Tumgik
#قومی سیاست
urduchronicle · 3 months
Text
آزاد امیدواروں کی شمولیت، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے رابطوں کے لیے کمیٹیاں بنا دیں
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کس جماعت میں شامل ہونگے ؟ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے رابطے کے لیے تین تین نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ آزاد امیدواروں کو جماعت اسلامی میں شامل کرنے کے حوالے سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے رہنماوں کے درمیان دوسری بار رابطہ ہوا ہے۔ اس رابطے کے بعد دونوں جماعتوں کی جانب سے تین تین رکنی کمیٹی بنادی گئی،، تحریک انصاف  کی جانب سے بیرسٹر گوہر،اعظم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
عمران خان کے بغیر قومی سیاست میں چوروں، ڈاکوں کا راج ہوگا،عمر سرفراز چیمہ
عمران خان کے بغیر قومی سیاست میں چوروں، ڈاکوں کا راج ہوگا،عمر سرفراز چیمہ
لاہور(نمائندہ عکس) سابق گورنر پنجاب اور مشیرِ اطلاعات پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ عمران خان کے بغیر قومی سیاست میں چوروں ڈاکوں کا راج ہوگا، پی ڈی ایم ایک کے بعد ایک پینترا آزما رہی ہے لیکن عوام انکی ایک نہیں چلنے دے رہی۔ مشیر اطلاعات عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ لوٹ مار ٹولہ عوامی سیاست سے مقابلہ نہ کر سکا تو عمران خان کے خلاف محلاتی سازشوں کا راستہ اپنایا ہے، عمران خان کو مائنس کرنے کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
shiningpakistan · 2 months
Text
کوئی تو سبق سیکھے
Tumblr media
عمران خان کی سیاست کا اصل ہدف اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ پہلے لڑائی اگر کھل کر لڑی جا رہی تھی اوراسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست حملے کیے جا رہے تھے جس کا نکتہ عروج 9؍مئی تھا تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود اپنی بڑی کامیابی کے بعد اب تحریک انصاف اور عمران خان نے اس لڑائی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب براہ راست لڑائی کی بجائے ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا اختتام نجانے کیا ہو گا۔ 9؍مئی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں ریاست کی طرف سے سنگین الزامات کے شکار علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا بنوا کر اسٹیبلشمنٹ کو پہلا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کی لڑائی جاری ہے۔ اس کے بعد اب محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقریر کے بعد اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر کے طاقت ور حلقوں کو دوسراپیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقریریں اور میڈیا ٹاک سنیں تو اُن کا اشاروں کنایوں میں اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ انتخابات سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹے ہوے رابطوں کو بحال کرنا تھا جس کا عمران خان بار بار اظہار کرتے رہے اور یہاں تک کہ الیکشن سے ایک دو ہفتہ قبل تک یہ شکایت کی کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکمت عملی کا اب کیا مقصد ہے؟ کیا اب وہ واقعی قانون کی حکمرانی اور اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ کے لیے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا اُن کی اب بھی کوشش یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے اُن کے رابطہ اور تعلقات بحال ہوں تاکہ اُن کے لیے موجودہ مشکلات سے نکلنے اور اقتدار میں آنے کا رستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کی جدوجہد اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور وہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کو کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ 
Tumblr media
اُن کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت اور رابطوں کی بحالی کی خواہش کی بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں، جہاں اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کی، کو تسلیم کر تے ہوئے تجاویز دینی چاہئیں کہ پاکستان کی سیاست کو کیسے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے دور رکھا جا سکتا ہے ابھی تک تو ہم دائروں کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے تو کبھی کوئی دوسری۔ جب کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے اپنے تمام اصول اور بیانیے بھول جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ 
کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑی دھاندلی ہوئی جس کا اصل نشانہ تحریک انصاف تھی۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے سیاستدانوں کو ہی کردار ادا کرنا ہو گا جس کے لیے بار بار اپنے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے اُنہیں اپنے آپ کو استعمال ہونے سے روکنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت بنانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تو توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے کے اصول پر اس وقت بات کریں۔ لیکن کیا عمران خان اس اصول پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کا بھی یقین نہیں۔ بے شک عمران خان کے پاس ایک موقع ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کے خیال کو ترک کر دیں اور اپنی سیاسی لڑائی کو پرامن طریقے سے عوام کی حمایت سے آئین و قانون کی حدود میں رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سبق سیکھے!
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ  
1 note · View note
urduintl · 2 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میثاق مفاہمت کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی اور الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتا ہوں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے صدارتی الیکشن کو بلاوجہ متنازع کیا جارہا ہے، بلاول بھٹو نے محمود اچکزئی کے گھر پر مبینہ چھاپے کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کردی۔
بعد ازاں سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں دوسری بار منتخب ہوا ہوں، اس عمارت کا جو بنیادی پتھر ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا، یہ قومی اسمبلی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے، قومی اسمبلی کا ایوان ہم سب کا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط بنانا عوام کو مضبوط بنانا ہے، جب ہم قومی اسمبلی کو کمزور کرتے سہیں تو وفاق، جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں، ہمیں اس نظام کو کمزور نہیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہے، تمام ارکان سے درخواست ہے کہ ایسےفیصلے کریں جس سےقومی اسمبلی مضبوط ہو۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوری ادارے کو طاقتور بنائیں گے، ایسے فیصلے لیں گے جس سے نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو، آئندہ آنے والے ہمیں دعائیں دیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے اچھے فیصلے کیے، ایسا نہ ہو آئندہ آنے والے ہمیں گالیاں دیں کہ قومی اسمبلی کےساتھ کیا کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں مشکلات سے نکالیں گے۔
بلاول بھٹو نے درخواست کی کہ احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں اور قومی اسمبلی میں تمام تقریریں سرکاری ٹی وی پر لائیو دکھائی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے کارکنوں اور امیدواروں پر حملے کیے گئے ہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کارکنوں کو جان قربان نہ کرنی پڑے۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایوان میں کہا کہ اس ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، عوام نےایسا مینڈیٹ دیا کہ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، عوام نے الیکشن مین بتایا کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں آپس میں بات کرنی ہوگی، عوام نے ہمیں گالیاں دینے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاست کا ضابطہ اخلاق بنالیں گے تو 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے تو ان کی پالیسی پر آپ تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وزیراعظم نے جو نکات کل اٹھائے ان پر عمل کرکے بحران سےنکل سکتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان اور عوام کو معاشی مشکل سے نکالیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، ،ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا سونامی ہے، ہم سالانہ ایک ہزار 500 ارب امیروں کو سبسڈی میں دے دیتے ہیں، غیر ضروری وزارتیں اور امیروں کو سبسڈی دینا بند کرنا ہوگی، امیروں سے سبسڈی کو ختم کرکے غریب عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت پر کوئی ایک جماعت فیصلے نہیں کرسکتی ہے، شہباز شریف موقع دے رہے ہیں کہ آئیں مل کر عوام کو معاشی بحران سے نکالیں، وزیراعظم کی پالیسی میں آپ کا مؤقف شامل ہوگا تو بہتر پالیسی بن سکے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنے ہوں گے، عدالتی، الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، اگر ہم نے مل کر یہ اصلاحات کرلیں گے تو کوئی جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا الیکشن ہو جہاں وزیراعظم کے مینڈیٹ پر کوئی شکوک نہ ہو، ہم چاہتے ہیں شہباز شریف جیتیں یا قیدی نمبر 804 الیکشن جیتے لیکن کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میں ملک کا وزیرخارجہ ہوں، جانتا ہوں سائفر کیا ہوتا ہے، اس سائفر کی ہر کاپی کاؤنٹ ہوتی ہے صرف ایک کاپی ہم گن نہیں سکے وہ وزیر اعظم کے آفس میں تھی، خان صاحب نے خود مانا کہ انہوں نے ایک خفیہ دستاویز کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلسے میں ایسے لہرانے کی بات نہیں تھی، یہ آڈیو لیک کی بھی بات نہیں ہے، میرے نزدیک مسئلہ یہاں شروع ہوتا کہ جب خان صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اگلے دن گرفتاری کے بعد وہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں چھپ جاتا ہے تو اگر آپ عوام کو بے وقوف سجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جان بوجھ کے کسی نے اس سائفر کو سیاست کے لیے انٹرنیشنل جریدے میں چھپوایا تاکہ کیسز کو متنازع بنایا جائے، جب آپ خفیہ دستاویز کو پبلک کرتے ہیں تو قومی سلامتی داؤ پر لگتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آئین کی خلاف وزری کرتا ہے تو اس کے سزا دلوانی چاہیے، اگر یہ ہم سے جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گا کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ بات کرنے والے، میں اس شخص کا نواسا ہوں جس نے تختہ دار پر ہوتے ہوئے بھی اصولوں کا سودا نہیں کیا، یہ جو لوگ یہاں ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، جن کو 6 مہینے سے جمہوریت یاد آرہی ہے تو اگر انہیں لیکچر دینا ہے تو ایک دوسرے کو دیں ہمیں نا دیں، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پر جھوٹا الزام لگائیں اور ہم جواب نا دیں، لیکن میں ان کے جھوٹ کاپردہ فاش کروں گا۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ میں اس قسم کی حرکتوں سے خود مایوس نہیں ہوتا مگر پاکستانی عوام اس قسم کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، اگر یہ کوئی غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے خلاف کھڑا ہوجاؤں گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کریں نا کہ دوسروں پر تنقید شروع کردیں۔
سابق وزیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انکوائری کے مطابق ملزمان کو سزا اور بے قصور کو رہا کردینا چاہیے، تو یہ مجھے یقین دہانی کروائیں کہ ہم جو جوڈیشل کمیشن بنوائیں گے تو اس کا فیصلہ ماننا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شہدا کے میموریل پر حملہ کرے اور ہم اسے بھول جائیں،ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے آپ درخواست کریں کے وہ اس کمیشن کے سربراہ بن کے مئی 9 کے بارے میں تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو سزا دلوائیں۔
اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کی تقریر پر احتجاج اور شورشرابہ شروع کردیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری باتیں حذف کردیں، مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
اِس پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کا بڑا پن ہے، بعدازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
alhaqnews12 · 3 months
Text
تجزیہ کاروں نے بلدیاتی انتخابات کی طرح 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کو عوامی سطح پر کراچی کی سب سے مقبول جماعت قرار دیا ہے۔الیکشن 2024 کے حوالے سے جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں پاکستان کے نامور صحافی، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز حامد میر، شاہزیب خانزادہ، شہزاد اقبال، سہیل ورائچ اور ارشاد بھٹی نے جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کی حالیہ کارکردگی اور سیاسی سرگرمیوں کو سراہا ہے۔خصوصی الیکشن ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پلس کنسلٹنٹ کے حالیہ سروے میں جماعت اسلامی بہت سے حلقوں میں اوپر جا رہی ہے جس کی ایک وجہ حالیہ بارش اور سوشل میڈیا پر ان کے حق میں چلنے والی مہم ہے۔جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ کے میزبان شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے بعد ہونے والے سروے کے مطابق کراچی کی عوام کی اولین ترجیح جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کو منتخب کرنا تھا نہ کہ پی ٹی ائی یا کسی اور سیاسی جماعت کو جبکہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی ائی نے کراچی سے بہت سیٹیں نکالی تھیں۔سینئر تجزیہ کار اور کالم نگار مظہر عباس نے کہا کہ کراچی میں ہونے والی حالیہ بارش کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوگا اور جماعت اسلامی نے دو تین سال پہلے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے کراچی پر مرکوز کی ہے۔مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ اس وجہ سے جماعت اسلامی کی سیاست پر بہت سے سوالات بھی اٹھے تھے، جماعت اسلامی سے اور بھی بہت سے نامور لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن جماعت اسلامی کی پوری سیاست اس وقت حافظ نعیم الرحمان کے گرد گھوم رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حافظ نعیم الرحمان کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر الیکشن لڑ  رہے ہیں، ایک نارتھ ناظم آباد جو ان کا اپنا حلقہ ہے جبکہ دوسرا اونگی ٹاؤن کا حلقہ ہے اور حافظ نعیم الرحمان کے مطابق ان کی جماعت نے بہاریوں کے ایشوز کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اورنگی ٹاؤن سے زیادہ ووٹ حاصل کریں۔تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا تھا دھونس اور دھاندلی سے حافظ نعیم الرحمان کو میئر کراچی بننے سے روکا گیا اور مرتضیٰ وہاب کو اقلیت میں ہونے کے باوجود میئر منتخب کروا دیا گیا، الیکشن کمیشن اسلام اباد کے الیکشن نہ کروا سکا اور نہ ہی سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کو روک سکا۔سینئر تجزیہ کار سہیل ورائچ کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے اپنے تجربات سے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے، پہلے جماعت اسلامی کی مہم میں نہ تو امیر کا نام ہوتا تھا نہ ہی اس کی تصویر ہوتی تھی، انہوں نے تبدیلی یہ کی ہے کہ بجائے مرکزی لیڈر شپ کے مقامی رہنماؤں اور امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم میں اجاگر کیا، اسی لیے آپ کو گوادر میں ہدایت الرحمان یا پھر کراچی میں حافظ نعیم الرحمان کے نام اور تصویریں نظر ائیں گی، ان کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی یہی ہے کہ جو ’سن آف سوائل‘ ہے اسے سامنے لایا جائے۔سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ جہاں بھی جماعت اسلامی کا کوئی امیدوار کھڑا ہوگا اس کی عوام میں ساکھ بہت اچھی ہوگی کیونکہ لوگ اسے مقامی طور پر جانتے ہوں گے۔
جماعت اسلامی کراچی کی سب سے مقبول جماعت بن کر سامنے آئی ہے: تجزیہ کار
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
multithinker · 5 months
Text
جرمن نژاد یہودی ہنری کسنجر، جنگی جرائم کا ماہر۔ 100 برس کی جہنّم کی ٹکٹ کٹوا گیا
جرمن نژاد یہودی ہنری کسنجر، جنگی جرائم کا ماہر۔ 100 برس کی جہنّم کی ٹکٹ کٹوا گیا انگریزی آرٹیکل کا ترجمہ ہنری الفریڈ کسنجر ایک امریکی سفارت کار، سیاسی سائنسدان، جیو پولیٹیکل کنسلٹنٹ، اور سیاست دان تھے جنہوں نے رچرڈ نکسن اور جیرالڈ فورڈ کی صدارتی انتظامیہ کے تحت ریاستہائے متحدہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ اور قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پیدائش: 27 مئی 1923، فرتھ، جرمنی وفات: 29…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 6 months
Text
کون کس سے فریاد کرے
Tumblr media
پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔
سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔
Tumblr media
حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔
میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔
جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
اسد قیصر نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت بانی پی ٹی آئی سے مشاورتی ملاقات کے دوران پرائویسی کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کرے۔ اسد قیصر کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ جیل حکام کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے رجوع کیا لیکن انہوں نے ملنے کی اجازت نہ دی،بطور رکن پی ٹی آئی جیل حدود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 10 months
Text
 Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad.
Date: 06 July-2023
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی اورنگ آباد
علاقائی خبریں 
تاریخ:  ۶/ جولائی  ۳۲۰۲ء؁
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ماتر بھومی‘ مادری زبان اور ماں کی اہمیت منفرد ہے: صدرِ جمہوریہ درَوپدی مُرمو کا عندیہ۔
٭ معاون پروفیسر کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط UGC کی جانب سے منسوخ۔
٭ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دونوں گروپوں کے اجلاس؛ ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا سلسلہ جاری۔
٭ اجیت پوار گروپ کی جانب سے پارٹی نام اور انتخابی نشان پر دعوے سے متعلق انتخابی کمیشن میں درخواست؛ مخالف گروپ کی جانب سے کیویٹ داخل۔
٭ ریاست میں اب تک 20لاکھ 60ہزار ہیکٹر رقبے پر خریف کی تخم ریزی مکمل۔
اور۔۔ ٭ مراٹھواڑہ میں متعدد مقامات پر بارش؛ تخم ریزی میں تیزی۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
صدرِ جمہوریہ درَوپدی مُرمو نے زور دیکر کہا ہے کہ ماتر بھومی‘ مادری زبان اور ماں کی اہمیت منفرد ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ خاندان اور معاشرے میں ہم بول چال کیلئے اپنی مادری زبان ہی کا استعمال کریں۔ درَوپدی مُرمو کے ہاتھوں کل ناگپور میں بھارتیہ وِدّیابھون کی جانب سے تعمیر کیے گئے رامائن ثقافتی مرکز کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دوسری زبانیں سیکھنا چاہیے لیکن اپنی مادری زبان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس نوتعمیر شدہ مرکز میں پہلی منزل پر رامائن کی دلچسپ نمائش ہے اور دوسری منزل پر1857 سے 1947 تک کے مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد تصویری شکل میں نمایاں کی گئی ہے۔
اس سے قبل صدرِ جمہوریہ نے گڈچرولی میں گونڈوانا یونیورسٹی کے جلسہئ تقسیمِ اسناد سے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے پسماندہ طبقات کی صورتحال تبدیل کرنے اور انھیں مرکزی دھارے میں لانے کیلئے تعلیم ہی اہم واسطہ ہے۔ اس یونیورسٹی میں طالبات کی کارکردگی کی ستائش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ خواتین کو استحکام بخشنے کی سمت ایک بڑا قدم ہے۔
اس جلسہئ تقسیمِ اسناد میں تمام طلباء و طالبات میں کُل 45 فیصد پوسٹ گریجویشن اور 61 فیصد سے زائد گولڈ میڈل جیتنے والا طالبات تھیں۔ جلسے میں چھ طلباء کو صدرِ مملکت کے ہاتھوں طلائی تمغے دئیے گئے۔ گونڈوانا یونیورسٹی کی انتظامی عمارت کا سنگ ِ بنیاد بھی کل درَوپدی مُرمو نے رکھا۔
***** ***** *****
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن UGC نے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کیلئے ph.D کی شرط منسوخ کردی ہے۔ اب معاون پروفیسر کے عہدے پر راست بھرتی کیلئے نیٹ‘ سیٹ یا سلیٹ کم از کم اہلیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی اب اختیاری اہلیت رہے گی۔ UGC کی جانب سے جاری کردہ ایک مکتوب میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی سے اس نئے قاعدے پر عمل درآمد ہوگا۔
***** ***** *****
اغذیہ، شہری رسد اور تحفظ ِ صارفین کے وزیر رویندر چوہان نے مہاراشٹر میں دھان کی خریداری کے عمل کے دائرے کو وسیع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نئی دہلی میں کل مرکزی وزیر برائے تقسیم ِ عامہ و اغذیہ پیوش گوئل کی زیرِ صدارت ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے متعلقہ وزراء کے اجلاس سے وہ خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جہاں چاول کی کاشت ہوتی ہے وہاں کے چنندہ افراد کو ہی دھان خریدنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس لیے کاشتکاروں کو معقول قیمت نہیں ملتی۔ اس لیے گرام پنچایت‘ بچت گروپ اور فوڈ پروسیسنگ اداروں کو بھی دھان خریدنے کی اجازت دینے کا انھوں نے مطالبہ کیا۔
***** ***** *****
نائب وزیرِ اعلیٰ اور راشٹروادی کانگریس کے رہنماء اجیت پوار نے کہا ہے کہ پارٹی کے بزرگ قائدین اب آرام کریں اور دوسری نسل کو آشیرواد دیں۔ کل پارٹی کارکنوں کے عام اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اجیت پوار نے کہا کہ پارٹی سربراہ شرد پوار کا وہ احترام کرتے ہیں تاہم اگر وہ پارٹی کی صدارت چھوڑنا نہیں چاہتے تو انھوں نے ماضی قریب میں استعفیٰ دینے کا اعلان کیوں کیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ اب شرد پوار ہمیں آشیرواد دیں اور اگر ہماری کوئی غلطی ہو تو اس کی نشاندہی کریں‘ ہم اسے ضرور تسلیم کریں گے۔ اجیت پوار نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں 58سال یا 60 سال کی عمر میں سبکدوش ہونا پڑتا ہے‘ سیاست میں بی جے پی میں 75 برس کی عمر ہوجائے تو سیاست سے کنارہ کش کردیا جاتا ہے، لیکن 82 اور 83 سال کی عمر ہوجانے کے باوجود آپ کب رُکیں گے۔ شرد پوار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ 2014 میں بی جے پی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا تھا تو اب بی جے پی کیوں برداشت نہیں ہورہی۔ شردپوار نے خود کہا ہے کہ 2024 میں بھی نریندر مودی ہی وزیرِ اعظم بنیں گے تو پھر بی جے پی کی حمایت میں کیا چیز مانع ہے۔ اجیت پوار نے کہا کہ انھوں نے بی جے پی کی حمایت کا فیصلہ اکثریتی رائے کے ساتھ کیا ہے۔ قومی سطح پر حزبِ اختلاف کے متحد رہنے پر سوال اٹھاتے ہوئے اجیت پوار نے کہا کہ اب تک سیاست میں انھوں نے کئی بار اپنے فیصلے واپس لیے۔ چار پانچ بار نائب وزیرِ اعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کیا۔ تاہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی لگتا ہے میں بھی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ بنوں۔ 
اس جلسے سے پارٹی کے کارگذار صدر پرفل پٹیل اور چھگن بھجبل نے بھی خطاب کیا۔ پرفل پٹیل نے کہا کہ وہ اپنے سیاسی سفر پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس میں بہت سارے انکشافات ہوں گے۔
***** ***** *****
اسی دوران پارٹی صدر شرد پوار نے بھی کل ممبئی میں پارٹی کے ایک علیحدہ جلسے سے خطاب کیا۔ جس میں پارٹی کارکنوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انھوں نے بی جے پی پر سخت تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں این سی پی پر 70 ہزار کروڑ روپئے کی بدعنوانیوں کا الزام لگایا تھا لیکن اب راشٹروادی کانگریس کے رہنماؤں کو اقتدار میں کیونکر شامل کیا جارہا ہے۔ شرد پوار نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ جانے والوں کو خود پر اعتماد نہیں ہے اسی لیے یہ لوگ اُن کی تصویر استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب تک وہ مختلف انتخابی نشان پر انتخاب لڑچکے ہیں لیکن اب پارٹی کا نام اور نشان جانے نہیں دیں گے۔ اس موقع پر پارٹی کے ریاستی صدر جینت پاٹل نے پارٹی کارکنوں کو شرد پوار کے ساتھ وفادار رہنے کی تلقین کی۔
***** ***** *****
این سی پی کے اجیت پوار گروپ نے پارٹی کے نام اور انتخابی نشان پر اپنے دعوے سے متعلق انتخابی کمیشن میں درخواست داخل کی ہے۔ اجیت پوار نے نائب وزیرِ اعلیٰ کا حلف لینے سے دو دِن قبل 30 جون کو کمیشن کو یہ خط تحریر کیا۔ اس کے علاوہ کمیشن کو ایک اور قرارداد بھی بھیجی گئی جس میں اجیت پوار کو ہی پاٹی کا حقیقی صدر قرار دیتے ہوئے 40  ارکانِ اسمبلی و پارلیمان کے دستخط شدہ خط میں اجیت پوار کو متفقہ طور پر صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا گیا۔
شرد پوار گروپ کے ریاستی صدر جینت پاٹل نے اس سلسلے میں انتخابی کمیشن میں کیویٹ داخل کرکے 9ارکانِ اسمبلی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
***** ***** *****
ریاستی اسمبلی میں این سی پی 53 ارکان ہیں۔ پارٹی انحراف کی کارروائی سے بچنے کیلئے اجیت پوار کو 36  ارکانِ اسمبلی کی حمایت ضروری ہے۔ انھوں نے 40 ایم ایل ایز کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب شرد پوار نے دعویٰ کیا ہے کہ اجیت پوار کو صرف 9  ارکان کی حمایت ہے۔ ذرائع کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ شرد پوار کے ساتھ صرف 12  اور اجیت پوار کے ساتھ 41  ارکانِ اسمبلی ہیں۔ 
***** ***** *****
مرکزی وزیر جتندر سنگھ نے کہا ہے کہ G-20 ممالک‘ بین الاقوامی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اختلافات کو فراموش کرکے ایک خاندان کی طرح کام کریں۔ وہ کل ممبئی میں G-20 ممالک کے تحقیق کے وزراء کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی منظر نامے میں تغیر کے پیشِ نظر سائبر حفاظت نہایت اہم ہے۔
***** ***** *****
ریاست میں اب تک 20لاکھ 60ہزار ہیکٹر رقبے پر خریف کی تخم ریزی مکمل ہوچکی ہے۔ جو کُل تخم ریزی کا صرف 14 فیصد ہے۔ اس بار بارش کا دیر سے آغاز اور اب تک بھی بوائی کیلئے ضروری بارش نہ ہونے سے خریف کی بوائی میں تاخیر ہورہی ہے۔
***** ***** *****
مراٹھواڑہ کے متعدد مقامات پر کل بارش ہوئی۔ پربھنی ضلع میں کل زوردار بارش کی خبریں ہیں۔ جون مہینے میں مکمل غیر حاضری کے بعد یہ پہلی ہی بارش ہے۔ جس سے کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اورنگ آباد شہر اور اس کے گرد و نواح میں بھی کل ہلکی بوندا باندی ہوئی۔
جالنہ ضلع میں بدنا پور اور عنبڑ تعلقوں کے کچھ علاقوں میں بھی کل موسلادھار بارش ہوئی۔ بدناپور تعلقے میں بارش کی شدت زیادہ تھی۔ یہ برسات کپاس کی فصلوں کیلئے کافی مفید ہے اور سویا بین کی تخم ریزی میں تیزی آئیگی۔
ہنگولی ضلع اور شہر میں بھی کل زوردار بارش ہوئی۔ جس کے باعث فصلوں میں نئی جان آگئی ہے۔ جنوبی گجرات اور کیرالا کے ساحلی علاقوں میں کم دباؤ کا پٹہ تیار ہوا ہے‘ جس سے آئندہ دو دِنوں میں ریاست میں تیز بارش کا امکان ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ماتر بھومی‘ مادری زبان اور ماں کی اہمیت منفرد ہے: صدرِ جمہوریہ درَوپدی مُرمو کا عندیہ۔
٭ معاون پروفیسر کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط UGC کی جانب سے منسوخ۔
٭ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دونوں گروپوں کے اجلاس؛ ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا سلسلہ جاری۔
٭ اجیت پوار گروپ کی جانب سے پارٹی نام اور انتخابی نشان پر دعوے سے متعلق انتخابی کمیشن میں درخواست؛ مخالف گروپ کی جانب سے کیویٹ داخل۔
٭ ریاست میں اب تک 20لاکھ 60ہزار ہیکٹر رقبے پر خریف کی تخم ریزی مکمل۔
اور۔۔ ٭ مراٹھواڑہ میں متعدد مقامات پر بارش؛ تخم ریزی میں تیزی۔
***** ***** *****
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
Tumblr media
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟ 
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
Tumblr media
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت ��نانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟  معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
shiningpakistan · 6 months
Text
جوڑ توڑ اور اقتدار کی سیاست کا کھیل
Tumblr media
پاکستانی سیاست کا بڑا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو جوڑ توڑ کی مہارت سے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ پاکستان جو سیاسی قیادت یا جماعت اسٹیبلیشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے، اس کے لیے اقتدار کا کھیل کافی آسانیاں کو پیدا کرتا ہے۔ یہ بات بجا کہ سیاست کا ایک بڑا مقصد اقتدار تک رسائی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی بنیاد پر عملی سیاست کرتی ہیں۔ لیکن اگر سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اقتدار کے کھیل کی کہانی محض اقتدار کے کھیل تک محدود رہتی ہے اور اس کھیل سے قومی مفاد یا عوامی مفاد کی کوئی جھلک نہ نظر آئے تو ایسی سیاست افراد کی طاقت کے گرد ہی گھومتی ہے۔ پاکستانی سیاست کی یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل ہو یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر اقتدار کے حصول کا کھیل دونوں کھیل میں عام آدمی کی سیاست کافی کمزور نظر آتی ہے۔ یہ کھیل انفرادی سطح سے شروع ہو کر خاندانی اور خاندان کے بعد مخصوص دوستوں کی مرہون منت رہتا ہے۔ اگر اقتدار کا کھیل ملک میں پہلے سے جاری بحران یا مسائل و مشکلات کے حل کا سبب نہیں بنتا اور اس کھیل نے پہلے سے موجود حالات میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہے تو پھر یہ کھیل مخصوص لوگوں کے مفادات تک ہی محدود رہے گا۔ 
اس کھیل میں فی الحال عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاست و جمہوریت یا اقتدار کے کھیل کے درمیان ایک واضح اور بڑی خلیج موجود ہے جو اس نظام حکومت پر بھی عدم اعتماد کو پیدا کرتا ہے۔ ہماری اشرافیہ یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں میں بھی سیاسی محاذ پر ایسی ہی سیاسی قیادتوں کی پزیرائی کی جاتی ہے یا ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو جتنا بڑا جوڑتوڑ کا کھلاڑی ہوتا ہے۔ جب اس جوڑ توڑ میں غیر جمہوری , غیر آئینی اور غیر قانونی یا غیر اخلاقی حوالوں سے بات کی جاتی ہے تو منطق یہ دی جاتی ہے کہ اسی کا نام سیاست ہے اور سیاست میں اصول کو بنیاد بنا کر اگر آگے بڑھا جائے گا تو پھر کامیابی کے امکانات کم اور مایوسی یا ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری سیاست کا کھیل ہی بے اصولی اور بار بار کے یوٹرن کے گرد گھومتے ہیں اور ہم انھیں کامیاب سیاسی چال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے اقتدار کے کھیل میں ہمیں جو بندر بانٹ نظر آتی ہے اس میں ریاستی , ملکی, عوامی مفادات کی جھلک کیونکر نہیں ہوتی۔
Tumblr media
اگر ایسا ہی چلتا رہے گا تو پھر سیاسی اور جمہوری نظام کی ساکھ یا شفافیت کیسے پیدا ہو گی۔ کیا پاکستانی سیاست میں موجود اقتدار کے کھیل کی بندر بانٹ میں چاہے وہ سیاسی فریقوں کے درمیان ہو یا سیاسی فریقوں کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہو اس میں ہم عام آدمی کا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں یا ان کے مفادات کو جوڑ کر اقتدار کے کھیل کے سیاسی رنگ سجائے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر عام آدمی یا ملکی مفادات کے معاملات کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پھر اس مجموعی سیاست اور جمہوریت کے کھیل سے ایک مضبوط ریاست اور حکمرانی کے نظام کا تصور پس پشت چلا جائے گا۔ کیا ہمارے یہاں اہل دانش کی جانب سے اس طرز کی سیاست جو مخصوص افراد یا خاندان کے مفادات یا مخصوص اداروں تک محدور رہتی ہے پر مزاحمتی عمل طاقت پکڑ سکے گا۔ کیونکہ کب تک ہم سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس طرح کے مصنوعی سیاسی نظام کی سیاسی آبیاری کرتے رہیں گے اور کب تک اس طرز کے عوام دشمن نظام کو جمہوریت کی چھتری دیتے رہیں گے,  یہ موجودہ نظام زیادہ دیر تک اسی طرح نہیں چلایا جاسکے گا۔ 
اہل سیاست سیاسی جوڑتوڑ اور اقتدار کے کھیل میں عوام کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اوران کی پہلی ترجیح یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے کھیل میں اپنے ووٹرو ں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جذباتیت، نفرت یا تعصب، سیاسی دشمنی کے کھیل کو بنیاد بنا کر سیاسی تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ جب عوام سے جڑے حقیقی مسائل پر بات چیت ہی نہیں ہونی تو پھر قومی سیاست کو غیر ضروری اور غیر سنجید ہ ایشوز درکار ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے حمایت یافتہ افراد کو ذندہ باد اور مردہ باد کے نعروں تک محدود کر کے اپنے سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔ سیاست کا دائرہ کار اسی اصولی , جمہوری , سیاسی , اخلاقی , آئینی اور قانونی نکات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر معاشروں میں ہم مضبوط جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور پنپتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ لیکن ��س کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی اور جمہوری یا آئینی یا قانونی جدوجہد اسی فریم ورک کے دائرہ کار میں ہو۔ لیکن یہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک منظم اور متحد ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔ 
سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی قیادتیں یا سول سوسائٹی یا میڈیا یا عدلیہ سمیت اسٹیبلیشمنٹ سب کے طرز عمل کو اسی آئینی اور قانونی یا جمہوری فریم ورک میں دیکھنا ہو گا اور اسی بنیاد پر ان کو جوابدہ بھی بنانا ہو گا۔عمومی طور پر سول سوسائٹی اور میڈیا کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے کہ یہ واچ گروپس کے طور پر اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ہی گروپس ریاستی و حکومتی نظام کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ کر لیں، اپنے ذاتی تعلقات کو مضبوط بنا کر خود ان کی سیاست کا حصہ بن کر ان کے غلط کاموں کو تحفظ دینے کا کام شروع کر دیں تو پھر اصلاح کے امکانات اور زیادہ محدود ہو جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی قومی سیاست کا بے لاگ و دیانت داری سے تجزیہ کریں اور بنیادی نوعیت کے وہ سوالات جو قومی سطح پر موجود ہیں ان کو تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں میں اٹھایا جائے اور پوچھا جائے کہ ان سوالوں کے جوابات کیا ہیں۔ پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کے ایک نئے وژن اور نئی سوچ سمیت نئی سیاسی اور معاشی حکمت عملیاں درکار ہیں۔ یہ ہی حکمت عملیاں ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہیں۔
سلمان عابد 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingkarachi · 11 months
Text
میئر کراچی کا انتخابی معرکہ
Tumblr media
پاکستان کی بڑھتی بس پلتی مایوس اور مبتلائے عتاب و عذاب نئی نسل پر ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ کی یہ حقیقت تو اب مکمل بے نقاب ہے کہ : آئین پاکستان کا اطلاق فقط جیسے تیسے الیکشن سے تبدیلی و تشکیل حکومت تک محدود رہا ہے۔ جمہوریت کا یہ لبادہ بھی مملکت کو جمہوری ہونا تو کیا منواتا اس سے متصادم ادھوری سی قوم اور دنیا بھر میں ہم مارشل لائوں کی بے آئین سرزمین، مسلسل عدم استحکام میں مبتلا جھگڑالو اور غیر منظم ریاست اور قوم سمجھے گئے۔ اپنی تاریخ کے سیاسی ریکارڈ حقائق و ابلاغ میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی۔ کج بحثی اور جھوٹے جواز کی آڑ لینا الگ اور یکسر منفی رویہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی سچ ہے پہاڑ جیسی اٹل حقیقت آئینی و سیاسی جھگڑے میں پاکستان کا فقط 24 سال میں ہی دولخت ہو جانا اور ملکی موجود گمبھیر صورتحال ہے جس کے بڑے فیصد کی تشکیل گزرے تیرہ ماہ میں ایسے ہی سیاسی فساد اور آئین سے بدترین سلوک سے ہوئی۔ پاکستان کا قیام تو بلاشبہ، متعصب ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں رہتے، بدلے زمانے کی حقیقتوں کے ساتھ اکابرین مسلمانان ہند کا جدید دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا کارنامہ تھا ہی سرسید، اقبال و قائد کی دور بینی علمی و عملی جدوجہد اور رہنمائی اور تاریخ پاکستان کے سنہری ابواب ہیں۔ 
قائداعظم کو اگر حاصل منزل کے بعد نومولود مملکت کو سنبھالنے اور ارادوں اور تصورات کے مطابق بنانے کی مہلت نہ ملی تو اس کا راستہ تو وہ تین الفاظ اتحاد، ایمان، تنظیم کے کمال روڈ میپ کے ساتھ پھر بھی دکھا گئے۔ اگلی تاریخ (ایٹ لارج) اس سے مختلف سمت میں چلنے کی ہے۔ یہ ہے موجود بدترین ملکی سیاسی و آئینی و انتظامی بحران، جس میں ایک بہت مہلک قومی ابلاغی بحران کے جنم کا اضافہ ہوا ہے، کا پس منظر ایسا نہیں کہ قائد کی رخصتی کے بعد قوم مکمل ہی گمراہی میں چلی گئی، جب کبھی اتحاد، ایمان و تنظیم کا دامن پکڑا، بگڑتی قوم کے نصیب جاگ گئے، پاکستان سنبھلا اور نیک نامی اور بہت کچھ پایا، لیکن آئین سے روگردانی، بار بار اسے توڑنے پھوڑنے اور اپنی سیاست کے لئے اس سے کھلواڑ کو سیاست دانوں، جرنیلوں اور ججوں نے اپنے اپنے دائروں سے باہر نکل کر وہ کھلواڑ کیا کہ ملک بھی آدھا گیا اور اگلے عشروں کے سفر میں آج وینٹی لیٹر پر نہیں بھی تو آئی سی یو میں تو ہے اور تیرہ مہینے سے ہے۔
Tumblr media
پاکستانی بیش بہا پوٹینشل ایسے ٹیسٹ ہوا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم مطلوب سے بہت کم مدتی مقدار میں ہوتے بھی ایٹمی طاقت بن گیا، پانچ گنا دشمن کے حملے کا کامیاب دفاع کیا، طویل العمر آمرانہ ادوار میں بڑی جمہوری و پارلیمانی قوتوں اور تحریکوں کی تشکیل و تنظیم ہوتی رہی۔ اور بہت کچھ۔ لیکن اس سے مکمل جڑی تلخ حقیقت ملک و آئین شکنی سے لے کر بنے بنائے چلتے چلاتے پاکستان پر قابض مافیہ راج (OLIGARCHY) کے مسلسل حملوں سے ہوئے بار بار ڈیزاسٹر ہیں۔ شاخسانہ پوری قوم کو خوف و ہراس اور سب اداروں کو تقسیم و مسلسل دبائو میں مبتلا رکھنے والا سیاسی و آئینی اور انتظامی و ابلاغی بحران جاری ہے۔ ماہرین آئین وسیاسیات حتمی رائے دے رہے ہیں کہ حکومتی سیاسی کھلواڑ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کو روکنے، عدلیہ کو دھونس دھاندلی سے نیم جامد کرنے اور دونوں صوبوں پر مکمل حکومت نواز فسطائیت اخیتار کی قطعی غیر آئینی نگراں حکومتوں کے تسلط سے ملکی آئین ٹوٹ چکا۔ چلیں! اتنی معتبر اور پیشہ ورانہ آرا سے بھی اختلاف کر کے ہم اختتام آئین کی بار بار علانیہ بلکہ چیخ پکار سے آئی ماہرین کی اس رائے سے جزوی اختلاف کرکے اتنا مان لیتے ہیں کہ آئین وزیر دفاع کی رائے (کے مطابق بھی نہیں) ملک وینٹی لیٹر پر بھی نہیں، بلکہ آئی سی یو میں ہے۔ اتنا تو ماننا ہی پڑے گا، وہ بھی فقط اس لئے کہ گردو نواح سے ظہور پذیر ہوتے مواقع حوصلہ دلاتے ہیں کہ بیمار بحال ہو سکتا ہے۔
15 جون 2023ء کو آئی سی یو میں سسکتے آئین کا ایک حساس ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ اس کا نتیجہ آنے والے سالوں میں واضح طور پر ملکی قومی صحت کے بہتر ہونے یا بگڑنے کا تعین کرے گا۔ تین روز بعد کراچی کے میئر کے انتخاب کا سیاسی معرکہ ہونے والا ہے۔ ’’معرکہ‘‘ اس لئے کہ یہ کوئی معمول کا انتخاب نہیں، آئین کی بنتے ہی بڑی خلاف ورزی، جو اب تک ہو رہی ہے یہ ہوتی رہی اور جاری ہے کہ آئین میں جمہوریت کی تین بنیادی جہتوں (قومی، صوبائی اور مقامی منتخب حکومتوں کا قیام) میں سے عوام الناس کے حقوق و مفادات کی عکاس ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کو سول منتخب حکومت نے غصب کر کے آئینی لازمے کے مطابق معمول بننے ہی نہیں دیا ۔ مارشل لائوں میں ہی سول سپورٹ لینے کے لئے اس پر عملدرآمد کر کے مارشل لا رجیمز کو ہضم کرنے میں بڑے فیصد کی مدد لی گئی۔ ایوبی دور تو اس کا مخصوص ماڈل (بی ڈی سسٹم) قائم کر کے ہی فرد واحد کی حکومت کو ’’جمہوری‘‘ بنا دیا گیا، جو خاصا ہضم ہو گیا تھا۔ آئین سے منحرف ہوتے بلدیاتی اداروں کے قیام کو روکے رکھنے کا سب سے متاثرہ شہر، شہر عظیم کراچی اور دیہی سندھ ہے۔ کراچی کی تیز تر ترقی ہو کر بھی اسی کھلواڑ سے ریورس رہی اور دیہات پسماندہ ہی رہے۔ 
موجود سندھ حکومت کے تو بس میں نہیں کہ وہ کوڑا اٹھانے، پانی کی تقسیم، نالوں کی صفائی، ٹرانسپورٹ ہر ہر عوامی سروس اپنے ہی اختیار میں رکھے اور رکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔ کراچی کی واضح حالت زار کے سینکڑوں ثبوت ریکارڈ پر ہیں۔ اب بھی جو بلدیاتی انتخاب جماعت اسلامی کی جدوجہد اور عدالتی فیصلوں سے ممکن ہوا اس میں بڑا کھلواڑ مچا کر اکثریتی جماعت اسلامی کے واضح منتخب ہوتے میئر کا راستہ روک کر، میئر کی جگہ اپنے مسلط کئے سابق ایڈمنسٹریٹر کو ہر حالت میں میئر بنانے کے لئے ہر غیر جمہوری اور غیر آئینی و غیر قانونی حربہ استعمال ہو رہا ہے، جیسے چار مرتبہ انتخاب کا التوا۔ الیکٹرول کالج میں چمک کے استعمال (ہارس ٹریڈنگ) سے لے کر سیاسی مخالف کونسلروں کے اغوا اور غائب ہونے کی خبروں، ثبوتوں اور الزامات سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔ خصوصاً تحریک انصاف سے جماعت اسلامی کے میئرشپ کے انتخاب پر اتحاد کے بعد تو کوئی راہ نہیں بچی کہ پی پی کا میئر منتخب ہو لیکن صوبائی وزراء کے دعوئوں کے مطابق 100 فیصد ان کا میئر بننے والا ہے۔ پی پی اپنے جمہوری ہونے کی دعویدار تو بہت ہے لیکن اس کا ہی نہیں اصل میں تو زخمی آئین کا ٹیسٹ ہونے کو ہے۔ 15 جون کا یہ انتخابی معرکہ پاکستان میں شدت سے ملک میں مطلوب آئینی عمل کی بحالی کا نکتہ آغاز بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آئی سی یو میں پڑے مریض کی حکومتی مرضی سے بنی کوئی ٹیلر میڈ رپورٹ آگئی تو کراچی ہی نہیں پورے ملک پر اللّٰہ رحم فرمائے۔ وماعلینا الالبلاغ ۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ
Tumblr media
عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلوا کر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کر لیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہو گی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ 
Tumblr media
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جا سکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہو گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہو گی، طرز حکمرانی اچھا ہو گا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔
اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگا کر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محکے کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ 
اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے، نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnibaattv · 1 year
Text
ہانگ کانگ کی عدالت نے تیانان مین کے 3 چوکس منتظمین کو جیل کی سزا سنائی | سیاست نیوز
چین کے 1989 کے تیانان مین اسکوائر کے خونی کریک ڈاؤن کے موقع پر سالانہ نگرانی کے تین منتظمین کو ساڑھے چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ہانگ کانگ کے ایک گروپ کے تین سابق ارکان جس نے چین کے 1989 کے تیانان مین اسکوائر قتل عام کے موقع پر سالانہ نگرانی کا اہتمام کیا ہے، کو بیجنگ کے نافذ کردہ قومی سلامتی کے قانون کے تحت معلومات کی درخواست پر عمل نہ کرنے پر ساڑھے چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ہانگ کانگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes