اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں زلزلے کے جھٹکے
اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں زلزلے کے جھٹکے
اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بیشتر شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔
اس حوالے سے زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ کہ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 5۔1 ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ زلزلے کا مرکز پاک افغان بارڈر پر خوست کے قریب تھا ۔
زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکز پاک افغان بارڈر پر خوست کے قریب تھا ۔
خیال رہے کہ پشاور، مردان، ہنگواور ٹانک سمیت ایبٹ آباد، ہری پور میں بھی زلزلے کے…
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے لیے علی امین گنڈا پور کے علاوہ کس کا نام زیر غور؟
خیبرپختونخوا کا نیا وزیراعلیٰ کون ہو گا؟ تحریک انصاف نے کور کمیٹی کا اجلاس کل پشاور میں طلب کر لیاہے۔
ذرائو نے بتایا کہ کور کمیٹی اجلاس میں وزارت اعلیٰ کے لئے علی امین گنڈاپور اور مشتاق غنی کے ناموں پر غور ہوگا۔
ذرائع نے کہا کہ وزارت اعلیٰ کے لئے علی امین گنڈاپور کا نام سرفہرست ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ کے بھائی کا نام بھی وزارت اعلیٰ کے لئے پیش کیا جائے…
عمران کیلئے اقتدار کے دروازے بند ہو چکے، منظور وسان کی پی ٹی آئی کے صفائی کی پیشگوئی
عمران کیلئے اقتدار کے دروازے بند ہو چکے، منظور وسان کی پی ٹی آئی کے صفائی کی پیشگوئی
کراچی(نمائندہ عکس)پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور مشیر زراعت سندھ منظور وسان نے عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے اہم پیشگوئیاں کی ہیں۔منظور وسان نے پیشگوئی کی ہے کہ اس بار پی ٹی آئی کا صفایا ہو گا، جھاڑو بھی پھر سکتا ہے، عمران خان کی جو پوزیشن اب ہے وہ نومبر کے بعد بالکل ڈاﺅن ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کے بعد عمران خان کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی ہیں اور بنی…
ملک میں پولیو کاایک اور کیس، رواں برس تعداد 3 ہوگئی
ملک میں پولیو کاایک اور کیس، رواں برس تعداد 3 ہوگئی
شمالی وزیرستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے جس کے بعد رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 3 ہوگئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے شمالی وزیرستان میں ایک سال کی بچی پولیس کی وجہ سے مفلوج ہوگئی ہے، بچی میں ٹائپ 1وائلڈ پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ رواں برس پاکستان سے پولیو کا تیسرا کیس رپورٹ ہوا ہے جو کہ تشویشناک بات ہے۔
وفاقی سیکریٹری صحت کا کہنا ہے کہ 2022 میں پولیو کے…
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
مظہر عباس
خیبر پختونخواہ ایڈہاک ٹیچرز اور پی ٹی آئی رہنماوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا
خیبر پختونخواہ ایڈہاک ٹیچرز اور پی ٹی آئی رہنماوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا
خیبر پختون خواہ ایڈہاک ٹیچرز اور پی ٹی آئی رہنماوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق معاہدے پر علی محمد خان اور مراد سعید نے دستخط کیے ہیں۔
معاہدے کے تحت وزیر اعلی خیبر پختون اور صوبائی وزراء نے مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سی پی فنڈ پر کل پشاور میں مزید مذاکرات ہوں گے، سی پی فنڈ سے متعلق قانونی مشیر سے مشاورت کر کے فیصلہ کیا جائے گا۔
معاہدہ پی ٹی آئی چئیرمین…
ہسپتالوں کے مالی بحران پر گورنر خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ کو خط
خیبرپختونخوا کی ہسپتالوں میں مالی بحران شدت اختیار کرگیا ہے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے مراکز صحت میں ایمرجنسی ادویات اور ضروری سامان ختم ہو گیا۔ گورنر خیبرپختونخوا نے فنڈز کی فراہمی کیلئے نگرا ں وزیر اعلیٰ کو خط لکھ دیا۔
خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتال میں ادویات اور طبی سامان کی قلت پیدا ہوگئی ہے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر مراکز صحت میں ایمرجنسی ادویات ناپید ہوگئی ہیں۔
گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام…
اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عوام کا فیصلہ عوام کی عدالت کرے گی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری کردہ پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ حقیقی آزادی مارچ کی تیاریاں عروج پر ہیں، آج پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ضلعی صدور اور سیکرٹری جنرلز کا اجلاس منعقد ہو گا۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ جدوجہد کا آخری مرحلہ آن پہنچا ہے پورا پاکستان تیار ہو…
وه لهكاتی پێغەمبهری اللە صلی الله علیه وسلم ههموو زهكات و جزیهكان وهر ئهگیران لهخهڵكی و كۆ ئهكرانهوه و ئهبران بۆ پێغەمبهری اللە صلی الله علیه وسلم بۆ دابهش كردنی
این اولین باری نیست که ما ازدرون توسط مار درآستین ضربه میخوریم، دقیقن در سالهای پشین در ایام که مقاومت غرب کابل بادسیسه ای ازجانب سردمداران ظلم و لشکریان بربادی وویرانی،با ترفند ابوموسی اشعری گونه، بزر کترین امیدبرای بهبودی سرنوشت مردمی را،"با پیمان شکنی بر جلد کتاب آسمانی(قرآن)" سلاخی کردند، سیدی،آغا زاده ی، فرزند از تبارپیامبر"که برای نجات بشر آمده بود"، تبریکات صمیمانه خویش را به پیشگاه، حاکم ظالم و مستبد آنروزی، با لحن (الیوم یوم المرحمه) پیشکش نموده و بزرگترین پیروزی عمرشان را،که گویا قلعه ی خیبری را فتح کرده ویا کفارمکه را به زانو درآورده، جشن گرفتند،
ماسالهاست مانده ایم که با کدام عنوان به طایفه ی ازتبار اسماعیل اما بااندیشه و سیاست ابو لهبی و فریبندگی ابوموسایی،نگاه کنیم:
دوست یا دوشمن!؟
پرواضح است که نمیتوان بطور کلی ازآنان به دوشمنان قسم خورده یادکرد ،زیرا اینان دوشمنی شان براساس چشم هم چشمی زنانه ی دوران حضرت ابراهیم خلیل است، رقابت های که بین مادراسماعیل و اسحق وجود داشت منجربه یک دوشمنی دیرینه وتاریخی شده است، که دوشمنی فعلی اعراب و اسرائیل ازهمان چشمه آب میخورد، ومردم که اینگونه قربان میشوند، جزا ازقبائیل که خصومتی با اینان داشته باشد، نیست.
اما دوست ؛
درفرهنگ ارتباطات جمعی دوست و یاهمان رفاقت که میتواند به دفاع ازهم بیانجامد، با نحوه ی افعال این مردمان،سازگاری ندارد،تاریخ ثابت کرده است که اینان هیچ گاهی به عنوان یک هم پیمان مذهبی و اعتقادی، به ملت ومردم باصداقت،و تعامل پذیر مناطق مرکزی افغانست��ن نگاه نکرده است، همشه به عنوان مهره،ویا قربانی برای خوشنودی حاکمان مرکزی به آنان نگریسته اند.!!!
شاید میخواهند جبران مافات نمایند، برای تحکیم رابطه عمو زادگی شان،که قرنهاست جنگ و درگیری وجود داشته است را، با فرستادن،سرهای پیروان راستین خلیفه ی اول"که میدانیم در جنگ خیبر چی کرد" دست به خیانت زده،ونقش مار بین آستین را بازی میکند.!!