Tumgik
#جنگل کا قانون نافذ
akksofficial · 2 years
Text
ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حماد اظہر
ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حماد اظہر
لاہور (نمائندہ عکس) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے کہا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی دفتر میں توڑ پھوڑ پر کارکنوں نے مزاحمت کی، نذیرچوہان کی سربراہی میں دفتربند کرنے کا کہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سازش کے تحت ملک پر مسلط کیے گئے، ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rabiabilalsblog · 2 months
Text
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
6 notes · View notes
classyfoxdestiny · 2 years
Text
'اگر ہم پکڑے گئے تو میں جیل نہیں جاؤں گا': گرل فرینڈ نے سواری کے دوران مشتبہ اوبر قاتل کیلون کریو کو ٹیکسٹ کیا #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a7%da%af%d8%b1-%db%81%d9%85-%d9%be%da%a9%da%91%db%92-%da%af%d8%a6%db%92-%d8%aa%d9%88-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ac%db%8c%d9%84-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba-%d8%ac%d8%a7%d8%a4%da%ba-%da%af%d8%a7-%da%af/
'اگر ہم پکڑے گئے تو میں جیل نہیں جاؤں گا': گرل فرینڈ نے سواری کے دوران مشتبہ اوبر قاتل کیلون کریو کو ٹیکسٹ کیا
Tumblr media Tumblr media
مبینہ کی گرل فرینڈ اوبر پولیس کا کہنا ہے کہ قاتل کیلون کریو کو کرسٹی سپیکوزا کے قتل کے سلسلے میں ممکنہ مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔
محترمہ سپیکوزا، چار بچوں کی ماں، اس کی زندگی کے لئے درخواست کی مسٹر کریو کے ذریعہ مبینہ طور پر سر کے پچھلے حصے میں گولی مارنے سے پہلے اور منروویل کے جنگل والے علاقے میں پھینک دیا گیا تھا، پنسلوانیاحکام کا کہنا ہے کہ 10 فروری کو۔
پولیس نے 22 سالہ نوجوان پر فرد جرم عائد کی۔ قتل عامڈکیتی اور شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ڈیش بورڈ کیمرہ فوٹیج حاصل کرنے کے بعد جس میں 38 سالہ محترمہ اسپیکوزا کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا تھا: “میں آپ سے التجا کر رہا ہوں، میرے چار بچے ہیں”۔
محترمہ سپیکوزا کو 11 فروری کو لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی جب وہ اپنی شفٹ سے گھر واپس نہیں آئی تھیں، اور اگلے دن ان کی لاش ملی تھی۔
پولیس کو اس کا فون، گاڑی اور ڈیش بورڈ کیمرہ گریٹر پِٹسبرگ کے علاقے میں الگ الگ جگہوں پر ملے، اور کہا کہ اس کے مارے جانے سے پہلے اس کے کیش ایپس تک رسائی حاصل کی گئی تھی۔
مجرمانہ شکایت کے مطابق، مسٹر کریو کی گرل فرینڈ تنیا مولن نے قتل کی رات 9.14 بجے مسٹر کریو کے لیے ایک اوبر کا آرڈر دیا اور سواری کے دوران اسے پیغام بھیجا کہ: “[I’m] اگر ہم پکڑے گئے تو جیل نہیں جائیں گے۔
محترمہ مولن نے بعد میں پولیس کو بتایا کہ اس کے بوائے فرینڈ نے پہلے اس سے ہتھیار لینے کو کہا تھا، ایک 9 ایم ایم ہینڈگن، اور جب پولیس نے اس کے گھر کی تلاشی لی تو بندوق غائب تھی۔
الیگینی کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سپرنٹنڈنٹ کرسٹوفر کیرنز نے بتایا آزاد پیر کو وہ ابھی بھی اس بات پر غور کر رہے تھے کہ آیا محترمہ مولن کو چارج کیا جائے۔
“یہ جاری تحقیقات کا حصہ ہے اور ہم کسی بھی اضافی مشتبہ افراد کے لیے اضافی چارجز کے بارے میں ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر سے بات چیت کر رہے ہیں،” انہوں نے کہا۔
Uber نے محترمہ مولن پر رائیڈ شیئرنگ ایپ استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ کمپنی کی پالیسی کے تحت وہ اپنے “گیسٹ رائڈر” کے اعمال کی ذمہ دار ہوں گی۔
Uber نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔
کیلون کریو پر اوبر ڈرائیور کرسٹی سپیکوزا کی موت کے الزام میں قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
(الیگینی کاؤنٹی جیل)
“کسی خاندان کو ایسا ناقابل تصور نقصان نہیں اٹھانا چاہئے اور ہمارے خیالات اس مشکل وقت میں کرسٹی کے چاہنے والوں کے ساتھ ہیں۔”
محترمہ اسپیکوزا، جو اپنے چار بچوں اینڈریا، ڈریو، اسکوٹی اور ٹوری اور منگیتر، برینڈن مارٹو کے ساتھ بچ گئی تھیں، کو پیر کی صبح مونرو ویل کے جین ایچ کورل فیونرل چیپل میں ایک آخری رسومات میں الوداع کیا گیا۔
ایک آن لائن مرنے والے نے کہا کہ محترمہ سپیکوزا “پہلی اور سب سے اہم ایک پیار کرنے والی ماں تھیں” جو آرٹ، دستکاری اور اپنے بائبل مطالعہ سے بھی لطف اندوز ہوتی تھیں۔
“کوئی بھی جو کرسٹی کو جانتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ ہر کمرے کو روشن کر سکتی ہے جس میں وہ تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کی زندگی میں کچھ بھی ہو رہا تھا، کرسٹی ہمیشہ مسکراتی، ہمیشہ مثبت اور ہمیشہ محبت کرنے والی رہتی تھی۔”
پولیس کی تفتیش کی مزید تفصیلات عدالت میں جمع کرائی گئی چارجنگ دستاویز میں سامنے آئیں۔
محترمہ اسپیکوزا کے سفر کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اوبر سے رابطہ کرنے کے بعد، حکام کو معلوم ہوا کہ اس کا آخری مکمل شدہ سفر 10 فروری کو رات 9 بجے کے قریب برنٹن روڈ، پٹسبرگ سے شروع ہوا۔
انہوں نے اس کا فون دو دن بعد اس وقت برآمد کیا جب عوام کے ایک رکن نے اسے ٹرائی بورو ایکسپریس وے کے نیچے ریل کی پٹریوں کے ساتھ پایا۔
اس کے بعد پولیس نے محترمہ سپیکوزا کے لائسنس پلیٹ نمبروں کے لیے لائسنس پلیٹ ریڈرز کو چیک کیا اور انہیں کئی “ہٹ” ملے، جن میں سے ایک TriBoro ایکسپریس وے کے ساتھ تھی۔
جاسوس اس کے بعد محترمہ سپیکوزا کا سیل فون ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کرنے اور اس کے آخری مقامات کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے۔
14 فروری کو، جاسوسوں نے محترمہ مولن سے رابطہ کیا اور وہ مسٹر کریو کے ساتھ شمال مغربی پٹسبرگ کے پین ہلز کے ایک اسٹیشن پر آئیں۔
اس نے انہیں بتایا کہ اس نے قتل کی رات مسٹر کریو کے لیے اوبر کا آرڈر دیا تھا، اور اس کی بندوق غائب ہو گئی تھی۔
Source link
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
سائبریا میں آگ: کیا روس قطب شمالی میں ماحولیاتی تبدیلی آہستہ کر سکتا ہے؟ سرگئی کوزلوسکیبی بی سی روس46 منٹ قبل،Julia Petrenko/Greenpeace،تصویر کا کیپشندرجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سائبیریا کے جنگلوں میں آگ، کیا اس پر قابو پایا جا سکتا ہے؟بیس جون کو دنیا کے سب سے سرد ترین شہر میں درجہ 38 سنٹی گریڈ تک پر پہنچ گیا اور یہ دنیا بھر کے اخبارات میں شہ سرخی بنا۔ روس کے شمال مشرقی خطے یاکوتیا کے شہر ورخیئانسک میں جو اب تک دنیا کا سرد ترین شہر کا ریکارڈ رکھتا تھا، شہر کا درجہ حرارت 38 درجہ سنٹی گریڈ جا پہنچا۔ یہ قطب شمالی میں درجہ حرارت کی بلند ترین سطح سطح ہے جو اب تک ریکارڈ ہوئی ہے۔ ورلڈ میٹریلوجیکل آرگنائزیشن کے سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ مئی کے مہینے میں علاقے میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ تھا اور کئی علاقوں میں اضافہ دس درجہ حرارت سے بھی زیادہ تھا۔ لیکن یہ صرف مئی ہی ایسا مہینہ نہیں ہے جب درجہ حرارت معمول سے زیادہ ریکارڈ ہوا ہے۔ سائنسدانوں نے موسم سرما اور بہار میں بھی معمول سے زیادہ درجہ ریکارڈ کیے ہیں۔.،Julia Petrenko/Greenpeace،تصویر کا کیپشنسائبیریا میں گرم موسم کی وجہ سےجنگلات میں آتشزدگی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہےماحولیات کے عالمی ماہرین کے ایک گروپ نے گذشتہ برس ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جنوری سے جون تک سائبیریا میں درجہ حرارت میں آنے والی تبدیلی میں انسانی اقدامات نے بہت حصہ ڈالا ہے۔ماہرین ماحولیات نے کمپیوٹر پر ماڈلنگ کے ذریعے یہ دکھایا کہ انسانی اقدامات کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اضافی اخراج کی وجہ سے موسم کے گرم ہونے کے امکانات چھ سو گنا بڑھ جاتے ہیں۔ سائبریا کےجنگلوں میں آتشزدگی کے واقعات روس کے ماحولیاتی بحران کا بڑا حصہ ہیں۔جنگلوں سے خطراتگرم موسم کی وجہ سے جنگلوں میں آتشزدگی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔،Julia Petrenko/Greenpeace،تصویر کا کیپشنگرین پیس کے اندازے کے مطابق پندرہ مئی تک سائبیریا کے جنگلات میں یونان کے کل رقبے جتنا علاقے جل چکا ہےماحولیات کے عالمی ماہرین سائیبریا اور روس کے شمال علاقوں میں گرمی کی لہر کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے مشاہدے میں آیا کہ روس کے جنگلوں میں حالیہ برسوں میں آتشزدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں آتشزدگی کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔گرین پیس کی تحقیق کے مطابق رواں برس 15 مئی تک سائبیریا کے جنگلوں میں آگ تیرہ اعشاریہ پانچ میلن ہیکٹروں تک پھیل چکی ہے۔ یہ علاقے یونان کے کل رقبہ کے برابر ہے۔ گرین پیس کے اعداد و شمار حکومت اعداد و شمار کے تین گنا زیادہ ہیں۔ روس کی جنگلات سے متعلق ایجنسی روز لیخوز کے مطابق چار اعشاریہ سات ملین ہیکٹر رقبہ آگ سے متاثر ہوا ہے۔،Julia Petrenko/Greenpeace جولائی 28 کو روزلیخوز اپنےتخمینے میں بتایا کہ بارہ ملین ہیکٹر کا رقبہ جس میں چھ اعشاریہ چھ ملین ہیکٹر جنگلات پر مشتمل ہے، میں آگ جل رہی ہے۔مزید پڑھیے گرین پیس کا کہنا ہے کہ حکومتی اعداد و شمار سے دگنا ایریا آگ سے متاثر ہے۔ گرین پیس کے مطابق 21 ملین ہیکٹر رقبہ پر آگ جل رہی ہے۔ماہرین ماحولیات اور مقامی لیڈروں کا کہنا ہے کہ روس کی مرکزی حکومت آتشزدگی کے واقعات سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کے مطلوبہ فنڈزمہیا نہیں کر رہی ہے۔جولائی میں گرین پیس نے روس کی حکومت سے درخواست کی کہ سائیبریا اور مشرقی علاقوں میں آتشزدگی کے واقعات پر قابو پانے پر توجہ دے اور اس مد میں فنڈز میں تین گنا اضافہ کرے۔متنازعہ کنٹرول زونزگرین پیس کا روس سے مطالبہ ہے کہ وہ نام نہاد کنٹرول زونز کو کم کرے۔کنٹرول زونز ایسے دور دراز علاقے ہیں جہاں مقامی حکام کو قانون کے مطابق حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھیں کہ آتشزدگی سے جانی و مالی نقصان نہیں ہو رہا تو وہ اس نظر انداز کر سکتے ہیں۔روس کے جنگلات کا آدھا رقبہ ان کنٹرول زونز میں آتا ہے، اور نوے فیصد ایسے جنگلات ہیں جہاں آتشزدگی کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق روس کی قدرتی وسائل اور ماحولیات کی وزارت کنٹرول زونز کے علاقے کو کم کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کی سفارش کر رہی ہے۔ اس مجوزہ ترمیم کے مطابق صرف چھ فیصد جنگلات کو کنٹرول زونز میں شمار کیا جائے۔ اس مجوزہ ترمیم کو ابھی تک منظور نہیں کیا گیا ہے۔گرین رشیا کے ماہر جنگلات ایلکسی یاروشنکو کے خیال میں اگر قانون میں ترمیم کی تجویز کو مان بھی لیا گیا تو اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔یاروشنکو کے مطابق وزارت حقیقت میں یہ کہہ رہی ہے’ ہم ایسے علاقوں کو کم کر دیتے جہاں حکام آگ کو جلتا رہنے دے سکتے ہیں لیکن آگ پر قابو پانے کے حوالے ہم آپ کی کوئی مالی مدد نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کام کو مطلوبہ رقم آپ کو خود تلاش کرنی ہے۔‘ آگ پر قابو پانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟گرین پیس کے مطابق روس کے وہ علاقے جو جنگلاتی آتشزدگی سے بری طرح متاثر ہیں انھیں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کے لیے کم از کم 25 سے 30 ارب رشین روبیلز یعنی 400 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس سال رقم کا صرف ایک چوتھائی انھیں دیا گیا ہے۔کرسنویارسک کرائی سائبیریا کا ایک وسیع علاقہ ہے جو آتشزدگی سے بری طرح متاثر ہے۔ کرسنویارسک کے گورنر الیگزینڈر اس کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے علاقے جتنے فنڈز چاہیں اس کا ایک تہائی مہیا کیا گیا ہے۔گورنر نے یہ کہا کہ جنگلات میں آگ ایک قدرتی امر ہے اور اس سے لڑنا فضول ہے۔جولائی 2020 میں یکوتیا کا دارالحکومت یاکوتسک آگ کے دھوئیں کی لپیٹ میں آگیا تھا۔یکوتیا کے حکام کا کہنا ہے کہ اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ وہ آگ پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ روس کی روزلیخوز ایجنسی نے یکوتیا کو دو ملین ڈالر کا ادھار دیا جو اسے لوٹانا ہے۔ بارشوں اور درجہ حرارت میں کمی سے شہر کے لوگوں کو کچھ راحت ملی لیکن جولائی کے وسط میں گرمی کی لہر واپس آ گئی۔روس اور دوسرے سرد ممالک کے پرمافروسٹ ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے۔پرمافروسٹ ایسی زمینی سطح کو کہتے ہیں جو مسلسل ٹھنڈ کی وجہ سے منجمد ہو گئی ہو۔درجہ حرارت میں اضافہ سے پرمافروسٹ پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے ان پر بنائے گئے تعمیراتی ڈھانچوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔رواں برس مئی نوریلسک شہر میں اتنا بڑا ماحولیاتی بحران پیدا ہو گیا جب ایک 20 ہزار ٹن ڈیزل بہہ گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹینکر جس پرمافروسٹ پر تعمیر کیا گیا وہ پرمافروسٹ کے پگھل جانے کی وجہ سے ٹینکر اپنی جگہ سے کھسک گیا جس سے 20 ہزار ٹن ڈیزل بہہ گیا۔پرمافروسٹ میں پودوں اور جانووں کی باقیات بھی شامل ہوتی ہیں اور جب وہ گرم موسم کی وجہ سے پگھل جاتے ہیں تو اس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین خارج ہوتی ہے جس سے عالمی حدت میں اضافہ ہوتا ہے۔،AFP،تصویر کا کیپشنیکوتسک کو 2019 میں گرمی کی لہر کی سے وجہ ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی تھیکوئی آگ بھی سموگ کے بغیر نہیںآگ پہلے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار ماحول میں شامل کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ جون 2020 میں قطب شمالی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 56 ملین ٹن تھا جو غیر معمولی ہے اور 2019 کی نسبت تین ملین ٹن زیادہ ہے۔ 2019 تاریخ کا سب سے گرم سال ہے۔ 2019 میں سائبیریا کے کئی شہر سموگ میں گھر گئے۔ سموگ جنوبی روس کے خطے وولگا تک پہنچ گئی۔ پچھلے برس امریکہ کے خلائی ادارے ناسا نے اطلاع دی تھی کہ سائبیریا کی آگ کے اخراج روس اور کینیڈا تک پہنچ گئے ہیں۔روس کے محکمہ موسمیات، ہائیڈرومیٹ سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دوسرے ملکوں کی نسبت روس کا درجہ حرارت دو اعشاریہ پانچ فیصد زیادہ گرم ہو رہا ہے۔سائیبریا اور پرمافروسٹ خطوں میں درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والا اضافہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ مسقبل کا نہیں ہے بلکہ ایک ماحولیاتی ایمرجنسی جو روس پر منڈلا رہی ہے۔،Julia Petrenko/Greenpeace،تصویر کا کیپشنمقامی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آگ سے بچاؤ یا اس پر قابو پانے کے لیے مطلوبہ وسائل کی کمی ہےکیا آگ پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ماہرین سمجھتے ہیں کہ سائبیریا کے جنگلوں میں آتشزدگی کے زیادہ واقعات انسانی غفلت کا نتیجہ ہیں۔روس کے حکام اور ماحولیاتی لوگوں کو زور دیتے ہیں کہ جب وہ جنگل میں ہوں تو ذمہ داری کا ثبوت دیں اور سگریٹ نوشی سے پرھیز یا آگ جلانے سے پرھیز کریں۔گرین پیس کے روس میں آتشزدگی کے ماہر گریگوری ککسن کا کہنا ہے کہ روس وہ واحد ملک نہیں جہاں کنٹرول زونز موجود ہیں لیکن رقبہ کے لحاظ اتنا بڑا ملک ہے کہ آگ پر قابو پانے کے ساز و سامان کی کمی کی وجہ سے ان تمام علاقوں میں پہنچنا بہت مشکل ہے۔،Julia Petrenko/Greenpeace،تصویر کا کیپشنآتشزدگی کے زیادہ واقعات انسانی غفلت سے پیش آتے ہیںجنگلات میں آتشزدگی کے واقعات میں اضافے کی اور بھی وجوہات ہیں جن میں خشک اور گرم موسم سر فہرست ہیں۔یہ مسئلہ صرف روس تک محدود نہیں ہے۔روس کی حکومت نے ماحولیات سے متعلق اپنی ایک حالیہ دستاویز میں ملک کے مختلف حصوں میں ماحول کی تبدیلی کے حوالے سے عدم مساوات کی بات کی ہے۔ کچھ علاقے ماحول میں تبدیلی سے دوسرے علاقوں سے زیادہ متاثر ہیں۔دنیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ کئی ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو دوسروں سے زیادہ سہہ رہے ہیں۔درجہ حرارت میں اضافے سے سائبیریا میں آتشزدگی کے مسئلے کو اور زیادہ خراب کر دے گی جس کے نتیجے میں عالمی حدت میں اضافہ ہو گا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سخت سیاسی فیصلے کرنے اور صنعتی پیدوار کے موجودہ طریقوں کو بدلنے اور معیشت کو نئے خطوط پر استوار کرنے ، انداز زندگی کو بدلنے کی صرف روس میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ضرورت ہے۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
mypakistan · 10 years
Text
ہم کیوں نہ شکر کریں
ایک جگہ ایک کمرے میں دو افراد سے کہا گیا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھیں اور بتائیں کہ انھوں نے کیا دیکھا۔چنانچہ دونوں افراد نے باری باری کھڑکی سے باہر دیکھا تو ایک نے کہا کہ اسے گلی میں گندگی نظر آئی جب کہ دوسرے نے بتایا کہ اسے آسمان پر اڑتے پرندے نظر آئے۔ یہ حسن نظر اور یہ سوچ کا انداز ہی دراصل قوموں کی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی قوم عام طور پر مایوس نظر آتی ہے۔ جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر شاکی اور رنجیدہ ہے حالانکہ ایسے بے شمار پہلو ہیں جن پر خوش اور مطمئن بھی رہا جا سکتا ہے مگر اس طرف ان کی نظریں اٹھتی ہی نہیں۔ دراصل انسان کے اندر خوشی اور انبساط کی کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شکر ادا کرتا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سوچ کا کون سا انداز اور فکر کا کون سا رخ ہمیں خوشی اور مسرت کی طرف لے جاسکتا ہے جس سے ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی مایوسی اور بد دلی کو کسی حد تک کم یا ختم کیا جاسکتا ہے کہ یہی وہ عمل ہے جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے شاید اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا کہ یہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی بہترین امت میں پیدا کیا اور ایمان پر ہماری آنکھ کھولی۔ پھر ہم اس بات پر کیوں نہ شکر کریں۔ انسان کے سدھار میں اس کی اپنی سوچ، احساس اور جذبہ جو مثبت کردار ادا کرتے ہیں وہ بڑے سے بڑا قانون نافذ کرنے والا ادارہ بھی نہیں کر سکتا۔
ہمیں تاریخ کا سبق یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ عربی اور عجمی کا تفرقہ پیدا کرکے ختم کردی گئی اور ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت اغیار کو رعایتیں دے دے کر خود اپنی قبر کھود بیٹھی۔
ہمارے ملک پاکستان کے پاس وسیع رقبہ ہے جو کئی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بڑا ہے۔ ہماری سرزمین بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس دریا ہیں، ٹھاٹھیں مارتا ہوا وسیع و عریض سمندر ہے۔ قدرتی اجناس پھل اور سبزیاں بڑی مقدار میں یہاں پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت کے سارے موسم اعتدال کے ساتھ یہاں اپنی بہاریں دکھاتے ہیں۔ پہاڑ، جنگل، چٹیل میدان سب کچھ یہاں موجود ہیں۔ باصلاحیت اور محنتی افرادی قوت کی اگرچہ ہمارے ملک میں اب قلت نہیں ہے مگر پچھلے چالیس (40) برسوں سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا باہر ممالک میں جانا اور اپنا قیمتی وقت، محنت، طاقت اور علم اپنے وطن عزیز پر صرف کرنے کی بجائے بیرون ممالک کو شاداب کرنے پر لگانا ہمارے ملک کے لیے کوئی بہتر نتائج پیدا نہیں کر رہا۔ گوکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں بیروزگاری ہے اور لوگ بہتر روزگار کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر یہ مسئلے کا مستقل حل تو نہیں۔ باہر جانے والے ہمارے زیادہ تر ہم وطنوں کی زندگیاں بھی زیادہ خوش کن نہیں ہوتیں انھیں ان کی اجرت اور تنخواہیں بھی وہ نہیں ملتیں جو بیرونی ممالک ان کے ہم پلہ اپنے شہریوں کو دیتے ہیں وہ ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرح ڈرے سہمے اپنی زندگی کے دن وہاں گزار رہے ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی تمام تر افرادی قوت (بشمول بیرون ملک پاکستانی) اپنے تمام تر علم، تجربے ، طاقت اور مالی وسائل سے اپنی اسی سرزمین پر سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے یہاں سے سونا نکالنے کی کوشش کریں۔میں نے ایک طویل عرصہ اعلیٰ تحقیقی اور انتظامی عہدوں پر کام کیا ہے۔
میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ مناصب پر فائز افراد جب غیر ملکیوں سے ملتے ہیں تو مرعوب ہوجاتے ہیں اور نہ تو اپنا مطمع نظر صحیح طور پر بیان کر پاتے ہیں۔ یہاں میں ایک امریکی بزنس مین رابرٹ۔ ای۔مولیگن (Robert E. Mulligan) سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کروں گی جب وہ 1989 میں قائد اعظم پر اپنی ایک فلم بنانے کے سلسلے میں پاکستان تشریف لائے۔ ایک غیر رسمی ملاقات میں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ قائد اعظم پر فلم بنا رہے ہیں اور اپنی اس فلم کا ابتدائی یا تعارفی جملہ انھوں نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی ایک تقریر سے لیا ہے پھر انھوں نے مجھے وہ جملہ پڑھ کر سنایا۔ یہ وہی جملہ تھا جس کی عام طور پر غلط ترجمانی کی جاتی رہی ہے۔ جس کا مقصد اس وقت مذہبی رواداری کے اظہار کے سوا اور کچھ نہ تھا کیونکہ پاکستان کے قیام پر ہندوؤں کی بڑی تعداد جو یہاں رہائش پذیر تھی وہ ڈر کر ہندوستان جا رہی تھی۔
میں نے مولیگن صاحب سے پوچھا کہ انھوں نے اپنی فلم کے لیے قائد اعظم کی اس متذکرہ تقریر کا یہ جملہ کیوں منتخب کیا ہے؟ جب کہ قائد اعظم کی ایسی بے شمار تقاریر ہیں جن میں انھوں نے پاکستان کی ریاست و حکومت کے مسلم خدوخال کا بڑے واضح انداز میں جائزہ لیا ہے اس پر میں نے مولیگن صاحب کو اپنے آفس (قائد اعظم اکادمی) میں ہی اچھا خاصا لیکچر بھی دے ڈالا۔ انھوں نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا البتہ ہنس کر کہنے لگے کہ ’’آپ نے یہ بنیادی سوال (Fundamental Question) مجھ سے کیا ہے۔ میں پاکستان کے کئی شہروں میں گیا ہوں اور بہت لوگوں سے ملا ہوں مگر کسی نے بھی مجھ سے یہ سوال نہیں کیا جو آپ کر رہی ہیں‘‘۔ اس کے بعد رابرٹ مولیگن دوبارہ بھی میرے آفس میں مجھ سے ملنے آئے اور امریکا جاکر انھوں نے مجھے کئی خطوط بھی لکھے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میری گفتگو کا ان پر کیا اثر ہوا مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ جناب رابرٹ مولیگن کی متذکرہ فلم کے بارے میں ہمیں کوئی مزید خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہاں ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر پاکستان کے کسی بھی پہلو کی غلط ترجمانی کی حوصلہ شکنی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا وقار ہر سو بلند نہ ہوسکے۔
ہمیں اس بات کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں شادی کا نظام مستحکم ہے اور رشتہ ازدواج میں بندھنے والے مرد اور عورت کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان کی شادی قائم رہے اور وہ عمر بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں ہمارے ملک میں بیرونی ممالک کی نسبت طلاق کے واقعات بہت کم ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بزرگوں کے بے شمار ادارے کھلے ہیں جہاں عمر رسیدہ افراد اپنا وقت گزارتے ہیں ہم کیوں نہ شکر کریں کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ ان معاملات میں بہت اچھا ہے۔
ڈاکٹر شہلا کاظمی   
0 notes
risingpakistan · 10 years
Text
ہم کیوں نہ شکر کریں
ایک جگہ ایک کمرے میں دو افراد سے کہا گیا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھیں اور بتائیں کہ انھوں نے کیا دیکھا۔چنانچہ دونوں افراد نے باری باری کھڑکی سے باہر دیکھا تو ایک نے کہا کہ ��سے گلی میں گندگی نظر آئی جب کہ دوسرے نے بتایا کہ اسے آسمان پر اڑتے پرندے نظر آئے۔ یہ حسن نظر اور یہ سوچ کا انداز ہی دراصل قوموں کی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی قوم عام طور پر مایوس نظر آتی ہے۔ جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر شاکی اور رنجیدہ ہے حالانکہ ایسے بے شمار پہلو ہیں جن پر خوش اور مطمئن بھی رہا جا سکتا ہے مگر اس طرف ان کی نظریں اٹھتی ہی نہیں۔ دراصل انسان کے اندر خوشی اور انبساط کی کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شکر ادا کرتا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سوچ کا کون سا انداز اور فکر کا کون سا رخ ہمیں خوشی اور مسرت کی طرف لے جاسکتا ہے جس سے ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی مایوسی اور بد دلی کو کسی حد تک کم یا ختم کیا جاسکتا ہے کہ یہی وہ عمل ہے جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے شاید اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا کہ یہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی بہترین امت میں پیدا کیا اور ایمان پر ہماری آنکھ کھولی۔ پھر ہم اس بات پر کیوں نہ شکر کریں۔ انسان کے سدھار میں اس کی اپنی سوچ، احساس اور جذبہ جو مثبت کردار ادا کرتے ہیں وہ بڑے سے بڑا قانون نافذ کرنے والا ادارہ بھی نہیں کر سکتا۔
ہمیں تاریخ کا سبق یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ عربی اور عجمی کا تفرقہ پیدا کرکے ختم کردی گئی اور ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت اغیار کو رعایتیں دے دے کر خود اپنی قبر کھود بیٹھی۔
ہمارے ملک پاکستان کے پاس وسیع رقبہ ہے جو کئی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بڑا ہے۔ ہماری سرزمین بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس دریا ہیں، ٹھاٹھیں مارتا ہوا وسیع و عریض سمندر ہے۔ قدرتی اجناس پھل اور سبزیاں بڑی مقدار میں یہاں پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت کے سارے موسم اعتدال کے ساتھ یہاں اپنی بہاریں دکھاتے ہیں۔ پہاڑ، جنگل، چٹیل میدان سب کچھ یہاں موجود ہیں۔ باصلاحیت اور محنتی افرادی قوت کی اگرچہ ہمارے ملک میں اب قلت نہیں ہے مگر پچھلے چالیس (40) برسوں سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا باہر ممالک میں جانا اور اپنا قیمتی وقت، محنت، طاقت اور علم اپنے وطن عزیز پر صرف کرنے کی بجائے بیرون ممالک کو شاداب کرنے پر لگانا ہمارے ملک کے لیے کوئی بہتر نتائج پیدا نہیں کر رہا۔ گوکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں بیروزگاری ہے اور لوگ بہتر روزگار کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر یہ مسئلے کا مستقل حل تو نہیں۔ باہر جانے والے ہمارے زیادہ تر ہم وطنوں کی زندگیاں بھی زیادہ خوش کن نہیں ہوتیں انھیں ان کی اجرت اور تنخواہیں بھی وہ نہیں ملتیں جو بیرونی ممالک ان کے ہم پلہ اپنے شہریوں کو دیتے ہیں وہ ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرح ڈرے سہمے اپنی زندگی کے دن وہاں گزار رہے ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی تمام تر افرادی قوت (بشمول بیرون ملک پاکستانی) اپنے تمام تر علم، تجربے ، طاقت اور مالی وسائل سے اپنی اسی سرزمین پر سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے یہاں سے سونا نکالنے کی کوشش کریں۔میں نے ایک طویل عرصہ اعلیٰ تحقیقی اور انتظامی عہدوں پر کام کیا ہے۔
میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ مناصب پر فائز افراد جب غیر ملکیوں سے ملتے ہیں تو مرعوب ہوجاتے ہیں اور نہ تو اپنا مطمع نظر صحیح طور پر بیان کر پاتے ہیں۔ یہاں میں ایک امریکی بزنس مین رابرٹ۔ ای۔مولیگن (Robert E. Mulligan) سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کروں گی جب وہ 1989 میں قائد اعظم پر اپنی ایک فلم بنانے کے سلسلے میں پاکستان تشریف لائے۔ ایک غیر رسمی ملاقات میں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ قائد اعظم پر فلم بنا رہے ہیں اور اپنی اس فلم کا ابتدائی یا تعارفی جملہ انھوں نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی ایک تقریر سے لیا ہے پھر انھوں نے مجھے وہ جملہ پڑھ کر سنایا۔ یہ وہی جملہ تھا جس کی عام طور پر غلط ترجمانی کی جاتی رہی ہے۔ جس کا مقصد اس وقت مذہبی رواداری کے اظہار کے سوا اور کچھ نہ تھا کیونکہ پاکستان کے قیام پر ہندوؤں کی بڑی تعداد جو یہاں رہائش پذیر تھی وہ ڈر کر ہندوستان جا رہی تھی۔
میں نے مولیگن صاحب سے پوچھا کہ انھوں نے اپنی فلم کے لیے قائد اعظم کی اس متذکرہ تقریر کا یہ جملہ کیوں منتخب کیا ہے؟ جب کہ قائد اعظم کی ایسی بے شمار تقاریر ہیں جن میں انھوں نے پاکستان کی ریاست و حکومت کے مسلم خدوخال کا بڑے واضح انداز میں جائزہ لیا ہے اس پر میں نے مولیگن صاحب کو اپنے آفس (قائد اعظم اکادمی) میں ہی اچھا خاصا لیکچر بھی دے ڈالا۔ انھوں نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا البتہ ہنس کر کہنے لگے کہ ’’آپ نے یہ بنیادی سوال (Fundamental Question) مجھ سے کیا ہے۔ میں پاکستان کے کئی شہروں میں گیا ہوں اور بہت لوگوں سے ملا ہوں مگر کسی نے بھی مجھ سے یہ سوال نہیں کیا جو آپ کر رہی ہیں‘‘۔ اس کے بعد رابرٹ مولیگن دوبارہ بھی میرے آفس میں مجھ سے ملنے آئے اور امریکا جاکر انھوں نے مجھے کئی خطوط بھی لکھے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میری گفتگو کا ان پر کیا اثر ہوا مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ جناب رابرٹ مولیگن کی متذکرہ فلم کے بارے میں ہمیں کوئی مزید خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہاں ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر پاکستان کے کسی بھی پہلو کی غلط ترجمانی کی حوصلہ شکنی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا وقار ہر سو بلند نہ ہوسکے۔
ہمیں اس بات کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں شادی کا نظام مستحکم ہے اور رشتہ ازدواج میں بندھنے والے مرد اور عورت کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان کی شادی قائم رہے اور وہ عمر بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں ہمارے ملک میں بیرونی ممالک کی نسبت طلاق کے واقعات بہت کم ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بزرگوں کے بے شمار ادارے کھلے ہیں جہاں عمر رسیدہ افراد اپنا وقت گزارتے ہیں ہم کیوں نہ شکر کریں کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ ان معاملات میں بہت اچھا ہے۔
ڈاکٹر شہلا کاظمی   
0 notes
emergingkarachi · 8 years
Text
کراچی آپریشن پر سوالیہ نشانات
بعض اوقات مصروفیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آدمی خود کو بھول جاتا ہے، صرف مصروفیت کو یاد رکھتا ہے، یہ ہماری دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے آرام، سکون اور مسرتیں حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن اتنی محنت اور اتنی مصروفیت کے باوجود خوشی تھوڑی دیر کے لیے ملتی ہے، ہمیشہ یہی ہوتا ہے، مسرتوں کا حصہ بہت کم ہوتا ہے، ابھی ہم خوشیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک صدمہ ہم پر حملہ آور ہوتا ہے، ہمارے حلق میں قہقہے گھٹ جاتے ہیں اور چیخ نکل پڑتی ہے۔ تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں، انسان اپنی چالیں تو بدل بھی سکتا ہے مگر ستاروں کی چال کبھی نہیں بدلتی۔
بالکل ایسا ہی حال ان دنوں اہل کراچی کا ہے، جہاں جرائم پیشہ افراد نے ایک بار پھر سرگرم ہوکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کو چیلنج کردیا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں بدامنی کی لہریں مکمل طور پر تھمتی بھی نہیں کہ ان میں پھر سے تلاطم پیدا ہوجاتا ہے، یہاں کے باسی مسرت کے لمحوں سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہیں ہوپاتے کہ خوف کے بادل پھر سے چھاجاتے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کا دن دہاڑے اغوا اور معروف قوال امجد صابری کو ٹارگٹ کرکے جاں بحق کیے جانا ایک لمحہ فکریہ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا واضح ثبوت ہے۔ جب کہ بھتہ خور بھی دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں اور حسب سابق شہر کے مختلف علاقوں میں بھتے کی پرچیاں تقسیم کیے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ اس ساری صورتحال نے کراچی میں گزشتہ تین برس سے جاری آپریشن پر سوالیہ نشانات لگادیے ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تمام تر حکمت عملی اور ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود شہر قائد میں مکمل طور پر امن کے قیام کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رینجرز کی جانب سے جرائم پیشہ، ٹارگٹ کلرز، مافیا کے خلاف شروع کردہ آپریشن کے انتہائی مثبت اثرات تو مرتب ہوئے ہیں اور شہر قائد کی روشنیاں بھی بحال ہوچکی ہیں مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہر چند روز گزرنے کے بعد جرائم پیشہ سرگرم ہوجاتے ہیں اور شہر میں لاشیں گرنے کے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ شرپسندوں کو استعمال کرنے والے ابھی تک قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں، جیسے ہی وہ سوئچ آن کرکے ��حکامات جاری کرتے ہیں ویسے ہی شرپسند حرکت میں آکر انسانی جسم کشی (ٹارگٹ کلنگ) کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اصل میں کراچی میں امن قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، کنکریٹ کے اس جنگل میں مافیا گینگز کے کارندوں، دہشتگردوں، ٹارگٹ کلرز کو وارداتوں کے لیے ایک طویل عرصے سے کھلا لائسنس ملا ہوا تھا، آج بھی کچی آبادیوں کے سلسلے پھیلتے جارہے ہیں، ہر سال لاکھوں افراد شہر میں جائے سکونت کی تلاش میں ان آبادیوں میں بسیرے ڈالتے ہیں، انتظامی حوالے سے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس جیتی جاگتی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن سے پہلے اور بعد کی صورتحال میں امن و امان کے حوالے سے نمایاں بہتری آئی ہے، آج کراچی کی تاجر برادری اور عام شہری کافی حد تک مطمئن ہیں، جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے رینجرز، پولیس و دیگر سیکیورٹی اداروں نے جو قربانیاں دی ہیں اس کی حقیقت بھی سب کے سامنے ہے۔
جس شہر میں لوگ دن کو بھی گھر سے باہر نکلنے سے گھبراتے تھے اب اس کی راتیں بھی بڑی حد تک پرسکون ہوگئی ہیں، سماجی و معاشی سرگرمیوں کا پہیہ رواں ہوگیا ہے، نوگو ایریاز بھی تقریباً ختم ہوگئے ہیں، شہر قائد کے مکین امن و امان کی صورتحال میں اس بہتری کا سارا کریڈٹ رینجرز فورس کو دیتے ہیں جو قانون نافذ کرنیوالے دوسرے اداروں سے مل کر شہر میں لاقانونیت کے خلاف دلیرانہ جنگ لڑ رہی ہے لیکن عام شہری اور کاروباری طبقے یہ بھی سوچتے ہیں کہ رینجرز کے چلے جانے کے بعد کہیں بدامنی کا پرانا دور واپس تو نہیں آجائے گا؟ دیکھا جائے تو کسی بھی مسلح اور منظم فورس کے لیے کسی آپریشن کی کامیابی میں تین سال بڑا عرصہ ہوتا ہے۔
اس لیے یہ سوال کہ رینجرز آپریشن کے اثرات تادیر کیسے قائم رکھے جائیں، اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، مجرم بھی اسی انتظار میں ہے کہ رینجرز کب واپس جائیں اور کب انھیں دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملے کیونکہ کراچی میں رینجرز آپریشن ہمیشہ جاری رکھنا مسئلے کا مستقل نہیں ہے۔ دہشتگردی پر تنہا کوئی ادارہ قابو نہیں پاسکتا، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ دیگر اداروں کو بھی اس عمل میں شریک کیا جائے، روشنیوں کے شہر میں مستقل بنیادوں پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہمارے ��داروں سمیت تمام جماعتوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اس عمل میں عوامی سطح پر سیکیورٹی سروسز فراہم کرنے والے بلدیاتی اداروں کو بھی شریک کیا جائے تو جرائم پیشہ افراد پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔
جرائم پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں جب کہ دہشتگردی کا خاتمہ ایک طویل المدتی عمل ہے، اس میں سول اداروں کی زیادہ سے زیادہ شرکت معاون ثابت ہوگی، کراچی میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ کراچی آپریشن کا ٹائم فریم دے کر آپریشن کے اچھے اثرات کو دوام دینے کے لیے ایک ایسا سیٹ اپ قائم کیا جائے جو بنیادی طور پر سویلین ہو لیکن اس میں رینجرز اور سیکیورٹی ایجنسیوں کا بھی کسی طرح کا کردار ہو، اس کے بغیر شہر کے مستقل امن و امان کی کوئی ضمانت شاید موثر نہیں ہوگی۔ کراچی کا امن ملک کا امن ہے، اس کی خوشحالی ملک کی ترقی و خوشحالی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ راستے میں دیوار ہو تو فکر کرنے اور اپنا خون جلانے سے دیوار نہیں گرتی، سر مارنے سے سر ٹوٹتا ہے، دیوار نہیں ٹوٹتی، لاحول پڑھنے سے ماحول نہیں بدل جاتا۔ جب یقینی طور پر کوئی خطرہ پیش آنے والا ہو تو خوف کھانے، پریشان ہونے یا فکرمند ہونے سے خطرہ ٹل نہیں سکتا، اس کا ہر حال میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دانشمندی یہی ہوتی ہے کہ حوصلے اور خود اعتمادی سے آنے والے وقت کا انتظار کیا جائے۔ کسی بھی کہانی کا آخری سین بہت ہی سنسنی خیز ہوتا ہے، کسی راستے کی آخری منزل کا آخری مرحلہ بڑا دشوار گزار ہوتا ہے، کراچی میں امن کے دشمنوں کے خلاف آپریشن بھی ایسے ہی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے مگر کہتے ہیں نا کہ جذبہ اگر صادق ہو، ارادے اگر چٹان کی طرح مضبوط ہوں تو انسان کی خواہش ایک دن ضرور پوری ہوتی ہے۔
محمد عارف شاہ 
0 notes
urdunewspost · 4 years
Text
اورت فاؤنڈیشن نے موٹر وے گینگ ریپ کے واقعے کی
اورت فاؤنڈیشن نے موٹر وے گینگ ریپ کے واقعے کی
کی مذمت کی
گروپ کا کہنا ہے کہ عصمت دری سے بچ جانے والے افراد کو انصاف فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ "جنگل کا قانون" ملک میں اعلی حکمرانی کرتا ہے۔ تصویر: فائل
کراچی: اورات فاؤنڈیشن نے منگل کے روز موٹر وے گینگ ریپ کیس کی "شدید مذمت" کی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہریوں کے تحفظ میں "مکمل ناکامی" پر تنقید کا نشانہ بنایا ، خواتین کے حقوق گروپ کے ذریعہ جاری ایک بیان میں کہا…
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
کورونا وائرس: بھارت کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھے گا
نیو یویارک(  جی سی این رپورٹ) بھارتی ادارے سینٹر فار ڈیزیز ڈائنیمکس، اکانومکس اور پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رامانن لکشمینارائن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو کورونا وائرس کیسز کے ”سونامی“ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر علم ریاضی کی بنیاد پر کورونا وائرس کے کیسز سے متعلق جو اندازے برطانیہ اور امریکہ میں لگائے گئے ہیں اگر ان کا اطلاق بھارت پر بھی کیا جائے تو ملک میں بہت جلد 30 کروڑ کیسز سامنے آ سکتے ہیں جن میں سے چالیس سے پچاس لاکھ کیسز کی نوعیت شدید ہو سکتی ہے بھارت نے پہلے ہی متعدد اقدامات کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاو¿ کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں ملک میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 149 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم صحت کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارت نے کورونا کے بہت کم ٹیسٹ کیے ہیں یا کیس رپورٹ ہی نہیں کیئے گئے.بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے شہریوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کے بعد ملک میں عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولیات محدود کی جا رہی ہیںپبلک ٹرانسپورٹ جیسے کہ ٹرینیں اور بسیں ملک کی بیشتر آبادی کا ذریعہ نقل و حمل ہے. بھارتی ریاست پنجاب میں تمام پبلک ٹرانسپورٹ فوری طور پر معطل کر دی گئی ہے دارالحکومت دہلی میں بھی میٹرو اب پرہجوم سٹیشنوں پر نہیں رکے گی جبکہ اس کی آمدوروفت کے اوقات میں بھی تبدیلی کی گئی ہے جبکہ مسافروں کی سکیننگ بھی کی جا رہی ہے. ممبئی میں بھی اس بات پر غور ہو رہا ہے کہ پبلک ٹرینوں کو آنے والے دنوں میں معطل کر دیا جائے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اودے ٹھاکرے کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹرینوں کو خالی دیکھنا چاہتے ہیں ملک کے بڑے شہروں میں بسوں میں مسافروں کے کھڑے ہونے پر پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے جبکہ ان کی تعداد میں بھی کمی کر دی گئی ہے.سری لنکا نے عام انتخابات ملتوی کرتے ہوئے آج سے مقامی وقت کے مطابق شام 6بجے سے سوموار صبح6 بجے تک ملک گیر کرفیو لگانے کا اعلان کیا ہے صدر گوٹابایا راجہ پکسے نے اس سے قبل کہا تھا کہ الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا انھیں امید تھی کہ وہ اس مرتبہ پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے جس کے بعد وہ آئین میں تبدیلی کر پائیں گے. تاہم گذشتہ چند دنوں میں ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گذشتہ تین دنوں میں متاثرہ افراد میں دگنا اضافہ ہوا ہے سرکاری میڈیکل افسران کی تاجر یونین نے خبردار کیا ہے کہ سری لنکا میں کیسز میں اضافے کی شرح اٹلی سے بھی زیادہ ہے.امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 10000 سے تجاوز کر گئی ہے جانز ہاپکنز کے مطابق دنیا بھرمیں اس وقت مصدقہ مریضوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے.فلپائن میں محکمہ ٹرانسپورٹ نے کہا ہے کہ غیر ملکی افراد کے ملک میں داخلے پر پابندی کا نفاذ اتوار رات 12 بجے سے کیا جائے گا فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں تمام پراوزیں پہلے ہی معطل کر دی گئی ہیں جبکہ سکولز بھی بند ہیں اور پولیس اور آرمی افسران کو قرنطینہ مراکز کے باہر سکیورٹی پر تعینات کیا گیا ہے.منیلا میں برطانوی سفارت خانے کے مطابق 200 کے قریب برطانوی شہری اس وقت ملک میں موجود ہیں جو ان سفری پابندیوں سے متاثر ہوئے ہیں تاہم فلپائن حکومت کا کہنا ہے کہ تمام غیرملکی افراد کو کسی بھی وقت ملک سے جانے کی اجازت ہو گی ملک میں اب تک کورونا وائرس کے 217 کیسز سامنے آ چکے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے.ادھر دوا سازی کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں 12 سے 18 ماہ لگ سکتے ہیں دواساز کمپنیوں کی عالمی تنظیم کے نمائندوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس میں دنیا کی بڑی دوا ساز کمپنیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس مقصد کے لیے وہ ادویات کی تیاری کے لیے طے شدہ قوائد و ضوابط میں تو نرمی لا سکتے ہیں تاہم ویکسین کی تلاش میں ٹیسنگ کے عمل میں جلد بازی نہیں کی جا سکتی ان کے مطابق چونکہ یہ ویکسین صحت مند لوگوں کو دی جا رہی ہوگی اس لیے وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی کسی کوتاہی کی وجہ سے کوئی بھی شخص بیمار ہو جائے ماہرین کے مطابق اگر ایسا ہوگا تو دنیا بھر میں لوگ ویکسین کی افادیت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے. تاہم ماہرین پہلے سے موجود ادویات پر بھی تجربات کررہے ہیں کہ شاید کچھ دوائیوں کو ملا کر وباءکی روک تھام یا کم کرنے کے لیے کوئی دوائی بنائی جاسکے ا س سلسلہ میں فرانس اور امریکا میں ملیریا کی بعض ادویات کو تجرباتی طور پر مریضوں کو دینے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے. جنوبی امریکا کے ممالک میں کورونا کی وباتیزی سے پنجے گاڑرہی ہے اور پورے براعظم امریکا میں کوئی بھی ملک اس وباءمرض سے محفوظ نہیں رہا البتہ بحرالکاہل کے بعض جزائردنیا سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اب تک محفوظ ہیں . پورے براعظم امریکا میں ریاست ہائے متحدہ امریکا (یوایس اے)کی تمام پچاس ریاستوں میں وائرس سے متاثرہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں‘کینیڈا کے بھی کئی صوبوں میں کیس رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ میکسیکو سے لے کر چلی کر جنوبی امریکا کا کوئی بھی ملک اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں . تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ارجنٹا ئن جنوبی امریکہ میں لاک ڈاﺅن ہونے والا پہلا ملک بن چکا ہے تمام شہریوں پر رواں ماہ کے آخر تک کھانے پینے کی اشیا اور دوائیاں خریدنے کے علاوہ گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کی گئی ہے.لاطینی امریکہ میں اب تک کورونا کے کیسز کی تعداد یورپ میں متاثرہ افراد کے اعداد و شمار تک تو نہیں پہنچی تاہم بتایا کہ سامنے آنے والے فیصلوں سے لگتا ہے کہ جنوبی امریکی ملکوں کی حکومتیں اس حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی.ادھر امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیوین نیوسوم نے کہا ہے کہ وہ لوگوں سے گھر پر رہنے کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے سماجی دباﺅ پر منحصر ہیںچنانچہ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ چند یورپی ممالک کے برعکس جہاں لوگوں پر گھروں سے باہر نکلنے پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں، وہاں کیلیفورنیا میں اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں نہیں آئیں گے.پریس کانفرنس کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ ریاست میں جو غیر رجسٹرڈ تارکین وطن ہیں، کیا وہ ڈاکٹرز کے پاس جا پائیں گے تو اس پر گورنر کا کہنا تھا کہ کیلیفورنیا میں بلا امتیاز طبی سہولیات سب کے لیے موجود ہیں ‘پبلک پالیسی انسٹیٹیوٹ آف کیلیفورنیا کے مطابق ریاست میں 23 لاکھ سے 26 لاکھ کے درمیان غیر رجسٹرڈ تارکینِ وطن موجود ہیں. گورنر نیوسوم نے کہا کہ انھیں علم ہے کہ کیلیفورنیا میں ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف نسل پرستانہ رویہ رکھا جا رہا ہے یہاں تک کہ لوگوں کی جائے پیدائش اور ان کے چہرے کے خدوخال کی وجہ سے ان پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے.انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ یہ مرحلہ انسانیت کی مشترکہ بنیادوں پر غور کرنے کا ہے انہوں نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کیلیفورنیا کے لیے ایک ارب ڈالر امداد کی بھی اپیل کی ہے‘نیویارک کے میئرنے ریاست کے گورنر سے اپیل کی ہے کہ وہ نیویارک شہر میں نیشنل گارڈتعینات کرنے کا حکم دیں امریکی آئین کے مطابق یونین میں شامل ہر ریاست جس طرح اپنا جھنڈا اور مقامی قوانین رکھ سکتی ہے اسی طرح ہر ریاست فوجی ونیم فوجی دستے بھی رکھ سکتی ہے جنہیں نیشنل گارڈزکہا جاتا ہے .کورونا وائرس نے دنیا کی 7بڑی اقتصادی طاقتوں کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ جون میں امریکا کے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والا سربراہی اجلاس ملتوی کردیں جی 7 دنیا کے سات ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ہے جس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں مگر اس وقت یہ تمام ممالک کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور معیشتوں پر وائرس کے متوقع اثرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہے . بتایا جارہا ہے کہ جی7کانفرنس کیمپ ڈیوڈ میں نہیں ہورہی وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جوڈ ڈیر کا کہنا ہے کہ تمام میٹنگز ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوں گی تاکہ تمام ممالک اپنے تمام تر وسائل کو کووِڈ 19 سے جنم لینے والے طبی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے استعمال کر سکیں. ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عالمی راہنماﺅں کو کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کے بارے میں سخت انتباہ جاری کیا ہے انٹونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ اگر ہم وائرس کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے دیں خاص طور پر دنیا کے انتہائی کمزور خطوں میں تو یہ لاکھوں افراد کو ہلاک کردے گا. انہوں نے کہا کہ عالمی یکجہتی نہ صرف اخلاقی ضروری ہے، بلکہ یہ ہر ایک کے مفاد میں ہے صحت کے شعبے میں آنے والی اس تباہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم صحت کے کمزور ترین نظام کی طرح ہی مضبوط ہیں. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ معاشی طور پر کمزور طبقے، کم اجرت والے مزدوروں ، اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کی مدد کریں. Read the full article
0 notes
tardosnews · 6 years
Photo
Tumblr media
بتایا جائے آخر نقیب کا کیا جرم تھا؟ سراج الحق امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی نقیب محسود کے حق میں بول پڑے ۔سندھ حکومت کو دس دن کا الٹی میٹم دے دیا کہتے ہیں نقیب کا جرم کیا تھا۔ کراچی میں جنگل کا قانون ہے ْ۔ شہریوں کو مقابلے میں مارنا کہاں کا انصاف ہے ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کراچی میں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کی مذمت کی اور کہا کہ کراچی میں جنگل کا قانون نافذ ہے ۔  سراج الحق نے راؤ انوار پر بھی کھل کر تنقید کی اور کہا کہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ نقیب اللہ کا جرم کیا تھا۔ نقیب محسود اور دیگر نوجوانوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں ۔  امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں جوان، بوڑھے، بچے کوئی محفوظ نہیںْ مقابلوں میں عام شہریوں کی جان لینا کہاں کا انصاف ہے ۔ اس سے پہلے ماضی میں بھی ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے ۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔
0 notes
zaraeynews-blog · 7 years
Photo
Tumblr media
مزید پڑھنے کے لیے نیچے کلک کریں ذرائع (نیوزڈیسک) امریکی ریاست ورجینیا میں گوروں اور سیاہ فاموں کے درمیان تصادم اورشہر میں ہنگامہ آرائی کے دوران ایک خاتون ہلاک اور 19 دیگر افراد زخمی ہو گئے،پولیس نے لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن مختلف مقامات پر جھڑپوں کے باعث شہر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا کے گورنر ٹیری میک اولف نے کہا ہے کہ سفید فاموں کی برتری کے لیے مہم چلانے والوں کے لیے، جنھوں نے مرکزی شہر شارلٹس ول میں ہنگامہ آرائی کر رکھی ہے، بس یہی پیغام ہے کہ وہ اپنے گھر چلے جائیں۔شہر میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کے دوران ایک خاتون ہلاک اور 19 دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں، جب کہ ایف بی آئی نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ورجینیا کے شہر شارلٹس ول میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کے جلوس کی مخالفت میں بہت سے لوگ جمع ہوئے تھے جہاں پر ایک شخص نے اپنی کار لوگوں پر چڑھا دی۔اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے کہا کہ شارلٹس ول میں تشدد اور موت نے امریکی قانون اور انصاف کو زک پہنچائی ہے۔ جب اس طرح کے افعال نسلی تعصب اور نفرت سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ ہماری اقدار کے خلاف ہوتے ہیں اور انھیں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔اس سے پہلے سفید فام قوم پرستوں اور ان کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے درمیان گلیوں میں جھگڑے شروع ہو گئے۔شارلٹس ویل کے میئر کا کہنا ہے کہ اس میں ایک شخص کی ہلاکت سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔اس سلسلے میں اوہائیو سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ جیمز فیلڈ کو درجہ دوم کے قتل کے شبہے میں حراست میں لیا گیا ہے۔شارلٹس ویل کی پولیس کا کہنا ہے کہ اسی طرح کے دو گروہوں کے درمیان ایک اور مقام پر ہونے والے جھگڑے میں 15 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔دو پہر بعد ورجینیا کی پولیس کا ایک ہیلی کاپٹر بھی شہر کے مغربی علاقے کے جنگل میں گر کر تباہ ہو گیا جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔لیکن اب تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جس سے یہ لگتا ہو کہ اس کریش کا تعلق شہر میں بھڑکنے والے تشدد سے ہے۔شہر میں دائیں بازو کو متحد کرنے کے لیے 'یونائیٹ دی رائٹ' کے نام سے ایک مارچ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا مقصد جنرل رابرٹ ای لی کے ایک مجسمے کو ہٹانے کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ جنرل رابرٹ لی امریکی خانہ جنگی کے دوران غلامی کی حمایت کرنے والی تنظیم کے رہنما تھے۔ورجینیا کے گورنر ٹیری میکولف نے ایک پریس کانفرنس میں ان واقعات پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا: 'سفید فام افراد کی برتری کی بات کرنے والے یا نازی نظریات کے حامل افراد جو شارلٹس ول آئے، ان سب کے لیے آج میرا ایک پیغام ہے۔ ہمارا پیغام بہت واضح اور سادہ ہے: گھر جایئے۔ اس عظیم دولت مشترکہ میں آپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شرم کرو۔ آپ محب وطن ہونے کا بہانہ کرتے ہیں، لیکن تم چاہے کچھ بھی ہو، تاہم حب الوطنی تم میں قطعی نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا: 'آپ آج یہاں لوگوں کو زخم پہنچانے کے لیے آئے تھے اور وہی آپ نے کیا بھی۔ لیکن میرا پیغام بہت واضح ہے، ہم آپ سے زیادہ مضبوط ہیں۔'ورجیینا کے گورنر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے کئی بار بات کی اور دو بار ان سے گزارش کی تھی کہ ایسی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے۔شارلٹس ویل میں نظریاتی اختلافات پر اس طرح کا تشدد اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ میں لوگ کس سطح پر سیاسی طور پر منقسم ہیں اور صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق سفید فام مہم کے حامی انتہائی دائیں بازو کے لوگ نعرہ لگا رہے تھے کہ ' آپ ہماری جگہ نہیں لے سکتے' اور 'یہودی بھی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔سل پرستی کی مخالفت کرنے والے کئی گروپوں نے بھی اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔صدر ٹرمپ سمیت مختلف سیاسی رہنماں نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا: 'نفرت اور تقسیم فوری طور پر رکنی چاہیے۔ ہمیں امریکی شہری کے طور پر ملک کے ساتھ محبت کے لیے ایک ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔کئی دیگر رپبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماں نے بھی اس تشدد کو نسل پرستانہ اور نفرت انگیز بتا کر سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دریں اثناء امریکی ریاست ورجینیا میں کار سوار نے ہجوم پر گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں 3افراد ہلاک اور 19زخمی ہوگئے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا کے گورنر ٹیری میکالف کے مطابق ورجینیا کے کالج ٹاون شارلٹس ول میں ہفتے کے روز تین افراد ہلاک اور انیس اس وقت زخمی ہو گئے، جب سفید فام قوم پرستوں کی ایک ریلی کے خلاف احتجاج کرنے والے پیدل افراد پر ایک شخص نے گاڑی چڑھا دی۔ پولیس نے کار سوار کو گرفتار کر لیا ہے ۔ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب سفید فاموں کی ریلی کے خلاف احتجاج کرنے والے علاقہ خالی کر رہے تھے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ ہم شارلٹس ول ورجینیا کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ممکنہ طور پر سخت ترین الفاظ میں نفرت، عدم برداشت اور تشدد کے اس مظاہرے کی مذمت کرتے ہیں، جو ہر طرف سے کیا گیاہر طرف سے۔پولیس نے ہفتے کی دوپہر کو شارلٹس ول میں ہونے والے اس اجتماع کو غیر قانونی اجتماع قرار دے دیا تھا۔ اور ریلی میں شریک افراد کو گھروں کو واپس جانے کو کہا گیا تھا۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے موبائل فون سے بنائی گئی وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے،کہ نا معلوم گاڑی نے اپنے آگے جانے والے گاڑی کو پیچھے سے ٹکر ماری اور پھر گاڑی نے تیز رفتاری سے پیچھے ہٹتے ہوئے پیدل چلنے والوں کو لپیٹ میں لے لیا۔۔کچھ اور وڈیوز میں اسلحہ بردار اور ڈھال اٹھائے ہوئے مظاہرین ایک دوسرے پر مکے برسا رہے ہیں، جب کہ ان سے الجھنے والوں نے بھی وہی حربے اپنائے ہوئے ہیں۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق واقعے سے پہلے احتجاج کرنے والوں اور جوابی کارروائی کرنے والے مظاہرین کے درمیان تشدد کی متعدد جھڑپیں ہوئیں ۔ورجینیا کے گورنر، ٹیری مکالیف نے ٹوئٹر پر ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''یہ اس لیے ضروری ہوگیا تھا، تاکہ شارلٹس ول میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے تشدد پھیلانے والوں کا توڑ کیا جاسکے۔اپنے ٹوئیٹ میں، انھوں نے کہا کہ ''شارلٹس ول میں گذشتہ 12 گھنٹوں کے دوران ہونے والی حرکات اور بیانیہ ناقابل قبول ہے جسے بند ہونا چاہیئے۔ آزادی اظہار کا مطلب تشدد کی راہ اپنانے کا اختیار ہرگز نہیں ہے۔روایتی طور پر ڈیمو کریٹک ووٹنگ ٹاون سمجھے جانے والے شارلٹس ول قصبے کو ریاست ورجینیا کی آئیوی لیگ قرار دی جانے والی یونیورسٹی آف ورجینیا کا گھر سمجھا جاتا ہے۔ قوم پرست سفید فاموں کا اجتماع شارلٹس ول کی انتظامیہ کی جانب سے شہر سے کینفیڈریسی کی علامات ختم کرنے کے فیصلے کے بعد منعقد کیا گیا تھا۔ جمعے کی رات بھی یونیورسٹی میں جمع ہونے والے مشعل بردار سفید فام قوم پرستوں اور ان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ہفتے کی دوپہر ہونے والے اجتماع کو 'یونائٹ دا رائٹ' ریلی قرار دیا گیا تھا، جس میں شرکت کے لئے سفید فام قوم پرست اور دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے احتجاجی امریکہ بھر سے شارلٹس ول پہنچے تھے۔۔اور ریاست کے گورنر نے لوگوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ کیمپس سے دور رہیں۔ایک اور واقعے میں ہفتے کی دوپہر شارلٹس ول کے قریب ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا ، حادثے میں پائلٹ اور ایک مسافر کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ پولیس نے اب تک واقعے کی مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، اسد عمر
اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، اسد عمر
اسلام آباد (عکس آن لائن) پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اپنے بیان میں اسد عمر نے کہاکہ ہمارے ورکر مراد بخاری کو پکڑنے آئے اور نہیں ملا تو بھائی مہتاب بخاری کو پکڑ کر لے گئے۔ انہوںنے کہاکہ ملک کا دارالحکومت ہے یا کوئی جنگل۔ انہوںنے کہاکہ انشاء اللہ ان تمام غیر قانونی کام کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rabiabilalsblog · 5 years
Text
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
0 notes
classyfoxdestiny · 2 years
Text
کرائم اسپائکس سکولوں کو ریسورس آفیسرز کو بحال کرنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ ڈیفنڈ موومنٹ ختم ہو جاتی ہے۔ #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%da%a9%d8%b1%d8%a7%d8%a6%d9%85-%d8%a7%d8%b3%d9%be%d8%a7%d8%a6%da%a9%d8%b3-%d8%b3%da%a9%d9%88%d9%84%d9%88%da%ba-%da%a9%d9%88-%d8%b1%db%8c%d8%b3%d9%88%d8%b1%d8%b3-%d8%a2%d9%81%db%8c%d8%b3%d8%b1%d8%b2/
کرائم اسپائکس سکولوں کو ریسورس آفیسرز کو بحال کرنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ ڈیفنڈ موومنٹ ختم ہو جاتی ہے۔
Tumblr media
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
جیسے ہی 2020 میں پولیس کی تحریک جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، اسکول کے وسائل کے افسران بجٹ میں کمی کی گئی اور بہت سے افسران کو دالانوں سے ہٹا دیا گیا۔ تقریباً دو سال بعد، سرکاری اسکولوں میں جرائم کے بڑھنے کے ساتھ ہی اس میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔
“میرے خیال میں آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اور ان اسکولوں کے اضلاع کا ردعمل بالکل وہی ہے جو ہم اس ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر میں دیکھ رہے ہیں: ہر ایک کو پولیس کو ڈیفنڈ کرنے پر خریدار کا پچھتاوا ہے،” پولیس کے برادرانہ آرڈر کے قومی نائب صدر جو گمالڈی پیر کو فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہمارے پاس پچھلے سال 16 امریکی شہروں میں ریکارڈ شدہ تاریخ میں سب سے زیادہ قتل کی شرح تھی، اور اب لوگ تیزی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور یہ محسوس کر رہے ہیں کہ پولیس افسران ہماری کمیونٹیز میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔”
اسکولوں سے پولیس افسران کو ہٹانے کے لیے ملک گیر بحث چھڑ گئی
منٹگمری کاؤنٹی، میری لینڈ میں، اسکولوں نے طلباء کو کیمپس میں خوش آمدید کہا اس تعلیمی سال میں 2002 کے بعد پہلی بار دالان میں گشت کرنے والے افسران کے بغیر۔ اس کے بجائے، ان کے پاس “کمیونٹی انگیجمنٹ آفیسرز” تھے جو اسکولوں کے قریب علاقوں میں گشت کرتے تھے۔
کلاس کے پہلے چار مہینوں میں، ایک حیران کن 1,688 911 کالیں کی گئیں۔. اسکولوں میں اگست اور فروری کے درمیان مجموعی طور پر 102 جنسی حملے، 87 حملے، 82 اسکولوں کو دھمکیاں، 76 کنٹرول مادہ کے واقعات، 57 ہتھیاروں سے متعلق واقعات، 57 تنازعات، 35 ذہنی صحت کے واقعات، 28 جائیداد کے جرائم اور چار ڈکیتی کے واقعات ہوئے۔ , 7 نیوز نے رپورٹ کیا۔.
Tumblr media
منیاپولس میں پولیس کے احتجاج کو ڈیفنڈ کریں (جیری ہولٹ/اسٹار ٹریبیون بذریعہ اے پی) (جیری ہولٹ/اسٹار ٹریبیون بذریعہ اے پی)
21 جنوری کو کاؤنٹی کے مگروڈر ہائی اسکول میں فائرنگ کی آوازیں آنے پر جرائم کی شدت میں اضافہ ہوا، جس نے کمیونٹی کی جانب سے کیمپس میں پولیس کو واپس لانے کے لیے کالیں تیز کر دیں۔
اب، ضلع اسکولوں میں پولیس کی موجودگی کو بڑھانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، حالانکہ پچھلے SRO کی سطح پر نہیں۔
یہ کوئی انوکھی صورت حال نہیں ہے: الیگزینڈریا، ورجینیا میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی۔
ورجینیا اسکول ڈسٹرکٹ میں پرتشدد لڑائیوں کی وجہ سے لرز اٹھا اسکول اس تعلیمی سال کے آغاز میں، جس کا الزام کچھ لوگوں نے اسکندریہ سٹی کونسل پر 2021 کے موسم بہار میں افسران کو ختم کرنے کے لیے ووٹنگ پر لگایا۔
الیگزینڈریا سٹی کونسل نے تشدد پر اساتذہ، والدین کی درخواست کے بعد اسکول کے وسائل کے افسران کو بحال کیا
“ہمارے طلباء ہمیں انتباہی شاٹس بھیج رہے ہیں، لفظی طور پر وارننگ شاٹس،” پیٹر بالاس، الیگزینڈریا سٹی ہائی اسکول کے پرنسپل نے اکتوبر میں SROs کو کیمپس میں واپس لانے کے حوالے سے ایک میٹنگ میں کہا۔ “براہ کرم اس پر دوبارہ غور کریں۔ میرا عملہ، میرے طلباء۔ ہم ٹھیک نہیں ہیں۔”
سٹی کونسل نے بالآخر اکتوبر میں اس تعلیمی سال کے اختتام تک اسکولوں میں SROs کو عارضی طور پر بحال کرنے کے لیے ووٹ دیا۔
اور کیلیفورنیا میں، پومونا یونیفائیڈ سکول بورڈ نے ڈیفنڈ کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کے اسکول پولیس نے پچھلے سال. لیکن صرف چار ماہ بعد، ایس آر او کیمپس میں واپس آ گئے تھے۔ پومونا ہائی سکول کے قریب فائرنگ کے نتیجے میں 12 سالہ بچہ زخمی ہو گیا۔
Tumblr media
ایک خالی کلاس روم۔ (iStock)
قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو جو اسکول ریسورس آفیسرز کے طور پر کام کرتے ہیں، جیسے نیشنل ایسوسی ایشن آف اسکول ریسورس آفیسرز کے نائب صدر روڈی پیریز، کام “واقعی پولیس اہلکار ہونے کے بارے میں نہیں ہے۔” اس کے بجائے ی�� “حقیقت میں اس ماحولیاتی نظام کا حصہ بننے کے بارے میں ہے جس سے آپ حفاظتی مسائل، والدین کے خدشات، اساتذہ کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔”
ورجینیا اسکول ریسورس آفیسر ہائی اسکول جھگڑے میں طالب علم کو بچانے کے لیے جسم کا استعمال کرتا ہے
“میں ایمانداری سے آپ کو کیمپس کے قانون نافذ کرنے والے افسر کے طور پر بتا سکتا ہوں، یہ 90% سے زیادہ تھا … تناؤ کو سنبھالنا اور مسائل کو حل کرنا۔ اس کا دس فیصد واقعی نفاذ تھا،” پیریز نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا۔
کارکنوں، ڈیموکریٹک رہنماؤں اور کچھ طلباء نے ڈیفنڈ تحریک کے عروج کے دوران دلیل دی کہ SROs کو کیمپس سے ہٹا دیا جانا چاہیے کیونکہ سیاہ فام اور لاطینی طلباء کو غیر متناسب طور پر گرفتار کیا جا رہا تھا یا نظم و ضبط کا شکار کیا جا رہا تھا، جس میں بہت سے لوگ فلائیڈ کی موت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
میری لینڈ کے پولیس افسر نے طالب علم کو آنے والی کار سے بچایا، ویڈیو شوز
امریکن سول لبرٹیز یونین آف سدرن کیلی فورنیا کے سینئر پالیسی کونسل عامر وائٹیکر نے کہا، “گزشتہ سال کے دوران ہونے والی بغاوتوں اور حالیہ واقعات کی وجہ سے، طالب علم صرف پولیس افسران کے واپس آنے پر ان کا استقبال نہیں کرنا چاہتے۔” جولائی میں ایل اے ٹائمز کو بتایا.
“اساتذہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسکول پولیس کو ہٹانے کی لڑائی نسلی انصاف کی لڑائی کا حصہ ہے،” انہوں نے مزید کہا۔
Tumblr media
ایک مظاہرین کے پاس ایک نشان ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کا دفاع کریں کیونکہ پولیس کے حامی مظاہرین “پولیس کا دفاع کریں” پروگرام کے دوران شہر بلومنگٹن سے گزرتے ہوئے پولیس کی حمایت میں اور پولیس کو ڈیفنڈ کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ (جیریمی ہوگن/سوپا امیجز/لائٹ راکٹ بذریعہ گیٹی امیجز) (گیٹی امیجز)
اسکول ریسورس آفیسر پروگرام سب سے پہلے 1950 کی دہائی میں ریاستہائے متحدہ میں شروع ہوئے اور اس کے بعد عام ہو گئے۔ 1999 میں کولمبائن اسکول شوٹنگ کا سانحہ.
برادرانہ آرڈر آف پولیس نیشنل کے صدر پیٹرک یوز نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ اسکول کے وسائل کے افسران بنیادی طور پر یہ کام انجام دیتے ہیں: اسکولوں کے اندر حفاظت اور تحفظ فراہم کرنا، “دیواریں گرانا، بچوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا،” اور “قانون سے متعلق تعلیم۔ ”
Yoes نے کہا کہ اسکولوں میں پولیس افسران کا ہونا “فطری” ہے اور اس کا موازنہ کسی بھی بڑے پروگرام یا کنسرٹ سے کیا جاتا ہے جس میں حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
“میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں 36 سال کام کیا اور ان 36 سالوں میں، میں نے لوزیانا کے ایک ہائی اسکول میں ریسورس آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اور میں آپ کو بتاؤں گا کہ کوئی بھی نہیں، یہ میرے پاس اب تک کا بہترین کام تھا کیونکہ میں اس اسکول میں گیا تھا۔ ہر روز ایسا محسوس کرتے ہوئے کام کریں جیسے میں واقعی کچھ کر رہا ہوں اور میں محسوس کر سکتا ہوں کہ مجھ پر اثر ہو رہا ہے،” Yoes نے کہا۔
Source link
0 notes
dunyatoday · 7 years
Photo
Tumblr media
عورت اور معاشرتی بے حسی کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں بسنے والی خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں اور ان حقوق کے دفاع کے لئے ریاستی ادارے کس حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ویسے تو خواتین کو دی جانے والی عزت کے بڑے چرچے ہوتے ہیں لیکن اصلیت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر آپ خواتین کے بارے میں ہمارے معاشرے کے عمومی رویے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے بس ہمارے ملک میں قائم بہت سے متوازی عدالتوں کے فیصلے ہی دیکھ لیجئے۔ نام چاہے پنچایت ہو یا جرگہ، ان متوازی عدالتوں کے فیصلے ہمیشہ مردوں کی کئی گئی غلطیوں یا گناہوں کی سزا عورتوں سے وصول کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک متوازی عدالت ملتان کے نواحی علاقہ مظفر آباد میں بھی لگائی گئی، جہاں ایک نوجوان نے جب ایک لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا تو پنچایت نے سزا کے طور پر ملزم کی بہن سے زیادتی کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ایک نوجوان لڑکی کی زندگی اس لئے تباہ کر دی گئی کہ اس کے بھائی نے ایک اور لڑکی کی زندگی تباہ کی تھی۔ جنگل کے قانون میں تو شاید اس طرح کے فیصلے چل جاتے ہوں لیکن ایک جمہوری ملک میں ایسا عمل سر انجام دینا نہایت ہی شرمناک عمل ہے۔ لیکن ایسا پہلا مرتبہ نہیں ہوا، ماضی میں بھی پنچایتوں کے حکم پر خواتین کی عصمت تار تار کی جاتی رہی ہے۔ اگر آج سے دس سال قبل مختاراں مائی کے کیس میں ہی عدالتیں مجرمان کو سزا دے دیتیں تو شاید ایسی متوازی عدالتوں میں فیصلہ سنانے والوں کو کوئی خوف ہوتا۔ اگر مظفر گڑھ کی اس پنچا یت کے شرکاء کو سخت سزا ہوئی ہوتی جنہوں نے ایک 40سا لہ عورت کو اس کے بھا ئی کے غیر اخلاقی تعلقا ت کی وجہ سے گینگ ریپ کی سزا سنائی تھی تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ لیکن چونکہ وہ چالیس سالہ عورت ریپ کروانے کے بعد مز��د کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پنچایت کے شرکاء کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اگر مظفر گڑھ کے پنچایتی ریپ کے بدلے ریپ کرنے کی سزا تجویز کرنے کے بعد جیل کی ہوا کھا رہے ہوتے تو کیاگجرا ت کے ایک گا ئو ں میں ایک شا دی شدہ عورت کو پنچا یت ریپ کی سزا سنا تی؟ اس عورت کے باپ پر ایک کم عمر بچی کے ریپ کا الز ام تھا،گائوں کی پنچایت نے فیصلہ دیا کہ باپ کے جرم کی سزا اس کی بیٹی کو دی جائے۔ متا ثر ہ خا تو ن کا خا وند ملک سے با ہر تھا جبکہ وہ اپنے ما ں با پ کے گھر رہتی تھی، پنچایت کے فیصلے پرزیادتی کا نشانہ بننے کے بعد شاید وہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر اسے قبول نہیں کرے گا، اسی لئے اس نے خود کو آگ لگا کر اپنی زندگی ختم کر لی یا پھر شاید وہ خود ہی سے یہ سوچ کر نظریں نہ ملا پائی کہ اس دنیا میں نہ اس کے جذبات کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اس کا جسم اس کی ملکیت۔ وہ اس دنیا اور اپنے خاندان کے لئے بس ایک جذبات سے عاری کھلونا ہے ، جس کے ساتھ وہ جب چاہیں ، جیسے چاہیں کھیل لیں۔یہ خبر بھی دیگر خبروں کی طرح چند دن اخبارات کی زینت بنی رہی اور پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ۔ سوال یہ ہے کہ عدالتی نظام کی موجودگی میں قائم کیے جانے والے اس متوازی نظام کو کیونکر اب تک برداشت کیا جاتا رہا ہے؟ معمولی نوعیت کے چھوٹے موٹے مسائل کو تو یقینا علاقہ کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن قتل، زیادتی اور اس طرح کے دیگر سنگین جرائم کے حل کے لئے پنچایت یا جرگہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ جب ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تو پھر ان کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں نہ لانے کی کیا وجہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایسے واقعات کے میڈیا میں رپورٹ ہونے کے بعد ہی انتظامی مشینری حرکت میں لائی جاتی ہے اور جونہی میڈیا کی توجہ کسی اور جانب ہوتی ہے، تب پھر سے ریاستی ادارے گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ موجودہ کیس میں بھی میڈیا میں خبر آنے کے بعد سے لے کر اب تک بہت سے افسران متاثرہ خاندان کے گھر جا کر انہیں انصاف فراہم کرنے کا یقین دلا چکے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف خود بھی پنچایت کے حکم پر زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کے گھر گئے تھے۔ یقیناََ و زیر اعلیٰ پنجاب نے اس بات پر بھی غور کیا ہوگا کہ اگر ان کے صوبائی محکمے اپنا کام درست انداز میں سرانجام دے رہے ہوتے تو شاید انہیں اس بچی کے گھر جانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ وزیر اعلیٰ نے شاید کچھ پولیس افسران کو بھی معطل کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ حربہ اب کچھ زیادہ کارآمد دکھائی نہیں دیتا۔ پولیس افسران کو غفلت کی بنیاد پر معطل کر دینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ وزیر اعلیٰ وقتاََ فوقتاََمختلف محکمے کے لوگوں کو معطل کرتے رہتے ہیں اور شاید اب سرکاری محکموں میں کام کرنے والے اسے بھی پنجاب میں ملازمت کرنے کے حصے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کیس میں متاثرہ لڑکی کی ماں نے پنچایت کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لئے تقریباََ چھ دن تک انتظار کیا اور پھر جب پولیس نے اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کر ہی لی تو یقیناََ صلح کے لئے دبائو بھی ڈالا گیا ہوگا۔ تب ہی تو سرکار کی مدعیت میں درج کی جانے والی تیسری ایف آئی آر سے پہلے دونوں فریقین کو صلح کے لئے عدالت لے کر جایا گیا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ریپ جیسے فوجداری مقدمے میںجس کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے پولیس کی نظر میں ایک ایسا کیس ہے جس میں فریقین آپس میں صلح کر سکتے ہیں۔ پولیس کا یہی رویہ ہے جو ان پنچایتوں اور جرگوں کو اتنا طاقتور بنا دیتا ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اس کیس کے حوالے سے بہت سی جذباتی باتیں لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔مگر ایک عورت کے حوالےسے اس معاشرے میںجذباتی گفتگو لکھنا دوغلے پن سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔۔کیونکہ عورت کے جذبات اور احساسات کی اس بے حس معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں۔ وہ جذبات سے عاری ایک ایسا ڈھانچہ سمجھی جاتی ہے ،جسے مرد کے گناہوں کا کفارہ ہر حال میں ادا کرنا ہے۔
0 notes
Photo
Tumblr media
توہین تسبیح اور بندروں کی بندگی-نعیم احمد جس ہاتھ میں وہ تسبیح پکڑے اللہ کا ذکر کر رہا تھا، اس کا وہ ہاتھ اس کی پیٹھ پر موجود تھا اور وہ بڑے انہماک سے ٹہلتے ہوئے ذکر میں مشغول تھا۔ اچانک ایک مولانا کی وضع والے شخص نے اسے اس طرح تسبیح پڑھتے دیکھ لیا۔ اس نے شور مچا دیا کہ دیکھو یہ تسبیح کو پیٹھ پیچھے رکھ کر اس کی توہین کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ شور زیادہ ہونے پر معاملہ بڑھتا اور سادہ لوح عوام بنا سوچے سمجھے اسے اپنی عدالت لگا کر فیصلہ اور سزا سنا کر اس پر عمل درآمد کرتی کہ مسجد کے ادب و احترام کے پیش نظر انہیں خاموش کرا دیا گیا۔ تسبیح والا شخص سہمے ہوئے ایک جانب بیٹھ گیا۔ بظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے، لیکن رونما ہو جانے کی صورت میں کس قدر بھیانک نتائج اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں ایک بندر نے چیڑھ کے خوبصورت جنگل میں آنے والے سیاحوں پر کرنسی نوٹوں کی بارش کر دی۔ جنگل میں آنے والے سیاح ایک گھنٹے تک نوٹ اکٹھے کرتے رہے۔ اطلاعات کے مطابق دس ہزار روپے مالیت کی یہ بھارتی کرنسی ایک قریبی گھر سے چرائی گئی تھی۔ یہ بندر کھانے کی تلاش میں ایک گھر میں داخل ہوا، تاہم اسے کھانے کو تو کچھ نہ ملا تو وہ یہ کرنسی چرا کر لے گیا۔ بندر اپنے ہاتھ میں نوٹ پکڑ کر پہلے تو ایک ٹین کی چھت پر بیٹھا رہا پھر کچھ دیر بعد اس نے ایک ایک کر کے نوٹ لوگوں کی جانب پھینکنا شروع کر دیے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کی اس ریاست میں تین لاکھ بندر ہیں. یہ جگہ ایک عرصے سے ان کے لیے جنت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوؤں میں بندر کو مقدس (ہنومان) خیال کیا جاتا ہے اور وہ ان کی پرورش بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران بندروں کے انسانوں کے ساتھ تنازعات میں تیزی آئی ہے اور وہ انسانوں پر حملے اور انہیں جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں حکام نے بندروں کو ایک مصیبت قرار دیا ہے۔ سڑکوں پر گھومنا، شہریوں کو تنگ کرنا، سامان چرانا اور گھروں میں گھس کر چیزوں کی توڑ پھوڑ کرنا، غرضیکہ بندروں نے لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بندروں کی حد سے بڑھتی شرارتوں کے بعد ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت سے بندروں کے خلاف ایکشن لینے کی اپیل کی جس کے بعد بندروں کو موذی جانور قرار دے دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اب بندروں کو مارنے کی مہم چلائی جائے گی۔ ملک میں جب تک تعلیم کا حصول تمام لوگوں کے لیے آسان نہیں ہو گا لوگوں میں شعور بیدار نہیں ہو گا اور جب تک نوجوان طبقہ برسر روزگار نہیں ہو گا اس وقت تک بے روزگار نوجوان اسی طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہیں گے اور اسی طرح کے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ تعلیم اور روزگار مہیا کرنا یقیناً ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جب ریاست اپنی اس ذمہ داری کو پوری طرح سے انجام نہیں دے پا رہی تو نوجوان طبقے کو آگے بڑھ کر اس معاملے میں ریاست کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ پڑھے لکھے افراد کو اپنے اردگرد دیکھنا ہو گا کہ کتنے بچے ایسے ہیں جو معاشی حالات کی وجہ سے سکول نہیں جا پا رہے، وقت نکال کر اپنے علاقے کی سطح پر انہیں کسی جگہ پڑھانے کا انتظام کریں۔ یقین کیجیے اس طرح کی کوشش، محنت اور پڑھائی کے نتیجے میں ہی ایسے ایسے گوہر نایاب سامنے آتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ نوجوانوں میں کچھ ایسے افراد جو معاشی طور پر تھوڑا بہتر ہوں انہیں اپنے جیسے نوجوانوں کے لیے آگے بڑھ کر ان کے روزگار کے لیے کوشش کرنی ہو گی۔ مخیر حضرات کو آگے آ کر ان نوجوانوں کے لیے سود سے پاک چھوٹے چھوٹے قرضوں کا انتظام کرنا ہو گا، جس سے یہ لوگ کسی بھی قسم کی گھریلو انڈسٹری قائم کر کے یا چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ ہنر سکھانے کے لیے تعلیم یافتہ افراد کو ایسے اداروں میں داخلہ دلوایا جائے جہاں سے فراغت کے بعد یہ نوجوان معاشرے کے لیے بہتر شہری ثابت ہو سکیں۔ مذہب کے نام پر کسی پر بھی کسی بھی قسم کی توہین کا الزام لگا کر یہ جو شہریوں کو سرعام سزا دے دی جاتی ہے۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ اس میں نام نہاد علماء حضرات جو کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ ملکی سطح پر جمعے کے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے۔ ریاست کی جانب سے جمعے کا خطبہ تفویض کیا جائے اور اس کی روشنی میں واعظ حضرات کے ذریعے سے اردو میں لوگوں کی اصلاح کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ عوام میں قانون کے احترام کا شعور اجاگر کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ قانون کو کسی قسم کی صورت حال میں بھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ جو کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے، وہ انہی کو کرنا ہے۔ عوام کا کام قانون کی پاسداری کرتے ہوئے غلط افعال کی نشاندہی کرنا ہے نہ کہ اپنی ہی عدالت لگا کر فیصلہ صادر فرما کر سزا دے دینا۔ یہ جو غلط رجحان چل پڑا ہے یہ امن عامہ کے لیے بہت خطرناک ہے، اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ یہ آگ ہمارے اپنے گھروں تک بھی پہنچ جائے۔ dunyanews.tv
0 notes