میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشان سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے
میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے
پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں
تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں
تیرے ہاتھوں کی حرارت ترے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈتی رہتی ہیں تخئیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں
تیرا الطاف و کرم ایک حقیقت ہے مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو
کون جانے مرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں
میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو
میرا حاصل میری تقدیر بتا دے مجھ کو
- ساحر لدھیانوی
7 notes
·
View notes
Tum Aey ho Na Shab E Intezar Guzri Hai
Talash me Hai Sehar Bar Bar Guzri Hai..
9 notes
·
View notes
میری بربادیاں درست مگر
تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا
- جگر مراد آبادی
merī barbādiyāñ durust magar
tū batā kyā tujhe savāb huā
- Jigar Moradabadi
20 notes
·
View notes
Asalam Alikum bahot khubb intkhawab posts ka pasandida
shukriya janab!
0 notes
ہم تھے، ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
ایسا حسین دن کہیں دیکھا سُنا نہ تھا
آنکھوں میں اُس کی تَیر رہے تھے حیا کے رنگ
پلکیں اُٹھا کے میری طرف دیکھتا نہ تھا
کُچھ ایسے اُس کی جِھیل سی آنکھیں تھیں ہر طرف
ہم کو سوائے ڈوبنے کے راستہ نہ تھا
ہاتھوں میں دیر تک کوئی خُوشبو بسی رہی
دروازہ چمن تھا وہ بندِ قبا نہ تھا
اُس کےتوانگ انگ میں جلنے لگے دِیے
جادُو ہے میرے ہاتھ میں مجھ کو پتا نہ تھا
اُس کے بدن کی لَو سے تھی کمرے میں روشنی
کھڑکی میں چاند، طاق میں کوئی دِیا نہ تھا
کل رات وہ نگار ہُوا ایسا مُلتفت
عکسوں کے درمیان، کوئی آئنہ نہ تھا
سانسوں میں تھے گلاب تو ہونٹوں پہ چاندنی
ان منظروں سے میں تو کبھی آشنا نہ تھا
رویا کچھ اس طرح مِرے شانے سے لگ کے وہ
ایسے لگا کہ جیسے کبھی بے وفا نہ تھا
ہے عِشق ایک روگ، محبّت عذاب ہے
اِک روز یہ خراب کریں گے، کہا نہ تھا
امجد وہاں پہ حد کوئی رہتی بھی کِس طرح
رُکنے کو کہہ رہا تھا مگر روکتا نہ تھا
امجد اسلام امجد -
9 notes
·
View notes
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟؟
درد ہے،، درد بھی قیامت کا،،،
یار،، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے،،،
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟؟
اک نظر کیا اٹھی،، کہ اس دل پر،،،
آج تک بوجھ ہے مروّت کا،،،
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر،،،
فیصلہ عقل کی حمایت کا،،،
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے،،،
میں بھی کردار ہوں حکایت کا،،،
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟؟
قتل کر دیجیئے روایت کا،،،
نہیں کھُلتا یہ رشتۂِ باہم،،،
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں،،،
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب،، کہ وقت،،،
اب زیادہ نہیں عیادت کا،،،
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا،،،
کسرِ نفسی سے کام مت لیجیئے،،،
بھائی یہ دور ہے رعونت کا،،،
مسئلہ میری زندگی کا نہیں،،،
مسئلہ ہے مری طبیعت کا،،،
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں،،،
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے،،،
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا،،،
رات بھی دن کو سوچتے گزری،،،
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں،،،
دیکھ احوال میری وحشت کا،،،
صبح سے شام تک دراز ہے اب،،،
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا،،،
وہ نہیں قابلِ معافی،، مگر،،،
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں،،،
مرتبہ درد کی فضیلت کا،،،
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے،،،
آنکھ پر بار ہے امانت کا،،،
اک تماشا ہے دیکھنے والا،،،
آئینے سے مری رقابت کا،،،
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش،،،
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا،،،
ایک تو جبر اختیار کا ہے،،،
اور اک جبر ہے مشیّت کا،،،
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ،،،
خود نمائی کی اِس نحوست کا،،،
جز تری یاد کوئی کام نہیں،،،
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید،،،
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا،،،
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان،،،
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
"- عرفان ستار
5 notes
·
View notes
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
- راحت اندوری
6 notes
·
View notes
اک ٹیس بہ مشکل تھم تھم کر اشکوں کی زباں تک پہنچی ہے
معلوم نہیں بربادئ دل پہنچی تو کہاں تک پہنچی ہے
بے تابیٔ غم بڑھتے بڑھتے کیا زخم نہاں تک پہنچی ہے
ہر درد نظر میں ابھرا ہے ہر سانس فغاں تک پہنچی ہے
کتنے تو فریب منزل میں احساس طلب تک کھو بیٹھے
حالانکہ ابھی دنیائے نظر منزل کے نشاں تک پہنچی ہے
کیا چارۂ درد محرومی آنے کو ہزار آ جائے ہنسی
یہ چوٹ ذرا سی چوٹ سہی پھر بھی دل و جاں تک پہنچی ہے
حالات سے کچھ ہٹ کر بھی کبھی حالات سمجھنے پڑتے ہیں
لیکن یہ متاع دور رسی کچھ دیدہ وراں تک پہنچی ہے
کتنے ہی غموں کو دنیا نے دے دی ہے زباں افسانوں کی
بربادیٔ اہل دل لیکن کب شرح و بیاں تک پہنچی ہے
اب تک ہے فغان نیم شبی محروم اثر تو رہنے دو
کیا کم ہے یہی آواز شکست دل تو وہاں تک پہنچی ہے
ممکن ہے کہ شوقؔ اب وہ خود بھی تسکین تمنا دے نہ سکیں
پردے میں ہنسی کے پوشیدہ فریاد یہاں تک پہنچی ہے
- خواجہ شوق
4 notes
·
View notes
شبنم نے رو کر جی ذرا ہلکا کر لیا
غم اسکا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے
-سلام سندیلوی
-
Shabnam ne ro kar jee zara halka kar liya
Gham uska pochiye jo na ansoo baha sake
-Salam Sandehlvi
21 notes
·
View notes
دل کو ﭘﺎﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ
ﮬﻢ ﭘُﮑﺎﺭ ﺁﺋﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﺎﺭﻭﺍﮞ ﮐﺎﺭﻭﺍﮞ
ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﻧﺎﺯ ﺳﮯ ﺍﻧﺠﻤﻦ ﺍﻧﺠﻤﻦ
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻧﺎﺯ ﺳﮯ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ
ﻟﮯ ﺍُﮌﯼ ﮬﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑُﻮﺋﮯ ﺯُﻟﻒِ ﺳِﯿﮧ
ﯾﮧ ﮐُﮭﻠﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺑﻮﺳﺘﺎﮞ ﺑﻮﺳﺘﺎﮞ
ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﭘُﮑﺎﺭﺍ ﮐﺮﻭﮞ
ﺭﮨﮕﺰﺭ ﺭﮨﮕﺰﺭ، ﺁﺳﺘﺎﮞ ﺁﺳﺘﺎﮞ
ﯾﺎﺩ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﻝ ﻧﺸﯿﮟ ﺩﻝ ﻧﺸﯿﮟ، ﺟﺎﮞ ﺳﺘﺎﮞ ﺟﺎﮞ ﺳﺘﺎﮞ
ﻋِﺸﻖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ، ﻏﺮﺽ، ﮐﭧ ﮔﺌﯽ
ﻏﻤﺰﺩﮦ ﻏﻤﺰﺩﮦ ، ﺷﺎﺩﻣﺎﮞ ﺷﺎﺩﻣﺎﮞ
- فراق گورکھپوری
6 notes
·
View notes
ترے لبوں پر جو سچ سجا ہے تو پھر یہ سر کیوں جھکا ہوا ہے؟
تُو مان چاہے نہ مان تجھ سے کوئی نہ کوئی گنہ ہوا ہے!
تُو میرے شبدوں کی آہ بارے جو پوچھتا ہے تو آج سُن لے!
یہ درد میں نے نہیں بنایا، مجھے کہیں سے عطا ہوا ہے!
- زین شکیل
7 notes
·
View notes
by Akhil Katyal
6K notes
·
View notes
یہ کس نے باغ سے اس شخص کو بلا لیا ہے
پرند اڑ گئے پیڑوں نے منہ بنا لیا ہے
اسے پتا تھا میں چھونے میں وقت لیتا ہوں
سو اس نے وصل کا دورانیہ بڑھا لیا ہے
یہ رات نام نہیں لے رہی تھی کٹنے کا
چراغ جوڑ کے لوگوں نے دن بنا لیا ہے
درخت چھاؤں سے ہٹ کر بھی اور بہت کچھ ہے
یہ کیسی چیز تھی اور ہم نے کام کیا لیا ہے
کھرچ رہا ہوں میں دیوار پر لکھے ہوئے نام
عجیب طرح کی اک بے بسی نے آ لیا ہے
- تہذیب حافی
5 notes
·
View notes
شبنم نے رو کر جی ذرا ہلکا کر لیا
غم اسکا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے
-سلام سندیلوی
-
Shabnam ne ro kar jee zara halka kar liya
Gham uska pochiye jo na ansoo baha sake
-Salam Sandehlvi
21 notes
·
View notes
اب یہ عالم ہے کہ جس شے پہ نظر جاتی ہے
ہو بہ ہو آپ کی تصویر نظر آتی ہے
خود کو تاریخ کسی وقت جو دہراتی ہے
میرے حالات پہ دنیا کو ہنسا جاتی ہے
یادِ ایامِ بہاراں بھی نہیں وجہِ سکوں
اب تو تزئینِ قفس ہی مجھے بہلاتی ہے
برق بن بن کے گری ہے مرے دل پر اکثر
وہ تجلی جو سرِ طور نظر آتی ہے
آج کچھ ان کی توجہ میں کمی پاتا ہوں
زندگی موت سے دوچار ہوئی جاتی ہے
دل بھر آتا ہے مرا دیکھ کے نَم آنکھ کوئی
اپنے رونے پہ تو اب مجھ کو ہنسی آتی ہے
میں وہ اک ننگِ زمانہ ہوں ازل ہی سے رئیس
زندگی ہے کہ مرے نام سے شرماتی ہے
- رئیس نیازی
9 notes
·
View notes
" تصّور "
یہ کس طرح یاد آ رہی ہو؟
یہ خواب کیسا دِکھا رہی ہو؟
کہ جیسے سَچ مُچ
نگاہ کے سامنے کھڑی مُسکرا رہی ہو؟
یہ جِسمِ نازک، یہ نرم بانہیں
حَسین گردن، سِڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سَلونی رنگت
گھنیرا جُوڑا، سیاہ گیسُو
نشیلی آنکھیں، رَسیلی چِتون
دراز پلکیں، مَہین ابرُو
تمام شوخی، تمام بجلی
تمام مَستی، تمام جادُو
ہزاروں جادُو جگا رہی ہو
یہ خواب کیسا دِکھا رہی ہو؟
گلابی لب، مُسکراتے عارِض
جبیں کُشادہ ،بلند قامت
نگاہ میں بجلیوں کی جِھلمِل
اداؤں میں شبنمی لطافت
دَھڑکتا سینہ، مَہکتی سانسیں
نَوا میں رَس، اَنکھڑیوں میں اَمرت
ہمہ حَلاوت، ھمہ مَلاحت
ہمہ ترنم، ہمہ نزاکت
لچک لچک گُنگنا رہی ہو
یہ خواب کیسا دِکھا رہی ہو؟
- کیفی اعظمی
31 notes
·
View notes
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اِک چراغ بُجھتا ہے، اَک چراغ جلتا ہے
شرطِ غم گُساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دُور دُور رہتا ہے ساتھ ساتھ چلتا ہے
سوچتا ہوں آخر کیوں روشنی نہیں ہوتی
داغ بھی اُبھرتے ہیں چاند بھی نکلتا ہے
کیسے کیسے ہنگامے اُٹھ کے رہ گئے دل میں
کُچھ پتہ مگر اُن کا آنسوؤں سے چلتا ہے
وہ سرودِ کیفِ آگیں سوزِ غم جسے کہیے
زندگی کے نغموں میں ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتا ہے
- رساؔ چغتائی
13 notes
·
View notes