Tumgik
afghannews · 2 years
Text
بائیڈن صاحب ! آپ کا یہ فیصلہ افغان عوام کو بھوکا مار دے گا
امریکی صدر جو بائیڈن نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکا میں منجمد کیے گئے افغان سینٹرل بینک کی رقم کا نصف حصہ 11 ستمبر کے حملوں کے متاثرین کے لواحقین میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ان افغانوں کو سزا دینے کے مترادف ہے جنہیں 2 دہائیوں طویل امریکی جنگ نے تباہ کر دیا ہے۔ بھوک سے مرتی آبادی سے اپنی عسکری شکست کا بدلہ لینے سے زیادہ سفاکانہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ یہ اقدام افغانستان کو معاشی تباہی کے قریب لے جائے گا، جس سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح کی انتقامی کارروائی جنگ سے تباہ حال ملک میں استحکام لانے کی کوششوں میں بالکل معاون نہیں ہو گی۔ بڑھتے ہوئے انسانی بحران نے پہلے ہی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے اور بائیڈن انتظامیہ کے غیر معقول اقدامات صورتحال کو مزید خراب کر دیں گے۔ امریکی صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں 7 ارب ڈالر کے منجمد افغان اثاثوں میں سے ساڑھے 3 ارب ڈالر ممکنہ طور پر 11 ستمبر کے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میں تقسیم کیے جائیں گے جبکہ بقیہ ساڑھے 3 ارب ڈالر افغانستان میں انسانی مدد کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ یہ امدادی رقم اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام ٹرسٹ فنڈ میں رکھی جائے گی تاہم ان رقوم کی ادائیگی عدالتی فیصلے سے مشروط ہے۔
افغان سینٹرل بینک کے کُل 10 ارب ڈالر کے اثاثے بیرونِ ملک موجود ہیں جنہیں گزشتہ سال اگست میں ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد منجمد کر دیا گیا تھا۔ ان اثاثوں میں سے 7 ارب ڈالر کے اثاثے نیویارک کے فیڈرل ریزرو میں موجود ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے ان فنڈز کو طالبان حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس حکومت کو اب تک بین الاقوامی برادری نے قبول نہیں کیا ہے۔ معاشی پابندیوں نے افغانستان کے بینکاری نظام کو پہلے ہی تباہ کر دیا ہے جس سے معاشی حالت مزید ابتر ہو چکی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے فیصلے کو جواز بنانے کے لیے 11 ستمبر حملوں میں متاثر ہونے والوں کے لواحقین کی جانب سے افغان فنڈز کو ضبط کرنے کے لیے دائر کیے گئے مقدمے میں زیرِ التوا عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ 2012ء میں ایک امریکی عدالت نے اسامہ بن لادن، طالبان اور القاعدہ کے دیگر افراد خلاف ایک مقدمے میں متاثرین کے خاندانوں کا مالی نقصان پورا کرنے کا حکم دیا تھا۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی 11 ستمبر حملوں کے متاثرین کے خاندانوں نے افغان اثاثے ضبط کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا تاہم یہ اثاثوں کو ضبط کرنے کی ایک انتہائی مضحکہ خیز دلیل ہے۔ یہ اثاثے افغان عوام کے ہیں جنہیں القاعدہ کی جانب سے کیے گئے 11 ستمبر کے دہشتگردانہ حملوں کا ذمہ دار قرار نہیں جاسکتا۔ یہاں ایک قانونی سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکی حکومت کسی دوسرے ملک کے اثاثوں کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے یا نہیں۔ امریکا کے اس اقدام پر فلاحی اداروں اور کئی معروف شخصیات کی جانب سے سخت تنقید ہوئی ہے اور انہوں نے ان اقدامات کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ اس سے امریکی انتظامیہ کی افغان پالیسی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ افغان ریاست کو مزید غیر مستحکم کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ یہ طالبان کی حکومت اور اس کی رجعت پسند پالیسیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کا اثر افغان عوام پر ہو رہا ہے جو امریکا کی ’کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ‘ کے حقیقی متاثرین ہیں۔ 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کا ذمہ دار افغانوں کو کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اس وقت تو موجودہ افغانوں کی اکثریت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، اور پھر یہ ملک 20 سال تک امریکی قبضے میں بھی تو رہا۔
کابل میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے اسے ’چوری‘ قرار دیا ہے۔ امریکا کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کی تقریباً 4 کروڑ کی آبادی بھوک کا شکار ہے اور تقریباً 10 لاکھ بچے سخت موسمی حالات اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ گزشتہ 6 ماہ میں جب سے طالبان حکومت میں آئے ہیں، افغانستان کے لیے آنے والی تمام تر غیر ہنگامی امداد بند ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 سال کی جنگ میں جنتے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو لوگ بھوک سے پچنے کے لیے اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں۔ برطانیہ کے سابق سیکریٹری خارجہ اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے ایگزیکٹو افسر ڈیوڈ ملی بینڈ کے مطابق امریکی اور بین الاقوامی پابندیاں افغانوں کے لیے ان کے انتخاب کی سزا بن گئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں نے معاشی پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ افغانوں تک بین الاقوامی امداد پہنچائی جاسکے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ ماہ عالمی بینک سے کہا تھا کہ انسانی بحران پر قابو پانے اور معاشی تباہی کو روکنے کے لیے فوری طور ایک ارب 20 کروڑ ڈالر جاری کرے۔ تاہم امریکا نے پابندیوں میں نرمی کرنے کے بجائے افغانوں کو ان کے اثاثوں سے محروم کر کے ملک میں جاری بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ کچھ بین الاقوامی انسانی امداد افغانستان پہنچنا شروع ہو گئی ہے لیکن اس سے افغانستان کا معاشی بحران حل نہیں ہو سکتا۔ آنے والے معاشی حالات انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے حالات مزید مشکل بنا دیں گے۔ اس حالیہ اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ درحقیقت امریکا نے افغان ریلیف فنڈ کے لیے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن مسلسل مالی پابندیاں اور افغان اثاثوں کی تقسیم اس عمل کو غیر مؤثر بنا دیں گی۔ یہ بیانیہ بھی غلط ہے کہ معاشی پابندیوں میں نرمی سے طالبان حکومت کو فائدہ ہو گا۔ درحقیقت افغانستان کے اثاثوں پر قبضہ کر کے امریکا خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے اور جامع سیاسی نظام تشکیل دینے کے حوالے سے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ بھی گنوا دے گا۔
 جب تک طالبان بین الاقوامی برادری کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کو پورا نہیں کرتے تب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا شاید درست فیصلہ ہو، لیکن طالبان کی رجعت پسندانہ پالیسیوں کی سزا افغان عوام کو نہیں دینی چاہیے۔ اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کو طالبان حکومت کے سیاسی جواز کے معاملے سے علیحدہ رکھنا چاہیے۔ منجمد اثاثے افغان عوام کے ہیں اور وہ انہیں واپس کیے جانے چاہئیں۔ بیری امبڈسن کے بھائی 11 ستمبر کو پینٹاگون پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے، وہ بجا طور پر کہتے ہیں کہ ’افغان عوام کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ان کے اثاثے منجمد کر دیے جائیں اور 11 ستمبر کے متاثرین میں تقسیم کر دیے جائیں‘۔ ان افغانوں کو سزا دینے کا کوئی جواز نہیں جو خود امریکی جنگ کے متاثرین ہیں۔ طالبان کی حکومت کی واپسی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکی ہیں۔ افغان اثاثوں پر قبضے سے افغان خواتین اور بچوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور خطے اور بین الاقوامی امن پر افغان ریاست کی زبوں حالی کے سنگین اثرات ہوں گے۔
زاہد حسین 
بشکریہ ڈان نیوز یہ مضمون 16 فروری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغانیوں کو یوکرین کا کوئی احساس نہیں
رمضان المبارک میں پڑوسیوں کی خبرگیری کسی بھی دیگر قمری مہینے سے زیادہ رکھنے کی روایت ہے۔ پر کتنوں کو خبر ہے کہ اس رمضان میں آپ کے ایک دو تین نہیں لگ بھگ ڈھائی کروڑ پڑوسی سحری کاٹ رہے ہیں اور افطار گذار رہے ہیں۔ اور جن گھرانوں میں کوئی مرد کمانے والا نہیں وہ گھرانے سو فیصد غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کوئی ریاستی پروپیگنڈہ نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کے دفتر سے جاری ہوئے ہیں۔ شمالی افغانستان کے ایک قصبے میں آٹھ نفوس پر مشتمل ایک کنبے کی دیکھ بھال کرنے والی فرح ناز (فرضی نام ) آٹھ ماہ پہلے تک مقامی ریڈیو اسٹیشن میں پیش کار اور اسکول میں جزوقتی استانی تھی۔ اس کا بھائی سابق افغان فوج میں تھا۔ اسے جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلزم کے مطابق فرح ناز بھی میڈیا سمیت دیگر اداروں کی ان ساٹھ فیصد عورتوں میں شامل ہے جو نئے افغانستان میں ملازمتوں سے سبکدوش کر کے گھر بٹھا دی گئیں۔ ان میں سے نوے فیصد خواتین اپنے اہلِ خانہ کی واحد کفیل ہیں۔
فرح ناز نے اپنے شب و روز کے بارے میں بتایا کہ نسبتاً سمجھ دار بچے چوبیس گھنٹے میں ایک بار پیٹ بھرنے کے عادی ہو چلے ہیں۔ البتہ چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر اگی کچھ سبزی ابال کر روٹی کے ساتھ دے دی جاتی ہے یا سبز قہوے کے ساتھ نان کا آدھا پونا ٹکڑا تھما دیا جاتا ہے۔ جس دن قہوے میں ڈالنے کے لیے کہیں سے شکر دستیاب ہو جائے تو ان بچوں کے چہرے چمک اٹھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پڑوس کی دکان پر اشیائے خور و نوش نہیں ملتیں، مگر انھیں خریدنے کی سکت کہاں۔ مسئلہ صرف خالی یا بھرے پیٹ کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی بطور خوراک میسر ہے کیا اس میں اتنی غذائیت ہے جو بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ جسم کو ضروری توانائی یا نشوونما دے سکے ؟ یہ دیکھنے کے لیے کسی بھی اسپتال کا رخ کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جہاں آٹھ ماہ پہلے تک جنگ کی زد میں آنے والے زخمی عورتوں، بچوں اور مردوں کی تعداد عام مریضوں سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔مگر اب یہ اسپتال ناکافی غذائیت یا فاقہ کشی سے جنم لینے والے مسائل سے جوج رہے مریضوں سے بھرے ہیں اور ان میں بھی بچوں کی اکثریت ہے۔ دوائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
طبی عملے کو کئی کئی ماہ معاوضہ نہیں ملتا۔ بینکاری کا شعبہ محض پانچ فیصد تک فعال ہے۔ ان حالات میں اسپتال اور چھوٹے طبی مراکز مریضوں کی اکثریت کے لیے عملاً ’’ دلاسا گاہ ‘‘ میں بدل چکے ہیں۔ حالات کی ابتری کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ نے کسی بھی بحران زدہ ملک میں خوراک کی کمی کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی اپیل جاری کی۔یعنی فوری طور پر ساڑھے چار ارب ڈالر درکار ہیں تاکہ ستر اور اسی کی دہائی کے ایتھوپیا ، صومالیہ اور جنوبی سوڈان کی طرح بھوک کے سبب اموات کا بڑا سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔ مشکل یہ ہے کہ جنھیں روٹی چاہیے وہ بیرونی و اندرونی حالات کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں جس پر ان کا کوئی بس نہیں۔ جہاں دن بہ دن طالبان انتظامیہ کی خواتین کی تعلیم اور روزگار کے بارے میں پالیسیاں نرم ہونا تو دور کی بات پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوتی جا رہی ہیں تو دوسری جانب امریکا میں افغانستان کی منجمد نو ارب ڈالر کی قومی رقم میں سے بائیڈن انتظامیہ ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون متاثرین کی امداد کے بہانے پہلے ہی کاٹ چکی ہے۔ بقیہ رقم کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس طرح افغان عوام کے کام آئے گی۔
متاثرین تک پہنچ میں بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا بین الاقوامی ادارے نے طالبان انتظامیہ کو بطور قانونی حکومت اب تک تسلیم نہیں کیا۔ نیز طالبان انتظامیہ یہ شرط ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ خارجی دنیا غیر سرکاری فلاحی اداروں کے ذریعے اس رقم سے براہ راست عام افغان کی مدد کے لیے تیار ہے۔ امریکا نے ان شرائط کو ضد اور طالبان نے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے یوں یہ گورکھ دھندہ عام افغان کے لیے بقا و فنا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے گزشتہ دسمبر میں افغان عوام کی ہنگامی مدد کے لیے ایک فنڈ کے قیام کا اعلان تو کر دیا تھا مگر چار ماہ گذرنے کے باوجود یہ محض کاغذوں میں رینگ رہا ہے۔ مرے پے سوواں درہ روس کا یوکرین پر حملہ ہے جس کے سبب سارے میڈیائی کیمرے اور مغربی دنیا کی پوری توجہ یوکرین کے مظلوموں پر منعکس ہو چکی ہے اور افغانستان انسانی ہمدردی کے ایجنڈے میں اوپر سے پھسل کر آخری پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔
اگر ایک جانب امریکا نے افغانستان کی منجمد مالی امانت میں سے لگ بھگ نصف ��قم کتر کے تقریباً پونے تین کروڑ افغان ضرورت مندوں کے تناظر میں اخلاقی دیوالیہ پن کی تمام حدود عبور کر لی ہیں تو دوسری طرف یوکرین کے چالیس لاکھ پناہ گزینوں کے لیے نہ صرف پانچ متصل ممالک نے اپنے دل اور سرحدیں پوری طرح وا کر دی ہیں بلکہ امریکا نے اپنے خزانے کا منہ بھی کھول دیا ہے۔ اس والہانہ ہمدردی کا ثبوت یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے یوکرین کے مصیبت زدگان کے لیے دس ارب ڈالر کی ہنگامی امداد منظور کرنے کی اپیل کی۔کانگریس نے اس عدد کو ناکافی جانتے ہوئے خود ہی بڑھا کے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کر دیا۔ مغربی دنیا ہر اس ملک سے خفا ہے جو یوکرین کے سلسلے میں اس کے موقف کا حامی نہیں یا پھر غیر جانبدار ہے، جب کہ یمن اور افغانستان جہاں مجموعی طور پر اس وقت پانچ کروڑ سے زائد انسان زندگی اور موت کے درمیان پنڈولم بنے ہوئے ہیں میڈیا اور مخیر حکومتوں کے ریڈار سے بالکل غائب ہیں۔
شمالی افغانستان کی فرح ناز اور اس پر تکیہ کرنے والے کنبے کے آٹھ بچوں اور خواتین کو امریکا کا تو کچھ نہ کچھ اندازہ ہے البتہ یوکرین کے مصائب کا قطعاً ادراک نہیں۔ انھیں تو بس یہ پڑی ہے کہ بڑے بھلے رات کو بھوکے سو جائیں مگر بچوں کو کم ازکم اور کچھ نہیں تو قہوے کے ساتھ بھگونے کے لیے روٹی کا ٹکڑا مل جائے۔ بچے روتے رہیں گے تو بڑے بھی کیسے سو پائیں گے اور پھر منہ اندھیرے روزہ کیونکر رکھیں گے ؟
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغانستان کے منجمد فنڈز بحال
پاکستان نے ان چھ مہینوں میں ہر محاذ پر افغانستان کیلئے آواز بلند کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک پُرامن افغانستان ہی خطے کے مفاد میں ہے۔ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد یوں تو بہت سے چیلنجوں کا سامنا رہا ہے لیکن امریکا کی جانب سے افغانستان کے فنڈز کو منجمد کرنا ایک ایسا چیلنج ثابت ہوا جس نے افغانستان میں انسانی بحران کے خدشات میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی مؤثر خارجہ پالیسی کے باعث دیگر ممالک نے بھی اس معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید کی جب کہ افغانستان کے حالات اور دوحہ میں اس باب میں طالبان کی عبوری حکومت کے نمائندوں اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد امریکی بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان کی مدد کیلئے جمع ہونے والے فنڈز بالآخر غیر منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
امریکی حکومت مگر نصف فنڈز نائن الیون کے سانحہ کے متاثرین پر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کا دارومدار عدالتی فیصلے پر ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حوالے سے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں اور افغانستان میں معاشی بحران کے خدشات سے نمٹنے کیلئے ہنگامی صورتِ حال نافذ کر دی ہے۔ امریکا یہ رقم براہِ راست افغان حکومت کو نہیں دے گا بلکہ بائیڈن انتظامیہ اس باب میں ایک ٹرسٹ تشکیل دینے پر غور کر رہی ہے تاکہ افغان عوام کی 3.5 ارب ڈالر کے فنڈز تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ افغانستان کے مزید دو ارب روپے کے اثاثے برطانیہ، جرمنی، سوئٹزر لینڈ اور متحدہ عرب أمارات میں موجود ہیں جن میں سے اکثر منجمد ہیں مگر اب ان کے غیرمنجمد ہونے کی امید بھی بندھ گئی ہے۔ امریکا کا نصف اثاثے نائن الیون کے متاثرین کیلئے مختص کرنا مناسب اسلئے بھی نہیں ہے کہ افغان عوام اس وقت ان فنڈز کے زیادہ مستحق ہیں تاہم امریکی حکومت کا طالبان حکومت کو تسلیم کیے بنا یہ فیصلہ کرنا ایک اہم اور فیصلہ کن پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
afghannews · 2 years
Text
عزت مآب سے ذلت مآب ہونے تک کا سفر
پہلے انھوں نے پورے براعظم پر ڈاکہ ڈالا، پھر افریقہ سے غلام اغوا کیے، پھر ان کی محنت چرا کے تجوریاں بھریں، پھر اس دولت سے کشید ہونے والی اندھی معاشی و عسکری طاقت کے بل پر ممالک خریدنے لگے اور معزز نمبر ون کہلانے لگے۔ اب اوقات پستی کی اس سطح پر آ گئی ہے کہ کمزور ترینوں کی امانتیں بھی ہڑپ کرنے پر اتر آئے ہیں۔ ایسے تو کوئی گھٹیا رسہ گیر بھی نہیں کرتا، تیسرے درجے کا جیب کترا بھی کسی کسی ہدف کے مفلوک الحال چہرے پر ترس کھا کر جیب میں کچھ سکے رہنے دیتا ہے۔ اتنے نوٹ تو بائی جی کا سازندہ بھی آس پاس کے بچوں کی دزدیدہ نگاہوں کے خیال سے مجرئی فرش سے نہیں اٹھاتا۔ اتنے قطرے تو کوئی کنگلا شرابی بھی جام میں چھوڑ کر اٹھ جاتا ہے۔ اتنے پیسے تو کوئی قرض میں جکڑا انسان بھی کسی کشکول میں ڈال دیتا ہے۔ اتنی خیرات تو ایک بھکاری دوسرے کو ویسے ہی دے دیتا ہے۔
پر جو کچھ میں نے سنا اور پڑھا، اس کے بعد سے اردو زبان کی کم مائیگی کو یہ سوچتے ہوئے کوس رہا ہوں کہ کاش اس حرکت کو بیان کرنے کے لیے گھٹیا، کفن چور، ڈاکو، رہزن، رسہ گیر سے بڑا بھی کوئی لفظ ہوتا جس کے استعمال سے تھوڑی بہت لسانی تشفی ہو جاتی۔ کم بخت کوئی گالی بھی ایسی حرکت کا احاطہ کرنے سے معذرت کر رہی ہے۔ ہم تو پچھلوں کو روتے تھے۔ یہ والا تو ان سے بھی بڑا نکلا۔ اس نے تو امداد کے نام پر اپنے ہی دیے ہوئے، اپنے ہی بینکوں میں بطور امانت منجمد سات ارب ڈالر میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون کے متاثرین کو ہرجانہ دینے کے سلسلے میں ایک فیڈرل جج کے دس برس پرانے فیصلے کو بطور برگِ انجیر (فگ لیف) اپنا ننگ پن چھپانے کے لیے اور باقی آدھی رقم اصل مالکوں پر خرچ کرنے کی نوید سنا کر اپنے تئیں ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں حاتم طائی کی قبر توپ دم کر دی۔
جس ملک کی امانت چرائی گئی اس کا کوئی بھی شہری نائن الیون کے ہائی جیکرز میں شامل نہیں تھا۔ اس ملک کی آدھی آبادی نائن الیون کے بعد پیدا ہوئی کہ جن میں سے بہت سوں کے والدین اب دو وقت کی روٹی کے لیے گردے خریدنے والوں کا سب سے بڑا عالمی شکار ہیں۔ نائن الیون کے سب سے زیادہ متاثرین افغانستان میں رہتے ہیں۔ اگر وہ ہرجانہ وصول کرنے کے قابل ہوتے تو آج ہر امریکی اپنے گردے بیچ رہا ہوتا۔ نائن الیون ہائی جیکنگ میں جن افراد نے براہ راست حصہ لیا یا بلا واسطہ اعانت کی، ان میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ اگر نائن الیون کے متاثرین کو ازالاتی ہرجانا دلوانا ہی تھا تو سب سے موزوں ملک سعودی عرب ہی تھا کہ جس نے امریکہ میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر کس امریکی انتظامیہ کے بوتے میں اتنا دم ہے کہ سعودیوں سے ہرجانے کی وصول کر پائے حالانکہ سعودی عرب آج بھی پانچ افغانستان سالم خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔
اس وقت افغان عوام کی ہنگامی مدد کے بجائے اور ان کی منجمد رقم میں اوپر سے پیسہ ڈالنے کے بجائے ان کی امانت پر سیند لگانا کسی لاش کی کلائی سے گھڑی اور بے جان پیروں سے جوتے اتار کے بھاگنے جیسا ہے۔ کوئی فرد یا ادارہ یہ حرکت کرتا تو شاید صبر آ جاتا مگر 80 سالہ عزت مآب نے اس ایک حرکت سے جس طرح خود کو ذلت مآب میں تبدیل کر لیا ہے، اس پر حیرانی بھی انگشت بدنداں ہے۔
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہیں پایا ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا ( میاں محمد بخش )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغان وزیر خارجہ کی قیادت میں طالبان کے وفد کی اوسلو میں مغربی حکام کے ساتھ ملاقات
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد نے اوسلو میں مغربی حکام کے ساتھ اپنی اہم ملاقاتوں سے قبل افغان سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ انسانی حقوق سے متعلق بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وفد نے اپنے تین روزہ دورے کے پہلے روز افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے رضاکاروں سے بات چیت کی۔ یہ ملاقاتیں ناروے کے دارالحکومت میں واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہو رہی ہیں، کیونکہ ماضی میں مشرق وسطیٰ اور کولمبیا کے تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ناروے ان مذاکرات میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔ مذاکرات سے پہلے طالبان کے نائب وزیر ثقافت اور اطلاعات نے امیر خان متقی کا ایک وائس نوٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا، جس میں کامیابیوں سے بھرے اچھے سفر کی امید کا اظہار اور ناروے کا شکریہ ادا کیا گیا تھا، جس ملک کے بارے میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ یورپ کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے ایک ذریعہ بن جائے گا۔
اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان کے نمائندوں نے یورپ میں سرکاری ملاقاتیں کی ہیں، اس سے قبل انہوں نے قطر، روس، ایران، چین اور ترکمانستان کا سفر کیا۔ بات چیت کے دوران، امیر خان متقی یقینی طور پر طالبان کے اس مطالبے پر زور ڈالیں گے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے منجمد کیے گئے اثاثوں کو بحال کیا جائے کیونکہ افغانستان کو ایک خطرناک انسانی بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ 5 ماہ میں افغانستان کی انسانی اور اقتصادی صورت حال بہت زیادہ خراب ہوئی ہے کیونکہ کسی بھی مغربی ملک نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ گزشتہ سال اگست تک جب غیر ملکی افواج افغانستان سے نکلی تھیں اس وقت تک خانہ جنگی کے شکار اس ملک کے بجٹ کا تقریباً 80 فیصد حصہ بین الاقوامی امداد سے حاصل کیا جاتا تھا جب کہ اس وقت سے امریکا نے افغانستان کے 9 ارب 50 کروڑ ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔
سال 2001 میں امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے طالبان کو افغانستان میں اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا لیکن بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد اچانک رک گئی تھی جس سے لاکھوں لوگوں کی حالت مزید خراب ہو گئی جو پہلے ہی شدید خشک سالی کے سبب بھوک کا شکار تھے۔ ناروے کے وزیر خارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے زور دے کر کہا کہ یہ مذاکرات طالبان کی قانونی حیثیت یا شناخت تسلیم کرنے کے لیے نہیں ہیں لیکن ہمیں بہرحال ملک کے موجودہ حکام سے بات کرنی چاہیے، ہم سیاسی صورتحال کو اس سے بھی بدتر انسانی بحران کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔  
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق افغانستان میں انسانی اور اقتصادی بحران، سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے خدشات اور انسانی حقوق، خصوصاً لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم سے متعلق افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ کی قیادت میں ایک امریکی وفد افغانستان میں ایک عوامی نمائندہ سیاسی نظام کی تشکیل پر بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ مذاکرات جنگ کے ماحول کو پرامن صورتحال میں تبدیل کرنے میں مدد کریں گے۔ کابل سے آنے والے وفد میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما انس حقانی بھی شامل ہیں جن کا کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے، 2019 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے سے قبل وہ کابل کے مضافات میں امریکی بگرام جیل میں کئی سال تک قید رہے تھے۔
بشکریہ ڈان نیوز    
0 notes
afghannews · 2 years
Text
اوسلو میں افغان طالبان اور مغربی ممالک کے مابین تین روزہ مذاکرات کا آغاز
افغانستان میں طالبان حکومت، مغربی ممالک اور افغانستان میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے مابین تین روزہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں شروع ہونے والے مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں۔ مذاکرات میں شرکت کے لیے افغان طالبان رہنماؤں کا 15 رُکنی وفد ہفتے کو ناروے کے خصوصی طیارے میں کابل سے اوسلو پہنچا تھا۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اقتصادی بحران سے دوچار افغانسستان میں انسانی المیے کے خدشات جنم لے رہے ہیں اور طالبان حکومت دنیا کے دیگر ممالک سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ اوسلو کے ایک ہوٹل میں ہونے والے بند کمرہ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں طالبان حکومت کے نمائندے افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور ناروے میں مقیم افغان کمیونٹی کے نمائندوں سے بات چیت کریں گے۔
مذاکرات سے قبل طالبان حکومت کے نائب وزیرِ ثقافت و اطلاعات نے ایک وائس نوٹ ٹوئٹ کیا تھا جس میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے بات چیت کے اس عمل کو خوش آئند اور مثبت قرار دیتے ہوئے نارروے کی حکومت کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان توقع کرتے ہیں کہ ان مذاکرات میں سہولت کاری کے ذریعے نارروے, طالبان حکومت اور یورپی ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے لیے ایک گیٹ وے کا کام کرے گا۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد طالبان حکومت کے کسی بھی نمائندہ وفد کا یہ کسی بھی یورپی ملک کا پہلا دورہ ہے۔ البتہ طالبان حکومت کے وفود اس سے قبل ایران، روس، پاکستان، قطر، ترکمانستان اور چین کے دورے کر چکے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ تین روزہ مذاکرات کے دوران طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امریکہ سمیت مغربی ممالک پر ایک مرتبہ پھر زور دیں گے کہ وہ افغانستان کے 10 ارب ڈالر کے منجمد فنڈز بحال کر دیں تاکہ مشکلات سے دوچار افغان معیشت کو دوبارہ بہتر کیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے برآمدات کی مد میں افغانستان کے لیے فنڈز جاری کیے تھے۔ البتہ عالمی ادارے نے خبر دار کیا تھا کہ لگ بھگ 10 لاکھ افغان بچے غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں جب کہ ملک کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔  ناروے کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان وفد تین روزہ مذاکرات کے دوران ناروے میں مقیم افغان کمیونٹی سے بھی مذاکرات کرے گا جن میں خواتین رہنماؤں اورصحافیوں کے علاوہ انسانی امداد، سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں کام کرنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ناروے انسانی حقوق کے تحفظ اور خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ انسانی امداد اور معیشت کی بہتری کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
تین روزہ مذاکرات کے دوران افغانستان کے لیے امریکی نمائندۂ خصوصی تھامس ویسٹ کی قیادت میں امریکی وفد بھی طالبان وفد سے ملاقات کرے گا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی وفد افغانستان میں جامع حکومت کے قیام، انسانی امداد اور معیشت کی بحالی کے لیے فوری ردِعمل، انسدادِ دہشت گردی اور بالخصوص بچیوں کی تعلیم کی ضرورت پر زور دے گا۔ ایک بیان میں نارویجن وزیرِ خارجہ نے واضح کیا تھا کہ طالبان وفد کے اس دورے کا تعلق اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے سے نہیں ہے بلکہ ہمیں اُن سے بات چیت کرنی چاہیے جو عملی طور پر اس وقت افغانستان میں نظامِ حکومت چلا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ناروے اس سے قبل مختلف ممالک کے تنازعات میں سفارت کاری کر چکا ہے۔ افغانستان سے قبل ناروے اسرائیل، فلسطین تنازع، کولمبیا، وینزویلا، شام، میانمار، جنوبی سوڈان، موزمبیق اور فلپائن سمیت کئی ممالک میں قیامِ امن کے لیے سہولت کاری کرتا رہا ہے۔ اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
afghannews · 2 years
Text
مالی امداد نہ ملی تو افغانستان میں لوگ بھوک و افلاس سے مر جائیں گے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی قوتوں نے مالی امداد نہ کی تو افغانستان میں لوگ بھوک و افلاس کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ نے افغانستان میں رواں برس 2022 میں بھوک و افلاس اور صحت عامہ سے نمٹنے کے لیے 5 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا ہے۔ انسانی المیے کے شکار ملک میں شہری گزر بسر کے لیے اپنی بچیوں کی شادیاں پیسوں کے عوض کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دو دہائیوں سے جنگ کے زخم خوردہ افغان عوام کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے 4.4 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جب کہ مزید 62 کروڑ 30 لاکھ دیگر ممالک میں پناہ لینے والے لاکھوں افغانوں کی مدد کے لیے درکار ہوں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ رقم افغانستان میں دو کروڑ 20 لاکھ افراد جب کہ پانچ پڑوسی ممالک میں 57 لاکھ سے زائد پناہ لیے ہوئے افغانوں کی ہنگامی بنیاد پر امداد پر خرچ ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے تاریخ میں پہلی بار کسی ایک ملک کے لیے 5 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی اپیل کی ہے۔ طالبان کے گزشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک شدید مالی مسائل سے دوچار ہے اور غربت، مہنگائی، بے روزگاری کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ ماہرین پہلے خبردار کر چکے ہیں کہ افغانستان میں رواں برس 47 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا سامنا کریں گے جن میں 11 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
afghannews · 2 years
Text
شاہد آفریدی کا فلاحی کاموں کے لیے افغانستان جانے کا اعلان
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کپتان اور ممتاز آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی نے افغانستان جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ شاہد خان آفریدی کا کہنا ہے کہ فلاحی مقاصد کے لیے دنیا بھر میں سرکردہ ’شاہد خان آفریدی فاونڈیشن‘ افغانستان میں بھی خدمات انجام دینا چاہتی ہے، اس حوالے سے افغان حکومت کی جانب سے رابطے پر فاؤنڈیشن نے مثبت جواب دیا ہے۔  شاہد خان آفریدی نے کہا کہ افغانستان جانے کے لیے دستاویزات کا منتظر ہوں اور اس حوالے سے پاکستان میں افغان سفارت خانے سے رابطے میں ہوں۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ میری بھی خواہش ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں بھی فلاحی کاموں میں شرکت کروں تاکہ وہاں کے بھی غریب اور نادار لوگوں کے دکھ اور تکالیف کا مداوا ہو سکے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز  
0 notes
afghannews · 2 years
Text
ترک اور قطری حکام کی افغانستان کے ایئرپورٹ انتظام سے متعلق بات چیت
ترکی اور قطر کے حکام کا افغانستان کے ایئر پورٹ کے انتظام سے متعلق بات چیت کیلئے کابل کا دورہ کرنے کا ارادہ ہے۔ اس حوالے سے ترک وزیر خارجہ چاوش اولو کا کہنا ہے کہ ترکی اور قطر کے عہدیداران دوحا میں ملاقات کریں گے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے حکام باضابطہ معاہدے پر تبادلہ خیال کیلئے کابل جائیں گے۔ ترکی وزیر خارجہ چاوش اولو نے کہا ہے کہ ترک اور قطری کمپنیوں کے درمیان پانچ افغان ایئرپورٹس کو چلانے کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ کابل کا ممکنہ مشترکہ دورہ بھی زیر بحث ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
afghannews · 2 years
Text
صدرجوبائیڈن سے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ
امریکی ایوان نمائندگان کے ارکان نے صدرجوبائیڈن سے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدرجوبائیڈن اورامریکی محکمہ خزانہ کو لکھے گئے خط میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے ارکان نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ خط میں ارکان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے پرامریکی اتحادیوں اورانسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکی حکومت افغانستان کے لئے ایسے معاشی اقدامات سے گریز کرے جس کا نقصان افغان بچوں اورعورتوں سمیت افغان عوام کو اٹھانا پڑے۔ خط میں مزید کہا گیا کہ افغانستان کی تباہ حال معاشی حالت سے انسانی المیہ پیدا ہونے اور خطے میں مہاجرین کے نئے بحران کا خدشہ ہے۔ امریکا فوری طور پر افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے۔ افغانستان کے اثاثوں پرپابندی سے 2022 میں 20 سال کے دوران ہونے والی اموات سے زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
afghannews · 2 years
Text
اس دنیا کو تجاہلِ عارفانہ نے مارا ہے
اسلام آباد میں افغانستان سے متعلق ستاون ملکی اسلامی کانفرنس کی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں بیس رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ امریکا، چین، روس، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے علامتی سفارتی شرکت کی۔ البتہ اسلامی کانفرنس کے وہ پانچ وسطی ایشیائی ارکان (قزاقستان، کرغیزیہ، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان) کہ جن کی سرحدیں افغانستان سے لگتی ہیں۔  دہلی میں ہونے والی بھارت وسطی ایشیا تعاون کانفرنس میں شرکت کو زیادہ اہم سمجھا۔ پانچوں ممالک کے سربراہوں کو بھارت نے چھبیس جنوری کو یومِ جمہوریہ میں بطور مہمانِ خصوصی بھی مدعو کیا ہے۔ اسلام آباد میں ستر ریاستی و بین الاقوامی مندوبوں کے اکتیس نکاتی مبہم ہمدردانہ امدادی وعدے اور یقین دہانیاں اپنی جگہ۔ مگر اصل گیم طالبان اور امریکا کے درمیان ہے۔ امریکا کے خیال میں طالبان کو بین الاقوامی معیار کی بنیادی اصلاحات پر مجبور کرنے کے لیے لگ بھگ دس ارب ڈالر کے افغان خزانے کی امانت کا منجمد کیا جانا ضروری تھا کیونکہ مالیاتی بازو مروڑے بغیر طالبان بین الاقوامی توقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔
 البتہ امریکی کانگریس کے تیس ارکان نے ایک خط میں بائیڈن انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ افغان عوام کی مدد کے لیے مالیاتی اثاثے غیر منجمد کیے جائیں۔ طالبانی حکومت کو توقع ہے کہ کچھ ہی دنوں میں بھوک اور سردی سے کپکپاتے ہزاروں افغان بین الاقوامی سرحدی لکیریں عبور کرنے کی کوشش کریں گے اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں فاقہ کش معصوم بچوں کی تصاویر شایع ہونا شروع ہوں گی تو مغربی ممالک کی رائے عامہ اپنی اپنی حکومتوں پر مزید دباؤ ڈالے گی کہ آپ کی لڑائی تو طالبان سے ہے مگر پونے تین کروڑ افغانیوں کا کیا قصور کہ چالیس برس سے سہہ رہے مصائب کے بعد اب ان پر فاقہ کشی کی موت بھی مسلط کر دی جائے۔ چار و ناچار بین الاقوامی امداد آنا شروع ہو جائے گی اور طالبان ان اصلاحات سے بھی بچ جائیں گے کہ جن کی متقاضی بین الاقوامی برادری ہے۔ گویا سیاسی و سفارتی بحران کا حل انسانی بحران خود بخود نکالے گا۔
ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو جائے۔ مگر یہ خطرہ بھی تو ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کو یمن کی طرح تنہا چھوڑ دے۔ جہاں سعودی ناراضی کے خوف سے دیگر ممالک اور بین الاقوامی این جی اوز کھل کے امدادی کام نہیں کر پا رہے اور افغانستان میں امریکی رضامندی کے بغیر کوئی مغربی حکومت یا عالمی مالیاتی ادارہ اپنے تئیں امدادی کوششوں میں کودنا نہیں چاہتا۔ اس پس منظر میں پاکستان کی سفارتی و علاقائی پوزیشن ہمیشہ کی طرح نازک دوراہے پر ہے، اگر وہ بین الاقوامی برادری کے اتفاق رائے کے دائرے کو توڑتے ہوئے طالبانی حکومت کی براہِ راست مدد کرتا ہے تو اسے عالمی سطح پر مزید اکیلے پن کا خدشہ رہے گا۔ خود پاکستان کے اپنے اقتصادی حالات بھی ایسے ہیں کہ وہ بالا بالا اپنی افغان امدادی پالیسی تشکیل دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ فاقہ کشی کے حقیقی خطرے سے دوچار افغانیوں تک جلد بنیادی مدد نہیں پہنچتی تو پھر پاکستان لاکھوں نئے لاچاروں کے لیے غیر معینہ مدت تک اپنی سرحدیں بھی بند نہیں رکھ پائے گا۔
گویا پاکستان طالبان کی فتح کی ابتدائی خوشی منانے کے بعد اب خود کو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے شکنجے میں محسوس کر رہا ہے۔ افغان انسانی بحران بم کی ٹک ٹک روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جس ملک کا پچھتر فیصد قومی بجٹ پانچ ماہ پہلے تک عالمی امداد کا مرہونِ منت تھا۔ اس کے تلوؤں تلے سے اچانک امدادی قالین کھسک جائے تو ایسے میں بہترین حکومت بھی ہوا میں ہاتھ پاؤں چلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ طالبان پندرہ اگست کو کابل میں داخل ہوئے تو ایک ڈالر کی قدر اسی افغانی تھی۔ آج ڈالر کی قیمت سوا سو افغانی کے آس پاس ہے۔ پانچ ماہ پہلے پانچ لیٹر خوردنی تیل کا ڈبہ سات سو افغانی میں دستیاب تھا۔ آج اٹھارہ سو افغانی میں بھی بمشکل مل رہا ہے۔ افغانستان میں بیشتر شہریوں کے لیے ملازمت کا مطلب سرکاری سیکٹر کی ملازمت ہے۔ ستر فیصد اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو کم از کم تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ 
صحت کا نظام پہلے بھی بین الاقوامی این جی اوز کے رحم و کرم پر تھا۔ آج سرکاری صحت نظام نوے فیصد ڈھ چکا ہے۔ دواؤں کا کال ہے اور غذائی قلت کے سبب مریضوں بالخصوص کمزور اور بیمار بچوں کی تعداد میں دگنے اضافے کے سبب بستروں کا شدید کال ہے۔ طبی عملہ تنخواہیں معطل ہونے کی وجہ سے گھریلو ساز وسامان بیچ کر دن کاٹ رہا ہے۔ محکمہ تعلیم کے ستر فیصد ملازم گزشتہ تین سے پانچ ماہ کے دورانیے میں تنخواہوں سے محروم ہیں۔ لاکھوں بچے نہیں جانتے کہ دوبارہ اسکول کب جائیں گے۔ بے روزگاری کی شرح انتیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔معیشت تیس فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ پیسے کی قلت سے عام آدمی کی قوتِ خرید بھی گڑبڑا گئی ہے۔ چنانچہ پرچون والے کی ہٹی بھی ٹھپ ہے۔ تعمیراتی کام معطل ہے تو وزن ڈھونے والا مزدور اور دیوار اٹھانے والا مستری بھی ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ ایک عام افغان خاندان اوسطاً چھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پانچ کا دارو مدار عموماً ایک ہی کماؤ پوت پر ہے اور لاکھوں کماؤ پوت کام سے محروم ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق تئیس ملین افغان ( نصف سے زائد آبادی ) بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکیس ملین افراد کو فوری انسانی مدد درکار ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اس خبر کا خیرمقدم کیا ہے کہ عالمی بینک کا افغانستان ری اسٹرکچرنگ فنڈ ٹرسٹ دسمبر کے آخر تک دو سو اسی ملین ڈالر اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ ( یونیسف ) اور عالمی ادارہِ خوراک کے اکاؤنٹس میں جمع کروا دے گا۔ سالِ نو کے آغاز پر اقوامِ متحدہ افغانیوں کی مدد کے لیے ساڑھے چار ارب ڈالر کی امدادی اپیل جاری کرنے والا ہے۔ صرف ایک شعبہ ایسا ہے جسے زوال نہیں۔یعنی من��یات کی پیداوار اور تجارت۔ اگرچہ دوسری بار برسرِ اقتدار آتے ہی طالبان نے منشیاتی فصلوں کی کاشت پر پابندی عائد کر دی۔ لیکن فاقہ زدگی کے عمومی ماحول میں وہ اس پابندی پر عمل کروانے میں ناکام ہیں۔ چنانچہ اس وقت افغانستان کرسٹل میتھ ( ایمفیٹامین ) کی اسی فیصد عالمی پیداوار کا مرکز بن چکا ہے۔ بی بی سی کے مطابق صوبہ ہلمند اور قندھار کرسٹل میتھ کی پیداوار کے کلیدی مراکز کے طور پر ابھرے ہیں۔ ہلمند کے صرف ایک ضلع میں لگ بھگ پانچ سو خانہ ساز منشیاتی فیکٹریاں روزانہ تین ہزار کلو گرام کرسٹل میتھ تیار کر رہی ہیں۔
ہر فیکٹری پچاس سے ستر افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ایفینڈرا نامی جڑی بوٹی خود رو اور وافر ہے۔ اسی سے ایمفاٹمین تیار ہوتی ہے۔ اس وقت سو کلو کرسٹل کی بین الاقوامی منڈی میں قیمت دو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ کرسٹل میتھ کی عالمی طلب نے ہیروئن کی طلب کو بھی گہنا دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افغانستان ہیروئن کی پیداوار میں سرِفہرست نہیں رہا۔ اعلیٰ قسم ہیروئن کی سرحد پار قیمت دو لاکھ روپے فی کلو گرام سے زائد ہے۔ یہی کلو گرام برطانیہ پہنچتے پہنچے ایک کروڑ چھپن لاکھ ( چھیاسٹھ ہزار پاؤنڈ ) کا ہو جاتا ہے۔ منشیات کی تجارت پر نگاہ رکھنے والے سرکردہ برطانوی ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ مینسفیلڈ کا اندازہ ہے کہ گزشتہ برس طالبان نے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں منشیات پر ٹیکس کے ذریعے پینتیس ملین ڈالر وصول کیے۔ 
نئی طالبان حکومت بنا غیر ملکی امداد اپنا پہلا قومی بجٹ تیار کر رہی ہے۔ ظاہر ہے محض کسٹمز اور درآمد و برآمد پر ڈیوٹی بڑھانے سے تو نئے بجٹ کا پیٹ بھرنے سے رہا۔ چونکہ آمدنی کے دیگر مواقعے بے یقینی کی دلدل میں تیزی سے گم ہو رہے ہیں اس لیے پوست (افیون ) کی اگلی فصل کی کاشت بھی بے فکری سے جاری ہے تاکہ عالمی منڈی کی اسی فیصد مانگ پوری کر کے کہیں نہ کہیں سے تو پیسہ آئے۔ طالبان ترجمان بلال کریمی کے بقول جب تک ہم کسانوں کو متبادل فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تب تک ہم کسی بھی طرح کی کاشت کیسے روک سکتے ہیں ؟ کسان کہتے ہیں کہ جب تک بین الاقوامی برادری مدد نہیں کرتی تب تک زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ۔
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی (ساحر لدھیانوی) اس دنیا کو لاعلمی نے نہیں تجاہلِ عارفانہ نے مارا ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغانستان کیلئے اسلامی فنڈ
ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان چار عشروں سے زائد عرصے سے جنگ و جدل، دہشت گردی، معاشی بدحالی، بھوک اور افلاس سے دو چار ہے۔ پہلے روس اور اُس کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے تقریباً چار کروڑ آبادی کے اِس غریب ملک کو تاراج کیا۔ امریکہ کھربوں ڈالر اور جنگی مشینری استعمال کرنے کے باوجود یہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کر سکا نہ نظام۔ امارت اسلامی کے داعی طالبان نے طویل جدوجہد اور بےپناہ قربانیوں کے بعد حکمرانی کا حق تو واپس لے لیا لیکن دنیا سے ابھی تک اپنی حکومت تسلیم کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ امریکہ نے اس کے اربوں ڈالر دبا رکھے ہیں۔ مالی وسائل سے محروم اور طویل جنگ سے تباہ حال افغانستان اس وقت بہت بڑے انسانی المیے کے خطرے سے دوچار ہے۔ ان حالات میں پاکستان آگے آیا اور اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے افغان عوام کی مدد کیلئے پوری دنیا میں مہم چلائی۔ 
اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیرمعمولی اجلاس، جس میں طالبان کے مخالف امریکہ، جاپان، جرمنی اور اٹلی کے نمائندے بھی شریک ہوئے، اسی سلسلے کی کڑی تھا جو تفصیلی اعلامیہ جاری کرنے کے ساتھ ختم ہوا۔ اعلامیہ میں افغانستان کو بدحالی اور تباہی سے بچانے کیلئے متعدد اقدامات کی منظوری دی گئی ہے۔ ان میں سب سے اہم خوراک اور نقد امداد کی فراہمی کیلئے فوڈ سیکورٹی پروگرام اور ہیومینیٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے پر اتفاقِ رائے ہے۔ ایک خصوصی نمائندہ بھی مقرر کر دیا گیا ہے جو اجلاس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی نگرانی کرے گا۔ اجلاس میں منظور کی جانے والی قراردادوں میں زور دیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی، مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلا کا باعث بنے گی اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم استحکام کو فروغ ملے گا جس کے سنگین نتائج علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام پر پڑنے والے اثرات کی صورت میں برآمد ہوں گے۔ 
یہ بھی کہا گیا کہ غربت سے نمٹنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے شہریوں کو ضروری خدمات خاص طور پر صاف پانی، معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں افغانستان کی مدد کرنا ہو گی۔ انسانی امداد کی فراہمی میں بین الاقوامی برادری، پڑوسی ممالک ڈونر ایجنسیوں اور دیگر عالمی اداروں کی کوششوں پر بھی زور دیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستا ن کی 60 فیصد آبادی کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے رواں سال جنوری سے ستمبر تک 6 لاکھ 65 ہزار افراد افغانستان کے اندر بےگھر ہوئے جبکہ 29 لاکھ پہلے سے بے گھر ہیں۔  کانفرنس میں جن امور پر اتفاق کیا گیا ان پر عملدرآمد سے افغان عوام کو بہت بڑا ریلیف ملے گا جس کا کریڈٹ مسلم سربراہوں خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جنہوں نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا اور دنیا کو خبردار کیا کہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے کوئی بڑا اقدام نہ اٹھایا گیا تو صورتحال تباہ کن ہو سکتی ہے۔ 
خصوصاً معاشی بدحالی دہشت گردی کے پھیلائو کا سبب بن سکتی ہے۔ اجلاس میں منظور قراردادوں میں زندگی کے تمام شعبوں میں افغان خواتین کی شرکت، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق، توانائی، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی شعبوں میں منصوبوں پر عملدرآمد پر زور دیا گیا اور افغان قیادت کا موقف بھی سنا گیا۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بتایا کہ افغانستان میں امن اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ ہمارے ساتھ اور مددگار ہیں۔ داعش کو کنٹرول کر لیا ہے کسی اور کو بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اسلام آباد کا اجلاس افغانستان کے بہتر مستقبل کیلئے سنگ میل ثابت ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغانستان اور مسلم دنیا
چالیس سال تک جنگ کے شعلوں میں جھلسنے والے برادر مسلم ملک افغانستان کو درپیش سنگین انسانی مسائل اور معاشی مشکلات کے حوالے سے دنیا کے 57 ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا انعقاد ایک ایسا اقدام ہے پوری مسلم دنیا جس کی شدید ضرورت محسوس کر رہی تھی۔ توقع ہے کہ تنظیم کے سربراہ سعودی عرب کی تجویز پر اور پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس میں افغانستان کو موجودہ بحرانی صورت حال سے نکالنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات طے کیے اور جلد از جلد روبعمل لائے جائیں گے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی اداروں نیز امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین کے نمائندوں سمیت بعض غیر رکن ممالک کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جس سے اس کی ہمہ گیری اور وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 
اس موقع پر تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں اس پختہ یقین کا اظہار کیا ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک، اقوام متحدہ اور علاقائی شراکت داروں کے علاوہ متعلقہ فریقین افغانستان کو درپیش تشویشناک صورت حال کا پائیدار حل نکالنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی کا اہم رکن ہونے کے ناتے افغانستان تنظیم کے رکن ممالک کی طرف سے مکمل حمایت اور یکجہتی کا پوری طرح حق دار ہے۔ انہوں نے او آئی سی کے تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اسلامی ترقیاتی بینک اور اسلامی یکجہتی فنڈ کے ذریعے سے افغانستان کے لیے امدادی منصوبے کو منظم کرنے اور اس پر فوری عملدرآمد کے لیے ضروری مالی وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فعال کردار بھی ادا کریں۔ علاوہ ازیں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انڈونیشی وزیر خارجہ سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ افغانستان کی بحرانی کیفیت ہنگامی ادارہ جاتی میکانزم کی تشکیل کی متقاضی ہے، افغانستان میں انسانی المیے سے بچنے کیلئے ہنگامی کاوشیں ناگزیر ہیں، افغانستان میں امن و مفاہمتی اقدامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ 
دریں اثناء عرب ویب سائٹ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ��البان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کا کہنا تھا کہ یہ مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ عالمی سطح پر ابھی انہیں تسلیم کرنے کی بات نہیں ہو رہی، عالمی برادری کی بہت سی توقعات ہیں جن میں شمولیتی حکومت نیز اقلیتوں اورخواتین کے حقوق کی پاسداری شامل ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی برادری چاہتی ہے کہ طالبان ان چیزوں کی یقین دہانی کروائیں ۔ وزیر خارجہ کا یہ اظہار خیال ایک واقعاتی صورت حال کی وضاحت کی حد تک تو درست ہے لیکن اس کی بنیاد پر موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے موقف کی تائید کرنا کسی طور درست نہیں ہو گا کیونکہ امریکہ امارات اسلامی افغانستان کی حیثیت سے تحریک طالبان سے معاہدہ کر کے عملاً افغانستان میں حکومت سازی کو اس کا حق تسلیم کر چکا ہے۔ 
جن شرائط کا ذکر شاہ محمود قریشی نے کیا ہے طالبان انہیں پورا کرنے سے انکاری نہیں اور ان کی حکومت کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ ان شرائط کی تکمیل کے حوالے سے بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ انسانی المیے سے افغانوں کو بچانے کی کارروائیاں بھی موجودہ حکومت کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد ہی صحیح طور پر شروع ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر کے انصاف پسند لوگ توقع رکھتے ہیں کہ اسلامی تعاون تنظیم افغانستان کو درکار ہر قسم کے تعاون کی فراہمی کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے میں بھی پیش قدمی کر کے بین الاقوامی برادری پر اس کی ضرورت اور اہمیت کما حقہ واضح کرے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
afghannews · 2 years
Text
او آئی سی اجلاس، بحران میں مبتلا افغانوں کے لیے امید کی کرن
آج کا دن افغانستان کے 3.8 کروڑ لوگوں جن میں ایک شدید انسانی بحران میں مبتلا بوڑھے بچے، خواتین شامل ہیں کے لیے امید کا دن ہے۔ یہ افغان شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں جنہیں قحط سالی کا سامنا ہے، جو بےروزگاری اور بیماری کی لپیٹ میں ہیں اور بڑی تعداد میں بےگھر بھی ہیں، جن کو شاید ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر ہے، جن کے بچے اور بوڑھے شدید سردی اور بیماری کی نظر ہو رہے ہیں، ان سب کے لیے ایک پرامید دن ثابت ہو گا۔ آج اسلام آباد میں جمع مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیم او آئی سی کے 57 ممبران جن میں وزرائے خارجہ، سینیئر حکام اور خصوصی ایلچی ایک نہایت اہم اجلاس میں ان افغانوں کی صورت حال پر غور کریں گے۔ او آئی سی کی کونسل آف فارن منسٹرز کا یہ خصوصی اجلاس سعودی عرب نے طلب کیا اور پاکستان اس تاریخی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ او آئی سی کے اس خصوصی اجلاس میں تمام اہم ممالک جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ممالک کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
ساتھ میں تمام اہم بین الاقوامی ادارے جو افغانستان کی بگڑتی ہوئی انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں مثلا اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ کو بھی پاکستان نے شمولیت کی دعوت دی۔ اس اجلاس میں 437 غیرملکی مندوبین شریک ہوں گے یعنی تمام وہ ممالک اور ادارے جو کہ افغانستان کی موجودہ معاشی ناکہ بندی کی وجہ بنے یا اس کے خلاف ایک آواز اٹھائے ہوئے ہیں وہ سب اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ ان تمام لوگوں کی موجودگی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ سب مل کر افغانستان کی صورت حال اور بڑھتے ہوئے شدید بحران کا حل تلاش کرنے کے اب حامی ہیں۔ نومبر 18 کو اقوام متحدہ کی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ڈیبرا لیون نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ پھر چند روز پہلے 11 امریکی جنریلوں اور سفرا جو افغانستان میں رہ چکے ہیں انہوں نے ایک جریدے میں امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے اقتصادی بحران کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے کیوں کہ یہ امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
ساتھ ہی یورپ میں بھی اب یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی پابندیاں بین الاقوامی قانون کے تحت انسانی حقوق کی پامالی نہیں کر سکتیں اور یہ کہ دنیا افغان عوام کی بگڑتی ہوئی حالت زار سے ہرگز کنارہ کشی نہیں کر سکتی۔ جو بات پاکستان نے غنی حکومت کے خاتمے پر ببانگ دہل کہی تھی اس بات کی سمجھ اب دنیا کو آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کا اصرار تھا کے جہاں افغانستان کی طالبان حکومت پر کچھ پابندی عائد کی جائیں اور اس کو تسلیم نہ کیا جائے وہاں افغانستان کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اہم انسانی اور اقتصادی فیصلے بھی کیے جائیں۔ طالبان پر اس نوعیت کا دباؤ نہ ڈالا جائے جس کے نتیجے میں افغانستان کا معاشی بحران اس سطح تک پہنچ جائے کہ افغانستان بحیثیت ایک ملک کے شدید بحران کا شکار ہو اور وہاں کے لوگ ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوں، ملک کے اندر لاچاری کا سامنا کریں اور ان حالات میں دہشت گردی کو بڑھاوا ملے۔
لیکن اس وقت ایک شدید شکست سے دوچار امریکہ اور اس کے بہت سے مغربی حامی نے افغانستان میں طالبان کی حکومت پر ان گنت پابندیاں لگائیں ہیں۔ آئی ایم ایف نے افغانستان کو ساڑھے چار سو ملین ڈالر کی ادائیگی روک دی ہے اور امریکہ نے افغان حکومت کے نو ارب ڈالر سے زیادہ امریکی بینکوں میں منجمد کر دیے۔ اس سب کے نتیجے میں افغانستان کا بینکاری کا نظام معطل ہو گیا اور جو اربوں ڈالر سالانہ امریکہ سمیت مغربی ممالک اپنی پسندیدہ افغان حکومت کو دے رہے تھے اور اپنی 20 سالہ جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ڈالر لا رہے تھے وہ بھی سب روک دیئے گئے۔ اگست 15 کے بعد افغان حکومت کے تمام ملازمین جن کا تعلق چاہیے تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبے سے ہو وہ سب بغیر تنخواہ کے کام کر رہے تھے۔ معاشی بدحالی کا یہ بگاڑ اب تک جاری ہے۔ آنے والے دنوں میں ایک معاشی طور پر مفلوج افغانستان میں بھوک بیماری لاچاری اور موت کا راج ہو سکتا ہے اگر فوری طور پر صورت حال کو نہ بدلہ گیا۔
اس کا بدلنا جہاں کسی ایک ملک یا ادارے پر محیط نہیں وہاں امریکہ کا کردار یقینا نہایت اہم ہے۔ آخر امریکی معاشی پابندیوں کے نتیجے میں ہی افغانستان کا بینکاری کا نظام مفلوج ہوا ہے۔ کچھ روز پہلے امریکہ کی اجازت سے جزوی طور پر کچھ نجی بینک اپنا کام شروع کر سکے ہیں لیکن یہ بھی معاملات کا حل نہیں۔ توقع ہے کہ او آئی سی کا خصوصی اجلاس پالیسی کی سطح پر بات چیت کر کے اور باہمی مشاورت کے نتیجے میں افغانستان کی عوام کے حق میں اہم فیصلے کرے گا۔ دو، تین روز سے اہم مندوبین کے درمیان مشاورت جاری ہے۔ افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے متعدد اہم مندوبین سے بھی ملاقات کی ہے۔ ان اہم ملاقاتوں میں ایک ملاقات امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ٹام ویسٹ سے بھی ہوئی۔ 
آج کا دن اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے لیے فخر کا دن ثابت ہو گا۔ ایک ایسا ادارہ جس کے بارے میں عموما منفی تاثر پایا جاتا ہے جیسے کہ اس ادارے سے بات چیت کے علاوہ عملی اقدامات کی کم ہی توقع کی جاتی ہے، اس کا افغانستان جیسے انسانی بحران میں الجھے ہوئے ملک کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرنا خوش آئند ہے۔  نئی افغان حکومت کو بھی او آئی سی کے پلیٹ فارم سے دونوں اقتصادی اور سفارتی سطح پر یقینی فائدہ ہو گا۔ اس سے بڑھ کر زیادہ تر مسلمان ممالک کا بھی اقتصادی بحران میں مغربی ممالک سے مدد کی توقع رکھنا کی روایت بھی ایک شرمندگی کا باعث رہی ہے۔ امید ہے اسلام آباد میں ایک نئی روایت قائم کی جائے گی۔ آج کا او آئی سی اجلاس تنظیم کے رکن ممالک کے لوگوں میں اور شاید انسانی بحران سے نمٹنے والی تنظیموں میں اس کے بارے میں کچھ مثبت سوچ پیدا کرے۔ سوچ سے بڑھ کر او آئی سی بحیثیت ایک تنظیم کے افغانستان کے بحران کو ختم کرنے کے لیے آنے والے دنوں میں ایک عملی کردار بھی ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں اس کی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی۔ 
جہاں آج کا دن افغانستان کے شہریوں او آئی سی کے لیے مثبت ثابت ہو گا یہ دن پاکستان کی افغانستان کے لوگوں کی بہتری کے لیے تگ و دو اور کوششوں کی گواہی بھی دے گا۔ یہ او آئی سی کا اجلاس پاکستان کی ایک مربوط حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو پاکستان کے اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کے افغانستان اور پاکستان جہاں یقینا دو آزاد ملک ہیں وہی ان کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔
نسیم زہرہ    
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
afghannews · 2 years
Text
امریکی کانگریس کا افغانستان میں ناکامیوں کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ
امریکی کانگریس نے افغانستان میں 20 سالہ جنگ کی ناکامیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ کمیشن 768 ارب ڈالر کے سالانہ دفاعی پیکج کا حصہ تھا جس کو گذشتہ ہفتے ایوان نمائندگان میں بھاری اکثریت کے ساتھ منظوری کے بعد سینیٹ میں 89 کے مقابلے 10 ووٹوں سے پاس کیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن، جنہوں نے امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے اگست میں امریکی فوجیوں کو نکال لیا تھا، نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ پر دستخط کریں گے۔ افغانستان کے متعلق کمیشن میں دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے مقرر کردہ 16 ارکان شامل ہوں گے اور انہیں اپنے پہلے اجلاس کے ایک سال کے اندر ابتدائی رپورٹ جاری کرنے کی آخری تاریخ دی جائے گی، جس کے بعد وہ تین سال کے اندر حتمی رپورٹ جاری کریں گے۔
قانون سازی میں کہا گیا ہے کہ کمیشن افغانستان میں جنگ کا جامع جائزہ لے گا اور مستقبل کی کارروائیوں کے لیے حکمت عملی اور سٹریٹیجک اسباق سے آگاہ کرنے کی سفارشات پیش کرے گا جن میں فوجیوں میں اضافے اور کمی اور مقرہ ڈیڈ لائنز کے اثرات بھی شامل ہیں۔ صدر براک اوباما نے 2009 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں ہزاروں فوجی اتارے لیکن بعد میں ان میں سے بیشتر کو واپس بلا لیا۔ ان کے بعد آنے والی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر بات چیت کی جس نے مئی 2021 میں امریکی فوجیوں کے جانے کی ٹائم لائن مقرر کی گئی تھی۔ یہ کمیشن جارج ڈبلیو بش کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ساتھ 2001 سے پہلے افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر بھی غور کرے گا، جب امریکہ نے نائن الیون کے جواب میں افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا۔ نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ نے چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان تائیوان کے لیے کانگریس کی مضبوط حمایت کی تجدید بھی کی۔
اس قانون میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تائیوان کی غیر متناسب دفاعی صلاحیتوں کو فروغ دے اور جزیرے کو 2022 میں بحرالکاہل کی مشقوں میں حصہ لینے کی دعوت دے جو ہوائی کے قریب ہر دو سال بعد منعقد کی جاتی ہے۔ اس بل سے امریکی دفاعی اخراجات میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 28 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں محکمہ دفاع میں فوجیوں اور سویلین کارکنوں دونوں کے لیے تنخواہ میں 2.7 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔
اے ایف پی  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغانستان میں دس لاکھ بچے غذائی قلت سے مرنے کے خطرے سے دوچار
برطانیہ کی ایک درجن سے زیادہ نمایاں امدادی ایجنسیوں نے افغانستان میں لاکھوں افراد کے لیے قحط کو روکنے کے لیے عوامی عطیات کے لیے ہنگامی اپیل شروع کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ برطانیہ کی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کے مطابق اگلے تین ماہ میں 10 لاکھ بچے غذائی قلت سے مرنے کے خطرے سے دو چار ہیں اور 22 ملین سے زیادہ بھوک کے خطرے کا شکار ہو جائیں گے۔ برطانوی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی نے خبردار کیا کہ افغانستان میں کورونا کی وبا، تنازعات اور خشک سالی نے ملک کو ایک ’ٹپنگ پوائنٹ‘ پر پہنچا دیا ہے جس سے 8 ملین افراد کو بھوک کا خطرہ لاحق ہے۔
افغانستان بھی ایک چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے میں بدترین خشک سالی کی لپیٹ میں تھا۔ ملک کی زیادہ تر گندم کی فصل برباد ہو چکی ہے اور اس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ برطانوی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ جیسے ہی منجمند موسم شروع ہو گا صورت حال مزید خراب ہو جائے گی، ہمیں جانیں بچانے کے لیے ابھی کام کرنا چاہیے۔ خیراتی ادارے پہلے سے ہی زندگی بچانے والی امداد فراہم کر رہے ہیں، اپنے آپریشنز کو بڑھا رہے ہیں اور ضرورت مندوں تک پہنچ رہے ہیں۔‘ برطا��وی ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صالح سعید نے کہا کہ صورتحال پہلے سے ہی ’خوفناک‘ سے آگے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم صرف بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔‘ 
عوامی عطیات کا استعمال بھوکے خاندانوں کو ہنگامی خوراک اور نقد رقم فراہم کرنے، چھوٹے بچوں اور ماؤں کے لیے نیوٹریشن فراہم کرنے، غذائی قلت کے علاج میں ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کی مدد اور خاندانوں کو گرم رہنے میں مدد کے لیے موسم سرما کی کٹس کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ برٹش ریڈ کراس کی میرین ہورن نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا اور اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے سب سے بنیادی مدد مانگ رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں لوگ روایتی طور پر لچکدار تھے لیکن اب ’سرنگ کے آخر میں روشنی نہیں‘ کے ساتھ ’مایوسی کا احساس‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ یہ اب چیزوں کو بہتر بنانے کے بارے میں نہیں ہے، یہ زندگیاں بچانے اور بہت دیر ہونے سے پہلے لوگوں تک پہنچنے کے بارے میں ہے۔‘
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
afghannews · 2 years
Text
افغان طالبان امریکہ سے کیا چاہتے ہیں؟
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران ہے۔ اسی لیے طالبان کی حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی کانگریس کو ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں افغانستان کے منجمند اثاثوں کو جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس خط میں امیر خان متقی نے تنبیہ کی تھی کہ اگر امریکہ نے نو ارب ڈالر مالیت کے اثاثے جاری نہیں کیے اور معاشی پابندیاں ختم نہیں کی گئیں تو انسانی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ 'ان کی حکومت نے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا ہے اور امن قائم کیا ہے لیکن بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات پہلے سے موجود انسانی بحران میں اضافہ کر رہی ہیں۔' 'اس معاشی بحران کی جڑ امریکہ کی جانب سے ان اثاثوں کو منجمد کرنا ہے جو ہمارے عوام کے ہیں۔' امیر خان متقی کے مطابق موجودہ صورت حال میں افغانستان میں طالبان کی حکومت اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے خطے اور دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے۔
افغانستان میں بڑھتا ہوا معاشی اور انسانی بحران واضح رہے کہ امریکہ کے علاوہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھی مالی امداد کی مد میں سوا ایک ارب ڈالر کی رقم کو موخر کر دیا گیا تھا جو اسی سال جاری ہونی تھی۔ اس مالی بحران کے باعث نا صرف افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سرکاری ملازمین سمیت ڈاکٹرز اور اساتذہ کی تنخواہیں دینے میں مشکلات کا شکار ہے بلکہ اس کا اثر نچلی سطح پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ سالوں سے جاری خانہ جنگی اور طویل ہوتے قحط افغانستان کی چار کروڑ آبادی میں سے نصف کے لیے اس موسم سرما میں فاقوں کا باعث بن جائیں گے۔ ناروے کی ریفیوجی کونسل کے مطابق تقریبا تین لاکھ افغان شہری ایران جا چکے ہیں جب کہ پانچ ہزار شہری روزانہ کی بنیاد پر غیر قانونی راستوں سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک جا رہے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes