Tumgik
#Pakistani Journalist
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
Text
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
Arshad Sharif
5 notes · View notes
creative-pens · 1 year
Text
Family Of Pakistani Journalist Says He Is Missing, Police Deny Claim
Many social media users have expressed concern over the disappearance of Abid Mir.
Tumblr media
The family of a Pakistani journalist has claimed that he is missing since Wednesday, according to Dawn. Abir Mir, who also works as a human rights activist in Balochistan, was last seen at an ATM in capital Islamabad on February 8, according to his family. However, the Islamabad Police said on Twitter on Thursday that Mr Mir returned home, but the claim has been denied by his family, the outlet added. As the news about Mr Mir's disappearance spread, social media users expressed concern and demanded that he should be brought back.
Mr Mir's brother Khalid posted a video on Twitter yesterday in which he said that the journalist was in touch with his family and friends till 6.30pm and then disappeared.
Khalid further said that the family is in contact with the police to file an FIR. He added that the journalist had not been involved in any controversial issue and did not face any threat from anyone.
Speaking to Dawn, Khalid said he didn't pay much attention to the news yesterday as Mr Abid often left the house late at night to study with his friends.
But he received a call from Mr Abid's family on Thursday morning and was informed that he is missing.
The Islamabad Police, meanwhile, said in a tweet posted in Urdu that Mr Mir had returned home. They further said that the impression of Mr Abid going missing was false and had been created after the journalist lost contact with his family, according to an English translation of the tweet.
The issue gave ammunition to the opposition to attack the government in Pakistan. Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) leader and former Punjab chief minister Chaudhry Pervaiz Elahi was quoted as saying by The Express Tribune that the number of such cases has increased under Prime Minister Shehbaz Sharif.
0 notes
pakistan-affairs · 1 year
Text
ہمارے تعصبات اور اپنا اپنا قاتل
اینکر ارشد شریف مرحوم ایک بڑے ہی افسوس ناک سانحہ کا شکار ہو گئے۔ اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے، آمین۔ اُنہیں کینیا میں پولیس نے بڑی بے دردی سے قتل کر دیا جبکہ اُن کا نہ کوئی جرم تھا نہ قصور۔ کینیا کی پولیس کی ابتدائی انکوائری کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی کو، جس میں وہ سوار تھے، کسی چوری شدہ گاڑی کے لیے لگائے گئے ناکے پر نہ رُکنے کی وجہ سے غلط فہمی کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور فائر کی گئی گولیوں میں سے ایک گولی ارشد شریف کے سر پر لگی جس سے وہ جاں بحق ہو گئے۔ ارشد شریف کے سانحہ نے سب کو افسردہ کر دیا۔ ابھی کینیا کی پولیس نے اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنی ہیں جبکہ پاکستان نے بھی اپنی ایک انکوائری ٹیم کینیا بھیج دی ہے۔ انکوائری کمیشن بنانے کا بھی حکومت نے اعلان کر دیا ہے۔ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب مانگا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ مقتول صحافی کن حالات میں پاکستان سے گئے؟ کس نے باہر جانے پر مجبور کیا؟ 
وہ بیرونِ ملک کہاں کہاں اور کس کے پاس رہے؟ کس کے مشورے پر اور کیوں کینیا گئے؟ وہاں کس کے پاس ٹھہرے؟ اُن کا ڈرائیور جو اُن کے ساتھ سانحہ کے وقت موجود تھا، وہ کہاں ہے؟ اُس کا بیان ابھی تک سامنے کیوں نہیں آیا؟ وہ اُنہیں کیوں سانحہ والی جگہ پر لے کر گیا؟ کیا یہ ایک غلطی کے نتیجے میں رونما ہونے والا سانحہ تھا یا کوئی سازش اور سوچا سمجھا منصوبہ ؟ کیا اس سازش کا پاکستان سے کوئی تعلق ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت یا کوئی ادارہ اس مبینہ سازش کے پیچھے ہے؟ ان سوالوں کا جواب معلوم کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جس بات کا مجھے بے انتہا افسوس ہے وہ یہ کہ اس سانحہ کے بعد سامنے آنے والے سوالوں کے جواب ملنے سے پہلے ہی سب نے اپنے اپنے نتیجے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ اگر کسی نے شریف فیملی پر الزام تراشی شروع کر دی تو عمران خان پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں، جو میری نظر میں ہمارے معاشرے میں اُس نفرت کی سیاست کا نتیجہ ہے جس نے ہماری سیاست، معاشرے اور ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک طبقے نے تو سیدھا سیدھا پاکستان کے اداروں پر انگلیاں اُٹھانا شروع کر دیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان جیسے بڑے سیاستدان، جن کے کروڑوں ووٹرز اور سپورٹرز ہیں، نے تو سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ ارشد شریف کی اُنہوں نے ٹارگٹ کلنگ کی جو اُن کو پاکستان میں نامعلوم فون کر کے دھمکاتے تھے، جنہوں نے موجودہ حکمرانوں کو، جن کو وہ چور ڈاکو کہتے ہیں، قوم پر مسلط کیا۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ارشد شریف کو قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا تھا اور اور اسی لیے اُنہوں نے صحافی کو فوری طور پر پاکستان چھوڑ کر ملک سے باہر جانے کا کہا گیا ۔ خان ، اُن کی پارٹی اور سوشل میڈیا تو ریاستی اداروں کی طرف ہی اشارے کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اُنہوں نے فوری فیصلہ کر لیا ہے کہ ارشد شریف کا قاتل کون ہے؟ اگر کسی کو شک ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر کسی نے صحافی کو کینیا میں قتل کروا دیا تو ایسے میں اُٹھنے والے سوالوں کے جواب اور ٹھوس شواہد کے بغیر کیسے کوئی نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اس جرم میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث ہے۔ ؟
سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ باتیں تو ہوتی ہی ہیں اور بے بنیاد الزامات بھی لگائے جاتے ہیں لیکن ایسے معاملے میں سوشل میڈیا کو دیکھ کر اگر ہمارے سیاسی رہنما اور صحافیوں کا ایک طبقہ اپنے ہی اداروں کے متعلق یہ ذہن بنا کر بیٹھ جائے کہ وہی ذمہ دار ہیں تو یہ بہت ہی نامناسب بات ہے۔ جس ریاستی ادارے کی ہم بات کر رہے اُس کی سیاست میں مداخلت پر ہمیں اعتراض ہے ، یہ بھی درست ہے کہ ایجنسیاں صحافیوں کے ساتھ زیادتیاں کرتی رہیں اور میڈیا پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں لیکن اگر بغیر کسی ثبوت کے ہم اپنے ہی ملک کے ایک ایسے ادارے پر سنگین الزامات لگائیں گے جو پاکستان کے دفاع، اس کی سالمیت اور ہمارے جوہری پروگرام کا ضامن ہے اور جس نے دہشت گردی کے خلاف ہزاروں قربانیاں دے کر جنگ لڑی اور آج بھی یہ قربانیاں دی جا رہی ہیں تاکہ عوام محفوظ رہیں، تو پھر عوام اور اس ادارے کے درمیان مضبوط رشتہ کیسے قائم رہے گا۔
جو لوگ بغیر ثبوت کے اپنے ریاستی ادارے کے متعلق یہ فیصلہ کر چکے کہ یہ جرم اُنہی نے کیا ہے وہ اپنے اپنے سیاسی اور ذاتی تعصبات میں اندھے ہو چکے ہیں، انہیں پاکستان کی خاطر اپنے طرزِعمل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہاں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لائے لیکن اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات یا تعصبات کی وجہ سے ایسی کوئی غیرذمہ دارانہ حرکت نہ کریں کہ پاکستان کو ہی کمزور کردیں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
rudrjobdesk · 2 years
Text
भारत में ISI की बड़ी साजिश का खुलासा, पाकिस्तानी पत्रकार के खुलासे से हामिद अंसारी फिर सवालों के घेरे में
भारत में ISI की बड़ी साजिश का खुलासा, पाकिस्तानी पत्रकार के खुलासे से हामिद अंसारी फिर सवालों के घेरे में
Image Source : FILE PHOTO Hamid Ansari and Nusrat Mirza Highlights भारत में ISI की बड़ी साजिश का खुलासा हुआ है पाकिस्तान पत्रकार ने भारत से जानकारियां जुटाकर ISI तक पहुंचाई नुसरत मिर्जा ने तत्कालीन उपराष्ट्रपति हामिद अंसारी का लिया नाम Hamid Ansari news: भारत में पाकिस्तानी खुफिया एजेंसी ISI की बड़ी साजिश का खुलासा हुआ है। बता दें कि पाकिस्तानी पत्रकार नुसरत मिर्जा आएसआई का जासूस निकला, उसने…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
yourdailyqueer · 7 months
Photo
Tumblr media
Mobeen Azhar
Gender: Male
Sexuality: Gay
DOB: Born 1980  
Ethnicity: Pakistani
Nationality: British
Occupation: Journalist, presenter, producer
43 notes · View notes
lewishamil10n · 11 months
Text
anyone willing to marry me so i can get a citizenship
15 notes · View notes
xtruss · 11 months
Text
The One & Only, The Legend of Legends Former Prime Minister of Pakistan IMRAN KHAN!
Tumblr media
Corrupt to their Cores, Thieves, Looters and Traitors Pakistan’s Army Generals, Politicians of Thirteen Dirty Political Parties, Judges and Yellow Journalists are Scared of IMRAN KHAN, The Chairman of Pakistan Tehreek-e-Insaf. This is the real honest man who showed the World their Abominable Faces who were destroying Pakistan By licking the Scrotums of the Hegemonic, Conspirator, Two-Faced, Liar and War Criminal United States for the past 75 Years!
6 notes · View notes
dumpshittybrain · 1 year
Text
India has not attacked Pakistan, it has only attacked terror camps in the territory that has been occupied by Pakistan for the last 70 years.
Muslims in India are fortunate to be living in a country where they can breathe freely and they should believe in "Islam of Allah, and not in Islam of Mullah".
~Tarek Fatah,Pakistani-Canadian journalist and author.
Tumblr media
If I have one idol, it is Mr. Tarek Fateh
A little about him:
Tarek Fatah (November 1949–24 April 2023) was a Pakistani-Canadian journalist and author.
Fatah advocated LGBT rights, a separation of religion and state, opposition to sharia law, and advocacy for a liberal, progressive form of Islam.
He called himself "an Indian born in Pakistan" and "a Punjabi born into Islam" and is a vocal critic of the Pakistani religious and political establishment.
To this end, Fatah has criticized the partition of India.
The struggles he had to face for speaking the truth and opposing radical Pakistani Islamic policies:
He was a leftist student leader in the 1960s and 1970s and was imprisoned twice by military regimes.
In 1977, he was charged with sedition and barred from journalism by the Zia-ul Haq regime.
In early 2011, Fatah said that he received a threat via Twitter. Fatah contacted Toronto Police Service and later met with two police officers from 51 Division. Fatah said that police intelligence officers, one a Muslim officer who had shut down a previous investigation into a death threat, shut down the investigation and claimed there was no threat.
Assassination attempt:
In 2017, Indian police arrested two men who were hired by Chhota Shakeel to assassinate Fatah.
Wikipedia article:
Tumblr media
We lost this warrior, one of the bravest and most influential personalities of our time to cancer on 24 April 2023.
May the highest power grant him peace.
5 notes · View notes
risingpakistan · 2 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
beenasarwar · 10 months
Text
Sarmad Khoosat live; Celebrating love in Boston; Sapan News tribute to a harmonium soloist
Some updates about what we are up to at the Sapan network, including my latest venture Sapan News syndicated features, furthering the narrative of regionalism, peace, and dialogue. What can you do to help? Read on
A compilation of offerings from our Sapan network, including my latest venture Sapan News syndicated features. Together, we aim to further the narrative of regionalism, peace, and dialogue. What can you do? Read on Visual: Aekta Kapoor/Sapan Delighted to have acclaimed actor and director Sarmad Khoosat join us Sunday July 16 for Sapan’s first fundraiser, hosted by poet Dr Arvinder Chamak in…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
صحافی اندر باہر سے خطرے میں
گزشتہ پیر کو جی ٹی روڈ پر پی ٹی آئی ریلی کی رپورٹنگ کے دوران کنٹینر تلے دب کر جاں بحق ہونے والی نیوز چینل فائیو کی صحافی صدف نعیم کے بارے میں اب تک آپ بہت کچھ پڑھ اور سن چکے ہوں گے۔ یہ ایسی موت ہے جس میں غفلت ، لاتعلقی، لاپرواہی ، پیشہ ورانہ فرائض کی ناکافی حفاظتی وسائل کے ساتھ بجاآوری ، ملازمتی عدمِ تحفظ کے خوف کے سبب غیر ضروری خطرات مول لینے اور ریٹنگ کی ریس میں آگے رہنے کے مسلسل بالائی دباؤ سمیت ہر شے صاف صاف ٹپک رہی ہے۔ نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔ صحافت بالخصوص فیلڈ رپورٹنگ کا شعبہ کبھی بھی آسان نہیں رہا مگر آج ان شعبوں سے منسلک بصری و خبری کارکنوں کو چوطرفہ خطرات لاحق ہیں۔ جانے کون سا اندرونی و بیرونی حادثہ جان لیوا ثابت ہو جائے یا معذور کر دے۔ خود کشی کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے اب معاشی جبر اور بے روزگاری کے خوف سے گھبرا کے خود ایک دل خراش خبر بن رہے ہیں۔
صحافیوں کے لیے دھمکیاں، نفسیاتی و جسمانی خطرات اور جابرانہ قوانین کے پنجے سے بچتے ہوئے فرائضِ منصبی نبھانا ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ ایسی مشکلات کا سامنا کسی ایک ملک یا خطے کے صحافیوں کو نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر ہے۔ حملہ کسی پر کسی بھی وقت کہیں سے بھی ہو سکتا ہے۔ بھلے وہ مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ کی بیورو چیف شیریں ابو عاقلہ ہوں جو اسرائیلی فوجی نشانچیوں کی گولی کا سوچا سمجھا نشانہ بن جائیں یا پلٹزرز انعام یافتہ بھارتی بصری صحافی دانش قریشی جو افغانستان میں فرنٹ لائن رپورٹنگ کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے یا پھر بی بی سی کے گرم و سرد چشیدہ رپورٹر فرینک گارڈنر ہوں جو دو ہزار چار میں ریاض میں ایک دہشت گرد شبخون میں شدید زخمی ہو گئے اور ان کے ساتھی کیمرہ مین سائمن کمبرز جاں بحق ہو گئے۔ اسی طرح وزیرستان میں بی بی سی کے سابق نامہ نگار دلاور خان وزیر کو نومبر دو ہزار چھ میں ’’ نامعلوم افراد‘‘ راولپنڈی کے ایک مصروف کاروباری مرکز میں ٹیکسی سے اتار کے لے گئے۔ جب میڈیا میں شور مچا تو اگلے دن سڑک پر سالم چھوڑ دیا گیا۔
مگر میں بین الاقوامی اداروں کی مثالیں یوں دے رہا ہوں کہ خطرہ انھیں بھی یکساں ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ان کے رپورٹروں کو تنخواہ و دیگر مراعات لگے بندھے وقت پر ملتی ہیں۔ آؤٹ اسٹیشن اسائنمنٹ پر بھیجتے ہوئے اطمینان کیا جاتا ہے کہ آیا انھوں نے اجنبی، مخاصمانہ اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے کا خصوصی لازمی کورس کر رکھا ہے۔ ان کی ٹیم کا اس جگہ پر حفاظت کا بندوبست ہے۔ کیا ان کے پاس ضروری حفاظتی آلات ہیں؟ ان کی نقل و حرکت اور کام کی نوعیت کے بارے میں متعلقہ انتظامی اداروں کو پیشگی باضابطہ علم ہے ؟ ان کی ٹرانسپورٹ اور مددگار عملہ قابلِ اعتماد ہے ؟ خود وہ اور ان کے ساتھ جو آلات و افراد منسلک ہیں وہ بیمہ شدہ ہیں ؟ کسی ناگہانی یا بیماری یا حادثے کی صورت میں ان کی رسائی فوری مالی و طبی امداد تک ہے یا ہنگامی انخلا کا تسلی بخش بندوبست ہے ؟ ان لازمی ضروریات کے لیے ادارے میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا امدادی شعبہ الگ سے چوبیس گھنٹے فعال رہتا ہے اور اس کا ہنگامی رابطہ نمبر ہر فیلڈ رپورٹر جانتا ہے۔
بیشتر اداروں کا اتفاق ہے کہ ’’ کوئی بھی خبر رپورٹر کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی‘‘۔ اس کے برعکس ہم اگر اپنے اداروں اور ان میں کام کرنے والوں کا مالی و پیشہ ورانہ حال، تربیتی معیار یا ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد دیکھ لیں تو شاید ہی کوئی ابلاغی ادارہ ہو جو سینہ ٹھونک کر کہہ سکے کہ ہم اپنے کارکنوں کا دفتر کے اندر اور فیلڈ میں پیشہ ورانہ تقاضوں کی روشنی میں پورا خیال رکھتے ہیں۔ جہاں کیمرہ تو بیمہ شدہ ہو مگر کیمرہ مین انشورڈ نہ ہو، جہاں رپورٹر پنشن نہ پانے والے لاکھوں شہریوں کی دکھ بھری معاشی کہانی تو سنا رہا ہو مگر خود کو یہی معلوم نہ ہو کہ اگلی تنخواہ کب ملے گی یا پھر کب اچانک چھٹی ہو جائے گی۔ جہاں خبرنامے میں شہری ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام کے تو جوش و خروش سے خبری بحئے ادھیڑے جا رہے ہوں مگر خود رپورٹر کو یہی نہ پتہ ہو کہ اسے واپس دفتر یا گھر بلاتاخیر کیسے پہنچنا ہے۔
جہاں ایک ٹھنڈے ہال میں نصب ڈیجیٹل پینلز اور نیوز ڈیسک پر بیٹھے خبری ارسطو یہ احکامات تو صادر کر رہے ہوں کہ اے رپورٹر فلاں جگہ چلے جاؤ، اب فلاں کا انٹرویو لے لو، ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا تو کیا ہوا۔ مزید آٹھ گھنٹے تک ڈٹے رہو، عین جلوس کے درمیان چلتے رہو تاکہ اسکرین بھری بھری نظر آئے۔ یہ احکامات عورت مرد کے لیے یکساں ہے۔ کیونکہ یہ صحافت ہے جہاں صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر ان ارسطوؤں کو ککھ پرواہ نہیں ہوتی کہ فیلڈ رپورٹر یا کیمرہ مین سے یہی پوچھ لیں کہ کھانا کب کھایا ؟ رہ کہاں رہے ہو، اردگرد کا ماحول کتنا دوستانہ یا معاندانہ ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹے میں آرام کے کتنے لمحات میسر آتے ہیں ، صحت کیسی ہے ، موسم کتنا شدید یا معتدل ہے ، رات کو کہاں رکو گے ؟ جیب میں کیش کتنا ہے ؟ گھر والوں سے بات ہوئی ؟ اور پھر یہ ارسطو اپنی شفٹ ختم ہوتے ہی اگلے ارسطو کو ہینڈ اوور کر کے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ تو اس مخلوق کا احوال ہے جو براہِ راست دفاتر سے منسلک ہے اور روز اس کا اپنے اعلیٰ پروفیشنلز صحافی باسز اور وقت کی نبض پر ہاتھ دھرنے کی دعویدار مینیجمنٹ سے آمنا سامنا رہتا ہے۔ سوچیے دیگر شہروں اور قصبات میں ان اداروں سے منسلک اعزازی و علامتی تنخواہ دار رپورٹرز کس حال میں ہوں گے۔ مگر ان سے بھی آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی فرمائشیں مسلسل رہتی ہیں۔ ایسے ماحول میں کون سی آزادیِ صحافت، کیسے ظالمانہ قوانین، کس نوعیت کی ریاستی بے حسی کا شکوہ ، کہاں کی پیشہ ورانہ اقدار ، لفافہ اور ٹاؤٹ جرنلزم پر کیسی تف ؟ بس ہر قیمت پر چیختی دھاڑتی رپورٹنگ سے اسکرینیں لال پیلی نیلی رہنی چاہئیں ؟ میرے منہ میں پیاز ٹھنسی ہے اور میں دوسرے کے دانتوں میں پھنسے لہسن کے جوے پر تنقید کر رہا ہوں۔ آپ بھلے اپنی تشفی کے لیے اس طرزِ عمل کو صحافت کہہ لیں مگر آسان اردو میں اسے ’’ صنعتی خرکاری‘‘ کہتے ہیں۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
rangpurcity · 1 year
Text
VIDEO: Imam-ul-Haq upset with journalist's question, started counting his old performances
VIDEO: Imam-ul-Haq upset with journalist’s question, started counting his old performances
highlights Imam-ul-Haq got angry with the question of the journalist Imam is the opener of Pakistan Runs are coming out of Imam’s bat these days New Delhi. Pakistan’s star cricketer Imam ul Haq is running in tremendous rhythm these days. His excellent performance can be gauged from the fact that he has scored 229 runs in the first two matches of the ongoing three-match Test series against…
View On WordPress
0 notes
luv-doritos · 8 months
Text
If every doctor had a news coverage abt them
IN THE NEWS TODAY :
-Teachers get kidnapped ; old homeless man suspected.
- Excentric self-proclaimed doctor and scottish boyfriend cause mischief with Yetis in London Underground ; Futurist female friend and her photograph girlfriend still at their search.
-Old fancy man defeats bearded leader with karate and military intervention.
-Beloved bohemian scientist falls off of a tower ; Thinks Dr.Sullivan is an imbecile, and develops affection for peculiar robotic pet dog. Journalist Sarah-Jane Smith refuses to cover the news.
-Cricket-like Father of four takes on adventures into space ; unfortunately becomes father of three as the fourth sacrifices himself.
-Arrogant blonde man with horrible fashion choices fights the Matrix with american woman and redhead woman ; gets defeated by "The Rani".
-Goofy but manipulative spoon-player unofficially adopts troubled teenage girl who masters explosives.
-Young man goes back between the 19th and the 20th century to find hot girls and guys to fuck.
-Bald man saves people around time and space and cheats on blonde woman with Sherlock Holmes.
-Adored silly man ruins redhead woman's marriage ; still revered by thousands.
-Knockoff of the adored silly man forgets how to interact with humans and has a complicated romance with woman called River Pond.
-Old emo teenager accused of murder ; says the victim was 'dead already'.
-Silly blonde woman who has midlife crisis at age 20 has pakistani lesbian lover ; denies.
-Adored silly man resurrects from death ; is Jesus ?
I'M YOUR ANCHOR ANNE KERR, THIS IS TODAY'S NEWS AND WTF ?!?
108 notes · View notes
ausetkmt · 10 months
Text
Tumblr media
Video shows migrants waiting before ill-fated migrant boat voyage
03:41 - Source: CNN
CNN  — 
The hull of the fishing trawler lifted out of the water as it sank, catapulting people from the top deck into the black sea below. In the darkness, they grabbed onto whatever they could to stay afloat, pushing each other underwater in a frantic fight for survival. Some were screaming, many began to recite their final prayers.
“I can still hear the voice of a woman calling out for help,” one survivor of the migrant boat disaster off the coast of Greece told CNN. “You’d swim and move floating bodies out of your way.”
With hundreds of people still missing after the overloaded vessel capsized in the Mediterranean on June 14, the testimonies of those who were onboard paint a picture of chaos and desperation. They also call into question the Greek coast guard’s version of events, suggesting more lives could have been saved, and may even point to fault on the part of Greek authorities.
Rights groups allege the tragedy is both further evidence and a result of a new pattern in illegal pushbacks of migrant boats to other nations’ waters, with deadly consequences.
This boat was carrying up to 750 Pakistani, Syrian, Egyptian and Palestinian refugees and migrants. Only 104 people have been rescued alive.
Tumblr media
CNN has interviewed multiple survivors of the shipwreck and their relatives, all of whom have wished to remain anonymous for security reasons and the fear of retribution from authorities in both Greece and at home.
One survivor from Syria, whom CNN is identifying as Rami, described how a Greek coast guard vessel approached the trawler multiple times to try to attach a rope to tow the ship, with disastrous results.
“The third time they towed us, the boat swayed to the right and everyone was screaming, people began falling into the sea, and the boat capsized and no one saw anyone anymore,” he said. “Brothers were separated, cousins were separated.”
Another Syrian man, identified as Mostafa, also believes it was the maneuver by the coast guard that caused the disaster. “The Greek captain pulled us too fast, it was extremely fast, this caused our boat to sink,” he said.
The Hellenic Coast Guard has repeatedly denied attempting to tow the vessel. An official investigation into the cause of the tragedy is still ongoing.
Coast guard spokesman Nikos Alexiou told CNN over the phone last week: “When the boat capsized, we were not even next to (the) boat. How could we be towing it?” Instead, he insisted they had only been “observing at a close distance” and that “a shift in weight probably caused by panic” had caused the boat to tip.
The Hellenic Coast Guard has declined to answer CNN’s specific requests for response to the survivor testimonies.
Direct accounts from those who survived the wreck have been limited, due to their concerns about speaking out and the media having little access to the survivors. CNN interviewed Rami and Mostafa outside the Malakasa migrant camp near Athens, where journalists are not permitted entry.
The Syrian men said the conditions on board the migrant boat deteriorated fast in the more than five days after it set off from Tobruk, Libya, in route to Italy. They had run out of water and had resorted to drinking from storage bottles that people had urinated in.
Tumblr media
“People were dying. People were fainting. We used a rope to dip clothes into the sea and use that to squeeze water on people who had lost consciousness,” Rami said.
CNN’s analysis of marine traffic data, combined with information from NGOs, merchant vessels and the European Union border patrol agency, Frontex, suggests that Greek authorities were aware of the distressed vessel for at least 13 hours before it eventually sank early on June 14.
The Greek coast guard has maintained that people onboard the trawler had refused rescue and insisted they wanted to continue their journey to Italy. But survivors, relatives and activists say they had asked for help multiple times.
Earlier in the day, other ships tried to help the trawler. Directed by the Greek coast guard, two merchant vessels – Lucky Sailor and Faithful Warrior – approached the boat between 6 and 9 p.m. on June 13 to offer supplies, according to marine traffic data and the logs of those ships. But according to survivors this only caused more havoc onboard.
Tumblr media
“Fights broke out over food and water, people were screaming and shouting,” Mostafa said. “If it wasn’t for people trying to calm the situation down, the boat was on the verge of sinking several times.”
By early evening, six people had already died onboard, according to an audio recording reviewed by CNN from Italian activist Nawal Soufi, who took a distress call from the migrant boat at around 7 p.m. Soufi’s communication with the vessel also corroborated Mostafa’s account that people moved from one side of the boat to the other after water bottles were passed from the cargo ships, causing it to sway dangerously.
The haunting final words sent from the migrant boat came just minutes before it capsized. According to a timeline published by NGO Alarm Phone they received a call, at around 1:45 a.m., with the words “Hello my friend… The ship you send is…” Then the call cuts out.
The coast guard says the vessel began to sink at around 2 a.m.
The next known activity in the area, according to marine traffic data, was the arrival of a cluster of vessels starting around 3 a.m. The Mayan Queen superyacht was the first on the scene for what soon became a mass rescue operation.
Tumblr media
Human rights groups say the authorities had a duty to act to save lives, regardless of what people on board were saying to the coast guard before the migrant boat capsized.
“The boat was overcrowded, was unseaworthy and should have been rescued and people taken to safety, that’s quite clear,” UNHCR Special Envoy for the Central Mediterranean Vincent Cochetel told CNN in an interview. “There was a responsibility for the Greek authorities to coordinate a rescue to bring those people safely to land.”
Cochetel also pointed to a growing trend by countries, including Greece, to assist migrant boats in leaving their waters. “That’s a practice we’ve seen in recent months. Some coastal states provide food, provide water, sometimes life jackets, sometimes even fuel to allow such boats to continue to only one destination: Italy. And that’s not fair, Italy cannot cope with that responsibility alone.”
Survivors who say the coast guard tried to tow their boat say they don’t know what the aim was.
Tumblr media
There have been multiple documented examples in recent years of Greek patrol boats engaging in so-called “pushbacks” of migrant vessels from Greek waters in recent years, including in a CNN investigation in 2020.
“It looks like what the Greeks have been doing since March 2020 as a matter of policy, which is pushbacks and trying to tow a boat to another country’s water in order to avoid the legal responsibility to rescue,” Omer Shatz, legal director of NGO Front-LEX, told CNN. “Because rescue means disembarkation and disembarkation means processing of asylum requests.”
Pushbacks are state measures aimed at forcing refugees and migrants out of their territory, while impeding access to legal and procedural frameworks, according to the Berlin-based European Center for Constitutional and Human Rights (ECCHR). They are a violation of international law, as well as European regulations.
Tumblr media
And such measures do not appear to have deterred human traffickers whose businesses prey on vulnerable and desperate migrants.
In an interview with CNN last month, then Greek Prime Minister Kyriakos Mitsotakis denied that his country engaged in intentional pushbacks and described them as a “completely unacceptable practice.” Mitsotakis is widely expected to win a second term in office in Sunday’s election, after failing to get an outright majority in a vote last month.
A series of Greek governments have been criticized for their handling of migration policy, including conditions in migrant camps, particularly following the 2015-16 refugee crisis, when more than 1 million people entered Europe through the country.
For those who lived through last week’s sinking, the harrowing experience will never be forgotten.
Mostafa and Rami both say they wish they had never made the journey, despite the fact they are now in Europe and are able to claim asylum.
Most of all, Mostafa says, he wishes the Greek coast guard had never approached their boat: “If they had left us be, we wouldn’t have drowned.”
113 notes · View notes
avizou · 6 months
Text
Pakistan is in the process of deporting 1.7 million Afghan refugees.
At least 60% of them are children born and raised in Pakistan, as Afghans have been seeking refuge within their southern neighbour's borders since the 1970s. Harrassment by Pakistani law enforcement has increased to unprecedented levels as they have started raiding refugee camps. People are held at newly constructed detention centers without transparency or access to legal representation.
Afghans are now being forced to return to a country ruled by a group that doesn't grant women equal rights and is aiming to establish a gender-apartheid state. Ethnic and religious minorities continue to suffer state-sanctioned violence. Among these refugees, journalists, former government employees and ISAF collaborators will all have to fear for their lives upon return.
Additionally, Afghanistan is facing a humanitarian crisis. Higher grain prices, an on-going draught and continued international sanctions are currently putting 20 million people at risk of a famine. Just recently, several magnitude 6 earthquakes killed over 3,000 and injured over 10,000 in the Western province Herat.
34 notes · View notes