Tumgik
#مسلح افراد
akksofficial · 2 years
Text
ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حماد اظہر
ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حماد اظہر
لاہور (نمائندہ عکس) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے کہا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی دفتر میں توڑ پھوڑ پر کارکنوں نے مزاحمت کی، نذیرچوہان کی سربراہی میں دفتربند کرنے کا کہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سازش کے تحت ملک پر مسلط کیے گئے، ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
رات گئے مسلح افراد میرے گھر آئے، مراد سعید کا دعویٰ
رات گئے مسلح افراد میرے گھر آئے، مراد سعید کا دعویٰ
پی ٹی آئی رہنما مراد سعید کا کہنا ہے کہ پولیس چیک پوسٹ پر مسلح افراد کو نہیں روکا گیا۔ اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما مراد سعید نے جمعرات کو دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ رات مسلح افراد ان کے گھر آئے جب وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں داخل شہباز گل کی عیادت کے لیے اسپتال میں موجود تھے۔ پی ٹی آئی رہنما نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی – جو ایک گاڑی کے اندر سے ریکارڈ کی گئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
نائجیریا، گرجا گھر پر مسلح افراد کا حملہ، 50 افراد ہلاک
نائجیریا، گرجا گھر پر مسلح افراد کا حملہ، 50 افراد ہلاک
نائجیریا کے شہر لاگوس میں ایک چرچ پر حملے میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مقامی میڈیا اور ہسپتال ذرائع کے مطابق مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق مسلح افراد نے جنوب مشرقی شہر لاگوس کے چرچ پر گزشتہ روز اس وقت حملہ کیا جب وہاں بڑی تعداد میں لوگ عبادت کے لیے جمع تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فوری طور پر حملے کا محرک واضح نہیں ہو سکا ہے۔ اونڈو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 1 day
Link
0 notes
software-specialist · 1 month
Text
تعریف هوش مصنوعی برای کودکان
Tumblr media
یک دستیار آنلاین خودکار که خدمات مشتری را د تعریف هوش مصنوعی برای کودکان ر یک صفحه وب ارائه می کند - یکی از بسیاری از کاربردهای بسیار ابتدایی هوش مصنوعی.
هوش مصنوعی (AI) توانایی یک برنامه کامپیوتری یا یک ماشین برای تفکر و یادگیری است. این همچنین یک رشته تحصیلی است که سعی می کند رایانه ها را "هوشمند" کند. جان مک کارتی در سال 1955 نام "هوش مصنوعی" را مطرح کرد.
به طور کلی، اصطلاح "هوش مصنوعی" به معنای ماشینی است که شناخت انسان را تقلید می کند. حداقل برخی از چیزهایی که ما با ذهن های دیگر مرتبط می کنیم، مانند یادگیری و حل مسئله، م تعریف هوش مصنوعی برای کودکان ی توانند توسط رایانه انجام شوند، البته نه به همان روشی که ما انجام می دهیم.
یک ماشین هوشمند ایده آل (کامل) عاملی انعطاف پذیر است که محیط خود را درک می کند و اقداماتی را برای به حداکثر رساندن شانس موفقیت خود در یک هدف انجام می دهد. همانطور که ماشین‌ها توانمندتر می‌شوند، امکانات ذهنی که زمانی تصور می‌شد نیاز به هوش دارند از تعریف حذف می‌شوند. به عنوان مثال، تعریف هوش مصنوعی برای کودکان  تشخیص کاراکتر نوری دیگر به عنوان نمونه ای از "هوش مصنوعی" تلقی نمی شود: این فقط یک فناوری معمول است.
در حال حاضر ما از اصطلاح هوش مصنوعی برای آموزش برنامه نویسی کودکان و نوجوانان  درک موفقیت آمیز گفتار انسان، رقابت در سطح بالایی در سیستم های بازی استراتژیک (مانند شطرنج و برو)، ماشین های خودران و تفسیر داده های پیچیده استفاده می کنیم. همچنین برخی افراد هوش مصنوعی را در  تعریف هوش مصنوعی برای کودکان صورت پیشرفت بی وقفه خطری برای بشریت می دانند.
هدف افراطی تحقیقات هوش مصنوعی ایجاد برنامه های کامپیوتری است که می توانند یاد بگیرند، مشکلات را حل کنند و منطقی فکر کنند. با این حال، در عمل، اکثر برنامه‌های کاربردی مشکلاتی را انتخاب کرده‌اند که رایانه‌ها می‌توانند آن‌ها را به خوبی انجام دهند. جستجو در پایگاه های داده و انجام محاسبات چیزهایی هستند که رایانه ها بهتر از افراد انجام می دهند. از سوی دیگر، "درک محیط آن" به هر معنای واقعی بسیار فراتر از  تعریف هوش مصنوعی برای کودکان محاسبات امروزی است.
هوش مصنوعی شامل بسیاری از زمینه های مختلف مانند علوم کامپیوتر، ریاضیات، زبان شناسی، روانشناسی، علوم اعصاب و فلسفه است. در نهایت محققان امیدوارند که یک "هوش مصنوعی عمومی" ایجاد کنند که بتواند بسیاری از مشکلات را به جای تمرکز بر یک مورد حل کند. محققان همچنین در تلاش برای ایجاد هوش مصنوعی خلاقانه و احساسی هستند که احتمالاً می تواند همدلی کند یا هنر ایجاد کند. روش ها و ابزارهای زیادی تعریف هوش مصنوعی برای کودکان  امتحان شده است.
فهرست
تاریخ
هوش مصنوعی در حکمرانی
ابر هوش
خطرات
بیکاری تکنولوژیک
بازیگران بد و هوش مصنوعی مسلح
تعصب الگوریتمی
ریسک وجودی
کپی رایت
ماشین های اخلاقی
در داستان
تصاویر برای بچه ها
صفحات مرتبط
همچنین ببینید
تاریخ
اشیایی که شبیه انسان هستند در هر تمدن بزرگی تعریف هوش مصنوعی برای کودکان  وجود دارند. اولین ظهور هوش مصنوعی در اسطوره های یونانی مانند تالو کرت یا ربات برنزی هفائستوس است. روبات های انسان نما توسط یان شی، قهرمان اسکندریه و الجزاری ساخته شده اند. ماشین‌های حساس در داستان‌های داستانی در قرن ۱۹ و ۲۰ با داستان Definition of artificial intelligence for children ‌های فرانکنشتاین و R.U.R محبوب شدند.
0 notes
jhelumupdates · 1 month
Text
پنڈدادنخان میں مسلح ڈاکوؤں نے خواتین کو یرغمال بنا کر طلائی زیورات، موبائل فونز اور دیگر اشیاء لوٹ لیں
0 notes
abmanbaee · 2 months
Text
منبع تحت فشار
Tumblr media
مخزن آب (تانک آب) یک ساختار یا وسیله‌ای است که برای ذخیره آب استفاده می‌شود. این مخازن معمولاً از مواد مانند پلاستیک، فایبرگلاس، بتن مسلح یا فلز ساخته می‌شوند و به منظور ذخیره آب شرب، آب باران، آب سطحی یا آب شهری استفاده می‌شوند. در زیر توضیحاتی در مورد مخازن آب را می‌یابید:
انواع مخازن آب: مخازن آب به انواع مختلفی تقسیم می‌شوند، از جمله:
مخازن آب بالادستی: این نوع مخازن در ارتفاع قرار گرفته و با استفاده از گرانش، فشار آب را تأمین می‌کنند.
مخازن آب پایین‌دستی: این مخازن در سطح زمین قرار دارند و نیاز به پمپ برای افزایش فشار آب دارند.
مخازن آب افقی: این مخازن در زیر زمین یا در سطح زمین به صورت افقی قرار می‌گیرند و برای ذخیره آب استفاده می‌شوند.
نصب مخزن آب: برای نصب مخزن آب در خانه، ابتدا باید محل مناسب برای آن را انتخاب کنید. عواملی مانند فضای موجود، دسترسی به منبع آب، ارتفاع مخزن و محل نصب پمپ بوستر را باید در نظر بگیرید. سپس مخزن آب را در محل مورد نظر قرار داده و به سیستم آب خانه متصل می‌کنید. معمولاً این اتصال شامل لوله‌کشی و سوپاپ‌های مخصوص می‌شود.
ظرفیت مخزن آب: ظرفیت مخزن آب بستگی به نیازهای شما و مصرف آب خانه دارد. برای تعیین ظرفیت مناسب، باید میزان مصرف آب روزانه خانه را در نظر بگیرید. عواملی مانند تعداد افراد ساکن، تعداد سیستم‌های مصرف کننده آب، فصل سال و میزان بارش آب می‌تواند تعیین کننده ظرفیت مخزن آب باشد.
تأمین آب: مخازن آب معمولاً به عنوان منبع اضطراری آب در مواقع قطعی آب شهری، کمبود آب یا برای استفاده در مناطقی با مشکلات آبی استفاده می‌شوند. با تأمین آبمنبعی مطمئن و ذخیره‌سازی آن در مخزن آب، می‌توانید در مواقع اضطراری به آب دسترسی داشته باشید.
نکته مهم: برای نصب و استفاده از مخازن آب، بهتر است با قوانین و مقررات محلی مربوط به آب و فاضلاب آشنا شوید و در صورت نیاز، با مراجع مربوطه مشورت کنید. همچنین، نگهداری و تعمیرات دوره‌ای مخزن آب نیز اهمیت دارد تا به عمر مفید طولانی‌تری دست یابید.
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
کراچی کے مختلف علاقوں میں 3 افراد قتل، ایک خاتون اور بچی اندھی گولی سے زخمی
کراچی میں رات گئے نامعلوم مسلح ملزمان نے تین افراد کو قتل کر دیا، پولیس کے مطابق کورنگی نمبر پانچ میں فائرنگ سے نوجوان جاں بحق ہوگیا، مقتول کی شناخت 30 سالہ فیضان کے نام سے ہوئی واقعہ ذاتی دشمنی پر پیش آیا۔ پی آئی بی کالونی میں  ایک شخص کو موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا، جاں بحق شخص تندور میں روٹی لگانے کا کام کرتا تھا۔ اسکیم تینتیس ماروڑا گوٹھ میں فائرنگ سے رکشہ ڈرائیور جمشید…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 4 months
Text
بھارت کی ریاست منی پور میں فائرنگ، 3 افراد ہلاک - ایکسپریس اردو
منی پور میں کوکی اور میتی قبیلے کے درمیان مئی سے فسادات جاری ہیں۔فوٹو: اے ایف پی منی پور: بھارت کی نسلی فسادات سے متاثرہ ریاست منی پور کے ایک گاؤں میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3 شہریوں کو قتل اور 5 کو زخمی کردیا۔ خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق منی پور کے ضلع تھوبال کے علاقے لیلونگ میں فسادات کا تازہ واقعہ پیش آیا، جہاں ایک مسلح گروپ نے بلاامتیاز فائرنگ شروع کردی۔ ریاست کے سینئر پولیس افسر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
کراچی کے الآصف اسکوائر پر مسلح افراد نے کار کو آگ لگا دی۔
کراچی کے الآصف اسکوائر پر مسلح افراد نے کار کو آگ لگا دی۔
اس اسکرین گریب میں سہراب گوٹھ کے الآصف اسکوائر میں آگ لگنے والی کار کو دکھایا گیا ہے۔ کراچی: حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں رواں ہفتے کے آغاز میں نوجوان کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے درمیان شہر کے سہراب گوٹھ کے علاقے میں جمعہ کو نامعلوم افراد نے ایک کار کو آگ لگا دی۔ ڈی ایس پی سہراب گوٹھ سہیل فیض کے مطابق الآصف اسکوائ�� کے قریب مسلح گروپوں نے ایک گاڑی کو آگ لگا دی جس کے بعد پولیس نے 15 افراد کو گرفتار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
راولپنڈی میں پولیس پارٹی پر مسلح افراد کی فائرنگ
راولپنڈی میں پولیس پارٹی پر مسلح افراد کی فائرنگ
راولپنڈی میں مسلح افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی اور اس کے بعد جائے وقوع سے فرار ہو گئے، خوش قسمتی سے پولیس اہلکار محفوظ رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق راولپنڈی ٹیکسلا ریلوے پھاٹک کے قریب 3 موٹر سائیکل سوار ملزمان نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا۔ ترجمان راولپنڈی پولیس نے بتایا کہ ملزم کے قبضے سے کچھ دیر قبل سعد نامی شہری سے چھینی گئی موٹر سائیکل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
اگر اسرائیل کا نام سوڈان اور امریکا کمپوچیا ہوتا
Tumblr media
جو بائیڈن میں کم از کم ایک خوبی ضرور ہے، وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس چھاپہ ماروں کی مسلح کارروائی کے دوران لگ بھگ بارہ سو اسرائیلی سویلینز بشمول تین سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ڈھائی سو کے لگ افراد کو حماس کے چھاپہ مار یرغمال بنا کے اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر پھر کردار کش مشنیری حرکت میں آ گئی اور یہ خبر اڑا دی گئی کہ حماس کے چھاپہ ماروں نے اپنی مسلح کارروائی کے دوران کئی خواتین کو ریپ کیا اور لگ بھگ چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے۔ جو بائیڈن نے اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر سچ مان لیا اور بچوں کے گلے کاٹنے کی خبر کو حماس کی سفاکی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اور خود وائٹ ہاؤس کی وائٹ واش مشینری بارہا صدرِ ذی وقار کو سمجھانے کی کوشش کر چکی ہے کہ انکل جن چالیس بچوں کے گلے کٹے تھے وہ ماشااللہ آج بھی زندہ ہیں اور جن خواتین کا مبینہ ریپ ہوا تھا ان میں سے ایک بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے انھیں بدنام کرنے کے باوجود سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا اگر کچھ ایسا ہوا تو ہم سب سے پہلے آپ کو ہی بتائیں گے۔ شانت رہیے اور ہماری بریفنگز کے مطابق چلتے رہیے۔
معلوم نہیں کسی نے جو بائیڈن کو یہ جتانے کی بھی کوشش کی ہو کہ چالیس افسانوی بچوں کے گلے کاٹنے اور بارہ سو اسرائیلیوں کی حقیقی موت کے بدلے اسرائیل اب تک انیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اور ان میں ساڑھے سات ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ اتنے ہی ملبے کے نیچے دبے دبے مر چکے ہیں اور اب ان کی لاشیں تدفین کے قابل بھی نہیں رہیں اور یہ سلسلہ اس لمحے تک جاری و ساری ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھے کو اپنے ہی مفروضوں کے جال سے نکالنا ایک آٹھ سالہ بچے کو قائل کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بچے کے تو آپ کان مروڑ کے بھی سمجھا سکتے ہیں مگر بوڑھوں کا کیا کریں۔ رہی سہی کسر بائیڈن کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پوری کر دی جب انھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد پہلی بار تل ابیب پہنچ کر اسرائیلی ہلاکتوں پر نیتن یاہو سے تعزیت کی تو یہ بھی کہا کہ وہ آج امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور یہودی بھی افسردہ ہیں۔ 
Tumblr media
غزہ کے جاری قتلِ عام کے ساتویں ہفتے میں وائٹ ہاؤس میں یہودی تہوار ہنوکا کے موقعے پر منعقد روایتی تقریب میں بائیڈن نے نکسن کے بعد سے آنے والے ہر صدر کی طرح یہودی مہمانوں کے اجتماع کو یاد دلایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کے طاقتور وجود کا ضامن رہے گا۔ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو آج دنیا میں ہر یہودی خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہتا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے پینتیس برس قبل سینیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کو ہم تین ارب ڈالر سالانہ کی جو امداد دے رہے ہیں وہ امریکا کی سب سے بہتر سرمایہ کاری ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا شرط نہیں۔ میں صیہونی ہوں۔ دو ہفتے قبل وائٹ ہاؤس کی ہنوکا تقریب میں ان خیالات کے واشگاف اظہار اور اعادے کے بعد اب بھی اگر کسی کو بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی سمجھ میں نہ آئے تو اسے کوئی بھی مثال یہ پالیسی نہیں سمجھا سکتی۔ امریکا نے انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی مخالف بین الاقوامی کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ 
اس کنونشن میں نسل کشی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق انسانوں کے کسی نسلی، مذہبی یا قومی گروہ کو جزوی و کلی طور پر مٹانے کے لیے پانچ اقدامات میں سے کوئی بھی قدم نسل کشی کہلائے گا۔ اول۔ کسی مخصوص انسانی گروہ کو جان بوجھ کے قتل کیا جانا، دوم۔ اس گروہ کو اجتماعی طور پر شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا ، سوم۔ ایسی تادیبی پابندیاں لگانا جس سے ان کی اجتماعی بقا خطرے میں پڑ جائے ، چہارم۔ ان سے حقِ پیدائش چھیننا ، پنجم۔ ان کے بچوں کو ان سے الگ کر کے جبراً کہیں اور منتقل کرنا۔ اسرائیل ان پانچ میں سے پہلی تین شرائط پوری کر رہا ہے۔ وہ ایک مخصوص علاقے ( غزہ کی پٹی) میں آباد فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مٹانے کے لیے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ اس نے سات اکتوبر سے اب تک جتنا بارود برسایا ہے۔ اس کی اجتماعی قوت ہیروشیما پر پھینکے گئے جوہری بم سے ڈھائی گنا زائد ہے۔ خود امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ پر جتنے بم گرائے گئے۔ ان میں سے پچاس فیصد اندھے یا ان گائیڈڈ بم ہیں۔ اندھے بم محضوص ہدف کا تعین کیے بغیر کسی بھی انسان یا عمارت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اور یہ اجتماعی جسمانی و نفسیاتی نقصان کا سبب ہیں۔ 
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے پانی ، خوراک ، بجلی ، ادویات کی ترسیل بند کر رکھی ہے اور اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کے تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے نسل کشی۔ نیز ان اقدامات سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ غزہ کی تئیس لاکھ آبادی یہ علاقہ جبراً خالی کر کے جلاوطن ہو جائے۔ بائیڈن انتظامیہ اس نسل کشی میں سب سے بڑی مددگار ہے۔ اس نے جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ نہ صرف غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیل کو مسلسل فراہم کر رہی ہے بلکہ کانگریس کو بائی پاس کر کے ہنگامی اختیارات کی آڑ میں اس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو توپوں اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے چودہ ہزار گولوں کی تازہ کھیپ بھی پہنچائی ہے۔ اس سب کے باوجود امریکی ذرایع ابلاغ میں ایک بار بھی یہ لفظ آج تک کسی خبر، مضمون یا اداریے میں شایع یا نشر نہیں ہو پایا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ میڈیا میں اگر کوئی جملہ تواتر سے استعمال ہو رہا ہے تو وہ ہے کہ اسرائیل حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آئین کے مطابق یہ نسل کشی کا سیدھا سیدھا کیس ہے۔مگر معاملہ اگر امریکا اور اسرائیل کا ہو تو سیدھا سیدھا کیس بھی ہکلانے لگتا ہے۔دونوں ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے دائرہ کار سے منکر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پھر بھی اگر اسرائیل اور امریکا کا نام سوڈان، لائبیریا، کمپوچیا یا سربیا ہوتا تو آج جو بائیڈن اور نیتن یاہو دی ہیگ میں کرمنل کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔ البتہ یوکرین کے ساتھ اس سے نصف نسل کش سلوک کرنے پر پوتن کے بین الاقوامی وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ولادی میر پوتن گرفتاری کے ڈر سے کسی ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جو انھیں گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کرنے کا پابند ہو۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpress · 5 months
Text
کیا پاکستان ہائبرڈ وار کے دور میں داخل ہو چکا ہے؟
Tumblr media
ہائبرڈ نفسیاتی جنگ میں عوام نہیں سمجھ سکتی کہ ملک کا دشمن کون ہے اور دوست کون؟ اس وقت پاکستان کے عوام ہائبرڈ وار لیول کے مدار میں داخل ہو چکے ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق عوام مختلف بیانیے میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اپنے گھر میں تقسیم، اپنے محلے میں تقسیم، شہر میں تقسیم، ملک کی پارلیمنٹ میں تقسیم، اداروں میں تقسیم، عدلیہ میں تقسیم، ہر جگہ تقسیم۔ یہی ہمارے دشمن کا بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ اس انتشار، خلفشار اور تقسیم سے بچیں اور عدلیہ، ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے فیصلوں میں توازن پیدا کریں۔ سانحہ نو مئی کے شرپسندوں کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے عدلیہ، حکومت اور عسکری ادارے کے ساتھ کھڑی ہونی چاہیے۔ حملہ آوروں اور سہولت کاروں پر دہشت گردی کے مقدمات چلانے اور ان کو آئندہ دنوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جناح ہاؤس اور عسکری تنصیبات پر حملے میں ملوث افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ تصاویر جاری اور 2800 سے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں اور نادرا کے تعاون سے ان کی مکمل شناخت ملنے کے بعد اخبارات میں ان ’قومی مجرموں‘ کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
نو مئی کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59 اور 60 کے تحت مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے اور ان دفعات کے تحت سزائے موت یا کم از کم عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ 1952 کی کلاز 59 جو 76 صفحات پر مشتمل ہے، سول جرائم سے متعلق ہے۔ عسکری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں 3500 افراد کے مقدمات آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کا امکان ہے۔ القادر ٹرسٹ کے لیے پنجاب حکومت، ٹرسٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو تبدیل کر کے قانون کے مطابق ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے رائے حاصل کر رہی ہے  کیونکہ طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے جلاؤ گھیراؤ اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کے لیے نئی روایت کی داغ بیل ڈال کر ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ سیاسی کشمکش نے ملک کو ایک مدت سے جس انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کا دائرہ جس طرح کلیدی ریاستی اداروں تک وسیع ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے حالات کی سنگینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
Tumblr media
آئین کی بالادستی کو یقینی بنا کر معاملات کو درست کرنے میں عدلیہ کا ادارہ مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن آج اس کے اندر بھی اختلافات و تقسیم اور جانبداری واضح ہے، جس نے اس کے منصوبوں کو سخت متنازع بنا دیا ہے۔ اس کی روشن مثال عمران خان کی گرفتاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس گرفتاری کو قانونی طور پر جائز قرار دیے جانے کے فیصلہ اور اس پر ملک بھر میں تشدد اور احتجاج کے بعد 11 مئی کو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کی فوری رہائی اور 12 مئی کو اس معاملے کی ازسرِ نو سماعت کے حکم کی شکل میں ہوا۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ میں ہونے والی اس تمام کارروائی اور اس کے فیصلے کی تفصیل نے آئین و قانون کی باریکیوں کو بخوبی سمجھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو ملزم ریمانڈ پر ہو تو ریمانڈ کے خاتمے تک اس کوعبوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔
قومی سطح پر یہ امید کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مسلح افواج کے شہدا کی یادگاروں اور جی ایچ کیو سمیت قومی اور عسکری اہمیت کے متعدد مقامات، جناح ہاؤس جو کورکمانڈر کی رہائش گاہ تھی اور سرکاری املاک کو جس طرح تخریب کاری کا نشانہ بنایا ہے، عدالتِ عظمیٰ اس کا نوٹس لے گی۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے ان واقعات پر عمران خان سے محض ندامت کی اپیل کی، جو ان کی طرف سے عملاً مسترد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے خلاف دس مقدمات میں غیرمعمولی ریلیف دیا گیا۔ توشہ خانہ جیسا اہم فوجداری مقدمہ جس میں عمران خان پر فردِ جرم عائد ہو رہی تھی، آٹھ جون تک حکم امتناع کے علاوہ آئندہ کسی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم صادر ہوا۔ حالانکہ قانونِ فوجداری کے مطابق فردِ جرم عائد ہونے پر حکمِ امتناعی جاری نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان نے رہائی کے بعد نہایت غیر ذمے داری کے ساتھ قومی احتساب بیورو کی جانب سے اپنی گرفتاری کا الزام آرمی چیف پر عائد کیا۔ اپنے حامیوں کی تخریب کاری کی مذمت اور اس سے باز رہنے کی ہدایت کے بجائے انہوں نے عملاً اس کی یوں حوصلہ افزائی کی کہ اگر ان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی ردِعمل دوبارہ سامنے آئے گا۔ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اور ملک کی سلامتی، قانون کی حقیقی بالادستی کے لیے مقتدر حلقوں میں آئین و قانون کے مطابق حل نکالنے کے لیے روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے حالیہ طرزِ عمل اور مس کنڈکٹ کے دائرہ کار کا بھی جائزہ لیتے ہوئے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے حالیہ ایکٹ کے مطابق اہم فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جب عمران خان کو ایک شب کے لیے عدالتِ عظمیٰ کا مہمان بنانے کا فیصلہ ہوا تو ان کے لیے آرام دہ قیام کی خاطر ایوانِ صدر سپریم کورٹ سے ملحق ہونے کے باعث عمران خان کی اولین ترجیح تھی۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت انہیں دوبارہ گرفتار نہیں کر سکے گی اور ایوانِ صدر ایک محفوظ مقام رہے گا، لیکن سپریم کورٹ نے ان کو پولیس لائن کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کی اجازت دی کیونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قریب ہے لیکن ایوانِ صدر سے 20 مہمانوں کا کھانا گیسٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا اور ایوانِ صدر نے ان کی میزبانی کی۔ سپریم کورٹ کے خلاف حکومتی اتحاد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ریڈ زون میں دھرنے کا اعلان بھی کیا، تاہم ایک روزہ احتجاج کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا، پاکستان کی تاریخ میں شاید اس سے سیاہ دن نہ آئے، لیکن آرمی چیف کے ضبط اور برداشت نے قوم کو خانہ جنگی کے عذاب سے بچا لیا۔
کنور دلشاد  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
emergingpakistan · 5 months
Text
کیا اسرائیل پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مقدمہ چلنا چاہیے؟
Tumblr media
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، اتحادی طاقتوں نے لندن چارٹر کے تحت نیورمبرگ اور بعدازاں ٹوکیو میں ایک بین الاقوامی فوجی ٹربیونل قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ نازی جرمنی اور جاپان کے جنگی مجرموں پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ ان ٹرائلز میں تین اقسام کے جرائم کے تحت اعلیٰ افسران پر مقدمات چلائے جارہے تھے، وہ ’امن کے خلاف جرائم‘، ’جنگی جرائم‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ تھے۔ اگرچہ روایتی ’جنگی جرائم‘ کو اس وقت موجود جنگ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا لیکن ’امن کے خلاف جرائم‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ لندن چارٹر میں امن کے خلاف جرائم کو بین الاقوامی معاہدوں یا یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحیت یا جنگ کی ’منصوبہ بندی، تیاری، آغاز یا اسے چھیڑنے‘ کی کارروائیوں کے طور پر درجہ بند کیا گیا۔ اسی طرح انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں جنگ سے پہلے یا اس کے دوران کسی بھی ’شہری آبادی کے خلاف قتل و غارت، غلامی، ملک بدری اور سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور دیگر غیرانسانی سلوک‘ شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ترقی یافتہ ممالک نے محسوس کیا کہ تنازعات کو کنٹرول کرنے والے موجودہ قوانین جنگ میں ہونے والے ہولناک جرائم سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی تنازعات کو کنٹرول کرنے والے ایک کے بعد ایک متعدد قوانین متعارف کروائے گئے۔ 
انہیں عرف عام میں ’بین الاقوامی انسانی حق��ق کے قوانین‘ کہا جاتا تھا۔ ان قوانین کا بیان کردہ مقصد یہ طے کرنا ہے کہ مسلح تصادم کے وقت بھی شہریوں، طبی عملے، بچوں اور نہتّے لوگوں کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ اس دوران کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں کیا جاسکتا۔ کم از کم کاغذوں کی حد تک بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کا مقصد مسلح تصادم کو کنٹرول کرنا ہے، یہ قوانین اس وقت غزہ کی ہولناک صورتحال پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس تنازع میں اسرائیل جارح ہے، وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین میں شامل 21 قوانین کا دستخط کنندہ ہے اور ان کی توثیق کر چکا ہے۔ ان قوانین میں عام شہریوں سے متعلق جنیوا کنونشن، بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن، جنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن، مسلح تصادم میں بچوں کی شمولیت سے متعلق اختیاری پروٹوکول، بعض روایتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن، کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن، ثقافتی املاک کے تحفظ سے متعلق ہیگ پروٹوکول اور نسل کشی کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن شامل ہیں۔ یہ قوانیں اسرائیل پر نہتّے شہریوں بالخصوص بچوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی قرار دیتے ہیں۔ 
Tumblr media
یہ قوانین مسلح تصادم میں ملوث ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طبی عملے کی حفاظت کی جائے گی، اسپتالوں کو جارحیت سے محفوظ رکھا جائے گا اور جنگ کے دوران ثقافتی املاک کو محفوظ رکھا جائے گا۔ اب ان قوانین کی رو سے غزہ میں سامنے آنے والی تباہی، قتل و غارت اور بے بسی کی تصاویر دیکھیں۔ غزہ سے آنے والی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسرائیل نے منظم طریقے سے غزہ کے تمام اسپتالوں پر بمباری کی ہے اور سیکڑوں ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو قتل کر کے ان اسپتالوں کو غیرفعال بنایا ہے۔ اس نے غزہ کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک پر بھی بمباری کی ہے جس میں درجنوں پناہ گزین افراد مارے گئے۔ اس فہرست میں معصوم بچوں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت شہریوں کی ٹارگٹڈ اور نفرت انگیز ہلاکتوں کو بھی شامل کر دیں تو ہمارے سامنے ایک ایسا ملک آجاتا ہے جو جان بوجھ کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اسرائیل نے نسل کشی کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کی توثیق کی تھی۔ اس قانون میں ’نسل کشی‘ کی تعریف کسی گروہ کے اراکین کو مارنے، یا انہیں شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانے کی کوشش کے طور پر بیان کی گئی ہے اور وضاحت کی گئی کہ ’نسل کشی ایک ایسا عمل ہے جو [کسی گروہ کی] تباہی کے لیے انجام دیا جائے‘، اور ’ایسے اقدامات کو مسلط کیا جائے جن کا مقصد کسی مخصوص گروہ میں پیدائش کو روکنا ہو‘۔
اب مذکورہ تعریف کا اطلاق غزہ پر کریں۔ کیا ایسی بے شمار مثالیں موجود نہیں ہیں جہاں اسرائیلی سیاست دانوں اور میڈیا کی شخصیات نے فلسطینیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں بے دردی سے قتل کیا گیا؟ کیا اسرائیل نے مجبوراً نہیں بلکہ قصداً غزہ کو تباہ کرنے کی نیت سے بجلی مواصلات، پینے کے صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات بند نہیں کیں؟ کیا غزہ میں زیتون اور اسٹرابیری کے باغات کو اجاڑنے کی مہم نہیں چلائی گئی؟ ان تمام مثالوں کو جب بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے جس میں ایسی طاقتوں کی مدد اور حوصلہ افزائی شامل ہے جو کچھ عرصہ قبل خود کو انسانی حقوق کا چیمپیئن کہتی تھیں۔ نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز کے دوران یہ امید کی گئی تھی کہ ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ دوبارہ کبھی سرزد نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود تقدیر دیکھیں کہ ایک ایسا ملک جو ان لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے جن پر ظلم و ستم کے بعد یہ قوانین بنائے گئے، اب خود ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ تو اب یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ اسرائیلی ریاست کے اقدامات کے ذمہ داران پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مقدمہ چلنا چاہیے، عالمی عدالت انصاف کے ذریعے ان فلسطینیوں کو انصاف ملنا چاہیے جن کے زخم ابھی تازہ ہیں۔
سید شہریار رضا زیدی  
یہ مضمون 23 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
hassanriyazzsblog · 6 months
Text
🌹🌹 𝗥𝗘𝗦𝗣𝗘𝗖𝗧𝗜𝗡𝗚 𝗔𝗟𝗟 𝗥𝗘𝗟𝗜𝗚𝗜𝗢𝗡𝗦
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
6️⃣5️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *RESPECTING ALL RELIGIONS*
*Some Jewish tribes lived in Madinah during the time of the Prophet of Islam ﷺ.*
*One day the Prophet ﷺ saw a funeral procession passing by.*
*He ﷺ was seated at that time.*
*Seeing the funeral, He ﷺ stood up in deference.*
*One of his companions asked, “O Messenger of God ﷺ, this was the funeral of a Jew.”*
*The Prophet ﷺ replied: “Was he not a human being?”*
(Sahih al-Bukhari, Hadith No. 1312)
*This tradition shows that man must be respectable to everyone in all circumstances.*
*Whether he is a Jew or of any other religion or culture, we cannot be disrespectful towards others whatever the reason.*
*The fact is that every human being is created by the same God.*
*Therefore, all human beings are equally respectable.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *تمام مذاہب کا احترام :*
*ہمارے پیارے نبیﷺ کے زمانے میں مدینہ میں کچھ یہودی قبائل بھی آباد تھے۔*
*ایک دن نبیﷺ نے دیکھا کہ ایک جنازہ گزر رہا ہے۔*
*آپ ﷺ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔*
*"جنازہ" کو دیکھ کر آپ ﷺ تعظیم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔*
*آپ ﷺ کے ایک ساتھی نے عرض کیا : "یا رسول اللہ ﷺ یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا"۔*
*آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا وہ انسان نہیں تھا؟"-*
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)
*اس فرمان نبیﷺ کے ذریعہ ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ "ہر انسان" بحیثیت انسان ہر حال میں قابل احترام ہے۔*
*چاہے کوئی انسان یہودی ہو یا کسی اور قوم مذہب یا ثقافت کا ماننے والا ہو، ہم کسی بھی وجہ سے کسی کی بھی بے قدری یا توہین نہیں کر سکتے۔*
*حقیقت تو یہ ہے کہ ہر انسان کو ایک ہی خدا نے پیدا کیا ہے۔*
*اس لیے تمام انسان یکساں اور قابل احترام ہیں۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
🍁 *انسانیت* 🍁
▪️ *اسلام انسان دوستی اور عظمت ِ انسانیت کا علمبردار ہے۔*
▪️ *اسلام نفرت اور قتل و غارت نہیں امن، سلامتی اور محبت کا درس دیتا ہے۔*
▪️ *سب انسان مٹی سے بنے ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں ،کسی بھی گورے کو کالے پر کالے کو گورے پر ،غریب کو امیر یا امیر کو غریب پر ،کسی رنگ ،نسل ،قوم،علاقے کی وجہ سے کوئی فوقیت نہیں ہے ۔*
▪️ *سب انسان برابر ہیں اللہ نے ان کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ۔*
▪️ *ذات قبیلے رنگ روپ نسل سب ایک دوسرے کی پہچان کو بنائے ہیں ۔*
🍂 *اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں "اے لوگو ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں ( النسائ) اے ابن آدم (انسانوں) ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو "۔* ( الحجرات )
● *انسانیت کی سب سے بڑی خدمت انسانی جان کا تحفط ہے۔*
● *دنیا کی تمام نعمتیں اور انسان کے تمام کار ہائے زندگی انسانی جان ہی کے مرہون منت ہیں۔*
● *جان ہے تو جہان ہے کا تاریخی مقولہ بھی دراصل اسی حقیقت کا بیان اسلوب ہے۔*
● *انسانیت کی اس افصل ترین قسم یعنی جان کے تحفظ کی اسلامی تعلیمات تو اظہر من الشمس ہیں۔*
● *اسلام غیرت کے نام پر بیٹیوں کے قتل، زندہ درگور کرنے کی رسم، مفلسی کے ڈر سے اولاد کے قتل اور کسی بھی بے گناہ کے قتل کو حرام اور کبیرہ گناہ قرار دیتا ہے۔*
● *یہاں تک کہ حالتِ جنگ میں بھی بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور غیر مسلح افراد کے قتل کی بھی مذمت کرتا ہے۔*
▪️ *ایک بات بڑی اہم ہے تمام مذاہب انسانیت سے محبت کا درس دیتے ہیں ، ●اس کے باوجود دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے ،●اس کی آہوں کا شور ہے ،●انسان ایک دوسرے پر ظلم وستم کر رہا ہے ،●انسان ہی ظالم ،انسان ہی مظلوم ،●انسان ہی انسان کا دوست ہے دشمن بھی ،●انسان نے ہی اپنے جیسے انسانوں کی زندگی میں زہر گھولا ہوا ہے ۔●انسان ہی دکھ دیتا ہے ،انسان ہی دکھ بانٹتا ہے ۔●ایک بات بڑی حیران کن ہے سب انسان انسانیت کا دم بھرتے ہیں ،آپ مذاہب کو دیکھیں ،سول سوسائٹی ،سیکولرز ،این جی اوز دیکھیں ،ان کو دیکھیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہے ،سب فلاح انسانیت کا راگ الاپتے ہیں ،فلاح انسانیت ان کا مقصد ہے● اس کے باوجود بھوک ،پیاس سے بلکتے انسان دیکھے جا سکتے ،ظلم سہتے بے بس،مجبور انسان انسانیت کا ماتم کرتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔*
● *"انسانوں پر ظلم نہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے غصہ نہ کرنے والا، لوگوں کو معاف کردینے والا، لوگوں پر احسان کرنے والا، اللہ کومحبوب ہے "۔*
● *کسی کے دکھ ، درد اور تکلیف کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس میں انسانیت ہو۔*
● *انسان میں کب انسانیت نہیں ہوتی ،جب وہ خود کو دوسرے انسانوں سے اعلی خیال کرے ،غرور کرے ،تکبر کرے تو سمجھ لیں اس میں انسانیت نہیں رہی وہ جانور ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ۔*
● *اسلام میں تمام انسان برابر ہیں اور انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض کو "حقوق العباد" سے جاناجاتا ہے ۔*
● *"حقوق العباد" کا مطلب اللہ کی خوش نودی کے لیے اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے ۔*
● *حقوق العباد میں والدین ،اولاد ،ملازم ،پڑوسی ،مسافر ،یعنی ہر ایک رشتہ انسانی "انسان کے حقوق" میں شامل ہیں۔*
● *اسلام کا سب سے عظیم درس انسانیت کی بے لوث خدمت ہے جس میں نمود و نمائش نہ ہو یہ ایک مشکل کام ہے ۔*
● *ایسی خدمت ،مدد کو ہی انسان دوستی کہا جاتا ہے ۔*
● *یہ ہی توشہ آخرت اور عظیم کامیابی ہے ۔*
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
سرکاری ملازمین کی پنشن پر حملہ
Tumblr media
نگراں حکومتوں نے اپنی حدود سے تجاوزکرنا شروع کر دیا۔ اب حکومت سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن کو کم کرنے کا فیصلہ کرنے پر آمادہ ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے بل کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے پنشن اسکیم 2023 میں اہم ترامیم کا فیصلہ کیا ہے مگر مسلح افواج کو اس تجویز سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین نے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد پنشن کی مدت 10 سال تک مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاہم وفات پانے والے ملازم کا کوئی بچہ معذور ہو گا تو اس صورت میں غیر معینہ مدت کے لیے پنشن ملے گی۔ پنشن اصلاحات کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں یہ تجویز بھی ہے کہ شہداء کی فیملی پنشن کی میعاد 20 سال مقرر کی جائے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ ان کی پنشن کا تعین آخری 36 ماہ کی تنخواہ رقم کے 70 فیصد کی بنیاد پر ہو گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ایک اور بری تجویز یہ ہے کہ پنشن میں اضافہ میں سالانہ اضافہ کی رقم ایک رکھی جائے گی۔ پنشن میں افراطِ زر کی شرح سے اضافہ ہو گا، مگر یہ اضافہ 10 فیصد تک ہو گا۔ یہ شرح اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت پنشن قواعد پر نظرثانی نہیں کرتی۔ 
اسی طرح سرکاری ملازمین 25 سال کی ملازمت پر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر تک 3 فیصد سالانہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق خام پنشن کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کمیوٹ کرا سکیں گے، اس وقت یہ شرح 35 فیصد ہے۔ چند سال قبل پنشن میں 30 سال سے زیادہ ملازمت پر سالانہ 3 فی صد اضافہ کیا جاتا تھا جو کہ 10 فیصد تک تھا۔ پنشن میں کمی کے بارے میں تیار ہونے والی تجاویز سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل تاریک کر دیں گی۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازم کی آخری تنخواہ پر 65 فیصد یا کمیوٹیشن کا 35 فیصد ادا کیا جاتا ہے، اگر نئے فارمولہ پرعملدرآمد ہوا تو ریٹائرڈ ملازم کی پنشن میں 35 فیصد تک کمی ہو گی۔ پنشن کے اضافہ کو افراطِ زرکی شرح سے منسلک تو کیا گیا ہے مگر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔
Tumblr media
گزشتہ دو برسوں میں افراطِ زرکی شرح تین ہندسوں تک بڑھی ہے اور اسی ماہ افراطِ زرکی شرح 34 فیصد کے قریب ہے، یوں اگر پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا تو یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلہ میں انتہائی کم ہو گا۔ پنشن کے بار�� میں اس سمری میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملازم کی وفات کے بعد بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی، اگر ملازم کا کوئی معذور بچہ ہو تو پنشن ساری زندگی ملے گی، اگر بیوہ کے انتقال کے بعد غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی ہو تو پنشن ان کے نام منتقل ہو جائے گی۔ سرکاری آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ شق غلط استعمال ہوتی ہے، اگر خاندان میں بعض کیسوں میں 40 سے 50 سال تک پنشن دی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک تو ہے مگر چند افراد کی بدعنوانی کی سزا بیوہ کو دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر صورت میں بیوہ کو تمام عمر پنشن ملنی چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے لواحقین کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔ اس تجویزسے سرکاری ملازمین خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں قربانی کا جذبہ کم ہو جائے گا۔
وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں، اساتذہ اور دیگر عملہ کے لیے خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر سندھ میں ایسے کسی پیکیج کا اعلان نہیں ہوا، اگر حکومت ہر شہید ہونے والے سرکاری ملازم کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دیتی ہے تو پھر 10 سال کی پابندی درست ہے۔ دوسری صورت میں یہ شق سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس فورس میں مایوسی پھیلانے کا باعث ہو گی۔ موجودہ قوانین کے تحت 25 سال تک ملازمت کرنے والا شخص ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کرتا ہے مگر نئی تجویز کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر تک کے حساب سے 3 فیصد سالانہ جرمانہ اس کی پنشن سے حذف کیا جائے گا۔ ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ مراعات عدالتی شعبے کو حاصل ہیں۔ عدالتی شعبہ کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس PAS جس میں خاص طور پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ شامل ہے کو مراعات حاصل ہیں۔ پی اے ایس کے افسران کو کئی ایسے الاؤنس اور خصوصی الاؤنس ملتے ہیں جو دیگر سرکاری ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے بورڈ آف ریونیو کے سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کے الاؤنس بحال کر دیے ہیں مگر اس سرکلر میں تحریر کیا گیا ہے کہ فیلڈ افسران کو اپنا خیال کچھ رکھنا ہو گا۔ ان رپورٹوں کے جائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور ڈی ایم جی کے علاوہ باقی سرکاری ملازمین کو بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسروں کو جو الاؤنس ملتے ہیں وہ الاؤنس سیکریٹریٹ سے چند میٹر پر قائم حکومت سندھ کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو مکمل میڈیکل کوریج حاصل نہیں ہے۔ سرکاری ملازمت کے لیے بروقت پنشن کا حصول ایک اور درد ناک باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ریٹائر ہونے والے ملازم کو پہلے اپنے محکمہ میں سفارش یا کمیشن دے کر فائل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر کے معاملات اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کی ایک کشش تو اختیارات کا حصول ہوتا ہے تو دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن، جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی رقم ملنے کی ہوتی ہے، مگر اختیارات کا معاملہ پولیس اور چند دیگر وزارتوں تک محدود ہے۔ پنجاب میں اساتذہ اور دیگر ملازمین نے تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں دینے اور پنشن کی کمی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پنجاب کے ہر ضلع کے سیکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا پڑا اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں، انھیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک وفاق اور دیگر صوبوں تک پھیل جائے گی۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس کم ہونا چاہیے۔ زیادہ بوجھ امیر پر ہونا چاہیے مگر غریب سرکاری ملازمین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفہ کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہونے جا رہا ہے۔ یورپی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے۔ بھارت کی حکومت نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر شہری کو پنشن کے نیٹ ورک میں شامل ہونے کا منصوبہ شروع کیا ہے، مگر پاکستان میں یہ مراعات کم کی جا رہی ہیں، یہ معاملہ نگراں حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کو منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes