Tumgik
#معاشی ترقی
akksofficial · 1 year
Text
وفاقی حکومت پسماندہ اضلاع کی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے کوشاں ہے ،احسن اقبال
وفاقی حکومت پسماندہ اضلاع کی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے کوشاں ہے ،احسن اقبال
اسلام آباد(نمائندہ عکس ) وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ 2017میں گزشتہ دور حکومت میں پہلی دفعہ پاکستان میں غربت کو ضلعوں کی سطح پر سروے کے نتیجے میں معلوم کیا تھا ، غربت کی لکیر صوبوں کی سطح پر ہوتی تھی ۔ پیر کے روز اسلام آبادمیں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پہلی بار غربت کو ضلعوں کی سطح پر پلاٹ کیا گیا ، اس سروے کے نتیجے کو بروئے کار لانے کیلئے اس سال بجٹ میں ایک نئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
forgottengenius · 3 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف ��انا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
mediazanewshd · 13 days
Link
0 notes
jhelumupdates · 1 month
Text
للِہ تا جہلم ڈیول کیرج وے منصوبے کی تاخیر پر اسسٹنٹ کمشنر پنڈدادنخان نے ایف ڈبلیو او کو خط لکھ دیا
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
pakistanpress · 3 months
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 3 months
Text
پی آئی اے کی نجکاری
Tumblr media
خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ملک کے معاشی مسائل کا یقینی طور پر ایک بنیادی سبب ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان میں سرفہرست ہیں۔ پچھلی صدی میں جب سوشلزم کی تحریک اپنے عروج پر تھی، پاکستان میں بھی تمام نجی کاروبار، صنعتوں، کارخانوں اور بینکوں کو قومیانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کے نتائج نہایت تلخ رہے لہٰذا ڈی نیشنلائزیشن کا عمل ناگزیر ہوگیا چنانچہ تمام بینک اور بیشتر دوسرے ادارے ان کے مالکان کو واپس کیے گئے ۔ یوں ان اداروں کے حالات میں بہتری آئی اور معاشی بحالی کا سفر ازسرنو شروع ہوا۔ تاہم سرکاری تحویل میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری نہیں ہو سکی ان میں سے بیشتر خسارے میں ہیں اور عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا ایک بڑا حصہ برسوں سے ان کا نقصان پورا کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری پچھلی کئی حکومتوں کے ایجنڈے میں شامل رہی لیکن عوامی اور سیاسی سطح پر منفی ردعمل کے خوف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم پی ڈی ایم کی حکومت کے فیصلے کے مطابق نگراں حکومت خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
Tumblr media
نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس ضمن میں 98 فیصد کام ہو چکا ہے اور بقیہ دو فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لی جانی ہے۔ وزیر نجکاری کے مطابق ٹرانزیکشن ایڈوائزر ارنسٹ اینڈ ینگ کی طرف سے تیار کردہ پلان کو نگراں حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے جبکہ نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال جون تک پی آئی اے پر 785 ارب روپے کے واجبات تھے اور 713 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان نے سنگین معاشی بحران کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ کرتے ہوئے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا۔ 
پی ڈی ایم حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگراں حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فی الحقیقت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیر ہے۔ نیشنلائزیشن کا تجربہ تقریباً دنیا بھرمیں ناکام ہو چکا ہے کیونکہ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں، مالی بدعنوانیاں، اقربا پروری، کام چوری اور دیگر خرابیاں بہت آسانی سے راستہ بنا لیتی ہیں۔ اس لیے حکومتیں اپنے دائرہ کار کو قانون سازی، فراہمی انصاف، قیام امن و امان ، نفاذ قانون، خارجہ امور اور نظام مالیات وخزانہ جسے بنیادی معاملات تک محدود رکھتی ہیں جس کے باعث کاروبار مملکت چلانے کیلئے مختصر کابینہ بھی کافی ہوتی ہے اورغیرضروری سرکاری اخراجات سے نجات مل جاتی ہے جبکہ معاشی ترقی کیلئے نجی شعبے کو محفوظ سرمایہ کاری کی تمام منصفانہ سہولتیں دے کر کام کرنے کے بھرپور مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طریق کار کو اپنایا جائے اور وقتی سیاسی مفادات کیلئے نجکاری کے عمل کی مخالفت نہ کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
بلاول بھٹو زرداری نے ’ نہ کھپے میاں صاحب نہ کھپے‘ کا نعرہ لگادیا
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ’ نہ کھپے میاں صاحب نہ کھپے ‘ کا نعرہ لگادیا۔ شکار پور میں پیپلزپارٹی کی ریلی سے خطاب کرتے بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام کے مسائل کا حل صرف پیپلزپارٹی کے پاس ہے،ہم نے ملک کی ترقی کیلئے معاشی معاہدہ تیار کیا ہے،ہم ایک تاریخی معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، عوام جانتے ہیں ملک اس وقت مشکلات کا شکار ہے،عوام چاہتے ہیں ایسی حکومت بنے جو روزگار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hurmatnews · 3 months
Text
صوبہ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام صنعتوں کا معاشی ترقی و روزگار فراہمی میں اہم کردار ہے ، حاجی غلام علی* 
گورنرخیبرپختونخوا (حرمت نیوز)حاجی غلام علی نے کہا ہے صوبہ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام صنعتوں کا معاشی ترقی و روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ہے، صوبہ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام صنعتوں کو سہولیات فراہم کریں گے، ملکی ترقی کا دارومدار صنعتی ترقی پر ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز خیبرپختونخوا ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (KPTMA) کے ایک نمائندہ وفد سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کے دوران کیا.…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
airnews-arngbad · 5 months
Text
 Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 07 December-2023
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۷/دسمبر ۳۲۰۲ء؁
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آج سے آغاز۔
٭ مراٹھواڑہ اور ودربھ کی ہمہ گیر ترقی کیلئے حکومت پابند؛ اجلاس سے قبل وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے کا عندیہ۔ حکومت کی چائے پارٹی کا حزبِ اختلاف کی جانب سے بائیکاٹ۔
٭ بھارت رَتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو 68 ویں مہا پری نِروان دِن کے موقعے پر ملک بھر میں خراجِ عقیدت۔
اور ٭ ترقی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا کو شہریوں کی بھرپور پذیرائی۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آج سے ناگپور میں آغاز ہورہا ہے۔ اجلاس سے قبل گذشتہ شام ناگپور میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا کہ عام شہریوں کے مفادات میں فیصلے کرنا ریاستی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے اور مراٹھواڑہ اور ودربھ کی ہمہ گیر ترقی کیلئے ان کی حکومت پابند ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ اُن کی حکومت دشواریوں کا شکار کسانوں کے ساتھ پوری مضبوطی سے کھڑی ہے۔ انھوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ بھی کیا کہ کسی بھی سماج کے ساتھ ناانصافی کیے بغیر مراٹھا سماج کو انصاف دیا جائیگا۔ نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس اور نائب وزیرِ اعلیٰ اجیت پوار بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پھڑنویس نے کہا کہ سرمائی اجلاس کے پس منظر میں حزبِ اختلاف کی جانب سے جاری کیے گئے مکتوب میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ اس کے برخلاف حزبِ اختلاف کے مکتوب میں ودربھ اور مراٹھواڑہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ پھڑنویس نے بتایا کہ 19 تاریخ کو کامگار صلاح کار کمیٹی کے اجلاس کے بعد آئندہ کام کاج سے متعلق تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
نائب وزیرِ اعلیٰ اجیت پوار نے اس موقع پر کہا کہ مہایوتی سرکار نے معاشی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی تمام تر کوششیں کی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے حکومت پر عائد کردہ الزامات کو انھوں نے مسترد کردیا۔
سرمائی اجلاس سے قبل کی شام وزیرِ اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر روایتی چائے پارٹی منعقد کی گئی۔ جس میں دونوں نائب وزرائے اعلیٰ اور ارکانِ اسمبلی شریک تھے۔ تاہم حزبِ اختلاف کی جانب سے اس چائے پارٹی کا بائیکاٹ کیا گیا۔ ریاستی اسمبلی میں قائد ِ حزبِ اختلاف وجئے وڑیٹیوار نے کہا کہ ریاست کا کسان‘ خشک سالی‘ پانی کی قلّت اور غیر موسمی بارش جیسی مشکلات سے دوچار ہے اور ان حالات میں حکومت کی پارٹی میں شرکت کرنا کسانوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتوں نے اس پارٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کل ناگپور میں ایک اطلاعی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر قانون ساز کونسل میں حزبِ اختلاف کے قائد امبا داس دانوے‘ راشٹروادی کانگریس رہنماء جینت پاٹل‘ کانگریس کے اشوک چوہان اور مہا وِکاس آگھاڑی کی رکن جماعتوں کے رہنماء موجود تھے۔ امبا داس دانے نے الزام عائد کیا کہ حکومت کی جانب سے 40 تعلقوں میں قحط سالی کے حوالے سے کی گئی امداد‘ سیاسی مفادات میں کی گئی ہے۔ انھوں نے پُرزور مطالبہ کیا کہ قحط سے متاثرہ تمام ہی تعلقوں میں امداد جاری کی جائے۔
***** ***** *****
اسمبلی کے اس سرمائی اجلاس میں حکومت 9بل پیش کرے گی۔ ان میں ضمنی مطالبات کے علاوہ زرعی اراضی ترمیمی بل‘ مہاراشٹر اشیاء و خدمات ٹیکس ترمیمی بل‘ چھترپتی سمبھاجی نگر اور دھارا شیو اضلاع کے ناموں میں تبدیلی کے بعد ترمیم کیلئے عام یونیورسٹی ترمیمی بل اور دیگر ترامیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تین ای آرڈیننس مشترکہ کمیٹی کو ارسال کردہ سات بل، نیز اسمبلی میں دو اور قانون ساز کونسل میں زیرِ التواء ایک بل منظور کروانے کی حکومت کوشش کریگی۔
***** ***** *****
لوک سبھا میں کل جموں و کشمیر ریزرویشن بل 2023 اور جموں و کشمیر تشکیل ِ نو بل 2023 کو منظور کرلیا گیا۔ جموں و کشمیر ریزرویشن بل کے تحت درجِ فہرست ذاتوں اور قبائل نیز سماجی و معاشی طور پر پسماندہ افراد کیلئے خانگی اداروں میں ملازمتیں اور داخلوں کیلئے ریزرویشن دیا جائیگا۔
***** ***** *****
بھارت رَتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو کل 68 ویں مہاپری نِروان دِن پر ملک بھر میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ ممبئی میں چیتیہ بھومی پر گورنر رمیش بئیس‘ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے‘ نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس اور نائب وزیرِ اعلیٰ اجیت پوار نے بابا صاحب امبیڈکر کی یادگار پر گلہائے عقیدت پیش کیے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ اُدّھو ٹھاکرے نے بھی چیتیہ بھومی جاکر با با صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ چیتیہ بھومی پر کل ڈاکٹر امبیڈکر کے لاکھوں عقیدت مندوں کا ہجوم اُمڈ آیا تھا۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں سبکدوش گزیٹیڈ افسر ای زیڈ کھوبراگڑے نے ”ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اور بھارت کا دستور“ اس عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کیا۔
دوسری جانب شہر کے بھڑکل گیٹ علاقے میں نصب ڈاکٹر امبیڈکر کے مجسّمے پر پھول چڑھانے کیلئے کل صبح ہی سے مختلف تنظیموں‘ جماعتوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ سماجی تنظیم ”فیس آف امبیڈکر رائٹ موومنٹ“ کی جانب سے ”ایک بیاض‘ ایک قلم“ مہم چلائی گئی۔ مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے عطیہئ خون کیمپ اور طبّی جانچ کیمپ منعقد کرکے بابا صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
لاتور شہر کے پان گاؤں میں بابا صاحب کے استھی کلش کو ضلع کلکٹر ورشا ٹھاکر گھوگے اور ضلع پولس سپرنٹنڈنٹ سومئے منڈے نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔
بیڑ میں ضلع اطلاعاتی افسر پرشانت دیٹھنکر نے تحصیل دفتر میں بابا صاحب کی شبیہہ پر پھول چڑھائے۔ ناندیڑ‘ پربھنی اور دھارا شیو میں بھی مختلف پروگراموں میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
***** ***** *****
ترقی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا کل چھترپتی سمبھاجی نگر کے لینڈ ریکارڈ دفترکے احاطے اور حمایت باغ پہنچی۔ اس یاترا کو بزرگ شہریوں اور خواتین کی بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ مرکزی نشر و اشاعت بیورو کے مینیجر سنتوش دیشمکھ اور معاون علاقائی تشہیری افسر پردیپ پوار نے شہریوں کو حکومت کی مختلف اسکیموں سے آگاہ کیا۔
***** ***** *****
بھارت اور انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے مابین تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے کل ممبئی میں کھیلے گئے پہلے میچ میں بھارت کو 38 رنوں سے شکست ہوئی۔ انگلینڈ کی ٹیم نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے مقررہ 20 اوور میں چھ وِکٹ کے نقصان پر 197 رن بنائے۔ جواب میں بھارت کی ٹیم 20 اوور میں 159 رن ہی بناسکی۔ اس سیریز کا دوسرا میچ ہفتے کے دِن ممبئی میں ہی کھیلا جائیگا۔
***** ***** *****
ہنگولی کی کُل سوامنی مہیلا اربن کریڈٹ سوسائٹی میں ہوئے 10کروڑ روپؤں کی بدعنوانی کے معاملے میں کریڈٹ سوسائٹی کے 16 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ اِن میں سوسائٹی کے ڈائریکٹر سمیت مینیجر اور اکاؤنٹنٹ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلع پریشد کی چیف ایگزیکٹیو افسر مینل کرنوال نے لوہا تعلقے کے جانپوری گرام پنچایت کا کل دورہ کیا۔ گاؤں کی سطح پر صفائی‘ فاضل پانی اور کوڑا کرکٹ ضائع کرنے جیسے کاموں کا انھوں نے جائزہ لیا۔ انھوں نے اسکول کا دورہ کرکے طلباء اور اساتذہ سے بھی بات چیت کی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ریاستی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آج سے آغاز۔
٭ مراٹھواڑہ اور ودربھ کی ہمہ گیر ترقی کیلئے حکومت پابند؛ اجلاس سے قبل وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے کا عندیہ۔ حکومت کی چائے پارٹی کا حزبِ اختلاف کی جانب سے بائیکاٹ۔
٭ بھارت رَتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو 68 ویں مہا پری نِروان دِن کے موقعے پر ملک بھر میں خراجِ عقیدت۔
اور ٭ ترقی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا کو شہریوں کی بھرپور پذیرائی۔
***** ***** *****
اس کے ساتھ ہی علاقائی خبریں ختم ہوئیں۔
ان خبروں کو آپ آکاشوانی سماچار اورنگ آباد اور یوٹیوب چینل‘ اورنگ آباد NEWS AIR پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
***** ***** *****
0 notes
minhajbooks · 6 months
Text
معروف اسلامی سکالر جسٹس (ر) نذیر احمد غازی میزبان پروگرام نورِ سحر 24 نیوز چینل، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی تصنیف 🔰 سوشل میڈیا اور ہماری زندگی (فوائد و نقصانات) کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔
اِکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اسلام انسانیت کی فلاح کے لیے جدید ذرائع کے استعمال کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ تاکید کرتا ہے۔ سماجی و مذہبی اور سیاسی و معاشی سطح پر اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کے مثبت و منفی اثرات اس قدر ہمہ گیر ہیں کہ اس سے کسی کو مجالِ انکار نہیں ہے۔ تمام شعبہ ہاے زندگی میں تجدید و ترقی بذاتِ خود اس بات کی متقاضی ہے کہ دعوت و تبلیغِ دین کے لیے جدید وسائل اِختیار کیے جائیں۔
سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے جہاں انسانیت کو کثیر فوائد حاصل ہوئے، وہاں اس کے منفی استعمالات سے انسانیت کے اخلاقی و سماجی کرب میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اِس اہم اور عصری موضوع کو نذرِ قرطاس کیا ہے، تاکہ آج کی نوجوان نسل اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اس کے مثبت استعمال کو اپنا وطیرہ بنائے۔
کتاب کے مطالعہ سے آپ جان سکیں گے کہ: 🔹 سوشل میڈیا کیا ہے اور اس کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟ 🔹 سوشل میڈیا کی کتنی اَقسام ہیں؟ 🔹 سوشل میڈیا کا مثبت اور منفی اِستعمال کیا ہے؟ 🔹 سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات کیا ہیں؟ 🔹 کیا سوشل میڈیا کا اِستعمال ضروری ہے؟ 🔹 سوشل میڈیا کے ذریعے خدمتِ اِسلام کیسے ممکن ہے؟
💬 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
🌐 فہرست کتاب مطالعہ کریں https://www.minhajbooks.com/english/book/708/Social-Media-awr-Hamari-Zindagi-Fawaid-o-Nuqsanat
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے ب��د‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
Text
وائلڈ ہارس کیسینو - بلاگ تعارف: وائلڈ ہارس کیسینو کی سنسنی خیز دنیا کی تلاش میں خوش آمدید وائلڈ ہارس کیسینوجہاں جوئے کی فضیلت کے اعلیٰ ترین معیار سنسنی، خوبصورتی اور تفریح ​​کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترتے ہیں۔ ہمارا کیسینو، آسانی سے (جگہ) کے وسط میں واقع ہے، تیزی سے مقامی لوگوں اور زائرین کے لیے یکساں پسندیدہ بن گیا ہے۔ یہ گائیڈ آپ کو سائبر اسپیس میں وائلڈ ہارس کیسینو کے دورے پر لے جائے گا، جہاں آپ اپنے لیے اس کی تمام شان و شوکت کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ جوئے بازی کے اڈوں میں ایک شاندار دن گزارنے کے لیے آپ کو جس چیز کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے، ہم اس کی دلچسپ تاریخ سے لے کر اس کے بہت سے دلچسپ گیمز، مزیدار ریستوراں، عالیشان کمرے، اور دلچسپ شوز تک دیکھیں گے۔ کے لیے یہاں کلک کریں۔ کیسینو کی خبریں۔. وائلڈ ہارس کیسینو: ایک مختصر پس منظر وائلڈ ہارس کیسینو Wildhorse's Casino (سال) سے ہے، اس لیے اسے بہت دیکھا گیا ہے۔ جوئے بازی کے اڈوں نے اپنی عاجزانہ شروعات سے جواریوں اور اچھا وقت تلاش کرنے والوں کے لیے ایک بڑی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ وائلڈ ہارس کیسینو نے حالیہ برسوں میں تیزی سے ترقی اور ترقی کی ہے، جس نے مارکیٹ لیڈر کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔ وائلڈ ہارس کیسینو جوئے کا بہترین ممکنہ تجربہ پیش کرتا ہے۔ وائلڈ ہارس کیسینو میں جواریوں کو انتخاب کے لیے خراب کر دیا جائے گا۔ آپ اپنی قسمت اور مہارت کو مختلف سلاٹ مشینوں، ٹیبل گیمز اور پوکر رومز میں جانچ سکتے ہیں۔ چاہے آپ ایک تجربہ کار جواری ہیں یا ابھی شروعات کررہے ہیں، ہمارا مددگار عملہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ آپ کا دن اچھا گزرے۔ براہِ کرم فائن ڈائننگ اسٹیبلشمنٹس پر اپنا طالو وائلڈ ہارس کیسینو میں کھانا غیر معمولی ہے۔ ہمارے پاس انتخاب کرنے کے لیے مختلف قسم کے لذیذ کھانے ہیں۔ کسی بھی ذائقے کے مطابق ریستورانوں کی وسیع اقسام ہیں، ان لوگوں سے لے کر ان لوگوں کو جو نفیس کرایہ فراہم کرتے ہیں ان لوگوں کو جو نیچے گھر میں پسند کرتے ہیں۔ کھانے، ماحول اور خدمت کے مزیدار متوازن امتزاج کا مزہ چکھیں جو آپ کو مزید چاہیں گے۔ [embed]https://www.youtube.com/watch?v=eS029bCeYXU[/embed] آرام سے آرام کرنے کے لیے خوبصورت جگہیں۔ گیمنگ اور شوز کے ایک سنسنی خیز دن کے بعد ہمارے عالیشان کمروں میں آرام کرنے کے لیے کچھ وقت نکالیں۔ وائلڈ ہارس کیسینو میں پرتعیش ہوٹل کے کمرے اور سوئٹ سوچ سمجھ کر تیار کیے گئے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کا قیام آرام دہ اور پر سکون ہے۔ ہر کمرے کی حال ہی میں تزئین و آرائش کی گئی ہے اور جوئے بازی کے اڈوں کے فرش کے جوش و خروش سے آرام دہ اعتکاف فراہم کرنے کے لیے وضع دار فرنشننگ کی خصوصیات ہیں۔ آپ کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے تفریحی اور دلچسپ سرگرمیاں وائلڈ ہارس کیسینو میں مزے کرنے کے لیے کیسینو فلور واحد جگہ نہیں ہے۔ پنڈال میں لائیو پرفارمنس کا ایک جاندار شیڈول بھی ہے۔ وائلڈ ہارس کیسینو میں کبھی بورنگ لمحہ نہیں ہوتا ہے، جہاں آپ لائیو میوزک اور اسٹینڈ اپ کامیڈی سے لے کر کھیلوں کے دلچسپ ایونٹس اور پرائیویٹ پارٹیوں تک کسی بھی چیز سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے یہاں ہونے کے دوران کیا ہو رہا ہے، تو ہمارا ایونٹ کیلنڈر دیکھیں۔ وائلڈ ہارس کیسینو اپنی شادی اور تقریب کی سہولیات کے ساتھ یادگار مواقع کی میزبانی کرتا ہے وائلڈ ہارس کیسینو اپنی آنے والی شادی یا دیگر خصوصی تقریب کے لیے ایک قسم کے اور واقعی قابل ذکر مقام کی تلاش میں؟ وائلڈ ہارس کیسینو وہ جگہ ہے جہاں آپ کو ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے شاندار ایونٹ رومز اور ایونٹ پلاننگ کے پیشہ ورانہ عملے کی بدولت آپ کا خاص موقع شاندار کامیابی کا باعث ہوگا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کا ایونٹ کتنا بڑا یا چھوٹا ہے، ہمارے پاس اسے نمایاں کرنے کے لیے بہترین پیکیج اور سروس ہے۔ فائدے اور نقصانات پیشہ Cons کے گیمنگ کے متنوع اختیارات جوئے کی لت کے لیے ممکنہ دلچسپ تفریح مالی نقصان کا خطرہ خوبصورت ماحول شور اور ہجوم مختلف قسم کے کھانے کے انتخاب صحت کے مسائل کے لیے ممکنہ انعامات کا امکان رہائشی علاقوں سے فاصلہ سماجی کاری کا موقع معذور زائرین کے لیے محدود رسائی ملازمت کی تخلیق کے امکانات مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے ممکنہ معاشی فوائد مقامی کاروبار پر منفی اثرات سیاحت کو فروغ دینے کے امکانات مقامی ماحولیات پر اثرات آسان سہولیات ٹریفک کی بھیڑ کا امکان وائلڈ ہارس کیسینو: جوئے کے بے مثال تجربے کا آپ کا گیٹ وے جوئے کے شائقین اور وہ لوگ جو صرف اچھا وقت تلاش کر رہے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ Wildhorse Casino دونوں کو سپیڈز میں فراہم کرتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے توقع سے بہتر ہے: اس کا ایک
دلچسپ ماضی ہے، گیمنگ کے بہت سے امکانات، شاندار پکوان کے تجربات، شاندار رہائش، پرجوش تفریح، اور قابل تقلید تقریب کے مقامات ہیں۔ Wildhorse's Casino میں وہ سب کچھ ہے جس کی آپ کو ایک یادگار تجربے کے لیے درکار ہے، چاہے آپ ہفتے کے آخر میں چھٹی کے لیے شہر میں ہوں، کسی خاص تقریب، یا صرف ایک شاندار رات کے لیے۔ آؤ رات کی زندگی کے سنسنی، عالمی معیار کی تفریح ​​کا سنسنی، اور زندگی بھر کی یادوں کا تجربہ کریں۔ دیگر گیمز کے لیے، رجوع کریں۔ کیسینو پیشن گوئی سافٹ ویئر. آپ کے انتہائی پریشان کن خدشات کے جوابات وائلڈ ہارس کیسینو میں سرپرستوں کے لیے (عمر) کی سخت "عمر کی حد" ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس ہر وقت اپنی عمر ثابت کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ موجود ہے۔ مہمانوں کا خیرمقدم ہے کہ وہ پہنیں جو ان کے لیے سب سے زیادہ آرام دہ ہے، لیکن ہم اس کی تعریف کریں گے اگر وہ خوبصورت نظر آنے کی کوشش کریں گے۔ زیادہ تر جوئے بازی کے اڈوں کو ہوشیار آرام دہ لباس میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، کچھ عمدہ کھانے کے اداروں اور خصوصی تقریبات کے لیے ایک رسمی لباس کوڈ لاگو ہو سکتا ہے۔ Wildhorse Casino افسوس کے ساتھ ہوٹل کے کسی بھی کمرے میں کتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر اس سے کوئی پریشانی ہوئی ہے تو ہم دل سے معذرت خواہ ہیں۔ بالکل! وائلڈ ہارس کیسینو کے ذریعہ فراہم کردہ ایونٹ کی جگہیں اور خدمات کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہمارے پیشہ ورانہ پروگرام کے منصوبہ ساز آپ کے ساتھ ایک یادگار ایونٹ ڈیزائن کرنے میں تعاون کریں گے جو منفرد طور پر آپ کی ضروریات کے مطابق ہو۔ آپ وائلڈ ہارس کیسینو میں ان کی فراخ دل ترغیبات اور وفاداری کے پروگراموں سے فائدہ اٹھا کر اپنے وقت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ہمارے لائلٹی پروگرام کے لیے سائن اپ کرتے ہیں، تو ہم آپ کو زبردست سودوں اور چھوٹ تک رسائی فراہم کریں گے۔ سیلز اور دیگر واقعات کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے لیے ہماری ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر نظر رکھیں۔ https://blog.myfinancemoney.com/wildhorse-casino/?rand=725 https://blog.myfinancemoney.com/wildhorse-casino/
0 notes
jhelumupdates · 1 month
Text
للِہ تا جہلم ڈیول کیرج وے منصوبے کی تاخیر پر اسسٹنٹ کمشنر پنڈدادنخان نے ایف ڈبلیو او کو خط لکھ دیا
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
معیشت اور جمہوریت کو بچانے کا چیلنج؟
Tumblr media
پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی، مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہو گئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں، انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25 کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mind کی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے، 
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتماد کے اظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا، 
Tumblr media
دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا، جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی، اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچانا پڑے گا، چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ایک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔ 
پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60 فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو جائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ جمہوریت ہے یا نہیں، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔
سکندر حمید لودھی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes