Tumgik
lunndgand · 2 years
Text
امی جان اپنے پستان مبارک ہلاتے ہوۓ
329 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media
707 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media
1K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
19K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Photo
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Everything you need to know about me!
24K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media
🍌✨😈
Tumblr media Tumblr media
3K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media
🍦🍦✨
443 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Photo
Tumblr media
©donmirra.com - Vanessa
434 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media
18 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Photo
Tumblr media
36K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Repost if you think these are hot.
10K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Ana Lorde
132 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media
when december comes i bet you want to wrap me all up and take me home with you 🎄
1K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
گھر کی عزت پارٹ 13
1 بجے تک میں قاری صاحب سے 3 دفع زنا کر چکی تھی اور امی کو صرف ایک دفع قاری صاحب کا لن نصیب ہوا تھا 1 بجتے ہی امی میرے پاس کپڑے لائ اور کہنے لگی بیٹا پہن لو میں نے برا سا منہ بنایا کیوں کہ اب مجھے اپنے جسم پہ کپڑے زیب تن کرنا بوجھ محسوس ہوگیا تھا میں قاری صاحب سے جتنا زنا کر رہی تھی میری جنسی خواہش اور زیادہ بڑھتی جارہی تھی میں نے اپنے ننگے پستان پہ ہاتھ پھیرا اور بولی ماں میرا دل نہیں کر رہا اپنے جسم کو قاری صاحب سے چھپا لو تب امی بولی میری رانی میں تجھے تیرے قاری صاحب سے مباشرت سے اور جسم دکھانے سے کہاں روک رہی میں تو تیرے بہن بھائیوں سے کہہ رہی کہ ان کو تیرا جسم دکھا تو پرابلم کھڑی ہوجاے گئ قاری صاحب نے بھی کپڑے پہننے میں مصلحت سمجھی اور مجھے بھی بہن بھائیوں کہ سونے تک کپڑے پہننے کی تلقین کی کپڑوں کی بات پہ میرے شیطانی دماغ میں آئیڈیا آیا اور میں وہاں سے ننگی اٹھ کہ اپنے کمرے میں گئ اور تھوڑی دیر بعد جب میں کمرے آئ تو امی شلوار قمیض میں قاری صاحب کی گود میں بیٹھی تھی اور مجھے دیکھ کہ امی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیوں کہ میں نے وہی پینٹ شرٹ پہنی تھی جو مجھے قاری صاحب نے تحفہ دیا تھا امی تو میرے کسے جسم کو دیکھتے ہی رہ گئ اور بولی کیسا لباس پہنا تم نے استغفرُللہ جاو کوئ ڈھنگ کہ کپڑے پہنو میں ہنس کہ بولی امی لباس تو لباس ہوتا اور یہ مکمل لباس ہے اس میں بتائیں میرا جسم کا کونسا حصہ نظر آرہا تب امی بولی بیٹی اس لباس میں چھپ تو کچھ بھی نہیں رہا تمہاری گانڈ تمہارے پستان فاطمہ عمران تمہیں اس حال میں دیکھے گئے تو کیا سوچے گے میں امی کہ پاس آئ اور امی کی گال پہ ایک بوسہ دے کہ بولی تم ڈرتی رہو ان سے مجھے تو کسی کا ڈر نہیں ہے میں تو ایسے ہی رہوں گی ہماری بحث کہ دوران ہی دروازے پہ دستک ہوگئ میں پوری بے شرم بن گئ تھی مجھے شرافت سے برعکس ہر چیز میں مزا آنے لگا تھا تبھی امی اٹھنے لگی اور بولی بیٹی لباس بدل لو نہیں تو کوئ چادر ہی لے لو ایسے مناسب نہیں لگتا مجھے امی کو پریشان کرنے میں بہت مزا آنے لگا تھا میں بولی رنڈی چپ چاپ بیٹھ میں دروازہ کھولتی ہوں دیکھتی ہوں کیا اکھاڑتے تیرے بچے اور میں گانڈ مٹکاتی ہوئ گیٹ کی طرف جانے لگی مجھے تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن اپنے معصوم بہن بھائیوں کہ سامنے یہ بے شرمی کا مظاہرہ کرنے کا مزا بھی بہت آرہا تھا میں نے دروازہ کھولا تو سامنے عمران اور فاطمہ تھے عمران کی نظر جیسے میرے لباس پہ پڑی اس کی تو آنکھیں پٹھی کی پٹھی رہ گئ وہ ایک دو سیکنڈ کہ لیے وہاں ساکت کھڑا رہا فاطمہ نے عمران کو دھکا دیا تو عمران ہڑ بھڑا کہ میرے پستان سے ٹکرا گیا میں اسے سہارا دے کہ کھڑا کیا تب تک میرا نسوانی حسن اس پہ اثر کر چکا تھا اس نے پہلی دفعہ مجھے اس حال میں دیکھا تھا تو میں نے محسوس کیا سکول کی پینٹ میں اس کی للی ہلکے سے کھڑی بھی محسوس ہوئ مجھے اس کی اس حالت پہ بہت ترس آیا فاطمہ اندھر آتے ہی مجھے دیکھ کہ دھنگ رہ گئ اور تھوڑا غصہ سے بولنے لگی باجی آپ نے یہ کیا پہنا ہے اتنا سنتے ہی مجھے بہت زوروں کا غصہ آیا اور میں نے آگے بڑھ کہ اس کہ گال پہ ایک زور دار چانٹا مار دیا عمران بھی میرے اس رویہ کو دیکھ کہ سہم گیا میں بولی کیا بول رہی تجھے اپنی بڑی بہن سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے کیا برائ ہے اس لباس میں فاطمہ بہت ہی زیادہ سہم گئ تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی آگئے تھے وہ رونے جیسا منہ بنا کہ مجھ سے بولی باجی آپ نے مجھے مارا میں اور چلا کہ بولی ہاں مارا آئندہ کہ بعد مجھ سے الجھنے کی جرت مت کرنا فاطمہ سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی بھی تھی اسے آج تک گھر میں کسی نے ڈانٹا نہیں تھا لیکن اس کہ سامنے اب اس کی نیک شریف رحمدل بہن کی بجاے ایک بدچلن بگڑی ہوئ رنڈی کھڑی تھی جو اپنی ماں تک پہ رحم نہیں کرتی تھی فاطمہ روتے ہوے وہاں سے اندر جانے لگی آگے امی کھڑی تھی امی کو دیکھ کہ فاطمہ کو کچھ حوصلہ ہوا اس کو وہم تھا کہ میں اپنی ماں کی عزت کرتی ہوں اور اپنی ماں سے ڈرتی ہوں فاطمہ روتے ہوے امی کہ گلے لگ گئ اور بولی ماں دیکھو باجی نے مجھے مارا ہے امی میری طرف دیکھنے لگی تو میں نے امی کو گور کہ دیکھا جس سے امی کو میرا ظالمانہ رویہ یاد آگیا تو امی نے پیار سے فاطمہ کو سہلایا اور بولی میری پیاری بچی بڑی بہن ہے وہ تمہاری تم نے کوئ بد تمیزی کی ہوگی امی کی ایسی بات سن کہ فاطمہ ایک دم سے امی سے ہٹ کہ ان کو دیکھنے لگی مجھے اپنی اپنے گھر والوں پہ گرفت پہ بہت خوشی محسوس ہوئ امی کا رویہ نرم تھا اس لیے فاطمہ نے اگے ہمت کر کہ بولا ماں آپ باجی کو کچھ کہیں نہ دیکھیں انہوں نے کیسا لباس پہنا ہے آپ ہی تو کہتی تھی ہمیں کہ جو لڑکیاں ایسے فحش لباس پہنتی وہ لڑکیاں اچھی نہیں ہوتی ان کا اچھے گھر سے تعلق نہیں ہوتا ماں کی انکھوں میں بھی آنسو اگیا امی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا میں آگے بڑھی اور امی سے بولی ماں کیا یہ اچھا لباس نہیں ہے اور تھوڑا گور دیا اتنے میں
میری ماں سہم سی گئ اور بولی بالکل میری بچی اس لباس میں کوئ برائ نہیں ہے بیٹی فاطمہ تم بھی ایسا لباس پہن سکتی مجھے ماں کی بے بسی بہت لطف دے رہی تھی فاطمہ امی کا دبا لہجہ دیکھ کہ بہت پریشان تھی اتنے میں اندر سے قاری صاحب باہر آے اور فاطمہ کو روتا دیکھ کہ اس کہ پاس آ کہ بولے کیا ہوا میری بچی کیوں رو رہی؟
عمران یہ سب دیکھ کہ چپ چاپ کھڑا تھا کہ میرے گھر میں یہ چل کیا رہا قاری صاحب باہر کہ دروازے سے آنے کی بجاے اندر سے کیسے آ رہے میرے بھولے بھائ کو نہیں پتا تھا کہ کل شام سے یہ قاری صاحب اس کی بہن اور ماں سے زنا کرنے میں مشغول تھے امی نے قاری صاحب کو دیکھ کہ سکھ کا سانس لیا کیوں کہ میں اگر کسی کا کہا مان رہی تھی یا کسی کہ تابع تھی تو وہ فقت میرے آشنا قاری صاحب تھے
قاری صاحب نے فاطمہ کو دلاسہ دیتے ہوے اپنے قریب کر لیا اور اس سے ماجرہ پوچھنے لگے فاطمہ انصاف طلب نظروں سے قاری صاحب کو دیکھنے لگی اور روتے ہوے ساری روداد بیان کرنے قاری صاحب نے فاطمہ کو کھینچ کہ اپنی گود میں بیٹھا لیا میں اسی وقت سمجھ گئ کہ قاری صاحب استاد یا باپ کی حثیت سے نہیں بیٹھا رہے بلکہ ان کی نظر تو میری معصوم بہن کی کنواری شرمگاہ پہ ہے قاری صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کہ بولے صبا تمہیں شرم نہیں آتی میری اتنی پیاری بچی کو تم نے مارا میں سب کو کرارا جواب دے رہی تھی ل��کن قاری صاحب کہ سامنے میں نے اپنی نظر جھکا کہ بولی جی وہ یہ مجھے کہہ رہی تھی کہ یہ لباس سئ نہیں ہے تو قاری صاحب بولے چھوٹی بہن کو اتنی سی بات پہ مارنا درست نہیں ہے تم اپنے لباس کہ بارے بات نہیں سن سکتی یہ بات تم اسے پیار سے بھی سمجھا سکتی فاطمہ کو اب اطمینان ہوا کہ چلو کوئ تو میری بات سمجھنے والا موجود ہے فاطمہ اب رونے سے چپ کر گئ تھی قاری صاحب بولے دیکھو بیٹی تمہاری بڑی بہن اس لباس میں اچھی نہیں لگ رہی فاطمہ اب تھوڑے اعتماد سے بولی قاری صاحب باجی کو کبھی ایسے دیکھا نہیں باجی ہمیشہ با حجاب رہتی ہیں تو تھوڑا عجیب لگ رہا قاری صاحب عمران سے مخاطب ہوے اور بولے کیوں عمران تمہیں اپنی بہن ایسے لباس میں اچھی نہیں لگی عمران کی تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا عمران فٹ سے بولا قاری صاحب مجھے تو بہت اچھی لگ رہیں باجی مجھے اپنے بھائ پہ بہت پیار آیا کتنا سیدھا ہے میرا بھائ جو اپنی بہن کہ ایسے روپ کی تعریف کر رہا قاری صاحب فاطمہ سے بولے بیٹی ایسا لباس جس سے آپ کا جسم پورا ڈھانپا جا سکے اس میں کوئ ممانت نہیں ہے اور تمہاری بہن کہیں سے برہنہ نہیں ہے صبا زرا گھوم کہ دیکھاو اپنی چھوٹی بہن کو تمہارا پورا جسم چھپا ہوا یا کہیں سے برہنہ میں تو میں گھومی اور اپنا انگ انگ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھانے لگی میں آہستہ سے پلٹی تو دیکھا عمران میرے بڑے چوتڑ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا قاری فاطمہ کو اپنی گود میں بیٹھاے پھر پوچھا بیٹی بتاو اس میں پورا جسم چھپا یا کہیں سے ننگا ہے قاری صاحب کی ایسی باتوں سے مجھے معلوم تھا ان کا لن کھڑا ہو رہا ہوگا جو ابھی میری چھوٹی بہن کی شلوار کہ پاس ہی تھا فاطمہ تھوڑا ہلنے لگی شائد اسے لن تنگ کر رہا تھا وہ اٹھنے لگی تو قاری صاحب بولے کیا ہوا بیٹی تو فاطمہ کو ان سے سہارا ملا تھا انصاف ملا تھا اس لیے وہ قاری صاحب پہ سیدھا شک کرنا مناسب نہیں سمجھ رہی تھی اس نے کہا کچھ نہیں میں کپڑے تبدیل کرلو بہت بھوک لگی اور میرے پاس آکہ بولی باجی مجھے معاف کردیں میں نے آپ کو دکھ پہنچایا فاطمہ اور عمران کمرے میں چلے گئے میں نے موقع کو غنیمت جان کہ اپنی پینٹ سمیت گانڈ قاری کہ لن سے رگڑتے ہوے ان کی گود میں بیٹھ گئ اففف قاری صاحب کا لن میری توقع سے زیادہ کھڑا تھا امی ہماری حرکت دیکھ کہ بولی صبر کرلو صبا رات تک ابھی مزید مسئلہ کھڑا نہ کردینا میں ہنس کہ بولی امی جان ادھر جو مسئلہ فاطمہ کھڑا کر کہ گئ ہے اسے میری یا آپ کی شرمگاہ ہی بیٹھا سکتی امی تھوڑا پریشان ہوگئ اور قاری صاحب سے مخاطب ہو کہ ڈرے سے لہجے میں بولی جناب میری بچی ابھی چھوٹی ہے خدارا ابھی اسے اس سے دور رکھیں بڑی ہونے دیں پھر کچھ دیکھیں گے میں اپنی پینٹ مسلسل قاری صاحب کی گود میں رگڑتے ہوے بولی بس کر رنڈی کیوں بار بار تیری شرافت جاگ جاتی میرے پیا کا دل تیری بیٹی پی آگیا ہے تو خوش ہو کہ پیش کر جتنا سکون انہوں نے تجھے دیا ہے تجھے تو اپنا بیٹا بھی ان کہ لن کہ آگے پیش کرنا چاہیے میں تو ان کہ لن کی رگڑ میں جذباتی ہو کہ ناجانے کیا کیا بولی جا رہی لیکن قاری صاحب تھوڑے ہوش میں تھے اور بولے ٹھیک کہہ رہی میری رانی مجھے تو اب یاد آیا تیرا بیٹا عمران بھی تو بہت چکنا ہے تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور دونوں بہن بھائ باہر صحن میں اگئے جہاں میں قاری صاحب کی گود میں بیٹھی تھی میں گھبرا کہ اٹھی لیکن میری حالت میرے دونوں بہن بھائ دیکھ چکے تھے مجھے تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئ اب فاطمہ کو مجھ پہ جو شک تھا وہ تقویت پکڑ رہا تھا لیکن ابھی کچھ دیر پہلے کی ہوئ میری بحث سے اس کا حوصلہ نہیں ہوا مجھ سے کوئ بھی سوال پوچھنے جس سے مجھے اچھا لگا وہ دونوں کچن کی طرف اپنی کمر کر کہ ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھ گئے امی کچن میں تھی میں اٹھ کہ کچن کی طرف جانے لگی قاری صاحب بچوں کہ سامنے بیٹھے تھے اس لیے صرف انہیں کچن صاف نظر آرہا تھا میں کچن میں گئ امی روٹی پکا رہی تھی سالن ابھی گرم تھا میں نے بچوں کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی ماں کی گانڈ پہ ہاتھ ایک ہلکے سے تھپڑ مارا امی یک دم سے ڈر گئ اور اب تھوڑا اکتا کہ بولی صبا بس بھی کرو کیوں مجھے اس عمر میں بے آبرو کروا کہ نکلوانا یہاں سے میں بولی کتی کی بچی چپ رہا کر میرے ساتھ بکواس نہ کیا کر امی بے چاری چپ کر گئ اور میں امی کی گانڈ دونوں ہاتھوں سے سہلانے لگی میں ایک ہاتھ اوپر لیجا کہ چیک کیا تو مجھے یقین نہیں ہوا امی نے لاسٹک والی
شلوار پہنی تھی میں نیچے جھک کہ امی کی قمیض ہٹا کہ وہاں ایک بوسہ لیا اور ایک تھپڑ مار کہ ںولی واہ میری شریف ماں تونے لاسٹک ڈالا امی میری بات سن کہ شرما سی گئ لیکن میں تو بے شرمی کہ اعلی درجہ پہ پہنچ چکی تھی میں نے دونوں ہاتھوں سے امی کی شلوار کھنچ دی قاری صاحب ہماری طرف ہی دیکھ رہے امی میری ایسی حرکت دیکھ کہ ایک دفع ہل گئ اس کہ دو معصوم بچے باہر بیٹھے تھے اور اس کی بڑی بیٹی نے اس کی شلوار اتار دی تھی امی کہنے لگی پلیز نہ کرو صبا کوئ دیکھ لے گا میں شرارتاً کہا ارے کچھ نہیں ہوتا جان دیکھا کتنا مزا لاسٹک امی یہ سب کرنا چاہتی تھی لیکن اس کہ بچوں کہ سامنے اس کا کردار خراب نہ ہو اس بات کا ڈر بھی تھا امی بیچ بیچ پہ سسکریاں بھی لیتی رہی میں امی کی اس حالت پہ بہت مزا لے رہی تھی اور نیچے بیٹھ کہ امی کہ چوتڑ کو کھول کہ قاری صاحب کو اس کہ بچوں کی موجودگی میں گانڈ کا سوراخ دکھا رہی تھی اور اس کو کبھی چوم رہی تھی اور کبھی چاٹ رہی تھی اتنے میں ڈائئنگ ٹیبل سے فاطمہ نے امی کو پکارا امی بہت بھوک لگی ہے کتنی دیر لگے گی امی کی تو سیٹی گم ہوگئ اور ہڑبڑا گئ میں فاطمہ کی آواز یک دم آواز آنے سے میں بھی ایک دم سے گھبرا گئ میں چاہے جتنی بھی بے غیرت بن چکی تھی لیکن پھر بھی ایسے پکڑے جانے کا ڈر تو ڈر ہوتا خیر میں نے اپنے حاضر دماغ کا استعمال کیا اور امی کی قمیض کو نیچے کر کہ ان کی گانڈ کہ آگے کھڑی ہوگئ لیکن مجھے لگا جیسے فاطمہ نے امی کو اس حال میں دیکھ لیا ہے میرے آگے آنے سے امی کی حالت مکمل طور پہ تو نہیں چپھی لیکن اتنا تھا کہ واضح طور پہ پتا نہیں چلا کہ امی کی شلوار گھنٹوں سے تھوڑی اوپر ہے امی نے خود کو سنبھالتے ہوے کہا لاتی ہوں بیٹا صبر کرو میں فاطمہ کو دیکھنے لگی اس نے تھوڑا سا غور کیا کہ کچن میں آخر چل کیا رہا ہے پھر میری طرف دیکھ کہ قاری صاحب کی طرف منہ پھیر لیا میں نے امی سے کہا بچ گئ میری رنڈی اور ہلکے سے ہننسے لگی امی نے اپنا ہاتھ نیچے کیا اور جھٹ سے اپنی شلوار اوپر کرنے لگی تو میں نے کہا نہ کرو نہ شلوار نیچے امی ایسے ہی رہنے دو کتنی حسین لگتی تمہاری یہ بڑی گانڈ امی تھوڑا غصے میں مجھے بولی حرامزادی بس کر امی نے حرامزادی کہا تو میں نے ہنس کہ کہا امی سچ میں میں حرامزادی ہوں امی کا غصہ ہنسی میں بدلہ امی نے ایک ٹرے میں کھانا اٹھایا اور کچن میں چلنے لگی تو میں نے پھر امی کی قمیض کہ اوپر سے ہی ایک انگلی سے امی کی قمیض کو ان کی گانڈ میں دکھیل دیا اور بولی قمیض نہ نکالنا ایسے تمہارے چوتڑ بہت حسین لگتے امی اس پہ ہنس دی اور باہر آگئ امی نے کھانا عمران اور فاطمہ کو دیا ہم سب نے مل کہ کھانا کھایا اتنے میں قاری صاحب بولے بچوں چلیں کمرے میں اور اپنا اپنا سبق یاد کریں بہت چھٹیاں ہوگئ فاطمہ اب اسی تجسس سے گزر رہی تھی جس سے کبھی میں گزرتی تھی خیر قاری صاحب کہ حکم کہ مطابق کہ دونوں بچے اپنے کمرے سے اپنی کتب لے کہ میرے والے کمرے میں جا کہ پڑنے لگے امی برتن اٹھانے لگی میں نے اتنے میں اپنی پینٹ کا بٹن کھول کہ ایسے ہی قاری صاحب کی گود میں بیٹھ گئ میں نے جب اپنی تشریف جو پینٹ میں بالکل تنگ بندھی تھی ان کہ عضو پہ رکھی تو میں حیران رہ گئ کہ قاری صاحب تو فل ٹائیٹ تھے میں ہنس کہ بولی واہ جان لگتا حملہ کہ لیے تیار بیٹھا آپ کا فوجی قاری صاحب کہنے لگے ارے میری جان جب سے اس نے تمہاری چھاؤنی پہ قبضہ کیا ہے اب تو یہ ہر وقت جنگ کہ موڈ میں رہتا امی کچن میں برتن دھوتے ہوے ہمیں ہی دیکھ رہی تھی میں نے قاری صاحب سے کہا جان میری چھاؤنی بھی تو چاہتی اس پہ آپ حملہ کردیں لیکن ابھی لگتا میری امی کی چھاؤنی میں آپ کے فوجی کو جانا چاہیے کیونکہ اس فوجی کو میری امی کی چھاؤنی دیکھ کہ تو جنگ کی تمنا ہوئ ہے قاری صاحب ہنس دیے اور مجھ سے کہا جان یہ فوجی کو بس چھاؤنی چاہیے وہ تمہاری ہو یا تمہاری ماں کی اس وقت یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکا میں ان کی گود میں سے اٹھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کہ ان کو کچن کی طرف لے گئ امی مجھے آتا دیکھ کہ تھوڑا مسکرائ میں اندر جا کہ قاری صاحب کی شلوار اتار کہ امی سے بولی ماں دیکھو نہ تمہاری چھاؤنی کو دیکھ کہ میرے قاری صاحب کا فوجی کیسے الرٹ ہوگیا اسے اپنے چھاونی میں آنے دو نہ امی قاری صاحب کہ لن کو دیکھتے ہی خوش ہوگئ اور ساتھ ہی بولی بیٹی اس فوجی کو کون بدنصیب چھاؤنی اپنے اندر بلانے کو منع کر سکتی لیکن میری رانی بیٹی اگر کوئ آگیا تو ہماری جنگ کا مزا خراب نہ ہو جاے مجھے امی کی بات پہ بہت غصہ آیا میں نے امی کہ منہ پہ تھوکا اور بولی کتی کی بچی لن لینے کو دل کرتا تو یہ ڈرنا ورنا چھوڑ دے تجھے بولا تو تھا کہ جس کا ڈر ہو اسے بھی خراب کردو پھر کس کا ڈر امی نے مجھے منت کرنے والے لہجے میں کہا بیٹی تو تھوڑا دھیان رکھ لے نہ پلیز اتنا میری چھاؤنی اس فوجی سے برباد کروا لوں مجھے امی کی حالت پہ ترس آیا اور میں آگے بڑھ کہ امی کی شلوار اتار دی اور بولی اس فوجی کہ ہر حملے کا جواب
دینا چاہیے تمہاری چھاؤنی تباہ ہوجاے میں دھیان دیتی ہوں تم کرو میں قاری صاحب اور امی کو کچن میں اکیلے چھوڑ کہ اپنے بہن بھائ کہ پاس جانے لگی میں اندر گئ تو فاطمہ سامنے کتاب رکھے جانے کن خیالوں میں کھوئ تھی مجھے سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ فاطمہ ان دنوں کیا سوچ رہی ہوگی میری نظر عمران پہ گئ جو ٹکٹکی باندھ کر میرے پستان اور پینٹ میں چھپے جسم کو تاڑ رہا تھا مجھے دیکھ کہ بہت خوشی ہوئ کہ ایک بندے کو سمجھانا آسان ہے لیکن فاطمہ کو کیسے اس کھیل میں شامل کیا جاے میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا میں جا کہ ان دونوں کہ درمیںان بیٹھ گئ تو عمران بولنے لگا باجی قاری صاحب کہاں ہے ہم نے سبق سیکھنا ہے تو میرے چہرے پہ ہنسی آگئ اور بولی وہ امی کی کچن میں تھوڑی مدد کر رہیں ہیں لاوں میں سمجھا دیتی میری ہنسی پہ فاطمہ جیسے چڑنے لگی اور بولی کیسی مدد باجی میرے تپھڑ کہ بعد مجھے نہیں خیال تھا کہ فاطمہ اب مزید کچھ مجھ سے پوچھے گی
میں چاہتی تو ایک اور تپھڑ سے اسے چپ کر وا سکتی تھی لیکن لیکن تپھڑ مارنے کی کوئ معمولی سی وجہ نہیں بنتی تھی پھر امی بھی تو اپنے یار سے زنا میں مشغول تھی میں نے مصلحت سے کام لیا اور فاطمہ سے بولی وہ پرانے برتن اوپر والے کبڈ سے نکالنے تھے تو امی کا ہاتھ نہیں جا رہا تھا تو قاری صاحب ان کی مدد کر رہیں ہیں فاطمہ نے پھر سے سوال کیا کہ وہ اتنا اونچا تو نہیں ہے اور اتنی دیر برتن نکالنے میں مجھے فاطمہ پہ اس قدر غصہ آیا کہ دل کیا ابھی اس کہ کپڑے پھاڑ کہ اس کو نانی یاد کروا دوں لیکن پھر اپنے غصہ پہ قابو پا کہ بڑے اطمینان سے اسے جواب دیا فاطمہ تمہیں کوئ اعتراض ہے اس بات پہ تو بتاو میں امی کو بلا لیتی تم ان سے پوچھ لو میری بات کی تلخی کو سمجھتے ہوے اس نے کہا نہیں باجی میرا وہ مطلب نہیں تھا اور خاموش ہوگئ مجھے اب ف��طمہ بہت بری لگنے لگی تھی میں اب ٹھان چکی تھی کہ بہت جلد اسے قاری صاحب کی رکھیل بنا دوں گی پھر اس کتی کو ٹھیک سے ٹریٹ کروں گی دونوں بچوں کو سبق دے کہ مجھے امی اور قاری صاحب کا خیال آیا اور میں وہاں سے اٹھ کہ کچن کی طرف جانے لگی میں کچن پہنچی تو دیکھا امی بالکل ننگی شلف پہ جھکی تھی اور قاری صاحب ان کی گانڈ زوروں سے بجا رہے تھے مجھے یہ نظارہ دیکھ کہ بہت سکون محسوس ہوا میں آگے بڑھی اور بولی ارے واہ کنجری میں نے تو صرف شلوار اتارنے کو کہا تھا تم نے تو پوری شرم اتار کہ جنگ شروع کردی امی میری بات سن کہ شرما سی گئ اور بولی بیٹی اس فوجی نے ایسا حملہ کیا کہ میں نے اپنے سارے ہتھیار ان کہ آگے ڈال دیے اتنے میں میری حوس بھی جاگ گئ اور میں نے بھی اپنی پینٹ کا بٹن کھولا اور اپنی گانڈ سے پینٹ کو نیچے کر کہ کہا جان میری چھاؤنی میں بھی اپنے فوجی کو لائیے نا قاری صاحب نے جھٹ سے لن کو امی کی گانڈ سے نکالا اور ایسے ہی میرے اندر ڈال دیا افففف امی اگے بڑھی اور میری شرٹ میں سے ہی میرے پستان کو دبانے لگی امی حوس میں اتنی اندھی ہوچکی تھی کہ انہوں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ بچے کیا کر رہیں باہر تو نہیں اجائیں گیے قاری صاحب اپنے جوبن پہ پہنچ چکے تھے انہوں نے لن کو ہلکے سے باہر نکالا اور وہیں پہ اپنی منی انڈھیل دی اور امی کہ بالوں سے پکڑ کہ کہا کتی میری جان کی گانڈ اچھے سے صاف کرنا میں تیرے بچوں کہ پاس جا رہا ہوں امی نے ہاں میں سر ہلایا اور میں ایسے ہی گانڈ کہ سوراخ پہ لگے منی کو لے کہ امی کہ منہ کی طرف ہوگئ امی نے ایک سیکینڈ نہیں لگایا اور میرے سوراخ پہ اپنی جیب پھیرنے لگی مجھے اتنا مزا آرہا تھا میری شریف ماں میری گانڈ پہ کسی غیر مرد کا لگا گندہ پانی چاٹ رہی تھی میں اپنی گانڈ کو پریشر دے کہ منی باہر کو دکھیل رہی تھی جس سے میرا سوراخ کھل اور بند ہو رہا تھا امی نے اپنی جیب کو فولڈ کیا اور میری گانڈ میں اپنی جیب کو گھسیڑ دیا یہ پہلا چانس تھا جب میری گاند میں لن کہ علاوہ کوئ جییب گئ تھی اور وہ جیب میری ماں کی تھی یہ احساس مجھے اور پاگل کر رہا تھا اب میری گانڈ منی سے صاف تھی لیکن امی کی تھوک سے تر ہوچکی تھی اس دوران میری شرمگاہ پوری بھیگ گئ تھی میں پلٹ گئ اور بولی کتی اب اپنے قاری صاحب کی جان کی شرمگاہ کو بھی چاٹ امی کو اب یہ باتیں کوئ بڑی باتیں نہیں لگتی تھی اور امی نے ویسے ہی اپنا منہ میری چوت پہ جوڑ دیا اور میری شرمگاہ کا پاگلوں کی طرح چاٹنے لگی مجھے بہت لطف آرہا تھا میں نے امی کو بالوں سے پکڑ کی اپنی شرمگاہ پہ دبا رہی تھی اتنے میں میرے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا میں نے امی کی طرف ایک ہنسی سے دیکھا امی اپنی انکھیں کسی پورن سٹار کی طرح اوپر کر کہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں نے امی کہ سر پہ ہاتھ رکھ کہ بولی کتے کی بچی منہ نہ ہٹانا اور میں اپنی ماں کہ منہ میں اسی حالت میں پیشاب کرنے لگی امی کی آنکھیں اگے جتنی کھلی تھی اب اس سے ڈبل کھل چکی تھی امی نے پہلے منہ ہٹانا چاہا لیکن پھر خود میرا پورا پیشاب پی اور تھوڑا پیشاب ان کہ جسم پہ بھی گرا نیچے جھک کہ ان کہ ہونٹوں پہ ایک کس کری اور امی کہنے لگی بیٹی تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا میں ہنس دی اور کچھ نہیں بولی امی کہنے لگی اب میں نہالوں میں پیار سے امی کہ منہ پہ ایک تھپڑ مارا اور بولی نہیں ماں تم ابھی ایسے ہی کپڑے پہنوں اور اس گندگی کا مزا لو اور فرش صاف کر دینا بس امی مجھے بہت کم باتوں پہ اعتراض کرتی تھی اسے معلوم تھا میں نے بحث کی تو الٹا مجھے مار بھی کھانی پڑے گی اور بات تو پھر بھی ماننی پڑنی تو امی نے میرے بتاے ہوے طریقے پہ عمل کیا اور اسی حالت میں کپڑے پہن کہ صاف صفائ کرنے لگی
دوستوں آپ کی راے کا شکریہ آپ سب آگے مجھے آئیڈیا دیں میں فاطمہ اور عمران کو کیسے ایڈ کروں کچھ دوستوں نے کہا کہ عمران کو گے بنا کہ لاوں کیا یہ مناسب ہے آپ سب اس پہ راے دیں اگلے حصے میں سٹوری کو تکمیل کی طرف لے جانا ہے آپ کو جیسا بھی مناسب لگے آپ مشورہ ضرور دینا آپ کی صبا
50 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
The simply outstanding September Carino!!
32K notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
Tumblr media
31 notes · View notes
lunndgand · 2 years
Text
53 notes · View notes