز ، سیرالیون ، صومالیہ ، ٹوگو ، توالو ، بولیویا )۔ جب کہ دس ممالک میں پاکستانی ویزا فری داخل ہو سکتے ہیں ( قطر ، بیلاروس ، ڈومنیکا ، ڈومینیکن ری پبلک، ہیٹی ، مائکرو نیشیا ، سینٹ ونسنٹ اینڈ دی گریناڈائز ، سمووا ، ٹرینڈاڈ اینڈ ٹوباگو ، ونوتو)۔
دل پے ہاتھ رکھ کے بتائیے گا کہ مذکورہ ویزہ فری دس ممالک میں سوائے قطر کے کتنے پاکستانی باقی نو مقامات کی سیر ، روزگار یا تعلیم کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں پینسٹھ ممالک کے باشندے ویزا آن آرائیول کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اپنے باشندوں کے لیے ان پینسٹھ ممالک سے بھی ویزا آن ارائیول کی سہولت نہ منوا سکے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
secondwheel · 7 months
Text
Tumblr media
Sirf tum (2023)
879 notes · View notes
vintagepromotions · 7 months
Text
Tumblr media
Kuwait Airways travel poster for Pakistan (c. 1960). Artwork by Alain Gauthier.
107 notes · View notes
visitheworld · 1 year
Text
Tumblr media
Chitta Katha Lake / Pakistan (by The Silent Traveler).
320 notes · View notes
Text
Tumblr media
Arang Kel, Pakistan
22 notes · View notes
ecoharbor · 3 months
Text
📍Chalt Valley, Nagar District, Pakistan 🇵🇰
39 notes · View notes
wiirocku · 4 months
Text
Tumblr media
Bishai Meadows in Swat Kalam, Pakistan
53 notes · View notes
nevzatboyraz44 · 4 months
Text
Pakistan, Hindistan
29 notes · View notes
risingpakistan · 6 months
Text
تفریحی سفر پر روانہ ہونے سے قبل کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
Tumblr media
کسی بھی سفر کے لیے سب سے پہلے ذاتی بجٹ مرتب کرنا انتہائی اہم ہے۔ بجٹ ایسا ہونا چاہیے کہ کم سے کم اخراجات میں بہتر تفریحی مواقع میسر آسکیں۔
بہتر منصوبہ بندی 
 سفری منصوبہ بندی کے لیے بہتر طریقے سے تیار کیا گیا بجٹ آپ کے سفر کو خوش گوار بناتا ہے بلکہ اس طرح سے اضافی اخراجات کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا اس لیے ضروری ہے کہ سفر پر نکلنے سے قبل تمام جزئیات کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر منصوبہ تیار کیا جائے۔
سفری سکیموں سے استفادہ  بعض فضائی یا سیاحتی کمپنیاں تعطیلات کے دوران مختلف اقسام کے سیاحتی و تفریحی پیکجز کا اعلان کرتی ہیں جس سے سفری اخراجات میں نہ صرف کمی آتی ہے بلکہ بچت بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ زیادہ سفر کرتے ہیں خواہ وہ کام کی غرض سے ہو یا تفریحی، اس صورت میں بھی اگر آپ سفری آفرز سے استفادہ کریں تو آپ کو کافی بچت ہوسکتی ہے۔
مناسب فضائی کمپنی اور ہوٹل کا انتخاب  فضائی ٹکٹ کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے جبکہ رہائش کی غرض سے ہوٹل کے اخراجات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے مناسب فضائی کمپنی اور کم اخراجات والے ہوٹلز کا انتخاب کیا جائے جو آپ کے بجٹ سے اضافی نہ ہو۔
Tumblr media
متبادل رہائشی ہوٹل کی تلاش  محدود بجٹ میں رہتے ہوئے بیرون ملک سفر کے لیے مناسب تیاری کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ تفریح سے بہتر طور پر لطف اندوز ہوسکیں۔ اس کے لیے مختلف امور پر غور کرنا ضروری ہے جس میں مناسب رہائش کے لیے ہوٹل کا انتخاب بھی بہت اہم ہے۔
محدود بجٹ کے لیے سیاحتی مقام کا انتخاب  سب سے پہلے اس بات کا یقین کرلیں کہ جن دنوں آپ تفریحی سفر پر نکلنے کا ارادہ کر رہے ہوں وہ ایسا وقت نہ ہو جب سیاحتی سیزن عروج پر ہوتا ہے۔ محدود بجٹ میں تفریحی پروگرام کے لیے وقت کا تعین کرنے کے بعد آپ کو چاہیے کہ مناسب ہوٹل کا انتخاب کریں تاکہ آپ کا بجٹ متاثر نہ ہو۔
بجٹ کے مطابق اخراجات کا تعین کریں  اپنے سفر پر روانہ ہونے سے قبل ممکنہ اخراجات کا تعین کرنے سے آپ کو بجٹ مختص کرنے میں آسانی ہو گی۔ انتہائی ضروری امور کے مطابق اخراجات کا تعین کیا جائے تاکہ حسب ضرورت بجٹ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس حوالے سے بعض ایپس بھی موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر ایپ کی مدد سے آپ مناسب فضائی ٹکٹ اور رہائشی ہوٹلوں کا تعین کر سکتے ہیں۔
ہوٹل کی بکنگ  جس جگہ کے سفر کا تعین کیا جائے وہاں کے رہائشی ہوٹلوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ بجٹ کی حدود کا تعین کرنے کے بعد رہائش کا انتخاب کرتے ہوئے مناسب ہوٹل کی بکنگ کرائی جائے۔
سیاحتی سیزن  عام طور پر سیاحتی سیزن میں جہاں سفری اخراجات بڑھ جاتے ہیں وہاں ہوٹلوں کی بکنگ اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے محدود بجٹ میں رہتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ سیاحتی سیزن کے دنوں کا انتخاب نہ کیا جائے۔
بشکریہ اردو نیوز  
0 notes
shopcopes · 21 days
Text
10 notes · View notes
thelifeofjord · 2 years
Video
youtube
our rickshaw broke down ..in Pakistan
0 notes
dixt · 10 months
Text
Tumblr media
wazir khan mosque in lahore, pakistan
44 notes · View notes
secondwheel · 6 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Kalank (2023)
527 notes · View notes