Tumgik
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
شوقِ سفر (تڑپ و طلب) 
مسافر کے لیے ضروری ہے کہ جو اسے راہِ حق پہ چلنے شوق عطا ہوا ہے وہ اسے ہمیشہ بیدار رکھے. اس سفر پہ اس کی سواری اس کا شوق ہوگا. اس کے اندر کی طلب و تڑپ ہی اسے اس راستے پہ استقامت عطا کرے گی، ورنہ اس راہ میں قدم قدم آزمائش ہے. اور اگر اندر کی طلب میں یا تڑپ میں کمی ہوگی تو وہ آگے نہیں بڑھ سکے گا.
اندر کی تڑپ ہی مسافر کو چلائے رکھتی ہے. وہ حق تعالیٰ کے قریب سے قریب تر ہونا چاہتا ہے. اس کی طلب ہمیشہ محبوبِ حقیقی کے قرب میں آگے بڑھنے کی ہوتی ہے، وہ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتا رہتا ہے کہ مجھے اور قریب ہونا ہے. یہی چیز اسے مسلسل قرب میں لے جا رہی ہوتی ہے. وہ کسی ایک مقام پہ اکتفا نہیں کرتا.  جو بھی اس پہ عطا ہوتی ہے وہ اسے قبول کرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے اس عطا یا اس مقام میں مطمئن ہو کر الجھتا نہیں ہے. وہ تو مسافر ہے اس کا کام ہی سفر ہے. سفر ہی سفر...... 
اس سفر کی جتنی چیزیں ہیں چاہے عبادت ہے، ذکر ہے، فکر ہے، مراقبات ہیں، تزکیہ نفس ہے، سب کچھ اس کی اندر کی تڑپ و طلب کی وجہ سے ہی ممکن ہوگا. اس کا شوق اس سے سب کرواتا رہے گا. اگر شوق ہی مدھم ہو جائے تو پھر کوئی بھی عمل ممکن نہیں ہوتا مشکل ہو جاتا ہے اور بوجھ ہی محسوس ہوتا ہے. اور ایسا عمل قابل قبول بھی نہیں ہوتا چاہے جس مقدار میں کیا جائے. محبت میں کیا ہوا چھوٹا سا عمل بغیر محبت کے زیادہ مقدار کے عمل پہ فوقیت رکھتا ہے. 
سو جہاں کہیں محسوس ہو شوق میں کمی آرہی ہے یا تڑپ کی شدت میں کمی ہو تو فوراً رجوع کرے اپنے مرشد، استاد یا راہنما سے. توبہ کرے. اللہ سے طلب کرے، رو رو کر مانگے گڑگڑا کر مانگے، اللہ سے کرم و فضل و مانگے.
 یہی اس کا کل اثاثہ و سرمایہ ہے جب یہ نہ رہا تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا.
اللہ ہم سب کے جذبہ محبت کو برقرار رکھے. آمین
Tumblr media Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
Tumblr media
0 notes
marfatillahi · 2 years
Text
یہ تحریر ان سالکین کے لیے ھے جو کئی سالوں سے کسی شیخ کی نسبت سے بندھے ہوئے ھیں مگر آج تک کوئی منازل سلوک طے نہ ہوئی ۔ ۔۔۔نہ ہی ان کے شیخ نے انہیں اسباق طریقت سے نوازا ۔۔۔ان سالکین کے دل ابھی تک بند ھیں وہ اللہ کریم کی تجلیات انوارات نہ دیکھ سکتے ھیں نہ محسوس کر سکتے ھیں   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہم آپ کو اپنے جسم میں اللہ کا وہ فطری ذکر اور اسکے ذرائع /روحانی ادراک بحال کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جس سے روح کو توانائی / محبت ملے گی اور ذکر آپ کو رگ وریشہ میں محسوس ہو گا۔ شیطان کے ڈالے ہوئے اندھیرے/ظلمتیں ختم ہو جائیں گیں اور معرفت الہی کے نور سے پورا جسم، ہڈی، ماس، بال بال مزین ہو جائے گا۔اللہ اور اسکے پیارے حبیبﷺ کی محبت کو لازوال رفعتیں نصیب ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ۔ ہماری تگ ودو روحانی ادراک بحال کرکے عین الیقین والا ایمان حاصل کرنے کی ہے۔ جس کو ہم *ذکر و مراقبہ* کہہ کر سکھا رہے ہیں. وہ دراصل گواہی (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوْا بَلٰىۚ) ہے, جو دل اور روح میں ہمہ وقت جاری ہے۔ اسی کو recall کیا جاتا ہے تاکہ ایمان کا اعلی مرتبہ حاصل ہو۔ طریقہ بہت آسان ہے، دیر ہی نہیں لگتی اور دل اللہ اللہ کرنے لگتا ہے۔ ”
Tumblr media
1 note · View note