Tumgik
#urducolumn
komal01 · 6 years
Text
Chahe jitne marzi gham de mujhko aye zindagi, Ansoo toh utne hi bahenge jitna badan mein paani hai!
- Implying that life can give me numerous griefs but there is a limit to wasting tears, after that everyone becomes practical!
165 notes · View notes
modern-tiles · 4 years
Text
Tumblr media
کرونا، الہام اور الحاد!!
(ڈاکٹر اظہر وحید)
مجھے کالم لکھنے کی تحریک اپنے قارئین کے سوالات سے ملتی ہے۔ دیپالبور سے ایک طالبعلم یاسین نے پوسٹ بھیجی اور اس پر تبصرے کا طالب ہوا۔ کرونا وائرس کی وبا کے حوالے سے پھیلنے والا یہ پیراگراف بغیر کسی قطع برید کے من و عن اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ "کرونا وائرس نے بت کدوں کو ویران کردیا، کعبہ بھی سنسان ہے، دیوار گریہ اور کربلا میں اتنا ویرانہ ہے کہ وہ خود پہ نوحہ کناں ہیں، ویٹی کن سٹی کے کلیساؤں میں ہْو کا عالم ہے، یروشلم کی عبادت گاہیں سائیں سائیں کررہی ہیں۔ وضو کو کرونا کا علاج بتانے والے مذہبیوں نے کعبے کو زم زم کے بجائے جراثیم کش ادویات سے دھویا ہے، گئوموتر کو ہر بیماری کی دوا بتانے والے پنڈت کہیں منہ چھپائے بیٹھے ہیں، کلیساؤں کی گھنٹیاں پیروکاروں کے درد کا مداوا نہیں کررہیں۔ کرونا وائرس نے عقیدت کا جنازہ نکال دیا ہے، شراب کو حرام بتانے والے الکحول سواب کی مدد لے رہے ہیں، ارتقائے حیات اور بگ بینگ تھیوری کی بنیاد پر سائنس کو تماشہ کہنے والے لیبارٹریوں کی جانب تک رہے ہیں کہ یہیں سے وہ نسخہ کیمیا نکلے گا جو دنیا کے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچاسکتا ہے۔ کرونا نے انسانوں کو illusion سے نکال کر ایک حقیقی دنیا کا چہرہ دکھایا ہے، اپنی بقا کی سوچ نے انسانیت کو مجبور کردیا کہ وہ سچ کا سامنا کرے اور سچ یہی ہے کہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر تو شاید مکالمہ ہوسکتا ہے مگر مذہبی عقیدت کی بنیاد پر کبھی دنیا کے فیصلے نہیں ہوسکتے"
بادی ٔ النظر میںیہ پیراگراف اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔ لکھنے والا کتنا باادب ہے‘ یہ الگ بحث ہے۔ لطف کی بات یہ ہے اہلِ الہام کے ہاں فصاحت و بلاغت کو اہل الحاد علم الکلام کہہ کر بے اعتنائی کی راہ لیتے ہیں جبکہ اپنے ہاں لفظوں کی چاشنی سے تیار کیے گئے حلوے کو ایک شیریں دلیل تصور کرتے ہیں۔ اس پر تبصرے کیلئے حسب ِ دستورایک تمہید باندھنا ہوگی‘ تمہید طولانی ہوگئی تو برداشت کرنا ہو گی۔
آدم تا ایں دم ‘اَبنائے آدم دو قسم کے فکری گروہوں میں منقسم ہیں، ایک فکری قبیلہ اہل الہام کا ہے ،اور دوسرا اہلِ الحاد کا۔ ہابیل اہلِ الہام کا نمائیندہ ہے، وہ قتل ہو جاتا ہے، ظالم کی بجائے مظلوم بننا پسند کر لیتا ہے لیکن اپنے ظالم، قاتل اور گوشت کے رسیا بھائی کے ساتھ اس کا آخری مکالمہ یہی ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ گے تو اس کے جواب میں میرا ہاتھ قتل کی نیت سے تم پر نہیں اٹھے گا۔ قابیل اہلِ الحاد کا نمائندہ ہے۔ وہ اس دنیا میں راہنمائی کیلئے کسی آسمانی ہدایت کا قائل نہیں، وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی حیوانی جبلتوں کے زیر اثر بسر کرنے کو "حقیقی دنیا" تصور کرتا ہے۔ اس کے برعکس اہل الہام قدم قدم پر اپنی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک انبیا و صحف سے راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ فکری گروہوں کی یہ تقسیم ازل سے جاری ہے اور جب تک غیب کا پردہ اٹھ نہیں جاتا اور موت یا قیامت کی حجت قائم نہیں ہو جاتی، یہ تقسیم یونہی جاری رہے گی۔
یہاں خرقۂ سالوس میں چھپے مہاجن اور شاہیں کے نشیمن پر متصرف کسی زاغ کا دفاع ہرگز مقصود نہیں۔ یہاں مقصد ان فکری مغالطوں کو دُور کرنا ہے جو اہل الہام اور الحاد کے مابین مکالمے میں سد راہ ہیں۔ ایک ملحد اگر مخلص ہے تو میرے نزدیک قیمتی روح ہے، میں اسے متلاشی ذہن اور متجسس روح سمجھتا ہوں۔ اگر ملحد ضد پر اُتر آئے تو کٹھ ملا سے بدتر ہے۔ دین کا مدعی اگرمفاد پرست ہے‘ راہِ عدل سے دورہے تو میرے نزدیک وہ دشمن ِ دین و ایمان ہے۔
اہلِ الہام اور الحاد دونوں ایک جگہ فکری غلطی کرتے ہیں، دونوں ہی ایمان کی دلیل عالمِ شہود میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچا ہونے کیلئے جس طرح طاقت کا ہونا یا نہ ہونا دلیل نہیں، اس طرح ماورائے زمان و مکاں حق کیلئے کسی دلیل کا طاقتور ہونا بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ دراصل ہردلیل ایک مخصوص دائرۂ کار کے اندر ہی وزن رکھتی ہے، فزکس کے اصولوں پر کیمسٹر ی نہیں پڑھی جا سکتی، اکنامکس کے کلیے طب میں بطور دلیل کام نہیں آتے۔ انسانی دنیا میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو دلیل اور منطق کے بغیر مانے اور منوائے جاتے ہیں، یہ علوم صرف اساتذہ کے ہونے سے پائے جاتے ہیں… معجزۂ فن رنگ کا ہو یا خشت و سنگ کا یا پھر کوئی نغمۂ حرف و صوت ‘ ان کی نمو اور نمود کسی دلیل کی محتاج نہیں … کسی جوہرِ قابل کا خونِ جگر اس کے ظہور کاسبب ہے۔تمام فنون لطیفہ کسی دلیل اور مفادکے محتاج نہیں بلکہ ان کی دلیل فن کار کی اپنی ذات ہے۔ کیا ہم مذہب کو اپنی زندگی میں وہ اہمیت بھی دینے کیلئے تیار نہیں جو کسی جمالیاتی علم کو دیتے ہیں؟ یہ شوق کا سودا ہوتا ہے میاں! یہ ذوق کا سامان ہے، یہ تسکینِ قلب و جاں کا بندوبست ہے۔ ایمان دلیل کا نہیں دل کا سودا ہے… دل کی دلیل ظاہر میں تلاش کرنا ‘زندگی کو بدمزہ کرنے کی ترکیب ہے۔
ایک دلیلِ کم نظری یہ بھی ہے کہ ہم دین اور سائینس کا تقابل پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، اگر سائینس سے دلیل مل گئی تو تالیاں پیٹ لی جائیں، اگر سائینس سے عدم تطابق نظر آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کی تلاش سائینس کا دعو ٰی ہی نہیں، اور اسباب کی دنیا میں اپنے ماننے والوں کو اسباب سے بے نیاز کر دینا مذہب کا دعویٰ نہیں۔ دیگر مذاہب کے بارے میں تو مجھے کچھ اتنا درک نہیں لیکن میرا دین ‘دین ِ فطرت ہے… میرے دین میں دشمن کے مقابلے میں گھوڑے تیار رکھتے کا حکم ہے، یہاں دوا کو سنت بتایا گیا ہے، یہاں بتایا گیا ہے لاتبدیل لسنت اللہ …قوانین ِ فطرت اللہ کی سنت ہیں۔ یہاں مجھے بتایا گیا ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ یہاں مجھے حکم ہے کہ جس جگہ وہا پھیل چکی ہو‘ وہاں مت جاؤ اور اگر کسی وبا زدہ علاقے میں پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے باہر مت نکلو۔ میرے دین میں مفاد عامہ کا اتنا اہتمام ہے کہ اگر بارش ہو رہی ہو تو حکم ہے کہ نماز گھر میں پڑھ لو۔ نماز باجماعت میں شامل ہونے کیلئے دوڑ کر شامل ہونے سے منع کر دیا گیا کہ دوڑتا ہوا اِنسان اپنی تکریم سے دُور ہو جاتا ہے۔یہاں تکریم ِ انسانی کا یہ عالم ہے کہ ہادیٔ عالم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن کی جان، مال اور عزت کی حرمت کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ میرا دین تو مجھے تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ صرف صفائی ہی نہیں بلکہ طہارت کے تصور سے بھی مجھے روشناس کرواتا ہے۔ طہارت سے آشنا جسمانی صفائی سے کبھی غافل رہ نہیں سکتا۔ میرا دین مجھے جرم سے بھی پہلے گناہ کے تصور سے آشنا کرتا ہے۔ جو گناہ سے بدک گیا وہ جرم کی دنیا میں کبھی داخل نہ ہو گا۔
ٍ فلسفے کو سائینس کی دنیا سے کوئی دلیل میسر آ جائے تو پھولے نہیں سماتا، کرونا وائرس نے گویا الحاد کو coronate کر دیا ہے۔ اس کے برعکس دین کسی سائینسی دلیل سے بے نیاز ہے۔ دین کا دعو ٰی ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسی دنیا کی خبر دیتے ہیں جو مادے سے ماورا ہے، جہاں تمہاری مادی عقل کی رسائی نہیں…اور یہ کہ تم صرف جسم ہی نہیں روح بھی ہو، تماری روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں، تمہاری روح کی ربوبیت کیلئے ہم تمہیں اپنے انبیا کے ذریعے تعلیم و تربیت دیں گے۔ تم صرف ظاہر ہی نہیں ‘ باطن بھی ہو۔ تمہارے مرنے کے بعد تمہارا باطن ظاہر ہو جائے گا۔
دین کا ماخذ باطن ہے، اور یہ بنیادی طور پر ہمارے باطن کو خطاب کرتا ہے،دین ظاہر میں تبدیلی بزورِقوت نہیں چاہتا بلکہ بذریہ ترغیب و تفکر کرتا ہے۔ میرا دین مجھے جبر نہیں سکھاتا۔ نہ ماننے والوں کے ساتھ میرے مکالمے کے آداب "وجادلھم بالتی ھی احسن" سے شروع ہوتے ہیں اور کسی لڑائی جھگڑے میں شامل ہوئے بغیر "لااکرہ فی الدین" اور "لکم دینکم ولی دین" پر میرا ان کے ساتھ مکالمہ ختم ہو جاتا ہے۔ میں دینِ فطرت پر کاربند ہوں۔
ایمان ہوتا ہی ایمان بالغیب ہے… یعنی ایسی دنیا کی اطلاع پر یقین جہاں ہمارے حواسِ خمسہ اور عقل کی رسائی نہ ہو۔ ایمان کی دلیل عالمِ شہود ( ٹائم اینڈ اسپیس ) میں میسر نہیں آسکے گی۔ اگر ایمان کی دلیل عالمِ ظاہر میں ظاہر ہوگئی تو انبیا کی حجت ہی باقی نہ رہے گی۔ایمان صفات پر نہیں بلکہ ذات پر ہوتا ہے… ایمان ذات سے ذات کا سفر ہے۔ ایمان کی حقیقت رسولﷺ کی ذات پر ایمان ہے۔ جسے اس ذاتؐ سے قلبی تعلق و باطنی تمسک میسر نہیں‘ اس کیلئے ایمان کا لفظ ایک ڈکشنری میں درج کسی متروک لفظ زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے اے صاحبان غور و فکر! ایمان کی دلیل باہر کی دنیا میں تلاش کرنے کا دھندا نہ پکڑیں، اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔ ایمان کی تلاش ہے تو اپنے دل میں جھانکیں، دل سے جواب آئے گا…اور ضرور آئے گا۔ ہاں! مگر دلِ زندہ سے!!
ہر صاحب ِ دل جانتا ہے کہ انسان محض جسم اور دماغ کا مجموعہ ہی نہیں، انسان کی زندگی محض جبلتوں کے تعامل، عمل اور ردِ عمل اور سبب اور نتیجے تک محدود نہیں، اسے رہنے کیلیے صرف روٹی اور مکان ہی کی ضرورت نہیں بلکہ ایک خوبصورت احساس اور خیال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بڑا ظلم ہے ، اے مبلغِ الحاد!… یہ بڑا ظلم ہے ‘ تم عالم ِ انسانیت کو اپنے پاس سے کوئی بہتر خیال نہیں دے سکے… اور جو سرمایۂ خیال اسے پہلے سے میسر ہے ‘ اسے تم چھیننے کے درپے ہو ۔ اس سے بڑھ کوئی تخریب کاری نہیں… فکری تخریب کاری خود کش حملوں سے زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ فکری تخریب کاری کی تباہ کاری کسی تابکاری کی طرح صدیوں تک انسانی روح و بدن کو گھائل کرتی رہتی ہے۔
اللہ کی عبادت جس گھر سے شروع ہوتی ہے وہ انسان کا اپنا دل ہے، اس کی اطاعت اور بغاوت کے سارے مرحلے اسی گھر میں طے ہو جاتے ہیں۔ سجدہ دراصل سجدۂ تسلیم ہے اور یہ تسلیم ہماری اپنی ہے۔ ہماری ہی پیشانی سجدہ گاہ ڈھونڈتی ہے۔ اللہ الصمد ذات اپنی ذات میں خود غنی اور حمید ہے، اسے عبادت کی حاجت ہے نہ کسی عبادت گاہ کی۔ عبادت اور عبادت گاہیں انسان کی اپنی ضرورت ہیں۔
علاج اور شفا میں فرق ہوتا ہے… علاج تو لیبارٹری سے دریافت ہو جائے گا ‘ شفا اور شفاعت کیلئے انسان کو انسان کے پاس جانا ہوگا… انسانِ کاملﷺکے پاس!
#corona #coronavirus #sufism #islam #religion #atheism #kaba #zamzam #urducolumns #drazharwaheed #wasifkhayal
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
خلائی مخلوق اور نئے موکل #UrduColumn #Blogs #aajkalpk پاناما لیکس کیس میں پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل کیا گیا۔ پھر پاکستان مسلم لیگ نواز کی صدارت سے اور پھر عوامی عہدے کے لئے تاحیات نا اہل۔ پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی تین بار نا اہلی کے بعد حالت اُس مریض جیسی ہے۔ جسے ایسی جگہ پر ناقابل برداشت تکلیف ہے۔ جس کا ذکر وہ کھل کر کر بھی نہیں کرسکتے۔ سابق وزیراعظم کی تکلیف کی شدّت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سابق وزیراعظم باخوبی واقف ہیں کہ ان کی تکلیف کے ذمے دار وہی خلائی مخلوق ہے۔ جس کا مؤکل ہوتے ہوئے سابق وزیراعظم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف سازش کی تھی اور بعد ازاں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی رجمنٹ سے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ مگر پھر بدلتے وقت اور بدلتے تقاضوں کی وجہ سے خلائی مخلوق کی ترجیحات، خواہشات اور ضروریات بدل گئیں۔ جنھیں خلائی مخلوق کی مدد سے منتخب ہونے والے وزیراعظم پورا کرنے سے قاصر رہے۔ انھیں بدلنا وقت کی ضرورت سمجھا گیا۔ ویسے بھی آزمائے کو آزمانا پاکستانی عوام کی مجبوری تو ہوسکتی ہے۔ خلائی مخلوق کی نہیں۔ پاکستانی تاریخ میں بد قسمتی سے جب بھی عام انتخابات ہوئے۔ اُنھیں کبھی آر اوز کا الیکشن کہا گیا اور کبھی ایجنسیز کا۔ کسی نے اگر 2013 کے انتخابات کو 1970 کے انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات گردانہ۔ تو کسی نے نواز حکومت کی مدّت کے اختتام پر 2013 کے انتخابات میں فوج کو نواز شریف کی فتح میں اہم فریق قرار دیا۔ جس سے لگتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کروانے کا صرف ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ حکومت کس کی ہوگی۔ وہ انتخابات سے پہلے ہی طے کر لیا جاتا ہے۔ 1970 میں ون پرسن، ون ووٹ کے اصول کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات کے بعد ہونے والے 9 عام انتخابات (1977، 1985، 1988، 1990، 1993، 1997، 2002، 2008، 2013) سے پہلے ہی عوام باخوبی واقف ہوتی تھی کہ عام انتخابات کے بعد کس جماعت کی حکومت بنے گی (ماسوائے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے)۔ مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پیچھے نا جائیں اور اکیسویں صدی کے آغاز یعنی 2002 میں ہونے والے انتخابات کو دیکھیں۔ تو پتہ چلتا ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی سب کو یہ معلوم تھا کہ اگلی حکومت جنرل پرویز مشرف کی بذریعہ ٹیسٹ ٹیوب عمل پیدا کی گئی جماعت پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کی ہوگی۔ جس نے جنرل پلٹ سویلین صدر کی صدارت میں جمہوری 5 سال مکملکیے اور جمہوری اقتدار مکمل ہونے کی روایت ڈالی۔ 2007 میں جنرل پلٹ سول صدر کی جانب سے متعارف کردہ این آر او کی بدولت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو پاکستان آنے کی اجازت نے 2008 کے انتخابات سے پہلے ہی خبردار کر دیا کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ جس کی فتح انتخابات سے چند دن پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت نے یقینی بنادی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی ہومیو پیتھک صدارت میں 5 سالہ خالص جمہوری دور مکمل ہونے کے بعد 2013 کے انتخابات سے پہلے سب کو یقین تھا کہ اب کی بار، نواز سرکار ہوگی۔ اس کے باوجود کہ اکتوبر 2011 میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں کہا گیا کہ اگلی حکومت عمران خان کی ہوگی۔ لیکن انتخابی سائنس سمجھنے والے پر اعتماد تھے کہ پاکستانی عوام تبدیلی کے نہیں، لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی سے چھٹکارے کے متلاشی ہیں۔ لہزا عین انتخابات سے پہلے خلائی مخلوق نے نئے مؤکل اور دو بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کے ساتھ ایسا چکر چلایا کہ عمران خان کو خیبر پختونخوا میں حکومت دے کر آرے لگادیا گیا اور نئے مؤکل نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بنادیا۔ 126 دنوں کا اسلام آباد میں دھرنہ دینے اور سینکڑوں جلسوں، ریلیوں اور ��حتجاجوں کے بعد 2018 کے انتخابات سے پہلے لگ رہا ہے کہ اس بار تو تبدیلی آئے ہی آئے۔ بلوچستان میں پہلے حکومت کی تبدیلی، پھر سینیٹ انتخابات میں بذریعہ عوامی فرشتوں چیئر مین سینیٹ کا چناؤ۔ پھر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو نئے صوبے سے متعلق وحی کی آمد اور پھر جنوبی پنجاب محاذ کا پاکستان تحریک انصاف میں انضمام۔ اگلے عام انتخابات کے نتائج سے متعلق آگاہ کر رہا ہے۔ جس کے مطابق اگلے وزیراعظم تین بار نا اہل ہونے والے نواز شریف نہیں، بلکہ تین بار نکاح کی شیروانی پہننے والے عمران خان ہوں گے۔ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف میں الیکٹیبلز کی شمولیت اور خلائی مخلوق کے سابق مؤکل نواز شریف کی ڈولتی، ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی پوزیشن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ خلائی مخلوق کی آشیر وار بھی بری اور دشمنی تو اس سے بھی بری۔ یہاں تک کہ خلائی مخلوق دشمنی میں اپنے منتخب کردہ مؤکل میں بانٹے گئے پیسوں کا حساب کتاب بذریعہ وقتی خلیفہ ایسے مشکل وقت میں کرواتی ہے کہ پہلے سے تکلیف میں مبتلا مریض کراہنے جوگا بھی نہیں رہتا۔ خلائی مخلوق کے سابق مؤکل کا موجودہ حال دیکھ کر نو منتخب مؤکل کو خبردار رہنا چاہیے کہ جو خلائی مخلوق اپنے سابق موؤکل کو تین بار نا اہل کروانے کے علاوہ 1988 میں شروع ہونے والے ناجائز تعلقات کا حساب 30 سالوں بعد کرواسکتی ہے۔ وہ نومنتخب مؤکل کے اُس وقت کیا سلوک کریگی۔ جب خلائی مخلوق کی خواہشات، مطالبات اور ضروریات مطلوبہ وقت پر پوری نہیں ہوں گی۔ نومنتخب مؤکل کو اپنی بیرون ملک اولاد زرینہ کے علاوہ حلال آف شور کمپنی اور بنی گالا کا بنگلہ خریدنے کے لئے سابقہ بیوی سے لیا گیا ادھار نہیں بھولنا چاہیے۔ جسے خلائی مخلوق مطلوبہ وقت پر استعمال کرسکتی ہے۔
0 notes
capsats · 9 years
Photo
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
1 note · View note
komal01 · 6 years
Text
Bichar ke phir milenge hum, yakeen kitna tha. Tha toh ek khwaab, haseen kitna tha.
Mere zawaal se pehle woh mujhko chor gaya; Haseen toh tha hi - zaheen kitna tha!
173 notes · View notes
komal01 · 7 years
Text
Woh ek baat bohot talkh kahi thi usne;
Baat toh yaad nahi, magar yaad hai lehja uska.
211 notes · View notes
komal01 · 7 years
Text
Pyaar ka pehla khat likhne mein waqt toh lagta hai, Naye parinday ko udne mein waqt toh lagta hai.
Jism ki baat nahi thi.. Unke dil tak jaana tha, lambi doori tay karne mein waqt toh lagta hai! 
134 notes · View notes