Tumgik
#dr shahid masood
polarcube · 2 years
Text
Android shahid app
Tumblr media Tumblr media
ﺷﺎﻫﺪ - Shahid App 722 Update.The Jammu and Kashmir Tribal Affairs Department on Sunday sanctioned projects worth Rs 38 crore for Poonch district in the current fiscal, an official spokesman said. How can I subscribe to Sports on Shahid VIP.Ĭonstruct your personalized watch list to enhance your Shahid app experience. Profitez dune sélection de chaînes de diffusion en direct. Profitez dune vue exclusive des dernières œuvres originales de Shahid. SHAHID is becoming the top destination for Premium content viewing online in MENA for FREE. But the good thing is that most Andoid TV boxes nVidia Shield TV Mi Box etc have Chromecast function built in so you can install Shahid on your Android and iPhone I guess mobile and cast the content to your Chromecast enabled Android TV. Gives you instant access to a world of TV favorites from around the world Enjoy browsing different categories and a world of options. SHAHID is your source for the Photography you are interested in. I have Android TV running on nVidia Shield TV. SHAHID is the leading premium VOD service of the Arab region since its offering the best of the best shows seriesdramas at a seamless experience. SHAHID is an Arabic TV and movies app.Įnjoy the worlds best Arabic original productions exclusively. Construct your personalized watch list to enhance your Shahid app experience.
Tumblr media
Download Shahid TV - شاهد تي في and enjoy it on your Apple TV. To all the sports fans out there introducing Sports on Shahid VIP package to upgrade you watching experience to the next level. Shahid VIP is a Premium Offering from Shahid for the Best Arabic TV Shows and Content in the United Arab Emirates and Kingdom of Saudi Arabia. Shahid application is not available on it and not sure if if it will. SHAHID offers important pieces of information such as business details link to the home page contact information phone email etc and more.ĭownload SHAHID app for Android. Application to watch live broadcasts of sports news religious foreign and Arabic channels. Watch new movies exclusive series with SHAHID. Non-stop entertainment with zero commercials. Shahid is the Largest Video on Demand Service in the. Watch the Prince Mohammed Bin Salman Pro League matches and other sports in HD. Stay up to date with the most recent movies and series for Free.Įnjoy browsing different categories and a world of options. Stay up to date with the most recent movies and series for Free. Profitez de la visualisation solo de mon livre dhistoires sans aucune interruption publicitaire. With this app you can stream hundreds of episodes from popular tv shows movies TV programs and documentaries all in Arabic for free. All your favorite channels live in ultra-high definition. Todays watch full hd Pakistani Talk showprogram which telecast on social media platformthe program name is Live with Dr Shahid Masood. Enjoy the leading Arabic VOD platform in the world with access to more than 20000 hours of Shows Movies and the best content from MENA Turkey Bollywood and Korea - anytime anywhere. Watch the latest Shahid Originals Enjoy the latest Arabic original productions exclusively on Shahid VIP Experience the most innovative story-telling from the region with no Ad-Interruptions Stay safe with family and kid profiles. It has the largest library of Arabic movies shows series and dramas - as a seamless experience without the interruption of advertisements. Discover something new every week Join Shahid VIP and enjoy unlimited access to a world of entertainment for you and your family. Pages dintroduction spéciales pour adultes et enfants et contenu.īeside your favorite series and movies upgrade today and enjoy all live and recorded events of Prince Mohammed Bin Salman Pro League Formula 1 and many more in. Welcome to Shahid your premium platform for a wide variety of the best Arabic Originals exclusive series movie premieres live TV and more. SHAHID is a premium Arabic Video On-Demand service. Stream True HD LIVE TV Enjoy a selection of streaming live channels. كيفية الحصول على شاهد مجانا مدي الحياة In 2021 Tech Company Logos Gaming Logos Company Logo Gives you instant access to a world of TV favorites from around the world. How do I re-subscriberestore my subscription.
Tumblr media
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
تلخی ٔایام اور بڑھے گی
برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورے میں 20؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہونے کو پاک سعودی تعلقات میں تزویراتی اقتصادی شراکت کے ایک نئے دور کا نقطہ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو بڑے اقتصادی پیکیجز دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے اور بیرونی مالی وسائل حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بیرونی مالی وسائل پر بے تحاشہ انحصار بڑھاتے چلے جانے کے سیاسی مضمرات اور سلامتی کے تقاضوں سے قطع نظر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ پائیدار معاشی ترقی کے لئے ملکی و بیرونی وسائل میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کہ نہیں رکھا جا رہا۔
پاکستان جی ڈی پی کے تناسب سے اپنے جیسے کچھ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور ملکی سرمایہ کاری کی مد میں تقریباً گیارہ ہزار ارب روپے سالانہ (تقریباً 80؍ارب ڈالر سالانہ) کم وصول کر رہا ہے۔ دوست ممالک، عالمی مالیاتی اداروں اور انٹرنیشنل بانڈز وغیرہ کے اجراء سے پاکستان موجودہ مالی سال میں 80؍ ارب ڈالر کا صرف ایک حصہ ہی حاصل کر پائے گا جو کہ معیشت کی پائیدار بحالی کے لئے ناکافی ہو گا۔ وطن عزیز میں جو حالیہ معاشی بحران لایا گیا تھا وہ بڑھتے ہوئے بجٹ اور تجارتی خسارے کا مرہون منت تھا۔ ان خرابیوں کی وجوہات دور کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے اپنے منشور کی روشنی میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر ضروری اقدامات اٹھانے کے بجائے ایسی معاشی پالیسیاں اپنائیں جن کے نتیجے میں بجٹ اور تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا۔ 
چند حقائق اور اعداد و شمار نذر قارئین ہیں. (1) موجودہ مالی سال کے پہلے 6؍ ماہ میں جی ڈی پی کے تناسب سے بجٹ خسارہ 2.7 فیصد رہا جو گزشتہ 8؍ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ (2) موجودہ مالی سال کے پہلے 7؍ ماہ میں تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں زیادہ رہا حالانکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے متعدد ایسے اقدامات کئے جن کا بوجھ عام آدمی پر ہی پڑا۔ توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں صورت حال بہتر ہو گی۔ (3) گزشتہ مالی سال میں افراط زر کی شرح 3.9 فیصد رہی تھی جبکہ جنوری 2019ء میں یہ شرح 7.2 فیصد رہی۔ (4) موجودہ مالی سال کے پہلے 7؍ ماہ میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 17 فیصد کمی ہوئی۔ (5) گزشتہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو 5.8 فیصد رہی تھی جبکہ موجودہ مالی سال میں یہ تقریباً 4 فیصد رہ سکتی ہے۔
عالمی بینک کے کمیشن کی 2008ء کی رپورٹ کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جاری کردہ ’’وژن 2025ء‘‘ میں کہا گیا تھا کہ 2018ء سے پاکستانی معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے زائد رہے گی۔ موجودہ حکومت نے جو پالیسیاں اپنائی ہیں ان کے نتیجے میں عالمی ادارے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ مالی برسوں 2019ء، 2020ء اور 2021ء میں بھی پاکستانی معیشت کی شرح نمو بھارت اور بنگلہ دیش سے کم رہے گی۔ یہ امر باعت تشویش ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے 12؍ ویں پانچ سالہ منصوبے میں معیشت کی اوسط شرح نمو صرف 5.4 فیصد رکھی ہے۔ 
پاکستان کی کمزور معیشت، بیرونی قرضوں و امداد پر بے تحاشہ انحصار اور ملک میں سیاسی افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی مندرجہ ذیل صورت حال تشویش کا جواز فراہم کرتی ہے: (1) متحدہ عرب امارات میں یکم مارچ سے ہونے والی مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو نہ صرف اعزازی مہمان کی حیثیت سے شرکت کرنے بلکہ اس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت بھی دینا۔ (2) برادر اسلامی ملک ایران نے 2016ء میں بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان ایرانی بندرگاہ چا بہار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور تجارتی راہداری کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس سے پاکستان کو نظرانداز کر کے بھارت کو بھی افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں سمیت متعدد منڈیوں تک رسائی مل گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر بھارت کو یہ راہداری دینے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ (3) 2017-18ء میں پاکستان نے سعودی عرب کو صرف 303 ملین ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ اسی مالی سال میں بھارت کی سعودی عرب کو برآمدات کا حجم 5400؍ ملین ڈالر رہا۔ اب سعودیہ اگلے دو برسوں میں بھارت میں 100؍ارب ڈلر سے زائد کی سرمایہ کاری کے مواقع دیکھ رہا ہے۔ (4) 2017-18ء میں پاکستان اور برادر اسلامی ملک ایران کی آپس میں تجارت کا مجموعی حجم صرف 400؍ ملین ڈالر تھا جبکہ بھارت اور ایران کی آپس میں تجارت کا مجموعی حجم 13760؍ ملین ڈالر تھا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات روز اول سے ہی برادرانہ رہے ہیں اور سعودی عرب نے مشکل وقت میں پاکستان کی متعدد مرتبہ مدد کی ہے۔ نائن الیون کے بعد صورت حال میں یقیناً کچھ تبدیلی آئی ہے۔ فرینڈز آف پاکستان گروپ کے 26؍ ستمبر 2008ء کے اجلاس میں امریکہ کی ایماء پر دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو اپنا پارٹنر بنانے کے لئے پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسانے کی حکمت عملی وضع کی گئی تھی۔ اس کے بعد 11؍ نومبر 2008ء کو حکومت پاکستان نے کہا تھا کہ تمام دوست ممالک امداد دینے سے قبل یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پہلے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اپنی معاشی پالیسیوں کی توثیق کرائے۔ حالیہ مہینوں میں امریکہ نے خطے میں اپنے استعماری مقاصد تبدیل کئے بغیر حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔
امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے کے لئے پاکستان سے مدد کرنے کی درخواست کی ہے چنانچہ دوست مسلمان ملکوں کا رویہ بھی ہمدردانہ اور مثبت ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا 13؍ فروری 2019ء کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ پاکستان کو یمن سعودی تنازع میں جھونکنے کی سازش نہیں ہو رہی لیکن یہ خدشہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر پاکستان نے خود انحصاری پر مبنی معاشی پالیسیاں نہ اپنائیں تو اول پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی آگے چل کر کسی تنازع میں ملوث ہو سکتا ہے اور دوم، بلوچستان میں (جہاں کئی بیرونی طاقتیں مداخلت کرتی رہی ہیں) احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے مناسب رقوم مختص نہیں کی جا سکیں گی چنانچہ پاکستانی معیشت اور سلامتی کے لئے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
2 notes · View notes
mypakistan · 6 years
Text
میڈیا اینکرز یا نشریاتی راؤ انوار ؟
ایک راہگیر نے پوچھا بیٹے کیا تلاش کر رہے ہو۔ بچے نے کہا انکل میری اٹھنی پچھلی گلی میں کھو گئی ہے۔ تو بیٹے پھر وہیں تلاش کرو جہاں کھوئی ہے۔ مگر انکل وہاں اندھیرا ہے اس لیے یہاں روشنی میں تلاش کر رہا ہوں۔ اگرچہ ہم سب ناسمجھ میڈیا کو سمجھ دار اور ذمہ دار بنانا چاہتے ہیں مگر ہمارا حال اسی بچے کی طرح ہے جس کا سکّہ کھو گیا تھا۔ جب ہم بطور مالک یا ایڈیٹر کسی اخبار یا چینل میں سب ایڈیٹر، رپورٹر، فوٹو گرافر، کیمرہ پرسن، این ایل ای ( نان لینیئر ایڈیٹر )، نیوز کاسٹر، پروڈیوسر، نیوز ایڈیٹر بھرتی کرتے ہیں تو دنیا کے کسی بھی ادارے کی طرح اس کا بائیو ڈیٹا دیکھتے ہیں، ٹیسٹ لیتے ہیں، انٹرویو کرتے ہیں اور اس کے بعد تنخواہ سمیت دیگر شرائطِ ملازمت طے کرتے ہیں۔ اگر امیدوار اپنے شعبے میں ادارتی یا تکنیکی لحاظ سے کمزور ہے مگر باصلاحیت ہے تو اس کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ادارے کی پیشہ ورانہ پالیسیوں کی تعارفی بریفنگ دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ ان پالیسیوں کے دائرے میں پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرے اور کوئی ایسی غیر پیشہ ورانہ حرکت نہ کرے جس سے ادارے کی بدنامی ہو یا غیر ضروری مشکلات پیدا ہوں۔ مگر ٹاک شو اینکر کے لیے ایسا کوئی لگا بندھا معیار نہیں۔ اس کا صحافیانہ پس منظر ہو تو اچھی بات ہے، نہ بھی ہو تو چلے گا۔ اس کا مطالعہ کتنا ہے، حالاتِ حاضرہ پر کیسی گرفت ہے، علاقائی و بین الاقوامی سیاست کی کس قدر شدہ بدھ ہے، جس ملک میں بیٹھ کر وہ ہفتے میں چار یا پانچ دن رائے عامہ پر اثر انداز ہو رہا ہے اس ملک کی مختلف قومیتوں کی سیاسی، سماجی و اخلاقی نفسیات کیا ہے، حساس رگیں کون سی ہیں؟ آبادی کی اکثریت جس عقیدے سے وابستہ ہے اس عقیدے کے موٹے موٹے اصول یا باریکیاں کیا ہیں؟
اینکر کو زبان و بیان پر کتنا کنٹرول ہے، کیا وہ صرف بول سکتا ہے یا لکھ پڑھ بھی سکتا ہے، اس کا اپنا نظریہِ زندگی کیا ہے؟ مذہبی، سیاسی و سماجی جھکاؤ کس جانب ہے؟ طبعاً انتہا پسند ہے، اعتدال پسند ہے یا غیر جانبدار؟ یہ سب ایسے ہی دیکھا جانا چاہئے جیسے بیٹے یا بیٹی کے لیے رشتہ دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اینکر کے چناؤ میں فی زمانہ جو ’خوبیاں‘ عملاً دیکھی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ کس کے ریفرنس سے آیا ہے، سکرین پر کیسا نظر آئے گا یا آئے گی، کتنا بے تکان بول سکتا ہے، سوالات میں عقل جھلکے نہ جھلکے مگر نیزے کی انّی ضرور چھبنی چاہئے، مسئلہ کیسا ہی سادہ ہو اسے متنازع جلیبی بنانے کا گر آنا چاہیے اور اگر ہر شو میں خود کو عقلِ کل بھی ثابت کر سکے تو سبحان اللہ۔ آئیڈیل اینکر وہ ہے جو کچھ بھی بولے، کچھ بھی بلوائے۔ افواہ، خبر، تحقیق، آدھے یا پورے سچ کا سہارا لے یا نہ لے، اس کی گفتگو سے سماج کے کسی حصے، کسی ادارے یا کسی شخص کا بھلے دھڑن تختہ ہو جائے مگر ریٹنگ آنی چاہئے۔
کیونکہ ریٹنگ ہی میں چینل کی دونی چوگنی شہرت ہے، ریٹنگ میں ہی اشتہار ہیں اور اشتہار میں ہی پیسہ ہے۔ جتنا پیسہ آئے گا اتنا ہی موٹا اینکر کا مالیاتی پیکیج بھی ہوتا جائے گا۔ لہذا ریٹنگ کے لیے سب کچھ کرے گا۔ سب کچھ۔ . اب تو صورت یہ ہے کہ جس طرح کرکٹرز اور فٹ بالرز کی نیلامی ہوتی ہے اسی طرح زیادہ سے زیادہ ریٹنگز لانے والے اینکرز کی نیلامی ہوتی ہے۔ یہی اینکر طے کرتا ہے کہ کون سا چینل اسے افورڈ کر سکتا ہے، کونسی ادارتی و ٹیکنیکل ٹیم اس کے ساتھ رہے گی جو اس کی ہر ابروئے جنبش کو شہنشاہِ مقبولیت یا ملکہِ عالیہ کا ادارتی آدیش سمجھے۔
جب تک چینلز میں پیشہ ورانہ خود مختاری برتنے والے تجربہ کار ایڈیٹرز اور نیوز ایڈیٹرز نہیں لائے جائیں گے کہ جنہیں میرٹ پر بھرتی کا مکمل اختیار ہو۔ اس ایڈیٹر کی پیشہ ورانہ رائے کو چینل میں پیسہ لگانے والا سیٹھ بھی تسلیم کرے اور ہر فیصلے میں اپنی عقل لگانے یا نافذ کرنے سے باز رہے۔ جب تک پروڈیوسر فائیو سٹار اینکرز کا چپراسی بنا رہے گا، فرشتے بھی ضابطہِ اخلاق بنا لیں تو بھی کچھ نہ ہونے کا۔ بھلے کیسی ہی پابندیاں لگا لیں، کتنی سماعتیں کر لیں۔ مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر پرنالہ سیدھا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ تب تک اینکر نشریاتی راؤ انوار بنا رہے گا۔
وسعت اللہ خان تجزیہ کار  
0 notes
pakistantime · 6 years
Text
ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کے بعد صحافت کے کردار پر بحث
پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اہم اور حساس واقعات کی کوریج سمیت "سب سے پہلے خبر" دینے کی دوڑ میں بعض اوقات غلط یا "کچے پکے حقائق" پر مبنی خبریں نشر کرنے کی وجہ سے اکثر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ لیکن ضلع قصور میں رواں ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن بچی زینب کے معاملے پر ایک سینئر اینکر پرسن کی طرف سے ایسے الزامات کے بعد جنہیں وہ تاحال ثابت نہیں کر سکے، ایک بار پھر ذمہ دارانہ صحافت پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ زینب کے مبینہ قاتل عمران علی کی گرفتاری کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم ایک ایسے بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے جو بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر جاری کرنے میں ملوث ہے اور اس شخص کے غیر ملکی کرنسی کے کم از کم 37 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
اینکر پرسن نے اپنے اسی پروگرام میں چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا اس مقدمے میں رقوم کی غیر قانونی منتقلی کا معاملہ بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جب عدالتِ عظمیٰ نے شاہد مسعود کو طلب کیا تو وہ اپنے الزامات سے متعلق کوئی واضح ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ پاکستان کا مرکزی بینک یہ واضح کر چکا ہے کہ تحقیق سے یہ پتا چلا کہ ملزم عمران علی کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ تاہم مذکورہ اینکر پرسن اب بھی اپنے الزامات پر قائم ہیں۔ 
شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے انھیں اس میں اپنے دعوے کے شواہد پیش کرنے کا کہا ہے۔ شاہد مسعود کی طرف سے تاحال ٹھوس شواہد فراہم نہ کیے جانے پر نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی خبر کی صداقت اور معیار پر زور و شور سے بحث جاری ہے اور سینئر صحافیوں سمیت غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب ضروری ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ٹی وی چینلز آئے ہیں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آیا ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ "یہ صرف ایک کیس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک رجحان ہے۔ یہ ایک پیٹرن رہا ہے۔ جب سے ٹیلی ویژن چینل آئے ہیں اور یہ پیٹرن بڑھتا گیا اور اس کو چیک نہیں کیا گیا اور روکا نہیں گیا اور اسی وجہ سے پروگرام بھی اور خبریں بھی بغیر تصدیق کیے چلا دی جاتی ہیں۔" ان کا کہنا تھا کہ ضابطۂ اخلاق موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی پاسداری نہیں کی جاتی اور جب بھی اس طرح کے سوالات اٹھتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے ہی عمل ہوتا ہے لیکن ان کے بقول شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات سے میڈیا کے اپنے اندر تبدیلی لانے کی امید کی جا سکتی ہے۔
"امید ہے کہ اگر اب ادراک کیا گیا تو کیونکہ یہ معاملہ اب آگے بڑھے گا. جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی بات سامنے آئے گی چاہے وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں آتی ہے یا ان کے خلاف، ہر دو صورتوں میں میڈیا کے لیے ایک گائیڈ لائن ضرور ہوگی. اگر انھوں نے ثبوت فراہم کیے تو یہ گائیڈ لائن ہو گی کہ کوئی بھی صحافی تحقیقات کرنے کے بعد کوئی چیز دیتا ہے اور اگر وہ ثبوت نہیں دیتے تو یہ ہو گا کہ آپ کتنے ہی بڑے اینکر ہوں، کتنے ہی بڑے صحافی ہوں، لیکن اگر آپ کے پاس مکمل حقائق نہیں ہیں تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ وہ خبر نہ دیں۔ " مؤقر غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے چیئرمین اور ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ نیوز چینلز میں ادارتی جانچ پڑتال کا مؤثر نظام وضع کیا جانا ضروری ہے لیکن ان کے بقول اس طرف توجہ نہ دیے جانے سے ایسی شکایات اور معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔
"میں بہت عرصے سے کہے جا رہا ہوں کہ میڈیا میں گیٹ کیپنگ کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی سینئر آدمی جو چینل میں ہو وہ خبروں کو دیکھے. بعض لوگوں کو ناموری کا شوق ہوتا ہے اور اس میں وہ ایسی حرکتیں بھی کر جاتے ہیں جو میرا خیال ہے صحافتی اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ انھوں (شاہد مسعود) نے جو رویہ اپنایا وہ صحافتی اخلاقیات کے خلاف ہے۔" مظہر عباس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اخبارات کی طرح ٹی وی چینلز کو بھی چاہیے کہ اگر کوئی خبر یا تبصرہ غلط ہو تو اس کی تردید یا معذرت ضروری کی جانی چاہیے۔
ناصر محمود
بشکریہ وائس آف امریکہ اردو  
0 notes
shiningpakistan · 6 years
Text
میڈیا اینکرز یا نشریاتی راؤ انوار ؟
ایک راہگیر نے پوچھا بیٹے کیا تلاش کر رہے ہو۔ بچے نے کہا انکل میری اٹھنی پچھلی گلی میں کھو گئی ہے۔ تو بیٹے پھر وہیں تلاش کرو جہاں کھوئی ہے۔ مگر انکل وہاں اندھیرا ہے اس لیے یہاں روشنی میں تلاش کر رہا ہوں۔ اگرچہ ہم سب ناسمجھ میڈیا کو سمجھ دار اور ذمہ دار بنانا چاہتے ہیں مگر ہمارا حال اسی بچے کی طرح ہے جس کا سکّہ کھو گیا تھا۔ جب ہم بطور مالک یا ایڈیٹر کسی اخبار یا چینل میں سب ایڈیٹر، رپورٹر، فوٹو گرافر، کیمرہ پرسن، این ایل ای ( نان لینیئر ایڈیٹر )، نیوز کاسٹر، پروڈیوسر، نیوز ایڈیٹر بھرتی کرتے ہیں تو دنیا کے کسی بھی ادارے کی طرح اس کا بائیو ڈیٹا دیکھتے ہیں، ٹیسٹ لیتے ہیں، انٹرویو کرتے ہیں اور اس کے بعد تنخواہ سمیت دیگر شرائطِ ملازمت طے کرتے ہیں۔ اگر امیدوار اپنے شعبے میں ادارتی یا تکنیکی لحاظ سے کمزور ہے مگر باصلاحیت ہے تو اس کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ادارے کی پیشہ ورانہ پالیسیوں کی تعارفی بریفنگ دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ ان پالیسیوں کے دائرے میں پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرے اور کوئی ایسی غیر پیشہ ورانہ حرکت نہ کرے جس سے ادارے کی بدنامی ہو یا غیر ضروری مشکلات پیدا ہوں۔ مگر ٹاک شو اینکر کے لیے ایسا کوئی لگا بندھا معیار نہیں۔ اس کا صحافیانہ پس منظر ہو تو اچھی بات ہے، نہ بھی ہو تو چلے گا۔ اس کا مطالعہ کتنا ہے، حالاتِ حاضرہ پر کیسی گرفت ہے، علاقائی و بین الاقوامی سیاست کی کس قدر شدہ بدھ ہے، جس ملک میں بیٹھ کر وہ ہفتے میں چار یا پانچ دن رائے عامہ پر اثر انداز ہو رہا ہے اس ملک کی مختلف قومیتوں کی سیاسی، سماجی و اخلاقی نفسیات کیا ہے، حساس رگیں کون سی ہیں؟ آبادی کی اکثریت جس عقیدے سے وابستہ ہے اس عقیدے کے موٹے موٹے اصول یا باریکیاں کیا ہیں؟
اینکر کو زبان و بیان پر کتنا کنٹرول ہے، کیا وہ صرف بول سکتا ہے یا لکھ پڑھ بھی سکتا ہے، اس کا اپنا نظریہِ زندگی کیا ہے؟ مذہبی، سیاسی و سماجی جھکاؤ کس جانب ہے؟ طبعاً انتہا پسند ہے، اعتدال پسند ہے یا غیر جانبدار؟ یہ سب ایسے ہی دیکھا جانا چاہئے جیسے بیٹے یا بیٹی کے لیے رشتہ دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اینکر کے چناؤ میں فی زمانہ جو ’خوبیاں‘ عملاً دیکھی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ کس کے ریفرنس سے آیا ہے، سکرین پر کیسا نظر آئے گا یا آئے گی، کتنا بے تکان بول سکتا ہے، سوالات میں عقل جھلکے نہ جھلکے مگر نیزے کی انّی ضرور چھبنی چاہئے، مسئلہ کیسا ہی سادہ ہو اسے متنازع جلیبی بنانے کا گر آنا چاہیے اور اگر ہر شو میں خود کو عقلِ کل بھی ثابت کر سکے تو سبحان اللہ۔ آئیڈیل اینکر وہ ہے جو کچھ بھی بولے، کچھ بھی بلوائے۔ افواہ، خبر، تحقیق، آدھے یا پورے سچ کا سہارا لے یا نہ لے، اس کی گفتگو سے سماج کے کسی حصے، کسی ادارے یا کسی شخص کا بھلے دھڑن تختہ ہو جائے مگر ریٹنگ آنی چاہئے۔
کیونکہ ریٹنگ ہی میں چینل کی دونی چوگنی شہرت ہے، ریٹنگ میں ہی اشتہار ہیں اور اشتہار میں ہی پیسہ ہے۔ جتنا پیسہ آئے گا اتنا ہی موٹا اینکر کا مالیاتی پیکیج بھی ہوتا جائے گا۔ لہذا ریٹنگ کے لیے سب کچھ کرے گا۔ سب کچھ۔ . اب تو صورت یہ ہے کہ جس طرح کرکٹرز اور فٹ بالرز کی نیلامی ہوتی ہے اسی طرح زیادہ سے زیادہ ریٹنگز لانے والے اینکرز کی نیلامی ہوتی ہے۔ یہی اینکر طے کرتا ہے کہ کون سا چینل اسے افورڈ کر سکتا ہے، کونسی ادارتی و ٹیکنیکل ٹیم اس کے ساتھ رہے گی جو اس کی ہر ابروئے جنبش کو شہنشاہِ مقبولیت یا ملکہِ عالیہ کا ادارتی آدیش سمجھے۔
جب تک چینلز میں پیشہ ورانہ خود مختاری برتنے والے تجربہ کار ایڈیٹرز اور نیوز ایڈیٹرز نہیں لائے جائیں گے کہ جنہیں میرٹ پر بھرتی کا مکمل اختیار ہو۔ اس ایڈیٹر کی پیشہ ورانہ رائے کو چینل میں پیسہ لگانے والا سیٹھ بھی تسلیم کرے اور ہر فیصلے میں اپنی عقل لگانے یا نافذ کرنے سے باز رہے۔ جب تک پروڈیوسر فائیو سٹار اینکرز کا چپراسی بنا رہے گا، فرشتے بھی ضابطہِ اخلاق بنا لیں تو بھی کچھ نہ ہونے کا۔ بھلے کیسی ہی پابندیاں لگا لیں، کتنی سماعتیں کر لیں۔ مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر پرنالہ سیدھا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ تب تک اینکر نشریاتی راؤ انوار بنا رہے گا۔
وسعت اللہ خان تجزیہ کار  
0 notes
leakstime · 3 years
Text
Live with Dr Shahid Masood | Wednesday 12 May 2021
Live with Dr Shahid Masood | Wednesday 12 May 2021 #IsraelStrikesGaza #IsraeliSpyware #LivewithDrShahidMasood
Today’s Pakistani talk show/program ” Live with Dr Shahid Masood | Wednesday 12 May 2021 “ was live streamed telecast on ” GNN “ YouTube/daily motion channel. Watch full hd episode. The topic is “Israel’s Bombing on Gaza.” All Pakistani news, news headlines, current affairs, Pakistan talk shows, and world news are available in Urdu and English. Please leave a comment about today’s new episode…
youtube
View On WordPress
0 notes
knowledgepronto · 4 years
Photo
Tumblr media
Funny Urdu News | Tezabi Totay | Funny News Headlines | Pakistan | News today Pakistan | Latest News Funny Urdu News | Tezabi Totay | Funny News Headlines | Pakistan | News today Pakistan | Latest News
0 notes
emergingpakistan · 7 years
Text
انسداد کرپشن اور احتساب، کیا ہم سنجیدہ ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
0 notes
sifnews-blog · 5 years
Text
Dr Shahid Masood is Talking About HTV's Info in a Right Way
Dr Shahid Masood is Talking About HTV’s Info in a Right Way
!!!!Follow Me On Social Media!!!!
__/LINKS\_
¦?Facebook Page : https://www.facebook.com/Sifwazifa
¦?Facebook Page : https://www.facebook.com/SifNewsOfficial1
¦?Twitter : https://twitter.com/SifNewsOfficial
¦?Twitter : https://twitter.com/Sifwazifa
¦?DMotion : https://dailymotion.com/sifwazifa
¦?Instagram…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 years
Text
شاہد مسعود کے لیے معافی کا وقت گزر چکا
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے نجی نیوز چینل کے اینکر کی جانب سے زینب کیس میں کئے گئے دعوؤں سے متعلق از خود نوٹس کی سامعت کے دوران ریمارکس ��یئے ہیں کہ شاہد مسعود کے لیے معافی کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ آچکی ہے بظاہر شاہد مسعود کا بیان درست نہیں ہے، آپ کی ویڈیو دوبارہ دیکھی ہے، آپ ویڈیومیں باربار نوٹس لینے کی بات کر رہے تھے جب کہ آپ نے الزامات ثابت نہ ہونے پر پھانسی کی بات بھی کی، الزامات کی شدت کو دیکھتے ہوئے نوٹس لیا، معافی کا وقت بھی گزر چکا ہے، آپ اپنا مقدمہ لڑیں، جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی تفصیل نہیں ملی، ہم کاپی کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ مقدمہ لڑنا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی کاپی ہم دے دیتے ہیں، مقدمہ کا دفاع کریں گے تو قانونی نتائج بھی ہوں گے جب کہ کل تک تحریری اعتراضات دے دیں کیس کوسن لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے الزامات کو تقویت نہیں ملی جب کہ آپ نے اپنے الزامات کی عدالت میں بھی تائید کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لوگوں کی رائے تھی آپ کے الزامات سچ پرمبنی ہیں، آپ نے اپنی غلطی کوعدالت میں تسلیم نہیں کیا، آپ کی استدعا پر جے آئی ٹی تشکیل دی، آپ نے جو کہا ہم اس حد تک محدود رہیں گے، آپ کے الزامات کس حد تک درست ہیں جس کا جائزہ لے رہے ہیں اور دوددھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا نظر آئے گا۔ اس سے قبل اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹی وی اینکر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ اپنے مؤقف پرقائم ہوں، نہ مؤقف سے پیچھے ہٹوں گا نہ معافی مانگوں گا۔ ایف آئی اے نے رپورٹ میں کہا ہے کہ الزامات ثابت نہیں ہوئے، رپورٹ میڈیا پرآگئی ہے لیکن ابھی تک مجھے نہیں ملی، رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ الزامات جھوٹے ہیں، معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
1 note · View note
techladiesblog · 5 years
Video
youtube
Dr Shahid Masood Views On The Appointment Of Hussain Asghar Head of The ...
0 notes
pakistantime · 6 years
Text
ڈاکٹر شاہد مسعود کا کیا قصور ہے؟
اگر یہ بات ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہہ بھی دی تو کونسا ظلم کیا ہے۔ اس سے کونسی قیامت آ گئی ہے۔ اس کے لیے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ عام طور پر پاکستان میں ہر جرم کے پیچھے بااثر لوگ ہوتے ہیں وہ عام اور غریب لوگوں کو پہلے پھنسواتے ہیں۔ پھر ان کو چھڑواتے ہیں اور اپنے ووٹ پکے کرتے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام میں یہ لوگ تھانہ کچہری میں مجبور لوگوں کے معاملات کو نبٹانے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ وہ قانون سازی کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ان قوانین کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے اور اس میں وہ سٹیٹس بناتے ہیں بلکہ ٹور بناتے ہیں اور اپنا رعب داب باقی رکھتے ہیں۔ وہ مصنوعی طور پر بڑے آدمی بن جاتے ہیں۔
بجائے اس کے کہ زینب کیس کی طرف پوری توجہ رکھی جاتی۔ الٹا اس شخص کے خلاف باقاعدہ انکوائری شروع ہو گئی ہے جس نے ایک بہت اہم اور معمول کے مطابق ظلم و ستم میں شریک بڑے لوگوں کے خلاف بات کی ہے۔ اب زینب کیس پیچھے رہ گیا ہے اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کیس پوری طاقت سے شروع ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی دس گیارہ ایسے واقعات قصور میں ہوئے ہیں۔ پولیس حکومت اور عدالت کہاں تھی؟ یہ صرف میڈیا کا کمال ہے کہ مجرم سامنے آیا اور مجرموں کے پیچھے بااثر افراد کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ سانحہ کوئی معمولی نہیں ہے جس شخص کی تصویر سامنے آئی ہے وہ اکیلا اس قابل نہیں کہ کئی بچوں بچیوں کے ساتھ ظالمانہ کارروائی کر سکے پہلے ہونے والے واقعات کے لیے تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے کوئی بات نہ کی تھی مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ میری گزارش عدالت اور حکومت سے ہے کہ اس معاملے کو الجھانے اور پھیلانے کی بجائے اصل شرمناک واقعے کی طرف توجہ رکھی جائے اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اس حوالے سے جو بھی لوگ ملوث ہیں اور فائدے اٹھاتے ہیں ان کو بے نقاب کیا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور مجرم کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔
میں اس حوالے سے چوتھا کالم لکھ رہا ہوں۔ میرا قلم روتا ہے۔ جیسے انسانیت کا سر قلم کر دیا گیا ہو۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی باتیں اہم ہیں۔ انہیں اگنور نہ کیا جائے۔ اگر کوئی اس سانحے کے پیچھے ہے اور ضرور ہو گا تو اس کے لیے منصفانہ اور غیرجانبدارانہ کارروائی کی جائے۔ قصور کے SHO سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ یہ کیوں ہوا۔ کیوں ہو رہا ہے اور تم نے اس کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ وہ ابھی تک ڈٹ کر تھانے بیٹھا ہے۔ اس کے پیچھے بقول ڈاکٹر شاہد مسعود کوئی بین الاقوامی گروپ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں کہاں کہاں کئی بین الاقوامی گروپ بڑے دھڑلے سے کام کر رہے ہیں۔
یہاں جو این جی اوز اور دوسرے ادارے ہیں ان کے عالمی سطح پر روابط ہیں انہیں بڑی بڑی گرانٹس ملتی ہیں۔ وہ ”کام“ اپنے وطن میں کرتے ہیں اور فنڈز باہر سے لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں ناروے گیا تھا وہاں لوگوں کے پاس ایسی فلمیں تھیں تو یہ کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس حوالے سے کسی وزیر کا نام بھی آ رہا ہے۔ قصور کے ممبران اسمبلی اور بڑے لوگوں سے تفتیش کی جائے۔ انہیں باقاعدہ شامل تفتیش کیا جائے۔ جس شہر کا نام ہی قصور ہے وہاں شہر کے وارث لوگوں کو کیسے بے قصور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کا اپنا شہر ہے اور یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ یورے ملک اور پوری دنیا میں ایک بدنامی رسوائی اور ظالمانہ صورتحال کی خبریں عام ہوئی ہیں۔
ایک بڑی اینکر پرسن نسیم زہرا کہتی ہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا کیس مثالی ہو سکتا ہے۔ کیا زینب کیس مثالی نہ ہو گا ؟ ڈاکٹر شاہد مسعود نے چونکہ بڑے لوگوں کا نام لیا ہے تو صحافی بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود بھی صحافی ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ صحافی نہیں ہیں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس معاملے میں صحافیوں کو کیوں ملوث کیا گیا ہے۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود معافی مانگ لیں۔ وہ کس بات کی معافی مانگیں۔ ایک ایسی بات جو زینب سانحے سے متعلق ہے کہہ دینے میں کونسی توہین عدالت ہوئی ہے یا توہین صحافت ہوئی ہے تو توہین صحافت کرنے والے لوگ ہمارے یہاں کئی ہیں۔ انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔
ہمارے صحافی صحیح خبریں دیتے ہیں۔ کبھی کبھی غلط خبریں بھی چلی جاتی ہیں۔ غلط خبر کے لیے پرویز رشید کو سزا دی گئی اور خواجہ آصف کو جزا ملی۔ ایک ہی غلطی کے لیے دو مختلف معیار مقرر کیے گئے۔ میرے خیال میں زینب کیس کے حوالے سے جو ظلم ہوا ہے اس پر توجہ رکھی جائے۔ ان لوگوں کے لیے بھی تحقیقات کر لی جائیں جن کی طرف ڈاکٹر شاہد مسعود نے اشارہ کیا ہے۔ اسے صرف ایک اطلاع کے طور پر لیا جائے۔ باقی قوم حکومت اور تفتیشی ٹیم کا ہے۔ جب کوئی مقدمہ ہو تو اس کے لیے سارے معاملات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے اس میں کوئی بڑی تلخ حقیقت موجود ہو۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی  
0 notes
youtube
Chairman Nab Scandal and Govt Game| Who is Involved in creating the scandal against NAB Chairman?
0 notes
leakstime · 3 years
Text
Live with Dr Shahid Masood | Tuesday 11 May 2021
Live with Dr Shahid Masood | Tuesday 11 May 2021 #HudaibiyaPaperMillsCase #LivewithDrShahidMasood #ShahidMasood
Today’s Pakistani talk show/program ” Live with Dr Shahid Masood | Tuesday 11 May 2021 “ was live streamed telecast on ” GNN “ YouTube/daily motion channel. Watch full hd episode. The topic is “Hudabiya Paper Mills Case.” All Pakistani news, news headlines, current affairs, Pakistan talk shows, and world news are available in Urdu and English. Please leave a comment about today’s new episode…
youtube
View On WordPress
0 notes
Video
Dr Shahid Masood, Coming Back to Pakistan ! | Great News Details By Ad...
0 notes