Tumgik
#Wusatullah khan
pakistantime · 2 years
Text
یہ والا انصاف بھی نہ ملا تو؟
قتل تو خیر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ شاہ رخ جتوئی چونکہ ایک امیر کبیر اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ مقتول شاہ زیب ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ لہذا ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے طفیل یہ مقدمہ ابتدا ہی سے ہائی پروفائل بن گیا۔ اور پھر ملزمان کو قواعد و ضوابط کے برخلاف جیل کے اندر اور باہر رہائش و علاج معالجے کی، جو خصوصی سہولتیں فراہم کی گئیں، ان کے سبب بارہ برس کے دوران قتل سے سزائے موت اور سزائے موت کے عمر قید میں بدلنے اور پھر حتمی طور پر بری ہونے تک یہ مقدمہ کبھی بھی میڈیا اور عوامی یادداشت سے محو نہیں ہو سکا۔ عدالتِ عظمی کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر یہ فیصلہ نظامِ انصاف کے جسد پر مزید سوالیہ نیل چھوڑ گیا ہے۔ اتنے سوال کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی ریاست کے نمائندہ اٹارنی جنرل نے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی دائر کر دی۔ یقیناً ملزموں کی بریت کا فیصلہ عدالت کے روبرو پیش کردہ قانونی حقائق کی روشنی میں ہی ہوا ہو گا۔ مگر بقول شیسکپئیر، ”ریاستِ ڈنمارک میں کچھ تو ہے جو گل سڑ چکا ہے‘‘ (ہیملٹ)۔
کہتے ہیں انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ عملاً اس جملے کا پہلا نصف حصہ ہی اس وقت ریاستِ پاکستان پر منطبق ہے۔ مجھ جیسے لاکھوں شہریوں کا جی چاہتا ہے کہ اپنے نظامِ انصاف پر اندھا یقین کر سکیں مگر جب یہ لگنے لگے کہ انصاف اندھا نہیں بھینگا ہے تو اپنے وجود پر بھی اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ ایسا ملک، جہاں نہ اینگلو سیکسن قانون خالص ہے، نہ ہی شرعی قوانین اپنی روح کے ساتھ نافذ ہیں اور نہ ہی غیر رسمی جرگہ نظام اکسیویں صدی کا ساتھ دے پا رہا ہے۔ وہاں لا اینڈ آرڈر دراصل لیگل انارکی کا مہذب نام محسوس ہوتا ہے۔ اب تو فن ِ قیافہ اس معراج تک پہنچ چکا ہے کہ وارادت کی خبر میں کرداروں کے نام اور سماجی حیثیت دیکھ کے ہی دل گواہی دے دیتا ہے کہ کس مجرم کو زیادہ سے زیادہ کیا سزا ملے گی اور کون سا خونی کردار تمام تر روشن ثبوتوں کے باوجود آنکھوں میں دھول جھونکے بغیر صاف صاف بچ نکلے گا۔
بھلا ایسا کتنے ملکوں میں ہوتا ہو گا کہ دو بھائیوں ( غلام سرور اور غلام قادر ) کی سزائے موت کی توثیق ہائی کورٹ کی سطح پر ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے نظرِ ثانی کی اپیل زیرِ سماعت ہو اور سپریم کورٹ، جب ان ملزموں کو بے گناہ قرار دے دے، تب اس کے علم میں آئے کہ دونوں کو تو چند ماہ پہلے پھانسی دی بھی جا چکی ہے۔ ایسا کہاں کہاں ہوتا ہے کہ ایک چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کے تحت اقتدار پر غاصب کا قبضہ قانونی قرار دے دے اور لگ بھگ ساٹھ برس بعد ایک اور چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کا اعلان کر دے۔ یہ بھلا کس کس ریاست میں ہوتا ہے کہ ایک غریب مقتول کے ورثا ایک طاقت ور قاتل کو ”اللہ کی رضا‘‘ کی خاطر معاف کر دیں۔ تاہم کوئی ایسی مثال ڈھونڈھے سے بھی نہ ملے کہ کسی طاقتور مقتول کے ورثا نے کسی مفلوک الحال قاتل کو بھی کبھی ”اللہ کی رضا‘‘ کے لیے معاف کر دیا ہو۔ 
شاید یہ بھی اسی دنیا میں کہیں نہ کہیں تو ہوتا ہی ہو گا کہ ایک معزول وزیرِ اعظم ( بھٹو ) کو قانون کے مطابق مقدمہ چلا کے پھانسی دے دی جائے مگر پھانسی کے اس فیصلے کو قانونی نظائر کے ریکارڈ میں شامل نہ کیا جائے اور پھر اسی عدالت کا ایک جج وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ اعتراف بھی کر لے کہ ہم پر اس فیصلے کے لیے بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اور پھر کوئی بھی آنے والی حکومت تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے اس مقدمے کے ری ٹرائل کی درخواست دائر کرنے سے بھی ہچکچاتی رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت کا کوئی جج آئین کی ایک شق کی تشریح کے فیصلے میں یہ لکھ دے کہ پارٹی صدر کے فیصلے کی پابندی اس پارٹی کے ہر رکنِ اسمبلی پر لازم ہے بصورتِ دیگر وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور پھر وہی جج کچھ عرصے بعد بطور چیف جسٹس اپنے ہی سابقہ فیصلے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے یہ کہے کہ دراصل پارٹی صدر کے بجائے ارکانِ اسمبلی پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔
اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دے کہ ایک جج سے اگر پہلے فیصلے میں غلطی ہو جائے تو اسی نوعیت کے کسی اور مقدمے میں وہ اپنی سابقہ غلطی کو درست کرنے کا مجاز ہے۔ یہ روزمرہ گفتگو کتنے ملکوں کی زیریں عدالتوں کی غلام گردشوں میں ہوتی ہو گی کہ مہنگا وکیل کرنے کے بجائے ”مناسب جج‘‘ مل جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس وقت پاکستان کی تمام عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات سماعت یا فیصلوں کے منتظر ہیں مگر سیاسی نوعیت کے مقدمات ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت اور شہرت لے اڑتے ہیں۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے یہ تجویز بھی بارہا پیش کی گئی کہ آئینی نوعیت کے مقدمات نمٹانے کے لیے علیحدہ اعلی آئینی عدالت قائم کر دی جائے تاکہ لاکھوں فوجداری مقدمات کی بلا رکاوٹ سماعت ہو سکے۔ مگر یہاں تو روایتی عدالتوں کے ججوں کی آسامیاں کبھی پوری طرح نہیں بھری جا سکیں چے جائیکہ ایک اور اعلی عدالت قائم ہو سکے۔ چنانچہ اب عوامی سطح پر یہ کہہ کے صبر کر لیا جاتا ہے کہ جیسا کیسا ہی انصاف سہی، مل تو رہا ہے، یہ بھی نہ ملا تو کیا کر لو گے؟
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں (اقبال)
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو  
1 note · View note
emergingpakistan · 3 months
Text
فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق
Tumblr media
فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔ فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔
فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق ک�� جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔ فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔ دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔
Tumblr media
لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔ خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔ ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ ک��ئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔ ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ 
تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔ لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔ تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘ جب کسی فرد، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔
اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔ سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔ جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
وعدوں کی ہانڈی میں دلاسے کی ڈوئی
Tumblr media
ماضی کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ درخشاں ہی ہوتا ہے۔ بالکل اس شخص کی طرح جو بھلے زندگی میں کیسا ہی کمینا ہو مرنے کے بعد اس میں خوبیاں ہی ڈھونڈی جاتی ہیں۔ کوئی بھی حکومت ہو، اس لحاظ سے اچھی ہی ہوتی ہے کہ وہ حال سے بے حال لوگوں کو آنے والی صبح کی روپہلی کرنیں ایڈوانس میں دکھاتی رہتی ہے۔ بالکل اس ماں کی طرح جو بھوکے بچوں کو پھسلانے کے لیے چولہے پر پانی سے بھری ہانڈی میں دو پتھر ڈال کے ڈوئی چلاتی رہتی ہے۔ ’بس میری جان کے ٹکڑو، تھوڑا صبر اور لذیذ سالن تیار ہونے ہی والا ہے۔‘ دو چار بار تو یہ ناٹک چلتا ہے پھر بچے بھی آہستہ آہستہ سیانے ہونے لگتے ہیں کہ اماں کے پاس دلاسے کی ڈوئی کے سوا کچھ نہیں۔ دعا ہے کہ موجودہ ہائبرڈ (چوں چوں کا مربہ) سیٹ اپ جو ’اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری راستے میں ہے‘ کی لوری سنا کے قوم کو سلانے کی کوشش کر رہا ہے واقعی اس بار سچ کر جائے۔ آئی ایم ایف کے ریکارڈ میں بھی ہماری گواہی آدھی ہے۔ یعنی زبانی کچھ نہیں مانا جائے گا۔ جو وعدہ کرنا ہے لکھ کے اور اپنے متمول دوست ممالک سے ضمانتی تصدیق کرا کے ہمارے پاس جمع کراؤ۔
شاید چینی بھی اب ہمارے عمل داروں کے بیانات نہیں پڑھتے۔ تب ہی تو سی پیک سے ان کا دل بھی اوبھتا جا رہا ہے۔ ان کی ابتدائی گرم جوشی رجائیت کے پائیدان سے اترتی اترتی ’خصماں نوں کھاؤ‘ کی دہلیز تک آن پہنچی ہے۔ اوروں اور غیروں کو کیا روئیں، خود ہمارے بچوں نے بھی اخبار پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ انھیں خبر ہی نہیں کہ ہمارے بادشاہ گر قوم کے مستقبل کی روغنی ہانڈی میں اعلیٰ معیار کے وعدے اور تازہ قسمیں ڈال کے کیسی جانفشانی سے چمچ گھما رہے ہیں۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ پچھلے برس لگ بھگ آٹھ لاکھ پڑھے لکھے، غیر پڑھے لکھے، اہل، نااہل، ہنر مند، غیر ہنر مند نوجوانوں نے قانونی طور پر پاکستان چھوڑ دیا۔ غیر قانونی راستوں سے کتنے بچے فرار ہو رہے ہیں اس کا پتہ تب لگتا ہے جب بحیرۂ روم میں کوئی کشتی ڈوبتی ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر رانا محمود الحسن نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت 50 ہزار ڈگری یافتہ انجینیر کام کی تلاش میں جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔
Tumblr media
سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے سیکرٹری ذوالفقار حیدر نے کمیٹی کے روبرو بتایا کہ اس وقت بیرون ملک جو بھکاری پکڑے جا رہے ہیں ان میں سے 90 فیصد پاکستانی ہیں۔ ان میں وہ جیب کترے بھی شامل ہیں جو حج، عمرے، زیارات کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو کر سعودی عرب، ایران اور عراق پہنچ کے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ دو روز پہلے ہی ملتان ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے عمرے کے ویزے پر جانے والے ایک ٹولے کو آف لوڈ کیا جس میں 11 خواتین، چار مرد اور ایک بچہ شامل ہے۔ انھوں نے ایف آئی اے کو بتایا کہ ٹریول ایجنٹ نے اس شرط پر عمرے کا ویزہ لگوایا کہ کمائی آدھی آدھی۔ خلیجی ریاستوں میں ہمارے کارکن انڈیا اور نیپال کے کارکنوں کے مقابلے میں کم پیسوں پر بھی کام کرنے پر بخوشی آمادہ ہیں۔ پھر بھی پاکستانی کارکنوں پر غیر ملکی آجر اعتماد نہیں کرتے اور انڈین و بنگلہ دیشی افرادی قوت کو ترجیح دیتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹر محمود الحسن کے بقول انڈیا چاند پر اتر رہا ہے اور ہم روزانہ نیا چن چڑھا رہے ہیں۔
ریاست اندرونِ ملک آئین و قانون کے دبدبے اور بیرون ملک سافٹ امیج کا نام ہے۔ لوگوں کے دل سے آئین اور قانون کا دبدبہ اٹھا تو ریاست گئی۔ سافٹ امیج پر دھبہ لگا تو اعتبار گیا۔ اعتبار گیا تو عزت گئی۔ اب تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ترک، جو کچھ عرصے پہلے تک پاکستان کا نام سن کے تمتما جاتے تھے، اب صرف پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کے زیرِ لب مسکرانے لگتے ہیں تو جانے خوش ہوتے ہیں کہ ترس کھاتے ہیں۔ 40 برس پہلے 162 ممالک میں پاکستانیوں کی ویزا فری انٹری کو ہم نے اپنی مسلسل محنت و لگن سے آج صرف 10 ممالک میں ویزہ فری انٹری تک سکیڑ دیا ہے۔ حتی کہ وہ 63 ممالک بھی سبز پاسپورٹ پر رحم کھانے کو تیار نہیں جن کے شہری پیشگی ویزہ لیے بغیر پاکستان میں کبھی بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ بیرونِ ملک پکڑے جانے والے 90 فیصد بھکاری اگر پاکستانی ہیں تو بھلے ہوتے رہیں۔ اب تو ہمارے حکمران بھی سالم طیارہ کر کے کسی خلیجی ایرپورٹ پر اترتے ہیں تو میزبان سجاوٹی مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے یہی سوچتا رہتا ہے کہ ارمانی، ورساچی، بربری یا ٹیڈ بیکر کا سوٹ ڈاٹے یہ خوش پوش فقیر اس بار کتنا ادھار مانگنے آیا ہے۔
جس طرح چہار جانب اوپر تلے مسلسل گل کھلائے جا رہے ہیں، اس کے بعد یہی کسر باقی ہے کہ غیر ملکی میزبان خیر مقدمی ہال میں پینافلیکس لگوا لے کہ ’ادھار محبت کی قینچی ہے۔‘ ہمارے کسی بھی اہلکاری مہمان کو ڈیزائنرز گھڑی، منقش تلوار، میباخ کلاس مرسڈیز، جڑاؤ گھوڑا اور تینزونائٹ نیکلس دینے سے پہلے اس پر کندہ کروا دے کہ ناٹ فار سیل۔
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
(جون ایلیا)
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
shiningpakistan · 11 months
Text
حضور بیٹھیں گے کہ لیٹیں گے؟ وسعت اللہ خان
Tumblr media
کون کہتا ہے حالات پہلے سے بدتر ہیں۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ ہرگز ہرگز اس ملک کے خیرخواہ نہیں۔ جب انھیں معلوم ہی نہیں کہ پہلے کیسے حالات تھے تو پھر وہ کیونکر ایک باخبر اور متوازن رائے قائم کر سکتے ہیں۔ خود کو باشعور سمجھنے والے یہ مٹھی بھر لوگ دراصل یونیورسٹی آف سنی ان سنی کے گریجویٹ ہیں۔ ان کا تمام علم تیرے میرے کی رائے سے کشید کردہ ہے، خدانخواستہ بہرے ہوتے تو نپٹ جاہل ہوتے۔ انھیں کیا معلوم کہ پچھلی حکومتیں کتنی بے عقل تھیں اور سیاسی مخالفین کو لگام دینے کے لیے ان سے کیسی کیسی بوالعجبیاں نیز یل وللیاں سرزد ہوتی تھیں۔ جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تھا تو حسین شہید سہروردی پر انڈیا کی شہہ پر عام لوگوں کو حکومتِ وقت کے خلاف اکسانے کا مقدمہ، چوہدری ظہور الہی پر بھینس چوری اور ستر برس کے مخدوم زادہ حسن محمود پر بھری دوپہری میں کھمبے پے چڑھ کے بجلی کی تاریں چوری کرنے کا پرچہ درج کروا دیتی تھیں اور اس دور کے جج بھی ان مقدمات کو انتہائی سنجیدگی سے سنتے تھے۔ آج کسی سیاسی مخالف کے خلاف ایسا کوئی بے عقلا یا مزاحیہ پرچہ نہیں کاٹا جاتا۔ بلکہ ایک ساتھ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ایف آئی آر کا پورا رجسٹر تھما کے ٹور ڈی پاکستان پر بھیج دیا جاتا ہے۔
آج گلگت میں پیشی تو کل گوادر میں طلبی، پرسوں چترال پولیس کو مطلوب تو ترسوں سکھر پولیس تلاش میں۔ اس عدالت سے گرا تو اس عدالت میں اٹکا۔ اس سے اترا تو چوتھی میں لے جا کے کھڑا کر دیا گیا۔ اس پوری مشق کے پیچھے سزا یا انتقام کی نیت نہیں ہوتی بلکہ حریفوں کو تن آسانی کے مدار سے نکال کے پورے پاکستان کی سیر کرانا مقصود ہے تاکہ وہ کم از کم اس بہانے اپنا ملک ہی دیکھ لیں کہ جس کے تحفظ کے لیے وہ خون کے پہلے قطرے کے بجائے آخری قطرہ بہانے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔ سستے زمانوں میں ہزاروں نظریاتی و سیاسی مخالفین کو جیلوں میں سرکاری مہمان بنا کے رکھنا ریاست کے لیے ��وئی مسئلہ نہیں تھا۔ تقسیم سے قبل جب کانگریس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلائی تو ایک لاکھ سے زائد سیاسی قیدی انگریز سرکار نے بڑی آسانی سے اکوموڈیٹ کر لیے۔جگہ کم پڑتی تو کالے پانی (جزائر انڈمان) بھیج دیا جاتا۔ خود ضیا الحق کے دور تک ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بیس پچیس ہزار مخالفین کی گرفتاری اور مہمان نوازی بھی ریاست کے وسائل پر بہت زیادہ بوجھ نہیں لگتی تھی۔
Tumblr media
لیکن اب مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ قیدی تو کجا نام نہاد آزاد شہری بھی بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہا ہے۔ ری��ست بھی قرضے ادھار پر چل رہی ہے۔ چنانچہ اب قیدیوں کو باقاعدہ جیلوں میں رکھنے، مقدمے چلانے اور ان کے کھانے پینے کے نخرے اور اے بی سی کلاس کی عیاشی برقرار رکھنا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا اب مخالفین کو دو آپشن دیے جاتے ہیں۔ (اول) آپ آرام سے بیٹھنا پسند کریں گے یا پھر لیٹنا پسند کریں گے؟ (دوم) آپ رضاکارانہ طور پر منظر سے ہٹنا چاہیں گے یا پھر ہم اس سلسلے میں آپ کی مدد کریں؟ آپ ہمارے ہم خیال گروپ کی ویڈیو شوٹ میں دکھائی دینا چاہیں گے یا آپ کی الگ سے آڈیو ویڈیو بنا کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیں؟ آپ گرین ٹیلرز کی شیروانی پہن کے تصویر کھینچوائیں گے یا لباسِ فطرت میں کھال کھچوائیں گے؟  دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا کسی بھی عام شہری، سیاسی کارکن یا سیاستداں کو آج سے پہلے اتنی چوائسز دی جاتی تھیں؟ پھر بھی آپ کے ناشکرے پن کی کوئی انتہا نہیں۔
جیسے جیسے عمر گذرنے کے ساتھ فرد بالغ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ادارے بھی وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر اپنی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ پہلے زمانے کی عسکری قیادت آج کے مقابلے میں محض دس فیصد ناپسندیدہ وجوہات پر غصے میں آ کے اقتدار براہِ راست ہاتھ میں لے لیا کرتی تھی اور پھر اس اقتدار کو اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمایا جاتا۔ مگر آج اقتدار براہ راست ہاتھ میں لینا فرسودہ اور آؤٹ آف فیشن حرکت سمجھی جاتی ہے اور دنیا بھر میں بدنامی الگ۔ لہذا اقتدار اسی طرح کرائے پر دیا جاتا ہے جس طرح مزارعین کو کھیت مستاجری پر دیا جاتا ہے۔ کھاد بیج، کیڑے مار ادویات ہمارے، محنت تمہاری۔ ہر فصل میں سے تین چوتھائی ہمارا ایک چوتھائی تمہارا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ باتیں سنتے سنتے بال سفید ہو گئے کہ دراصل ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ یہ ہے کہ فیصلہ کن اور فیصلہ ساز ادارے اپنی اپنی آئینی حدود اور دائروں میں رہ کے کام کرنے کے عادی نہیں۔ یوں نہ تو آئینی حکمرانی پوری طرح قائم ہو سکی اور نہ ہی گڈ گورننس کی داغ بیل پڑ سکی۔
خدا کا شکر کہ آج ایسا کچھ نہیں۔ ہر ادارہ ماشااللہ اپنی اپنی حدود میں بااختیار ہے۔ مثلاً کوئی بھی عدالت اپنی چار دیواری میں مکمل بااختیار ہے۔ پارلیمنٹ ریڈ زون کے احاطے میں رہتے ہوئے کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔ ایوانِ صدر کی حدود میں صدرِ مملکت کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وزیرِ اعظم ریاست بھر میں کسی بھی واقعہ کا فوری نوٹس لے کے رپورٹ طلب کر کے ایکشن لے سکتا ہے۔ لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔ اور ہمارے حساس ادارے ملک کی جغرافیائی و نظریاتی و سیاسی و اقتصادی و نفسیاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمیشہ کی طرح مستعد و چاق و چوبند ہیں۔ وہ کسی بھی اندرونی شورش اور بحران پر قابو پانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس بابت یہ ادارے طبِ یونانی کے اس بنیادی اصول پر عمل کرتے ہیں کہ مرض کو پہلے پوری طرح ابھارا جائے تب ہی اس کی جڑ ماری جا سکتی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ یہ ادارے کبھی بھی خود کو ریاست سے الگ یا بیگانہ تصور نہیں کرتے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یک جان و یک قالب والا معاملہ ہے۔ اللہ تعالی یہ محبتیں قائم و دائم رکھے اور ہمیں اس بارے میں ہر طرح کی بدگمانیوں اور وسوسوں سے بچائے رکھے۔ ثمِ آمین۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduclassic · 1 year
Text
ارے بھئی یہ اپنے ضیا صاحب
Tumblr media
یہ معلومات اب غیر متعلقہ سی لگتی ہیں کہ ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین چونکہ خود ایک ماہرِ ریاضیات، موسیقی کے پا رکھی، گیت کار و ڈرامہ نگار تھے لہذا صاحبزادے پر اس ماحول و صحبت کا اثر ہونا لازمی تھا یا جب انگریزوں نے پنجاب کو ہندوستان کا اناج گھر بنانے کے لیے یہاں نہری نظام کا جال بچھایا اور ساندل بار اور نیلی بار کے دوآبے میں زمینیں آباد کرنے کی ترغیبات دیں تو رہتک و حصار کے لوگ بھی یہاں آن بسے اور اس نئی نئی زرخیزی کے مرکز لائل پور میں ضیا محی الدین کا بھی جنم ہوا۔ یہ جنم انیس سو انتیس میں ہوا کہ تیس، اکتیس، بتیس، تینتییس میں۔ یہ بھی غیر متعلقہ ہے۔ اہم یہ ہے کہ ان کا جنم ہوا۔ وہ زمانہ برصغیر میں آئیڈیل ازم، امنگ اور اٹھان کا دور تھا۔ اس ماحول میں اقبال اور جوش تو بن چکے تھے۔ راشد، فیض، علی سردار، کیفی، میرا جی، منٹو، کرشن چندر، بیدی، بلراج ساہنی ، نور جہاں، بیگم اختر وغیرہ وغیرہ زیرِ تعمیر تھے۔ ترقی پسند تحریک اور انقلابیت جوان تھی۔ تھیٹر کے ہیرو بادشاہ اور شہزادے کے منصب سے اتر کے عام آدمی کے عام سے خوابوں کے ڈھابے پر بیٹھنے لگے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی نوٹنکئیت بھی روپ بدل رہی تھی۔
آغا حشر اور رفیع پیر بھی وقت کے ساتھ ساتھ ڈھل رہے تھے۔ زیڈ اے بخاری جیسے لوگ پڑھنت کے لیے تازہ لہجہ بن رہے تھے۔ بمبئی اور لاہور کا پارسی تھیٹر سیلولائیڈ میں مدغم ہو رہا تھا اور قدیم ہندوستانی ڈراما جدیدیت کی کوکھ سے دوسرا جنم لینے کے لیے مچل رہا تھا۔ زیادہ موثر تخلیقی و فنی اظہار کے لیے ریڈیو کی شکل میں ایک نیا اور کہیں موثر میڈیم پیدا ہوتے ہی دوڑنے لگا تھا۔ اس ایک ڈبے نے آرٹ کے اظہار کو ایک نیا اور وسیع میدان عطا کر دیا اور پھر یہ میدان چند ہی برس میں بھانت بھانت کی تازہ آوازوں اور لہجوں سے بھر گیا۔ غرض کسی بھی نو عمر لڑکے یا لڑکی کے لیے فائن آرٹ اور پرفارمنگ آرٹ کا حصہ بننے کی فضا پہلے سے کہیں سازگار تھی۔ ضیا محی الدین بھی اسی تخلیقی خوشے کا ایک دانہ تھا جسے اپنا آپ ابھی منوانا تھا۔ ان کے ساتھ کے کچھ لوگ تخلیقی جنم لیتے ہی مر گئے۔ کچھ نے فائن و پرفارمنگ آرٹ کی انگلی پکڑتے پکڑتے فنی لڑکپن تو گزار لیا اور پھر دیدہ و نادیدہ مجبوریوں کے جھکڑ میں کہیں گم ہو گئے۔ جو سخت جان نکلے انھوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے خود کو منوا لیا۔ ان میں ضیا محی الدین بھی تھے۔
Tumblr media
وہ شاید لڑکپن میں ہی تاڑ گئے تھے کہ انھوں نے آرٹ کی جس طرز سے خود کو بیاہنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی پرداخت و آب داری کے لیے مغرب کا رخ کرنا ہی پڑے گا۔ لہذا انھوں نے مزید سوچنے میں وقت گنوانے کے بجائے ایک نادیدہ دنیا میں زقند بھر لی۔ فیصلہ پر خطر تھا۔ گمنام اور نام چین ہونے کا امکان آدھوں آدھ تھا۔ گویا ایک متوسطی لڑکے کے لیے ہر طرح سے جوا تھا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ چیلنج قبول نہ کرو تو کامیابی چھوڑ ناکامی تک ہاتھ نہیں آتی۔ ضیا دونوں طرح کے انجام کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تھے۔ اور پھر انھیں وہی کچھ مل گیا جو چاہتے تھے۔ اچھا اسٹیج ، اچھے استاد ، اچھے ساتھی ، اچھی روشنی ، اچھے سامع و ناظر اور سب سے بڑھ کے برموقع مواقع۔ اور اس سب نے ہمیں وہ ضیا محی الدین گوندھ کے دیا جو آج تک تھا اور کل تک ہے۔ اور اس ہونے کے پیچھے انگلستان میں سینتالیس برس کے قیام کے دوران شیکسپیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے، نسل پرست انگلش تھیٹر کی دنیا میں اپنی جگہ بنا کے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے گوروں سے خو�� کو منوانے اور اس منواہٹ کے بل بوتے پر برٹش ٹی وی اور امریکن فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے اور پھر اس تجربے کو ثوابِ جاریہ میں بدلنے کے لیے پاکستان واپسی اور اب سے پچپن برس پہلے رئیلٹی شوز کے ماڈل سے مقامی ٹی وی کو متعارف کروانے اور روایتی اسٹیج کو جدید سوچ اور تکنیک کا انجکشن لگانے اور پھر اس پورے تام جھام کو آگے بڑھانے کے لیے نئے آرٹسٹوں کی دریافت، اس خام مال کی تربیت اور انھیں شوبز کے کل کا جزو بنانے سمیت اور کیا کیا ہے جو ضیا محی الدین کے دائرہِ عمل سے باہر رہ گیا ہو۔
زندگی کی آخری تہائی کو ضیا صاحب نے صنعتِ پڑھنت، فنِ داستان گوئی کی آبیاری اور نئے ٹیلنٹ کی کاشت کاری میں گذار دیا۔ میری بالمشافہ یادیں ستمبر دو ہزار بارہ سے دسمبر دو ہزار پندرہ تک کی ہیں۔ جب علی الصبح نو بج کے پندرہ منٹ پر ایک کار نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے دروازے سے اندر داخل ہوتی تھی اور پورچ میں جا لگتی تھی۔ ایک خوش لباس جوان بوڑھا اس میں سے نمودار ہوتا اور ٹک ٹک کرتا تیر کی طرح کمرے کے دروازے کے پیچھے غائب ہو جاتا۔ اوروں کا دن چوبیس گھنٹے کا تھا۔ اس خوش لباس کا دن اڑتالیس گھنٹے کا تھا۔ ضیا صاحب کی کلاس دوپہر دو تا تین بجے ہوا کرتی تھی۔ شاگردوں کو حکم تھا کہ ایک بج کے پچپن منٹ تک اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ ٹھیک دو بجے ایک ہرکارہ گنتی کے لیے آتا۔ پانچ منٹ بعد ضیا صاحب کمرے میں داخل ہوتے اور پھر اس کمرے کی کائنات ان کے اشارے پر ہوتی۔ تین برس اس کلاس میں بیٹھنے کا فائدہ بس اتنا ہوا کہ جس زبان ، تلفظ اور ادائی پر میں گزشتہ چار عشروں سے بزعمِ خود اتراتا تھا۔سارے کس بل نکل گئے۔
معلوم یہ ہوا کہ میری کم ازکم پچاس فیصد اردو اور بولنے کا انداز غلط ہے۔ ضیا صاحب نہ ہوتے تو باقی زندگی بھی اعتمادِ جہل کے سہارے خوشی خوشی گذار لیتا۔ مگر ضیا صاحب نے مجھ سے یہ فخرِ جہل چھین کے تار تار کر دیا۔ ( تھینک یو ضیا صاحب )۔ یہ بھی رواج تھا کہ فائنل ایئر کی آخری پرفارمنس کے ہدائیت کار ضیا محی الدین ہی ہوں گے۔ اس پلِ صراط سے گذر کے مجھے اندازہ ہوا کہ ڈائریکٹر اچھا ہو تو پتھر سے بھی اداکاری نکلوا سکتا ہے ( سامنے کی مثال ہے میری ) جب فائنل پرفارمنس ہو گئی تو ضیا صاحب نے پہلی اور آخری بار کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا ’’ تم تو لکھتے بھی ہو۔ اپنے اس تجربے کے بارے میں بھی کچھ لکھو ‘‘۔ ان کے حکم پر میں نے ایک الوداعی مضمون لکھا۔ میں نے کیا لکھا قلم نے آبِ دل میں ڈبو کے خود ہی لکھ کے تھما دیا۔ اس کی پہلی سطر یہ تھی۔ ’’ جب ناپا کے تین سالہ تھیٹر ڈپلوما کورس میں داخلہ لیا تو میری عمر پچاس برس تھی۔ آج میں سینتالیس برس کی عمر میں ناپا چھوڑ رہا ہوں ‘‘۔ ضیا صاحب نے کمرے میں بلایا۔ دراز سے اپنی کتاب ’’ تھیٹرکس ‘‘ ( تھیٹریات ) نکالی اور دستخط کر کے مجھے دے دی۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
ایک دعاِ مغفرت عقلِ سلیم کے لیے بھی
مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں لگ بھگ دو سو حکومتیں عالمی درجہِ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کمی لانے کے لیے ایک بار پھر سر جوڑے تقریریں کر رہی ہیں تقریریں سن رہی ہیں۔ انیس سو بانوے میں اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے طے پانے والے ایک جامع ماحولیاتی سمجھوتے پر تنظیم کے تمام رکن ممالک کے دستخط کے بعد سے اب تک ہونے والی یہ ستائیسویں عالمی کانفرنس ہے۔ اس سلسلے کا سب سے اہم اجتماع دو ہزار پندرہ میں پیرس میں ہوا تھا۔ جب شرکا نے عہد کیا کہ اگلے پندرہ برس میں ( دو ہزار تیس تک ) عالمی درجہِ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کمی کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ دو ہزار پچاس تک درجہِ حرارت میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد اضافے کے نتیجے میں کرہِ ارض کی نصف آبادی کو جو بقائی خطرہ لاحق ہونے والا ہے اسے ٹالا جا سکے۔ پندرہ برس کی طے کردہ سرخ لکیر کو سبز کرنے کا نصف وقت گذر چکا ہے۔
 اس عرصے میں درجہِ حرارت میں کمی تو خیر کیا ہوتی۔ آلودگی پھیلانے والے دس بڑے صنعتی ممالک کی ہٹ دھرمی کے سبب درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ ایک فیصد مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ یوں پاکستان سمیت دنیا کے دس غریب ممالک کے بنیادی وجود کو بقائی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ فوری ثبوت یہ ہے کہ صرف رواں برس کے دوران نائجیریا میں سیلابوں سے آٹھ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ صومالیہ میں مسلسل دو برس سے جاری خشک سالی کے سبب ایک ملین سے زائد انسان موت کے منہ میں بتدریج جانے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کے ایک تہائی زیرِ آب رقبے نے لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ نفوس کو بے گھر کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کو ماحولیاتی اژدھے سے بچانے کے لیے فراخدلانہ عالمی ہنگامی امدادکی اپیل کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے پاکستانی معیشت کو لگ بھگ چالیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے نزدیک پاکستانی معیشت کو تیس سے بتیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔
شہباز شریف نے شرم الشیخ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے آلودگی کے ذمے دار امیر صنعتی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی شرائط میں رد و بدل اورغریب ممالک پر منڈلاتی ماحولیاتی قیامت ٹالنے کے لیے بھاری امداد کا مطالبہ کیا۔ مگر امیر صنعتی ممالک نہ صرف اقبالِ جرم سے منکر ہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کی ماحولیاتی تباہی کازمہ دار بھی ان ہی ممالک کی اندرونی بدنظمی اور کوڑھ مغزی کو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ جن دس ممالک کو مرحلہ وار تباہی کا سامنا ہے ان کا عالمی آلودگی بڑھانے میں حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ جب کہ صرف دو ممالک امریکا اور چین اس آلودہ بحران کے فروغ میں کم ازکم تیس فیصد کے حصے دار ہیں۔ ان کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک، انڈیا ، روس ، برازیل ، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور سعودی عرب جیسے ممالک ہیں۔ عالمی بینک نے شرم الشیخ کانفرنس میں ماحولیاتی تباہی سے متعلق جو تحقیقی رپورٹ پیش کی۔ اس کے مطابق پاکستان کو اگلے سات برس میں ماحولیاتی تباہی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تین سو اڑتالیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
یعنی پاکستان کو اگلے سات برس تک سالانہ قومی پیداوار کے پونے گیارہ فیصد کے مساوی عالمی امداد چاہیے۔ اگر بروقت امداد نہ ملی تو دو ہزار پچاس تک پاکستان کی کل قومی آمدنی میں سالانہ اٹھارہ سے بیس فیصد تک کمی آتی چلی جائے گی اور یہ ملک اپنے ہی قدموں پر ڈھ جائے گا۔ اس وقت پاکستان توانائی کی تینتالیس فیصد ضروریات درآمدی تیل اور گیس سے پوری کر رہا ہے۔ اس درآمد پر سالانہ پندرہ ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ابتری کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دستیاب قومی وسائل مسلسل بڑھتی آبادی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان آج سے ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تب بھی دو ہزار پچاس تک پاکستانی شہریوں کی تعداد بڑھ کے تیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اگر ریاستی ڈھانچہ یہ دباؤ برداشت نہ کر پایا تو پھر طوائف الملوکی کا راج ہو گا۔ اب جب کہ بندر کی بلا طویلے کے سر آ گئی ہے تو ماحولیاتی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ مگر گھنٹی باندھنے کی مہلت کہاں ہے ؟
ولادی میر پوتن کی جنگ باز پالیسیوں کے سبب تیل ، گیس اور غلے کی عالمی کمیابی نے بقائی و ماحولیاتی بحران اور گہرا کر دیا ہے۔ اس بگاڑ سے اگر کوئی خوش ہے تو وہ تیل اور گیس کی عالمی تجارت اور پیداوار کو کنٹرول کرنے والی سات سے دس بڑی کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے آدھی کمپنیاں امریکی ہیں۔ جرمنی اور فرانس سمیت جن صنعتی ممالک نے تیل، گیس اور کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے منصوبوں کو دو ہزار پینتیس تک بتدریج ختم کر کے گرین طریقے اپنانے کا پیرس میں بڑے جوش و خروش سے وعدہ کیا تھا۔ اب یوکرین کے بحران کے سبب بدلے حالات میں اپنے وعدوں سے یہ ممالک دھیرے دھیرے پھر رہے ہیں۔ مغربی ممالک کو اپنے کروڑوں شہریوں کو روسی تیل اور گیس کے بائیکاٹ کے اقتصادی اثرات سے بچانے اور ممکنہ سماجی اتھل پتھل روکنے کے لیے نئے ذخائر اور نئی رسد کی تلاش ہے۔ چنانچہ اوپیک ممالک نے ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تیل اور گیس کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے تیل اور گیس کی عالمی کمپنیوں نے افریقہ کا رخ کر لیا ہے۔
حال ہی میں کانگو کی حکومت نے اپنے ملک میں برطانیہ کے رقبے کے برابر علاقے کو تیل اور گیس کی تلاش کے لیے لیز پر دے دیا ہے۔ اس خطے میں آباد قبائل کو اس بابت اعتماد میں لیے بغیر ان کے مستقبل کا س��دا طے پا گیا۔ یہ خطہ گھنے استوائی جنگلات پر مشتمل ہے جس میں معدوم ہوتے گوریلوں سمیت کم و بیش تین ہزار اقسام کے چرند و پرند و درند رہتے ہیں۔ افریقہ میں نائجیریا سمیت متعدد ممالک میں اب تک تیل کے جتنے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ان میں کاربن کی مقدار دنیا کے دیگر خطوں میں پائے جانے والے ذخائر کی نسبت چالیس فیصد زائد ہے۔ کانگو کے ممکنہ ذخائر کے بارے میں ماہرینِ ماحولیات کا اندازہ ہے کہ ان میں مجموعی طور پر اتنا کاربن دفن ہے جو دنیا میں کاربن کی تین برس کے مجموعی اخراج سے بھی زیادہ ہے۔ اگر قدرتی ایندھن کی تلاش اور پیداوار کے دوران کاربن کی یہ مقدار بھی کرہِ ارض کی فضا میں شامل ہو گئی تو اگلے پچاس برس میں دنیا کی کم ازکم نصف آبادی کو زندہ رہنے کے لیے زمین جیسا کوئی اور سیارہ تلاش کرنا پڑے گا۔
اس نئے کارپوریٹ لالچی حملے کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قدرتی ایندھن کی تلاش کی حوصلہ شکنی کے لیے عالمی انشورنس کمپنیاں نئے منصوبوں کی انشورنس نہ کریں۔ کچھ عالمی کمپنیوں نے اس بابت حوصلہ شکنی کے لیے پریمیم کی شرح میں اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے مگر نئی انشورنس کمپنیاں اپنے پاؤں جمانے کے لیے پرانی انشورنس کمپنیوں کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ اس تناظر میں شرم الشیخ کی ماحولیاتی کانفرنس میں کیے گئے وعدے عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی فضا میں اڑا دیے جائیں گے۔ اس وقت سوائے چین کے کسی صنعتی طاقت نے پیش کش نہیں کی کہ وہ غریب ممالک کو ماحولیاتی تباہی میں اضافے سے روکنے کے لیے مالی ترغیبات دینے کو تیار ہے بشرطیکہ امریکا سمیت دیگر قصور وار صنعتی ممالک بھی ایسے کسی امدادی فارمولے پر رضامند ہو جائیں۔ یہ وہ شرط ہے جو ’’ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی‘‘ کی جدید شکل ہے۔ جو اندھی اور بہری قیامت سر تک آن پہنچی۔ کاش وہ بھی ایسی حیلہ سازیوں اور بہانے بازیوں سے ٹالی جا سکتی۔ تب تلک ایک دعاِ مغفرت انسان کی نام نہاد عقلِ سلیم کے لیے بھی۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسریس نیوز
1 note · View note
pakistan-affairs · 2 years
Text
جیل جیسی بادشاہت کہاں؟
تیس ستمبر کو پنجاب کے محکمہ داخلہ کے انٹیلی جینس سینٹر ( پی آئی سی) نے آئی جی جیل خانہ جات، چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور وزیرِاعلیٰ دفتر کے ایڈیشنل سیکریٹری (لا اینڈ آرڈر) کو ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ ارسال کی۔ مندرجات حسبِ ذیل ہیں۔ ’’ ڈسٹرکٹ جیل اٹک کرپشن اور بے قاعدگیوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ تشدد ، اذیت رسانی، جنسی زیادتی اور منشیات کا فروغ مسلسل ہے۔ جیل انتظامیہ کی پشت پناہی کے سبب یہاں ڈرگ مافیا کے پنجے گڑے ہوئے ہیں اور منافع میں حصہ داری ہے۔ منشیات فروش جیل کے اندر سے اپنا کاروبار بلاخوف و خطر چلا رہے ہیں۔ یوں منشیات کے عادی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کاروبار کے سرخیل دو قیدی منشیات فروش ہیں۔ ان میں سے ایک پر چودہ اور دوسرے کے خلاف آٹھ مقدمات درج ہیں۔ منشیات کی کھیپ ملاقاتیوں کے ذریعے جیل منتقل کی جاتی ہیں۔ چرس کی جو مقدار باہر پانچ سو روپے میں میسر ہے جیل میں اس کی قیمت تین سے ساڑھے تین ہزار روپے کے درمیان ہے۔ 
فی گرام آئس نامی نشہ بھی اسی قیمت پر دستیاب ہے۔ قیدی سے ملاقات کے عوض پانچ سو سے دو ہزار روپے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ دس ہزار روپے کی ادائیگی پر قیدی کو جیل سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں بٹھا کراہلِ خانہ کی ملاقات کروا دی جاتی ہے۔ کوئی قیدی باہر سے کھانا منگوانا چاہے تو ایک ہزار روپے میں ناشتہ، پانچ ہزار روپے میں چکن کڑاہی اور دس ہزار روپے میں مٹن کڑاہی منگوانے کی بھی سہولت ہے۔ سات برس قید بھگتنے والے ایک منشیات فروش کو پچاس ہزار روپے ماہانہ کے عوض گھر سے منگوائے کپڑے پہننے کی مستقل آزادی ہے۔ اسے روم کولر کی بھی سہولت حاصل ہے۔ وہ ضرورت کی ہر شے باہر سے منگوا سکتا ہے۔ عام قیدی ہفتے میں ایک بار فون پر گھر والوں سے بات کر سکتا ہے۔ مگر متمول ملزم کو تین بار فون کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ قتل کے جرم میں قید پولیس کا ایک سابق ملازم بھی تیس ہزار روپے ماہانہ نذرانے کے بدلے مذکورہ سہولتیں برت رہا ہے۔
جیل میں ادویات کے نام پر چند پین کلرز دستیاب ہیں۔ البتہ متمول قیدی جیل ڈاکٹر کی پرچی پر باہر سے ادویات منگوا سکتے ہیں۔ لنگر خانے کے کام پر سو قیدی متعین ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ ستر قیدی پانچ ہزار روپے ماہانہ رشوت دے کر مشقت سے جان چھڑا لیتے ہیں اور ان کی جگہ بے سہارا قیدی مشقت پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ تحقیقی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اٹک جیل کے اندرونی معاملات کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر کروائی جائیں اور تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ کم ازکم ایڈیشنل سیکریٹری کے مرتبے کا کوئی ایمان دار افسر ہو۔ ٹارچر اور تشدد کے رجحان کی سختی سے حوصلہ شکنی اور اس بابت محکمہ جیل کے حکام کی جدید تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کے عزت و احترام اور حرمت کے تحفظ کے لیے جیل کے زنانہ عملے کو ذمے داریاں منتقل کی جائیں۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ذہنی مسائل سے دوچار یا منشیات کے عادی قیدیوں کو عام قیدی شمار کرنے کے بجائے ان کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جائے۔
قیدیوں کو متعدی امراض اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے محکمہ صحت پنجاب کو جیلوں میں تسلی بخش صحت سہولتوں کے قیام اور انتظام میں حصہ دار بنایا جائے۔ نہ اٹک جیل نئی ہے نہ اس سے متعلق رپورٹ حیرت ناک ہے۔پاکستان کی تقریباً ہر بڑی جیل کے بارے میں ہر کچھ عرصے بعد ایسی رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں اور جانے کس الماری میں بند ہو جاتی ہیں۔ معزز جج اچانک چھاپے بھی مارتے رہتے ہیں۔ عدالتیں جیلوں کی اصلاحات کے بارے میں احکامات بھی صادر کرتی رہتی ہیں۔ کاغذ پر وقتاً فوقتاً اصلاحات ہوتی بھی دکھائی دیتی ہیں مگر عملی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ گزشتہ برس دسمبر میں ایک زیریں عدالت نے کراچی سینٹرل جیل کے چند قیدیوں کی شکایت پر آئی جی جیل خانہ جات کو فوری ایکشن لینے کا حکم دیا۔ شکایت یہ تھی کہ مفلوک الحال قیدیوں کو عدالت لانے لے جانے والی گاڑی میں دس دس کے گروہ میں باندھ کے بٹھایا جاتا ہے۔ البتہ جو قیدی رشوت دیں انھیں تین اور چار کی تعداد میں آرام سے سفر کی سہولت دی جاتی ہے۔
اس سال جنوری میں انکشاف ہوا کہ کراچی سینٹرل جیل میں قتل کے جرم میں عمر قید کاٹنے والے متمول مجرم شاہ رخ جتوئی سزا سنائے جانے کے بعد مختلف اوقات میں کل ملا کے بیس ماہ تک شہر کے ایک سرکاری اور تین نجی اسپتالوں میں بیماری کے بہانے شاہانہ زندگی گذارتا رہا، جب کہ جیل میں بھی اسے ’’ پیسہ پھینک تماشا دیکھ ’’ کے بدلے غیر معمولی آرام دہ سہولتیں میسر رہیں۔ شاہ رخ کے علاوہ بیس دیگر نامی گرامی قیدیوں کو جیل سے باہر جناح اسپتال اور نجی اسپتالوں میں بیماری کے نام پر داخل رہنے کی سہولت حاصل رہی۔ جب یہ خبر چینلوں پر نشر ہوئی تو فوری طور پر تمام وی آئی پی قیدیوں کو جیل منتقل کر دیا گیا۔ جیل کی پولیس محکمے کے اندر ایک آزاد اور بااختیار بادشاہت ہے، اگر کسی پر کرپشن ، بے قاعدگی اور ٹارچر کا الزام ثابت بھی ہو جائے تو اسے زیادہ سے زیادہ معطل کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی اور جیل میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ جب میڈیا کا بخار ٹوٹتا ہے تو سب اپنے اپنے استھانوں پر واپس چلے آتے ہیں۔
کبھی کوئی اکا دکا ایمان دار افسر کسی جیل میں مقرر ہو جائے تو اس کے اردگرد وہ تانا بانا بنا جاتا ہے کہ وہ خود ہی اپنا تبادلہ کسی اور برانچ میں کروا کے جان چھڑانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس ماحول میں اگر کوئی انتظامی اہل کار دعوی کرے کہ اب جیلوں کا نظام پہلے سے بہتر ہے تو اس سے بحث میں الجھنے کے بجائے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جانے میں ہی عافیت ہے۔ جیل پاکستان جیسے ممالک میں آج بھی ایک فسطائی بادشاہت کی طرح چلائی جاتی ہے اور جیلر سے زیادہ بااختیار بادشاہ صرف قصوں کہانیوں میں ہی پایا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان   
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-news · 2 years
Text
پینسٹھ پینس کی ملکہ
گزشتہ روز برطانیہ پر سات دہائیوں تک حکومت کرنے والی ملکہ کی آخری رسومات میں جتنے سربراہانِ حکومت و مملکت و ریاستی نمایندوں نے شرکت کی وہ معلوم تاریخ میں بے مثال ہے۔ روس ، بیلا روس ، شمالی کوریا اور برما کے سوا ہر ملک کو دعوت دی گئی۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اسے ایک گھٹیا سفارتی حرکت اور ملکہ کے بین الاقوامی شخصی وقار کی توہین قرار دیا۔ البتہ انسانی حقوق کے داعی کچھ برطانوی حلقوں نے سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت کے پس منظر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی شرکت پر بھنویں بھی چڑھائیں۔  جاپانی شہنشاہ ناروہیٹو اور ملکہ مساکو نے بھی آخری رسومات میں شرکت کر کے پہلی بار یہ روایت توڑی کہ جاپانی بادشاہ بیرونِ ملک کسی سوگوار تقریب میں شرکت نہیں کرتا۔دو ہزار انیس میں تخت سنبھالنے کے بعد شہنشاہ نارو ہیٹو نے پہلی بار ملک سے باہر قدم رکھا۔ آخری رسومات میں یورپ کے تمام شاہی خاندانوں کی نمایندگی تھی۔ ان خانوادوں کی برطانوی شاہی خاندان سے دور پرے کی پرانی رشتہ داریاں بھی ہیں، چند برطانوی شہری اس پر بھی چیں بہ جبیں تھے کہ ایسے دور میں جب برطانیہ کوویڈ کے بعد مسلسل اقتصادی بحران اور مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ اتنے طمطراق سے آخری رسومات ادا کرنے کے بجائے سادگی بھی اختیار ہو سکتی تھی۔
اتنے غیرملکی مہمانوں کی حفاظت کے لیے برطانوی تاریخ کے سب سے مہنگے پولیس آپریشن پر ہی کروڑوں پاؤنڈ لگ گئے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ پچھلے ستر برس میں برطانیہ نے انسانی حقوق پامال کرنے والی حکومتوں کے ساتھ جو اقتصادی و عسکری روابط رکھے اور اس سے پہلے پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں اپنی نوآبادیات میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے جس طرح کے جبری ہتھکنڈے استعمال کیے وہ ملکہ کے علم میں بھی بخوبی تھے۔ مگر ان کے نام پر ہونے والی ان زیادتیوں پر شاہی محل کی جانب سے کبھی علامتی بے چینی بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ کچھ حلقوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اکیسویں صدی میں ایک بے اختیار بادشاہت کی شان و شوکت دکھانے بلکہ خود بادشاہت کا ادارہ برقرار رکھنے کا کیا جواز ہے۔ مگر ملکہ کے آخری دیدار کے لیے میلوں لمبی لائن میں چوبیس گھنٹے تک ہزاروں شہریوں کے کھڑے رہنے کے مناظر بتاتے ہیں کہ اکثریت آج بھی بادشاہت برقرار رکھنے کی حمایتی ہے اور اس ادارے کو اتحاد اور قومی فخر کا نمایاں ترین استعارہ سمجھتی ہے۔
شاہ پرستوں کی دلیل ہے کہ بادشاہت صدیوں پرانے پرشکوہ تسلسل کی علامت ہے۔بادشاہت ہی کے تحت برطانیہ ایک عام تجارتی ریاست سے ایسی عالمی سلطنت میں ڈھلا جس کے طول و عرض میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی کہ شاہی خاندان کے پروٹوکول، روایات اور سرکاری مصروفیات پر جو اخراجات ہوتے ہیں وہ دراصل انھی کی املاک سے حاصل ہونے والے پیسے سے ہوتے ہیں۔ یہ اثاثے محلات ، زرعی رقبے ، اصطبل ، کمرشل منصوبوں، ڈاک ٹکٹ کے قیمتی کلیکشن، زیورات و جواہرات ، رائیلٹی اور پینٹنگز کی شکل میں ہیں۔ ان ذرایع سے حاصل ہونے والی پچھتر فیصد آمدنی سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے اور پچیس فیصد آمدنی سوورن گرانٹ کے نام پر شاہی خاندان کے اخراجات کے لیے مختص ہے۔ سوورن گرانٹ کا حقدار بھی پورا شاہی خاندان نہیں بلکہ بادشاہ اور اس کے براہِ راست وارث ہیں۔ اس گرانٹ کا سالانہ تخمینہ ایک سو دس ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے، اگر اس گرانٹ کو برطانوی شہریوں پر تقسیم کیا جائے تو پینسٹھ پنس فی کس بنیں گے۔
البتہ ایک لاکھ تیس ہزار ایکڑ پر مشتمل ڈچی آف لنکاسٹر نامی زرعی اراضی اور املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی براہ راست شاہی خاندان کو ملتی ہے مگر قانون یہ ہے کہ شاہی اثاثوں کو کرائے پر تو دیا جا سکتا ہے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ ان مراعات کے عوض شاہی خاندان کی مختلف سرگرمیوں ، خصوصی تقریبات اور غیر ملکی دوروں کے نتیجے میں برطانیہ کے لیے جو عالمی تشہیر اور خیر سگالی جنم لیتی ہے اور غیرملکی سیاحوں کی جتنی تعداد برطانیہ میں پیسے خرچ کرتی ہے۔ اس کا حساب کتاب کیا جائے تو شاہی خاندان پر جو اخراجات ہوتے ہیں ان کا چار سے پانچ گنا پیسہ برطانوی معیشت کو شاہی خاندان کی کشش اور سافٹ پاور کے سبب واپس حاصل ہو جاتا ہے۔ شاہی آمدنی روایتی طور پر ٹیکس سے مستثنٰی رہی ہے مگر انیس سو بانوے سے ملکہ نے اپنی ذاتی آمدنی پر انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس دینے کی روایت ڈالی۔ اگرچہ ملکہ برطانیہ پانچ سو ملین ڈالر کے ذاتی اثاثے رکھتے ہوئے ملک کی سب سے امیر خاتون تھیں۔ اور شاہی خاندان کی مجموعی اثاثہ جاتی دولت کا تخمینہ تقریباً اٹھائیس ارب ڈالر ہے۔ لیکن دنیا میں اس وقت قائم دس امیر ترین بادشاہتوں کی فہرست میں برطانوی شاہی خاندان کہیں پانچویں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔
مثلاً پندرہ ہزار ارکان پر مشتمل سعودی شاہی خاندان کی مجموعی دولت کا اندازہ ایک اعشاریہ چار کھرب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہ دولت اسپین یا آسٹریلیا کی سالانہ قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ شاہ سلیمان بن عبدالعزیز تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کے ذاتی اثاثوں کے مالک ہیں۔ جب کہ شہزادہ ولید بن طلال کے اثاثوں کی مالیت سولہ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ کویت کا ایک ہزار افراد پر مشتمل الصباح خاندان تین سو ساٹھ ارب ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے۔ قطر کے آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل التہانی خاندان کے مجموعی اثاثوں کی مالیت لگ بھگ تین سو پینتیس ارب ڈالر ہے۔ امیرِ قطر شیخ تمیم بن حماد کی ذاتی دولت کا اندازہ تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔ مغربی ممالک میں مختلف تعمیراتی و خدماتی شعبوں میں قطر کی اچھی خاصی سرمایہ کاری ہے۔ اسی طرح ابوظہبی کے النہیان خاندان کے اثاثوں کی مالیت ڈیڑھ سو ارب ڈالر اور دبئی کے المکتوم خاندان کے اثاثوں کی مالیت اٹھارہ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ ان خاندانوں نے بھی برطانوی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ دنیا کے دس امیر ترین شاہی خاندان مجموعی طور پر دو اعشاریہ چار کھرب ڈالر مالیت کے اثاثوں کے وارث ہیں۔
برطانیہ چونکہ طویل عرصے تک سب سے بڑی نوآبادیاتی سلطنت کا مالک رہا لہٰذا اس تسلط کے طفیل کئی ایسے نوادرات بھی ہاتھ لگے جو جدید تعریف کے مطابق غصب شدہ دولت کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً برطانوی بادشاہ کے عصا میں پانچ سو تیس قیراط وزن کا ہیرا اسٹار آف افریقہ جڑا ہوا ہے۔ یہ ہیرا جنوبی افریقہ سے لندن منتقل کیا گیا۔ اسی طرح تاجِ برطانیہ میں جو کوہِ نور جگمگا رہا ہے وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس سے پہلے کابل کے تخت پر براجمان شاہ شجاع اور اس سے پہلے کئی راجاؤں کی پگڑی کی زینت رہا۔ انگریزوں کے ہاتھ یہ ہیرا اٹھارہ سو انچاس میں پنجاب کی فتح کے بعد لگا۔ آج بھی بھارت ، پاکستان اور افغانستان کا کوہِ نور پر دعوی برقرار ہے۔ مگر اسی دنیا میں ایسی بھی بادشاہتیں ہیں جو سرکاری امداد کے بغیر گزارہ کرتی ہیں۔ مثلاً لکٹینسٹائین کے شاہی خاندان کو حکومت سے کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ اس کا گزارہ باپ دادا کے اثاثوں پر ہے۔ لکسمبرگ کے بادشاہ ، ملکہ اور ان کے دو بچے ہی سرکاری وظیفہ حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ جب کہ ہالینڈ کا شاہی خاندان خود کماتا اور کھاتا ہے اور ملک کے لیے سفارتی خدمات کی صورت میں اسے بس ٹی اے ڈی اے ملتا ہے، حالانکہ تینوں یورپی ریاستیں ہر اعتبار سے خوشحال ہیں۔
بادشاہت کوئی آسان پیشہ نہیں۔ کبھی کبھی شاہی میزبان کی فرمائش کی لاج رکھنے کے لیے مہمان کو بھی اپنی روایات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً ستمبر انیس سو اٹھانوے میں سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ ملکہ برطانیہ کی بیس ہزار ایکڑ پر مشتمل بالمورل اسٹیٹ میں خصوصی مہمان بنے تو ظہرانے کے بعد ملکہ نے انھیں اپنی زمینوں کی سیر کرانے کا فیصلہ کیا۔ ملکہ نے خود لینڈ روور کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ شہزادہ عبداللہ کچھ لمحے کو ٹھٹھکے اور پھر بادلِ نخواستہ ملکہ کے برابر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئے۔ اس شاہی ڈرائیونگ کے اکیس برس بعد سعودی خواتین کو بھی گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی، مگر یہ اجازت شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ان کے وارثِ تخت شاہ سلیمان کے ولی عہد محمد بن سلیمان کی مرہونِ منت ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
bazmeurdu · 2 years
Text
میں اور میرا کمرہ
جس طرح کا ماحول ہے اس میں اگر کوئی گوشہِ عافیت اب تک باقی ہے تو میرا کمرہ ہے۔ شہر میں کس کی خبر رکھیے کدھر کو چلیے اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے (نصیر ترابی) میں اور میرا کمرہ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں۔ وہ میرے شب و روز کا نظام الاوقات اب پہلے سے بہتر جانتا ہے۔شروع شروع میں کچھ ایڈجسٹمنٹ پرابلمز آئے۔ مثلاً میری یہ شکایت کہ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا۔ بس سنتا ہی کیوں رہتا ہے۔ پھر مجھ پر آہستہ آہستہ کھلنے لگا کہ مجھے اس کی زبان سیکھنا پڑے گی اور اس کے احساسات کو اسی کے اشاروں کی مدد سے سمجھنا پڑے گا۔
شروع شروع میں یہ بہت مشکل سا لگا۔ لیکن اب مجھے معلوم ہے کہ اس کے کس اشارے کا کیا مفہوم ہے۔ مثلاً جب میں کھڑکی اور دروازہ بند کر کے بھی باہر جاتا ہوں تو دو دن بعد کمرے کے فرش اور آزو بازو پڑی اشیا پر گرد کی ایک ہلکی سی تہہ جم جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمرہ صفائی پسند ہے اور میرے برعکس روزانہ کی ڈسٹنگ اور ڈریسنگ کا طالب ہے۔ مجھے اپنے روزمرہ کے کپڑے الماری کے پٹ سے لٹکانے کی عادت ہے، لیکن کمرے کے لیے جب یہ پھوہڑ پن برداشت سے باہر ہوجاتا ہے تو وہ الماری کے پٹ کو اشارہ کرتا ہے اور میری قمیضیں اور جینز جانے کیسے پٹ پر سے پھسل کر فرش پر پھیل جاتی ہیں۔ اور پھر میں ان سب کو کمرے کی خوشنودی کی خاطر الماری کے اندر ٹانگ دیتا ہوں۔ اگلے دن پھر کوئی قمیض جانے کیسے پٹ سے لٹک جاتی ہے۔ اس کمرے کی دیوار پر کب سے ایک ٹی وی سیٹ نصب ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ آخری بار اس ٹی وی سیٹ پر میں نے کیا دیکھا۔ بیرونی دنیا سے رابطے کا مرغوب ذریعہ لیپ ٹاپ اور موبائل فون ہے۔ کیونکہ ٹی وی آپ کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔
آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس ایڈیٹ باکس کو تکتے تکتے کتنا وقت بیت گیا اور جب آف کیا تو کچھ یاد نہیں رہتا کہ کیا سنا، کیا دیکھا ، کیوں سنا اور دیکھا۔ جب کہ لیپ ٹاپ اور موبائل پر آپ کا نسبتاً کنٹرول رہتا ہے۔ کون سا مباحثہ یا ریلیٹی شو کب دیکھنا ہے، کتنا دیکھنا ہے۔ کس کال کا فوری اور کس کا ٹھہر کے جواب دینا ہے۔ یہ سب آپ کی دسترس میں ہے، مگر یہ دسترس خود بخود پیدا نہیں ہوتی۔ اسے اپنے آپ پر نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سی ڈھیل ملی نہیں اور یہ آلات سر پر چڑھے نہیں۔ کمرے میں میرا بستر ہی میرا دفتر بھی ہے۔ اس کے نصف حصے پر میں سوتا ہوں اور باقی نصف پر چند خالی کاغذات، کچھ کچے پکے مسودے اور دو تین ادھ پڑہی کتابیں نیم وا آنکھوں کے ساتھ سوتی جاگتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک آدھے سے زیادہ کمرے پر کتابوں کا تسلط تھا۔ مگر میں نے ایک روز انھیں زبردستی ڈرائنگ روم میں ان کی الماری رہائش گاہیں بنا کر منتقل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ شاید وہ اس ہجرت سے خوش نہیں۔
جب تک یہ کتابیں میرے کمرے میں تھیں تو آسانی سے دکھائی دے جاتی تھیں۔ اب ڈرائنگ روم میں جا کے تلاش کرتا ہوں تو ایک دوسرے کے پیچھے چھپ جاتی ہیں اور دکھائی دے بھی جائیں تو انھیں پکڑتے ہی انگلیوں پر گرد اپنے نشانات چھوڑ دیتی ہے۔ مگر میں ان کتابوں کی فطرت سے واقف ہوں۔ ان کی جذباتی بلیک میلنگ میں آ کر پھر سے اپنے کمرے میں منتقل نہیں کروں گا۔ جب سے کتابیں منتقل ہوئی ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر بھی بشاشت کی ہلکی سی لہر محسوس ہوتی ہے۔ دو ماہ پہلے جانے کیا دماغ میں آیا کہ میں نے اپنے اس دوست کی دیواروں اور چھت پر تازہ پینٹ کروا دیا۔ مگر پھولوں والی دیواری پینٹنگ کو نہیں چھیڑا تاکہ ماضی کا حال سے کچھ تو رشتہ برقرار رہے۔ کمرہ پہلے سے زیادہ بڑا لگنے لگا۔ شاید دیواروں کو نیا پہناوا اچھا لگا تب ہی ان سے فراخی چھلک رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ میں دوسرے کمرے یا لاؤنج کا خیال نہیں رکھتا۔ ان کی بھی ویسے ہی دیکھ بھال کی کوشش کرتا ہوں جتنی اپنے کمرے کی۔ مگر کبھی کبھی جب میں دوسرے کمرے یا لاؤنج کی تشفی کے لیے ان کے درمیان جا کے بیٹھتا ہوں تو وہاں کی دیواریں طنزیہ مسکراہٹ سے استقبال کرتی ہیں ’’کہیے کیسے زحمت کی۔ آج ہماری یاد کیونکر آ گئی۔ سب خیریت تو ہے‘‘۔ ایک بار میں نے جھنجلا کر ان سے کہا کہ شکر کرو میں تمہارے ساتھ رہتا ہوں۔ تصور کرو جون ایلیا کے ساتھ تمہیں رہنا پڑ جاتا تو کیا ہوتا۔
فرش پے کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
میری اس طرح کی جھنجلاہٹ دیکھ کر کبھی کبھی دیواریں سہم جاتی ہیں۔ پھر ان کا موڈ درست کرنے کے لیے مجھے اپنے دوست فاضل جمیلی کی ایک اکتائی ہوئی نظم سنانا پڑتی ہے اور یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا نہ اکتاؤں گا۔ تم جیسے بھی ہو بہت اچھے ہو۔ میں ایسی نظمیں نہیں کہوں گا کہ ،
مجھے کمرہ بدلنا ہے یہ سیلنگ فین بوڑھا ہو چکا ہے، کھانستا رہتا ہے راتوں کو مجھے گھڑیال کی یہ بے تکی ٹک ٹک بھی اب اچھی نہیں لگتی
یہ دیواریں ادھڑتی جا رہی ہیں، جس طرح بنیان ادھڑتی ہے یہ دروازے یہ روشن دان اک دوجے سے لڑتے ہیں
چٹائی اور تکیے کی بھی آپس میں نہیں بنتی ہواؤں سے لرزتی کھڑکیوں کو اور کتنے دن تسلی دوں
سجی ہیں شیلف میں یا جا بجا بکھری ہوئی ہیں اب نہیں ہے ان کتابوں سے کوئی بھی گفتگو میری
یہ آئینہ کمینا مجھ سے کہتا ہے تمہارا عکس دھندلا ہے
وجودِ نامکمل ہو تمہاری ذات اب ٹوٹے ہوئے اس فرش جیسی ہے یہ استرکاریاں کر کے جو تم گھر سے نکلتے ہو
اداکاری تو کرتے ہو کہوں کیا اس کمینے سے کہ میں ایسا نہیں تھا، ہو گیا ہوں مجھے اس بے یقینی سے نکلنا ہے
مجھے کمرہ بدلنے دو مجھے کمرہ بدلنا ہے
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
pakistantime · 8 months
Text
اور پھر راجہ ریاض نے پوشٹر پاڑ دیا ! وسعت اللہ خان
Tumblr media
کہا تھا نا کہ قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو ہلکا نہ لینا۔ کہا تھا نا کہ ان کی سیدھ پن سے لبریز گفتگو سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کر کے ان پر فیصل آباد کی زندہ جگت کی پھبتی نہ کسنا۔ کہا تھا نا کہ راجہ صاحب کے ساندل باری لہجے کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ’میرا دل کرتا ہے کہ اسمبلی تلیل ہونے کے بعد پوشٹر پاڑ کے بارلے ملخ چلا جاؤں۔‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام ان کی پارٹی کی تجویز کردہ فہرست میں نہیں تھا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بھی وہم و گمان میں یہ نام نہ تھا۔ حکمران اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے زہن میں تو خیر یہ نام آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گمان ہے کہ خود راجہ ریاض کی بھی شاید ہی سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے زندگی میں سوائے پارلیمانی علیک سلیک کب��ی جم کے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ خود کاکڑ صاحب یا ان کی باپ ( بلوچستان عوامی پارٹی) کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو بھی 48 گھنٹے پہلے تک شاید اندازہ نہ ہو کہ فیصل آباد کا راجہ قلعہ سیف اللہ کے کاکڑ کے لیے اتنا اکڑ جائے گا کہ سارے ’پوشٹر پاڑ‘ کے پھینک دے گا۔
اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راجہ ریاض انوار الحق کاکڑ کے نام پر کیوں اڑ گئے؟ یہ سوال بھی بے معنی ہے کہ کاکڑ کا نام خود راجہ صاحب کے ذاتی ذہن کی پیداوار ہے یا انھوں نے جمعہ اور ہفتے کو کانوں میں مسلسل ہینڈز فری لگائے رکھا یا پھر کوئی واٹس ایپ موصول ہوا کہ بس ایک ہی نام پر جمے رہو۔ ہم ہیں تو کیا غم ۔ اور یہ مشورہ اتنا فولادی تھا کہ راجہ صاحب سے غالباً پہلی اور آخری بار صادق سنجرانی، احسن اقبال حتیٰ کہ اسحاق ڈار کی بالمشافہ ملاقات بھی راجہ ریاض کا دل موم نہ کر سکی۔  راجہ صاحب میں ٹارزن جیسی طاقت کہاں سے آئی؟ وزیرِ اعظم اور حکمران اتحاد نے کیسے اپنی اپنی ناموں کی پرچیاں پھاڑ کے راجہ صاحب کے تجویز کردہ نام پر ہاتھ کھڑے کر دئیے؟ اتنا برق رفتار حسنِ اتفاق تو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے بھی نہ دیکھا گیا تھا۔ کوئی تو ہے جو نظامِ بستی چلا رہا ہے۔۔۔ مگر ایک منٹ! یہ نہ تو کوئی انہونا سرپرائز ہے اور نہ ہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی بار اس طرح سے کوئی اِکا پھینک کے تاش کی بازی پلٹی گئی ہو۔
Tumblr media
یاد نہیں کہ سینیٹ میں نون اور پی پی کی مجموعی اکثریت کے باوجود ایک آزاد، غیر سیاسی، غیر معروف امیدوار صادق سنجرانی نے کس طرح مارچ 2018 میں گرم و سرد چشیدہ راجہ ظفر الحق کو شکست دے کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔ اور پھر انہی سنجرانی صاحب نے ایک برس بعد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا جبکہ سینیٹ میں عمران خان کی مخالف جماعتیں بظاہر اکثریت میں تھیں اور سنجرانی کے ہی ہم صوبہ بزنجو خاندان کے وارث میر حاصل خان کی جیت عددی دوربین سے لگ بھگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ اور اسی سنجرانی نے 2021 میں چیئرمین شپ کی دوڑ میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کے تیسری بار چمتکار دکھایا۔ تب سے سنجرانی کا شمار گنے چنے اہم سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں ہونے لگا۔ جو حاسد طعنہ دے رہے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی کی کامیاب ہائبرڈ پیوند کاری کا ٹو پوائنٹ او ماڈل ہیں، ٹی وی کے جو اسکرینچی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ جواں سال انوار الحق کا مختصر سیاسی شجرہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور وہ دراصل ایک فرنٹ کمپنی ہیں جنھیں آگے رکھ کے ایک من پسند انتخابی ڈھانچہ بنا کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔
ان اسکرینچیوں کو کم ازکم یہ زیب نہیں دیتا کہ 2018 کے بعد سے بالعموم اور حالیہ ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور نہ ختم ہونے والی سینیٹ میں بالخصوص جس طرح آخری چار اوورز میں قوانین کی منظوری کی ریکارڈ توڑ سنچری بنائی گئی اس کے بعد کوئی کہہ سکے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا کاسہ لیس ہے اور کون اس اسمبلی میں لینن، ہوچی منہہ، چی گویرا یا کم ازکم کوئی ولی خان، مفتی محمود یا نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔ یہ اسمبلی تاریخ میں کس طرح یاد رکھی جائے گی؟ کسی کو شک ہو تو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی آخری پارلیمانی تقریر یا پھر سینیٹ میں سابق چیئرمین رضا ربانی کا پچھلا خطاب سن لے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
عمران خان بڑا خطرہ ہے یا آئی ایم ایف؟
Tumblr media
اس وقت یہ طے کرنا مشکل ہے کہ بھان متی سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج کون ہے؟ خود یہ سرکار؟ بیک روم بوائز؟ عمران خان؟ عدلیہ؟ یا پھر آئی ایم ایف؟  سرکار کے اندرونی اختلافات سلٹانا نبستاً آسان ہے کیونکہ بھلے کوئی کسی کو کتنا بھی ناپسند کرے مگر اس وقت ساتھ جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ بیک روم بوائز کو بھی ہاتھ پاؤں جوڑ کے سمجھایا جا سکتا ہے کہ مانا آپ عقلِ کل ہیں۔ پھر بھی ہاتھ ذرا ہولا رکھیں اور ہمیں بھی اپنی سائنس لڑانے کا تھوڑا موقع دیں۔ عمران خان کو بھی یکے بعد دیگرے مقدمات کی رسی میں باندھ کے وقتی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کو بھی بات چیت کی فلم دکھا کے، قانون سازی کی کرتب بازی، بال کی کھال اتارنے کے فن اور آئینی شوربہ پتلا کر کے مصروف رکھتے ہوئے تھوڑی بہت مہلت کمائی جا سکتی ہے۔ مگر آئی ایم ایف کا کیا کریں؟ ایک ایسا بین الاقوامی کلرک جو سائل کو چکر پر چکر لگوا رہا بے، بار بار کسی نہ کسی جملے پر لال دائرہ لگا کے درخواست ٹائپ پر ٹائپ کروا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک سوال پوچھ رہا ہے، کاغذ پر کاغذ طلب رہا ہے، دستخط سے دستخط ملا رہا ہے۔
کتنا ٹیکس دیتے ہو؟ آخری بار پراپرٹی ٹیکس کب دیا تھا، بجلی پانی گیس کا بل کہاں ہے جس پر تمہارا نام اور ایڈریس بھی ہو۔ آخری ٹیکس گوشوارے کب بھرے تھے، ان کی رسیدیں کہاں ہیں؟ پوری کیوں نہیں؟ دو کم کیوں ہیں؟ کیا کہا بچے نے پھاڑ دیں؟ بچوں کی پہنچ سے دور کیوں نہیں رکھتے؟ اس ہفتے تو مشکل ہے۔ اگلے ہفتے پھر چکر لگا لو۔ چلو اب کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آنا، اب میری سالانہ چھٹیاں شروع ہیں بعد میں فائل دیکھیں گے، اگلی بار آؤ تو فائلوں کے تین سیٹ بنوا کر لانا۔ پچھلی بار اوتھ کمشنر کی آدھی مہر لگی تھی۔ اس بار دستخطوں کے نیچے پورا ٹھپہ ہونا چاہیے۔ ہر کاغذ پر مجسٹریٹ درجہ ِاول کے تصدیقی سائن کروانا مت بھولنا ورنہ صاحب لوگ میٹنگ میں فائل منہ پر دے ماریں گے وغیرہ وغیرہ۔ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ کسی گرگ ِباران دیدہ کرمچاری کی طرح تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتا اور ہنپا رہا ہے۔ بس چلے تو کمینے کا گھلا گھونٹ دیں، پر اکڑنے کے لیے پلے بھی تو کچھ ہو۔
Tumblr media
آئی ایم ایف بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے 70 برس میں دو درجن سے زائد قرض پروگرام خریدے مگر سوائے ایک کے کوئی فنڈنگ پروگرام پورا نہیں کیا۔ پیسے ٹریکٹر خریدنے کے نام پر لیے مگر ان پیسوں سے تائی اماں کو جیولری بنوا کے دے دی۔ گھر بنانے کے لیے لون لیا اور اس لون کو کسی ڈبل شاہ کے حوالے کر دیا۔ دوست بھی کب تک ساتھ دیں اور کتنا؟ سب جان چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی مقدس کتاب پے قسمیہ ہاتھ دھر کے پیسہ تو لے لیتی ہے مگر قرض کو آمدنی شما�� کرتی ہے۔ اگر کوئی گریبان پے ہاتھ ڈال دے یا گالم گلوچ پر اتر آئے تو کسی اور پارٹی سے ادھار پکڑ کے گھر کے سامنے بیٹھے قرضئی کو قسط دے کر وقتی گلو خلاصی کروا لیتی ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ مسکین صورت بنا کے آئی ایم ایف سے پیسے لیے اور پھر سستے پٹرول سے ان پیسوں کو آگ لگا کے وقتی چراغاں کر کے رخصت ہوئی۔ موجودہ حکومت لاکھ روئے پیٹے کہ پچھلوں کی سزا ہمیں کیوں دے رہے ہو مگر آئی ایم ایف اس لیے بہرا بنا بیٹھا ہے کیونکہ وہ کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو جانتا ہے کہ جس کے نام پر قرضے لے لے کے مجرے پر اڑائے جاتے رہے۔
اوپر سے ہمارے وزرا بھی پیٹ کے ہلکے اور بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنے کے عادی ہیں۔ ابھی پیسے ملے نہیں کہ پیشگی شور مچا دیا کہ جیسے ہی آئی ایم ایف کی قسط آتی ہے عوام کو الیکشن سے پہلے ٹھیک ٹھاک ریلیف دے دیں گے تاکہ الیکشن میں کچھ ووٹ بڑھ سکیں۔ یہ امید دلانے والے ایک بار پھر بھول گئے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ کسی پی ڈی ایم یا پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ ریاست کو ملتا ہے اور آئی ایم ایف حلوائی کی دوکان نہیں کہ ہر بار اس پے جا کے دادا جی کی فاتحہ دلوائی جائے۔ اب تو آئی ایم ایف نے بھی اردو اور پنجابی سیکھ لی ہے۔ غالباً اس کے کارندے پارلیمانی و جلسہ گاہی شعلہ بیانی کی بھی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا کورٹ نمبر ون کے سمن سے ماورا ہیں، لہٰذا ایسے خشک بے مروت اور سپاٹ چہرے والے ادارے سے بے وقت کا مذاق بھی نہیں بنتا۔ پٹڑی سے اترا ایک جملہ کروڑوں ڈالر میں پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آئی ایم ایف نے اب اگلے بجٹ کا خاکہ طلب کر کے ’انتخابی بجٹ‘ دینے کی سرکاری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اوپر سے 30 جون تک پاکستان کو بیرونی قرضے کی قسط کی مد میں ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں، وہ کہیں مالیاتی تفتیش میں اٹک کے رہ گئیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہو گا بصورتِ دیگر پاکستان کے لیے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں موجودہ پروگرام سے بھی کہیں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب پاکستان کو متبادل کے طور پر دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے فنڈز میں سے ہر سال خدمات بجا لانے کے عوض چند ارب ڈالر کا سہارا مل جاتا تھا تاکہ اشرافی اللّوں تللّوں کو سہارا دینے والا معاشی ڈھانچہ جیسے تیسے کھڑا رہے۔ اب نہ وہ امریکہ رہا جو آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے کہہ دیتا تھا کہ ’برخوردار پر ذرا ہاتھ ہولا رکھو۔ بچے کی جان لو گے کیا۔‘ امریکہ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز (ساڑھے سولہ فیصد) دان کرتا ہے اور اس کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے ذیادہ ( پونے اٹھارہ فیصد ) ہے۔ 
امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ علی الترتیب جاپان، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے ہیں۔  آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز میں انڈیا کے ووٹ دو اعشاریہ تریسٹھ جبکہ پاکستان کے ووٹ صفر اعشاریہ تینتالیس اور قرضہ لینے کا کوٹا بھی اتنا ہی ہے۔ آج تک آئی ایم ایف کے جتنے بھی ( بارہ ) مینیجنگ ڈائریکٹر نامزد ہوئے ان میں سے ایک بھی غیر یورپی نہیں۔ اسی طرح عالمی بینک میں سب بڑا شئیر ہولڈر امریکہ ہے ( سوا سترہ فیصد)۔ عالمی بینک کے پہلے صدر یوجین مائر سے لے کے موجودہ صدر سردار اجے بنگا تک چودہ میں سے تیرہ صدر امریکی شہری تھے۔ صرف ایک صدر جم یونگ کم ( دو ہزار بارہ تا انیس ) کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔ چین اور امریکہ کے روز بروز بڑھتے مناقشے میں پاکستان نے بالاخر چینی کیمپ پوری طرح سے چن لیا ہے اور یہ خبر ہم تک پہنچنے سے بہت پہلے بین الاقوامی مالیاتی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس آخر خود کو کتنا اور کب تک بچا سکتی ہے ؟
وسعت اللہ خان 
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
وہ دن دور نہیں جب بجلی مفت ملے گی : وسعت اللہ خان
Tumblr media
ضیا دور تک سنسر، کوڑے، تعزیر، مشائخ، الذولفقار، غیر جماعتی نظام، مثبت نتائج، ملٹری کورٹس، نشریاتی دوپٹہ جیسے الفاظ سے تو کان خوب مانوس تھے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کس پرندے کا نام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ یا واپڈا تھا یا پھر کے ای ایس سی۔ بجلی کبھی کبھار جاتی ضرور تھی مگر وارسک، منگلا، تربیلا کے ہوتے بجلی کم بھی پڑ سکتی ہے، یہ تصور ہی محال تھا۔ بلکہ اتنی اضافی بجلی تھی کہ نور جہاں اور ناہید اختر کے گانوں میں بھی بن داس استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً ’جلمی جوانی رت مستانی تن من جلتا جائے دور ہی رہنا دل والو نزدیک نہ کوئی آئے‘، ’میں بجلی ہوں میں شعلہ ہوں‘ یا پھر ’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں جو مجھ کو چھو لے گا وہ جل جائے گا‘۔ یا پھر ’ہٹ جا پچھے کڑی توں اے کرنٹ مار دی اے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور جو بجلی فلمی شاعری سے بچ جاتی وہ شاہی قلعہ ٹائپ عمارات میں سیاسی قیدیوں کو جھٹکے دینے یا دو نمبر پیروں فقیروں کے ہاتھوں سائلین کے جن جھٹکانے میں صرف ہو جاتی۔ 
تب کے زمانے میں ڈسکو کا مطلب نازیہ حسن کا چارٹ بسٹر ’ڈسکو دیوانے‘ تھا۔ آج ڈسکو کا مطلب وہ بارہ برقی تقسیم کار نجی کمپنیاں ہیں جو ہم تک بجلی پہنچانے کے مرحلے میں صارف کو ڈسکو کرواتی ہیں اور پھر بھی کہتی ہیں کہ ’ساہنوں تے کچھ بچدا ای نئیں‘۔ نوے کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ عوامی یادداشت کا حصہ بننے لگی اور آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس) کی اصطلاح بھی جلوہ افروز ہوئی۔ پہلی بار پتا چلا کہ نجی شعبہ محض بجلی سے چلتا ہی نہیں خود بھی صنعتی پیمانے پر بجلی بناتا ہے۔ جیسے جیسے آئی پی پیز آتی گئیں ویسے ویسے لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی گئی۔ 2008 میں دورِ مشرف کے خاتمے کے بعد زرداری حکومت آئی تو وزیرِ پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ دسمبر تک لوڈ شیڈنگ زیرو ہو جائے گی۔ مگر دسمبر کے بعد خود راجہ صاحب ٹوٹا ہوا تارہ ہو گئے۔ حتیٰ کہ جس دن 12 گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی اس روز عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔  نواز شریف کی تیسری حکومت 2013 میں اسی وعدے پر اقتدار میں آئی کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ مگر یہ نہ انھوں نے بتایا نہ کسی اور نے پوچھا کہ کس بھاؤ ختم کریں گے؟ سرکار اتنے جوش میں تھی کہ جتنی قومی کھپت تھی اس سے دوگنی برقی پیداوار کا انتظام کر لیا۔ مگر اس زائد از ضرورت پیداوار کا کرنا کیا ہے، یہ نہیں سوچا۔
Tumblr media
واجبات کا بحران اتنا شدید تھا کہ میاں صاحب کے وزیرِ برقیات عابد شیر علی نے احکامات جاری کر دیے کہ کروڑوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی کی پاداش میں پارلیمنٹ، ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس اور وفاقی سیکریٹریٹ کی بجلی کاٹ دی جائے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ شریف حکومت نے بجلی اکٹھی کرنے کے لیے چینی و غیر چینی کمپنیوں پر دروازے کھول دیے۔ آج صورت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی سازی کی گنجائش اکتالیس ہزار میگا واٹ مگر کھپت لگ بھگ اٹھائیس ہزار میگا واٹ ہے۔ جبکہ ٹرانسمیشن لائنیں اس قابل نہیں کہ اتنا بوجھ سہار سکیں۔ اوپر سے یہ بھی شرط ہے کہ بجلی استعمال ہو نہ ہو سرکار کو نجی کمپنیوں کو غیر استعمال شدہ بجلی کے بھی پیسے دینے ہیں۔ اس جنجال سے گردشی قرضے (سرکلر ڈیبٹ) کے عفریت نے جنم لیا۔ پیٹ بھر بھی جائے تو اگلے برس کمینا پھر اتنا کا اتنا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت گردشی قرضے کا حجم پونے تین ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ گویا سرکلر ڈیبٹ وہ اژدھا ہے جس کی گرفت وقت کے ساتھ ساتھ اور کستی جاتی ہے۔
خود آئی پی پی پیز پر بھی گذشتہ برس تک بینکوں کے لگ بھگ اکتیس ارب روپے واجب الادا تھے۔ گویا ہر کسی کی گوٹ کسی اور کے ہاں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پلانٹ یا ڈیم سے میرے گھر تک جو بجلی آ رہی ہے وہ ٹرانسمیشن کے دوران ضائع بھی ہو رہی ہے۔ اسے لائن لاسز کہا جاتا ہے۔ سالِ گذشتہ اس نقصان کا تخمینہ پانچ سو بیس ارب روپے لگایا گیا۔ اس نقصان میں جدت کاری کے ذریعے کسی حد تک کمی ممکن ہے مگر پیسے چاہییں۔ مزید سنگین مسئلہ یہ ہے جو بجلی لائن لاسز کے بعد صارف تک پہنچ رہی ہے اس میں سے بھی سالانہ تین سو اسی ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ اس میں اشرافیہ، صنعت، زراعت، عام صارف، خوانچہ فروش، بڑے بڑے شب گیر جلسے۔ غرض جس کا بس چلتا ہے ہاتھ رنگ لیتا ہے۔ ان تین سو اسی ارب روپے میں سے اسی ارب روپے کی بجلی میٹرنگ وغیرہ میں ہیرا پھیری اور باقی کنڈے کے ذریعے چوری ہو رہی ہے۔پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں چوری شدہ بجلی کے پیسے بھی بل دینے والوں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں۔ گذشتہ برس تک بجلی چوری کی سب سے زیادہ شکایات مبینہ طور پر پیسکو کو موصول ہوئیں۔ صرف بنوں کے ایک گرڈ سٹیشن سے پانچ ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔
ایک پورا زیلی کاروبار کنڈا ماہرین کی شکل میں پنپ رہا ہے۔ جبکہ بجلی کا باقاعدہ عملہ بھی شریک ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر بھیڑ کالی نہیں پر ہر سفید بھیڑ بھی سفید نہیں۔ کہنے کو پاکستان دریاؤں، جھیلوں، پہاڑی چشموں کی سرزمین ہے۔ پھر بھی قومی پیداوار میں آبی بجلی کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ اٹھاون اعشاریہ اٹھ فیصد بجلی فرنس آئل، ایل این جی اور کوئلے وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئلے کی کچھ مقدار چھوڑ کے باقی ایندھن باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں روپے کی قدر میں سو فیصد سے زائد گراوٹ کے سبب درآمدی ایندھن کی لاگت دوگنی سے زائد ہو گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں جوہری کارخانوں کا حصہ آٹھ اعشاریہ چھ فیصد اور ہوا اور شمسی توانائی کا حصہ چھ اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ حکومتوں کی خواہش تو بہت ہے کہ 2030 تک قدرتی ذرائع سے کم از کم بیس فیصد تک بجلی کشید کر لی جائے مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں اب بھی بجلی کی فی کس سالانہ کھپت چھ سو چوالیس کلو واٹ ہے۔ یعنی پاکستان ان گنے چنے ممالک میں آتا ہے جہاں بجلی کی کھپت عالمی کھپت کی اوسط کا محض 18 فیصد ہے۔ پھر بھی عام آدمی کی کمر ٹوٹ رہی ہے کیونکہ سب بے اعتدالیاں بل میں شامل کر دی گئی ہیں۔ سو روپے کی بجلی ٹیکسوں سمیت کم از کم دو سو روپے کی پڑ رہی ہے۔ چنانچہ جس کی تنخواہ 25 ہزار ہے اسے جب 45 ہزار روپے کا برقی ڈیتھ وارنٹ ملتا ہے تو ٹکریں مارنے، سڑک پر سینہ کوبی یا خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ شنوائی کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر ایک نہ ایک دن حکومت ہر آدمی کو مفت بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس کا آغاز کئی برس پہلے سے بجلی کی صنعت سے وابستہ ملازموں، بیورو کریٹس، عدلیہ، وزرائے کرام، دفاعی افسران، مخصوص صنعتی و کاروباری اداروں کو مفت یا محض پیداواری لاگت پر یا سبسڈائزڈ ریٹ پر بجلی فراہم کرنے سے ہو چکا ہے۔ ایک دن ہمیں بھی یہ رعایتیں مل جائیں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے چوبیس کروڑ پچانوے لاکھ لوگ کم از کم سو برس زندہ رہیں۔ آمین۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
shiningpakistan · 3 years
Text
گدھا اس قدر بھی گدھا نہیں
ہم انسان اپنے حال و خیال میں اتنے مست ہیں کہ اردگرد کی حیاتِ دیگر نظر ہی نہیں آتی بھلے وہ کتنی ہی انسان دوست ہو۔ مثلاً انسان اور گدھے کا تمدنی ساتھ کم ازکم چھ ہزار برس پرانا ہے اور اب اسی انسان کے ہاتھوں ہمارا یہ محسن بقائی خطرے سے دوچار ہے۔ گدھوں کی فلاح و بہبود پر نگاہ رکھنے والی ایک برطانوی تنظیم ڈنکی سنگچری (خر پناہ) اس وقت ان پر مصیبت کا ایک بڑا سبب چین میں گدھے کے گوشت اور اس سے بھی بڑھ کے اس کی کھال کی مانگ بتاتی ہے۔ اس کھال کے اجزا سے ایجیا نامی جیلاٹن تیار ہوتی ہے۔ اسے چینی طب میں فشارِ خون کے جملہ مسائل اور عمومی بدنی طاقت کے لیے اکسیر گردانا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ایف اے او کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں انیس سو ستانوے کی خر شماری کے مطابق گدھوں کی تعداد لگ بھگ اڑتالیس لاکھ تھی جو دو ہزار اٹھارہ تک آٹھ لاکھ رہ گئی۔ یعنی بیس برس میں چھ گنا کمی۔ البتہ گدھوں کے گوشت اور کھال کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت سالانہ عالمی مانگ چالیس لاکھ کھالوں کی ہے جب کہ رسد تیس سے پینتیس لاکھ کھالوں کی ہے۔ اندازہ ہے کہ دنیا میں پانچ کروڑ گدھوں میں سے سوا کروڑ کے لگ بھگ چار افریقی ممالک ایتھوپیا، سوڈان، چاڈ اور برکینا فاسو میں ہیں۔ چنانچہ کھال کے متلاشی گروہوں اور گدھوں پر زرعی انحصار کرنے والی آبادی کے مابین کھینچا تانی ، زور زبردستی، چوری چکاری بھی بڑھ رہی ہے۔ غربت میں جب کسان کی فی کس آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہو اس وقت کسی مالک کو اپنا گدھا فروخت کرنے کے لیے پچاس ڈالر کے مساوی رقم کی پیش کش کی جائے اور انکار کی صورت میں چھینا جھپٹی درپیش ہو تو ہتھیار ڈالتے ہی بنتی ہے۔ گدھے کی کھال کی مانگ کے سبب بہت سے افریقی ممالک میں ان کی افزائش میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ بہت سوں میں اندھا دھند لالچ اس جانور کو نسل کشی کی جانب لے جا رہی ہے۔ مثلاً پچھلے چودہ برس کے دوران بوٹسوانا میں گدھوں کی تعداد میں سینتیس فیصد، جنوبی امریکی ملک برازیل میں اٹھائیس فیصد اور وسطی ایشیائی ریاست کرغزستان میں تریپن فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستان میں اگرچہ کبھی باقاعدہ خر شماری نہیں ہوئی مگر اندازہ ہے کہ یہاں پچاس لاکھ گدھے پائے جاتے ہیں۔ جب عالمی مانگ میں اضافہ ہوا تو پاکستان میں بھی گدھے کو اپنی کھال بچانی مشکل ہو گئی۔ دو ہزار چودہ میں گدھوں کی ایک لاکھ سے زائد کھالیں برآمد ہونے کی خبر آئی تو حکومت کے بھی کان کھڑے ہوئے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے ستمبر دو ہزار پندرہ میں گدھے کی کھال برآمد کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس اعتبار سے پاکستان پہلا ملک تھا جس نے نسل درنسل وفاداری نبھانے والے اس جانور کی جان بچانے کے لیے اہم اقدام کیا۔ تب سے اب تک سترہ ممالک پاکستان کی تقلید میں اس نوعیت کی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ یہ الگ بحث کہ ان پابندیوں پر کس قدر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ جب پی ٹی آئی کا دور شروع ہوا تب بھی یہ پابندی برقرار رہی۔ البتہ فروری دو ہزار انیس میں خیبرپختون خوا حکومت نے سی پیک کی چھتری تلے خیبرپختون خوا چائنا سسٹین ایبل ڈنکی پروگرام (اس کا اردو ترجمہ کیسے ہو) کا قابلِ عمل خاکہ پیش کیا۔ یعنی گدھوں کی ایکسپورٹ سے تین ارب ڈالر تک کمائے جا سکتے ہیں۔
اس فیزبلٹی کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان اور مانسہرہ میں گدھوں کی صحت مند ماحول میں دیکھ بھال اور افزائش کے لیے دو بڑے مراکز کے قیام کا عندیہ بھی دیا گیا اور ابتدائی طور پر ایک ارب روپے بھی مختص کیے گئے۔ ایک چینی کمپنی سے بات چیت بھی شروع ہو گئی۔ پروگرام کے تحت سالانہ اسی ہزار گدھے برآمد کرنے کا منصوبہ تھا۔ مگر جیسا کہ ہوتا ہے، چند ماہ بعد اس پروگرام پر خود بخود اوس پڑ گئی۔ سنا ہے اب دوبارہ اسے آگے بڑھانے کے لیے انگڑائی لی جا رہی ہے۔ چونکہ ہم لوگ ہمیشہ سے گدھے کو گدھا ہی سمجھتے ہیں لہٰذا ہزاروں برس سے ساتھ نبھانے کے بعد بھی ہم اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اس سے زیادہ ��ابر، قانع ، سخت جان اور غیر نخریلا جانور شاید ہی کوئی اور ہو۔ حالانکہ اس کی پشت پر ہماری تمدنی تاریخ لدی ہوئی ہے۔ مصریوں نے اسے باقاعدہ باربرداری و کاشت کاری کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ دو ہزار برس قبل شاہراہ ریشم کی تجارت چین سے یورپ تک مرہونِ خر تھی۔ 
رومن فوج نے اس سے باربرداری کے فوجی ٹرکوں جیسا کام لیا۔ تب سے پہلی عالمی جنگ تک اس جانور کا فوجی سامان کی نقل و حرکت میں کلیدی کردار رہا۔ اگر گدھوں کی ٹھیک سے دیکھ بھال کی جائے تو وہ اوسطاً پچاس برس تک زندہ رہتے ہیں۔ بظاہر سر جھکا کے خاموشی سے اپنے کام سے کام رکھنے والے جانور کی یادداشت حیرت انگیز ہے۔ وہ کسی بھی علاقے اور وہاں رہنے والے ہم نسلوں کو پچیس برس بعد بھی پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گدھا کیسی بھی مسکین طبیعت کا ہو مگر آپ اسے خوفزدہ کر کے یا زور زبردستی سے کام نہیں کروا سکتے۔ ذاتی خطرہ سونگھنے کی اس کی صلاحیت اور قوتِ سماعت حیرت ناک ہے۔ وہ صحرا میں ساٹھ میل دور سے آنے والی ڈھینچوں ڈھینچوں کی صدا بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ چونکہ غریب طبیعت ہے لہٰذا جب بھی چرنے کو وافر سبزہ میسر آ جائے تو خوب چرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گدھے کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ یہ اس لیے پیٹ بھرتا ہے تاکہ کھائی ہوئی پچانوے فیصد غذا اس کے معدے میں زخیرہ رہ کر اسے مسلسل بنجر جگہ پر بھی توانائی فراہم کرتی رہے۔
دیگر جانوروں کے برعکس گدھا موسمِ گرما میں زیادہ خوش رہتا ہے۔ اسے نہ پالا پسند ہے نہ ہی بارش۔ مٹی بہت پسند ہے جس میں لوٹنیاں لگائی جا سکیں۔ گدھا تنہائی پسند نہیں بلکہ دیگر گدھوں کی سنگت میں زیادہ خوش رہتا ہے۔ البتہ تنہا ہو تو اس کی بکریوں کے ساتھ اچھی نبھتی ہے۔ پسماندہ ممالک کے سڑک اور جدت سے کٹے علاقوں میں انسان باربرداری اور سواری کے لیے جس جانور پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتا ہے وہ آج بھی گدھا ہی ہے۔ گھوڑے اور خچر کے نخرے برداشت کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں۔غریب کے لیے تو گدھا اور گدھے کے لیے غریب بہت ہے۔ دونوں کی زندگی میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔ ان میں ہر حال میں صبر و شکر سب سے نمایاں ہے۔ ایسے وفادار کو محض قوت بڑھانے والی جیلاٹن بنا دینا ناشکری کی آخری منزل ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduclassic · 3 years
Text
یقیں محکم، عمل پیہم، جہالت فاتحِ عالم
جب مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی ساڑھے تین سے چار کروڑ نفوس پر مشتمل تھی تو اوسط درجے کی شاعری یا نثری کتاب کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا تھا۔ جب آبادی آٹھ کروڑ ہو گئی تو پہلا کتابی ایڈیشن بھی پانچ ہزار سے گھٹ کر ایک ہزار نسخوں تک آن پہنچا۔ آج پاکستان کی آبادی 22 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ چنانچہ 99 فیصد ادبی کتابوں کا پہلا ایڈیشن اوسطاً پانچ سو تک گر چکا ہے اور بہت سے پبلشر تو ڈھائی سو کا ایڈیشن بھی شائع کرنے پر راضی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے کراچی کے معروف شاعر صابر ظفر، صدر کے علاقے میں اچانک مل گئے۔ چھوٹتے ہی بولے یار تمہیں دیکھ کر خوشی اس لیے بھی ہو رہی ہے کہ اب ایسا شخص بھی آسانی سے نہیں ملتا جسے بندہ کم ازکم اپنی نئی کتاب ہی پڑھنے کے لیے دے سکے۔ آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں۔ کتاب بھی دوں گا۔
عام طور پر ہم ناخواندگی اور جہالت کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ناخواندہ وہ شخص ہے جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور وہ ذرا سی کوشش سے پڑھنا لکھنا سیکھ سکتا ہے۔ ناخواندہ کبھی بھی اپنی ناخواندگی کا دلیلی دفاع نہیں کرتا بلکہ اکثر سیدھے سیدھے اعتراف کر لیتا ہے کہ فلاں فلاں مجبوری یا والدین کی غفلت کے سبب وہ سکول یا مدرسے میں نہ جا سکا مگر خواہش زندہ ہے۔ جبکہ جہالت کا خیمہ نیم خواندگی کی زمین پر کج بحثی کے بانس اور ہٹ دھرمی کی طنابوں کے بغیر لگانا ممکن نہیں۔ ناخواندہ کی آواز احساسِ کمی کے سبب دھیمی ہو سکتی ہے مگر جہالت کی بلند آہنگی کا مقابلہ فی زمانہ صاحبانِ علم کی معنی خیز خاموشی بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لیے اگر ہم اپنے ارد گرد بغور اور مسلسل دیکھیں تب کہیں یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اہلِ علم تو اپنا دامن بازارو دانش کے چھینٹوں سے بچاتے ہوئے اکثر گوشہِ عافیت میں نظر آتے ہیں اور جہالت اور وہ بھی دو نمبر جہالت گلی گلی سینہ پھلائے پھرتی ہے۔
مادی کسوٹی پر ناپئے تو علم خسارے کا سودا اور جہالت منافع بخش ہے۔ اعلیٰ ترین سے ادنیٰ ترین شعبہ پھٹک لیں۔ جہالت کی بہار نظر آئے گی۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے۔ مگر انجامِ گلستاں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب ریڈیو، ٹی وی چینل یا اخبار میں کام کرنے کے لیے قابلیت یا پیشہ ورانہ صلاحیت کا کم ازکم معیار مقرر تھا اور اس معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود ان شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے والے کے بارے میں سب جانتے تھے کہ یہ کونسی سیڑھی استعمال کر کے آیا ہے۔ خود اس بے چارے کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ اب وہ آ ہی گیا ہے تو آس پاس والوں سے شرما شرمی تھوڑا بہت سیکھ لے۔ پھر انقلاب آ گیا۔ آج نیوز ڈیسک، سکرین یا سٹوڈیو میں جس عالمانہ یا اینکرانہ مخلوق کا بول بالا ہے۔ ان میں اکثر تو جہالت کی مروجہ تعریف پر بھی پورے نہیں اترتے۔
مقابلہ اس قدر سخت اور گلا کاٹ ہے کہ سادہ پڑھا لکھا تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ چنانچہ میڈیا میں جانے کے خواہش مند نئے لڑکے لڑکیوں سے میری درخواست ہے کہ اگر آپ کسی سیاسی، مزاحیہ یا مذہبی پروگرام کے اینکر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو آپ کو جان توڑ محنت کرنا ہو گی۔ بھول جائیں کہ آپ کے اساتذہ نے آپ کو کیا سکھایا یا آپ نے کونسی کتابوں اور ادب کا گہرا مطالعہ کیا۔ یہ سب اب نہیں چلتا۔ آپ کو اس انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے خود کو پہلے ڈی ایجوکیٹ اور پھر ری ایجوکیٹ کرنا ہو گا۔ کیا آپ بظاہر قبول صورت ہیں؟ چیخ چیخ کے کچھ بھی بول سکتے ہیں؟ خود کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے مسلسل مطالعے کی علت میں تو مبتلا نہیں؟ کیا آپ انگریزی، اردو، سندھی، پشتو، بلوچی، پنجابی، سرائیکی سمیت کوئی بھی زبان درستی کے ساتھ لکھنے اور بولنے کے عارضے کا تو شکار نہیں؟
کیا آپ کسی سنجیدہ موضوع کو سستے فقروں کی مدد سے دلچسپ اور عجیب بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ دو مرغے کیسے لڑوائے جاتے ہیں کے فن سے واجبی طور سے واقف ہیں؟ کیا آپ وقت پڑنے پر کم از کم ناگن ڈانس یا بندر کی نقالی کر سکتے ہیں؟ کیا آپ چھت پھاڑ ریٹنگ کے لیے جانوروں اور پرندوں کی آوازیں نکال سکتے ہیں؟ خدانخواستہ آپ وزن میں شعر پڑھنے کے روگی تو نہیں؟ کیا آپ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے بجائے تہذیبی عاجزی کا پتلا تو نہیں سمجھتے؟ اگر آپ مندرجہ بالا معیارات میں سے کم ازکم پچاس فیصد پر پورا اترتے ہیں تب تو آپ کو سکرین پر آ کر مشہور ہونے کا خواب دیکھنے کا حق ہے۔ ورنہ بھول جائیں اور خون کے گھونٹ پیتے رہنے کے بجائے کسی اور شعبے میں قسمت آزمائیں۔ یہ ہے وہ ثمر جو ہم نے 74 برس کے سفر میں بہت لگن اور محنت سے حاصل کیا ہے۔ اگر یہ بھی نہ رہا تو پھر کیا رہے گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی نیوز
4 notes · View notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
کیسوں کیسوں سے پالا پڑا ہے
اب جب کہ بارشوں کا زور ٹوٹ چکا ہے اور دریاؤں کا شکم بھی بھر گیا ہے۔ تباہی کی گہرائی صاف دکھائی دینے لگی ہے۔ مجموعی طور پر چھ ہزار چھ سو پچھتر کلومیٹر سڑکیں اور دو سو ستر پل بہہ گئے ہیں۔ صوبہ وار تصویر دیکھی جائے تو بلوچستان میں بیسیوں چھوٹے چھوٹے ڈیم ، اٹھارہ پل اور پندرہ سو کلومیٹر راستے آسمانی و پہاڑی پانی کی نذر ہو چکے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں پندرہ سو پچھتر کلومیٹر سڑک اور ایک سو سات پل بہہ گئے۔ سندھ میں دو ہزار سات سو کلومیٹر سڑک اور تریسٹھ پل ختم ہو گئے۔ جب کہ جنوبی پنجاب میں نو سو کلومیٹر سڑک اور سولہ پلوں کو نقصان پہنچا۔ اس سیلاب سے اسکول کی اٹھارہ ہزار عمارات کو کلی یا جزوی نقصان پہنچاجب کہ ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ صحت مراکز بھی جزوی یا کلی تباہ ہو گئے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں جان و مال و ارب ہا روپے کے معاشی نقصانات کے کسی پہلو پر بات کرنے کے بجائے پل ، سڑک ، اسکول ، ڈسپنسری وغیرہ پر کیوں اتر آیا ہوں۔ ذرا غور فرمائیے۔ بڑے چھوٹے ڈیم ، سڑک ، پل ، اسکول اور مراکز صحت وغیرہ کی نوے فیصد تعمیر سرکاری سیکٹر کرتا ہے۔
گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کے دو ہزار پانچ کے زلزلے، دو ہزار دس اور گیارہ کے سیلاب اور دو ہزار بائیس میں جاری آبی قیامت کے نتیجے میں منہدم ہونے والا اسی فیصد تعمیراتی ڈھانچہ سرکار نے تعمیر کیا تھا۔ انگریز دور کی تعمیرات آج بھی کسی حد تک کارآمد، سلامت یا جزوی طور پر مفید ہیں۔ مگر آزادی کے بعد مفادِ عامہ کے نام پر ہونے والی تعمیرات کا معیار بتدریج اتنا گرتا چلا گیا کہ اب تعمیرات کی معمولی شد بد رکھنے والا شخص بھی چھوئے بغیر بتا سکتا ہے کہ یہ اسٹرکچر کتنی مدت تک برقرار رہے گا۔ پہلے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں اسٹرکچر دو یا تین عشرے نکال لے گا۔ اب بات عشروں سے گذر کے برسوں سے ہوتی مہینوں اور دنوں تک پہنچ گئی ہے۔ بلکہ بعض تعمیراتی منصوبے تو افتتاح کے ایک ہفتے بعد ہی اپنی اصلی اوقات دکھا دیتے ہیں۔ یہ گورکھ دھندہ کیا ہے۔ وہ کون لال بھجکڑ ہیں جو ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں، وہ کون سے ٹھیکیدار ہیں جو ان منصوبوں کو مکمل کرتے ہیں، وہ کون سے انجینئر ہیں جو ان منصوبوں کی پائیداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں اور وہ کون سے محکمے ہیں جو اس منصوبے کا بجٹ بے باق کر کے اگلے برس اسی منصوبے کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے مختص رقم بانٹنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
میں سوشل میڈیا پر بلوچستان کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کی بات چیت دیکھ رہا تھا۔ انھوں نے سرکاری منصوبوں کے ٹھیکوں کی سائنس پر جو روشنی ڈالی اس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ کہانی محض ایک صوبے کی نہیں ہے۔ ٹھیکیدار پر آخر میں ہر کوئی ملبہ ڈال کے بری الزمہ ہو جاتا ہے مگر ٹینڈر جاری ہونے سے پروجیکٹ کی تکمیل تک ایک لمبی زنجیر ہے جس کے آخری سرے پر پروجیکٹ ہوتا ہے۔ زنجیر کے ایک سرے پر متعلقہ وزیر ، سیکریٹری ، منتخب نمایندہ ، ایگزیکٹو انجینئر ، دفتری عملہ اور دوسرے سرے پر ٹھیکیدار ہے۔ سب کہنے کی باتیں ہیں۔عملاً کوئی ڈویلپمنٹ پالیسی نہیں ہوتی۔ اوپر سے نیچے تک سب کا ایک ہی ایجنڈہ ہے۔ دبا کے ٹینڈرنگ کرو تاکہ چار پیسے بنیں۔ پروجیکٹ کی فنانشنل فیزنگ کا بھی کوئی تصور نہیں کہ کل لاگت کتنی مدت پر تقسیم ہو گی تاکہ پروجیکٹ بروقت مکمل ہو سکے۔ نہ ہی پروجیکٹ کے زیرِ تعمیر یا تکمیلی مرحلے کی نگرانی کرنے کے لیے ٹکنیکل کمیٹی ہوتی ہے۔ اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا کاغذ پر وجود ہوتا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت یا خام مال کی قیمت بڑھ جائے تو عموماً اس کی بھرپائی بھی ٹھیکیدار کی جیب سے ہوتی ہے، اور پھر وہ اس کا ازالہ مزید ناقص میٹریل لگا کے کرتا ہے۔
جب کسی بھی پروجیکٹ کا پی سی ون منظور ہوتا ہے اور پیسے ریلیز ہوتے ہیں تو چودہ فیصد وزیر کا ، دس فیصد ٹینڈر کی منظوری دینے والے افسر کا ، چھ سے سات فیصد ذیلی عملے کا، سات فیصد انکم ٹیکس اور بیس فیصد ٹھیکیدار کے منافع کی مد میں چلے جاتے ہیں۔ یعنی سو میں سے انچاس پچاس روپے وہیں بٹ بٹا جاتے ہیں۔ اب پچاس روپے میں سو روپے مالیت کا جو منصوبہ تعمیر ہو گا اس کی پائیداری کا معیار کیا ہو گا۔ مگر کوئی کسی کا احتساب نہیں کر سکتا۔ کیونکہ سسٹم ہی ایسا بنا ہوا ہے۔ چور کیسے دوسرے چور کو پکڑے گا۔ ہر نیا وزیرِ اعلیٰ پچھلے وزیرِ اعلیٰ کے زیرِ تعمیر منصوبوں کو مکمل کرنے سے زیادہ دلچسپی نئے منصوبوں کا فیتہ کاٹنے میں لیتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر کوئی باہر کا شخص سو روپے کے منصوبے کو ساٹھ سے ستر روپے میں مکمل کرنے اور سرکاری رقم بچانے کا کوئی منصوبہ لائے تو اس کی حوصلہ افزائی کم اور حوصلہ شکنی زیادہ ہوتی ہے۔ منطق یہی کہتی ہے کہ جتنا مہنگا منصوبہ ہو گا اتنا ہی حصہ بڑا ہو گا۔جتنے کم بجٹ کا منصوبہ ہو گا اتنا ہی منافع بھی گھٹ جائے گا۔
منصوبے میں پائیداری کے بجائے نمائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ برسوں تک قائم رہنے والی سڑک، اسکول ، ڈیم ، صحت مرکز کی عمارت کوئی پسند نہیں کرتا۔ بس اتنی زندگی ہو کہ ایک دو سیزن گذار سکے، تاکہ پھر نئے ترقیاتی بجٹ سے اس کی دوبارہ تعمیر ہو سکے اور سب کی انگلیاں ایک بار پھر گھی میں ہوں۔ ممکن ہے کہ آپ اور میں قدرتی آفات سے ڈرتے ہوں اور ان کے ٹلنے کی دعا مانگتے ہوں، مگر تعمیراتی مافیا کے لیے ہر قدرتی آفت کمائی کا ایک نیا موقع ہے۔ یعنی جو گرے گا وہ پھر بنے گا۔ اور ہم ہی تو بنائیں گے۔ زلزلہ اور سیلاب تعمیرات میں چھپی کرپشن اپنی چادر میں چھپا لیتا ہے، اور پھر سب دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے چہروں پر افسردگی طاری کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ بس جی یہ تو آزمائش ہے، ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ اوپر والا ہی ہم پر رحم کرے گا۔ پھر نئی ٹینڈر بازی شروع ہو جاتی ہے۔ خدا بھی حیران ہوتا ہو گا کہ کیسے کیسے ح…سے پالا پڑا ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
pakistan-news · 2 years
Text
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
قدرتی آفات کے اثرات کو مختلف تدبیروں سے ہلکا تو کیا جا سکتا ہے مگر یکسر ٹالا نہیں جا سکتا۔ مگر بہت سی آفات محسوس تو قدرتی ہوتی ہیں لیکن ان کے پیچھے کسی نہ کسی عقلِ کل حکمران کی کارستانی ہوتی ہے جو فطرت کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے اس کا بازو مروڑ کے فطرت کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس جینیس حکمران کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ لاکھوں انسان اس کے اچھوتے ادھ بدھ تجربات کی بھینٹ ضرور چڑھ جاتے ہیں۔ سرِ دست مجھے اس تباہ کن افلاطونیت کے تعلق سے جو مثال فوری طور پر یاد آ رہی ہے وہ انیس سو تیس کے عشرے کے اسٹالنی سوویت یونین کی ہے جب نجی کھیتوں کو اجتماعی فارموں اور کوآپریٹوز کا حصہ بنانے کی بھرپور جبری کوشش ہوئی اور کسانوں نے اس کی جان توڑ مزاحمت کی۔ اپنے ہی ہاتھوں فصلوں کو آگ لگا دی یا عالمِ طیش میں لاکھوں پالتو جانور مار ڈالے۔ اس کسان مزاحمت کا سب سے زیادہ زور سوویت یونین کا غلہ گودام کہلائی جانے والی ریاست یوکرین میں تھا۔ کسانوں سے نہ صرف زمین چھین کر انھیں اجتماعی کھیتی باڑی کے نوکرشاہ نظام کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا۔ بلکہ مزاحمت کرنے والے ہزاروں کسان خاندانوں کو بطور سزا سائبیریا اور وسطی ایشیا کے بیابانوں میں منتقل کیا گیا۔
اس اتھل پتھل کے سبب یوکرین جیسی سونا اگلتی سرزمین میں قحط سالی نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ گیہوں کا گودام کہلانے والی ریاست بربادی کے کگار پر پہنچ گئی تو دیگر سوویت ریاستوں میں بھی غلے کی شدید قلت نے اپنا رنگ دکھایا۔مگر اسٹالن نے پرواہ نہیں کی اور اجتماعی کھیتی باڑی کے نظام کو مکمل کر کے دکھایا ( بیس برس بعد چین میں بھی یہی اسٹالنی تجربہ دہرایا گیا۔ لاکھوں جانیں گئیں مگر خبریں بھی انسانوں کے ساتھ دبا دی گئیں ۔) اس سختی، راج ہٹ اور انسانی قربانی کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کھیتی باڑی کے نئے نظام کے تحت سوویت یونین غلے کی پیداوار میں خودکفیل ہو جاتا۔ مگر ایسا ہونا تو درکنار الٹا سوویت یونین کو بیرونی غلے کی ضرورت پڑ گئی۔ انیس سو اسی کے عشرے میں جب سرد جنگ عروج پر تھی۔ سوویت یونین اپنے سب سے بڑے نظریاتی دشمن امریکا سے سالانہ پچاس لاکھ ٹن گندم خریدتا رہا۔ غلے کی عالمی پیداوار میں سوویت یونین کا حصہ محض ایک فیصد تھا۔
البتہ جب سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد نجی شعبہ رفتہ رفتہ بحال ہوا تو کسانوں نے بھی گندم کو بطور نقد آور فصل دلجمعی سے اگانا شروع کر دیا۔ آج صورت یہ ہے کہ سوویت یونین کی جانشین ریاست یعنی روس گندم کی عالمی پیداوار میں اٹھارہ فیصد کی حصہ دار ہے جب کہ دوسری جانشین ریاست یوکرین کا گندم کی عالمی پیداوار میں حصہ سات سے آٹھ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں ممالک گندم کی ایک چوتھائی عالمی پیداوار کی فراہمی کے ضامن ہیں اور دنیا کے لگ بھگ اسی ممالک کا دارو مدار اسی روسی یوکرینی گندم پر ہے، جب کہ مصنوعی کھاد یعنی فاسفیٹ کی ایک چوتھائی پیداوار بھی روس اور بیلا روس سے عالمی منڈی میں پہنچتی ہے۔ اور اس وقت روس یوکرین لڑائی کے سبب گندم اور فاسفیٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ سری لنکا کا شمار بھی انھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جو گندم اور مصنوعی کھاد کے معاملے میں مذکورہ تین ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ مگر گزشتہ برس مئی تک بھلے چنگے سری لنکا کو بھی قحط سالی کی کگار تک صرف ایک ذہین شخص یعنی صدر گوٹا بائیا راجہ پکسا کے اس خواب نے پہنچا دیا کہ سری لنکا دنیا کا پہلا ملک ہو گا جو مصنوعی کھاد استعمال کیے بغیر خوراک میں خودکفیل ہو کر ایک عالمی مثال بنے گا۔
جس وقت صدر گوٹا بائیا نے یہ خواب دیکھا تب تک سری لنکا اپنے دو کروڑ شہریوں کی بنیادی خوراک یعنی چاول کی پیداوار میں تقریباً خود کفیل تھا۔ مگر راجہ تو راجہ ہوتا ہے اور راج ہٹ بھلا کون ٹال سکتا ہے۔ راتوں رات قدرتی کھاد کا متبادل انتظام کیے بغیر مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کی رسد معطل کر کے کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ نیت یہ تھی کہ مصنوعی کھاد کے زہریلے اثرات سے زمین کو پاک کر کے شدھ صحت مند خوراک اگائی جائے جیسا کہ باپ داد کے زمانے کا دستور تھا۔ ملک کے بیس لاکھ کسان جو برسوں عشروں سے رعایتی مصنوعی کھاد کے عادی بنا دیے گئے تھے ان کی سمجھ سے بالا تھا کہ اچانک حکومت کو کیا جنون سوار ہو گیا اور ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر دیا گیا۔ اب اتنی بڑی مقدار میں قدرتی کھاد اور زمین کی زرخیزی بڑھانے والے دیگر قدرتی اجزا اور کیمیکل سے پاک کیڑے مار نسخے کہاں سے حاصل کیے جائیں کیونکہ ان کی درآمد کا تو پیشگی بندوبست ہی نہیں کیا گیا تھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی سیزن میں فصلوں کی پیداوار میں چالیس سے ستر فیصد تک کی کمی ہو گئی۔ سری لنکا بیٹھے بٹھائے ایک خودکفیل زرعی ملک سے منگتے فقیر میں تبدیل ہو گیا۔ پہلی بار بیرونِ ملک سے تین لاکھ میٹرک ٹن چاول خریدنا پڑا۔جب کہ اس سے پچھلے برس بیرون ملک سے صرف چودہ ہزار میٹرک ٹن چاول خریدا گیا تھا۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تب کہیں جا کے گزشتہ ماہ صدر گوٹا بائیا راجہ پکسے جن کا اپنا تعلق بھی زرعی خاندان سے ہے نے اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ اتنی عجلت میں اتنا اہم زرعی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور حکومت اس کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ مگر تب تک زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے تھے۔ یوکرین روس تنازعے کے نتیجے میں مصنوعی کھاد کی قیمتیں دگنی ہو چکی تھیں۔ سرکار نے عالمِ گھبراہٹ میں مصنوعی کھاد خریدنے کے لیے عالمی بینک سے نیا قرضہ لیا۔ لیکن قرضہ آتے آتے بھی وقت تو لگتا ہے۔
اس دوران عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ جنھیں پہلے ہی نہ دوا میسر تھی نہ خوراک اور نہ ڈیزل اور پٹرول۔ پھر یوں ہوا کہ صدر کے سگے بھائی مہندا راجہ پکسے کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے مجبوراً مستعفی ہو کر بحریہ کے ایک اڈے میں خاندان سمیت پناہ لینا پڑی۔ ان کی جگہ رانیل وکرما سنگھے کو حکومت بنانا پڑی۔ رانیل صاحب نے آتے ہی بنا کسی لاگ لپٹ عوام کو حقیقت بتا دی کہ موجودہ زرعی سیزن کے لیے مصنوعی کھاد حکومت فراہم نہیں کر سکتی۔ البتہ اگلے سیزن کے لیے ضرور کھاد اور زرعی ادویات کی رسد یقینی بنائی جائے گی۔ اگلے چند ماہ بہت تکلیف کے ہیں مگر برداشت تو کرنا ہو گا۔ اس وقت سری لنکا میں بنیادی خوراک تین ماہ پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد مہنگی ہو چکی ہے۔ پٹرول خریدنے کی سکت نہیں تو سیاحت کا شعبہ بھی ٹھپ پڑا ہے۔ امریکی زرایع اور اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ اگلے برس جن دو ممالک کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ افغانستان اور سری لنکا ہوں گے۔ خدا دونوں ممالک کے حال پر رحم کرے اور دیگر ممالک کو ان دونوں کے حال سے سبق سیکھنے کے لیے عقلِ سلیم نہ سہی کامن سنس ضرور عطا کرے۔ (آمین۔)
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes