Tumgik
urduclassic · 4 months
Text
آخری چند دن دسمبر کے
Tumblr media
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی ڈائری، دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا
امجد اسلام امجد   
1 note · View note
urduclassic · 4 months
Text
وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا
Tumblr media
وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا
بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا
چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا
تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کر کے نئے وطن کو وطن کہیں گے، یہ طے ہوا تھا
خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا
بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا
کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا
تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا
حنیف اسعدی
0 notes
urduclassic · 4 months
Text
دُکھ میں نِیر بہا دیتے تھے سُکھ میں ہنسنے لگتے تھے
Tumblr media
دُکھ میں نِیر بہا دیتے تھے سُکھ میں ہنسنے لگتے تھے سیدھے سادے لوگ تھے لیکن ، کِتنے اَچھے لگتے تھے
نفرت چَڑھتی آندھی جیسی ، پیار اُبلتے چَشموں سا بَیری ہوں یا سَنگی ساتھی ، سارے اپنے لگتے تھے
بہتے پانی دُکھ سُکھ بانٹیں ، پیڑ بڑے بُوڑھوں جیسے بچّوں کی آہٹ سُنتے ہی ، کھیت لہکنے لگتے تھے
ندیا ، پَربت ، چاند ، نگاہیں، مالا ایک کئی دانے چھوٹے چھوٹے سے آنگن بھی، کوسوں پھیلے لگتے تھے
ندا فاضلی 
2 notes · View notes
urduclassic · 5 months
Text
کتب بینی کے شوقین افراد مفت کتابیں کیسے پڑھ سکتے ہیں؟
Tumblr media
ڈیجیٹل دور میں جہاں زندگی کے معمولات میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں وہاں روایتی کتابوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ تاہم یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ کتب بینی کے عادی افراد تاحال روایتی کتابیں پڑھنے کی اپنی عادت سے مجبور ہیں اور وہ اپنے اس شوق کی تسکین کے لیے جب تک کتاب کا مطالعہ نہ کریں تو ذہنی سکون حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے افراد کتب بینی کے حوالے سے ایک قسم کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دورحاضر میں جب کوئی کتب بینی کا شوقین اپنے مطالعہ کی عادت سے مجبور ہو کر چند پسندیدہ کتب خریدنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ ان کی قیمت دیکھ کر کچھ دیر تو ضرور پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ ان قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے اور ایک کتاب 13.95 سے 18 ڈالر تک دستیاب ہے، اس حساب سے اگر چند اضافی کتب خریدی جائیں تو بل باآسانی 100 ڈالر کا تو بن ہی جاتا ہے۔ سعودی میگزین الرجل نے مطالعے کے شوقین افراد کے لیے چند ایسے طریقے بتائے ہیں جنہیں برائے کار لا کر وہ اضافی رقم خرچ کیے بغیر مفت میں اپنی من پسند کتابیں حاصل کرسکیں گے۔ 
1 ۔ لائبریری جائیں ہر ملک میں ہزاروں عوامی کتب خانے موجود ہوتے ہیں جہاں انواع و اقسام کی کتابیں خواہ وہ روایتی ہوں یا ڈیجیٹل کاپی کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ بھی یقینی امر ہے کہ کسی نہ کسی لائبریری میں آپ کی من پسند کتابیں بھی ضرور موجود ہوں گی۔ اب آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ اس لائبریری کے رُکن بن جائیں اور وہاں سے اپنی من پسند کتابیں یا سیریز حاصل کریں اور انہیں پڑھنے کے بعد مقررہ وقت پر واپس کر دیں۔ اس طرح آپ کو کتابیں خریدنے کے لیے اضافی رقم خرچ نہیں کرنا پڑے گی۔ 
Tumblr media
2 ۔ کتب خانوں کی ایپلکیشنز آپ اگر کسی لائبریری میں جانے کے خواہاں نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، سمارٹ ایپس نے یہ مسئلہ بھی تقریباً حل کر ہی دیا ہے جس کے ذریعے آپ آسانی سے کسی بھی کتب خانے میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ کتب خانے کے ہوم پیچ پر اپنا اکاؤنٹ بنائیں جس کے بعد آپ کوئی رقم ادا کیے بغیر کسی وقت بھی اپنی من پسند کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ 
3 ۔ مفت ڈیجیٹل کتابیں   روایتی کتاب کی طرح ڈیجیٹل کتب کو اگر آپ اپنے ہاتھوں میں نہیں تھام سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ باقاعدہ کتاب نہیں ہے، ویب سائٹ ’بک بوب‘ آپ کو یہ سہولت بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کتاب کا آپ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اس کا عنوان درج کریں اور ویب سائٹ چند لمحوں میں تمام معلومات فراہم کر دے گی کہ مذکورہ کتاب کس لائبریری میں دستیاب ہے، اور اسے مفت میں کیسے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ 
4 ۔ بک ٹریڈنگ سائٹس کے رُکن بنیں انٹرنیٹ پر اب شیئرنگ کی سہولت بھی دستیاب ہے جس سے آپ دیگر قارئین کے ساتھ کتابیں شیئر کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد ویب سائٹس موجود ہیں جن میں ’بک موچ‘ ’پیپربیک سواپ‘ وغیرہ شامل ہیں جن پر آپ اپنی کتاب دوسرے قارئین کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ شیئرنگ کے لیے جب آپ کسی کو میل کرتے ہیں تو آپ کو اس کے پوائنٹس بھی ملتے ہیں۔ 
5۔ ریٹنگ کرنا کسی بھی کتاب کے بارے میں رائے دینا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آپ اگر رائے دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آپ کے مطالعہ اور حاصل مطالعے کا جائزہ لینے کے بعد کتاب کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں تو ’نیٹ گیلی‘ جیسی ویب سائٹس کی جانب سے کتاب کی درجہ بندی کرنے یعنی اس کے بارے میں رائے دینے والوں کو پیشگی کاپیاں ارسال کی جاتی ہیں۔ آپ اگر سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں اور آپ کے فالوورز کی تعداد بھی زیادہ ہے اور کتابوں پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں تو اس صورت میں کوئی بھی پبلشر آپ کو نئی کتابوں کی کاپیاں ارسال کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لے گا۔ 
6۔ چھوٹی اور مفت لائبریری تلاش کریں جب بھی آپ اپنے علاقے کی سیر کریں تو کوشش کریں کہ وہاں چھوٹی لائبریری تلاش کریں جہاں آپ کو متعدد کتابیں مفت میں پڑھنے کے لیے مل جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی پڑھی ہوئی کسی کتاب کے بدلے میں دوسری کتاب حاصل کرسکیں۔ 
7 ۔ سوشل میڈیا آپ اگر سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور کتب بینی کے شوقین بھی ہیں تو اس صورت میں آپ یقینی طور پر پبلشرز کے ایڈریسز سے بھی واقف ہوں گے۔ عام طور پر پبلشرز ایسے افراد کو جو کتب بینی کا شغف رکھتے ہیں انہیں مفت میں نئی کتابیں تحفے کے طور پر بھی ارسال کرتے ہیں تو کچھ یوں بھی آپ بنا کچھ خرچ کیے اپنے مطالعے کا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ 
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
urduclassic · 6 months
Text
اگر کبھی میری یاد آئے
Tumblr media
اگر کبھی میری یاد آئے تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا اگر وہ نخلِ فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا، میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اس جزیرے پہ بھی اترنا   امجد اسلام امجدؔ  
3 notes · View notes
urduclassic · 6 months
Text
صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤگے لوگو
Tumblr media
صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤگے لوگو وہ عالمِ وحشت ہے کہ مر جاؤگے لوگو
یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤگے لوگو میری ہی طرح تم بھی بِکھرجاؤگے لوگو
وہ موجِ صبا بھی ہو تو ہشیار ہی رہنا سُوکھے ہُوئے پتّے ہو بِکھر جاؤگے لوگو
اِس خاک پہ موسم تو گُزرتے ہی رہے ہیں موسم ہی تو ہو تم بھی گزر جاؤگے لوگو
اُجڑے ہیں کئی شہر، تو یہ شہر بَسا ہے یہ شہر بھی چھوڑا تو کدھر جاؤگے لوگو
حالات نے چہروں پہ بہت ظلم کئے ہیں آئینہ اگر دیکھا تو ڈر جاؤگے لوگو
اِس پر نہ قدم رکھنا کہ یہ راہِ وفا ہے سرشار نہیں ہو، کہ گزر جاؤ گے لوگو
سرشار صدیقی
2 notes · View notes
urduclassic · 6 months
Text
خلشِ ہجرِ دائمی نہ گئی تیرے رُخ سے یہ بے رُخی نہ گئی
Tumblr media
خلشِ ہجرِ دائمی نہ گئی تیرے رُخ سے یہ بے رُخی نہ گئی
پُوچھتے ہیں ، کہ کیا ہُوا دِل کو حُسن والوں کی سادگی نہ گئی
سر سے سودا گیا محبت کا دل سے پر اس کی بے کلی نہ گئی
اور سب کی حکائتیں کہہ دیں بات اپنی کبھی کہی نہ گئی
ہم بھی گھر سے مُنیرؔ ـــــ تب نکلے بات اپنوں کی جب ، سہی نہ گئی
مُنیرؔ نیازی  
0 notes
urduclassic · 6 months
Text
سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں
Tumblr media
سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں میں جنم جنم سے اسی کا ہوں اسے آج تک یہ پتا نہیں
اسے پاک نظروں سے چومنا بھی عبادتوں میں شمار ہے کوئی پھول لاکھ قریب ہو کبھی میں نے اس کو چھوا نہیں
یہ خدا کی دین عجیب ہے کہ اسی کا نام نصیب ہے جسے تو نے چاہا وہ مل گیا جسے میں نے چاہا ملا نہیں
اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتا نہیں
بشیر بدر
0 notes
urduclassic · 6 months
Text
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
Tumblr media
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں کیا اِن سے بھی منہ پھیرو گے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی
اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھلا دروازے کو کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی
نہیں صرف "قتیل" کی بات یہاں، کہیں ساحر ہے کہیں عالی ہے تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی۔
قتیل شفائی 
4 notes · View notes
urduclassic · 6 months
Text
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
Tumblr media
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو کوئی آسان ہے کیا؟ سرمد و منصور ہو جانا
قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
نظر سے دور رہ کر بھی تقؔی وہ پاس ہیں میرے کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہو جانا
مفتی تقی عثمانی
3 notes · View notes
urduclassic · 6 months
Text
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
Tumblr media
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
منیر نیازی
0 notes
urduclassic · 7 months
Text
دُنیا میں قتیلؔ اُس سا منافق نہِیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہِیں کرتا
Tumblr media
وُہ شخص کہ مَیں جس سے مُحبّت نہِیں کرتا ہنستا ہے مجھے دیکھ کے ، نفرت نہِیں کرتا
پکڑا ہی گیا ہُوں تو مجھے دار پہ کھینچو سچا ہُوں، مگر اپنی وکالت نہِیں کرتا
کیوں بخش دیا مجھ سے گنہگار کو مولا منصف تو کسی سے بھی رعایت نہِیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں چوروں کو مگر کوئی، ملامت نہِیں کرتا
کِس قوم کے دِل میں نہِیں جذباتِ براہیم کِس ملک پہ نمرود حکومت نہِیں کرتا
دیتے ہیں اُجالے مِرے سجدوں کی گواہی مَیں چُھپ کے اندھیرے میں عبادت نہِیں کرتا
بُھولا نہیں مَیں آج بھی آدابِ جوانی مَیں آج بھی اوروں کو نصیحت نہِیں کرتا
اِنسان یہ سمجھیں کہ یہاں دفن خدا ہے مَیں ایسے مزاروں کی، زیارت نہِیں کرتا
دُنیا میں قتیلؔ اُس سا منافق نہِیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے ـــــ بغاوت نہِیں کرتا
قتیلؔ شفائی  
3 notes · View notes
urduclassic · 7 months
Text
اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
Tumblr media
اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں اے رات ہوشیار کہ،،،،،، ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام،،،،،، یہی کَشمکش ہے اب اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر پھیر کے،،،،، باتیں نہ کیجیئے لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت دُنیا تیرے مزاج کا،،، بَندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ،، چلتے چلے گئے گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں
امجد اسلام امجد
6 notes · View notes
urduclassic · 7 months
Text
مرحلے شوق کے، دشوار ہوا کرتے ہیں
Tumblr media
مرحلے شوق کے، دشوار ہوا کرتے ہیں سائے بھی راہ کی دیوار ہوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں وہ عدالت میں گنہگار ہوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں ان کے سینے میں بھی شہکار ہوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو کچھ سوالی بڑے خودار ہوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رلا دیتی ہے وہ ستاروں کے عزادار ہوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دشمن کسے سمجھیں محسن دشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں
شاعر محسن نقوی
2 notes · View notes
urduclassic · 7 months
Text
چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا
Tumblr media
چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
خمار مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا دم سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی 
0 notes
urduclassic · 7 months
Text
ذکر نبیﷺ جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ
Tumblr media
رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ ذکر نبیﷺ جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ
لیتے ہی اُنﷺ کا نام مقدر سنور گیا پہنچے ہیں پھر کہاں سے کہاں ہم فقیر لوگ
ہر سانس میں ہے لفظِ مدینہ بسا ہوا رکھتے ہیں یہ اثاثہ جاں ہم فقیر لوگ
گوشہ نشینی و دمِ غربت کے باوجود دستِ عطا سے کب ہیں نہاں ہم فقیر لوگ
آقاﷺ کی رحمتوں سے برابر ہیں فیضیاب جبرئیل آسماں پہ، یہاں ہم فقیر لوگ
انﷺ کا کرم ہے اپنی گلی میں بلا لیا ورنہ کہاں مدینہ ، کہاں ہم فقیر لوگ
مانا کہ ان کے در پہ پہنچ بھی گئے عقیل کیسے کریں گے حال بیاں ہم فقیر لوگ
عقیل عباس جعفری
3 notes · View notes
urduclassic · 10 months
Text
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
Tumblr media
حبیب جالب کی بیگم ایک دن اُن سے ملاقات کیلئے جیل گئیں اور جالب سے کہنے لگیں۔ آپ تو جیل میں آگئے ہو یہ بھی سوچا ہے کہ بچوں کی فیس کا کیا بنے گا اور گھر میں آٹا بھی ختم ہونے والا ہے۔ حبیب جالب نے اس ملاقات کے بارے میں ایک نظم لکھی۔ جس کا عنوان ”ملاقات“ رکھا۔
ملاقات جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی 
حبیب جالب
8 notes · View notes