Tumgik
#عربی کہاوت
Text
اَطلُبِ الجَارَ قَبَل الدَّارِ
گھر بنانے سے پہلے ہمسایہ تلاش کرو۔
0 notes
adabpic · 16 days
Text
Tumblr media
Arabian proverb : ‎"Behind every delay, there's khayr (goodness)".
عربی کہاوت: ‏ "ہر تاخیر کے پیچھے خیر ہے۔".
22 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
بے بسی کی انتہاوں میں ایک عربی کہاوت یاد آجاتی ہے بس ۔ کیا یہ ہے وہ زندگی جس کے لیے میں ماں کے پیٹ میں لات مارا کرتا تھا-
In the extremes of helplessness, I just remember an Arabic proverb.
Is this the life I used to kick in the mother's womb for-
41 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 8 months
Text
,🌹🌹 *𝗛𝗨𝗠𝗜𝗟𝗜𝗧𝗬 𝗜𝗡 𝗟𝗘𝗔𝗥𝗡𝗜𝗡𝗚*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL LIVING**🔹
1️⃣5️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💧 *HUMILITY IN LEARNING :*
*Abdullah ibn Masud r.a., one of the companions of the Prophet of Islam ﷺ, narrated, “When you do not know anything, say that God knows best.”*
(Sahih al-Bukhari, Hadith No. 4822)
This principle can be called “humility in learning”, which is essential for intellectual progress.
*There is a proverb in Arabic: (la adri nisf ul ilm), “I don’t know is half-knowledge.”*
To say, “I don’t know” is not a simple matter. It is to be aware of your ignorance.
In such a person a spirit of inquiry awakens which eventually leads him to knowledge.
When a man does not know something, he must admit this fact. The confession of not knowing is also as important as knowing.
*Without this attitude, no man can progress intellectually.*
🌹🌹 *_And Our journey_ _Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💧 *سیکھنے (علم حاصل کرنے میں) میں عاجزی :*
*عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک ہیں، بیان کرتے ہیں، ’’جب تم کچھ نہیں جانتے تو کہہ دو کہ "اللہ بہتر جانتا ہے"۔‘‘*
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4822)
اس اصول کو " *سیکھنے میں عاجزی* " کہا جا سکتا ہے۔ جو علمی و فکری ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
*عربی میں ایک کہاوت ہے: (لا ادری نصف العلم)، "میں نہیں جانتا (اس کا اعتراف) آدھا علم (حاصل کرنا) ہے۔"*
یہ کہنا کہ، "میں نہیں جانتا" کوئی معمولی بات نہیں ہے. بلکہ اپنی لاعلمی سے آگاہ ہونا ہے۔
اس اعتراف کی وجہ سے انسان میں تحقیق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے جو آخرکار اسے علم حاصل کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔
جب کوئی انسان کسی چیز یا کسی بات کو نہیں جانتا، اور اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ اعتراف علم حاصل کرنے کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہم کسی چیز کو جاننے کا اعتراف (دعویٰ) کرتے ہیں۔
*اس انداز فکر و عمل (رویہ) کے بغیر، کوئی بھی انسان علمی و فکری سطح پر ترقی نہیں کر سکتا ہے۔*
🌹🌹 *اور ہمارا سفر جاری ہے....*
0 notes
saths6604 · 1 year
Photo
Tumblr media
أُحب صوتكِ المُتعَب وكأن مرحباً تعني "عانقيني" "مجھے تمہاری تھکی ہوئی آواز بہت پسند ہے جیسے ہیلو کا مطلب ہے، مجھے گلے لگا لو" عربی کہاوت #travellingthroughtheworld #memories💕 (at Kotli - Azad Jammu Kashmir) https://www.instagram.com/p/CoVeQ3sLlBR/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
darbaareurdu · 1 year
Photo
Tumblr media
عربی کہاوت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ #urdupoetry #poetry #sadpoetry #urdulines #sadedits #urduadab #urduqoutes #urdumems #urdughazals #urduposts #urduzone #urduliterature #urdupoetrylovers #urduwrites #urdushayeri #urduzuban #poetryofinsta #spilledinkpoetry #poetrybooks  #streetpoetry #instapoetry #poetrycorner  #romanticpoetry #urdu #nfak #darbaareurdu #muslimpsyche (at Caption.) https://www.instagram.com/p/Cn9j78YsD3d/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
پردہ بکارت کے متعلق ایک تلخ حقیقت
غلط الفاظ کے استعمال پر پیشگی معذرت مگر یہ گفتگو کرنا ضروری ہے اور اپنے معاشرے کا چہرہ سامنے لانا مقصود ہے. اور میری یہ تحریر نہ تو لڑکیوں کے حق میں ہے اور نہ لڑکوں کے حق میں بلکہ صحیح بات کو واضح کرنا اس تحریر کا مقصد ہے.
لڑکے تو قابل اعتراض گفتگو امید ہے نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی عورت پڑھے یا لڑکی پڑھے تو گندے الفاظ پر کمنٹس کی بجائے میری کہی ہوئی بات سے اگر اتفاق ہو تو اپنی اپنی رائے دیجئیے گا. شکریہ.
پردہ بکارت(عورت کی پھدی کی سیل) کے متعلق بہت کچھ سننے کو ملتا ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ.
آج میں بھی کچھ چیزیں آپ کے سامنے رکھوں گا.
آج کل جب بھی کسی شخص کی شادی ہو تو اس سے سننے میں یہ بات ضرور ملتی ہے کہ کڑی دی پھدی سیل پیک ہونی چاہی دی اے جے سیل پیک لبے تے چس آ جانی اے. اور انہی حضرات کے ساتھ اگر کچھ ایام شادی سے پہلے گزارے ہوں تو پتہ چلے گا کہ موصوف جس بھی لڑکی کو دیکھتے تھے یہی بولتے تھے کہ ایدھی سیل پھاڑنی اے کسے دن یا یہ بولتے ہیں کہ ایدھی سیل میں اپنے لن نال پاڑی سی بڑی چس آئی سی سالی پوری گشتی اے.یعنی ہم اپنے دل میں یہی آس امید لیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ دنیا کی ہر لڑکی کی پھدی ہم ہی ماریں اور اس کی سیل بھی سب سے پہلے ہم ہی توڑیں اور اس سب کے بعد بھی ہمیں ایسی لڑکی ملے جو بالکل سیل پیک ہو اس کی پھدی کو کسی لنڈ کا ٹچ کرنا تو کیا اس کے جسم کو کبھی کسی نے دیکھا تک نہ ہو.
تو بھئی پہلی بات تو ہے کہ اگر آپ ہر لڑکی کی سیل کھولنا چاہتے ہو تو اس گندی سوچ میں آپ اکیلے تو ہیں نہیں بلکہ آپ کے بہت سے دوست اس میں شامل ہوں گے اور جب ایسی سوچ بہت سے لوگ رکھتے ہوں تو سیل پیک لڑکی آپ کے لیے بچے گی کیا؟؟؟؟
اسی کی متعلق دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں کی بننے والی بیویوں کی سیل کھولتے رہو گے تو کوئی ایسا بندہ بھی ہو گا جس نے آپ کی ہونے والی بیوی کی سیل کھول دی ہو گی عربی کی کہاوت ہے کہ( کما تدین تدان) یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے.
اب دوسری عورتوں کی سیل کھولنے کے بعد ان کی پھدیوں کو استعمال شدہ کرنےکے بعد سیل پیک پھدی کی امید بھی نہ رکھیں.
تیسری بات یہ ہے کہ آپ بات بات پر کسی بھی لڑکی کو گشتی کا لقب دے دیا کرتے ہیں توآپ کے نزدیک گشتی ہونے کا معیار کیا ہے آیا یہ معیار ہے کہ آپ جس کو اپنے پیار کا جھانسا دے کر اس کی پھدی مار رہے ہو وہ گشتی ہے؟؟؟ اگر وہ گشتی ہے تو پھر آپ کیا ہوۓ.
یا کسی لڑکی کو مجبور کر کے اس کی پھدی مارنا یہ گشتی پن کا اظہار کرتا ہے اگر ایسا ہونا گشتی ہونا ہے توآپ تو پھر اس کے دلال ہوئے نا.
یا پھر ہر راہ چلتی لڑکی آپ کے نزدیک گشتی ہے تو پھر اس نظریے سے تو آپ کی ماں بہن بھی گشتیاں ہی ہوئیں.
اب ایک اور سوال یہ ذہنوں میں آتا ہے کہ اگر تو لڑکی سیل پیک نکلے اس کی سیل ٹوٹی ہوئی نہ ہو تو پھولے نہیں سماتے اور اگر سیل ٹوٹی ہوئی نکل آئے تو آسمان سر پر اٹھا لیں گے کہ ما‌ں یدی پہلے کسے کولوں پھدا مرواندی رہی اے. پتہ نہیں کس کس دا لوڑا پھدے وچ لیندی رہی اے وغیرہ وغیرہ باتیں سننے کو ملتی ہیں اب سوال یہ ہے کہ واقعی جس عورت کی سیل کھلی ہو وہ پہلے پھدا مروا چکی ہوتی ہے یا نہیں یا پھر کسی اور وجہ سے اس کی سیل کھل گئی یا کوئی حادثہ ہوا ہو اس کے ساتھ جس کے نتیجے میں یہ کام ہوا.
اب اس کا جواب چند صورتوں میں بنتا ہے.
1. اگر کسی لڑکی کی سیل کھلی ہوئی ہو تو سب سے پہلے یہ بات یاد رکھی جائے کہ ایسا ضروری نہیں کہ لنڈ کے پھدی میں جانے سے ہی پھدی کی سیل پھٹے اس کے بغیر بھی پھٹ سکتی ہے مثلاً کوئی لڑکی انچی چھلانگ مارتی ہے تو بھی سیل پھٹ سکتی ہے کونکہ گھر کے کام کاج میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں اب وہ لڑکی پہلے سے آپ کو نہ تو جانتی ہے کہ آپ کی سوچ کیسی ہے اور نہ وہ یہ جانتی ہے کہ آپ کی شادی اس سے ہو گی اگر اسے یہ دونوں باتیں پتہ ہوتیں تو وہ آپ سے آکر کہہ دیتی کہ آ کر فلاں کوم کر جاو کیونکہ اگر میں نے یہ کام کیا تو انچی چھلانگ لگانے یا زور لگانے سے میری سیل پھٹ جائے گی اور آپ کو سیل پیک پھدی نہیں مل پائے گی.جب ایسا نہیں ہے تو سیل پھٹی ہوئی ہونے پر شور کیوں.
2. اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی بھی لڑکی کی پھدی لنڈ کے جانے سے نہ پھٹی ہوئی ہو بلکہ بعض لڑکیاں شادی سے پہلے سیکس کرتی ہیں اور خوب انجوائے کرتی ہیں اس کی پرواہ کیے بغیر کہ آئندہ کیا ہو گا جب شوہر سہاگ رات کو لنڈ ڈالے گا اور کھلی ہوئی پھدی اور سیل پیک نہ ہونے کا اس کو شک ہو جائے گا اور یہ بھی کہ یہ پہلے سے مرواتی رہی ہے. اب ایسا گھناؤنا فعل کرنے والی لڑکیاں ان کے پاس ایک بنا بنایا بہانہ بھی موجود ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لازمی نہیں کہ سیل پیک ہی ہو کھیل کود میں ٹوٹ جاتی ہے سیل اب ہمارا کیا قصور وغیرہ وغیرہ.
یہ بہانہ بنا کروہ لڑکیاں جو شادی سے پہلے بلا جھجک کھلے عام بہت سوں سے پھدی مروا چکی ہوتی ہیں وہ دوسری لڑکیوں جنہوں نے ایسا بالکل کرنا تو دور سوچا بھی نہیں ہوتا بدنام کروا دیتی ہیں اس میں غلطلی سراسر لڑکیوں کی ہوتی ہے جو ان کارناموں کے باوجود اپنی پاکدامنی ثابت کرنے میں جٹی ہوتی ہیں اور جب ان کے موبائل-فون سے شوہر کو ایسی چیٹس ملتی ہیں جوکہ بطور ثبوت و دلیل ہوتی ہے کہ ان کے شادی سے پہلے ناجائز تعلقات تھےجوکہ ان لڑکوں سے کی گئی ہوتی ہے جن سے شادی سے پہلے بھی تعلقات ہوتے ہیں اور شادی کے باوجود جن کو نہیں چھوڑا گیا ہوتا.اب ان تمام باتوں کے بعد بھی اگر مرد کے دل میں شک پیدا نہ ہو تو کیا حسن ظن پیدا ہو کہ محترمہ پھدی مروانے کے میسج اور مل کر فلاں فلاں جگہ مروانے کے میسج اچھی نیت اور بھائی بہن سمجھ کر کیے ہوں گے؟؟؟؟
نیز سیل کا پھٹنا بعض اوقات فنگرنگ کرنے یا سبزیوں اور دیگر گول اور لمبی چیزوں کےغلط استعمال سے بھی ہوتا ہے ظاہر ہے کہ جب پورن مویز دیکھیں گی تو ایسا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ جب لڑکے کر سکتے ہیں تو لڑکیوں پر کیسی پابندی.
یہاں پر میں اپنی گرل فرینڈ کا ایک واقع�� سنانے جا رہا ہوں جو کہ حقیقت ہے اور جس کو میں شئیر تو نہیں کرنا چاہتا تھا پر گفتگو کے چلتے یہ بات کرنی پڑی.
میری ایک ہمسائی جس کا نام شازیہ تھا بچپن سے اس کو دیکھتا آیا تھا اور جب تھوڑا جوان ہوا تو اس کے جسم کے ابھار دیکھ کر لنڈ کھڑا ہو جاتا اور مٹھ بھی مارتا تھا اس کے نام کی.
وہ چونکہ ہمارے گھر بھی آتی تھی اکثر اوقات اورہمارے باتھ روم کے دروازے میں سوراخ تھا جس سے بار سب نظر آتا تھا جب وہ آتی تو میں باتھ روم میں گھس کر اس کو دیکھتے ہوئے مٹھ مارتا تھا.
شکل سے تو وہ بہت ہی شریف نظر آتی تھی اور پھر بعد میں اس نے درس نظامی یعنی عالمہ کورس بھی کر لیا تو مجھے لگا کہ اب تو بہت ہی شریف ہو گئی ہو گی مگر اس کے راز تب کھلے ��ب ایک دن میں فیس بک استعمال کر رہا تھا اور ایک آئی ڈی کی لڑکی والی تصویر سامنے آئی جس میں لڑکی کا چہرہ تو نہیں تھا لیکن نیچے والا دھڑ تھا اس کے جسم کے خدوخال سے مجھے ایسا لگا کہ ہو نہ ہو یہ میری ہمسائی ہی ہے کیونکہ میں اس کے جسم کو بخوبی پہچانتا تھا کیونکہ اس کو اس نزدیکی کے ساتھ جو دیکھا تھا اور وہ ہماری ہمسائی بھی تھی تو ہماری چھت سے اس کے گھر کا سارا نظارہ ہوتا تھا اور میں اس کو صفائی کرتے ہوئے اس کے نظر آتے ہوئے بوبز اور اس کی گانڈ میں پھنسی قمیض بھی دیکھا کرتا تھا اور اس کے سونے کی حالت کو بھی بعض اوقات دیکھا کرتا تھا اور کئی وفعہ تو اس کو موٹر سائیکل پر اپنے پیچھے بٹھایا بھی تھا بہرحال مجھے اس تصویر کو دیکھ کر تجسس پیدا ہوا میں نے اس آئی ڈی پر فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی چونکہ میری آئی ڈی پر میری ذاتی تصویر تھی تو اس نے ایکسیپٹ کر لی کچھ دن بعد میں نے ایک میسج کیا کون ہے؟ اگے سے بات چلی تو گویا اس لڑکی نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کیا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اسے جانتا نہیں اور وہ مجھے جانتی ہے تو وہ مجھے میرے گھر کا بائیو ڈیٹا بتا کر بلیک میل کرنے لگی اور میں جان بوجھ کر ہونے لگا اور اس کے سامنے ایکٹنگ کرنے لگا.بلاخر اس نے مجھے اپنا بتا دیا کہ وہ واقعی میری ہمسائی ہے یوں بات چلتی چلتی ایک دن میں نے اس سے نماز کا کہا تو کہنے لگی کہ میری طبیعت خراب ہے مجھے سمجھ آ گئی کہ اس کو حیض آیا ہے مگر بہانے کے ساتھ پوچھا کیسی طبیعت خراب ہے اس نے انکار کیا میں نے اصرار کیا تو بلاخر اس نے بتایا کہ مجھے حیض آیا ہے میں نے اس کی اس عادت کے بارے میں پوچھا کہ کتنے دن تک آتا ہے اسے حیض اس نے 5 سے 6 دن کی عادت بتائی اب بات آہستہ آہستہ آگے بڑھی تو میں نے اس کو گفٹ دینا شروع کیے اور پہلے پہل تو بات صرف میسجز کی حد تک تھی پھر بات ملنے ملانے پر آئی اور پھر گلے ملنا اور لپ کس کرنا ہمارے درمیان عام ہو گیا حالانکہ وہ اچھی بھلی مذہبی تھی اور پھر کافی دفعہ میں نے اس کو اپنے گھر بلا کر کسنگ بھی کی اور آہستہ آہستہ اس کی پھدی پر ہاتھ بھی اوپر اوپر سے لگاتا جس پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا ایک دن میں نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر اس کی پھدی کی لائن میں انگلی ڈالی تو وہ بہت گیلی تھی جب میں نے ایسا کیا تو اس نے فوراً میرے لنڈ کو پکڑ لیا اور تھوک لگا کر ہلانے لگی میں بہت حیران ہوا کہ اس کو ایسا کیسے پتہ ہے میرے پوچھنے پر اس کا جواب یہ تھا کہ وہ کافی عرصے سے پورن مویز دیکھتی ہے. ایک دن میرے سب گھر والے گھر پر نہیں تھے تو میں نے اسے بلایا اور اسے پورا ننگا کر کے اس کو چوما چاٹاپھر آخر میں اس کی پھدی کو نہ چاہتے ہوئے بھی چاٹنا پڑا کیونکہ اس کی ضد تھی پر جب چوسنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کی پھدی کافی کھلی تھی کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اس کی پھدی اس طرح نہیں دیکھی تھی میں نے پوچھا کہ تم سیل پیک ہو کیا تو کہنے لگی ہاں میں نے چیک کرنے کے لیے پوچھا انگلی ڈالوں تو درد تو نہیں ہو گا کہنے لگی ڈال کر دیکھ کو اس کے بعد میں نے ایک انگلی ڈالی پھر دوسری اور پھر تیسری پر محترمہ کو درد کہاں ہونا تھا میرا شک پکا ہو گیا کہ کچھ تو کام خراب ہے میں نے کہا کہ نہ خون نکلا نہ درد ہوا کیا وجہ ہے تو فوراً پلٹا کھا گئی اور بولی کہ میں رسی پھلانگتی ہوں جس کی وجہ سے پھٹ گئی ہو گی میں نے مان لیا پھر کافی مرتبہ میں نے اور اس نے سیکس بھی کیا اس کی پھدی بھی ماری.
وہ لڑکی بچوں کو ٹیوشن بھی دیتی تھی تو ایک دن بات کرتے کرتے اس نے کہا کہ تمہیں ایک عجیب بات بتاؤں میں نے کہا کہ بتاؤ کہنے لگی کہ آج جب میں بچوں کو پڑھانے کے لیے کرسی پر بے دھیانی میں بیٹھی تو اچانک پھدی میں کوئی چیز چبھی اور میں اچانک اٹھ گئی جب دیکھا تو نیچے کسی نے پینسل کھڑی کر کے رکھی تھی اس پر خون لگا تھا جب باتھ روم میں گئی تو پھدی سے خون نکل رہا تھا پھر پیڈ لیا اور لگا کر پڑھانے آئی.
کچھ مزید باتیں کھلیں اور وہ کھل کر سامنے آتی گئی کہ مذہبی ہونے کے باوجود وہ اتنی گندی تھی.
ایک مرتبہ اس نے بتایا کہ مجھ سے پہلے اس نے اپنے ایک کزن کے ساتھ بس کسنگ کی تھی تو میں وہ پھدی کے اندر ڈلنے والے تین انگلیوں کا معاملہ سمجھ کیا کہ ہو نہ ہو اسی سے اس نے اپنی پھدی مروائی ہو گی کیونکہ لڑکے کو تو صرف اشارہ چاہیے ہوتا ہے اور (لڑکی تیرا ایک اشارہ حاضر ہے لنڈ ہمارا)اس پر عمل فوراً ہوتا ہے.
بہرحال اب اس کی شادی ہو چکی ہے مگر پھر بھی وہ مجھ سے رابطے میں رہتی ہے جب شادی کے بعد اس کے ساتھ میرا رابطہ ہوا تو میں نے پوچھا کہ شوہر نے پوچھا نہیں کہ خون کیوں نہیں نکلا تو کہنے لگی پوچھا تھا پر میں نے کہہ دیا کہ کھیلتے ہوئے ٹوٹ گیا تھا.
اب بندہ پوچھے کہ کیا یہ سراسر دھوکا نہیں ہے اپنے شوہر کے ساتھ کہ اس کو یہ کہا جا رہا ہے کہ سیل کھیلنے سے ٹوٹی جبکہ اس پھدی میں ہم اپنا آٹھ انچ لمبا اور 2.5 انچ موٹا لوڑا بھی ڈالتے رہے ہیں.
مطلب یہ کہ ہر بار ایسا ہی نہیں ہوتا کہ سیل کھیلنے سے ٹوٹے بلکہ کئی بار چدوانے سے بھی ٹوٹتی ہے اس حقیقت کو بھی مانا جائے.
بعض اوقات یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے کسی لڑکی کو مجبور کیا ہو بلیک میل کیا ہو اور اس کے ساتھ زبردستی سیکس کیا ہو اس صورت میں بھی کھلنے والی سیل پر اعتراض نہیں اور نہ ہی کھیل کود سے کھلنے والی سیل پر اعتراض ہے. اعتراض تو جان بوجھ کر مرضی کے ساتھ سیکس کرنے پر کھلنے والی سیل پر ہے کہ اس پر بھی الزام مرد پر ہی کیوں اور یہ کہنا ہی کیوں کہ سیل کھیلنے سے کھلی ہو گی اور اس پر اپنی پاکدامنی ثابت کرنا کیا درست ہے؟؟؟
کوئی بندہ یہ نہ سمجھے کہ اس سے مقصود اپنی سیکس سٹوری سنانا تھی ہرگز نہیں بلکہ کچھ باتیں کھل کر کرنی تھیں.
Tumblr media
48 notes · View notes
urdunewspedia · 2 years
Text
آئیے کہاوتیں یاد کریں - اردو نیوز پیڈیا
آئیے کہاوتیں یاد کریں – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین زباں فہمی 125 کہاوت یا ضَربُ المَثل (جمع ضرب الاِمثال) کی اہمیت سے کوئی ذی شعور اِنکار نہیں کرسکتا، خواہ معاملہ عربی، ترکی، فارسی اور اردو جیسی مشرقی زبانوں کا ہو، دیگر علاقائی /مقامی زبانوں اور بولیوں کا یا انگریزی سمیت تمام مغربی زبانوں کا۔ ’’پڑھے لکھے جُہَلاء‘‘ اکثر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ محاورے [Idiom] اور کہاوت [Proverb/Saying] کی کیا ضرورت ہے ، اتنی مشکل ہوتی ہے،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ghulamemustafa · 3 years
Text
خود کشی ...
ایک عربی کہاوت کے مطابق اگر آپ خود کشی کرنا چاہتے ... ہیں تو سمندر میں چھلانگ لگا دیں ...
پانی میں گرتے ہی آپ ڈوبنے لگیں گے ... اور سانس بند ہونے لگے گی ... اور تھوڑی ہی دیر بعد روح پرواز کر جائے گی ... لیکن اگر آپ نے ... پانی میں گرتے ہی ... ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیے ... تو اس کا مطلب ہے کہ آپ مرنا نہیں چاہتے ... بس کوئ کام ایسا ہے جو آپ نہیں کرنا چاہتے ... شاید آپ کی زندگی میں کوئی شخص ہے ... جس کے ساتھ آپ نہیں رہنا چاہتے ... کوئی واقعہ ایسا ہے ... جسے آپ بھول جانا چاہتے ہیں ... اپنی زندگی سے نکالنا چاہتے ہیں ...
یا جہاں رہ رہے ہیں ... وہاں ان لوگوں میں نہیں رہنا چاہتے ... تو ان سب کا حل ہے ... ان لوگوں کو چھوڑ دیں ... اس علاقے کو بدل لیں ... ہجرت کر جائیں ... مگر خود کشی کا نہ سوچیں ... کیوں کہ اصل میں آپ زندگی ختم نہیں کرنا چاہتے ... بس زندگی کا کوئی نا پسندیدہ پہلو ختم کرنا چاہتے ہیں!!!
0 notes
mamoonhameed · 3 years
Text
Watch "Kaise pata chale ga Allah ke momin ko Rasool ki tasalli mili!؟
اللہ کا مومن تو اکیلا کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ قول رسول کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے
جب رسول کے قول کے ذریعے رسول کا یہ ساتھی عملاً کہاوت و کردار میں بھی رسول کے ساتھ ہوجاتا ہے تو اسے عزیز ترین رشتہ دار، خاندان، دوست و ا��رباء بھی
اپنے دائروں سے نکال دیتے ہیں لیکن
اسے کبھی تنہا نہیں کرسکتے.
کیونکہ وہ رسول کے ساتھ ہوتا ہے اور ظاہر ہے رسول کی تسلی ملتی ہے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے روحانی لشکروں سے اللہ کی مدد ملتی ہے اور اللہ کا کلمہ سمجھنے کے بعد اس کو چھپانے انکار کرنے والوں کے کلمات پر اعلٰی اور اونچا رہ جاتا ہے..
#محمد_شیخ #عبد_اللہ #دی_قرآن_مین کی مثال ھمارے سامنے ہے جب 2005 میں اللہ کا کلام اور اس کی روح لوگوں کے ساتھ قول رسول کے ذریعے لوگوں کی زبان انگریزی اردو میں مسلسل بتاتے رہنے کی وجہ سے بلینک پوائنٹ یعنی چہرے پر گولی ماری گئی لیکن اللہ نے انہیں زندہ رکھا اور موت کے منہ سے اللہ نے نکال دیا.
اور شفایاب ہونے کے بعد انہوں نےقلیل ہی عرصے میں پہلے سے کئی گنا بڑھ کر اللہ کے روح کی مدد سے
القرآن کیا کہتا ہے.......... کے بارے میں
لیکچرز دیے اور اسی سکون سے اور اللہ کی مدد سے وہ اکیلے ان پر بھاری پڑتے آرہے ہیں.
زندگی کے بے شمار حالات اور واقعات میں اللہ کے کلام کی روح سے انسانیت کی راہنمائی کرتے ہوئے اللہ کی طرف بلا رہے ہیں.
دوسری طرف اللہ اور رسول کا نام بیچنے والے کہانیاں اور شاعری سنا سنا کر لوگوں کو سنی، شیعہ، یہودی، عیسائی، ھندو وغیرہ وغیرہ بنا رہے ہیں اگر کبھی آیت بولتے بھی ہیں تو جادوگری دکھاتے ہیں لوگوں کی زبان میں اس کے روح کی نمائندگی کرنے کی بجائے اپنے مذھب و مسلک، اپنے دبستانِ خیال، اپنے مکتبہ فکر اپنے نظریات و عقائد بتاتے ہیں عربی قواعد و لغات کو فنی مہارت سے وہ معانی پہنا دیتے ہیں جس کی تصدیق اسی موضوع پر اللہ کی آیات سے نہیں ہوتی بلکہ اختلاف ہوتا ہے
ھر ایک فریق دوسروں کو غلط ثابت کرتا رہتا ہے. اور جب کوئی پادری جیفری رائٹ ، کوئی مفتی عبدالباقی محمد شیخ کے بتائے ہوئے آیات میں اختلاف نہیں دکھا پاتا اور اپنے عقائد و مسلک اپنے اختلافات قرآن سے ثابت نہیں کر پاتا، تو اللہ کا مومن بننے کی بجائے اپنے مذہب و مسلک اور مکتبہ فکر کی طرف پلٹ جاتا ہے.
جبکہ اللہ کا مومن اللہ کے رسول کے ساتھ، رسول کے قول کے ذریعے ہی رہتا ہے جو جھانوں کے پروردگار کا نازل کیا ہوا ہے. اکیلا ہوتا ہے لیکن تنہا نہیں.
youtube
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
سعودی عرب سے بے دخل کیے گئے پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل کیا ہے؟
پاکستان میں جہاں مجھے بہت سی تبدیلیاں نظر آئیں وہاں ایک بات بطور خاص میں نے نوٹ کی۔ میں نے دیکھا کہ سندھ کے مختلف شہروں میں سعودی عرب سے بے خل کیے جانے والے نوجوانوں کی کثیر تعداد کو تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔ سعودی عرب وہ اسلامی ملک ہے جہاں کے باشندے اپنے اعلیٰ اخلاق اور اسلامی روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی، سعودی عرب کو اپنا دوسرا ملک سمجھتے ہیں۔ یہاں 1950ء سے پاکستانیوں کی آمد شروع ہوئی۔ اس سے پہلے پاکستانی یہاں حج یا عمرہ ادا کرنے آتے اور واپس چلے جاتے تھے۔ تیل کی دولت نے معاشرے میں جو تبدیلی کی اس کے پیش نظر یہاں ایک طرف رزق کے دروازے کھل گئے تو دوسری طرف سعودی خاندانوں کو گھریلو ملازموں کی ضرورت پیش آ گئی۔
سعودی عرب میں ایسے پاکستانی خاندان بھی آباد ہیں جن کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر نے پاکستان نہیں دیکھا بلکہ بعض کو تو اپنی مادری زبان تک نہیں آتی۔ ان خاندانوں نے یہاں آنے کے بعد پاکستان کو پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اب یہاں کے ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق سندھ اور جنوبی پنجاب سے ہے۔ یہ نوجوان قانونی طور پر سعودی شہری نہیں مگر پاکستان سے بھی انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ سعودی عرب میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے ان کا طرز زندگی سعودی شہریوں جیسا ہو گیا۔ ان کو امید تھی کہ ایک نہ ایک دن سعودی حکومت انہیں شہریت دے دے گی۔ تیل کی دولت نے وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں بھی تبدیلی کی۔ ایک زمانہ تھا جب سعودی عرب میں پیدا ہونے والے بچے کو 18 سال کی عمر میں شہریت دی جاتی تھی مگر وہ زمانہ چلا گیا۔
یہ حقیقت ہم غیر ملکیوں کو تسلیم کرنا ہو گی کہ سعودی عرب میں جہاں غیر ملکیوں کا قیام سعودی عرب کی ضرورت ہے وہاں یہی غیر ملکی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکیوں کے حوالے سے قانون میں کوئی رعایت نہیں۔ افسوس کہ یہ حقیقت سعودی عرب میں آنکھ کھولنے والی پاکستانی نسل کو بہت دیر سے معلوم ہوئی۔ یہ حقیقت اس وقت معلوم ہوئی جب یہ نوجوان کسی نہ کسی کیس میں پھنس گئے اور انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ کسی زمانے میں ملک بدر ہونے والے افراد نیا پاسپورٹ اور نام کی تبدیلی کے ساتھ نئے ویزے پر دوبارہ مملکت آجاتے تھے مگر سعودی عرب نے فنگر پرنٹس اور آئی سکیننگ کا نظام وضع کر کے اس حیلے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔
اندرون سندھ کے شہر دادو جائیں یا جوہی کے ہوٹلوں سے آپ کا گزر ہو، کراچی کے بعض محلوں کا جائزہ لیں یا سرائیکی بیلٹ کو دیکھ لیں، آپ کو ہر جگہ سعودی عرب سے بے دخل ہونے والے نوجوان نظر آئیں گے جو کسی چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر آپس میں عربی میں باتیں کرتے ہوئے ملیں گے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے سعودی عرب میں آنکھ کھولی، پاکستانی پاسپورٹ کے سوا انہیں ملک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے گھر میں بول چال عربی تھی، ان کا طرز زندگی سعودیوں والا تھا اور سوچ و فکر کا انداز بھی مقامی تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں پاکستان کی ہوا کھانا پڑے گی۔ وہ کسی نہ کسی جرم میں گرفتار ہوئے، انہیں سزائیں ہوئیں اور ملک بدر کر دیا گیا۔
اندرن سندھ، سرائیکی بیلٹ اور کراچی کے بعض علاقوں میں سعودی عرب سے بے دخل کیے جانے والے بیشتر نوجوان منشیات کے کیسز میں پکڑے گئے۔  رات کے وقت سیر سپاٹے کرتے ہوئے کسی تفتیشی چوکی میں آئے اور تلاشی لینے پر ان کے پاس چرس کا سگریٹ یا محض اس کا ٹکڑا ملا جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جاتے جاتے ان کے فنگر پرنٹس اور آئی سکیننگ کی گئی۔ اب یہ زندگی بھر سعودی عرب واپس نہیں آ سکیں گے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں، ان کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں، ان کے گھر والوں نے بھی پاکستان میں کچھ نہیں کیا، اکثریت کا تعلق دیہی علاقے سے ہے، اس لیےان کی تعلیم کا معیار بھی پست ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ کسی اور ملک میں بھی جانے سے قاصر ہیں۔
ایسے سیکڑوں نوجوانوں سے ملاقات کرنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ سب کے حالات مختلف تھے مگر سب میں ندامت اور پشیمانی مشترک تھی۔ اور ہاں … سب نے ایک ہی بات کی … ’کاش ہم پاکستان میں کچھ کر لیتے‘ عربی کہاوت ہے: یا غریب، خلیك ادیب ’’اے اجنبی، دیار غیر میں ادب و آداب کا پاس و لحاظ رکھو‘‘
عبد الستار خان  
بشکریہ اردو نیوز، جدہ
0 notes
Text
عربی مقولہ
"مزاح کلام کا نمک ہے"
0 notes
gugegul · 3 years
Photo
Tumblr media
ایک عربی کہاوت کے مطابق اگر آپ خود کشی کرنا چاہتے ہیں تو سمندر میں چھلانگ لگا دیں۔ پانی میں گرتے ہی آپ ڈوبنے لگیں گے اور سانس بند ہونے لگے گی اور تھوڑی ہی دیر بعد روح پرواز کر جائے گی۔ لیکن اگر آپ نے، پانی میں گرتے ہی، ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ مرنا نہیں چاہتے۔ بس کوئی کام ایسا ہے، جو آپ نہیں کرنا چاہتے۔ شاید آپ کی زندگی میں کوئی شخص ہے جس کے ساتھ آپ نہیں رہنا چاہتے۔ کوئی واقعہ ایسا ہے جسے آپ بھول جانا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یا جہاں رہ رہے ہیں، وہاں ان لوگوں میں نہیں رہنا چاہتے۔ تو ان سب کا حل ہے۔ ان لوگوں کو چھوڑ دیں۔ اس علاقے کو بدل لیں۔ ہجرت کر جائیں۔ مگر خود کشی کا نہ سوچیں۔ کیوں کہ اصل میں آپ زندگی ختم نہیں کرنا چاہتے۔بس زندگی کا کوئی نا پسندیدہ پہلو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ #گل #گل_جی #رامے (at رامے ولاز) https://www.instagram.com/p/CQH2Ig5lJgt/?utm_medium=tumblr
0 notes
dhanaklondon · 5 years
Text
ریسرچ سکالر ادارہ:احمدمنیب لاہور پاکستان عالمی تنقید ی پروگرام نمبر 189بعنوان : در صنعت ضرب الامثال
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی جانب سے پیش کرتے ہیں عالمی تنقیدی پروگرام نمبر189
فی زمانہ دنیا کی ہر زبان دوسری زبانوں سے اثر پذیر دکھائی دیتی ہے۔ ہماری زبان اردو تو ہے ہی لشکری زبان!
تاریخ کے جھروکے اردو اصلاً برِّصغیر کی زبان ہے۔ اس کی جڑیں سنسکرت سے ہوتی ہوئی ازمنہ قدیم کی اُس اُمُّ الالسنة سے جا ملتی ہیں جو روسی علاقہ کی وادیِ یورَل اور قازقستان،ابقازیہ اور اوسیشیا کے علاقوں میں بولی جاتی تھی جسے ماہرین علمِ لسانیات پروٹو اِنڈو یوروپین کے اسم سے موسوم کرتے ہیں۔ اس کا مخففPIE ہے اور یہی عام طور سے مستعمل ہے۔
دوسری طرف وہ ہزار برس کا عرصہ جس میں برِّصغیر پر مختلف مسلم قبائل کا تسلط اور اثر و رسوخ رہا اس دوران اردو پر عربی ،فارسی اور تُرکی بھی اثر پذیر ہوئی۔ فارسی اور ترکی کا اثر تو یوں رہا کہ سنسکرت اور فارسی کا شجرہ دوچار صدیاں اوپر جا کر مل جاتا ہے۔ عربی کا اثر یوں ہوا کہ برصغیر میں اردو کی ابتدائی بول چال کو عام کرنے کا سہرہ مسلمانوں کے سر بندھا۔ ہاں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے ہر طبقہء عوام میں یہ زبان عام ہو گئی۔ کُچھ پر جوش لکھنے والے تو یہاں تک پہنچ گئے کہ وہ آج اردو کو مشرف بہ اسلام کر کے خالصۃً مسلمانوں کی کیا بلکہ ایک اسلامی زبان قرار دے دینا چاہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ مذہب انسانوں کا ہوتا ہے،زبانوں کا نہیں ۔ زبان تو جیسے آغوشِ مادر ہے جو اپنے ہر بچے کے لئے ہمیشہ وقف رہتی ہے بعینہ جس نے زبان کو اپنا لیا، زبان اسی کی ہو گئی۔ جیسے کثیر الاولاد ماں کا کوئی ایک بچہ ماں کی مامتا پر بلا شرکتِ غیرے قبضہ نہیں جما سکتا اُسی طرح کوئی ایک ملک، انسانوں کا گروہ، یا کوئی ایک قوم یا قبیلہ، کسی زبان کو زبردستی اپنی کہہ کر دنیا کے باقی لوگوں کو اس زبان کی قبولیت سے بے دخل نہیں کر سکتا۔ اور کسی بھی زبان کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ ہر قوم اور قبیلہ اور ہر علاقہ کے لوگ وہ زبان بولتے اور اسے اپنی زبان سمجھتے ہوں ۔ بنیادی طور سے صوتیات اور اُن کا باہمی تال میل اور رشتہ داری کے میکینزم کو علمِ لسانیات کی اصطلاح میں phonology کہتے ہیں ۔اور پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ صوتیات کی تنظیم سے بننے والے الفاظ کس طرح محاورہ جات کو جنم دیتے ہیں۔
صوتی اکائیوں سے الفاظ کی بناوٹ کا عمل و نظام علم لسانیات کی اصطلاح میں morphology کہتے ہیں ۔ یعنی الفاظ کو جوڑ کر با معنیٰ جملے کیسے معرض وجود میں آتے ہیں؟ اسے گرامر کہتے ہیں۔ سو یہ زبان کی تنظیم اور پہچان کا شجرہ ہے جبکہ طرزِ تحریر بہت بعد میں آتا ہے۔ در اصل کوئی بھی زبان کسی بھی طرزِ تحریر میں لکھی جا سکتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے بولنا تو اپنی خلقت کے ساتھ سیکھا تھا یا وہ اس کو اپنی خلقت کے ساتھ لے کر آیا تھا، لیکن طرزِ تحریر ہزاروں برس بعد تجربات اور مشاہدات سے ایجاد ہوا۔ یہ بات ہر زبان کے ساتھ درست ہے۔ ہندوستان سے اردو کو ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ کچھ بھی نہ ہوا تو بمبئی کی فلم انڈسٹری اردو کو قائم رکھے گی۔ ہندی دیوناگری میں اردو لکھی جا رہی ہے، ہمیں یقین ہے کہ کچھ دنوں میں دیو ناگری میں نئے حروف ایجاد ہو جائیں گے جو ز،ذ، ظ اور ض وغیرہ کے صوتی آہنگ لیے ہوں گے۔
یاد آیا اختر شیرانی کے والد ماجد حافظ محمود شیرانی نے پنجاب میں اردو کتاب میں یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو کا ماخذ عربی ہے کیونکہ اس کا رسم الخط یعنی نستعلیق عربی نسخ سے ماخوذ ہے۔ دراصل نستعلیق ہم نے فارسی سے مستعارلیا ہے۔ اور فارسی نے اس کو عربی سےلیاتھا۔ بہر حال علمائے لسانیات کی تحقیق جو کہ واضح شواہد رکھتی ہے، یہی ہے کہ اردو کی بنیاد، یعنی اس کا صوتی ساختیہ، خاص طور سےاس میں متحرک صوتیات(vowels)کا نظام کامل طور پر کھڑی بولی کا ہے جو کہ سنسکرت کی بیٹی ہے۔ کھڑی بولی کے سب سے پہلے شاعر کبیر داس ہیں۔ البتہ عربی کے امتزاج سے اردو میں بہت سی صوتیات در آئی ہیں جو سنسکرت کی کسی شاخ میں نہیں پائی جاتیں۔ سب سے زیادہ واضح مثالز کی آواز ہے۔ ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں کہیں بھی ز کی آوا ز نہیں ہے۔ چاہے آپ نیپال چلے جائیں چاہے سری لنکا، یا آپ بنگال اور آسام کو دیکھ لیں یا بمبئی، پونا اور گوا کی زبانیں دیکھ لیں یا گجراتی اور سندھی کو پرکھ لیں۔ علاوہ ازیں ذ،ظ، ض اور دوسری طرف ص اور ث وغیرہ۔ یہ خالص عربی صوتیات ہیں۔ ان سب آوازوں کی وجہ سے اردو کا اپنا ایک انوکھا مزاج ہے اور اس کے الفاظ اور محاورات میں ایک خاص معنویت پیدا ہو گئی ہے۔خاص طور سے عربی کی شاعری نظام سے اردو نے بہت اکتساب کیا ہے۔ پروٹوانڈو یوروپین کا زمانہ آج سے دس ہزار سال قبل کا ہے۔ جسے برونز ایج کہتے ہیں ۔ یوروپ کی آخری آئس ایج یعنی ازمنۂ جمادی کے اختتام پر اس کا آغاز ہوا اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں رہائش پذیر باہر نکلے، جمے ہوئے دریا بہ نکلے، زمین نے انتہائی خوشگوار سانس لی اور زرخیزی نے تیزی سے ترقی کی۔ جنگل تو پہلے ہی سے موجود تھے، انسان نے کاشت کاری شروع کی۔ جانوروں کا شکار کر کے اور گرمی کے صرف تین ماہ کے دوران پھل ترکاری پر گزارہ کرنے والے طرح طرح کی فصلیں اگانے لگے۔ اُنہوں نے گھوڑوں کو سَدھایا۔ پہیہ ایجاد کیا، دو پہیے جوڑ کر گاڑیاں معرض وجود میں آئیں اور چار کو جوڑ کر رتھ بنائے گئے۔ یوں دور دور کے سفر کے قابل ہو گئے۔
ان کے تین بڑے گروہوں نے مختلف علاقہ جات میں ہجرت کر کے آبادکاری کی۔ ایک گروہ اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں وارد ہوا۔ اس سلسلہ سے سنسکرت وجود میں آئی اور اسی سنسکرت کی بیٹیاں شور سینی اور پراکرت کی مختلف شاخیں بنیں ۔جن میں برج بھاشا، اودھی، بُندیلی اور کھڑی بولی ہیں جب کہ دوسری طرف بنگالی ، آسامی، مراٹھی،وغیرہ ہیں۔ ہندوستان کی پرانی زبانیں دراوِڑ خاندان کی مرہون منت ہیں۔ جب ہندوستاں کے شمال میں یوروپ کے برفانی علاقوں سے آنے والے آریائی آباد ہوئے تو انہوں نے دھیرے دھیرے مقامی دراوڑ بولنے والوں کو جنوب اور جنوب مغرب کی طرف دھکیل دیا۔ لہٰذا اب دراوڑ زبانیں بولنے والے جنوبی ہندوستان اور سری لنکا تک جا پہنچے۔اِن زبانوں میں تامِل، تیلگو، ملیالم اور کنّڑا وغیرہ شامل ہیں ۔ حیدر آباد دکن کی بولی میں دراوڑ کے اثرات آج بھی پائے ہیں۔
آریائی اقوام کا دوسرا گروہ ایران اورافغانستان نیز وسطی ایشیا کہ کچھ میدانی علاقوں تک پہنچا۔ وہاں اویستھا اور پہلوی زبانوں نے جنم لیا جس سے فارسی، داری اور ہندکو وغیرہ ایجاد ہوئیں ۔
ان کا تیسرا گروہ یوروپ کے میدانی علاقوں آباد ہوا۔ یوروپ کے علاقوں میں اُبھرنے والی زبانوں کے دو بڑے گروہ ہیں ۔ ایک جرمینِک، جس میں انگریزی،نارویجین، ڈینِش، ولندیزی اور جر من زبانیں ہیں۔ دوسرا بڑا گروہ رومانس دو قدیمی زبانوں کا ماخذ بنا۔ لاطینی اور یونانی۔ لاطینی سے فرانسیسی، ہسپانوی اور دیگر اطالوی زبانوں نے جنم لیا۔ بالٹِک اور سلاوِک زبانوں کا بھی ایک گروہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے زبانوں کے کئی گروہ ہیں ۔
ان زبانوں کے ارتقا میں علاقائی اور معاشرتی روایات ، معاشی حالات اور مذہبی روایات و رسوم کا بھی حصہ ہے جو وقتاً فوقتاً اُن جغرافیائی علاقوں میں رہے ہیں۔ مثلاٙٙ ابتدا میں چونکہ سبھی لوگ سخت سردی والے علاقہ کے مقیم تھےاور سب طرف برف ہی برف تھی، ان کے لئے آگ کی بڑی اہمیت تھی اور وہ سورج کو زندگی کا ماخذ سمجھتےتھے۔ چنانچہ ان تمام اقوام میں سورج اور آگ کی پرستش عام تھی بلکہ آج بھی ہے۔ ہندوؤں میں آگ کا ہَوَن آج بھی ہوتا ہے اور وہ سورج کو دیوتا مانتے ہیں۔ ایرانیوں کا پرانا مذہب آتش پرستی رہا ہے اور آج بھی دنیا میں ہر جگہ آتش پرست زرتشتی پائے جاتے ہیں ۔ سابق شاہِ ایرا ن بڑی شان سے خود کو آریہ مہر کہلواتے تھے،یعنی آریاؤں کا آفتاب۔یوروپ میں مذہب کی اہمیت اب بہت کم ہو گئی ہے لیکن اگر آپ پیرس جائیں تو آپ کو محرابِ فتح (arc de triomphe ) میں جلتا ہوا الاؤ نظر آئے گا۔ وہ آگ کبھی نہیں بجھتی۔ اسے نیپولین نے اپنی فتح کے نشان کے طور پر بنوایا تھا۔
اسی نسبت سے دیا شنکر نسیم نے لکھا:
شمع نے آگ رکھی سر پہ قسم کھانے کو بخدا میں نے جلایا نہیں پروانے کو
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں قسم کھانے کے لئے سر پر آگ رکھنے کی ریت عام تھی۔
محاورہ اور ضرب المثل: محاورہ اور ضرب المثل عربی اصطلاحات ہیں ۔
محاورہ مادہ ح۔و۔ر۔ سے بہت سے الفاظ بنتے ہیں۔ چند ایک ملاحظہ ہوں’ (۱)تحویر یعنی کسی چیز کی حالت کو تبدیل کرنا۔ (۲) محور اُس کیل کو کہتے ہیں جو چکّی کے نیچے والے پاٹ کے بیچ گڑی ہوتی ہے اور اوپر والا پاٹ اُسی کے گِرد گھومتا ہے۔ (۳) حِوار ، ح پر زیر کےساتھ، کے معنیٰ ہیں کسی مسئلہ پر بحث کرنا نیز مکالمہ۔ مزید براں کسی ڈرامہ کی اسکرپٹ یا منظر نامہ کو بھی حوار کہتے ہیں۔ (۴) محاورہ،م پر پیش کے ساتھ، کے معنیٰ ہیں بات چیت، بول چال اور گفتگو۔ لفظِ محاورہ اردو زبان میں مستعمل ہے جس میں یہ چاروں معنیٰ سموئے ہوئے ہیں ۔ زبان کا محاورہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ ہر زبان کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں اور اس زبان کی نثر اور نظم اور روز مرہ کی بول چال انہی اصول کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ یعنی وہ اصول زبان و بیان کو آگے بڑھانے میں چکی کی کیل کا مقام رکھتے ہیں۔
  ضرب المثل عربی کا ایک مادّہ ہے: م۔ث۔ل۔ اس کا مطلب ہے دو ایسی اشیا کا آپس میں تقابل کر کے کسی ایک کو دوسری جیسا ظاہر کرنا جہاں کسی ایک صفت کو بہت زیادہ بڑھا کر بیان کرنا مقصود ہو یا کسی ایک صفت کو تنقیص مطلوب ہو۔ مثلاٙٙ: علی شخص شیر کی طرح بہادر ہے۔ یہاں شخصِ مذکور کی دلیری کو اُجاگر کرنا ہے اس لئے اس کو شیر کے مقابل لا یا گیا۔ یا یہ کہنا کہ: یہ گھر تو گھورے کی طرح گندہ ہے۔ یہاں گھر کی گندگی کو ظاہر کرنے کے لئے اس کا مقابلہ گُھورے سے کیا گیا۔
ضرب تیسرا لفظ ض۔ر۔ب۔ جس کے اصل معنیٰ تو ہیں مارنا، پیٹنا۔ چاہے ڈنڈے یا تلوار سے۔ لیکن جب ضرب المثل کہیں تو اس کے معنیٰ ہوں گے: مثال دینا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَیِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ تُؤْتِی أُكُلَہَا كُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا ۗ وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَكَّرُونَ
ترجمہ:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی مثال اُس پاک درخت سے دی ہے جو مضبوطی سے اپنی جڑوں پر قائم ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوں ۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر موسم میں پھل لاتا ہو۔ اور اللہ تو مثالیں دیتا ہی ہے تاکہ لوگ اس کا ذکر کرتے رہیں ۔ قرآن کریم نے پاک کلمہ کی مثال ایک ایسے مضبوط درخت سے دی جس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی اسےہلا نہیں سکتا اور وہ ہر موسم میں پھلتا پھولتا ہے۔ بس کلام کوئی بھی ہو اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مضبوط دلائل پر قائم ہو اور زمین و زمان میں ہرسامع و قاری اس کلام سے استفادہ کر سکے۔
ضرب المثل اور ہماری زبان ضرب المثل کو ہماری پراکرت میں کہاوت اور انگریزی میں proverb کہتے ہیں۔اس کے بر عکس محاورہ کا انگریزی بدل idiom ہے۔
ایسے محاورے اور کہاوتیں کثرت سے ملتی ہیں جنہیں اردو روزمرہ میں قرآن و حدیث سے براہِ راست قبول کر لیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو خالصتاٙٙ مسلمانوں کی زبان ہو گئی ہے۔ ایسے اثرات دیگر زبانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔مثلاً انگریزی زبان میں بائیبل سے لیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب قطعاٙٙ یہ نہیں کہ انگریزی عیسائیوں یا یہودیوں کی زبان ہو گئی ہے۔ کچھ اور مثالیں ملاحظہ ہوں: روز مرّہ کہاوت ہے۔ اللہ کا بول بالا! آیتِ قرآنی ہے۔ كَلِمَۃُ اللَّہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ الحَمدُلِلّٰہ، اِن شاء اللہ، سُبحان اللہ،اللہُ غَنِی ،ماشا اللہ وغیرہ یہ سب قرآنی جملے ہیں ۔قرآن و حدیث کے علاوہ بہت سے عربی کے محاورہ جات ہیں جو اردو روز مرہ میں جگہ پا گئے ہیں، یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف ایک اور مثال پر اکتفا ہے کہ: مَدَّ رِجلَہُ بِقدرِلحِافِہِ۔ ہم نے لحاف کو چادر میں بدل دیا اور محاورہ یوں ہو گیا: چادر دیکھ کے پاوں پھیلاؤ۔
فارسی سے بھی محاورہ جات بھی اردو میں در آئے۔ اردو ہندی کی بیٹی ہے اور فارسی کا دودھ پی کر پلی کے مصداق قدیم زمانہ سے اردو کی تعلیم کے ساتھ فارسی بھی برابر پڑھی جاتی ہے نیز اٹھارویں صدی کے نصف تک دہلی میں حکومتی زبان فارسی ہی رہی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مُردہ شود۔ من تُرا حاجی بگوئم تو مراپاجی بگو۔ آمدن با ارادت و رفتن با اجازت۔ آب آید تیمم برخواست۔ گاہے گاہے بازخواں قصہء پارینہ را۔ خالص اردو کے محاورے وہ ہیں جو کلچر اور جغرافیائی حدود کی وجہ سے معرض وجود میں آئے۔مثلاً: دھوبی کا کٙتّا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔
سب سے زیادہ دلچسپ وہ محاورہ جات ہیں جو بغیر کسی لفظی تبدیلی کے اپنے استعمال کی وجہ سے مختلف معنیٰ دیتے ہیں یا ذرا سی لفظی تبدیلی سے ان کے معنیٰ بدل جاتے ہیں اساتذہ نے ان محاورہ جات سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ مثلاٙٙ غالب کہتے ہیں:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اُس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
غالب نے اس شعر میں تین محاورے استعمال کئے ہیں اور تینوں ﴿بنانا﴾ کے فعل سے بنائے گئے ہیں ۔
ا۔سنائے نہ بنے ۔ دوسرے کو بات سنانا یعنی سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔
۲۔ بنے بات۔ کام ہو جانا، کامیابی حاصل کرنا۔
۳۔ بات بنانا۔ منھ سے بات نہیں نکل رہی ہے، عزت کے ساتھ مفہوم ادا نہیں ہو پا رہا ہے، کچھ چھپانا ہے کچھ بتانا ہے، جو چھپانا ہے وہ ظاہر ہوا جا رہا ہے، جو ظاہر کرنا ہے اس کے لئے منہ میں ا لفاظ نہیں آ رہے ہیں یا ذہن ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ ﴿بات بننا ﴾ اور﴿ بات بنانا﴾ میں بہت لطیف فرق ہے۔ باعتبارِ گرامر یہ صرف فعلِ لازم اور فعل متعدی کا فرق ہے مگر دیکھئے کہ اس فرق سے محاورہ کہاں سے کہاں سے لے جاتا ہے۔
یہ اُردو کا لفظ ﴿ بنانا﴾عربی کے مادہ ب۔ن۔ی۔ سےمشتق ہے۔ عربی کے اس لفظ کے معنی وہی ہیں جو انگریزی کے ا��فاظ To build اورTo construct سے ادا ہوتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی والے بھی اس لفظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ہندوستان کی کسی زبان کا لفظ ہو۔
اردو/ہندی دونوں پروٹو۔انڈو۔یوروپین (PROTO۔INDO EUROPEAN) لسانی خاندان سے متعلق ہیں ۔ عربی اس کے بر عکس ایک سامی(SEMITIC) زبان ہے۔ محققین نے تقریباً ۱۲۰۰ پروٹو۔انڈو۔یوروپین لسانی مادے دریافت کئے ہیں ۔ یہ فہرست شائع بھی ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی مادہ لفظِ “بنانا” کے لئے نہیں ملتا۔ سنسکرت کا ہم معنیٰ مادہ ﴿بھو﴾ (B۔H۔U) ہے۔ جس کے معنیٰ ہیں (ہونا)۔ اسی سے انگریزی کا لفظ BUILD بھی ہے اور جرمن زبان کا لفظ BAU بھی ہے۔ اردو/ہندی کا لفظ ﴿بَھوَن﴾ بمعنیٰ محل بھی اسی مادہ سے بنا ہے۔
ایک اور بہت ہی دلچسپ استعمال اس لفظ کا وہاں ہوتا ہے جہاں ہم نوبیاہتا جوڑے کو دعا دیتے ہیں : بنا اور بنی کی یہ جوڑی ہمیشہ بنی رہے۔ جہاں تک میرا تجزیہ ہے لسانیات ایک ایسا دلچسپ موضوع ہے جس سے علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تفنن طبع کا سامان بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ محاورے کی تعریف ہم نے مثلاٙٙ عربی کے لفظ نصیحت کا مادّہ ن۔ص۔ح ہے۔اس کے تین مختلف معنیٰ ہیں 1 کوئی کام خلوصِ دل سے کرنا انگریزی میں SINCERITY کہتے ہیں 2 ایسا کام جس سے ایک اچھی مثال قائم ہو 3 پھٹا ہوا لباس سینا نصاحۃ الثوب کہتے ہیں۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں یہ تشریح کی ہے۔یہ سب مفاہیم قرآن کریم کی آیت ۶۶:۸ میں آ کر واضح ہو جاتے ہیں :
یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا…… اردو ناول کے بابا آدم ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے اپنے مشہور ناول “توبۃ النصوح” میں بھی التزام یہ رکھا کہ اپنے ہیرو کا نام نصوح رکھ دیا۔ یوں اس لفظ کے معنیٰ میں ایک اضافہ کر دیا کر کے اس سے ایک اسمِ معرفہ یعنی PROPER NOUN تخلیق کر دیا۔ خیر یہ تو ڈپٹی صاحب کی ذہانت کا کمال ہے۔ سورۂ یوسف میں ناصحون کا لفظ پُرخلوص اور خیر خواہ کے معنیٰ میں آیا ہے۔ اردو میں یہ لفظ انہی معنیٰ میں آتا ہے۔ غالب نے اپنے شعر میں یہ لفظ لا کر اور وضاحت کر دی:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غم گُسار ہوتا
بات تو یہی ہے کہ نصیحت دینا سچے دوست کی علامت ہے مگر یہاں تو ضرورت چارہ سازی اور غم بٹانے کی تھی۔ بہرحال بہت سے لوگ اپنی روز مرہ گفتگو میں الفاظ، محاورات اور ضرب الامثال کے حوالے سے بےاحتیاطی برت جاتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیرکہ اس کے باعث ہم بہت بڑی غفلت اور خطا کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ مثلاٙٙ 1 – صلواتیں سُنانا: (محاورہ) فیروزُاللُّغات کے مطابق صلوات کا معنی اور مفہوم ہے: برکتیں اور رحمتیں، جو نبی پاک ﷺ کے حق میں ہوں۔ یہ صلوة کی جمع ہے یعنی درود، دُعا اور نماز۔ لیکن اُردو محاورہ میں ’’صلواتیں سُنانا‘‘ دشنام طرزی کے لیے مستعمل ہے۔ 2 – نمازیں بخشوانے گئے اور روزے گلے پڑ ے: (کہاوت) (اُردو مفہوم) ’’ایک کام سے پیچھا چھُڑانے کی کوشش میں دُوسری مہم (یا مصیبت) ذمّہ پڑ گئی۔‘‘ اوّل تو اِسلام کی بُنیادی عبادات کے متعلق ایسا گُستاخانہ تصور اورطرز تکلّم بہت بڑی جسارت کے زُمرہ میں آتا ہے، جو ہمارے دین کے ان دو ارکان کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے، لیکن یہ جسارت اس پس منظر میں اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب اس کا اشارہ یا حوالہ حضور پاک ﷺ کے سفر معراج سے متعلق اس روایت سے جا جڑتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے روبرو اُمّت کے لیے سب سے پہلے پچاس نمازوں کو فرض قرار دِیا مگر حضور پاک ﷺ نے اپنی اُمّت پر بوجھ جان کر نمازوں کی تعداد میں کمی کی سفارش فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعداد کے کئی بار تعیّن کے بعد بالآخر پانچ نمازوں کی حتمی تعداد مقرر کر دی گئی۔ بعض جاہل لوگ یہ تک بیان کر دیتے ہیں کہ اسی موقع پر جب روزوں کی فرضیت کی باری آئی تو پہلے زیادہ مُدّت کے روزے تجویز ہُوئے مگر اسے بھی اُمت ک�� لیے برداشت سے زیادہ پا کر آخر کار ایک مہینہ کے روزے فرض کر دیے گئے۔ حالانکہ واقعہ معراج مکی زندگی میں پیش آیا جبکہ روزے مدنی دور میں فرض ہوئے۔ یہ من گھڑت کہاوتیں اسلام دُشمنوں نے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو دین سے دُور کرنے کے لیے زبان و بیان میں رائج کی ہیں جنہیں لوگ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی گفتگو کا حصہ بنانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور کم علمی اور جہالت کی بنا پر کفر کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سفر معراج کے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ارکان دین کا مذاق اُڑانے کا حوصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جو نماز اور روزے سے بےزار اور سرے سے ان فرائض کا منکر اور تارک ہو۔ مگر ہمارے لیے زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم نتائج و عواقب کا احساس اور ادراک کیے بغیر بڑی سہولت سے ایسے الفاظ و محاورات کو غلط مفہوم میں بول جاتے ہیں اور شرکائےگفتگو بھی اسی سہولت سے انہیں سن کر ہضم کر جاتے ہیں۔ 3 – یار غار: (محاورہ) یہ تلمیح باقاعدہ طور پر ایک مخصوص محاورہ کا روپ دھار گئی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ’’یارِغار‘‘ جلیل القدر صحابی رسول ﷺ اور خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اُردو زبان میں رائج لقب یا خطاب بھی ہے، جنہیں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران نبی پاک ﷺ کی ہمراہی میں غار ثور میں قیام کا شرف حاصل ہُوا، مگر اُردو زبان و بیاں میں اسی واقعے کی نسبت سے کسی بھی شخص کے وفادار یا ’’حد سے زیادہ‘‘ وفادار ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (بالعموم استہزا، مذاق اور طنز کے طور پر) اسے’’یارِغار‘‘ سے موسوم کر دیا جاتا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی یہ حرکت ایک لحاظ سے نبی پاک ﷺ اور ان کے جاں نثار ساتھی، خلیفۂ اوّل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب ہے۔ اللہ ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) 4 – خُدا واسطے کا بَیر: (محاورہ) طنز اور مذاق میں بولے جانے والے اس محاورے کا تعلق غالباً تاریخ اسلام کے اس مشہور واقعے سے ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خودسر یہودی پر غلبہ پا کر اسے قتل کر ڈالنے کا ارادہ فرمایا، اس حالت میں کہ وہ یہودی پُشت کے بل زمین پر پڑا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ اس کے سینے پر سوار تھے۔ موت کو اس قدر یقینی طور پر قریب پا کر اُس یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر تھوک دِیا کہ نکلے آخری نفرت کی حسرت اسی حیلے دل کُفر آشنا سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یکسر غیرمتوقع ردعمل نے یہودی کو حیران اور ششدر کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس گستاخانہ حرکت پر انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر اُسے مار ڈالنے کے بجائے یہ کہہ کر معاف کر دِیا کہ اگر میں اس حالت میں تجھے قتل کر دیتا تو یہ ہمارا ذاتی معاملہ بن جاتا جبکہ میں ہر کام صرف اپنے اللہ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر کرتا ہوں اور فقط اُن لوگوں سے بیر رکھتا ہوں جو میرے اللہ سے بیر رکھتے ہیں۔ اب یار لوگوں نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ’’خُدا واسطے کا بیر‘‘ نامی محاورہ گھڑ لیا ہے، جس کا مطلب کُچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی شخص کِسی سے خواہ مخواہ رنجیدۂ خاطر ہو، جس کی کوئی ظاہری اور معقول وجہ بھی نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو فلاں کے ساتھ تو خُدا واسطے کا بَیر ہے۔‘‘ اب آپ غور فرمائیے کہ کہاں وہ بات اور کہاں یہ منطق؟ الفاظ کو منفی مفہوم دینے والے کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس واقعے کے بےمثال اخلاقی پہلو کو سامنے رکھ کر اور اسے اچھے معانی پہنا کر رائج کرتا کہ جس نے اُس یہودی کا پتھر دل موم کر دیا تھا اور وہ فی الفور کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہُوئے دین حق پر ایمان لے آیا تھا۔ 5 – بسم اللّٰہ ہی غلط: (محاورہ) کیا کُفریہ کلمہ ہے. بھلا بسمِ اللہ بھی غلط ہو سکتی ہے؟ یہ محاورہ تخلیق کرنے والے کا مطلب تو خیر یہ ہو گا کہ جس آدمی کو بسمِ اللہ ہی ٹھیک طرح سے پڑھنی نہ آئے، اُس سے قُرآن پاک کی تلاوت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے، اِسی طرح کام کی اِبتدا میں غلطی کرنے والا یقیناً اس کام کو بگاڑ کر دَم لےگا۔ مگر آپ ذرا الفاظ کی ترتیب اور تشکیل پر غور فرمائیں، اس سے کیا مفہوم برآمد ہو رہا ہے؟ ہم تو بسم اللہ کو (معاذاللہ) غلط کہنے اور سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ایسا حوصلہ وہی جاہل لوگ کرتے ہیں جو دین سے دور اور علم سے بےبہرہ ہوتے ہیں۔ دین کا درست فہم رکھنے والے ہر مسلمان فرد کا فرض ہے کہ وہ ایسے محاورات کو بول چال میں شامل کرنے کی حوصلہ شکنی کرے اور اپنے دوست احباب اور اہلِ خانہ کو ایسے الفاظ کے مفاسد سے آگاہ کرے، جو ان الفاظ کو بغیر کسی تکلّف کے بولنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ 6 – مُوسیٰ بھاگا گور سے اور آگے گور کھڑی: (کہاوت) ذرا سوچیے کہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کیا واقعی موت سے اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام تھے کہ اس فنا ہو جانے والی دُنیا میں زندہ رہنے کی خاطر موت سے چھُپتے اور بھاگتے پھرے مگر موت نے پھر بھی اُنھیں آلیا؟ بہرحال ہمیں تو بتانے والوں نے یہی کچھ بتایا ہے، ممکن ہے اس میں یہ ’’اخلاقی سبق‘‘ پنہاں ہو کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور دُنیا کی زندگی ناپائیدار اور مِٹ جانے والی ہے، یہ ذائقہ ہر ذی رُوح نے چکھنا ہی چکھنا ہے، خواہ وہ اللہ کا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اِنسان دُنیا کی زندگی غنیمت جانتے ہوئے نیک اعمال کو حرزجان بنائے اور بداعمالیوں سے دست کش ہو جائے۔ لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہم بڑی روانی اور سادگی سے بول جاتے ہیں، اس سے کہیں کسی مقدس اور متبرک ہستی کی توہین اور ہتک کا پہلو تو برآمد نہیں ہو رہا؟ کم از کم اس محاوراتی فقرے سے تو یہی کچھ ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ ہم اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں کہ آپ کو اس سے بچنے کی تلقین کریں اور دوسروں کے لیے بھی ایسی جسارتوں سے باز رہنے کی دُعا کریں! 7 – لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا (کہاوت) یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی لکھی ہُوئی خراب تحریر (Hand Writing) صاف پڑھی نہ جا رہی ہو۔ اب پتہ نہیں نالائق لوگوں کی خراب لکھائی کا تعلّق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اور مقصد کیا تھا؟ ہر زبان میں رائج ضرب الامثال کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی یا واقعہ پوشیدہ ہوتا ہے، جو بزرگوں اور اہلِ عِلم کی زبانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ایسے واقعات بیان کرنے میں مولانا اشرف صبوحی مرحوم خاص مہارت رکھتے تھے اور ان کا اُردو زبان و ادب کی تاریخ پر بڑا عبور تھا، لیکن جس کہاوت کا ذکر اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کے پیچھے حقیقت کا کھوج نکالنے میں بڑے سے بڑا عالم بھی ناکام ہو جائےگا۔ کہہ لیجیے کہ یہ نامعقول محاورہ بس یونہی زبان وبیاں میں رائج ہو گیا ہے، اس کا حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی کے ساتھ کچھ تعلّق نہیں، اور یہ بھی کہ ہمیں اللہ اور اس کے نبیوں کے بارے ایسی گستاخیاں زیب نہیں دیتیں۔ نوٹ: اس کہاوت کے بارے یہ وضاحت آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اُوپر لکھے الفاظ علم کا دعویٰ رکھنے والے بڑے بڑے اُردو دان لوگ تیزی اور روانی میں اس طرح بول جاتے ہیں جس سے سُننے والوں کو غلط فہمی ہوتی ہے، جبکہ ایک عالم دین کی وضاحت کے مُطابق کہاوت مذکور کے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’ لکھے مُو(بال) سا، پڑھے خود آ۔‘‘ یعنی جو شخص بال کی طرح باریک لکھتا ہے کہ دُوسروں کے لیے اسے پڑھنا دُشوار ہو تو اسے خود ہی آکر پڑھے، کوئی اور تو اسے پڑھنے اور سمجھنے سے رہا۔ تعجب ہے کہ اُردو کی بڑی بڑی لُغات اور قواعد کی کُتب میں یہ کہاوت عنوان کے مطابق غلط طور پر لکھی ہوئی پائی گئی ہے، جس سے آپ علم کی نشرواشاعت کے ان نام نہاد مدعیوں اور ذمہ داروں کی علمی سطح کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔
چند منتخب قرآنی ضرب الامثال​
۱۔ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (سورۃ البقرۃ : 19)
اور اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرنے والا ہے
۲۔ اِنََّاللَّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرۃ :20 )
بیشک اللہ ہر چیز پر قدر ت رکھنے والاہے۔
۳۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ (البقرۃ : 152)
اس لئے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا۔
۴۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرۃ : 153)
اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے۔
۵۔ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : 4)
اور بیشک آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر ہیں۔
۶۔ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ : 191)
اور(سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔
۷۔ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرۃ : 256)
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔
۸۔ لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا (سورۃ البقرۃ : 286)
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا۔
۹۔كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ(العمران 185 )
ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے۔
۱۰۔ وَكَفَى بِاللّهِ وَكِيلاً (النساء : 81)
اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔
۱۱۔ لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم : 39)
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
۱۲۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (الرحمٰن : 26)
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔
۱۳۔ لاَّ يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ: 79)
جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
۱۴۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (البقرۃ : 156)
ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
۱۵۔ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذٰاریٰت : 19)
اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا ۔
۱۶۔ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ (العمران 103 )
اور سب مل کر اللہ کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
۱۷۔ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق : 16)
اور ہم اسکی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس سےقریب ہیں۔
۱۸۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (سورۃ الحجرات : 13)
بیشک اللہ کے نزدیک تم سب میں سےبا عزت وہ ہے جو زیادہ ڈرنے والا ہے۔
۱۹۔ هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلاَّ الإِحْسَانُ (سورۃ الرحمٰن : 60)
احسان کی جزا سوائے احسان کے نہیں۔
چند ضرب الامثال
آ بلا گلے پڑ، نہیں پڑتی تو بھی پڑ آ بننا آ بیل مجھے مار آ بے سونٹے تیری باری ۔ کان چھوڑ کنپٹی ماری آ پڑوسن لڑ ، لڑیں آ پھنسی کا معاملہ ہے آ پھنسے کی بات ہے آب آب کر مر گئے ، سرہانے دھرا رہا پانی آب آمد تیمم برخاست آب از سرگزشت آب بر آئینہ ریختن آب چو از سرگزشت ، چہ یک نیزہ چہ یک دست آبوا لڑیں، لڑے ہماری بلا عالمی اداعہ۔بیسٹ اردو پوئٹری کا پروگرام نمبر 189 درصنعت محاورہ و ضرب الامثال مورخہ 12 جنوری 2019 ء کی شام 7 بجے پاکستانی اور 7:30 ہندوستانی وقت کے مطابق ادارہ کے تحت یہ پروگرام منعقد کیا گیا جس میں شعرا نے اپنا کلام پیش فرمایا۔ صدارت کی مسند پر جناب ریاض انور بلڈانہ بھارت متمکن ہوئے۔ مہمانِ خصوصی محترم علی شیدا کشمیر سے اور جناب عامر حسنی ملائشیا سے تشریف لائے۔ مہمانان اعزازی میں جناب جعفر بڈھانوی بھارت اور محترمہ غزالہ انجم بورے والا پاکستان سے تشریف لائیں۔ ناقدین حضرات میں محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب اور جناب غلام مصطفےٰ دائم اعوان صاحب پروگرام میں حاضر رہے اور قیمتی آرا سے نوازا۔ محترم مسعود حساس صاحب کی طرف سے نقدونظر کا انتظار ہے۔ تلاوت کلام پاک سے خاکسار راقم الحروف احمدمنیب نے اس مجلس کا بابرکت آغاز کیا۔ مناجات بھی خاکسار نے پیش کی اور دوشعرا نے نعتیہ کلام پیش کرنے کی سعادت پائی۔ ذیل میں سب شعرا کا نمونہ کلام بمعہ نقد و نظر از طرف محترم غلام مصطفیٰ دائم اعوان پاکستان پیش خدمت ہے:
مناجات اب تو ایسا وصال دے یا رب جان مردے میں ڈال دے یا رب
جو بھی سوچوں دعا میں ڈھل جائے سوچ کو وہ کمال دے یا رب احمد منیب
پیروئ اسوۂ احمد سعادت ہے جمیل اس لئے سب کو اطاعت لازمی ہے آپ کی میاں جمیل احمد
سر کی ، اس کاغذ کو دے زیـنت قرار نام احسؔـــــن لکـھــے جــس پـر آپ کا وســـــــــیم احـســـــــــؔن جـامـعـہ نـوریـہ شـمـس الـعـلـو
پروگرام نمبر 189 درصنعت محاورہ و ضرب الامثال ہاتھ رکھتا ہے تو ہر زخم صدا دیتا ہے یہ مسیحا ہے جو شعلوں کو ہوا دیتا ہے احمدمنیب
غم ہی اصغر ہے جو کہ دنیا میں “ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں” اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا
آج ہیں آئینہ بکف صابر اپنے چہرے کی جانچ کرتے ہیں صابر جاذب لیہ
تضحیک کا پہلو تھا بتاوْ کوئی دیپ سورج کو دکھا یا تو برا مان گئے اخلادالحسن اخلاد جھنگ
تُم مُسافر ہو روبینہ یہ سفر جاری رکھو اُنگلیاں تو اُٹھتی رہتی ہیں یہاں فنکار پر روبینہ میر انڈیا جموں و کشمیر
اس لئے لوگ بھی کم هی مجھے پهچانتے هیں میں نے چہرے په کوئی چہره لگایا هی نہیں ماورا سید کراچی
کچھ ایسا ہی حال ہے تیرا ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا شاہ رخ ساحل تلسی پوری
خدا زمین کے دیں گے تجھے دغا آخر بھروسہ کچھ نہیں ارشاد ان سہاروں کا ڈاکٹر ارشاد خان
یہ حقیقت کاش گل بھی جان لے موت ہی کا راستہ ہے زندگی گل نسرین ملتان پاکستان
لوگ کہتے ہیں بے وفا اس کو پر ہمیں اعتبار ہے صاحب تسنیم کوثر
رات رکھے گی بھرم اپنا کہاں تک مینا جب اندھیروں کے تعاقب میں اجالے پڑ جائیں ڈاکٹر مینا نقوی۔۔مراداباد۔۔بھارت
برسوں کے بعد آئے ہو کچھ دیر تو رکو ایسی بھی کیا ہے جلدی کہ ’’ آج آئے کل چلے‘‘ عامرؔحسنی ملائیشیا
جان جاناں جان جاں جاں کردیا بند کوزے میں سمندر کردیا علی شیداّ،
سانچ کو آنچ جب نہیں انجم پھر یہ پرخوف آگہی کیا ہے غزالہ انجم
میرے حیلے سے کون بچ پایا جب مگر اشک میں بہاتا ہوں جعفر بڑھانوی بھارت
اس مشاعرہ میں محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم بھارت محترم مسعود حساس کویت اور جناب غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان نے نقد و نظر سے نوازا۔ جو الگ پوسٹ کیا گیا ہے۔ اس طرح ایک نہایت کامیاب پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہر طرف سے مبروک مبارک کی صدائیں بلند ہوئیں۔ توصیف بھائی.چیئرمین ادارہ۔ صابر جاب سیکریٹری ادارہ اور آرگنائزر احمدمنیب کو سب نے اس پروگرام کی کامیابی پر مبارک باد دی اور اسی طرح کامیاب پروگرام پیش کرتے رہنے کی دعا دی۔ رپورٹ احمدمنیب
عالمی تنقید ی پروگرام : در صنعت ضرب الامثال ریسرچ سکالر ادارہ:احمدمنیب لاہور پاکستان عالمی تنقید ی پروگرام نمبر 189بعنوان : در صنعت ضرب الامثال
0 notes
pakberitatv-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
https://goo.gl/tpbYVY
شہنشاہی سیاست .... مگر.... عوام کو کیا ملا ؟
آج پانامہ لیکس کے بعد تمام سیاستدان اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،شہنشاہی سیاست کو فروغ مل رہا ہے، اپنے ملک کی سینیٹ کو فتح کرنے کے لیے جوڑ توڑ کیے جارہے ہیں، عدلیہ اپنا کردار ادا کررہی ہے، اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار ادا کر رہی ہے، کاروباری شخصیات ان سیاستدانوں کو استعمال کرکے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن ان سب کاموں میں عام آدمی کو کیا مل رہا ہے؟ وہی مہنگائی میں 500فیصد تک کا اضافہ؟ وہی جعلی ادویات؟ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی؟ عوام جائیں بھاڑ میں بلکہ وہ تو 70سال سے بھاڑ ہی جھونک رہے ہیں۔ یہ مافیا اس بار بھی پیسے اور پبلک ریلشننگ کے زور پر اپنے مہرے چلا رہا ہے۔ پورے ملک کے ادارے لاچار بنا دیے گئے ہیں، پورے ملک کوافراد خانہ کے مطابق مختلف صوبوں میں تقسیم کرکے اسے خاندان میںبانٹ دیا گیا ہے۔ بس کرنسی نوٹوں پر نواز شریف کی تصویریں چھپنے والی رہ گئی ہیں، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ شریفستان رکھنے والا رہ گیا ہے۔
عوام کو کچھ ملے نہ ملے مگر ایک بات تو طے ہے کہ عوام کی خدمت کرنے والے اداروں کا کام ان شریفوں کو تحفظ دینا رہ گیا ہے ، ان کاکام جاتی امرا کو مقدس جمہوری مقام قرار دینا، جھنڈے کا چاند ستارہ تبدیل کرکے اس پر ان کے اپنے نشان اور نیاقومی ترانہ ترتیب دیا جانا باقی رہ گیا ہے۔ عوام کا کیا ہے وہ تو جلسے جلوسوں میں آہی جاتے ہیں۔ کیوں کہ شہنشاہ جب بلائیں تو عوام نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور پھر سب نے دیکھا کہ سینیٹ الیکشن میں کھربوں روپے چلے، چند قوتوں نے اسے ایسے فتح کیا جیسے سری نگر کو فتح کر لیا گیا ہو…. عوام کو کیا ملا؟ کیا اب بھارت پاکستان کا پانی نہیں روکے گا؟ کیا اب پاکستان کے خلاف جن محاذوں پر کام ہو رہا تھا وہاں رک جائے گا؟ اور پھر شہنشاہ سیاست کے بیٹے بلاول نے نواز شریف کا چیئرمین سینیٹ نہیں بننے دیا، واہ کیا بات ہے، مزہ آگیا مگر عوام کو کیا ملا؟ نواز شریف نے اپنی جگہ اپنے بھائی کو پارٹی صدر بنوا لیا، واہ کیا بات ہے،کیا قربانی ہے، کیا موروثیت ہے، کیا دیدہ دلیری ہے، کیا حوصلہ ہے، مگر…. عوام کو کیا ملا؟ نیب نے احد چیمہ کو گرفتار کیا، احد چیمہ نے اعتراف کیا کہ اس نے اربوں روپے کا غبن کیا، اس کی بیوی ، سسر اور دو چار لوگ اس کے سہولت کار تھے، کمال ہوگیامگر عوام کو کیا ملا؟پیراگون سٹی میں سعد رفیق نے 40کنال کی کوٹھی بنالی عوام کو کیا ملا ؟شریفوں نے 700ایکڑ پر محل بنا لیا، سینکڑوں فیکٹریاں لگالیں، عوام کو کیا دیا؟عدالتوں نے خادم رضوی اور افضل قادری کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا، ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ یہ بہت شاطر آدمی ہے، اس نے 20دن تک دارلحکومت کو یرغمال بنائے رکھا، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کا ساتھ دیا مگرعوام کو کیا ملا؟
آج ہمارے سیاسی اداروں کی ترجیحات ہیں کہ شریفوں کی پانامہ سے کس طرح جان چھڑائی جائے، شریفوں پر کیسز ختم کروائے جائیں ، عمران خان کوکیسے شکست دی جائے، نواز شریف کو کیسے پارٹی صدر منتخب کیا جائے ، مریم نواز کو کیسے حکومتی اختیارات دیے جائیں، کن کن پراجیکٹ کو شروع کیا جائے تو اتفاق فاﺅنڈری کا پہیہ بھی ساتھ چلے گا۔ لیکن میرے فاضل سیاستدانوں کو اس سے کیا لگے؟ عوام اور ملکی معیشت جائے بھاڑ میں ، ملک دیوالیہ ہو رہا ہے ، کوئی بات نہیں …. شہنشاہ سیاست نے سینیٹ کا قلعہ تو فتح کر لیا ہے ناں! عوام کا کیا ہے؟ وہ تو جب تک سانسیں ہیں تب تک زندہ ہیں۔ بقول عدیم ہاشمی
میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں جو سو گیا مری آنکھوں کو رت جگا دے کر
��لوچستان میں اسٹیبلشمنٹ نے بازی پلٹ دی، نیا وزیر اعلیٰ آگیا، جمہوریت کی فتح ہوگئی، مگر عوام کو کیا ملا؟عابد رضا جیسے مجرم نے مریم نواز کو لاکھوں کا تاج پہنا یا ، واہ کیا بات ہے پارٹی کارکنوں کی، انہوں نے تو شریفوں پر اپنا حق ادا کر دیا، مگر عوام کو کیا ملا؟ زرداریوں کی سندھ میں گزشتہ دس سال سے بلاشرکت غیرے حکومت ہے ، سندھ کے ہر ہر علاقے کو موہنجوداڑو بنا دیا ، تھر کے عوام تو آج بھی بھوکے مر رہے ہیں ، سندھ کے بیشتر علاقوں میں آج بھی عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، وہاں نہ کوئی سڑک، نہ کوئی سکول، نہ کوئی ہسپتال اور نہ کوئی لیبارٹری ہے،سپریم کورٹ کہہ کہہ کر تھک گئی مگر مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہوجائے اور محض کوڑا کرکٹ کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے ۔ اگر یہ پیارے سیاسی رہنما کوڑا تک نہیں اُٹھا سکتے تو ایسے شہنشاہ سیاست کو عوام نے چومنا تھوڑی ہے؟ اور کیا شہنشاہ سیاست کو چومنے سے مریض صحت مند ہوجائے گا، کیا سندھ کا باسی پڑھا لکھا ہوجائے گا؟ کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 1ہزار روپے ماہانہ حاصل کرنے والے یہ 21ویں صدی کے غریب محلوں میں رہنا شروع ہو جائیں گے؟ شرم کی حد تو یہ ہے کہ سندھ کا باسی آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ملیریا، ڈائیریا، چیچک، خوراک کی کمی سمیت بیشتر بیماریوں سے لڑ رہا ہے۔
آپ پنجاب میں آجائیں یہاں بھی 10سال سے شہباز شریف کی حکومت ہے، ہسپتال کہاں ہیں، تعلیمی ادارے کہاں ہیں؟دنیا کے مہنگے ترین پراجیکٹ بنانے میں شہباز شریف کا کوئی ثانی نہیں ہے، جہاں مفاد ہیں وہیں پراجیکٹ بھی لگادیے جاتے ہیں، نئے صوبے کوئی بنانے نہیں دیتا، جو پنجاب کے حصے کرنے کی بات کرتا ہے اس خاموش کراد یا جاتا ہے۔ جو عوام کے بھلے کی بات کرتا ہے اسے بدنام زمانہ کرکے رسواکر دیا جاتا ہے…. شہباز شریف ابھی تک اپنے جلسوں میں پچھلی حکومت کے رونے رو رہے ہیں…. کیا یہی کچھ عوام کوملنا ہے؟ اور ملتے رہنا ہے؟ کوئی بھی سیاستدان اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتا ؟
آج افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ سیاست جسے دنیا بھر میں عبادت سمجھ کر نبھایا جا رہا ہے پاکستان میں یہ ان ہزار خاندانوں کھیل بن چکا ہے جو کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہنے کے گر جانتے ہیں یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ زرداری اور عمران خان کو ساتھ ملا کر اپنی ہی پارلیمنٹ پر قبضہ جمایا جا رہا ہے؟ کیا ایسا کرنے سے عوام خوش ہو جائیںگے؟ خوشحالی اور امن کی آشا گھر گھر میں جھانکے گی؟ عوام کو ہسپتالوں میں دوائیاں نصیب ہو جائیں گی؟ انہیں سکول و کالج ملیں گے؟ انہیں کتابیں اور نوکریاں ملیں گی؟ اور سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ نواز شریف، زرداری اور عمران کے بچوں کو تو ہسپتال بھی دستیاب ہیں، تعلیمی ادارے بھی دستیاب ہیں، اور تو اورانہیں دنیا کی ہر وہ سہولت دستیاب ہے جس کی وہ آشا کرتے ہیں۔ حالانکہ اسٹیبلشمنٹ والوں کے بھی اپنے ہسپتال ہیں، اگر کسی کا کچھ نہیں ہے تو وہ عوام ہیں …. پاکستان سے کوئی مخلص نہیں ہے ۔ اگر کوئی مخلص ہوتا تو آج معیشت کا یہ حال نہ ہوتا۔ اس نام نہاد معیشت کے حوالے سے میں نے گزشتہ سال ہی نشاندہی کر دی تھی کہ مارچ کے آخر تک معاشی حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔
مارچ ختم ہونے والا ہے، کیا آج ڈالر کا ریٹ ایک ایک دن میں چارروپے نہیں بڑھ رہا؟آپ میرے کالم کا حوالہ چھوڑیں ہم تو ہیں ہی اس سسٹم کے باغی…. آپ گزشتہ ہفتے کے تمام قومی اخبارات میں شائع ہونے والی آئی ایم ایف کی سہ ماہی رپورٹ پڑھ لیں آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا جس کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرض 103ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا….پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کی مد میں اربوں ڈالر ابھی ادا کرنے ہیں، اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس ساڑھے 12 ارب ڈالر موجود ہیں ، پاکستان سود کی مد میں سالانہ 3 ارب ڈالرز ادا کررہا ہے جس سے معیشت کو مزید نقصان ہوگا…. آج پاکستانی معیشت سخت ترین دباﺅ کا شکار ہے، کرنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے، امپورٹ بل میں اضافے سے آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان مزید ادائیگیاں کرنے سے بھی قاصر ہوگا…. وغیرہ وغیرہ
اب بجٹ بھی ایک ماہ بعد آنے والا ہے۔ فرض کیا سو روپے کا بجٹ پیش کیا جائے گا، اس سو روپے کے قومی بجٹ میں سے پچاس روپے تو گزشتہ اور حالیہ حکمرانوں کے لیے گئے اندھا دھند ملکی وغیر ملکی قرضوں کے بیاج اور کنسلٹنسی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پچیس روپے دفاع میں گئے۔ بقیہ پچیس روپے میں سے بیس روپے سرکاری ڈھانچے کی تنخواہوں اور مراعات کے بلیک ہول میں گر جاتے ہیں۔باقی رہ گئے ��و میں سے پانچ روپے۔اس پانچ روپے میں 22کروڑ لوگوں کو کیا ملتا ہے ؟ کدو !!یا شہنشاہ سیاست کا سونے کا بستر؟ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ جب عوام کو کچھ نہیں ملا تو ان نااہل سیاستدانوں کو بھی کچھ نہیں ملنا چاہیے کیوں کہ عربی کی ایک کہاوت ہے کہ ہماری اپنی کوتاہیاں ہی ہمیں تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔
تحریر:علی احمد ڈھلوں
0 notes
hurmatnews · 6 years
Photo
Tumblr media
درویش قلم (حصہ ۳) عمران اکبر ملک جب ہم تخلیق پر غور کرتے ہیں تو قدرت کے مختلف مظاہر مختلف اشکال میں ہمیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں اور وہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا چاہے جانے کے قابل نہیں ہے۔ اور وجہ اسکی یہ ہے کہ یہ ایک ایسی امتحان گاہ ہے جہاں پر ہر کسی کو اپنے اپنے دیئے گئے وقت کے دوران اپنی اپنی کارکردگی کی رپورٹ دینی پڑے گی اب چاہے کوئی اسکو مانے یا نہ مانے، امتحان گاہ میں ہرچیز اگر بتادی جاتی تو پھر امتحان کیسا ؟۔ لہٰذا مشیتِ احسن الخالقین میں ہر چیز نہیں بتائی گئی اور ویسے بھی جب ہم زندگی پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ زندگی جسکا ایک اختتام بھی ہے وہ اختتام جسکو کچھ لائف کا نکل جانا کہتے ہیں یا کسی ایسی قوت کا تحلیل ہوجانا کہتے ہیں کہ جسکی وجہ سے قوائے جسمانی اپنی نارمل حرکات کو ترک کردیتی ہے اور بدن پر انحطاط طاری ہوجاتا ہے۔ یعنی موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جسکا سامنا اور جسکے مظاہر ہم خود اپنی آنکھوں سے روز دیکھ کر بھی درس نہیں لیتے۔ دراصل اسلامی فلاحی نظام کا جو تصور حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے قوم کو دیا تھا وہ دراصل پوری امت کے لیئے مشعل راہ ہے۔ جب ایک حقیقی مسلمان دین الاسلام کو سمجھ کر تفکر کے ساتھ ہر ہر معاملہ میں اسی کے تناظر میں دیکھنا شروع کرتا ہے تو اسی کو قرآن یعنی آخری احکام نامے کی شقیں یعنی آیتیں بتاتی ہے کہ تفقہہ فی الدین، یہاں مذاہبِ اربعہ والی فقہ مراد ظاہری طور پر ہوسکتی ہے لیکن یہاں مراد وہ حقیقی فقہ ہے جو لغات العرب کا ایک مخصوص طرز ہے جس کے تحت وسیع ترمفاہیم میں بات کو سمجھایا جاتا ہے اپنی اپنی سوچ کی گہرائی تک۔ دین میں یعنی زندگی گزارنے کے رستے میں سمجھ بوجھ دراصل اس آیت کی تفسیر کا حاصل ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو کہیں پر اسقدر وسیع ہوجاتی ہے کہ مقدس اشخاص قرار پاتے ہیں کہیں پر یہ کسی کو اویس قرنی تو کسی کو جنید بغدادی بنا دیتی ہے اور یہ سلسلہ آخری پیغام سے مکمل ہوتے وقت سے ہی رائج ہے۔ جیسے میں نے گزشتہ کالم کی سیریز درویشِ قلم میں لکھا تھا کہ عربی زبان میں ایک بہت بہترین کہاوت ہے کہ رب نے فرشتوں کو پیدا کیا، انکو عقل دی لیکن شہوات نہیں دیں، اس نے جانوروں کو بھی پیدا فرمایا ، جنکو شہوات تو دی گئیں لیکن عقل سے محرومی عطا ہوئی، اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تخلیق ہوئے جنکو عقل بھی دی اور شہوات بھی عطا کیں، اب اگر انسان اپنی شہوات پر غالب آجائے تو وہ فرشتوں سے بھی بلند ہے اور اگر وہ اپنی شہوات سے مغلوب ہوجائے تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں آئے کہ اس سب معاملے یا باتوں کا مقصد کیا ہے؟۔ مقصد بہت واضح ہے ہم لوگ دراصل جس سٹیج آف لائف میں بھی ہیں ایک اداکار کی طرح ہیں اور ہم اسی نیند کے عالم میں اپنے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں لیکن معاشرے حقائق سے بنتے بگڑتے ہیں۔ اس وطن عزیز کو جس مقدس کام کی خاطر تخلیق کیا گیا تھا بدقسمتی سے ہم نے اپنی ظاہرپرستی یا مادہ پرستی کی دوڑ میں اور شہوات (جس میں خواہشات سرفہرست ہیں پھر لالچ، طمع، اغراض وغیرہ وغیرہ) کی پوجا میں اپنے اپنے اندر بیٹھے کافر کی خوشنودی میں منہمک ہیں، اور اسی نیند میں کوئی جب نظامِ اسلام کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ پہلے اسکا متبادل رول ماڈل ہونا ضروری ہے جسکو دیکھ کر عام عوام اس کے فوائد کو اس احسن طریقے سے سمجھ سکیں کہ جسکے لیئے اسلام کو اس دنیا میں احسن الخالقین کے فرامین کے تحت نافذ کرنے کا حکم حضرت انسان کی ڈیوٹی ہے۔ یہ وہی دین ہے جسکو لوگ غلطی سے مذہب کا نام دیتے ہیں اور یوں ایک عمومی چیز کو خصوصی کے اوپر لاگو کرکے خصوصی کی اصل خصوصیات سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ایسا نظام نافذ کرنے کیلئے یہ بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ عوام کی ذہنی و شعور کو اس سطح پر تو کم از کم لایا جائے جہاں وہ اپنے اپنے فرائض کو اسلامی حقیقی قوانین کے ماتحت لاکر اپنی زندگیوں کو سکونِ ابدی دے سکیں اور ایسے ہی پہلا مدنی معاشرہ تشکیل پایا تھا کیونکہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سامنے تھی، اسوہ اہل بیت سامنے تھی اسوہء اصحاب سامنے تھی اور یہ چیز امت کی خصوصیات میں سے ہے کہ ایسے اشخاص ایسے لوگ ہردور میں رہیں گے۔ لہٰذا تعلیماتِ اسلام نہ صرف معیشتِ مسلمان ہیں، بلکہ اخلاقیاتِ مسلم، ثقافتاتِ مسلم، عمرانیاتِ مسلمان الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے یکسر فائدہ مند ہیں لیکن اس چیز کو رائج کرنے کی خاطر قرونِ اولیٰ اور اسکے بعد دنیا میں اولیائے کرام تشریف لائے جو اسلام کی روح کو سکھانے کا اہم فریضہ سرانجام دیتے رہے اسی لیئے جب معاشرتی طور پر عوام کا ذہنی لیول حقائق کا تجزیہ تجربہ کی کسوٹی پر کرتا تو حقانیت سے سرشار ہوکر کلمہ حق بلند کردیتا اور یوں شرق تا غرب اسلام کی ہی آبیاری ہوئی ۔ اب موجودہ مادہ پرستی کے دور میں مسائل کا ایک انبوہ کثیرہ ہے جس میں ہر انسان بنا خواہش کے بھی بہے جارہا ہے کیونکہ اخلاص کی کمی پائی جاتی ہے۔ اسی لیئے علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں اسکی طرف اشارہ کیا تھا کہ ! یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ ایک دوسری جگہ اسی مظاہر پرستی جسکو شرک خفی کی ایک قسم بھی کہہ سکتے ہیں اس میں مبتلا رہنے کے باعث اس دور میں مسلمانانِ ہند خصوصی اور مسلمانانِ امت عمومی طور پر پسے رہے اور جب اس دور کے مسلمانوں نے علامہ کے ان پیغامات کی حقیقت کو اسلام کے ابدی قوانین کی روشنی میں پرکھا تو جانا کہ یہی حقیقت ہے اور اسی لیئے آج یہ پاک ارض وطن موجود ہے دنیا کے نقشے پر۔ حیرت ہے پھر بھی کچھ لوگ ان سب باتوں کو سرسری دینی باتیں یا تبلیغ سمجھ کر کیوں نظرانداز کردیتے ہیں جبکہ مسلمان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ صرف اور صرف وحدانیت اور رسالتِ آخری کے ایمان پر تبلیغ ہی تو ہے! فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو اگر حقیقی اسلام کی فکر تدبر سوچ ایک بار پھر اس قوم کی رگوں میں بیدار کردی جائے تو ہمارے تمام معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں، دورِ قدیم میں یہ باتیں زندگی کے مختلف امثالیوں سے سمجھانے کی خاطر خانقاہی نظام ہوتا تھا، اب انکی جگہ میڈیا اور ہزارہا ڈگریوں والے دانشور اعلیٰ پیسہ لیکر بھی قوم کو ڈائریکشن دینے سے محروم ہیں۔یہ جو کرپشن ، ملاوٹیں، ٹھگیاں، ڈکیتیاں، چوریاں، دھوکے دھاکے پائے جاتے ہیں اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے حقیقی پیغام کی روح کو کفر شرک بدعت کے ادھورے دائروں میں سمو کر ایکدوسرے سے نفرت کی روش اپنا لی ہے حالانکہ کسی دور میں اگر سوچا جائے تو اس خطہ ارض پر اسلام لائے ہی یہی خیالات اور نفوس تھے جنکے قدموں کی برکت سے آج یہ خطہ ارض مسلمانوں کی ایک کثیر اکثریت سے معمور ہے۔ اور جنہوں نے قیام پاکستان کی اس دور میں مخالفت کی تھی یا دوسرے الفاظ میں اس نظریہ کو رد کیا تھا انکا حال بھی دنیا کے سامنے عیاں ہے مگر ان حقیقی مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اسی لیئے درویشِ قلم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ بھی اور دیگر بھی اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے تفکر کی روشنی کو عام کریں تاکہ ایسا معاشرہ پنپ سکے جہاں پر علامہ اور قائد کے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور شرمندہء تعبیر ہوسکے ۔ یہ کرپشن، اقرباء پروری و دیگر چیزیں ان سب کو اگر عوام حقیقی روحِ اسلام کے تناظر میں ہینڈل کرنا سیکھ جائیں تو معاشرے سے ساری کلفتیں ختم ہوسکتی ہیں پھر نہ کسی کو ڈیپریشن کا مرض ہو، نہ شوگر اور نہ ہی دیگر امراض ، نہ ہی ان کو مستقبل میں اپنے بچوں کی وہ فکر ہو کہ جو صرف مادہ پرستی کی دوڑ میں رہنے کی وجہ سے اذھان تخلیق کرلیتے ہیں اور پھر حلال و حرام کی تمیز بھلا کر معاشرتی برائیوں کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔اسی لیئے درویشانہ گزارش یہ ہے کہ ہم سب کو جو بھی امتحان گاہ میں پرچہ ملا ہوا ہے اسکو بجائے نقل کرنے اور چوریاں کرنے کے خود سوچ سمجھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے، اور جس دن ایسا عمل شروع کردیا گیا، قوم خود بہ خود اسلام کے آفاقی نظام عدل، نظام معیشت، نظام ہائے انتظامات وغیرہ میں ایک گریٹر پاکستان کی طرف جاسکے گی۔ ظاہر پرستی اور خواہشات کے بت کی پوجا ہرکسی کو چھوڑنی ہی پڑے گی۔ ظاہر ہے ہوتا تو وہی ہے جو رب نے پہلے سے تحریر کردیا ہوتا ہے، ہمارا کام اور حدود صرف یہ ہے کہ ہمارا اتنا اختیار ہے کہ ان سیدھی باتوں کو مان کر عملی طور پر کام کریں یا مادہ پرستی کے جوہر سے ترہوکر ظاہرپرستی کے بت کی بے لگام پیروی کریں۔ نظامِ اسلام کا نفاذ اسی صورت ہوسکتا ہے جب عوام خود اپنے اندر سے ان برائیوں کو ہٹا کر اسلام کے انسانی پیغام کو سمجھ کر خود بھی انسانیت کو اہمیت دیں۔ اور یہ چیز علم سے آتی ہے جسکو بدقسمتی سے کاروبار بنا دیا گیا ہے کیونکہ جو کچھ وہ سکھاتے ہیں وہ ڈگریاں تو دی دیتے ہیں لیکن زندگی میں ہمیشہ ناکامی دیتے ہیں اور جو عارضی کامیابیاں ہوتی ہیں وہ بھی فنا اور بقا کے تسلسل سے باہر نہیں ہیں۔ یہی قانونِ قدرت ہے یہی اسلام کا پیغام ہے جسکو نہ منبر پر بیٹھی شخصیات ہمیں سمجھاتی ہیں ، نہ آکسفورڈ اور کمبریج کی ڈگری یافتہ دانشوروں کی قبیل ہمیں بتا سکتی ہے۔ البتہ زندگی یعنی امتحان گاہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو ہر چیز واضح کرکے بتاسکتی ہے۔ اسکو ہی روکنے کی خاطر کبھی کیپیٹل ازم تو کبھی شنٹو ازم، کبھی کمیونزم تو کبھی زائینوازم تخلیق ہورہے ہیں جسکے کارنامے روز روشن کی طرح عیاں ہیں
0 notes