Tumgik
#wapda
risingpakistan · 8 months
Text
بڑی تحریک کے کنارے پر
Tumblr media
مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ "سب سے ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا رہے"۔ جب سے قلم تھاما ہے کوشش کی ہے کہ اپنا شمار ذلیل ترین انسانوں میں نہ ہونے دوں۔ سچ یہ ہے کہ لوگوں کا جینا محال ہو چکا ہے، سچ یہ ہے کہ لوگوں کی تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آ رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ ڈیڑھ برس پہلے ڈالر 176 روپے اور پیٹرول 150 روپے کا لیٹر تھا۔ ظلم یہ ہے کہ آج ڈالر تین سو روپے سے اوپر ہے، ظلم یہ ہے کہ آج پیٹرول بھی قریباً تین سو روپے لیٹر ہے۔ ستم یہ ہے کہ آٹا 170 روپے کلو، کوکنگ آئل 700 روپے، چینی 172 روپے، بجلی کا یونٹ 65 روپے، ڈی اے پی کھاد 10 ہزار، یوریا پینتیس سو روپے، چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بائیس سے پچیس لاکھ اور حج اخراجات کم از کم 13 لاکھ روپے ہو چکے ہیں۔ ملک کی حالت یہ ہے کہ ہماری زرعی زمینوں پر 15 سالوں میں دو لاکھ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں۔ ہمیں گندم، کاٹن، چینی اور دالیں باہر سے منگوانا پڑتی ہیں، کہنے کو تو یہ زرعی ملک ہے مگر یہاں زراعت مشکل ترین بنا دی گئی ہے۔ فیکٹریاں بند پڑی ہیں، کاروبار نہ ہونے کے مترادف ہے، ہماری مقتدر قوتوں کو اس بڑی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ انہوں نے پچاس ساٹھ برس پہلے جس سیاستدان کو میدان میں اتارا، اس نے نفرت انگیز باتیں کر کے اپنے اقتدار کی ہوس کو تو پورا کر لیا مگر ملک ٹوٹ گیا، 
ٹوٹنے والے ملک میں ظلم و ستم ہوا پھر جب 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی تو بنگال کا شیخ مجیب الرحمٰن یہاں نہیں آنا چاہتا تھا ، اس نے کانفرنس میں نمائندگی کے لئے اپنا وزیر خارجہ نامزد کیا مگر یہاں خواہشیں پنپ رہی تھیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن شریک ہوں پھر اس خواہش کو دوام بخشنے کیلئے مصر کے انور سادات اور فلسطین کے یاسر عرفات خصوصی طیارے میں ڈھاکہ گئے اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں مصروف رہنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو طیارے میں بٹھا کر لے آئے۔ لاہور میں ہوائی اڈے پر اس شخص نے شیخ مجیب الرحمٰن کا استقبال کیا جسے وہ Butcher of Bangal کہتا تھا۔ اس کانفرنس کے موقع پر لوگوں نے دیکھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا، شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خوش گپیاں لگاتا رہا اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے سینوں پر مونگ دلتا رہا۔ اسی نے فیکٹریوں اور اداروں کو نیشنلائز کر کے پاکستانی معیشت کا گلا گھونٹ دیا تھا، رہی سہی کسر اداروں میں یونینز بنا کر پوری کر دی گئی۔ 
Tumblr media
ضیائی آمریت میں ہماری مقتدر قوتوں نے لاہور کے ایک کاروباری شخص کا بچہ متعارف کروایا، اس بچے کی پرورش کی گئی، اسی دور میں ہر ادارے میں کرپشن متعارف کروائی گئی اور پورا نظام کرپٹ کر دیا۔ آج پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں ہر جگہ کرپشن نظر آتی ہے، جونکیں ہمارا خون چوس رہی ہیں۔ 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والا لوٹ مار کا یہ کھیل ہمارا خزانہ چاٹ گیا، کاروباری نے کاروباریوں کو کروڑوں اربوں کے قرضے دے کر معاف کر دیئے، اس نے ایک معیشت کا ماہر متعارف کروایا، اس نے ہماری معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا، اس نے ایس آر اوز کا کھیل کھیلا، کبھی فارن کرنسی اکاؤنٹ سیل کئے، ملک مقروض ہوتا چلا گیا اور حکمرانوں کی جائیدادیں اور پیسہ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ 1951ء میں ڈالر 3 روپے کا تھا، 1972ء میں 5 روپے اور 1985ء میں 12 روپے کا تھا، بس اسکے بعد "ماہرین" نے ڈالر کو پر لگا دیئے۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے کلب، نوے ہزار گاڑیاں، 220 ارب کا مفت پیٹرول، واپڈا ملازمین کی ساڑھے پانچ ارب کی مفت بجلی اور اس کے علاوہ باقی مفت بروں کی مفت بجلی ہماری معیشت پر بوجھ ہے ورنہ ہمارا خزانہ کمزور نہیں تھا۔ 
سوئٹزرلینڈ ہمارے شمالی علاقہ جات سے نصف ہونے کے باوجود ساٹھ سے ستر ارب ڈالر صرف سیاحت سے کماتا ہے، ہم کیوں نہ ایسا کر سکے؟۔ ڈیڑھ برس پہلے کہنے کو مہنگائی تھی مگر خود کشیوں کا موسم نہیں تھا۔ مقتدر قوتوں کے متعارف کروائے گئے ماہرین کے 16 مہینے ایسے لگے کہ آج میرے دیس کے آنگن میں غربت، بیروزگاری اور بھوک کا بسیرا ہے، خودکشیوں کی خبریں آ رہی ہیں، جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، 16 ماہ کی حکومت لوگوں کو احتجاج پہ لے آئی ہے۔ احتجاج تک لانے میں ظالمانہ پالیسیوں کا مرکزی کردار ہے، لوگوں کے لبوں سے روٹی چھن گئی، صحت اور تعلیم کے خواب بکھر گئے، روزگار اجڑ گیا، دھرتی پر ہونے والا ظلم لوگوں کو ایک بڑی احتجاجی تحریک کے کنارے پر لے آیا ہے۔ لوگ بھی کیا کریں، آمدنی سے کہیں زیادہ ٹیکس اور بل ہیں۔ ان کے پاس بھی احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بقول جہانزیب ساحر
ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہے
یہ صرف حرفوں کی تابکاری کا زہر کب ہے خدا کے بندو! یہ ہم غریبوں کی شاعری ہے
مظہر برلاس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
وقت کم، مقابلہ سخت
Tumblr media
بجلی کے بلوں نے پہلے سے ہی مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ بجلی کے بل غریب کی مہینے کی کل کمائی سے بھی زیادہ آ گئے ہیں۔ غریب کیا مڈل کلاس کے بس سے بھی اخراجات باہر ہو گئے ہیں۔ عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں لوگ احتجاجاً بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں پر ٹیکس اور سرچارچ کے نام پر اضافہ واپس لیا جائے۔ ابھی چند ایک روز میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جاری کمی کی وجہ سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا، جو عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرائے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا ہو گا تو سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ بجلی بھی مزید مہنگی ہو گی۔ ایک طرف بجلی کو مہنگا کر دیا گیا دوسری طرف اس پر ٹیکسوں اور سرچارچ کی صورت میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کیلئے ناممکن بنا دیا کہ وہ بجلی کے بل ادا کر سکیں۔ کسی کو بجلی کے بل ادا کرنے کیلئے ادھار لینا پڑ رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی چوری اور حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو عوام پر بوجھ ڈال کر پورا کیا جاتا ہے۔
اگر حکومت بجلی کی چوری اور نظام سے متعلق نقصانات کو کم کرنے پر توجہ دیتی تو عوام پر اتنا بوجھ نہ پڑتا۔ جو بجلی چوری کرتا ہے، جو بل ادا نہیں کرتا اور جتنا نقصان بجلی کی ترسیل کے نظام میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہوتا ہے اس سب کا بوجھ عام صارف پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اوپر سے غریب عوام کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ نہ بجلی کا بل دیتی ہے نہ اُنہیں اپنی جیب سے پیٹرول بھروانا پڑتا ہے، اُن کی تو گیس بھی فری، گاڑیاں بھی سرکاری، پیٹرول بھی سرکاری تو اس سے لوگوں کے غم و غصہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں بجلی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس کا بوجھ بھی عوام پر پڑتا ہے۔ بجلی کے محکمہ کے ملازمین کو بھی مفت بجلی دی جاتی ہے اور اس کا خرچ بھی عام صارف پر ڈالا جاتا ہے۔ لوگوں کا صبر جواب دے رہا ہے۔ اب یہ سلسلہ مزید ایسے نہیں چل سکتا کیوں کہ عوام بجلی کے بل ادا کریں گے تو باقی اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔ 
Tumblr media
ایک سیکورٹی گارڈ جس کی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے ہے اُس کا بل تیس ہزار روپے آیا۔ اب وہ بچارا کیا کرے۔ ایک ماہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح ادھار لے کر یا کسی دوسرے ذریعے سے یہ بل ادا بھی کر دے تو اگلے مہینے کیا ہو گا اور یہ ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں افراد کا المیہ ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ چند دنوں میں پیٹرول مزید مہنگا ہونے سے موجودہ احتجاج میں مزید اضافہ ہو گا۔ ملک کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو کچھ بنیادی فیصلہ کرنا پڑیں گے۔ بجلی کے شعبے کی نااہلی اور اشرافیہ کی عیاشیوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ گورننس اور معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں اور قوم آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کا انتظار کرتی رہے۔ گورننس ٹھیک کرنے کا مطلب کھربوں کا نقصان کرنے والے اداروں کو درست کرنا ہے، عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرنے والوں کی عیاشیاں ختم کرنا ہے جس کا فائدہ عوام کو ہو گا، غریب کو اس پیسے سے ریلیف ملے گا۔ 
سیاسی جماعتیں ان معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے مل کر پاکستان کے معاشی اور انتظامی امور کی بہتری کیلئے حل تجویز کریں۔ یہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی فوری توجہ کی متقاضی ہے کیوں کہ موجودہ سیٹ اپ کو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی جوڑتے ہیں۔ بغیر وقت ضائع کئے ہمیں اپنے معاشی اور انتظامی شعبوں کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا کیوں کہ ہر دن اہم ہے اور اگر ہم آئندہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں آنے والی حکومت کا ہی انتظار کرتے رہے تو پھر نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور اس نقصان کا سب سے بڑا نشانہ عوام اور پاکستان ہو گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
کیا آپ نے بجلی کے بل کو کبھی غور سے دیکھا ہے؟
Tumblr media
آپ سیاسی ، سفارتی ، تزویراتی اور معاشی امور پر ایک دوسرے کی رہنمائی فرما چکے ہوں تو ایک سادہ سے سوال کا جواب دیجیے۔ سوال یہ ہے کیا کبھی آپ نے اپنے بجلی کے بل کو دیکھا ہے؟ کیا آپ کو کچھ خبر ہے اس بل میں بجلی کے استعمال کی قیمت کتنی ہے اور ٹیکس کتنے ہیں اور کیا آپ جانتے ہیں یہ کون کون سے ٹیکس ہیں جو آپ سے وصول کیے جا رہے ہیں؟ ہمیں کچھ خبر ہے یہ اضافی رقم کیوں اور کس مد میں وصول کی گئی ہے؟ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کیا ہے۔ کیا ہمیں معلوم ہے یہ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کیا ہوتی ہے ؟ کیا ہم جانتے ہیں اس کے تعین کا فارمولا کیا ہوتا ہے؟ کیا ہمارے پاس کوئی کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہے کہ ہمیں علم ہو سکے فیول ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں کاٹی گئی رقم مناسب ہے یا زیادہ رقم ڈال دی گئی ہے؟ کیا ہم میں سے آج تک کسی نے حکومت سے یہ سوال پوچھا کہ یہ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ ہوتی کیا ہے اور اس مد میں کٹوتی کی شفافیت کو یقینی بنانے کا کوئی انتظام ہے یا نہیں؟ ۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ ایف سی سرچارج کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اس فنانسنگ پاور سرچارج کی شان نزول سے واقف ہیں؟ کیا ہمیں کچھ خبر ہے کہ بجلی کے ہر یونٹ پر 43 پیسے اس مد میں لیے جا رہے ہیں۔ 
کیا ہمیں کچھ معلوم ہے کہ پی ایچ پی ایل کا 32 ارب کا یہ قرض کب اترے گا اور کب تک عوام سے یہ سرچارج لیا جاتا رہے گا اور کیا ہم اس بات سے کچھ آگاہ ہیں کہ اب تک کتنا قرض اتر چکا ہے؟ کچھ اترا بھی ہے یا نہیں؟ کیا ہم نے کبھی جاننا چاہا کہ اب تک اس مد میں اکٹھے کیے گئے پیسے کتنے تھے اور کہاں استعمال ہوئے؟ بجلی کے ہر بل پر نیلم جہلم سرچارج بھی وصول فرمایا جاتا ہے۔ کیا ہمیں کچھ خبر ہے یہ کب تک وصول فرمایا جاتا رہے گا اور اب تک یہ کتنا وصول فرمایا جا چکا ہے اور جو وصول فرمایا جا چکا ہے اسے کہاں استعمال کیا گیا ہے؟ اور جو آئندہ وصول فرمایا جائے گا وہ کس مد میں خرچ کیا جائے گا اور اس خرچ کی تفصیل قوم کو بتانا پسند کی جائے گی یا اسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ اس بیوہ کے بجلی کے بل میں جی ایس ٹی بھی شامل ہے۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ یہ کون سا فارمولا ہے جس کے تحت 45 یونٹ کے استعمال پر 48 روپے کا جی ایس ٹی وصول کیا جا ر��ا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ کے جو 401 روپے اس بیوہ سے وصول فرمائے گئے ان پر ایک بار پھر 68 روپے ٹیکس بھی لگا کر اس سے وصول فرمایا گیا۔
Tumblr media
اس ٹیکس کو فیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ پر لگا جی ایس ٹی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی پہلے ٹیکس دو اور پھر اس ٹیکس پر بھی جی ایس ٹی دو۔ کیا اس بند و بست کا کوئی اخلاقی جواز موجود ہے؟ آئی ایم ایف کے دبائو پر ایک اور ٹیکس بھی ہمارے اوپر لگایا جا چکا ہے۔ ذرا جان لیجیے کہ یہ ٹیکس کون سا ہے اور اس کا حجم کتنا ہے۔ چونکہ پاکستان میں بجلی چوری ہوتی ہے اور اس چوری کو حکومت روک نہیں پاتی۔ اس لیے طے کیا گیا کہ 110 ارب روپے کی بجلی چوری کی وصولی ان لوگوں سے کی جائے گی جو بجلی چوری نہیں کرتے اور ہر ماہ باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم سب بجلی کے ہر یونٹ پر ایک روپیہ پچپن پیسے یہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ آفرین ہے ٹیکس لینے والوں پر کہ بجلی چوری کو روکنے کی بجائے یہ سارا بوجھ ان صارفین پر منتقل کر دیا گیا ہے جو بجلی کا بل باقاعدگی سے جمع کروا رہے ہیں اور آفرین ہے عوام پر جو کوئی سوال کیے بغیر یہ ٹیکس ادا کیے جا رہے ہیں اور روز رات کو وزرائے کرام سے ٹیکس چور ہونے کے طعنے بھی سنتے ہیں۔
ایک اور ٹیکس بھی ہے۔ اسے ٹیلی ویژن فیس کہتے ہیں۔ بجلی کے بل میں 35 روپے ٹی وی ٹیکس ماہانہ لگا دیا جاتا ہے۔ بھلے کسی کے گھر ٹی وی ہو یا نہ ہو یہ ٹیکس لگ کر آ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس ٹی وی کا ٹیکس ہے؟ اگر پرائیویٹ میڈیا کے اشتہارات قریبا بند کیے جا سکتے ہیں تو پی ٹی وی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ بجلی کے ہر بل سے 35 روپے اس کے نام پر نکلوا لیے جائیں؟ اگر یہ 35 روپے پی ٹی وی کے نہیں ہیں محض گھر میں ٹی وی رکھنے کے ہیں تو پھر عوام سے کیبل چارجز کیوں لیے جاتے ہیں ۔ اس صورت میں تو تمام پاکستانی چینلز پی ٹی وی کی طرح بغیر کیبل کے چلنے چاہییں۔ اور اگر کیبل کی فیس دے کر یہ چینل دیکھے جاتے ہیں تو پی ٹی وی کے نام پر ہر ماہ 35 روپے کیوں دیے جائیں؟ اعظم سواتی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں سینیٹ میں اس وقت کے وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف صاحب نے بتایا تھا کہ دو سالوں میں پی ٹی وی ٹیکس کی مد میں 1400 ملین سے زاید رقم اکٹھی کی گئی ہے۔ کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ ہزاروں ملین روپے کہاں گئے، کہاں خرچ ہوئے اور مستقبل میں ان کے استعمال کا کیا طریقہ کار ہو گا؟ نیز یہ کہ اس مد میں رقم اکٹھی کرنے کا کوئی اخلاقی جواز موجود ہے؟ 
قانونی جواز کی بات اس لیے نہیں کرتے کہ قانون سازوں کو قانون بنانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ دل چسپ معاملہ یہ ہے کہ 2004 میں جب یہ ٹی وی ٹیکس عائد کیا گیا تو اس کا جواز یہ بنایا گیا تھا کہ لائسنس فیس کی ادائیگی میں عوام کی مشکل کو آسان کرنے کے لیے ہر ماہ پچیس روپے بجلی کے بل میں ان سے لیے جائیں گے۔ یہ جواز ہی کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو آدمی پچھلے انیس سال سے ہر ماہ یہ ٹیکس دے رہا ہے کیا اسے مزید بھی یہ ٹیکس دینا چاہیے ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ٹی وی کے لیے لائسنس کی شرط عائد کرنا کیا اس دور میں ایک مضحکہ خیز بات نہیں جب آپ کا موبائل بھی ایک ٹی وی بن چکا ہے۔ کیا اس جدید دور میں ٹی وی لائسنس کی آڑ میں ٹی وی ٹیکس عائد کر دینا کوئی معقول رویہ ہے؟ امور خارجہ ، معیشت اور سیاست سے فرصت ملے تو اپنے بجلی کے بل کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ عین نوازش ہو گی۔
اللھم لا تسلط علينا من لا يرحمنا آمين يارب العالمين
آصف محمود  
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
nawabdera1 · 10 months
Text
INSHA ALLAH Safety for the Linemen in WAPDA And globally
What are you passionate about? INSHA ALLAH focusing upon inventions on Safety in Electrical Engineering بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم IN SHA ALLAH I am pleased to thank you by the MERCY OF ALLAH Regards Nawab Ikramullah Khan لا اله الا الله محمد رسول الله
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
rashidjavedposts · 11 months
Video
youtube
(via ENC New Connection Check Application Status at www enc com pk)
0 notes
electricityhub · 1 year
Text
How to Check Electricity Bill
Electricity Bill
To check your electricity bill, you may need to follow these steps:
Check your electricity bill statement: Your electricity provider should send you a monthly or bi-monthly statement, which includes the amount of electricity you have consumed, the rate you are charged per unit, and the total amount due.
Check your meter reading: To verify that your bill is accurate, you may want to compare your meter reading with the reading listed on your bill.
Contact your electricity provider: If you have any questions about your bill or if you think there may be an error, you can contact your electricity provider's customer service department. They can help you understand your bill and resolve any issues.
Pay your bill: Once you have reviewed your bill and verified that it is accurate, you can pay it through the methods offered by your electricity provider, such as online payment, automatic bank transfer, or mail-in payment.
Note that the process of checking and paying your electricity bill may vary depending on your location and electricity provider. If are Fesco electric supply company user then you can easily check your electricity bill online by clicking on it.
1 note · View note
likelytoday · 1 year
Text
A resident of Gilgit-Baltistan was taken aback after receiving an electricity bill for an astronomical amount of Rs 139 million --- READ MORE
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
بجلی کا بل ’بہترین انتقام‘ ہے
محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ لیکن پی ڈی ایم کی حکومت زبان حال سے اعلان کر رہی ہے کہ بجلی کا بل جمہوریت سے بھی بہترین انتقام ہے۔ کیا آ پ نے اپنے بجلی کے بل کو کبھی غورسے دیکھا؟ نہیں دیکھا تو اب دیکھ لیجیے تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے آپ کس مستِ ناز کا مال غنیمت ہیں۔ بل میں ایک خانہ واجبات کا ہے ا ور دوسرا محصولات کا۔ واجبات آئیسکو، فیسکو یا پیپکو وغیرہ کے ہوتے ہیں اور محصولات حکومت کے۔ آئیے پہلے آئیسکو کے واجبات کو دیکھتے ہیں۔ آئیسکو کے واجبات میں سب سے پہلے صرف شدہ یونٹ لکھے ہوتے ہیں جس کے نیچے ان یونٹس کی ’قیمت بجلی‘ درج ہوتی ہے۔ پہلے ایک اہتمام ہوتا تھا کہ شروع کے 100 یونٹ پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیے جاتے تھے، اس کے بعد آٹھ روپے فی یونٹ اور پھر اسی طرح یونٹ بڑھتے جاتے تھے تو اضافی یونٹس کی قیمت کا پیمانہ بدلتا جاتا تھا۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ تقسیم ختم کر دی۔ اب جتنے بھی یونٹ ہیں سب کو 25 روپے سے ضرب دے کر قیمت کا پہاڑ صارفین کے گھر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کرایہ میٹر ہے۔ اس کے بعد کرایہ سروس ہے۔ صارفین کو نہ علم ہے نہ کسی نے کبھی جاننے کی ضرورت محسوس کی کہ میٹر کرایہ اور کرایہ سروس میں فرق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے؟ میٹر جب صارف کو بیچا جاتا ہے اور اکثر اوقات بلیک میں تین چار گنا قیمت پر بیچا جاتا ہے تو پھر اس کا کرایہ کس بات کا؟ جب وہ ملکیت ہی صارف کی ہے تو اس کا کرایہ کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے۔ ابھی بجلی کا ایک بل میرے سامنے رکھا ہے۔ یہ اسلام آباد جی 13 میں ایک خالی گھر کے ایک پورشن کا بل ہے۔ اس میں ’موجودہ بل‘ صرف 779 روپے ہے جس پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 7179 روپے ڈال دیے گئے ہیں۔ یعنی استعمال شدہ بجلی سے 10 گنا زیادہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وصول کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ بجلی کا بل وصول کیا جا رہا ہے یا محکوم رعایا سے خراج اکٹھا کیا جا رہا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ یہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہوتی کیا ہے اور اس کے تعین کا فارمولا کیا ہے؟ نیز یہ کہ صارفین کو کیسے معلوم ہو کہ یہ تعین شفاف طریقے سے کیا جاتا ہے یا اپنی بدانتظامی سے ہونے والا خسارا بھی اسی مد میں عوام کی رگوں سے نکال لیا جاتا ہے؟ اس تعین سے کسی صارف کو اختلاف ہو تو وہ داد رسی کے لیے کس فورم سے رجوع کرے؟ اس کے بعد بجلی کے بل میں جناب محترم ایف سی سرچارج صاحب جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ہم سب ہر ماہ بجلی کا بل ادا کرتے ہیں لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ یہ فنانسنگ کاسٹ سرچارج ہے کیا چیز؟ نہیں معلوم تو کیا کبھی کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی کہ کون سا ٹیکس ہے، کیوں لیا جاتا ہے اور اس کے تعین کا فارمولا کس حد تک منصفانہ ہے؟ اس کے بعد ٹی آر سرچارج ہے یعنی ٹیرف ریشنلائزیشن سرچارج۔ بنیادی سوال تو وہی ہے کہ ٹیرف ر��شنلائزیشن سرچارج ہوتا کیا ہے؟ اس کے بعد پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر واپڈا اور متعلقہ اداروں کی غفلت، نااہلی یا بد انتظامی سے گردشی قرض بڑھ جائیں تو ریشنلائزیشن کے نام پر یہ بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جائے؟ نیز یہ کہ جب بل زیادہ وصول کیا جاتا ہے اور پھر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لیے گئے پیسے بعد میں لوٹائے جاتے ہیں تو اس وقت بل میں ٹی آر سرچارج کیوں ڈالا جاتا ہے؟ وہیں ایڈجسٹ کیوں نہیں کر لیے جاتے؟
اب آئیے حکومت کے محصولات کی جانب۔ ٹیلی ویژن فیس 35 روپے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے واپڈا کے سابق وزیر اور موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سینیٹ میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ دو سالوں میں ٹی وی ٹیکس کی مد میں 1400 ملین سے زائد رقم اکٹھی کی گئی۔ خدا جانے اس وقت اس رقم کا حجم کیا ہے، یہ کہاں جاتی ہے اور کس کے استعمال میں لائی جاتی ہے؟ جب لوگ کیبل آپریٹرز کو ماہانہ رقم ادا کر کے ٹی وی دیکھتے ہیں تو پھر بجلی کے بل میں ٹی وی ٹیکس وصول کرنے کا کیا جواز ہے؟ اس کے بعد جی ایس ٹی یعنی جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ پھر انکم ٹیکس ہے۔ اس کے بعد فاضل ٹیکس ہے۔ یعنی ایکسٹرا ٹیکس۔ ایکسٹرا ٹیکس کے بعد ایک اور ٹیکس ہے جس کا نام ہے ’مزید ٹیکس‘ یعنی (Further Tax)۔ اس کے بعد ایک بار پھر سیلز ٹیکس۔ پھر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اپنی نوعیت کا تنہا ٹیکس نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے۔ اس کی مد میں جو رقم وصول کی جاتی ہے اس پر الگ سے سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فاضل انکم ٹیکس، مزید ٹیکس ہے۔
یہی نہیں بلکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جی ایس ٹی الگ ہے اور سیلز ٹیکس الگ۔ اس سارے بندوبست کی ماہرانہ توجیحات ہو سکتی ہیں کہ یہ سارے ٹیکس ایک ساتھ نہیں لگتے بلکہ فلاں ٹیکس فلاں موقعے کے لیے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اجارہ داری تو ایک ادارے کے پاس ہی ہے کہ جب چاہے، جہاں چاہے، جتنا چاہے، ٹیکس لگا کر بھیج دے۔ صارفین کو نہ ٹیکس کا علم ہے، نہ اس کے حجم کا، نہ اس کے تعین کے پیمانے کا۔ بجلی کے بل کی پشت پر بجلی چوری کی سزا، اور خبردار کے عنوان سے طویل خطبے شائع کیے جا سکتے ہیں تو وہاں صارفین کی رہنمائی کے لیے ان ٹیکسوں کی تفصیل کیوں نہیں دی جا سکتی؟ آپ ان کا طرز عمل دیکھیں کہ بجلی کم استعمال کرنے کی درخواست کا عنوان بھی ’خبردار‘ ہے حالانکہ یہ ’گذارش‘ بھی ہو سکتا ہے۔ 
یہ جو بیوروکریسی کی نوآبادیاتی نظام کی نفسیاتی گرہ ہے، یہ آج بھی عوام کو شہری نہیں بلکہ رعایا سمجھتی ہے۔ استعمال شدہ یونٹس الگ معمہ ہے جو صارف کی سمجھ سے باہر ہے۔ میرے اپنے بل میں، اسلام آباد میں گذشتہ سال اگست کے مہینے میں دو ایئر کنڈیشنر کے ساتھ جتنے یونٹ استعمال ہوئے، اس سال بغیر اے سی کے اسی ماہ میں اس سے زیادہ یونٹ استعمال ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے؟ پھر اس سال جون میں، جب شدید گرمی تھی، جتنے یونٹ استعمال ہوئے، اگست میں اس سے دگنے یونٹ کیسے استعمال ہو گئے؟ بجلی کا استعمال تو جون میں بھی اتنا ہی تھا جتنا اگست میں۔ بجلی مہنگی ہو سکتی ہے لیکن یہ بجلی کے استعمال شدہ یونٹ دگنے کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ بات بھی ایک معمہ ہے کہ میرا اگست کا بل جون اور جولائی کے بلوں کی کل مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ یہ کون سا طلسم ہے جو واپڈا کے ہاتھ میں آ گیا ہے؟ اثر صہبائی نے شاید پی ڈی ایم کا سہرا کہا تھا:
ساری دنیا سے بے نیازی ہے واہ اے مست ناز کیا کہنا
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
globalcourant · 2 years
Text
Lt Gen Sajjad Ghani (Retd) takes charge as new chairman WAPDA
Lt Gen Sajjad Ghani (Retd) takes charge as new chairman WAPDA
Lt Gen Sajjad Ghani (Retd) takes charge as new chairman WAPDA. Image: File Newly-appointed Chairman of the Water and Power Development Authority (WAPDA) Lt Gen Sajjad Ghani (Retd) assumed charge of the office on Friday. He is the 23rd Chairman of WAPDA. According to an official statement released by the media wing of the WAPDA here on Friday, Lt Gen Sajjad Ghani (Retd) is a professional engineer…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
punjabmagazine · 2 years
Text
The power crisis in the country has become more serious.
Tumblr media
The power crisis in the country has become more serious. The Neelam-Jhelum hydel power station closed due to a closure in the tail race tunnel. The power station was shut down due to security concerns. According to details, the tail race tunnel of Neelum Jhelum Hydel Power Station has been closed. Due to this the power station has been shut down under security measures. According to the WAPDA spokesperson, the reasons for the closure of the tail race tunnel are being ascertained. Once the reasons are known, steps will be taken to remove the closure of the tail race.
Tumblr media
Read the full article
0 notes
thedailyjobs · 2 years
Text
Latest WAPDA Jobs 2022 Apply online www.wapda.gov.pk
Water and Power Development Authority WAPDA has announced Jobs Vacancies. All we can find is the job details in the Daily Newspaper or other Pakistani Newspapers. WAPDA has important announced bu career on this year 2022.
Therefore the applicant should read all the details and instructions of WAPDA Jobs 2022 and Apply Online. Interested candidates must download the Application form on the Official website www.wapda.gov.pk.
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
وہ دن دور نہیں جب بجلی مفت ملے گی : وسعت اللہ خان
Tumblr media
ضیا دور تک سنسر، کوڑے، تعزیر، مشائخ، الذولفقار، غیر جماعتی نظام، مثبت نتائج، ملٹری کورٹس، نشریاتی دوپٹہ جیسے الفاظ سے تو کان خوب مانوس تھے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کس پرندے کا نام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ یا واپڈا تھا یا پھر کے ای ایس سی۔ بجلی کبھی کبھار جاتی ضرور تھی مگر وارسک، منگلا، تربیلا کے ہوتے بجلی کم بھی پڑ سکتی ہے، یہ تصور ہی محال تھا۔ بلکہ اتنی اضافی بجلی تھی کہ نور جہاں اور ناہید اختر کے گانوں میں بھی بن داس استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً ’جلمی جوانی رت مستانی تن من جلتا جائے دور ہی رہنا دل والو نزدیک نہ کوئی آئے‘، ’میں بجلی ہوں میں شعلہ ہوں‘ یا پھر ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں جو مجھ کو چھو لے گا وہ جل جائے گا‘۔ یا پھر ’ہٹ جا پچھے کڑی توں اے کرنٹ مار دی اے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور جو بجلی فلمی شاعری سے بچ جاتی وہ شاہی قلعہ ٹائپ عمارات میں سیاسی قیدیوں کو جھٹکے دینے یا دو نمبر پیروں فقیروں کے ہاتھوں سائلین کے جن جھٹکانے میں صرف ہو جاتی۔ 
تب کے زمانے میں ڈسکو کا مطلب نازیہ حسن کا چارٹ بسٹر ’ڈسکو دیوانے‘ تھا۔ آج ڈسکو کا مطلب وہ بارہ برقی تقسیم کار نجی کمپنیاں ہیں جو ہم تک بجلی پہنچانے کے مرحلے میں صارف کو ڈسکو کرواتی ہیں اور پھر بھی کہتی ہیں کہ ’ساہنوں تے کچھ بچدا ای نئیں‘۔ نوے کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ عوامی یادداشت کا حصہ بننے لگی اور آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس) کی اصطلاح بھی جلوہ افروز ہوئی۔ پہلی بار پتا چلا کہ نجی شعبہ محض بجلی سے چلتا ہی نہیں خود بھی صنعتی پیمانے پر بجلی بناتا ہے۔ جیسے جیسے آئی پی پیز آتی گئیں ویسے ویسے لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی گئی۔ 2008 میں دورِ مشرف کے خاتمے کے بعد زرداری حکومت آئی تو وزیرِ پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ دسمبر تک لوڈ شیڈنگ زیرو ہو جائے گی۔ مگر دسمبر کے بعد خود راجہ صاحب ٹوٹا ہوا تارہ ہو گئے۔ حتیٰ کہ جس دن 12 گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی اس روز عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔  نواز شریف کی تیسری حکومت 2013 میں اسی وعدے پر اقتدار میں آئی کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ مگر یہ نہ انھوں نے بتایا نہ کسی اور نے پوچھا کہ کس بھاؤ ختم کریں گے؟ سرکار اتنے جوش میں تھی کہ جتنی قومی کھپت تھی اس سے دوگنی برقی پیداوار کا انتظام کر لیا۔ مگر اس زائد از ضرورت پیداوار کا کرنا کیا ہے، یہ نہیں سوچا۔
Tumblr media
واجبات کا بحران اتنا شدید تھا کہ میاں صاحب کے وزیرِ برقیات عابد شیر علی نے احکامات جاری کر دیے کہ کروڑوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی کی پاداش میں پارلیمنٹ، ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس اور وفاقی سیکریٹریٹ کی بجلی کاٹ دی جائے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ شریف حکومت نے بجلی اکٹھی کرنے کے لیے چینی و غیر چینی کمپنیوں پر دروازے کھول دیے۔ آج صورت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی سازی کی گنجائش اکتالیس ہزار میگا واٹ مگر کھپت لگ بھگ اٹھائیس ہزار میگا واٹ ہے۔ جبکہ ٹرانسمیشن لائنیں اس قابل نہیں کہ اتنا بوجھ سہار سکیں۔ اوپر سے یہ بھی شرط ہے کہ بجلی استعمال ہو نہ ہو سرکار کو نجی کمپنیوں کو غیر استعمال شدہ بجلی کے بھی پیسے دینے ہیں۔ اس جنجال سے گردشی قرضے (سرکلر ڈیبٹ) کے عفریت نے جنم لیا۔ پیٹ بھر بھی جائے تو اگلے برس کمینا پھر اتنا کا اتنا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت گردشی قرضے کا حجم پونے تین ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ گویا سرکلر ڈیبٹ وہ اژدھا ہے جس کی گرفت وقت کے ساتھ ساتھ اور کستی جاتی ہے۔
خود آئی پی پی پیز پر بھی گذشتہ برس تک بینکوں کے لگ بھگ اکتیس ارب روپے واجب الادا تھے۔ گویا ہر کسی کی گوٹ کسی اور کے ہاں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پلانٹ یا ڈیم سے میرے گھر تک جو بجلی آ رہی ہے وہ ٹرانسمیشن کے دوران ضائع بھی ہو رہی ہے۔ اسے لائن لاسز کہا جاتا ہے۔ سالِ گذشتہ اس نقصان کا تخمینہ پانچ سو بیس ارب روپے لگایا گیا۔ اس نقصان میں جدت کاری کے ذریعے کسی حد تک کمی ممکن ہے مگر پیسے چاہییں۔ مزید سنگین مسئلہ یہ ہے جو بجلی لائن لاسز کے بعد صارف تک پہنچ رہی ہے اس میں سے بھی سالانہ تین سو اسی ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ اس میں اشرافیہ، صنعت، زراعت، عام صارف، خوانچہ فروش، بڑے بڑے شب گیر جلسے۔ غرض جس کا بس چلتا ہے ہاتھ رنگ لیتا ہے۔ ان تین سو اسی ارب روپے میں سے اسی ارب روپے کی بجلی میٹرنگ وغیرہ میں ہیرا پھیری اور باقی کنڈے کے ذریعے چوری ہو رہی ہے۔پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں چوری شدہ بجلی کے پیسے بھی بل دینے والوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں۔ گذشتہ برس تک بجلی چوری کی سب سے زیادہ شکایات مبینہ طور پر پیسکو کو موصول ہوئیں۔ صرف بنوں کے ایک گرڈ سٹیشن سے پانچ ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔
ایک پورا زیلی کاروبار کنڈا ماہرین کی شکل میں پنپ رہا ہے۔ جبکہ بجلی کا باقاعدہ عملہ بھی شریک ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر بھیڑ کالی نہیں پر ہر سفید بھیڑ بھی سفید نہیں۔ کہنے کو پاکستان دریاؤں، جھیلوں، پہاڑی چشموں کی سرزمین ہے۔ پھر بھی قومی پیداوار میں آبی بجلی کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ اٹھاون اعشاریہ اٹھ فیصد بجلی فرنس آئل، ایل این جی اور کوئلے وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئلے کی کچھ مقدار چھوڑ کے باقی ایندھن باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں روپے کی قدر میں سو فیصد سے زائد گراوٹ کے سبب درآمدی ایندھن کی لاگت دوگنی سے زائد ہو گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں جوہری کارخانوں کا حصہ آٹھ اعشاریہ چھ فیصد اور ہوا اور شمسی توانائی کا حصہ چھ اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ حکومتوں کی خواہش تو بہت ہے کہ 2030 تک قدرتی ذرائع سے کم از کم بیس فیصد تک بجلی کشید کر لی جائے مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں اب بھی بجلی کی فی کس سالانہ کھپت چھ سو چوالیس کلو واٹ ہے۔ یعنی پاکستان ان گنے چنے ممالک میں آتا ہے جہاں بجلی کی کھپت عالمی کھپت کی اوسط کا محض 18 فیصد ہے۔ پھر بھی عام آدمی کی کمر ٹوٹ رہی ہے کیونکہ سب بے اعتدالیاں بل میں شامل کر دی گئی ہیں۔ سو روپے کی بجلی ٹیکسوں سمیت کم از کم دو سو روپے کی پڑ رہی ہے۔ چنانچہ جس کی تنخواہ 25 ہزار ہے اسے جب 45 ہزار روپے کا برقی ڈیتھ وارنٹ ملتا ہے تو ٹکریں مارنے، سڑک پر سینہ کوبی یا خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ شنوائی کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر ایک نہ ایک دن حکومت ہر آدمی کو مفت بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس کا آغاز کئی برس پہلے سے بجلی کی صنعت سے وابستہ ملازموں، بیورو کریٹس، عدلیہ، وزرائے کرام، دفاعی افسران، مخصوص صنعتی و کاروباری اداروں کو مفت یا محض پیداواری لاگت پر یا سبسڈائزڈ ریٹ پر بجلی فراہم کرنے سے ہو چکا ہے۔ ایک دن ہمیں بھی یہ رعایتیں مل جائیں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے چوبیس کروڑ پچانوے لاکھ لوگ کم از کم سو برس زندہ رہیں۔ آمین۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
"ملک چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا" سابق چیئرمین واپڈا #Wapda
“ملک چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا” سابق چیئرمین واپڈا #Wapda
اسلام آباد: واپڈا کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل نے ملک میں رہ کر خود پر دائر مقدمے کے بھرپور دفاع کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا کہ انٹرنیشنل کمیشن آن لارج ڈیمز نے اجلاس میں مدعو کیا ہے، آئی کولڈ میں شرکت کو وطن سےفرار کہنا گمراہ کن کوشش ہے، وطن چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ملک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
habibraja · 2 months
Text
Dr Habib Raja MBBS, FCPS, Gastroenterologist in Lahore
Dr. Habib Raja is best Gastroenterologist in Lahore working as Consultant Gastroenterologist & Hepatologist at Akhtar Saeed Medical & Dental College. Where he is a part of teaching faculty. He has a vast clinical experience of more that 12 years in field of Gastroenterology, Hepatology, Transplant Hepatology and Endocscopic procedures. He is expert in dealing pre & post liver transplant patients. Other than liver transplant, He treatment, stomach issues, Obesity management and Upper & Lower GI Endoscopic procedures are his major area of interest. He graduated from University of Health Sciences (UHS) and did his specialization in filed of Gastroenterology & Hepatology from King Edward Medical University (KEMU). Address: 7, Block M Phase 2 Johar Town, Lahore, Punjab 54782 Phone: 0311 6712017
1 note · View note
jobsinitalia · 9 months
Text
WAPDA Jobs in Lahore Pakistan | Apply Online
Water and Power Development Authority WAPDA is seeking to hire highly qualified, dynamic, and motivated professionals for vacant positions. Read all the terms and conditions carefully before applying for these jobs.  The minimum qualifications and experience required for this job are given below. These vacancies are full-time and permanent. Candidates looking for job Wapada opportunities as…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rashidjavedposts · 11 months
Link
SEPCO ONLINE BILL PRINT PDF DUPLICATE ELECTRICITY BILL SUKKUR ELECTRIC POWER COMPANY
0 notes