Tumgik
khodipk · 3 years
Text
پاکستان... 🇵🇰
ایک مضبوط نظریاتی ملک ھے
.. کسی کی کامیابیاں خود سے جوڑنے کی اسے کوئی ضرورت نہیں..
فلسطین... 🇵🇸
اس بار پوری قوم واقعا شرمندہ ھے
جو ھماری حیثیت تھی ھم وہ کر نہ پائے
.
فلسطین خدارا.... خدا سے شکایت نہ کرنا
Tumblr media
0 notes
khodipk · 3 years
Text
❤️حماس اور عالم اسلام کو نئی فتح مبارک❤️
۲۱ مئی ۲۰۲۱ء ، جنگ بندی کے بعد غزہ اور پورے فلسطین میں جشن فتح منایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں شکر کے سجدے ادا کئے گئے۔
گزشتہ کی طرح اس بار بھی جنگ بندی حماس کی ہی شرائط پرھوئی۔
اس بار اسرائیل اتنا کمزورھو گیا اور ڈر گیا، کہ زمینی حملہ نہ کرسکا، حماس نے واضح اعلان کردیا تھا، کہ زمینی حملے میں ھمیں اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے نادر مواقع ملیں گے۔ گزشتہ تمام بڑی جنگوں میں اسرائیل زمینی حملے بھی کرتا رھا، جیسے:
۲۰۰۶ کی حزب اللہ اسرائیل جنگ
۲۰۰۹ کی حماس اسرائیل جنگ
۲۰۱۴ کی حماس اسرائیل جنگ
یہ تمام جنگیں بھی مجاہدین ھی کی شرائط ماننے پر رکیں تھیں۔
اس بار ایک نئی پیش رفت یہ ھوئی کے ایک طرف تو غزہ کے میزائلوں سے تقریباً پورا اسرائیل لرز رھا تھا اور دوسری طرف اسرائیل فلسطینیوں سے اپنے شہروں میں ھی خانہ جنگی کا بھی شکار رھا، جس نے اس کے حوصلے مزید پست کر دئیے، حالانکہ اب جتنے مسلمان حکمران اسرائیل کے ساتھ تھے پہلے کبھی نہ تھے۔
اس بار بھی پوری اُمت کے دل حماس، اسلامی جہاد اور مقبوضہ فلسطین میں خانہ جنگی کے شکار مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے رھے جبکہ، حسب روایت اکثر مسلمان حکمران عالمی مفاد پرست ٹولے کے ساتھ ادھر اُدھر پھدک کر وقت ٹلاتے رھے، جبکہ اصل کام غزہ کو اسلحہ اور جنگی آسانیاں فراھم کرنا تھا۔
بہرحال اُمت کی کامیابی کا یہ ایک اور شاندار باب اپنی قیمتی قربانیوں اور تکلیفوں کے ساتھ مکمل ھوا، اب انشاء اللہ فلسطین کی مکمل آزادی اور اسرائیل کی مکمل نابودی تک ھمیں فلسطین کے مسلمانوں کو بھول نہیںں جانا چاھئے اور یک جان ھو کر اسی طرح انکے لیے اور کشمیر سمیت تمام مقبوضہ مسلمان علاقوں کے لیے اپنے موثر اقدام جاری رکھنے چاھئیں۔
تمام عالم اسلام کی کامیابی کیلئِے دُعا گو ھیں!
فلسطین زندہ باد
کشمیر زندہ باد
پاکستان زندہ باد
۔۔۔۔۔
تحریر: سید شہزاد کاظمی
۲۱ مئی ۲۰۲۱ء
Tumblr media
0 notes
khodipk · 3 years
Text
💝👑 ھنر اور خودی [۶]
کلام کے اس حصے میں، علامہ نے برصغیر کو مشرق کی اُمیدوں کا مرکز قرار دیا ھے، علامہ کا اس بات کو ھنر کے باب میں بیان کرنا بھی معنی خیز ھے، علامہ کے یہاں پیش کئے گئے نکات کا ھنر اور خودی سے کیا تعلق ھے ساتھ ساتھ اور بھی واضح ھوتا جائے گا ۔ ۔ ۔ تو پلٹتے ھیں کلام کے تیسرے اھم نکتے کی طرف:
۳۔ مشرق کی اُمیدوں کا مرکز برصغیر!💝👑
علامہ فرماتے ھیں:
خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ھے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ھے سیراب
برصغیر کے ذریعے مشرق [خاور] کو اور پھر مشرق کے ذریعے مغرب کو بھی بیدار کرنے کا راستہ علامہ نے اس کلام میں دکھایا اور اس شعر پر پہنچتے ھوئے کہا کہ کیونکہ "اقبال" کے اشکوں سے برصغیر کی خاک سیراب ھے، یہ اشک عملی طور پر بھی بہائے گئے اور پیام اقبال کی صورت میں بھی ھمیشہ برصغیر کو سیراب کرتے رھیں گے، اسی لیے برصغیر مشرق کی اُمیدوں کا مرکز ھے! علامہ کا قیام پاکستان کیلئے نظریاتی بنیاد فراھم کرنا اور عملی جہدوجہد کرنا، اس بات کا ثبوت بھی ھے کہ، پاکستان برصغیر کی بیداری کا فطری مرکز اور الہٰی انتظام ھے! آگے انشاء اللہ اسکی مزید وضاحت ھوگی ۔ ۔ ۔ علامہ کے ان انکشافات کو سمجھنے کیلئے چند سوالات کا جائزہ لینا ضروری ھے:
اس انکشاف کی وضاحت کیلئے بنیادی سوالات:👑
۱۔ کیا کسی عظیم شخصیت کا وجود، اسکی اشک ریزی اور جدوجہد کسی سرزمین کو اُمیدوں کا مرکز بنا سکتے ھیں؟
۲۔ کیا علامہ اقبال اس درجے پر فائز ھیں کہ انکے اشک، شہداء کے خون کی طرح قوموں کو بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتے ھوں؟
۳۔ کیا اس تاثیر اور زرخیزی کی کوئی مثال برصغیر سے پیش کی جا سکتی ھے؟
۴۔ کیا آج بھِی یہ تاثیر اور فیض برصغیر میں باقی ھے؟
علامہ کا کلام اور زندگی بار بار یہ انکشاف کرتے ھیں! 👑
سادہ زبان میں کہا جائے تو، علامہ نے برصغیر، یہاں کے مسلمانوں اور اپنے متعلق کوئی انہونی بات نہیں کی، نہ ھی یہ کوئی خیالی شاعری ھے اور نہ ھی خدانخواستہ، یہ علامہ کے کلام کا کوئی ناپختہ حصہ ھے! بلکہ یہ ایک نپی تلی بات ھے، جو علامہ کے کلام میں صرف یہاں ھی نہیں بلکہ جگہ جگہ الٹ پلٹ کر بیان کی گئی ھے، اسکی چند اور مثالیں بھی آگے پیش کی جائیں گی۔
صرف کلام اقبال سے ھی نہیں بلکہ علامہ کی عملی زندگی سے بھی یہ باتیں ثابت ھیں، علامہ نے یہاں کے مسلمانوں کو نکھارنے اور پاکستان کے نظریے سے لے کر قیام تک کیلئے، جو بے مثال جدوجہد کی اور یہاں بیداری کا مرکز قائم کرنے کیلئے جو نظریاتی بنیادیں فراھم کی ھیں، یہ ثبوت ھے کہ یہ باتیں عقلی اور الہٰی معیار کے عین مطابق ھیں اورعلامہ نے پہلے سے ھی موجود عملی حقیقت سے پردہ اٹھایا ھے اور اس نعمت کو مزید پروان چڑھانے کا الہٰی فریضہ دل و جان سے انجام دیا ھے! شاعری کے زور، تخیل کی پرواز یا علاقائی تعصب کی زد میں آ کر، خدا نخواستہ خود سے یہ باتیں نہیں گھڑ لیں!
خون، قلم، آنسو، کوشش اور ھنر کی تاثیر:👑
شہداء کا خون، قلم کی سیاھی، بصیرت و خلوص کے آنسو، جدوجہد کا پسینہ اور ھنرکے رنگ ۔ ۔ ۔ ھمیشہ انسانی معاشروں پر اثر انداز ھوتے آئے ھیں۔ ان سب چیزوں کا آپس میں بھی گہرا تعلق ھے! یہ ھو نہیں سکتا کہ کہیں شہید کا خون بہا ھو اور اسکے پیچھے فکر کی روشنی، مخلص آنسو، ھنر کی راہ گشائی اور جدوجہد کا پسینہ نہ موجود ھو! ان سب کا وجود ایک دوسرے سے جڑا ھوا ھے، البتہ انکی ترتیب آگے پیچھے اور مقدار ھر جگہ مختلف ھو سکتی ھے۔
عام طور پر درد دل سے چھلکتے آنسو ھی فکر و قلم کی روشنی میں ۔ ۔ ۔ ھنرمندانہ جدوجہد پر مجبور کرتے ھیں ۔ ۔ ۔ اس دوران حق و باطل کا ٹکراو ضرور واقع ھوتا ھے ۔ ۔ ۔ جس میں شہداء کا تصدیق شدہ خون اور غازیوں کا با برکت پسینہ، اس راہ کو نئی زندگی بخشتا ھے۔ دراصل قربانیوں اور کامیابیوں کا چولی دامن کا ساتھ ھے! جب تک بصیرت افروز قربانیاں جاری رھیں گی، پچھلی کامیابیاں بھی باقی رھتی ھیں اور اگلی کامیابیوں کے راستے بھی کھلتے رھتے ھیں۔
خدا کا قانون، "عظیم ھستیوں کے ذریعے نجات دینا":👑
مقدس وجود اگر عالم دنیا پر تاثیر نہ ڈالتے ھوتے تو کبھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں، سورۃ انبیاء کی آیت ۱۰۷ میں یہ نہ کہا جاتا:
"ومآ ارسلنٰک الّا رحمۃً للعٰلمین"
"اور نہیں بھیجا ھم نے تم کو، مگر عالمین کیلئے رحمت بنا کر"
کیا خدا کسی وجود کے بغیر عالمین پر رحمت بھیجنے پر قادر نہیں؟ ضرور قادر ھے، مگر خدا کی سنت اور نظام یہ ھے کہ، عظیم ھستیوں کو نجات دھندہ بنا کر بھیجتا ھے! رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ھمارے لیے حق کا معیار ھے، جو جتنا عشق و سیرت رسول اکرم میں ڈوبا ھو گا اتنا ھی اسکا وجود رحمت ھو گا۔ جس نے بھی اقبال کی طرح عشق و بصیرت رسول اکرم سے فیض پایا ھو، اسکے آنسو ھوں یا قلم کی سیاہی، شہداء کے خون کی طرح زمین کو زرخیز بنا سکتے ھیں۔
علامہ اقبال کے نظریاتی اشکوں کا فیض:👑
علامہ کے نظریاتی اشکوں نے خدا کے حکم سے برصغیر کو اور بھی زرخیز بنا دیا، اسی لیے علامہ کے کلام میں جگہ جگہ برصغیر اور یہاں کے مسلمانوں سے متعلق حقائق پیش کئے گئے ھیں، جیسا کہ بال جبریل میں فرماتے ھیں:
دیا اقبال نے ھندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا
اس شعر سے پہلے اسی کلام کے پہلے دو شعروں پر ذرا غور فرمائیے تو اس شعر کا مطلب اور ھماری گفتگو کا موضوع بہت واضح ھو جائے گا:
مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رھرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی
کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا
ذرا ٹھہرئیے! مت گھبرائیے! ھم جل�� ھی اصل موضوع کی طرف پلٹ آئیں گے!
سورۃ مزمل میں فیض رسانی کا اھم طریقہ:👑
جہاں تک ان " آہ و فغان نیم شب" والے شعروں کا تعلق ھے تو انکی بنیاد قرآن میں سورۃ مزمل کی آیات ۲ تا ۶ میں یوں بیان کی گئی ھے:
"رات کو نماز میں کھڑے رھا کریں" ، " آدھی رات، یا اس سے بھی کچھ کم کر لیا کیجئے" ، "یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا لیجئے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجئے" ، "بہت جلد ھم آپ پر ایک بھاری کلام اُتارنے والے ھیں"، "بیشک رات کا اُٹھنا دل جمعی کیلئے انتہائی مناسب ھے اور بات کو بہت سیدھا کر دینے والا ھے"
ان آیات کی روشنی میں یہ مطلب بالکل واضح ھے کہ جب بھی خدا نے کوئی بڑی ذمہ داری دینی ھوتی ھے تو رات کو اُٹھ کر نفس کو رام کرنے کیلئے، عبادت اور غورو فکر کا پیام دیتا ھے!
اس طرح انسان سختیوں کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ھے، اسکی باتیں سیدھی ھو جاتی ھیں اور یہ تیغ بے نیام بن جاتا ھے۔
اب پلٹتے ھیں "تن آسانی" والے شعر کی طرف:
دیا اقبال نے ھندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا
اقبال فرماتے ھیں کہ میں نے بھی جسمانی آسانیاں چھوڑ دیں ھیں اور برصغیر [ھند] کے "تن آسان" مسلمانوں کے لیے بھی یہ راستہ کھول دیا، یوں اپنا سوز اور بھاری کلام انکے حوالے کیا! تاکہ یہ لوگ اس کلام کو سمجھنے کے قابل ھو سکیں۔ ۔ ۔ دوسرے لفظوں میں وھی بات ، کہ برصغیر کو مشرق کی اُمیدوں کا مرکز بنانے کے قابل ھو سکیں۔
برصغیر کی تاریخ میں پوشیدہ "شراب حقیقت":👑
لبریز ھے شراب حقیقت سے جام ھند
سب فلسفی ھیں خطہ مغرب کے رام ھند
[بانگ درا، رام]
یہاں دو اور اھم باتیں سمجھنے والی ھیں، ھم یہاں صرف اشارہ کر سکتے ھیں، باقی تحقیق آپ نے خود کرنی ھے۔ ایک یہ کہ برصغیر جیسی "شراب حقیقت" سے لبریز سرزمین پر پیدا ھونے والی، اپنے زمانوں کی "با معرفت شخصیات" کو بت پرست مافیا نے قبضا لیا اور پھر انتہائی نادانی سے کام لیتے ھوئے، انہی کے نام پر شرک و بت پرستی کا بازار گرم کر دیا! افسانوں کی تاریکی میں انکی اصلیت اور روشن چہرہ، کہیں کھو گیا ھے۔
دوسرے یہ کہ اس مشرکانہ کھیل کی زد میں آنے کے باوجود، ان قصوں سے معرفت اور فلسفے کے ایسے جام چھلکتے ھیں، جن سے مغرب کے فلسفی بھی متاثر ھوئے بغیر نہیں رہ سکے، حالانکہ آج اھل مغرب کو سب سے زیادہ منطقی اور فلسفی بنا کر یش کیا جاتا ھے، مگر حقیقت یہ ھے کہ، انہوں نے فیض برصغیر سے حاصل کیا، جسے پھر اپنے طریقے سے نئی قسم کی غلاظتوں میں لپیٹ کر پیش کیا۔
بلاد اسلامیہ میں برصغیر کا مقام:👑
اُمت اسلامی کو جغرافیہ کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا، ھم سب ایک ھیں! سب ھی مسلمان سرزمینں ایک سے بڑھ کر ایک ھیں، ایک جگہ علامہ اسلامی سرزمینوں کی خاصیتوں پر انکے نام لے لے کر روشنی ڈالتے ھیں، اور پھر برصغیر پر پہنچتے ھیں تو یوں فرماتے ھیں:
ھے اگر قومیتِ اسلام پابندِ مقام
ھند ھی بنیاد ھے اسکی، نہ فارس ھے، نہ شام
[بلاد اسلامیہ، بانگ درا]
علامہ وطن پرستی کو بت پرستی سمجھتے ھیں، مگر یہاں موجودہ مسائل کی روشنی میں اس سرزمین کی اھمیت پر روشنی ڈالنے کیلئے برصغیر کو ان الفاظوں سے یاد کیا ھے۔ خلاصہ پھر وھی کہ "مشرق کی اُمید کا مرکز برصغیر ھے"، اسی لیے یہاں کے مسلمانوں کے ذریعے برصغیر کو اسکے اصلی مقام پر لانا چاھتے ھیں، اسی لیے اپنی زندگی میں مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن بنانے کی راہ دکھائی، اسکا انتظام کیا اور قائد اعظم جیسی با بصیرت اور نہ جھکنے والی، نہ بکنے والی اور نہ تھکنے والی شخصیت کو اس مقصد پر ابھارا اور اس سرزمین کیلئِے ھمیشہ لہوگرما دینے کا انتظام کرنے کے بعد اس دنیا سے سرخرو ھو کر رخصت ھوئے۔
برصغیر کے ھنرمندوں کو اقبال کا مشورہ:👑
اوپر ذکر شدہ نظریاتی اور عملی حقیقت کو مزید تقویت بخشنے کیلئے ۔ ۔ ۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے ھنر مندوں کو مشورہ دیا کہ ۔ ۔ ۔ مغربی تہذیب کے "شیشہ گر" ھنر سے دور رھیں ۔ ۔ ۔ اور برصغیر ھی کی "سفال" یعنی یہاں کی مٹی اور سرزمین سے معرفت کے جام بہانے کا ھنر زندہ کریں:
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ھند سے مینا و جام پیدا کر
[بال جبریل، جاوید کے نام]
باقی رہ گئی یہاں کے ھنر مندوں کیلئے موجود سیاہ رات کے خطرات والی بات ۔ ۔ ۔ تو وہ آگے انشاء اللہ مزید بیان ھو گی۔
جاری ھے ۔ ۔ ۔
تحریر: سید شہزاد کاظمی
۴ اپریل ۲۰۲۱ء
Tumblr media
0 notes
khodipk · 3 years
Text
💝👑 ھنر اور خودی [۳]
ضرب کلیم میں ھنر سے متعلق ایک باب بنام "ادبیات فنون لطیفہ" ھے، اس پر اور جہاں بھِی حکیم اُمت نے ھنر و فن کا ذکر کیا ھے، اس پر ضرور غور و فکر فرمائیے؛
👑 مغرب و مشرق کا ھنر مندانہ موازنہ:
"ادبیات فنون لطیفہ" سے مشرق اور مغرب کی سرزمینوں کا ایک موازنہ پیش کرتے ھیں:
اک شور ھے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھویں سے ھے سیہ پوش
مشرق نہیں گو لذّت نظّارہ سے محروم
لیکن صفت عالم لاھوت ھے خاموش
[ضرب کلیم، ادبیات فنون لطیفہ، شعاع اُمید ۲]
👑 مشینی دھویں کی کالس کا سفر:
مشین بُری نہیں، بلکہ اسکے دھویں کی زد میں آ کر کالا سیاہ ھو جانا غلط ھے۔
علامہ نے بڑی زبردست مثال سے مغرب کے ھنرمندوں کے سیاہ چہرے کی بھی وضاحت کی اور اھل مغرب اور انکی تہذیب کو بھی آئینہ دکھایا۔
مشینوں کی یہ کالس کیسے سفر کرتی ھے؟ کالس سے لبریز مشینی ترقی نے بہت سی چیزیں بدل ڈالیں، دستی ھنرمندوں نے اپنا رُخ مشینیں بنانے اور ان پر فٹافٹ کام نمٹانے کی طرف موڑ لیا، صنعت کاروں کو مشینوں کی وجہ سے دھڑا دھڑ تولید ملنے لگی، تو ان ضرورت سے زیادہ "مصنوعات کے انبار" بیچنے کا ایک نیا مسئلہ کھڑا ھو گیا، کیا کریں اتنی تولید کا؟ بالآخر ایک نیا ھنر ایجاد ھوا، جسکا کام لوگوں کو اُن چیزوں کی لت لگانا ھے، جسکی انہیں کوئی ضرورت نہیں، یا اس سے بھی بڑھ کر یہ انکے لیے نقصان دہ بھی ثابت ھو سکتی ھوں۔
👑 صحیح وغلط چھوڑیں، دھڑا دھڑ بنائیں اور بیچیں:
اب آپ جو چاھے صحیح وغلط بنائیں، بس ایجنٹ چھوڑ دیں جو ایسے "ڈسٹری بیوٹر" تلاش کریں، کہ وہ آپکی چیزیں خرید کر اپنے "مارکیٹ بازوں" کے ذریعے گلی گلی پہنچا دیں! دلچسپ بات یہ ھے کہ، ایک ڈبہ نما آلہ ھر گھر میں پہلے سے ھی موجود ھے، جو ھر وقت کانوں میں ان مصنوعات کا زھر گھولتا رھے گا، احتیاطاً ایک چھوٹی ڈبی بھی ھر کسی کے ھاتھ میں تھما دی گئی ھے، یہ بھی ھر کام کے دوران، ٹانگ اڑا اڑا کر چیزوں کے اشتہار چلاتی رھے گی۔
مشینی دور نے روزی روٹی کی ایسی دوڑ شروع کروائی کہ، صحیح وغلط کی تمیز چھین لی، آپ کو کیا بیچنا چاھئے یا کیا خریدنا چاھئے، اسکا تعین اب آپ نہیں کر سکتے! بلکہ یہ تعین، مشینوں کے دھویں سے اٹے ھوئے "کالے سیاہ باطن والے" صنعت کار اور سرمایہ کار کریں گے، وہ بھی کالے کرتوتوں والی فرعونیت کے تعاون سے! ۔ ۔ ۔ کہ کب کیا خریدیں، کیا بیچیں، لوٹ سیل میں کیا لوٹنے کیلئے کیا داو پرلگا دیں ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ
مغربی تہذیب نے کیا خوب مشنیوں کا استعمال نکالا!
مشینوں کی مدد سے شراب خانے، جوا خانے، ڈانس کلب، فلمی صنعت، آدم کشی، جاسوسی، جنسی صنعت اور نہ جانے کون کون سے غیر انسانی شعبوں کے آلات بڑے پیمانے پر بنانے اور پھیلانے کو ترقی کا معیار سمجھنے لگی! اسی لیے اب اس سیاہ پوش سرزمین پر اجالا ممکن نہیں، کیونکہ انسانی فلاح کے معیار ھی اس نے اپنے لیے اُلٹا لئے ھیں۔
👑 مشرق کا ھنر مند اگر خودی کو پا لے؟
البتہ مشرق میں اُمید کی ایک کرن موجود ھے، اگر چل نکلی تو اسکا اُجالا مغرب تک بھی پہنچایا جا سکتا ھے، علامہ اسکا اشارہ یوں فرماتے ھیں:
مشرق نہیں گو لذّت نظّارہ سے محروم
لیکن صفت عالم لاھوت ھے خاموش
مشینوں کے دھویں کی "کالی کاربن" انسان کو اپنے اندر جھانکنے سے روک دیتی ھے، لیکن مشرق ابھی تک مکمل طور پر "اندرونی نظارے کی لذّت" سے محروم نہیں ھوا، بس ھماری "عالم لاھوت" میں جھانکنے والے روحانی صفت ذرا سوگئی ھے۔ ھم اپنی فطرت، ضمیر، خودی، روح، الہٰی پیغامات یا جو بھی نام دے لیں، ان سے ذرا غافل ھو گئے ھیں، کیونکہ دھواں چھوڑنے والی مشینیں، اپنی زد میں آنے والے کا منہ تو ضرور کالا کرتی ھیں، ساتھ ساتھ انکی چکا چوند، آنکھوں کو بھی خیرہ کر دیتی ھے! اب ان چندھیائی ھوئی آنکھوں سے باطن کا شفاف نظارہ ھو نہیں پاتا۔
مشرق کا ھنرمند اگر خودی کی طرف پلٹ آئے اور اپنے اندر جھانکنا شروع کردے تو اپنے ھنر سے پورے مشرق کو ضمیر کی طرف پلٹا سکتا ھے، یہ ضمیر و باطن کا "خودی سے لبریز" نظارہ ھمیں "افکار تازہ" تک پہنچائے گا، جن سے ھم باھر کی دنیا کو بھی "جہان تازہ" میں بدل دیں گے۔ اسکا ذکر پچھلی قسط میں ھو چکا ھے۔
👑 اقبال کی سرزمین کو خدا نے کیا ذمہ داری بخشی؟
بات سمجھانے کیلئے، علامہ اقبال نے زمین کو مغرب اور مشرق میں تقسیم کیا، اور حل بتایا کہ مشرق ھی اب مغرب کو بھی زندہ کر سکتا ھے، جسکے لیے مشرق کو خود زندہ ھونا پڑے گا، اب مشرق کو زندہ کرنے کیلئے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک اور انوکھی بات کہی، ایک روشنی کی کرن کی زبان میں فرماتے ھیں کہ:
چھوڑوں گی نہ میں ھند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اُٹھیں خواب سے مردان گراں خواب
خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ھے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ھے سیراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ھے برھمن
تقدیر کو روتا ھے مسلماں تہِ محراب
مشرق سے ھو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ھے، کہ ھر شب کو سحر کر!
[ضرب کلیم، ادبیات فنون لطیفہ، شعاع اُمید 3]
برصغیر کی سرزمین کو علامہ پورے مشرق کی بیداری کا مرکز قرار دے رھے ھیں، برصغیر کو علامہ کے دور میں "ھند" سے تعبیر کیا جاتا تھا، اب اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت معرض وجود میں آ چکے ھیں!
پہلے یہاں علامہ کے ذکر کردہ چند نکات کی ضروری فہرست پیش کرتے ھیں، پھر اسکی کچھ وضاحت! کہ علامہ اصل میں برصغیر کی بیداری، اسکے ذریعے مشرق کی بیداری اور پھر مشرق کے ذریعے مغرب سمیت "پورے عالم کی بیداری کا کلیہ" کس طرح پیش کر رھے ھیں!
ضروری نکات یہ ھیں:
۱۔ ھند [برصغیر] کی تاریک فضا
۲۔ مردان گراں خواب کی بیداری
۳۔ مشرق کی اُمیدوں کا مرکز برصغیر، کیونکہ یہ اقبال کے اشکوں سے سیراب ھے
۴۔ ھندو بت پرستی کی وجہ سے محو خواب ھے
۵۔ مسلمان بیدار، مگر محراب میں تقدیر کا رونا رو رھا ھے
۶۔ مشرق و مغرب کی ھر رات کو سحر کرنا ھے
انشاء اللہ آئندہ ان نکات کا جائزہ پیش کریں گے، خلاصہ یہ کہ برصغیر میں خودی کے حامل ھنرمندوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ھوتی ھے اور اسکا فطری انحصار پاک سرزمین یعنی اقبال کی سرزمین کے شاھین ھنر مندوں پر ھو گا۔
جاری ھے ۔ ۔ ۔
تحریر: سید شہزاد کاظمی
۱۹ مارچ ۲۰۲۱ء
Tumblr media
0 notes
khodipk · 4 years
Text
علم خودی جب انسان کا اصلی روپ لوگوں کے سامنے لاتا ھے تو یہی وقت کھوٹے اور کھرے انسان کی پہچان کا ھوتا کون اسے دیکھ کر اپنی اصلاح کرتا ھے، کون پریشان ھوتا ھے اور کون ھٹ دھرمی کا مظاھرہ کرتے ھوئےانسان کی اصلی نمائش کو روکنے کی کوششیں شروع کر دیتا ھے...
Tumblr media
0 notes
khodipk · 4 years
Text
بھارتی تمدن ھر طرف سے تاریکیوں میں گھرا ھوا ھے. آج بھارتی مسلمانوں پر ھونے والے ظلم، کشمیر کی آزادی اور پاکستان کو مغربی اور بھارتی تہذیبوں کی تاریکیوں سے بچانے کیلئے باھم میدان میں آنا ھو گا.
Tumblr media
0 notes
khodipk · 4 years
Text
Tumblr media
جس انسان کو ھم صرف چند کلو مٹی سمجھتے ھیں اسکے ہاتھ سے ایک چنگاری سورج جیسی روشنی پیدا کر سکتی ھے..... ایک ایک فرد کا ھنر نیا اور منفرد جہان پیدا کرسکتا ھے.... مفت میں ملنے والی جنت کے آپ کبھی مالک نہیں بن سکتے... اپنے خون پسینے سے اپنی جنت خود پیدا کریں... مسلسل کوشش سے مٹی کے ڈھیر دنیا کو جنت میں تبدیل کر دیں...
1 note · View note