امتحان
” بھائی یہ آپ کیا بول رہے ہیں! آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟“۔ عاطف تو بھائی کی بات سن کر ہی تڑپ اُٹھا تھا ۔
بات تھی ہی کچھہ ایسی کہ اُس کا تڑپنا اتنا بے وجھہ بھی نہیں تھا ۔ عاطف کی فئمیلی میں صرف وہ اور ایک اُس کا بھائی باقر ہی تھے ،اماں ابا عاطف کےکچھہ سال پہلے چل بسے تھے۔ باقر اور عا طف کی عمر میں دس سال کا فرق تھا جس کی وجھہ یہ تھی کے باقر کی پئدائیش کے بعد اُن کی اماں کو کچھہ کمپلیکیشنز ہو گئی تھی ڈاکٹروں نے لمبا وقفہ دینے کا بولا تھا اس لیے باقر کے پیدا ہونے کےدس سال بعد عاطف اس دنیا میں آیا تھا ۔عا طف کی عمر اس وقت 25 تھی جب کے باقر کی 35۔ اماں ابا کے مرنے کے بعد عاطف سب چھوڑ چھاڑ کر باقر کے پاس دوبئی میں ہی آ گیا تھا۔ اماں ابا کی زندگی میں ہی باقر کی شادی اُن کی ایک کزن جس کا نام شمع تھا اور جو باقر کی ہم عمر ہی تھی اُس کے ساتھ کر دی گئی تھی اتفاق یہ تھا کے شمع بھابی کے بھی اماں ابا اب اس دنیا میں نہیں تھے اور اُن کا بہین بھائی بھی کوئی نہیں تھا یعنی اُن تینوں کی کل ملا کر فئیملی بس وہی تھے اور ساتھہ باقر کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا بیٹی بڑی تھی جو سات سال کی تھی اور بیٹا پانچ سال کا تھا۔ باقر کی شادی کو ابھی 9 سال ہو گئے تھے۔ ہوا کچھہ یوں کے ۔
کچھہ دن پہلے ہی ایک معمول کی لڑائی میں باقر نے شمع کو غصے میں آکر طلاق دے دی تھی۔ جب تک باقر سنبھلتا وہ سب کچھ بول چکا تھا اُن کے گھر میں تو مانو سانپ سونگھہ گیا تھا۔ شمع کا اس دنیا میں اُن کے علاوہ کوئی نہیں تھا اس لیے وہ جاتی بھی تو کدھر اور اب مسئلہ باقر کے بچوں کا بھی تھا ۔ باقر کے ساتھہ ساتھہ شمع تو پریشا ن تھی ہی لیکن عاطف بھی کافی پریشان تھا بچوں کو ابھی تک کچھہ پتہ نہیں تھا لیکن گھر کا ماحول دیکھہ کر وہ بھی کافی سہمے ہوئے تھے۔
باقر نے ایک کسی جاننے والے سے مشورہ لیا تھا اور اُس کے مطابق باقر کی شادی اب ٹوٹ چکی تھی اور اب صرف اسی صورت میں شادی واپس ہو سکتی تھی کہ پہلے شمع اپنی عدت پوری کرے اور پھر کسی اور سے شادی کرے اور پھر اُس سے طلاق لے کر واپس عدت پوری کرے اور پھر باقر سے شادی کرے۔اور سب سے ضروری بات کہ دوسرے مرد سے صرف
نکاح کر کے طلاق نہیں لے سکتی بلکے اُن سے جسمانی تعلق چاہے وہ ایک رات کا ہی کیوں نہ ہو بنانا ضروری ہے۔
باقر نے بہت سوچا کے ایسا کون آدمی ہو سکتا ہے جس کو وہ اس کام کے لیے بول سکتا ہے۔
بہت سوچنے کے بعد صرف ایک ہی نام اُس کے ذھن میں آیا تھا اور وہ تھا اُس کا اپنا بھائی عاطف ، جس پر وہ اعتبار بھی کر سکتا تھا اور جو اُس کے اس برے وقت میں کام بھی آسکتا تھا لیکن وہ یہ بات کرنے سے گھبرا رہا تھا کیوں کے اُس کو ریئکشن معلوم تھا۔ اور پھر وہی ہوا عاطف اُس کی بات سنتے ہی بھڑک اُٹھا تھا۔
’’دیکھ میرے بھائی ایک تو ہی تو ہےجس پر میں اعتبار کر سکتا ہوں اگر تم اس برے وقت میں میرا ساتھ نہیں دو گئے تو اور کون دے گا میں مانتا ہوں میری غلطی ہے اور سزا تم سب لوگوں کو مل رہی ہے لیکن میرے بھائی مجھے میری غلطی سد ھارنے کا موقع دے‘‘ ۔ باقر نے عاطف سے منت کرتے ہوئے بولا۔
’’لیکن بھائی سوری آپ میری جان مانگ لو میری جان حاضر ہے لیکن میں یہ نہیں کر سکتا ۔ آپ خود سوچو میں کیسے کر پاؤں گا یہ میری بھابی ہیں ،بہت چھوٹی عمر سے میں اُن کواپنے گھر کا ایک بڑا فرد دیکھتا آیا ہوں‘‘۔ عاطف نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
باقر نے ہاتھ جھوڑ لیا اور بولا۔
’’عاطف میرے ہاتھوں کی طرف دیکھہ ، یار مجھے اور ذلیل ہونے سے بچا لے‘‘۔
عاطف کا دل بھی روتے بھائی کو دیکھ کر بھر آیا اور اُس نے اُس کے ہاتھ پکڑ لیے اور بولا۔
’’بھائی ایسا مت کرو میرے ساتھ اور تم خود سوچو کیا بھابی کے لیے یہ سب ٹھیک ہو گا ؟ وہ کیا یہ سب کر پائے گی‘‘۔
باقر بولا ۔ ’’شمع سے بات کر لی ہے میں نے وہ راضی ہے‘‘۔
عاطف ہاتھ چھوڑ کر بولا ’’پتہ نہیں تم لوگ کیا چاہتے ہو جو دل میں آتا ہے کرو ‘‘اور باہر نکل گیا
باقر شمع کے پاس آیا وہ بچ��ں کے پاس لیٹی ہوئی تھی
ایسا نہیں تھا کے باقر شمع کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن اُس کو غصہ پر کنٹرول نہیں تھا اور اُس دن بھی اُس نے غصے میں یہ سب بول دیا۔ اُس نے شمع کو بتایا کے عاطف مان گیا ہے۔
اگلے کچھ دنوں میں شمع کی عدت پوری ہوتے ہی عاطف کا نکاح شمع کے ساتھ کر دیا گیا۔۔۔
بچے سو رہے تھے کمر ے میں اور سارے ڈرامے کو اُن سے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔
باقر نے وہ پوری رات انگاروں پر بسر کی ۔ صبع کی اذان شروع ہوئی تو شمع کمرے سے باہر آئی باقر جو باہر ہی بیٹھا تھا اُس کی طرف دیکھنے لگا شمع کو اُس پر غصہ تو بہت تھا لیکن وہ اُس کی حالت بھی دیکھ رہی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کے اُسکا اس گھر کےعلاوہ کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ،اس لیے اُس کا ساتھ دے رہی تھی۔وہ باقر کے دیکھنے کا مطلب صاف سمجھ رہی تھی ۔
وہ بولی ۔۔ ’’وہ رات کو جاتے ہی اپنا کمبل لے کر صوفے پر سو گیا تھا ‘‘۔
باقر بولا ۔ ’’ کیا مطلب ؟ میں نے تم کو سب سمجھایا بھی تھا‘‘۔
شمع کو بھی غصہ آ گیا وہ آواز کو دباتے ہوئے بولی ۔ ’’تم نے سمجھہ کیا رکھا ہے مجھے ،تم کیا چاہتے تھے مجھہ سے میں کیا کرتی ؟ وہ میرے سے دس سال چھوٹا ایک بچہ ہے جب سے وہ پیدا ہوا ہے میرے لیے ایک بچہ ہی ہے اور اب پچھلے دس سالوں سے میرے لیے وہ میرے شوہر کا چھوٹا بھائی ہے اور تم چاہتے ہو کے میں پہلی ہی رات ۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔‘‘۔
شمع نے آگے بات اُدھوری چھوڑ دی ۔ باقر بھی اُس کی مشکل سمجھہ گیا تھا پھر دن پر دن گزرتے گے اور کچھہ نہ ہوا باقر عاطف سے یہ بات کھل کے کر نہیں سکتا تھا جو بھی تھا شمع اُس کی بیوی رہی تھی اور عاطف جو اب شمع کا شوہر تھا اُس کا چھوٹا بھائی تھا۔ شمع جس سے وہ کھل کے بات کر سکتا تھا اور جس کو وہ بولتا بھی تھا ہر روز وہ ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔
باقر نے بہت سوچا پھر اُس کو اس مسئلہ کا ایک حل ملا اُس نے فجیرہ ( آمارات کی ایک ریاست کا نام ہے جو ایک ہل سٹیشن ہے) میں ایک ہوٹل روم سات دن کے لیے بک کیا اور شمع کو بولا تم عاطف کو لے کر اُدھر چلی جاؤ وہاں جا کر ماحول بدلے گا تو تم لوگوں کے لیے آسان ہو جائے گا شمع نے جب عاطف سے بات کی تو پہلے تو وہ بدک گیا لیکن آخر کار مان ہی گیا۔ بچوں کو بتایا گیاکہ امی اور چچا کچھہ ضروری کام کے لئے کہیں جا رہے ہیں سات دن کے لیے ۔
وہ لوگ شام کو ہوٹل میں پہنچ گئے ،اپنا سامان روم میں رکھنے کے بعد کھانا کھانے کے لیے باہر نکل آئے۔ رات کو جب وہ ہوٹل پہنچے تو کمرے میں کافی سردی تھی کچھہ تو موسم بھی اچھا تھا اور اُپر سے اے سی بھی چل رہا تھا ۔ اب بیڈ پر کمبل بھی ایک ہی تھا عا طف کپڑے بدل کر بغیر کمبل کے ہی صوفے پر لیٹ گیا شمع بولی ’’سردی ہے ادھر ہی آ جاو ‘‘۔
عاطف کو بھی محسوس ہو چکا تھا کہ کمبل کے بغیر گزارا نہیں وہ اُٹھا اور بیڈ کی ایک سائیڈ پر کمبل کے اندر لیٹ گیا ۔ شمع سوچ رہی تھی کہ اب کیسے وہ کرے اُس کو باقر نے عجیب حالات میں پھنسا دیا تھا ۔ اُس کی سمجھہ میں کچھہ نہیں آ رہا تھا ۔ پھر اُس نے کمرے کی لائیٹ بند کر دی اور دوسری طرف سے وہ بھی کمبل میں گھس گئی پھر کچھہ دیر رکنے کے بعد اُس نے جان بوجھہ کر اپنے جسم کا پچھلا حصہ عاطف کے بیک کے ساتھہ لگا دیا کچھہ دیر تک کو ئی ریئکشن نہ آیا تو اُس نے ایسے جیسے سوتا بندہ کروٹ لیتا ہے ویسے ہی کروٹ لی اور عاطف کو پیچھے سے گلے لگا لیا اب اُس کے جسم کا اگلا حصہ عاطف کے جسم کے پچھلے حصہ سے چپکا ہوا تھا ور اُس کی بازو عاطف کے اُپر تھی ۔
دوسری طرف اب جوبھی تھا ، تھا تو ایک جوان مرد ۔ عاطف جاگ رہا تھا اور اُس کے لیے اب یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا تبھی شمع نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی ۔ ’’کیوں کر رہے ہو ایسا ؟جب تم کو پتہ ہے کے ہم کو یہ کرنا ہی پڑے گا اور کوئی چارہ نہیں ہے ‘‘۔
عاطف نے دوسری طرف منہ کر کے ہی بولا۔ ’’بھا۔۔۔۔۔۔ ‘‘وہ شاید بھابی کہتے کہتے رکا تھا شمع سمجھ گئی وہ بولی ۔ ’’ عاطف اب جب تک ہم ایک دوسرے کے نکاح میں ہیں میں تماری بیوی ہوں اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے ۔ ‘‘
’’لیکن میرے سے نہیں ہو پائے گا یہ سب‘‘۔ عاطف نے جواب دیا۔
’’اچھا تم ایک منٹ لیٹ جاؤ‘‘۔ شمع اُس کو لیٹاتے ہوئے بولی ۔
پھر وہ لیٹ گیا تو شمع نے اُس کے ساتھ لگ کر ایک ہاتھ اُسکے سینے پر رکھا اور ایک ٹانگ اُس کی ٹانگوں پر اور بولی۔
’’تم کیا سمجھتے ہو میرے لیے یہ سب کرنا کیا آسان ہے ! لیکن اب جب حالات نے ہم کو اس چکر میں ڈال دیا ہے تو کیا کر سکتے ہیں؟ ۔ شمع یہ بولی اور عاطف کے گال پر چوم لیا عاطف کے تو مانو کانٹے نکل آئے ہوں ،بیڈ پر ایک دم اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا شمع شرمندگی کے ساتھہ بیٹھ کر رونے لگی اُس کو سمجھہ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے کیوں کے اُس نے اپنی ساری شرم ایک طرف رکھہ کر بڑی ہمت کر کے اپنا قدم بڑایا تھا لیکن اب تو وہ اپنی نظروں میں بھی گر گئ تھی ،عاطف اُس کو ٹھکرا کر چلا گیا تھا۔
وہ ابھی رو ہی رہی تھی کہ کمرے کا دروازا واپس کھلا اور عاطف اندر آیا وہ سیدھا بیڈ کی طرف آیا اور آتے ہی اُس نے شمع کو پکڑا اور لیٹا کر چومنا شروع کر دیا۔
پھر اُس نے شمع کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور شلوار کو کھینچ کر نییچے کر دیا
پھر اپنا پجامہ بھی تھوڑا نیچے کر دیا شمع کو اُس کا لن اپنی چوت پر محسوس ہوا کچھہ بھی تھا دونوں انسان ہی تھے اب اُن کی سانسیں بڑھنے لگی تھی وہ اب دونوں ہی تیار تھے۔ اس لمحے دونوں صرف ایک دوسرے سے ایک چیز چاہتے تھے اور وہ تھی چدائی ۔
عاطف نے اپنا لن پکڑ کر شمع کی چوت پر رگڑا اور شمع کی چوت کافی گیلی ہو چکی تھی عاطف نے لن کو سوراخ پر اندازے سے رکھا اور جھٹکا مارا لن پھسل کے سائیڈ پر ہو گیا کمرے میں اندھیرہ تھا اور ویسے بھی عاطف نے کمبل اُپر لے لیا تھا ۔عاطف نے واپس ایک ٹرائی کی لیکن پھر نکام ہوا وہ کانپ رہا تھا ۔ شمع نے اُس کو روکا پھر اُس نے ہاتھ اندر کر کے اُس کا لن پکڑا اور چوت کے سوراخ پر رکھ دیا ۔ عاطف نے اس بار دھکا مارا تو لن گہرائی میں اترتا چلا گیا شمع کے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی ۔
باقر دونوں بچوں کی پئدائیش کے بعد بہت کم سیکس کرتا تھا اور اب تو با ت یہاں تک آ چکی تھی کے کئی کئی مہینے وہ شمع کو چھوتا تک نہین تھا اور جب کبھی چھوتا تھا تو بھی اُس کے لن میں اب وہ دم نہیں رہا تھا۔
شمع کو عاطف کا لن جوانی کی یاد دلانے لگا جب اُس کی باقر کے ساتھہ نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ عا طف اب دھکے مار رہا تھا اور شمع نے اُس کو اپنے بازو میں گھیرا ہوا تھا روم میں اُن دونوں کی آوازیں اور پچک پچک دھک دھک کی آواز گو نج رہیں تھی شمع نے اپنی ٹانگوں کو اُٹھایا اور اور عاطف کی کمر پر رکھ دیا عاطف اب زور زور سے چدائی کر رہا تھا ۔
شمع نے عاطف کو زور سے جھکڑا اور اُس کے کندھے کو دانتوں سے کاٹ لیا اُس کو جب بھی اُرگیزم ہوتا تھا وہ یا تو ناخن مارتی تھی باقر کو یا کاٹ لیتی تھی لیکن اب تو بہت ہی عرصہ ہو گیا تھا اس بات کو پچھلے دو تین سالوں سے شاید ہی شمع کبھی آرگیزم تک پہنچی تھی۔
جب وہ فارغ ہو چکی تو اُس نے عاطف کو چھوڑا عاطف ابھی بھی لگا ہوا تھا اُس کا لن اب بہت ہی پھسل رہا تھا کیوں کے آرگیزم کے بعد شمع کی چوت میں اور زیادہ پانی آ گیا تھا شمع نے اُس کو روکا اور پھر اُس کو تھوڑا اُپر کر کے اپنی پوری شلوار جو اب صرف ایک ٹانگ پر تھی اُتار دی اور عاطف کا بھی پورا پاجامہ اُتار دیا جس میں عاطف نے اُس کی مدد کی لیکن کمبل کو اُنھوں نے جسموں پر رہنے دیا ویسے بھی کمرے میں فل اندھیرہ تھا ۔
شمع نے اپنی شلوار سے اپنی چوت صاف کی ۔ اور عاطف کو واپس اشارہ کیا عاطف نے ایک بار پھر اپنا لن اُس کی چوت میں گھسا دیا۔ عاطف کوئی اگلے دس پندرہ منٹ تک لگا رہا جس کے دروان شمع ایک بار اور فارغ ہو چکی تھی پھر عاطف نے اپنا پانی شمع کی چوت میں چھوڑنا شروع کر دیا ۔
تھوڑی دیر بعد عاطف ایک طرف کو منہ کر کے لیٹ گیا اُس کو اچھا تو لگا تھا مزا بھی آیا تھا لیکن اُس کو عجیب شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی ۔
دوسری طرف شمع بہت ہی سکون میں تھی اُس کو بہت عرصہ بعد جسمانی خوشی نصیب ہوئی تھی ۔
صبع شمع کی آنکھ کھلی تو عاطف روم میں نہیں تھا اور شمع کے موبائیل کی بیل بج رہی تھی ۔ اُس نے نمبر دیکھا باقر کا فون تھا.. باقر نے اُس سے پوچھا ’’ھوا کچھہ ۔ ؟‘‘
شمع نے کچھہ سوچتے ہو ئے بولی ۔ ’’نہیں آج تو کچھہ نہیں ہوا لیکن فکر نہیں کرو میری بات ہو گئی ہے وہ مان گیا ہے کہ ساتویں دن کر دے گا‘‘ ۔
باقر بولا۔ کیوں ؟ ساتویں دن کیوں ؟؟ ۔
شمع بولی ۔ ’’یہ سب تماری ہی وجہ سے ہو رہا ہے اور یہ سب کرنا ہمارے لیے اتنا آسان نہیں ہے اگر اتنی جلدی ہے تو خود اپنے بھائی کو فون کر بولو کے کر دے ‘‘۔
باقر بولا۔ ’’اچھا چلو چھوڑو لیکن پلیز اب یہ کام کر کے ہی واپس آنا اگر اب نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو گا‘‘۔
شمع بولی ۔ ’’کوشش کر رہی ہوں ناں میں ،تم بے فکر رہو‘‘۔
اُس نے فون بند کر دیا۔
وہ بیڈ سے اُٹھی اور پھر اُس نے کمبل پیچھے کیا اور اپنی شلوار ڈھونڈ کر پہنی ۔ تبھی عاطف اندر آیا ۔ وہ اُس کو دیکھ کر شرما گیا تھا۔
شمع کیوں کے کافی میچوئر تھی اس لئے وہ جلدی سنھبل گئی تھی ۔
وہ بولی ’’کدھر تھے ؟‘‘۔
عاطف بولا ۔ ’’ناشتے کا آرڈر دے کر آیا ہوں‘‘ ۔
شمع بولی۔ ’’باقر کا فون آیا تھا اور میں نے بولا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی کچھہ نہیں ہوا ‘‘۔
عاطف نے سر ہلا دیا شمع خوش ہو گئی یعنی عاطف بھی وہی چاہتا تھا جو وہ چاہتی تھی ۔
اُس کو دکھہ بھی ہوا کہ اُس نے باقر سے جھوٹ بولا لیکن اس سب چکر میں پھنسی بھی تو اُس کی وجھہ سے تھی اور عاطف اب اُس کا شوہر تھا۔ اس لیئے اس کے ساتھ سیکس کرنا کوئی بری بات نہیں تھی وہ اندر سے مطمئن ہو گئی ۔ وہ سوچ رہی تھی اگر جائز طریقے سے وہ اپنے جسم کی آگ کو کچھہ اور دن ٹھنڈا کر سکتی ہے تو مسئلہ کیا ہے۔
دوسرا دن
شمع ایک مکمل گھریلو اور شریف عورت تھی اُس نے آج تک اپنے شوہر سے بے وفائی نہیں کی تھی ، حالانکہ بہت سے مردوں کی طرف سے اُس کو بہت بار اشارہ ملا تھا لیکن اُس نے ہمیشہ اپنے شوہر کو ہی اپنے جسم کا مالک سمجھا تھا اور اپنی ہر چیز کو وہ شوہر کی امانت سمجتھی تھی ۔
اُس نے زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر باقر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کا لن اپنے چوت کےاندر لیا تھا اور وہ بھی اپنے سے دس سال چھوٹے مرد کا ۔ اُس کے لیے یہ تجربہ بہت ہی زبردست تھا اور وہ بہت خوشی تھی ۔ اُس کی جنسی تسکین ایسی کبھی نہیں ہوئی تھی ،جیسی اُس کو کل رات کے ایک جلدی جلدی کے سیکس نے دی تھی ۔اب یہ بات کم از کم اُس نے پکی اپنے دماغ میں طئی کر لی تھی کے اُس کو اپنی زندگی کے اگلے سات دن مزا کرنا ہے اُس کو اپنی زندگی ان سات دنوں میں کھل کر جینا ہے ۔ اور اس میں کچھہ غلط بھی نہیں تھا کیونکہ اب عاطف کوئی نامحرم مرد نہیں تھا بلکہ اُس کا شوہر تھا۔
دوسری طرف عاطف کے لیے اپنی بڑی بھابھی جو کہ اب حالات کی وجھہ سے اُس کی بیوی تھی کے ساتھ یہ سب کرنے سے مزا تو بہت آیا تھا لیکن شرمندگی سی ہو رہی تھی ۔
وہ بھابھی یعنی شمع سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا لیکن جب صبع شمع نے اُس کو بتایا کے شمع نے باقر بھائی کو بول دیا ہے کے ابھی کچھ نہیں ہوا۔ تو اس کو دل میں بہت خوشی ہوئی تھی کیونکہ رات کے بعد وہ بھی چاہتا تھا کے اُس کو شمع کے ساتھ کچھہ اور وقت ملے۔
اُس کی ایک گرل فرینڈ تھی عالیہ جو کہ عاطف کی ہی ہم عمر تھی اور عاطف اُس کو
کئی بار چود چکا تھا ۔ لیکن جو مزا اُس کو رات کے تاریکی میں اور تھوڑے سے وقت کے لیے شمع کو چود کر آیا تھا ایسا مزا کبھی عالیہ کو دن کی روشنی میں چود کر بھی نہیں آیا تھا۔ اس کی وجھہ شاید کچھہ نفسیاتی تھی یا کچھہ اور لیکن وہ رات کا واقعہ اُس کو آج دن میں بھی گرما رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کب رات ہو اور کب وہ دوبارہ شمع کو چودے۔ وہ تو شاید دن میں بھی کرنے سے باز نہ آتا لیکن ایک تو شمع اُس کی سابقہ بڑی بھابھی تھی اور دوسرا شمع ناشتے کے فورا بعد ہی اُس کو لے کر گھومنے آ گئی تھی ۔
عاطف تو پہلے بھی کئی بار فیجرہ آ چکا تھا لکین شمع پہلی بار آئی تھی اس لیے اُس کو
گھومانا تھا ۔ عاطف اُس کو کافی نئی جگہ دیکھا رہا تھا۔
ویسے تو شمع بھی اندر سے بے چین تھی لیکن وہ بھی تھوڑا کنفیوز تھی کیونکہ عاطف اُس کا دیور تھا جو کہ اُس سے کافی چھوٹا بھی تھا اور طلاق کے واقعہ سے پہلے تک وہ ہمشہ اُس کو اپنے چھوٹے بھائی کی نظر سے ہی دیکتھی تھی کبھی سوچا بھی نہیں تھا کے اُس کو زندگی ایسا دن بھی دیکھائے گی کہ وہ اسی کے ساتھ یہ سب کرے گی ۔خیر وہ پورا دن اُن
دونوں نے بہت زیادہ بات چیت نہیں کی بس ادھر اُدھر گھومتے رہے ۔
پھر رات کو ہوٹل واپس جانے سے پہلے اُنہوں نے ایک پاکستانی ریستوران پر کھانا کھایا اور اب چائے کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب اچانک عاطف بولا ۔ ’’بھابھی وہ میں یہ ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے ابھی اتنی بات ہی کی تھی کہ شمع اُس کو ٹوکتی ہوئی بولی ۔ ’’بھابھی مت بولو ، میں تماری بیوی ہوں بھابھی نہیں ‘‘۔
عا طف بولا۔ ’’سوری لیکن آپ پہلے تھیں ،اور اب کچھہ دنوں بعد واپس میری بھابھی ہی بننا ہے اُپ کو ،تو میں عادت کیوں بدلوں‘‘۔ عا طف نے آخری جملہ ایسے افسوس سے بولا تھا کہ شمع بھی چونک گئی پھر شمع بولی ۔ ’’جب واپس بنوں گی تب کی تب دیکھی جائے گی لیکن ابھی تو تماری بیوی ہوں ناں ‘‘۔عا طف بھی چپ کر گیا وہ بات جو وہ بولنے والا تھا وہ تو وہی رہ گئی لیکن دونوں عاطف کی اُس بات کے بارے میں سوچنے لگے کہ"سات دن بعد واپس شمع کو اُس کی بھابھی ہی بننا تھا"۔
شمع کو اب عجیب سی بے چینی ہونے لگی ۔ وہ سوچنے لگی کے اُس نے بہت بُرا کیا ہے اپنی تھوڑی سی جسمانی خوشی کے لیے اُس نے صبع باقر سے جھوٹ بولا اور اگر وہ اب
برداشت نہیں کر پا رہی تو تب کیا ہو گا جب وہ واپس باقر کی بیوی بن جائے گی ۔ اسی پریشانی میں دونوں نے اپنی اپنی چاﻋِ ختم کی اور ہوٹل آگئے ۔ کہاں تو وہ دونوں پورا دن رات کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور اب دونوں مختلف سمتوں کی طرف مونھہ کر کے لیٹے سوچوں میں گم تھے شمع کا دل عجیب سا ہو رہا تھا ایک طرف وہ عاطف کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتی تھی تو دوسری طرف اُس کو باقر یاد آ رہا تھا ۔ وہ یہ سب سوچتے ہی پتہ نہیں کب سو گئی ۔
اُس کی آنکھ کھولی تو اُس نے اپنی کمر پر عاطف کا ہاتھہ پایا جو اُس کی کمر پر آہستہ آہستہ ہل رہا تھا وہ چپ کر کےلیٹی رہی اُس کی جسم میں گرمی آنے
لگی تھی ۔ عاطف نے تھوڑی دیر بعد ہاتھ ہٹا لیا پھر شمع انتطار کرتی رہی کہ عاطف کچھہ کرے لیکن عاطف نے واپس کچھ نہیں کیا ۔ ایک گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گیا شمع کو واپس ننید بھی نہیں آئی ۔ اب جسم کی بھوک آنکھوں کی نیند سے زیادہ تھی۔ لیکن عاطف اُس کی بھوک جگا کر خود پتہ نہیں سو چکا تھا اُس نے سوچا کیوں نہ چیک کروں وہ سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے۔ بولی ،’’عاطف‘‘۔
’’جی کیاہوا ‘‘۔ عاطف نے جواب دیا۔ اس کا مطلب تھا وہ بھی اُسی آگ میں جل رہا تھا جس میں شمع جل رہی تھی۔
’’کیا ہوا نیند نہیں آ رہی؟‘‘۔ شمع نے اُس سے پوچھا۔
’’آپ بھی تو جاگ رہی ہیں! ‘‘۔ عاطف بولا
پھر شمع نے کروٹ لی اور منہ عاطف کی طرف کر لیا۔ پھر بولی ’’ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘۔
عاطف بولا۔ ’’جو سوچ رہا ہوں وہ مجھے گناہ لگتا ہے ‘‘۔
شمع نے ایک لمبی آہ بھری اس کا اندازہ سہی تھا عاطف بھی اُتنا ہی بے چین تھا جتنی وہ تھی، بات سمجھ میں بھی آتی تھی وہ ایک ایسی جگھہ پر تھے جہاں اُن کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا اور سیکس کی بھوک دونوں کے اندر جاگ چکی تھی لیکن دیوار تھی تو صرف اُن کا سابقہ رشتہ ،جو اُن کو سب حدیں پار کرنے سے روک رہا تھا۔
لیکن پھر شمع کا صبر جواب دے گیا اُس نے عاطف کا ہاتھ پکڑا اور اپنی کمر پر رکھ کر اُس کے پاس ہو کر اُس کو اپنے ساتھ لگا لیا ۔عاطف بھی اپنے اندر کی جنگ سے ہار چکا تھا اور اُس نے بھی دیر نہیں لگائی اور شمع کو پکڑ کر اپنے ساتھ دبا لیا۔
عاطف نے اپنے ہونٹوں کو شمع کے ہونٹوں پر رکھ کر شمع کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اندھیرے میں وہ صرف ایک دوسرے کی سانسوں کی آوازیں ہی سن سکتے تھے دیکھنا بہت مشکل تھا کچھہ بھی صاف نظر نہیں آ رہا تھا صرف ایک عکس ہی نظر آ رہا تھا۔
عاطف نے اپنا ایک ہاتھہ شمع کے ممے پر رکھ دیا اُسکے ممے بہت بڑے تھے۔ اُتنے ہی بڑے جتنے ایک سات سال کے بچے کی صحت مند ماں کے ہو سکتے تھے۔ شمع دیکھنے میں کافی خوبصورت تھی گوری چٹی ۔ شادی کے وقت وہ کافی سمارٹ بھی تھی لیکن جیسے جیسے بچے ہوتے گے اورعمر بڑھتی گئی اُس کا وزن بھی برھتا گیا اور اب اُس کا فگر کافی بڑا تھا ۔
وہ 40 کا برا پہنتی تھی اُس کی کمر 36 انچ تھی اور گانڈ 42 انچ کی تھی ۔ ویسے تو کافی مردوں کو بڑی عمر کی موٹی عورتوں میں کشش محسوس ہو تی ہے ۔ لیکن اُس کے چہرے میں اتنی معصومیت اور کشش تھی کے اگر کسی کو موٹی عورت پسند نہیں بھی تھی تو اُس کو بھی شمع ضرور پسند آ جاتی تھی ۔ اُس کا جسم موٹا ضرور تھا لیکن لٹکا ہوا نہیں تھا سخت جسم تھا یعنی وہ موٹی صحت مند ہونے کی وجھہ سے تھی ۔ بیماری کی وجھہ
سے موٹاپا نہیں تھا۔
قد لمبا ہونے کی وجھہ سے وہ زیادہ موٹی لگتی بھی نہیں تھی اُس کا جسم بلکل اداکارہ صائمہ کی طرح کا تھا۔عاطف کو اُس کے ممے کو ہاتھ میں لے کر بہت مزا آیا اور شمع کے لیے
بھی یہ بہت خوش کن احساس تھا ۔ عاطف اُس کے ممے کو دباتا رہا اور اُس کے ہونٹوں کو چوستا اور کاٹتا رہا ۔ کچھ دیر جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ایسی حالت میں رہے تو شمع نے ہاتھ بڑھا کر اپنا ہاتھ عاطف کے لن پر رکھا تو وہ تنا ہوا تھا ۔ عاطف نے سونے کے لیے شلوار پہنی ہوئی تھی۔ شمع نے شلوار کے اُپر سے ہی اُس کا لن ہاتھ میں لیا ۔ کل شاید جوش کی وجھہ سے یا جلد بازی کی وجھہ سے شمع نے اپنے اندر لینے کے باوجود محسوس نہیں کیا تھا لیکن آج ہاتھ میں لینے کے بعد اس کو احساس ہو رہا تھا کے عاطف کا لن کافی بڑا تھا باقر سے ،اور موٹا بھی لگ رہا تھا اُس کے دل میں شدید تمنا ہوئی اُس کا لن دیکھنے کی لیکن نسوانی شرم نے اُس کو روکے رکھا ۔ شمع کی لن پکڑنے والی حرکت نے عاطف کے رگوں میں خون کی رفتار تیز کر دی تھی ۔ وہ اپنی جگھہ سے اُٹھا اور شمع کے اُپر آگیا اُس نے شمع کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کی گردن کو چومتا ہوا اُس کی سینے کی طرف آ گیا۔ پھر اُس نے شمع کے مموں کو کمیض کے اُپر سے ہی چومنا شروع کیا ۔
شمع کو جب اُس کی سانس اور اُس کے ہونٹوں کانرم لمس اپنے مموں پر محسوس ہوا تو اُس کی منہ سے بلکل ہلکی آواز میں ایک سسکاری نکل گئی اور اُس کی سانسوں کی رفتار اور بڑھ گئی۔ سانس تیز ہونے کی وجہ سے اُسکے مموں نے بھی واضع طریقے سے اُپر نیچے ہونا شروع کر دیا۔اب عاطف نے چومتے ہوئے اُس کے پیٹ کی طرف جانا شروع کیا ۔ تب ہی شمع کی ہمت جواب دے گئی ۔ وہ بولی۔’’عاطف شروع کرو پلیز۔ ۔ ۔ ۔‘‘۔
عاطف نے اپنا منہ اُس کے پیٹ سے اُٹھایا اور پھر ہاتھ نیچے کر کے اُس نے شمع کی شلوار اُتار دی شمع نے اپنا جسم اُٹھا کر اُس کا ساتھ دیا تھا۔عاطف کا بہت دل چاہا کے وہ شمع کی کمیض بھی اُتار دے لیکن اُس نے سوچا پتہ نہیں شمع کو برا نہ لگے ۔ اس لیے وہ اپنی خواہش کے باوجود اس کام سے باز رہا ۔ پھر عاطف نے اپنے کپڑے اتار نے شروع کیے ۔ آج اُس نے اپنی شلوار کے ساتھہ ساتھہ اپنی کمیض بھی اُتار دی تھی خود وہ پورا ننگا ہو گیا تھا۔ پھر وہ شمع کے اُپر آگیا۔ شمع نے اُس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیا ۔ عاطف اپنا لن اُس کے چوت کے لبوں پر رگڑ رہا تھا شمع اُس کی ہر رگڑ پر اپنی چوت کا منہ کھولتی تھی اور اُس کے جسم کو اپنے بازوں میں دباتی تھی ۔شمع کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔ شمع کی چوت پانی سے تر تھی اور عاطف کا لن اُس کے پانی میں بھیگ چکا تھا لیکن عاطف اُس کی حالت کا مزا لے رہا تھا ۔ وہ اپنے لن کو بار بار اُس کے چوت کے لبوں پر اور اُس کے
کلیٹ(چھولے) پر رگڑتا تھا لیکن اندر نہیں ڈالتا تھا ۔
’’کیا مار دو گے ۔ کیوں ٹرپا رہے ہو !‘‘۔ شمع کی ہمت جواب دے گئی
’’کیا کروں اُپ بولو گی تو کروں گا ناں !‘‘۔ عاطف بھی مزا لینے کے موڈ میں تھا۔
’’وہی کرو جو کل کیا تھا ‘‘۔ شمع نے سسکاری لیتے یو ئے بولا
’’کل کیا کیاتھا ؟ لیکن مجھے تو یاد نہیں کچھہ بھی!‘‘۔ عاطف اُس کے گال کو چومتے ہوئے بولا۔
’’پلیز عاطف اندر ڈالو‘‘۔ شمع اس بار چلا اُٹھی
عاطف مسکرا پڑا یہی وہ سننا چاہ رہا تھا اُس نے اپنا لن چوت کی منہ پر رکھا اور ایک زور کا دھکا مارا ۔ لن کھڑپ کر کے چوت کی گہرائی میں اُترتا گیا ۔ شمع کے منہ سے ایک لمبی سسکاری نکل گئی ۔ لن سیدھا جا کر اُس کی بچے دانی پر لگا تھا ۔ جس سے اُس کو تھوڑا درد بھی ہوا تھا کیوں کے عاطف نے بہت زور سے ڈالا تھا لیکن سسکاری درد کی نہیں اُس مزے کی تھی جو اُس
کو ملا تھا۔
عاطف نے اب آگے پیچھے ہونا شروع کر دیا اُس کی سپیڈ آج سٹارٹ سے ہی بہت تیز تھی ۔ وہ ٹھک ٹھک اندر باہر کر رہا تھا اور شمع بھی اُس کا پورا ساتھ نیچے سے ہل ہل کر اور چوت کو گھول گھول گھوما کر دے رہی رتھی ۔ عاطف نے آج نوٹ کیا تھا ۔ عالیہ جو کے ایک کنواری اور جوان لڑکی تھی اور شمع میں کیا فرق تھا ۔ سب سے بڑا فرق یہ تھا کے عالیہ چدوا کر مزا لینا چاہتی تھی جب کے شمع اپنے تجربہ کی وجہ سے مرد کو مزا دے کر اُس سے پھر ڈبل مزا لینا جانتی تھی ۔
شمع کی نیچے سے ہلنے کی رفتار بڑھنے لگی اور اُس کی سانسوں نے بھی اور تیز چلنا شروع کر دیا اُس نے اچانک عاطف کے سر کو پکڑا اور اُور اُس کو اپنے ساتھ لگا کر اُس کے کندھے میں اپنے دانٹ گاڑھ دئے عاطف بھی سمجھہ گیا وہ فارغ ہو رہی ہے اُس نے بھی دھکوں کی رفتار اور تیز کر دی ۔
وہ پورا لن باہر کی طرف کھینچتا اور پھر فل رفتار سے اندر ڈالتا شمع کچھ دیر بعد نارمل ہو گئی اُس کو پہلا ارگیزم ہو گیا تھا ۔ اُس نے عاطف کو رُکنے کا کہا ، عاطف اُس کے اُپر ہی لیٹا رہا اُس نے اپنا لن باہر نکال لیا تھا ۔شمع نے تھوڑی دیر بعد اُس کو ایک طرف ہونے کا بولی اور پھر اُس نے اپنی چوت سائیڈ ٹیبل ہر پڑے ایک ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر صاف کی ۔ آج بھی کمرے میں اندھیرا ہی تھا ۔ لیکن آج وہ کل سے تھوڑے ایزی تھے اس لیے کافی اگے پیچھے حرکت کر رہے تھے بلکہ تھوڑی بہت بات چیت بھی کر رہے تھے ۔
شمع نے چوت صاف کر کے بولی۔ ’’ آ جاؤ‘‘۔
عاطف بولا ۔ ’’آپ آلٹا لیٹو‘‘۔
شمع بولی ۔ ’’کیوں پیچھے کرنا ہے؟‘‘۔
عاطف بولا۔ ’’نہیں آگے ہی کروں گا لیکن پیچھے سے‘‘۔
شمع اُلٹا لیٹ گئی ۔ عاطف اُس کے پیچھے آ گیا اُس نے شمع کی ٹانگوں کو کھولا اور پھر اپنا آپ اُن کے درمیان اڈجسٹ کیا اور پھر اپنا لن اُس کی چوت کو ڈھونڈ کر اُس پر رکھا اور جٹھکا مارا لن اندر گھس گیا شمع کے منہ سے سسکاری نکلی اس بار یہ سسکاری درد کی ہی تھی کیوں کے اُلٹا لیٹ کر لن اُس کی چوت کے اگلے حصے سے رگڑ کر گیا تھا اور چوت نے ابھی پانی
نہیں چھوڑا تھا کیوں کے ابھی صاف کی تھی تو اُس کو تھوڑی تکلیف ہوئی تھی ۔
شمع کی گانڈ کیوں کے کافی بڑی اور نرم تھی اور پھیلی ہوئی تھی عاطف کو بہت اچھی محسوس ہو رہی تھی وہ دیکھہ تو نہیں پا رہا تھا واضع لیکن محسوس کر رہا تھا اُس نے اپنے لن اُس کی چوت میں تھوڑی دیر رُوک دیا اور اُس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔پھر اُس نے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کی گانڈ کی لائن میں اپنی انگلی پھیری۔ شمع کو اُس کی اس حرکت نے بہت مزا دیا اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تکیے کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔ اُس کی چوت پھر سے گیلی ہو گئی تھی ۔
عاطف نے پھر اُس کی گانڈ سے ہاتھ اُٹھا اور بیڈ پر شمع کے دونوں طرف رکھ کر دھکے مارنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد شمع نے ٹانگوں کو اور کھول دیا ۔اب وہ ایسے لیٹی تھی جس سے عاطف بہت ہی آسانی سے آگے پیچھے ہو سکتا تھا۔ اُس نے ایک ہاتھ سے شمع کے بالوں کو پکڑا اور اُس کے سر کو ایک طرف کیا اب اُس کے منہ کا ایک طرف یعنی ایک گال عاطف کے منہ کے بلکل نیچے تھا عاطف نے اُس کے کان کو منہ میں لیا اور چوما اور ہلکا ہلکا کاٹا ۔
شمع ایک بار پھر ارگیزم کی طرف بڑھ رہی تھی اُس نے تکیے کو بری طرح سے اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہو تھا اور سانسوں کی آواز بہت تیز نکل رہی تھی ۔ عاطف نے اپنی رفتار اور تیز کر دی وہ بھی انزال کے قریب ہی تھا ۔اُس نے شمع کے کان میں کہا۔ ’’میں چھوٹنے والا ہوں‘‘۔
شمع کے منہ سے ٹوٹے الفاط نکلے اُس کی سانس اتنی تیز تھی کے عاطف اُس کے الفاط تو نہ سمجھہ سکا لیکن وہ بات سمجھہ گیا ۔ شمع بولی تھی ،’’چھوٹ جاؤ میں بھی قریب ہی ہوں‘‘۔
عاطف اب بہت زیادہ تیز ہو گیا اُس نے دونوں ہاتھوں کو واپس بیڈ پر رکھا اور فل رفتار سے اندر باہر کر رہا تھا اچانک شمع نے اپنی گانڈ کو اسیے اُپر کو اُٹھایا جیسے اگر کسی کو آگے کی طرف کو کچھ مارا جائے تو وہ پیچھے کو ہوتا ہے۔ شمع کے اس انداز سے اور شمع کی چوت نے جسیے عاطف کے لن کو جکڑا تھا اُس سے عاطف کو اندازہ ہو گیا تھا کے شمع چھوٹ گئی تھی ۔
شمع کے چھوٹنے کے ساتھ ہی وہ بھی اپنا پانی اُس کی چوت میں پھینکنے لگا۔ پھر وہ اُس کی بیک پر اُس کے اُپر ہی لیٹ گیا دونوں ہی بہت لمبے سانس لے رہے تھے۔
آپ کا ارگیزم بہت ظالم ہوتا ہے۔ عاطف نے تھوڑی دیر بعد بولا۔
شمع کچھہ بولی نہیں صرف شرمندہ سی ہو گئی ۔ عاطف کو اُس کا ارگیزم یعنی انزال پر پہنچنے پر جو ردعمل اُسکی طرف سے آتا تھا واقعہ ہی دلچسپ لگا تھا اُس نے کل اور آج پہلی بار اُس کے کندھے کو جس طرھ کاٹا تھا جس وقت وہ کاٹتی تھی اُس وقت تو عاطف کو بھی محسوس نہیں ہو تا تھا لیکن بعد میں پتہ چلتا تھا اور پھر آج دوسری بار میں شمع نے جس طرح سے گانڈ آُٹھائی تھی اور جس طرح اُس نے اپنے جسم کو حرکت دی تھی ایسا لگ رہا تھا جسیے اُس کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ عاطف جان گیا تھا کے شمع بہت ہی گرم عورت تھی ۔ اُس نے کافی دفعہ سیکس کیا تھا عالیہ کے ساتھہ اور اُس سے پہلے بھی کئی بار کیا تھا لیکن شمع جیسی گرم عورت نہیں ملی تھی ۔ یا شاید پہلے کبھی کوئی عورت ملی ہی نہیں تھی کیوں کے وہ سب لڑکیاں ہی تھیں شاید یہی فرق تھا ایک شادی شدہ 35 سال کی عورت کا اور ایک کنوری 23،24 سال کی لڑکی کا۔
’’بھائی بہت خوش قسمت ہے کے آپ اُن کو ملیں‘‘۔ عاطف کچھ دیر بعد بولا۔
’’لیکن اس حساب سے تو تم ابھی خوش قسمت ہو کے میں تماری بیوی ہوں اور
ابھی تمارے نیچھے بھی ہوں‘‘۔ شمع نے ہنس کر جواب دیا تو عاطف بھی ہنس پڑا اور پھر شمع کے اُپر سے اُتر کر ایک طرف لیٹ گیا۔
تیسرا دن
عاطف کی آنکھ کھلی تو باہر سے روشنی اندر آرہی تھی دن نکل چکا تھا ۔ شمع ابھی تک سو رہی تھی عاطف نے اُس کو غور سے دیکھ اُس کو شمع پر بہت پیار آیا وہ بڑے مطمئن انداز میں سو رہی تھی ۔
عاطف اُٹھا اور واش روم میں چلا گیا ۔ ہاتھ منہ دوھونے کے بعد جب وہ واش روم سے باہر آیا تو اُس کی نظر بیڈ پر پڑی ۔ شمع ابھی تک سو رہی تھی لیکن اُس نے اپنا رُخ بدلا ہوا تھا اُسکی ٹانگوں پر سے کمبل بھی ہٹا ہوا تھا اُس کی سڈول رانیں ننگی تھی اُس کی ٹانگوں پر بال نام کی کوئی چیز نہیں تھی بلکل صاف گوری ٹانگیں تھیں عاطف کا لن اُس کی ٹانگوں کو دیکھ کر ہی کھڑا ہو گیا۔عاطف نے پہلی بار روشنی میں شمع کی رانوں اور ٹانگوں کو ننگا دیکھا تھا ۔ وہ بہت خوبصورت تھی عاطف کے دل میں آیا کے کیوں نے اُس کی گانڈ سے کمبل ہٹا کر اُس کو بھی دیکھا جائے لیکن پھر وہ اپنی اس سوچ پر خود ہی شرمندہ ہو گیا جب اُس کو یاد آیا کہ شمع کون ہے اور اُس کا اُسے کیا رشتہ تھا۔
عاطف نے اپنے کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔جب وہ ناشتے کا آرڈر دے کر واپس آیا تو شمع بیڈ پر نہیں تھی اور واش روم میں پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی اس کا مطلب وہ نہا رہی تھی ، خیر اُن دونوں نے کچھ دیر میں ناشتہ کیا اور حسب معمول گھومنے کے لیے نکل گے لیکن کل کی نسبت آج اُن کے درمیان کافی باتیں ہو رہی تھیں۔
پورا دن وہ مختلف جہگوں پر گھونے پھرنے کے بعد واپس ہوٹل آ گے رات کے دس بج رہے تھے اور آج اُن دونوں میں سے کوئی بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے کچھ ہی دیر میں وہ کپڑے بدل کر بتی بجا کر ایک دوسر ے کی بانہوں میں تھے۔
وہ ایک دوسرے کے منہ میں اپنا منہ ڈال کر ایک دوسرے کی زبانوں کو اور ہونٹوں کو چوس رہے تھے ۔ عاطف اپنا ہاتھ اُس کے جسم پر گھوما رہا تھا اور اُس کی گانڈ سے لے کر اُس کے بیکنیک تک پھیر رہا تھا ۔ شمع نے بھی اپنے بازو اُس کے گرد جکڑے ہوئے تھے اور ایک ہاتھ عاطف کے سر کے پیچھے اُس کے بالوں میں ڈالے اُس کے بالوں میں گھوما رہی تھی ۔
عاطف نے اپنے ہاتھ کو شمع کی کمیض کے اندر ڈالا اور اُس کی ننگی کمر پر پھیرنے لگا شمع کا جسم بہت نرم ملائم تھا ۔ عاطف اُس کی کمر پر ہاتھ کو اپر لے گیا اُس نے پہلی بار شمع کے ننگے جسم کو چھوا تھا اُس کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ وہ اپنے ہاتھہ کے ذریعے محسوس کر رہا تھا کے شمع کا جسم کیسا ہے۔
اُس نے پھر اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لایا اور شمع کی شلوار میں گھسانے لگا شمع کی شلوار ناڑے والی تھی اس لیے اُس کو ہاتھہ اندر نہیں جا رہا تھا۔اُسی وقت شمع نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کی طرف کیا اور اپنا ناڑا کھول دیا اُس کی شلوار ڈھیلی ہو گئی اور عاطف کا ہاتھ اندر گھس گیا۔عاطف کو شمع کی یہ حرکت کافی اچھی لگی اُس کو شمع کا یوں ساتھ دینا
بھی بہت اچھا لگا تھا ۔ وہ سوچنے لگا کے عالیہ کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے جب وہ کچھ کرنے لگتا تھا عالیہ کروا تو لیتی تھی لیکن پہلے ہزار نخرے کرتی تھی، پھر جا کر مانتی تھی اور زیادہ تر کام عاطف کو خود ہی کرنے پڑتے تھے لیکن شمع اُس کے ہر کام میں اُس کا ساتھ دیتی تھی۔عاطف نے اپنا ہاتھ شمع کی گانڈ پر شلوار کے اندر سے رکھ دیا ۔ شمع کی گانڈ بہت بڑی اور نرم تھی عاطف اُس کے بڑے بڑے چوھتڑوں کو ہاتھ سے دبانے لگا۔
شمع کی کسنگ اور سانسوں میں تیزی آنے لگی تھی۔عاطف نے پھر اپنی ایک انگلی شمع کی گانڈ کی لکیر میں ڈال دی اور اُس کو محسوس کرنے لگا۔
جب عاطف کی انگلی شمع کے گانڈ کے سوراخ پر لگی تو عاطف نے محسوس کیا کے شمع کے گانڈ کا سوراخ کافی بڑا تھا اور اندر کی طرف تھا یعنی کافی گہرا تھا۔
عاطف اپنی انگلی کو اُس کے سوراخ پر پھیرنے لگا۔ شمع نے عاطف کے سر کو مضبوطی سے تھام لیا تھا ۔ جس سے عاطف کو اندازا ہو گیا تھا کے شمع کو اُس کی انگلی اپنی گانڈ پراچھی لگی تھی ۔عاطف اپنی انگلی کو اُس کی گانڈ کے سوراخ کے گرد گھماتا رہا اور شمع کی سانسوں سے اُس کی بےچینی کا اندازہ ہو رہا تھا وہ اُس کا منہ تو عاطف کے منہ کے ساتھ جڑا ہوا تھا لیکن اُس کی ناک سے نکلنے والی تیز سانسوں کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔
عاطف نے اپنا منہ اُس کے منہ سے ہٹا لیا شمع نے لمبی لمبی سانسیں لینا شروع کر دیں عاطف کے لئے شمع کا یہ ریئکشن کچھہ عجیب تھا ، اُس کو یہ تو معلوم تھا کہ کچھہ عورتوں کو چوت سے زیادہ گانڈ میں مزا آتا یے لیکن ایسے صرف عاطف کی ایک انگلی سے شمع کی بے چین ہو جانا سچ میں عجیب تھا ۔
عاطف نے اپنا منہ شمع کے کان کے قریب لے جاکر بولا ۔ ’’ کیا ہوا اچھا لگ رہا ؟ ‘‘۔
شمع نے اپنی تیز سانسوں کو سھنبالتے ہوئے بولی۔ ’’ہاں‘‘۔
عاطف نے کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
’’ آپ اُلٹا لیٹ جاو‘‘۔
شمع نے اپنی رُخ بدلا اور وہ اُلٹاہو کر لیٹ گئی ۔ عاطف اپنی جگہ سے اُٹھا اُس نے کمبل کو ایک طرف کر دیا اور پھر وہ شمع کی ٹانگوں کے درمیان میں آ کر بیٹھ گیا۔
اُس نے شمع کی شلوار کو اُس کی گانڈ سے نیچے کر دیا اور شمع کی کمیض کو اُپر کر دیا باہر بلکنی کی بتی جل رہی تھی عاطف کو بلکل صاف تو نہیں نظر آ رہا تھا لیکن اُس کی روشنی میں وہ کچھ کچھ دیکھ سکتا تھا۔ شمع کی بڑی اُپر کو اُٹھی ہوئی گانڈ عاطف کے سامنے تھی اُس نے اپناہاتھ اس پر رکھا اور اُس کے ایک چوھتڑ کو دبانے لگا پھر اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ
شمع کے دوسرے چوھتڑ پر رکھ دیا وہ اپنی موٹھیوں میں اُن کو دبا رہا تھا۔ شمع تکیے پر اپنا منہ ایک طرف کو رکھ کر لیٹی تھی ۔
عاطف نے ایک ہاتھ کو ہٹا کر ایک ہلکا سا تھپڑ شمع کے ہ�� پر مارا شمع کے منہ سے سسکاری نکل گئی عاطف اب تھوڑی دیر اُس کے دبانے کے بعد ایک تھپڑ مارتا شمع ہر ہر تھپڑ پر بے چینی سے سسکارتی تھی ۔
عاطف کو شمع کا حساس پوائنٹ مل گیا تھا ۔ عاطف نے کہیں پڑھا تھا کے ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت اُس کے جسم میں ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جس پر چھونے سے اُس کو جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ شمع کی وہ جگہ اُس کی گانڈ تھی۔
چوھتٹر کیوں کے جسم کا سخت حصہ ہیں انسان اُن کے سہارے بیٹھتا ہے اور وہ کافی سخت ہوتے ہیں اس لیے اُن پر چھونے سے زیادہ مارنا اثر انداز ہوتا ہے ۔
عاطف اُن کو کافی دیر تک ایسے ہی تھپڑ مارتا رہا اور موٹھیوں میں دباتا رہا پھر اُس نے اُس کے دونوں چوھتڑوں کے ہاتھوں کی مدد سے کھولا اور اُس کی گانڈ کا سوراخ سامنے کیا اُس کو نظر نہیں آیا لیکن اُس نے انگھوٹے کی مدد سے چھو کر پتہ کیا کے سوراخ کدھر ہے۔
عاطف نے اُس کے سوراخ پر تھوکا اور پھر اپنے ایک ہاتھ کی انگلی اُس نے سوراخ پر رکھی اور دبا دی انگلی تھوک کو ساتھ لیتے ہوئے گانڈ کے سوراخ میں گھس گئی شمع کی گانڈ کا سوراخ کافی بڑا اور کھلا تھا ۔انگلی آسانی سے اندر گھس گئی تھی اور جیسے ہی انگلی اندر گئی شمع کے منہ سے ایک سسکاری نکلی ۔اُس نے اپنے ہاتھوں میں تکیے ہو بھینچ لیا تھا۔
عاطف تھوری دیر تک انگلی کو اندر باہر کرتا رہا شمع کی سانسوں کی آواز پورے کمرے میں گھونج رہی تھی ،پھر عاطف اُٹھا اُس نے اپنا پاجامہ اُتارا اور واپس شمع کے اُپر آگیا ۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کو شمع کے اطراف میں بیڈ پر رکھا اور اپنا لن شمع کی گانڈ کے اُپر رکھ دیا ۔
پھر وہ ایسے ہی بغیر اندر ڈالے شمع پر لیٹ گیا اور ہلنے لگا اُس نے ایک ہاتھ سے شمع کی گردن سے بالوں کو ہٹایا اور اُس کی گردن پر چومنے لگا ۔
شمع نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھا کر پیچھے سے اُپر کیا اور عاطف کی کمر کو تھام لیا ۔
اچانک شمع نے زور زور سے سانسیں لینا شروع کر دی اور اُس نے اپنے ہاتھوں سے عاطف کی کمر کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اُس کے منہ سے اُونچی آواز میں سسکاریاں نکلنے لگیں وہ چھوٹ رہی تھی وہ عاطف کے نیچیے ایسے تڑپنے لگی جیسے کوئی مچھلی پانی کے باہر تڑپتی ہے پھر کچھ دیر بعد وہ رُک گئی اُس کی سانسیں اب بھی تیز تھیں۔
عاطف اُس کے اُپر سے ایک طرف گر گیا۔ شمع کچھ دیر تک ایسے ہی پڑی رہی پھر جب تھوڑی سانس بحال ہوئی تو اُس نے اپنا رُخ بدل کر عاطف کی طرف کیا اور اپنے ہونٹ عاطف کے
ہو نٹوں پر رکھ دئیے۔
ایک لمبی کس کرنے کے بعد اُس نے اپنے ہونٹ ہٹائے اور بولی ۔ ’’تم نے اندر کیوں نہیں ڈالا ؟‘‘۔
عاطف بولا۔ ’’میں نے سنا ہے پیچھے اندر کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے میں نے
جب دیکھا کے آپ کا حساس پوئینٹ اُپ کے پیچھے ہے تو میں نے اندر ڈالے
بغیر ہی یہ سب کیا ‘‘۔
شمع بولی۔
’’باقر نے کافی ریسرچ کی تھی وہ تو بولتا ہے نکاح نہیں ٹوٹتا ۔ ہاں بیوی کا رضامند ہونا
ضروری ہے‘‘۔
عاطف بولا۔
’’پتہ نہیں میں نے تو یہی سنا ہے‘‘،
شمع بولی ۔
’’تم نے اندر نہیں ڈالا لیکن مجھے بہت مزا دیا ۔ شکریہ‘‘۔
پھر وہ کچھ دیر رُک کر بولی ۔
’’اب میری باری ۔ اب میں تم کو مزا دوں گی‘‘۔
پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور عاطف کے اُپر آکر بیٹھ گئی اُس نے عاطف
کے لن کو جو ابھی بھی فل تنا ہوا تھا ہاتھ میں لیا اور اپنی چوت اُس پر رکھ
کر اندر لے لیا ۔
پھر واقع ہی جیسے اُس نے گھما گھما کر اور جس جس انداز سے اُپر نیچے
ہو کر عاطف کو مزا دیا عاطف نے زندگی میں کبھی سکس کا اتنا مزا نہیں لیا تھا ۔
چوتھا دن
شمع کی آنکھ کھلی تو ہر روز کی طرح عاطف کمرے میں نہیں تھا۔ شمع حیران تھی کے اتنی جوان عمر میں بھی وہ لڑکا ہو کر اُس سے پہلے کیسے اُٹھ جاتا تھا ہر روز ۔ اور رات کو تو وہ کافی دیر سے سوئے تھے رات کو پہلی بار اُنہوں نے ایک سے زیادہ بار سکس کیا تھا۔
شمع اُٹھی اور واش روم میں چلی گئ۔پھر جب وہ واش روم سے فارغ ہو کر واپس آئی تو عاطف کمرے میں آچکا تھا۔
’’گھوم آئے ۔ صبع صبع کیا کوئی بہت خوبصورت لڑکیاں مل جاتیں ہیں جو ہر روز نکل جاتے ہو صبع صبع ہی‘‘۔ شمع نے مسکراتے ہوئے اُس سے پوچھا
عاطف بھی اُس کی بات سن کر مسکرا پڑا پھر بولا۔ ’’جب آپ کمرے میں ہو تو مجھے باہر خوبصورتی تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
شمع کو اُس کا یوں فلرٹ کرنا اچھا لگا۔
’’اگر میرے اندر تم کو خوبصورتی نظر آئے تو تم مجھے یوں اکیلا سوتا ہوا
چھوڑ کر کیوں چلے جائو‘‘۔ شمع نے بھی اُس ترنگ میں جواب دیا
شمع بات کرتے کرتے بلکنی میں نکل آئی تھی اور عاطف بھی چلتے ہوئے
اُس کے پیچھے پیچھے بلکنی میں آگیا تھا ۔شمع بلکنی میں باہر کی طرف لگے
لوہے جنگلے پر بازو رکھ کر کھڑی تھی عاطف نے اُس کو پیچھے سے دیکھا
اُس نے کالے رنگ کی شلوار کمیض پہنی تھی جو کے بہت ٹائیٹ تھی اُس کی
گانڈ بہت واضع نطر آ رہی تھی اور اُبھر کر باہر کو نکلی ہوئی تھی ۔ شلوار اُس کی گانڈ کے ساتھ چپکی نظر آ رہی تھی کیونکہ کے شلوار اُدھر سے بلیٹ والی تھی اور کمیض بڑے چاک والی تھی ۔
عاطف سے رہا نہیں گیا اُس نے شمع کو پیچھے سے اپنے ساتھ لگا لیا اُس نے اپنے بازو شمع کے گرد لپیٹا دیئے اور اُس کی پشت سے چپک گیا۔
پھر بولا۔
’’ آپ کے سامنے لڑکیاں کیا چیز ہیں دل تو میرا بھی نہیں کرتا آپ کو
چھوڑنے کا لکین مجبوری ہے۔دل کو سمجھا لیتا ہوں‘‘۔
شمع نے اپنے پیٹ پر رکھے اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور
بولی۔
’’خیر ہے آج تو صبع صبع بہت رومنٹک ہو رہے ہو‘‘۔
’’ آپ بہت خوبصورت ہو قسم سے‘‘۔ عاطف نے آہستہ آواز میں کہا
’’ تم کو کیسے پتا ؟ تم نے تو میرا حسن کبھی دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی !‘‘۔
شمع نے اُس کو مسکراتے ہوئے بولا
عاطف اُس کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا لکین اس سے پہلے کے وہ کوئی
جواب دیتا دروازے پر دستک ہوئی ۔
عاطف نے شمع کو چھوڑا اور جا کر دروازہ کھولا باہر روم سروس بوائے تھا
ناشتہ لے کر آیا تھا ۔ پھر کچھ دیر میں اُنہوں نے ناشتہ وغیرہ کیا ۔
ناشتے سے فارغ ہو کر عاطف بولا۔
’’ آج کیا ارادہ ہے کدھر جانا ہے آج ‘‘۔
شمع بولی
’’ آج کہیں نہیں جانا ہے آج میں کچھ تھکی ہوئی ہوں آج کمرے میں ہی رہتے ہیں ‘‘
عاطف خود بھی کہیں نہیں جانا چاہ رہا تھا ۔ وہ دونوں ٹی وی دیکھنے لگے
تھوڑی دیر بعد شمع بولی ۔
’’تمھاری کوئی گرل فرینڈ ہے؟‘‘۔
عاطف بولا
کیوں آپ کیوں پوچھ رہی ہو ؟۔
شمع بولی
’’ویسے ہی جنرل انفارمیشن کے لیے۔ تم خوبصورت ہو جوان ہو، زبردست
پرسنلٹی کے مالک ہو۔ اچھی انکم ہے تماری ایسے لڑکوں پر تو لڑکیاں مرتی
ہیں ‘‘۔
عاطف مسکرا کر بولا۔
تعریف کا شکریہ ۔ ’’ ہاں ایک لڑکی ہے تو سہی‘‘۔
شمع فورا اس کی طرف منہ کر کے بولی۔
کون ہے وہ ؟ ، کیا میں اُس کو جانتی ہوں ؟ ۔
عاطف بولا
’’ نہیں آپ اُس کو کبھی نہیں ملی میرے آفس میں کام کرتی ہے‘‘۔
شمع سر ہلا کر بولی۔
’’ اچھا ! کیسی ہے ؟ خوبصورت ہے ؟؟ ۔
عاطف بولا۔
ہاں خوبصورت تو ہے
شمع کچھ دیر کے لیے چپ ہو گئی پھر نظریں نیچی کر کے بولی
’’وہ جوان ہو گی تمھاری ہی عمر کی ہوگی تم کو اچھی تو لگے گی ہی ناں ‘‘۔
عاطف اب اتنا بے وقوف نہیں تھا کے وہ شمع کے الفاظ کا مطلب سمجھ نہیں
پاتا۔
عاطف نے شمع کو اپنے پاس کیا اور پھر اُس کے ماتھے پر چوما اور بولا
’’ آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں ہے وہ ، بلکہ اس دنیا میں آپ سے زیادہ
خوبصورت کوئی اور عورت یا لڑکی نہیں ہے‘‘ ۔
شمع نے اُس کے لہجے میں سنجدگی محسوس کی تھی وہ دل سے بول رہا تھا
شمع خوش ہو گئی عورت کو ویسے بھی تعریف ہمشہ ہی اچھی لگتی ہے چاہے وہ جھوٹی ہو یا سچی ۔
شمع اُس کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے مصنوعی غصہ سے بولی
’’مکھن مت لگاو ‘‘۔
عاطف نے اُس کو اور بھی قریب کیا اور پھر اُس کو تھوڑا اُٹھایا اور اپنی
گود میں بیٹھا لیا شمع کی نرم نرم گانڈ اپنی گود میں اُس کو بہت اچھی لگی ۔ اُس نے شمع کے پیروں کو زمین سے اُٹھا کر صوفے پر رکھا اور شمع کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ شمع نے بھی اپنے بازو اُس کے کندھوں کے گرد لپیٹ دئیے۔
عاطف بولا۔
’’مکھن نہیں لگا رہا سچ بول رہا ہوں ۔ آپ کی قسم‘‘۔
شمع نے اُس کے سینے پر سر رکھ لیا اور بولی
’’یہ تم مجھے آپ آپ کیوں بولتے ہو۔ میرا نام لیا کرو میں تماری بیوی ہوں ،ماں نہیں ‘‘۔
عاطف نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
’’میرا نام لینا کیا آپ کو اچھا لگے گا ‘‘۔
وہ بولنا تو چاہ رہا تھا کے آپ میری بھابھی تھی اور کچھ دنوں بعد واپس میری بھابھی ہی بن جاو گی اس لیے نام نہیں لیتا لکین پھر اُس نے یہ بات نہیں بولی کیونکہ وہ شمع کی اتنےاچھے موڈ کو خراب نہین کرنا چاہتا تھا یہ سب یاد دلا کر۔
شمع بولی ۔
’’ہاں مجھے اچھا لگے گا اگر تم میرا نام لو گے تو۔ اور تم نے پھر آپ کہا بند کرو یہ آپ آپ کہنا ‘‘۔
عاطف لڑکھڑاتی آواز میں بولا۔
’’اچھا شمع جی ۔ اب نہیں بولو گا آپ‘‘۔
’’یہ تماری آواز کو کیا ہوا ؟ ‘‘۔ شمع نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
’’وہ پہلئ بار آپ کا نام لیتے ہوئے زبان لڑکھڑا گئی‘‘۔ عاطف بولا
شمع چلا اُٹھی
’’تم نے پھر آپ بولا ‘‘۔
عاطف کو سچ میں بہت مشکل پیش آرہی تھی اُس کا نام لیتے ہوئے اور تم بولتے ہوئے کیوں کے وہ شمع کو بچپن سے ہی آپ کر کے ہی مخاظب کرتا تھا شمع پہلے اُس کی بڑی کزن تھی اور بعد میں اُس کی بھابھی بن گئی اور پچھلے کئی سالوں میں تو وہ ہمشہ سے ہی اُس کے گھر میں ایک بڑے فرد کی طرح رہی تھی ۔
عاطف بولا ۔
’’سوری بابا اب کوشش کرو گا تم بولنے کی ‘‘۔
پھر بولنے کے ساتھ ساتھ ہی عاطف اپنا ایک ہاتھ شمع کی ٹانگوں کے نیچے ڈالا اور ایک ہاتھ اُس کی کمر کے گرد اور اُس کو اُٹھا کر صوفے سے بیڈ پر لے آیا۔ اُس نے شمع کو بیڈ پر لیٹایا۔اور بولا ۔’’اگر تمھاری اجازت ہو تو میں ابھی ایک بار کر لوں‘‘۔
اُس نے جس طرح پوچھا تھا شمع کو بہت شرم بھی آئی لیکن اُس کی ہنسی بھی چھوٹ گئی ۔ وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے کوئی ٹیچیر سے واش روم جانے کا پوچھ رہا ہو۔
عاطف نے مسکراتا ہوا اُس کے پاس لیٹ گیا۔پھر اُس کو اپنی بانہوں میں لیتا ہوا بولا۔
’’تم نے اجازت نہیں دی!‘‘
شمع اُس کے ساتھ لپٹتے ہوئے بولی۔
’’ کس بات کی اجازت چاہیے تم کو‘‘۔
عاطف بولا
’’سکس کرنا چاہتا ہوں تمارے ساتھہ‘‘۔
شمع نے بھی مزا لیتے ہوئے بولی ۔ ’’وہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘
عاطف بولا ۔ ’’جب کروں گا پتہ چل جائے گا ‘‘۔
شمع بولی ۔ ’’تم رات کو تھکے نہیں کتنی بار تو کیا تھا ‘‘۔
’’مرد کبھی تھکتا نہیں جانِ من‘‘۔
شمع ہنس پڑی اُس کو عاطف کے منہ سے جانِ من سن کر ہنسی آگئی تھی
پھر وہ بولی ۔ ’’ابھی کر لو گے تو رات کو کیا کرو گے؟‘‘۔
عاطف بولا
’’رات کو بھی کرو گا میرا بس چلے تو میں چوبیس گھنٹے تمارے ساتھ کرتا رہوں‘‘۔
شمع بولی ۔ ’’مارنے کا ارادہ ہے کیا ؟‘‘
عاطف بولا ۔ ’’جان ِمن سکس کرنے سے تم مرو گی نہیں ۔
شمع اپنی ٹانگ کو اُس کی ٹانگوں پر رکھ کر بولی۔
’’تو جانِ من پھر میری اجازت کی کیا ضررورت ہے تم کو میں تو پہلے ہی تین بار قبول ہے قبول ہے بول کر اپنی ہر چیز تمارے نام کر چکی ہوں۔ تم جب چاہے جیسے چاہے استمعال کرو ‘‘۔
عاطف نے اپنا ہاتھ اُس کی کمر پر رکھ دیا اور اُس کے جسم پر پھیرنے لگا اور اپنے ہونٹ اُس نے شمع کے ہونٹوں پر رکھ دئیے ۔
عاطف آج شمع کے جسم کا ایک ایک حصہ دیکھنا چاہتا تھا وہ دن کی روشنی کا جو کمرے میں آکر پورا کمرا روشن کر رہی تھی اُس کا فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔ اُس نے سوچ لیا تھا کے آج ہمت کر کے شمع کی کمیض بھی اُتار دینی ہے۔
عاطف کافی دہر تک باتوں کے ذریعے شمع کو گرم کر چکا تھا شمع اب بلکل تیار تھی۔
عاطف نے اپنا ہاتھ شمع کی چوت پر رکھا تو چوت والی جگہ سے شلوار کافی گیلی تھی عاطف اُس کی چوت کو شلوار کے اُپر سے ہی مسلنے لگا شمع عاطف کی زبان کو منہ میں لے کر چوس رہی تھی ۔ شمع نے اپنا ایک ہاتھ عاطف کے پاجامہ کے اُپر سے اُس کے لن پر رکھ دیا
اس نے اُس کے لن کو پکڑا اور ہاتھ میں لے کر دبانے لگی ۔ عاطف پیچھے ہٹا اور اپنی شرٹ آُتار دی اور واپس شمع کے ساتھ لگ گیا ۔ شمع اب اپنا ہاتھ اُس کئ ننگی کمر پر پھیرنے لگی عاطف اُس کے ہونٹوں کو چومنے لگا اور اپنا ہاتھ واپس اُس کی چوت پر رکھ دیا۔پھر عاطف نے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں سے الگ کیے اور بولا۔ ’’ آپ بھی اپنی کمیض آُتار دو‘‘۔
شمع اپنی جگہ سے بیغر کچھ بولے اُٹھی اور اُس نے اپنے بازو اُپر اُٹھا دیئیے عاطف بھی اُٹھا اور اُس نے شمع کی کمیض کو پکڑا اور اُپر کی طرف اُتار دیا شمع اب صرف اپنے کالے برئیزر میں تھی وہ واپس لیٹ گئی ۔
عاطف نے پہلی بار شمع کا جسم روشنی میں یوں ننگا دیکھا تھا۔شمع کا نرم ملائم گورا پیٹ اور بازو ننگے تھے اُس کے بڑے بڑے مموں کا اپپر والا حصہ اُس کے برا سے باہر نکل رہا تھا عاطف نے اُس کے پیٹ پر اپنی زبان رکھ دی شمع نے اپنا ہاتھ اُس کے سر پر رکھ دیا ۔
عاطف اُس کی ناف کے سوراخ جو کے بہت بڑا اور کھلا تھا اُس کے گرد اپنی زبان پھیرنے لگا اور اپنے ہاتھ سے شمع کی ٹانگوں کو کھولا اور اپنی انگلیوں کو اُس کی چوت اور گانڈ پر پھیرنے لگا۔کیونکے عاطف جانتا تھا شمع کو چوت سے زیادہ گانڈ کو چھونا اچھا لگتا ہے اس لیے وہ چوت سے زیادہ اپنی انگلیوں کو اُس کی گانڈ پر پھیر رہا تھا۔
شمع کی سانسوں کی رفتار بڑھنے لگی تھی عاطف اُس کے پیٹ پر زبان پھیرتا ہوا اُپر کی طرف آنے لگا اُس نے اُس کے مموں کے اُپر والے حصوں کو چومنا شروع کر دیا۔
پھر عاطف نے اُس کے برا کو پکڑا اور اُس کے مموں سے اُپر کر دیا ۔
عاطف اُس کے بڑے بڑے مموں کودیکھ کر خوش ہو گیا اُس نے جیسا سوچا تھا اُس سے بھی خوبصورت تھے شمع کے ممے ۔ وہ سائز میں کیونکے بہت بڑے تھے اُن کے نپل کافی بڑے تھے برون کلر کے نپل بہت ہی کوبصورت تھے ۔
عاطف نے اپنا منہ شمع کے ایک ممے پر رکھ دیا اُس کا ایک ہاتھ مسلسل شمع کی چوت اور گانڈ پر تھا اُس نے دوسرا ہاتھ ایک ممے پر رکھ دیا ۔ وہ شمع کے ممے کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا ۔
شمع کے ہاتھ اُس کے سر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے اور اُس کی چوت مسلسل پانی بہا رہی تھی عاطف اپنی انگلیوں پر بڑھتے گیلے پن کو محسوس کر رہا تھا ۔
عاطف کافی دیر تک اُس کے مموں کو چوستا رہا کبھی وہ ایک ممے کو منہ میں کر چوسنے لگتا کبھی دوسرے کو۔پھر کافی دیر بعد شمع کی ہمت جواب دے گئی اور وہی بول اُٹھی
’’عاطف جلدی کرو پلیز ‘‘۔
عاطف نے اُس کے ممے سے منہ اُٹھایا اور اُس کے ہونٹوں کو چوما پھر وہ نیچے کی طرف آیا اور اُس نے شمع کی شلوار کو پکڑا اور اُتار دیا ۔
شمع کی چوت بہت ہی کھلی اور بڑی تھی شمع کا پورا جسم بہت ہی گورا تھا لیکن اُس کی چوت کے ہونٹ بہت ہی کالے تھے لیکن اندر کا گلابی پن اُس کی چوت کے کالے ہونٹوں سے
نظر آ رہا تھا شمع کی چوت کے تھوڑا ہی نیچے اُس کی گانڈ کا سوراخ تھا وہ بھی کافی بڑا تھا ۔
شمع کی چوت کے اُپر اُس کا دانہ بہت بڑا تھا اور شمع کی چوت کے ہونٹوں میں سے دونوں اطراف کافی بڑی بڑی گوشت کی پتلی سی دایوریں تھی ۔
عاطف نے اُس کے چوت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اُس کو مسلنے لگا اُس کے دانے کو انگھوٹے کی مدد سے مسل رہا تھا اور اپنی ہتھیلی کو اُس کی چوت کے منہ پر مسل رہا تھا۔
پھر عاطف نے شمع کو اُلٹا ہونے کا اشارہ کیا۔ شمع اُلٹی ہو گئی عاطف نے اپنے ہونٹ اُس کی گانڈ ہر کھ دئیے جیسے ہی عاطف نے اپنئ زبان کو اُس کی گانڈ کی لکیر کے اندر ڈالا شمع کا جسم ایک دم ایکڑا اور اُس کے منہ سے سسکاری نکل گئی اُس نے اپنے ہاتھوں میں بیڈ کی چادر کر جکڑ لیا ۔
عاطف اُس کی گانڈ کی لکیر میں اپنی زبان کافی دیر تک چلاتا رہا ۔
پھر اُس نے اپنا منہ ہٹایا اور شمع کو سیدھا ہونے کے لیے بولا شمع سیدھی ہو کر لیٹ گئی عاطف اُٹھا اور اُس نے اپنا پاجامہ اُتار دیا ۔
شمع نے پہلی بار اُس کا لن دیکھا وہ کافی بڑا تھا باقر سے ڈبل تھا اور کافی موٹابھی تھا شمع اُس کے لن کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی جب عاطف کی نظر پڑی ۔
عاطف اُپر آیا اور اُس کے پیٹ ہر آکر بیٹھ گیا اُس کا لن اب شمع کے مموں کے اُپر تھا اُس نے شمع کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا ۔
شمع اُس کے لن کو پکڑ کر ہاتھ میں لے کر ہلانے لگی ۔ کچھ دیر بعد عاطف نے اپنا لن اُس کے ہاتھ سے نکالا اور واپس نیچے آگیا۔ پھر اُس نے شمع کی ٹانگوں کو اُٹھایا اور اپنے کندھوں پر رکھا اور اُس کے اُپر لیٹ گیا پھر ہاتھ نیچے لے جاکر اُس نے اپنا لن شمع کی چوت پر رکھا اور ایک زور دار قسم کا دھکا مارا لن اندر اُترتا چلا گیا۔شمع کے منہ سے آہ نکل گئی ۔ شمع کے گھٹنے اُس کے سینے سے لگ رہہے تھے اور اُپر عاطف لیٹا تھا شمع کے ہاتھ عاطف کی کمر پر تھے ۔
عاطف زور زور سے اندر باہر کرنے لگا ۔
شمع کی منہ سے آہ آہ آو ہون ۔ جیسی آوازیں آرہی تھی۔
عاطف کو ابھی اندر باہر کرتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے شمع کی حالت نے اُس کو بتا دیا کے وہ چھوٹنے والی ہے ، عاطف نے اُس کی ٹانگوں کو چھوڑا اور اُس کے ساتھ چپک گیا اور اندر باہر کرنے لگا ۔
شمع نے اپنے ٹانگوں کو اُس کی کمر کے گرد لپیٹا لیا اور اب ٹانگوں کی مدد سے وہ بھی عاطف کا ہر دھکے پر نیچے سے اُپر کو اُٹھتی تھی ۔ پھر اُس نے عاطف کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اپنے دانتوں کو عاطف کے کندھے میں گاڑ دیا۔ اُس کے منہ سے ایک لمبی لیکن ہلکی آواز میں چیخ نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں وہ واہس نارمل ہو گئی تھی۔
عاطف اُس کے اُپر سے اُٹھا اور بولا۔
’’تم گھوڑی بن جاو میں پیچھے سے کروں گا ‘‘۔
شمع اُٹھی اور اپنے گھٹنوں کے بل بیڈ پر گھوری بن گئی عاطف کھڑا ہو گیا اپنے پیروں پر وہ شمع کے پیچھے آیا اور اُس نے اپنے ہاتھ شمع کے کندھوں پر رکھے اور پیروں پر کھڑے کھڑے ہی وہ تھوڑا سا جھکا اور اپنا لن اُس نے چوت کے منہ پر فٹ کیا اور اندر ڈال دیا ۔
اب وہ شمع کے کندھوں کو پکڑ کر اپنے پائوں پر کھڑا لن ڈالے اُس کے اندر باہر کر رہا تھا پیچھے سے اُس کا لن اندر باہر ہوتا صاف نظر آ رہا تھا ۔
عاطف مسلسل اپنی پوری طاقت سے لن کو اندر کی طرف گھسا رہا تھا وہ پورا لن باہر نکالتا اور پھر زور سے اندر ڈالتا تھا۔
شمع اُس کے ہر جٹھکے پر چلا رہی تھی لیکن آواز مدھم ہی تھی ۔کچھ ہی دیر میں شمع کی چوت واپس عاطف کے لن کو جھکڑنے لگی اور شمع کی آوازوں سے عاطف کو سمجھہ آ گئی کے وہ پھر سے چھوٹنے والی ہے لکین اس بار عاطف بھی منزل کے قریب ہی تھا وہ زور زور سے جٹھکے مارتا رہا پھر تھوڑی دیر بعد شمع اُس کے زور دار جٹھکوں کے نتیجے میں گر گئی
کیونکے اُس کا پورا وزن بھی شمع کے اُر ہی تھی اس لیے وہ بھی اُس کے اُپر ہی گر گیا ۔
شمع کو اُس نے گردن سے پکڑا اور اپنا لن جو گرنے باوجود اندر ہی تھا اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔
کچھ ہی دیر میں شمع ایک بار پھر فارغ ہو گئی ۔عاطف نے اُسی وقت اپنا لن باہر نکالا اور اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا اور لن ہاتھ میں لے کر ہلانے لگا اُس نےلن کی ٹوپی شمع کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی ہوئی تھی۔ ہھر اُس کے لن سے پانی نکلا اور شمع کی گانڈ کے سوراخ پر گرنے لگا ۔
عاطف فارغ ہونے کے بعد شمع کے ایک طرف گر گیا ۔ وہ دونوں کچھ دیر تک اپنا سانس نارمل کرتے رہے۔
پھر عاطف نے سچ میں اپنی بات ثابت کر دیکھائی تھی وہ پورا دن شمع کی چوت کے اندر
اپنا لن ڈالے ہوئے اندر باہر ہی کرتا رہا شمع کو یاد تھا کے شادی کے شروع کے دنوں میں
باقر اُس کو زیادہ سے زیادہ چار بار ہی کرتا تھا لیکن عاطف نے تو حد کر دی تھی شمع کو ہی مجبورا اُس کو روکنا پڑا کیوں کے اُس کی ��وت اتنا استمعال ہونے کے بعد جلنے لگی تھی۔
پانچواں دن
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا۔
ٹی وی پر یہ رومنٹک اور سکسی گانا چل رہا تھا۔شمع اور عاطف بیڈ پر لیٹے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔شمع اپنا سر عاطف کے سینے پر رکھے لیٹی ��ھی۔اُس کا ایک ہاتھ عاطف کے پاجامے کے اندر تھا جس میں اُس نے عاطف کا لن پکڑا ہوا تھا اور اُس کے ساتھ کھیل رہی تھی عاطف اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔
شمع کے چہرے پر ایک شرارتی مسکرہٹ آئی اور پھر وہ بولی۔ ’’عاطف! ‘‘
کیاہوا۔ عاطف نے جواب دیا
ایک بات پوچھوں۔ شمع کے چہرے پر وہی شرارتی مسکراہٹ تھی .
’’ہاں پوچھو‘‘۔ عاطف بولا
’’ تم کو میری لینے میں زیادہ مزا آتا ہے یا اپنی گرل فرینڈ کی‘‘۔ شمع نے مسکراتے ہوئے پوچھا اُس کا سر ابھی بھی عاطف کے سینے پر ہی تھا۔
عاطف اُس کی بات سن کر چونک پڑھا اُس کو اس طرح کے جملے کی اُمید نہیں تھی ۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے شمع اسطرح کھل کر ایسی بات اُس سے پوچھے گی ۔
’’ ک ۔۔ک۔۔۔ کیا مطلب‘‘ ۔ اُس نے اٹک آٹک کر پوچھا
’’ کیا ہوا شرما کیوں رہے ہو ۔ سیدھی سی بات تو پوچھی ہے۔ تم کو میری چوت مارنے کا زیادہ مزا آتا ہے یا عالیہ کی‘‘۔ شمع بولی
شمع کے اس جواب نے عاطف کو پہلے سے بھی زیادہ حیران کر دیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا جواب دے ۔ ایسی بات تو کبھی اُس کی کسی گرل فرینڈ نے بھی اسطرح ڈیریکٹ نہیں کی تھی۔
شمع کے ہاتھ میں اُس کا لن ایکڑنا شروع ہو گیا تھا۔ شمع کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ بڑھ گئی ۔ وہ عاطف کی حالت کا مزا لے رہی تھی۔جب عاطف نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ بولی۔
’’کیا ہوا بول کیوں نہیں رہے ہو ؟‘‘۔
عاطف بولا۔ ’’ کیابولون؟‘‘۔
’’میری بات کا جواب دو ناں تم کو میری لینے میں زیادہ مزا آتا ہے یا عالیہ کی‘‘۔ شمع نے کہا۔
ویسے شمع خود بھی حیران تھی کہ کیسے وہ یہ سب اتنی آسانی سے بول رہی تھی اسطرح کی بات آج تک اُس نے باقر سے کبھی نہیں کی تھی ۔
عاطف اب تھوڑا سنمبھل گیا تھا وہ بولا۔
’’تمھاری‘‘۔
’’کیوں ؟ ‘‘شمع نے پوچھا۔
’’اب اس کا میں کیا جواب دوں ؟ بس تمھاری لینے کا زیادہ مزا آتا ہے ! ‘‘۔
عاطف نے آہستہ آواز میں بولا
’’اچھا چلو یہ بتائو اُس کی چوت میں اور میری چوت میں تم کو کیا فرق محسوس ہوا ہے؟‘‘۔ شمع نے پوچھا۔
’’یہ تم کسطرح کے سوال کر رہی ہو؟‘‘۔ عاطف بولا۔
’’ کیوں کیا ہوا شرم آرہی ہے؟‘‘۔ شمع نے ہنستے ہوئے پوچھا
’’نہیں پر مجھے اچھا نہیں لگ رہا اسطرح بات کرنا تمھارے ساتھ۔ ‘‘۔عاطف نے جواب دیا۔
’’اچھا نہیں لگ رہا تو یہ کیوں کھڑا ہو رہا ہے! ‘‘۔ شمع نے اُس کے لن کو دباتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں میرا مطلب ہےکہ ایزی فیل نہیں کر رہا ،میں یہ سب تمھارےمنہ سے سن کر۔ عاطف نے جواب دیا
’’اچھا چلو نہین بولتی اب‘‘۔ شمع نے ہنس کر کہا۔
پھر وہ دونوں کچھ دیر تک جپ چاپ لیٹے رہے کچھ دیربعد شمع نے اپنا منہ اُپر کیا اور عاطف کی گردن کو چومتے ہو ئے اُس کے کانوں کے پاس اپنا منہ لے جا کر بولی ۔
’’تم کو لن چسوانا اچھا لگتا ہے کیا؟‘‘۔
عاطف نے سر ہلا دیا۔
’’ کیا ؟میں چوسوں! ‘‘۔ شمع نے اُس کے کان کے قریب اپنے ہونٹ لے جاکر اُس کے کان میں آہستہ سے بولی ۔
’’ہاں ‘‘۔ عاطف نے صرف اتنا ہی کہا ۔ عاطف کو شمع کا انداز مدہوش کر رہا تھا۔
شمع نے اُس کے گال کو چو ما پھر اُس نے اپنی زبان اُس کی گردن پر پھیرنا شروع کر دی۔
پھر شمع نے پوچھا۔
’’پورا منہ میں لوں یا صرف ٹوپی ؟‘‘۔
’’پورا ‘‘۔ عاطف کی سانسوں کی رفتار بڑھ گئی تھی
’’اچھا‘‘ ۔ شمع نے اُس کو بولی اور پھر اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور چوسنے لگی ۔ پھر اُس نے اپنا منہ اُس کے ہونٹوں سے اُٹھایا اور نیچے اُس کی ٹانگوں پر آگئی اور اُس کا پاجامہ تھوڑا نیچھے کر دیا اور اُس کے کھڑے لن کو ہاتھ میں لے لیا اور اُس کو ہاتھ میں لے کر مساج کرنے لگی وہ لن کی پوری لمبائی کو ہاتھ میں لے کر مساج کر رہی تھی۔ وہ جس طرح سے ہاتھ چلا رہی تھی عاطف مزے میں پاگل ہو رہا تھا ۔ پھر شمع نے اپنا منہ نیچے کیا اور اپنی زبان نکال کر اُس نے لن کی ٹوپی کے نیچے والے حصے پر پھیرنی شروع کر دی ۔ عاطف کے لن سے ایک قطرہ نکل آیا تھا ۔ شمع نے اپنی زبان اُس قطرے پر پھیری اور اُس کو چاٹ لیا ۔ عاطف شمع کا یہ روپ دیکھ کر حیران تھا ۔ اُس کو لگ ہی نہیں رہا تھا کے یہ وہی شمع تھی جس کو وہ پچھلے دس سالوں سے گھر کے کاموں میں ہر وقت اُلجھے ہوئے دیکھتا تھا ۔
وہ عاطف کو کبھی بھی اُس کو دیکھ کر ایسا نہیں لگا تھا کے شمع کے اندر ایک ایسی عورت بھی چھپی ہے۔
شمع اُس کے لن کو نیچے سے لے کر ٹوپی تک اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔
پھر اُس نے سر اُٹھا کر پوچھا ۔
’’مزا آرہا ہے یا نہیں ؟‘‘۔
عاطف نے اکھڑتی سانسوں کے درمیان بولا
’’ آج تو پاگل کر رہی ہو تم‘‘۔
شمع نے ایک بار پھر منہ نیچے کر لیا اس بار اُ س نے لن کو منہ میں لے لیا عاطف کے ہاتھ اُس کے سر پر آگئے تھے اور وہ بہت نرمی کے ساتھ اُس کے سر کو اپنے پر دبا رہا تھا ۔ شمع کچھ دیر تک اُس کی ٹوپی منہ میں لے کر چوستی رہی ۔ پھر اُس نے پورا لن منہ میں لے کر منہ کو اُپر نیچے
کرنا شروع کر دیا ۔
عاطف اُس کے منہ کی نرمی اور گرمی اہنے لن پر محسوس کر رہا تھا اور جس طرح سے وہ اپنا منہ اُس کے لن پر اُپر نیچے کر رہی تھی وہ بھی عاطف کے لیے بہت ہی مزے کا باعث تھا۔ عاطف کی یہ پہلی بار نہیں تھی جب کوئی عورت اُس کے لن کو چوس رہی تھی ۔
اُس کی زندگی میں ایسا بہت بار ہو چکا تھا لکین آج ایک بار پھر وہ شمع کا فین ہو گیا تھا کیوں کے شمع کے منہ میں اپنا لن دے کر جو مزا مل رہا تھا عاطف کو اج تک نہیں ملا تھا ۔
شاید یہ وہی نفسیاتی وجہ تھی یا شمع کے چوسنے کا طریقہ لکین مزا بہت ہی زیادہ تھا۔
پھر کافی دیر تک شمع اُس کے لن کو منہ میں لیکر چوستی رہی وہ مختلف طریقوں سے منہ کو گھوما گھوما کر اُس کی ٹوپی کے گرد اپنے ہونٹوں کو چلا رہی تھی ۔
’’میں چھوٹنے والا ہوں‘‘۔ اچانک عاطف نے اُس کو بولا۔
شمع نے اس کے لن سے منہ ہٹا لیا اور ہاتھ میں لے کر اُس کو ہلانے لگی اور اُس کا منہ لن کے سامنے ہی تھا ۔ پھر عاطف کے لن سے منی نکل کر اُس کے منہ کے اُپر گرنے لگی اُس کے لن سے منی کے فوارے شمع کے گالوں پر اور بالوں پر گر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بابا امی کب واپس آ رہی ہیں؟‘‘۔ باقر کی بیٹی نے پوچھا
’’جلدی بیٹا بس ایک دو دن میں آ جائیں گیں ‘‘۔ باقر نے اُس کو پیار کرتے ہوئے بولا۔
’’بابا امی سے فون پر بات کروں میں؟‘‘۔ اُس کی بیٹی نے پوچھا۔
’’ہاں کر لو بیٹا‘‘۔ باقر بولا اور پھر اُس نے جیب سے فون نکالا اور شمع کے نمبر ملا دیا ۔ نمبر بند جا رہا تھا ۔
’’بیٹا امی کا فون ابھی بند ہے بعد میں بات کرواتا ہوں ‘‘۔ باقر نے بیٹی کو بولا تو وہ سر ہلاتی ہوئی چلی گئی باقر سوچنے لگا کے شام کے اس وقت شمع کا فون کیوں بند ہے۔
________________________________________
قسمت انسان کو کیا کیا وقت دیکھاتی ہے شمع نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کے اُس کی قست کبھی اُس کو ایسے امتحان میں بھی ڈالے گی ۔ وہ ایک ایسے موڑ پر آگئی تھی جہاں فیصلہ کرنا اُس کے لیے بہت ہی مشکل ہو گیا تھا اُس کا دل اور جسم عاطف کا ساتھ چاہتے تھےلکین دماغ اُس کو سمجھا رہا تھا کے نہیں اس طرح وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ کئی اور زندگیاں بھی برباد کر دے گی۔
وہ انہی سب سوچوں میں گم لیٹی تھی ۔ عاطف ایک طرف سو رہا تھا کھڑکی سے سورج کی روشنی اندر آ رہی تھی۔ شمع نے اپنے ساتھ لیٹے عاطف کی طرف دیکھا۔
کچھ ہی دنوں میں اُس کو عاطف کے ساتھ اتنا پیار ہو گیا تھا جتنا شاید باقر کے ساتھ شادی کے دس سالوں میں نہیں ہوا تھا ۔
شمع نے عاطف کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اپنا منہ عاطف کے قریب کر کے اُس کے گال کو چوما ۔ عاطف اُس کے گیلے ہونٹوں کے لمس کی وجہ سے اُٹھ گیا ۔
’’کیا ہوا صبع صبع پیار آ رہا ہے میرے پر‘‘۔ عاطف نے اپنا رُخ اُس کی طرف کر کے اُس کو بانہوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔
’’میں تم سے بہت بہت زیادہ پیار کرتی ہوں‘‘۔ شمع نے بھی اُس کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’’میں بھی‘‘۔ عاطف نے اُس کے ماتھے کو چوم کر بولا۔
شمع بولی۔ عاطف
’’ہوں کیا ہوا ‘‘۔ عاطف نے جواب دیا۔
کل ہم کو سات دن ہو جائیں گے۔ شمع نے اُداس آواز میں کہا
اُس کی بات سن کر عاطف بھی جیسے اصل دنیا میں آ گیا وہ تو بھول ہی گیا تھا کے جس عورت کے ساتھ وہ لیٹا ہے وہ اُس کے بھائی کی سابقہ بیوی ہے اور وہ صرف کچھ دنوں کے لیے اُس کی ہوئی ہے۔
’’کیا ہوا کچھ بولو‘‘۔ شمع نے اُس کو چپ دیکھ کر دوبارہ بولی ۔
’’ کیا بولوں‘‘۔ عاطف نے آہستہ آواز میں کہا۔
’’ کیا تم میرے بغیر رہ پائو گے؟ ‘‘۔ شمع نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’نہیں اور تم؟‘‘۔ عاطف نے اس کو پوچھا۔
’’پتہ نہیں ‘‘۔ شمع نے اپنا رُخ بدل کر سیدھا لیٹتے ہوئے بولی پھر کچھ دیر بعد کہا۔
’’ لیکن اس کے علاوہ ہمھارے پاس کیا راستہ ہے؟‘‘۔
’’ایک راستہ ہے تو سہی اگر تم میرا ساتھ دو تو‘‘۔ عاطف نے اُس کے قریب جا کر اُس کو اپنی بانہوں میں لے کر بولا۔
’’ کیا؟‘‘۔ شمع نے ایک دم اُس کی طرف دیکھ کر بولی ۔
’’پتہ نہیں تم کر پائو گی کے نہیں‘‘۔ عاطف نے بولا۔
’’تم بتائو تو سہی‘‘۔ شمع نے بے چینی سے کہا۔
’’تم مجھے چھوڑو مت میرے ساتھ رہو‘‘۔ عاطف نے کہا۔
’’کیا مطلب یعنی ہم ادھر ہی رہ جائیں ؟‘‘۔ شمع نے اُس کی طرف دیکھ کر بولی ۔
’’نہیں میرا مطلب میں تم کو طلاق نہیں دیتا تم میری بیوی بن کر رہو‘‘۔ عاطف نے کہا تو شمع نے ایک لمبی سانس لے کر منہ دوسری طرف کر لیا۔
’’کیا ہوا تم نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔ عاطف نے اُس کو چپ دیکھ کر بولا۔
’’یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ،باقر تمھارا بھائی ہے کیا تم اُس کو چھوڑ پائو گے ساری زندگی کے لیے؟‘‘۔ شمع نے کہا۔
’’ہاں میں تمھاری خاطر کچھ بھی کرنے کو تیاو ہوں‘‘۔ عاطف نے اُس کے چہرے کو پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔
’’ تمھارے دوست ،میرے جاننے والے ،ہم دون��ں کو ایک اور رشتہ سے جانتے ہیں ۔ میں اُن کی نظروں کا سامنا نہیں کر پائو گی‘‘۔ شمع نے جواب دیا۔
’’ہم سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں چلے جائیں گے۔ جہاں ہم کو کوئی جانتا نہیں ہو ،ہم ایک نئی زندگی شروع کریں گے‘‘۔ عاطف نے جوشیلے انداز میں کہا۔
شمع کچھ دیر تک سوچتی رہی ۔ دل اُس کا بھی یہی کر رہا تھا کے وہ سب چھوڑ چھاڑ کر بس اپنی پوری زندگی عاطف کے نام کر دے لیکن اُس کے دماغ اُس کو روک رہا تھا کے عاطف تو ابھی نوجوان ہے اور وہ عمر کے اُس حصے میں ہے جدھر اُس کے لیے اس طرح کا رسک لینا بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘۔ عاطف نے اُس کو سوچ میں ڈوبے دیکھا کر پوچھا۔
’’کیا تم میری جیسی عورت کا ساتھ پوری زندگی دے پائو گے ؟ مطلب ابھی تم جوان ہو اور میں عمر کے اُس حصے میں ہوں جہاں اب آگے خوبصورتی ختم ہونا شروع ہو جائے گی ،تم کو جو سب اچھا لگ رہا ہے یہ کچھ ہی سالوں میں ختم ہو جائے گا‘‘۔ شمع نے ایک لمبی سانس لے کر پوچھا۔
’’ کیسی بات کر رہی ہو۔ یہ سچ ہے کے مجھے تمھارا جسم بہت ہی زیادہ اچھا لگتا ہے اور میرا دل کرتا ہے کے تم کو اپنے سامنے ننگا بیٹھا کر بس دیکھتا اور چومتا رہوں ۔ لکین یہ بھی سچ ہے کے میرا پیار صرف تمھارے جسم کے لیے نہیں ہے بلکے تمھاری روح کے لیے بھی ہے میں اُتنا ہی پیار تمھاری اندر کی عورت سے کرتا ہوں جتینا کے باہر کی عورت سے کرتا ہوں۔ تم تو کب سے میرے لیے ایک مثالی عورت ہو ، میں نے ہمشہ جب بھی اپنی شادی کے بارے میں سوچا
تمھارے جیسی عورت کے ساتھ کرنے کے بارے میں ہی سوچا۔ اب جب کے تم میرے اتنے قریب آ گئی ہو تو میں تم کو واپس دور جاتے ہوئے نہیں دیکھ پائوں گا ‘‘۔ عاطف نے اُس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا۔
شمع چپ جاپ اُس کی آنکھوں میں دیکتھی رہی اُس کے لیے فیصلہ کرنا اور بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔
’’میرا یقین کرو شمع میں تمھارا خیال اپنی جان سے بھی زیادہ رکھوں گا ۔ میں تم کو اپنے ہی گھر میں اپنے سامنے کسی اور مرد کے ساتھ اب نہیں دیکھ سکتا چاہے وہ میرا بھائی اور تمھارا سابقہ شوہر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ باقر بولا۔
’’میرے لیے بھی یہ سب اتنا آسان نہیں ہے اب‘‘۔ شمع نے جواب دیا۔
’’تو پھر کیا سوچ رہی ہو ؟‘‘۔ عاطف نے تیز لہجے میں کہا۔
’’مجھے سوچنے دو‘‘ ۔ شمع بولی ۔
’’ ٹھیک ہے ہمھارے پاس کل تک کا وقت ہے تم سوچ لو‘‘۔ عاطف نے کہا پھر وہ کچھ دیر رُک کر بولا۔ ’’لیکن ایک بات ذھن میں رکھنا میں تم سے بہت بہت زیادہ پیار کرتا ہوں اور مجھے تم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو‘‘۔
شمع نے اُس کی طرف دیکھا پھر اپنے ہونٹ اُس کے منہ پر رکھ دئیے اپنی زبان اُس کے منہ میں گھسا دی ۔ کچھ دیر کی گہری کس کرنے کے بعد منہ ہٹا کر بولی ۔
’’میں بھی تم کو بہت زیادہ پیار کرتی ہوں‘‘۔
شمع یہ بول کر اُٹھنے لگی تو عاطف نے اُس کو بازو سے پکڑ کر واپس گرا لیا اور بولا
کہاں جارہی ہو ۔
شمع مسکرا کر بولی۔ ’’چھوڑو کپڑے پہننے دو ۔پچھلے تین دن سے تم نے مجھے ننگا کر رکھا ہے کپڑے کیا ہوتے ہیں میں تو بھول ہی گئی ہوں‘‘۔
عاطف بھی مسکرا کر بولا ۔ ’’پہن لینا ایک بار میری پیاس تو بجھا دو‘‘۔
پھر عاطف نے کمبل کو ایک طرف پھنکا اور اُس کی چوت کی طرف آگیا اُس کی چوت خشک تھی ، عاطف نے اپنی زبان اُس پر رکھ دی اور اپنی ایک انگلی اُس کے گانڈ کے سوراخ کے گرد گھمانے لگا پھر اُس نے تھوڑا تھوک اُس کی گانڈ کے سوراخ پر بھی ڈالا اور اپنی انگلی اندر ڈال دی ۔ شمع کی چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی تھی ۔
عاطف اپنی زبان کو اُس کے دانے پر اور انگلی کو اُس کی گانڈ میں چلاتا رہا۔ کچھ دیر بعد وہ اُٹھا اور اُس نے شمع کی ٹانگوں کو پکڑ کر اپنے کندھوں پر رکھا اور اُس پر لیٹ گیا ۔ اپنا لن اُس نے ایک ہاتھ نیچے کر کے اُس کی چوت کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک زور کا دھکا مارا لن گہرائی میں اُترتا چلا گیا۔
شمع کے منہ سے اُف کی آواز نکلی اور پھر کمرے میں تھک تھک شڑپ شڑپ آہ آہ کی آوازیں گھوجنے لگیں ۔
عاطف اُس کو پندرہ منٹ تک چودتا رہا اور شمع بھی اُس دروان دو بار فارغ ہو چکی تھی۔ عاطف نے پندرہ منٹ بعد اُس کی چوت کو اپنے پانی سے سیراب کر دیا اور ایک طرف گر گیا۔
شمع اپنی جگہ سے اُتھی اُس نے ایک طرف پڑا اپنا دوپٹہ اُٹھایا اور عاطف کا لن صاف کیا اور پھر اُس نے اپنی چوت کے نیچے رکھا تاکہ اندر سے منی باہر نہ گر جائے اور اُٹھ کر واش روم کی طرف چلی گئی۔
شمع واش روم میں آکر باتھ ٹب میں بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کے اُس کو کیا کرنا چاہیے ۔ عاطف کی طلب تھی جو اُس کو عاطف کی طرف کھنیچ رہی تھی لیکن اُس کو باقر کا پیار بھی یاد تھا وہ سوچنے لگی کے وہ اس اُلجھن مین باقر کی وجہ سے ہی پھنسی ہے۔
پھر اُس کے دماغ نے باقر کی صفائی دینا شروع کر دی اور وہ سوچنے لگی کے باقر چاہتا تو اُس کو طلاق دے کے گھر سے نکال بھی سکتا تھا پھر وہ کہاں جاتی ، باقر نے اُس کے لیے ہی تو یہ سب کیا تھا ۔ اگر وہ یہ ہلالہ والی بات پر عاطف کو راضی نہ کرتا تو وہ کدھر جاتی اُس کا دنیا میں اور کوئی ہے بھی نہیں۔ اُس کو یاد آنے لگا کے باقر نے کبھی بھی اُس کو کوئی تکلیف نہیں آنے دی تھی بس کبھی کبھی غصہ پر کنڑول نہیں رکھ پاتا تھا اور اُس پر چلا پڑتا تھا لکین بعد میں مناتا بھی تھا۔
وہ جیسے جیسے یہ سب سوچ رہی تھی ۔ اُس کی اُلجھن اور بڑھتی جا رہی تھی اُس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اُس کی آنکھوں میں سے انسوں نکلنا شروع ہو گے ۔ وہ بے آواز رونے لگی ۔
باقر بیڈ پر لیٹا تھا ۔ وہ کب سے سونے کی کوشش کر رہا تھا لکین نیند اُس کی آنکھوں سے روٹھ گئی تھی شاید ۔
جس دن سے شمع اُس کے بیڈ سے گئی تھی اُس کو نند نہیں آئی تھی بس کبھی کچھ دیر
آنکھ لگ جاتی تو فورا ہی واپس کھل بھی جاتی۔ لکین آج وہ خوش تھا کیوں کے اُس کی اپنی غلطی کی وجہ سے جو اُس پر مشکل دن آئے تھے اب جانے والے تھے کل شمع اور عاطف واپس آنے والے تھے اور اُس کے بعد اُن کی زندگی بہت جلد واپس روٹین پر آنے والی تھی۔
وہ سوچنے لگا کے اُس کا بھائی کتنا اچھا ہے کے اُس نے میرے مشکل وقت میں میرا کتنا ساتھ دیا اگر وہ نہیں ہوتا یا وہ نہیں مانتا تو کیا ہوتا ۔
وہ شمع کے بارے میں سوچنے لگا ۔ وہ سوچنے لگا کے میری ایک غلطی کی وجہ سے شمع کو کتنی تکلیف دیکھنی پڑی ہے ۔ لیکن ایک بار اب وہ آ جائے تو میں اُس کو دنیا کی ہر خوشی دوں گا ۔ شمع کے بارے میں سوچ کر اُس کی آنکھیں نم ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔
عاطف سڑک کے کنارے لگے ایک بینچ پر اپنے ہاتھوں پر اپنا منہ رکھ کر سوچوں میں گم تھا ۔ وہ جان بوجھ کر شمع کو کمرے میں اکیلا چھوڑ کرآیا تھا وہ چاہتا تھا کے شمع کو سوچنے کا موقع مل جائے اور وہ اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کرئے۔ اُس کو یقین تھا کے شمع اُس کا ساتھ ہی دے گی۔ لکین پھر بھی اُس کے ذہن میں ایک سوال اُس کو بڑا بے چین کر رہا تھا کے اگر شمع نے اُس کے حق میں فیصلہ نہ دیا تو وہ کیا کرئے گا اُس کے لیے اب شمع کے بغیر رہنا ناممکن تھا ۔
آخری دن
عاطف صوفے پر نیم دراز تھا اُس نے اپنی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا رکھا تھا اور سر صوفے کی پشت پر ٹکا رکھا تھا۔ شمع اُس کی ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھی تھی اور عاطف کے لن کو منہ میں لے کر چوس رہی تھی ۔
عاطف کی آنکھیں بند تھیں ۔ کچھ دیر تک شمع ایسے ہی بیٹھے اُس کا لن چوستی رہی پھر شمع اُٹھی اور اُس نے اپنی شلوار اُتار دی کمیض پہلے ہی نہیں تھی وہ بلکل ننگی ہو گئی تھی۔ وہ عاطف کی ٹانگوں کے اُپر آگئی اور اپنی ٹانگوں کو کھول کر اُس کے لن کے اُپر اپنی چوت کو فٹ کیا اور بیٹھ گئی اور لن چوت کی گہرائیوں میں غائب ہو گیا۔ عاطف تھوڑا سے اُٹھا اور
اُس نے اپنے ہاتھوں کو اُس کے چوتٹروں کے نیچھے رکھ کر اُس کو اُپر نیچے ہونے میں مدد کرنے لگا ۔ شمع کے بڑھے بڑھے ممے عاطف کے منہ کے آگے اُچھل رہے تھے ۔ شمع نے اپنے ہاتھوں سے عاطف کاہاتھ پکڑا اور عاطف کا منہ اپنے مموں کے ساتھ لگا دیا عاطف نے ایک ممے کے نپل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ۔کمرہ شمع کی آواز سے گھونج رہا تھا۔
پھر کچھ دیر بعد شمع کی آواز میں اور اُس کی رفتار میں تیزی آنے لگی ۔ عاطف نے بھی نیچے سے ہلنا شروع کر دیا ۔ پھر عاطف کے لن سے نکلنے والے پانی نے شمع کی چوت کو بھرنا شروع کر دیا۔ عاطف نے واپس اپنے جسم صوفے پر گرا دیا اور سر کو صوفے کی پشت پر ٹکا دیا۔ شمع بھی اُس کے اُپر لیٹ گئی ۔
ان دونوں کو کچھ وقت لگا اپنی سانسوں کو نارمل کرنے میں۔
’’میں نے بہت سوچا ہے اور مجھے لگتا ہے کے ہمھارے لیے ساتھ رہنا ممکن نہیں‘‘ ۔ شمع بولی تو عاطف کوایک جھٹکا لگا ۔ وہ جب کمرے میں آیا تھا تو اُس نے شمع سے’’ پوچھا کہ کیا فیصلہ کیا ہے تم نے ‘‘ ۔ لیکن شمع نے ٹال دیا ۔ اور تب سے لے کے اب تک جیسے شمع اُس کے ساتھ پیش آ رہی تھی اُس سے عاطف کو لگ رہا تھا کے شمع نے وہی فیصلہ کیا ہے جو وہ چاہتا تھا لیکن اب شمع کی بات سن کر اُس کو شدید شاک لگا تھا اُس نے ایک جھٹکے سے اُٹھنے کی کوشش کی لکین شمع نے اُس کو واپس گرا دیا اور اُپر لیٹی رہی ۔
پھر بولی ’’دیکھو مجھے غلط مت سمجھو ،نہ میں سب خوشی کے ساتھ کر رہی ہوں اور
نہ ہی باقر مجھے تم سے زیادہ عزیز ہے لیکن میرے بچے ہیں میری وجہ سے اُن کی زندگی تباہ ہو جائے گی‘‘۔
عاطف نے اُس کی بات کاٹ دی اور دکھی لہجے میں بولا۔
’’اور میری زندگی کا کیا ہوگا تم نے سوچا کچھ اس بارے میں بھی جو میری زندگی برباد ہو جائی گی اُس کا کیا ؟ ‘‘۔
’’پلیز عاطف میرے لیے اور مشکل مت پیدا کرو ‘‘۔ شمع نے بھرائی آواز میں کہا۔
’’تم لوگو نے مجھے مذاق سمجھا ہے پہلے میں یہ سب کرنا نہیں چاہتا تھا اور تم نے مجھے مجبور کیا اور اب جب میں تم کو چھوڑنا نہیں چاہتا تو تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہو‘‘۔ عاطف نے غصے سے کہا۔
شمع نے اُس کے منہ کو اپنے ہاتھو ں میں لیا اور اُس کے گا ل کو چومنے لگی لیکن عاطف نے ایک جٹھکے سے اُس کو ایک طرف کیا اور اُس کو صوفے پر پھینک کر کھڑا ہو گیا۔
’’بند کرو یہ ڈرامے بازی اب ۔ تمھاری ان ہی حرکتوں کی وجہ سے میں پہلے بھی غلط فہمی کا شکار ہو گیا ۔لکین اب نہیں میں اب تمھاری اس ڈرامے بازی میں نہیں آئو گا ارے اگر تم نےصرف اپنا کام ہی نکلوانا تھا مجھ سے ، تو پہلے دن ہی کر تو دیا تھا میں نے ۔
کیوں تم نے ساتھ دن گزارے میرے ساتھ ،کیوں مجھے اپنی عادت ڈالی۔ عاطف چلا کر بولا
شمع نے رونا شروع کر دیا ۔
’’تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو ۔ کیا تم چاہو گے کے کل کو ہماری وجہ میرے بچوں کی زن��گی تباہ ہو جائے ، تم کیوں نہیں سوچ رہے یہ معاشرہ بہت ظالم ہے یہ حالات نہیں دیکھتا۔ شمع روتے ہوئے بولی ۔
عاطف غصے میں کھڑا اُس کو دیکھتا رہا اور پھر واش روم میں گھس گیا ۔ وہ واش روم میں ششے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور سچ میں اُس نے پہلی بار شمع کی توجہ دلانے کے بعد بچوں کے بارے میں سوچا تھا ۔ وہ بچے اُس کا خون تھے اُس کے بھائی کی اُولاد تھے ۔ اور وہ بہت پیار کرتا تھا اُن سے۔
اُس کو شمع کی بات ٹھیک لگنے لگی تھی ۔ لکین اُس کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کے اب وہ کرے کیا اُس کی اپنی زندگی تباہ ہو رہی تھی۔
کچھ دیر بعد اُس کا غصہ کم ہونے لگا اور اُس نے سوچا شمع ٹھیک ہی کہہ رہی ہے اپنی ایک خوشی کے لیے اُن کو بچوں کی زندگی کو تباہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ واش روم سے باہر آیا ۔ شمع ابھی تک رو رہی تھی وہ سیدھا اُس کے پاس آیا صوفے پر بیٹھا اور اُس کو اپنے قریب کیا اور اُس کے ماتھے پر چوم کر بولا ۔
’’چپ کر جاؤ ۔ غلطی میری ہی ہے آئی ایم سوری مجھے تم پر غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا ‘‘۔
شمع اور تیز آواز میں رونے لگی اور اُس کے سینے سے لگ گئی۔
’’مجھے معاف کر دینا پلیز ‘‘۔ شمع روتے ہوئے بولی ۔
’’نہیں اس میں تمھارا کیا قصور ؟ ‘‘، ہمیں تو حالات کے چکر نے ایسی جگہ لا کر چھوڑا ہے کے ہم نہ آگے کے رہے نہ پیچھے کے ‘‘۔ عاطف نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
پھر کچھ دیر تک وہ ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ لگے سوچوں مین گم رہے۔
’’چلو تیار ہو جاؤ ہم کو اب نکلنا چاہیے ‘‘۔ عاطف نے کچھ دیر بعد شمع کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے بولا۔
شمع اُٹھی اور واش روم میں چلی گئی۔ پھر اگلے ایک گھنٹے میں وہ دونوں تیار ہو کر ہوٹل کا حساب کلیئر کر کے گاڑی میں آ بیٹھے دونوں چپ اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے ۔ سارا رستہ خاموشی میں ہی گزرا۔
عاطف نے گاڑی اپنے گھر والی بلڈنگ کے نیچھے کھڑی کی اور نیچے اُتر آیا ۔شمع نے دوسری طرف سے نیچے اُتر گئی۔
’’تم چلو مین ابھی آتا ہوں‘‘۔ عاطف نے اُس کی طرف دیکھ کر بولا۔
شمع نے سر ہلا دیا اور چل پڑی۔ شمع اپنے گھر میں داخل ہوئی تو بچے اُس کے ساتھ لپیٹ گے۔ باقر بھی گھر پر ہی تھا وہ بھی شمع کو دیکھ کر خوش ہو گیا لیکن شمع نے اُس کے ساتھ زیادہ بات نہیں کی ۔ باقر نے پوچھا کہ ’’عاطف کدھر ہے ؟‘‘ تو اُس نے بتا دیا ’’وہ کہیں گیا ہے اور بولا ہے کہ کچھ دیر میں آ جائے گا ‘‘۔
پھر شام ہو گئی لیکن عاطف گھر نہیں آیا ۔ باقر نے کئی بار عاطف کے موبائیل پر فون کیا لیکن وہ بند جا رہا تھا خود شمع نے بھی کئی بار کوشش کی لیکن فون نہیں ملا ۔ وہ لوگ اُس کا انتظار کرتے رہیے۔
پھر یہ آنتظار لمبا ہو کر کئی دنوں میں بدل گیا لکین عاطف نہیں آیا ۔ کچھ دنوں بعد طلاق نامہ ضرور آگیا۔
شمع کے عدت کے دن پورے ہوئے تو اُس کا نکاح واپس باقر کے ساتھ ہو گیا ۔ اور یہ کہانی بنا کسی کو پتہ چلے ختم ہو گئی شمع جس جگہ سے چلی تھی وہی واپس آکر کھڑی ہو گئی کئی مہینے گزر چکے تھے ،عاطف نے کبھی فون تک نہیں کیا تھا ۔ شمع تو جب سے آئی تھی جپ تھی باقر سے کم ہی بات کرتی تھی ۔ بچوں کے ساتھ مصروف رہتی تھی۔ باقر اس سب میں خود کو مجرم سمجھنے لگا تھا اور پھر رہی سہی کسر ایک دن شمع نے نکال دی ۔
شمع نے باقر کو سب بتا دیا کے اُن سات دنوں میں عاطف اور اُس کے درمیان کیا ہوا تھا۔ باقر کو سب سن کر پہلے تو بہت غصہ آیا لیکن کچھ دنوں میں وہ اس سب کا ذمدار خود کو سمجھنیں لگا ۔
کئی مہنے گزر گے ۔ شمع کی زندگی واپس اُسی رفتار میں آچکی تھی۔بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کاموں میں پورا دن نکل جاتا ۔لیکن عاطف کی یاد اُس کی آنکھوں کو کبھی کبھی نم کر دیتی تھی ۔
پھر ایک دن عاطف لوٹ آیا ۔ سب خوش تھے بچے اپنے چچا کو اتنے عرصے بعد مل کر بہت خوش تھے شمع بھی اُس کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی ۔ باقر بھی خوش تو تھا لیکن شرمندہ سا بھی تھا وہ عاطف کے ساتھ بہت کم بات کر رہا تھا۔
وہ پوری شام عاطف بچوں کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا ۔ رات کو عاطف اپنے کمرے میں آگیا اور بیڈ پر لیٹ گیا اُس نے کمرے کو دیکھا کمرہ اُسی حالت میں تھا جس حالت میں وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد اُس کو نیند آگئی اور وہ سو گیا۔
پھر اُس کی آنکھ کھولی تو اس کے دروازے پر دستک ہو رہی تھی۔ اُس نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے۔ وہ اُٹھا اور اُس نے درواز کھولا باہر شمع کھڑی تھی اُس نے ایک بڑی سی چادر لپیٹی ہوئی تھی اس سے پہلے کہ عاطف کچھ بولتا شمع کمرے کے اندر آگئی
عاطف بھی اندر کی طرف مڑا شمع بیڈ کے پاس کھڑی تھی پھر اُس نے اپنے ہاتھو ں میں پکڑی چادر کو چھوڑ دیا ۔ چادر اُس کے جسم سے سرکتی ہوئی زمین پر گر گئی نیچے وہ بلکل ننگی تھی ۔ وہ عاطف کے قریب آئی اور ان کو لپٹ کر اپنی بانھوں میں بھر لیا اور اُس کے سینے سے لگ کررونی لگی ، کچھہ لمحوں بعد ان کو چومنی لگی ، گالوں پر ھونٹوں پر اور آنکھوں پر اور بولی ۔ ’’ کھاں گیا تھا اور کیوں گیا تھا اتنا عرصہ ھمیں چھوڑ کر تم ؟ پتا ھے کہ کیاحالت ھوئی تیرے بغیر ، یہ تھی محبت مجھہ سے ۔ ھم سب بھت اداس اور پریشان تھے تیرے لیئے ‘‘۔
عاطف نے اُس کے گالوں کو چوم کر اور بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ ’’ میں تیری بغیر جی نھین سکتا ، میں تجھہ سے بھت محبت کرتا ھوں‘‘ ۔ یہ کھتے ھوئے اس کو اپنے ھاتھوں مین اٹھا کر بیڈ پر لئے آیا اور پھر بستر پر دونوں پیار کرنے لگے۔
باقر کی آنکھہ کھولی تو اُس نے دیکھا شمع بیڈ پر نہیں تھی ۔ وہ سوچنے لگا کے رات کے اس وقت شمع کدھر جا سکتی ہے۔ وہ اُٹھا اور کمرے سے باہر آ گیا اُس نے کچن میں دیکھا لیکن شمع اُدھر نہیں تھی۔ پھر اُس کے ذہن میں کچھہ آیا اور وہ عاطف کے کمرے کی طرف آگیا ۔ عاطف کے دروازے کے پاس پہنچا تو اُس کو ہلکی سی بیڈ کی چرچراہٹ اور پچ پچ کی آواز آئی ۔ وہ سب سمجھ گیا اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا ۔
شمع عاطف کے ساتھ چدائی کرنے کے بعد اُس کے کمرے سے نکلی اُس نے جسم کے گرد وہی چادر واپس لپیٹی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچی تو باقر سو رہا تھا ۔ وہ سیدھی واش روم میں گئی اور اپنے کپڑے پہن کر آکر بیڈ پر لیٹ گئی ۔ پھر وہ سو گئی آج کئی مہینوں بعد اُس کو پرسکون نیند آئی تھی ۔
اگلے کچھہ دنوں میں گھر کے حالات بدلنے لگے شمع جو چپ رہنے لگی تھی واپس ہنسی اُس کے چہرے پر لوٹ آئی جس کو دیکھ کر بچے بہت خوش تھے عاطف نے بھی واپس کام شروع کر دیا تھا اور اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا تھا باقر بھی اپنے فیصلہ پر خوش تھا ۔ اُس کی ایک چپ نےاُن سب کی زندگیوں میں خوشیا ں لے آئی تھی وہ روز رات کو شمع کو عاطف کے کمرے میں جاتے دیکھتا تھا اور پھر واپسی پر شمع کے جسم سے نکلنے والی سکس کی مہک کو سونگھتا تھا لیکن اُس نے کبھی بھی شمع کو محسوس نہیں ہونے دیا تھا کے وہ سب کچھ جانتا ہے۔
734 notes
·
View notes