Tumgik
#CPEC
businessapac · 6 months
Text
Step into the world of intelligence agencies in India to discover their secret operations and their crucial role in national security
2 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
aarifboy · 22 hours
Video
youtube
Bhasha Dam. Who Tried to Stop it & Who Made? Imran Khan vs Nawaz Shareef...
0 notes
taazanewslive24 · 2 months
Text
भारत और चीन में 5 साल में हो सकती है एक और जंग? वजह है ड्रैगन का ये डर, RUSI की रिपोर्ट में दावा
भारत और चीन के बीच पांच सालों में जंग छिड़ सकती है. जियो पॉलिटिक्स के एक्सपर्ट्स ने इसकी आशंका जताई है. उनका कहना है कि हिमालय में 2025 से 2030 के बीच एक और भारत-चीन युद्ध छिड़ सकता है. एक्सपर्ट्स ने युद्ध की वजह चीन-पाकिस्तान इकोनॉमिक कॉरिडोर (CPEC) प्रोजेक्ट को बताया है. उनका कहना है कि चीन अपने काशागार एनर्जी प्लांट को लेकर डर में है, जिसका रास्ता पूर्वी लद्दाख से होकर गुजरता है. ऐसे में उसको…
View On WordPress
0 notes
ahgroup-pk · 2 months
Text
1 note · View note
prabodhjamwal · 3 months
Text
Pakistan: Fraudulent Elections Ensure The Army’s Status Quo
Claude Rakisits, Centre for Security, Defence and Strategy* BRUSSELS: Former Prime Minister Imran Khan’s stunning win in the Pakistan election is swept aside as Nawaz Sharif claims power with the military’s backing. By anyone’s standard, the elections held in Pakistan on February 8 were neither free nor fair. Under the leadership of General Asim Munir, the military ‘massaged’ three-time leader…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 3 months
Text
قصہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا
Tumblr media
سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ جسٹس مقبول باقر بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے وفد میں شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کے سی آر کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بنیادی مقصد تجارت و صنعت کو فروغ دینا ہے اور کے سی آر صرف ٹریکس اور اسٹیشنوں کا قیام ہی نہیں بلکہ معاشی فوائد کو کراچی سے پاکستان کے اہم شہروں تک پہنچانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر سرکلر ریلوے بحال ہو گئی تو روزانہ لاکھ سے زیادہ مسافر ان ریل گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے فورم کے شرکاء کو بتایا کہ اس منصوبہ پر 2 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی اور سرکلر ریلوے کی لائن 43 کلومیٹر طویل ہو گی۔ کے سی آر شہر کے خاصے علاقوں سے گزرے گی۔ پھر یہ بھی کہا کہ سندھ کی نگراں حکومت اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ جب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں سی پیک منصوبہ پر دستخط کرنے کی تقریب بیجنگ میں منعقد ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وزیر اعظم کے وفد میں شامل تھے۔ انھوں نے واپسی پر کراچی آکر اعلان کیا کہ چین کے سی آر کی بحالی کے لیے تیار ہے۔
میاں نواز شریف کے اس وفد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی شامل تھے، انھوں نے لاہور پہنچنے پر اعلان کیا کہ سی پیک کے منصوبہ میں لاہور کی اورنج ٹرین کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، یوں لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ منصوبہ تکمیل کے قریب تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں قائم ہوئی تو منصوبہ کئی مہینوں کے لیے التواء کا شکار ہوا، مگر یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے ساتھ بیجنگ گئے اور واپسی پر یہ بری خبر سنائی کہ چین کو اس منصوبے میں دلچسپی نہیں رہی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی بد امنی کیس میں سماعت کے دوران ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دیا۔ ان کی توجہ کے سی آر کے التواء کے منصوبہ پڑ گئی۔ انھوں نے اس منصوبے کی عدم تکمیل پر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس وقت کے بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو طلب کیا گیا اور یہ احکامات جاری کیے گئے کہ سرکلر ریلوے پر قائم تجاوزات کو ہنگامی طور پر ہٹایا جائے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ سرکاری مشینری نے فوری طور پر آپریشن شروع کیا۔ سرکلر ریلوے کی لائن پر سیکڑوں بستیاں، اسپتال اور سرکاری دفاتر حتیٰ کہ تھانے قائم تھے۔
Tumblr media
حکومتی عملے نے سپریم کورٹ کے طے شدہ وقت کے مطابق کام مکمل کیا۔ اس وقت کے ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ پاکستان ریلوے زبوں حالی کا شکار ہے اس بناء پر حکومت سندھ کو کے سی آر کی بحالی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مختلف جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کو پلاننگ کی وزارت کی سربراہی سونپی گئی۔ احسن اقبال کی قیادت میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے دوسری فزیبلٹی تیار کی گئی جس پر 2.027 ملین ڈالرکا تخمینہ لگایا گیا۔ اس فزیبلٹی کے مطابق یہ منصوبہ 38 مہینوں میں مکمل ہونا تھا۔ احسن اقبال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ چین کی حکومت پھر اس منصوبہ میں دلچسپی لے رہی ہے اس بناء پر نئی فزیبلٹی تیار کرنا ضروری ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سرکلر ریلوے 43.13 کلومیٹر طویل ہو گی، جس میں سے 17.74 کلومیٹر ریلوے لائن زمین پر تعمیر ہو گی اور 25.51 کلومیٹر ایلی ویٹر پر تعمیر ہو گی۔
اس فزیبلٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پہلے کے سی آر کی ملکیت وفاقی حکومت ہو گی اور پھر یہ بتدریج حکومت سندھ کو منتقل ہو جائے گی مگر یہ معاملہ محض فزیبلٹی تک محدود ہو گیا۔ یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ چین کی حکومت پشاور سے کراچی کے لیے تعمیر ہونے والی نئی ر��لوے لائن ایم۔ ون پر فوری طور پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔ اب نگراں وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے چین کے دار الحکومت بیجنگ گئے تو پھر دونوں منصوبوں کی تجدید ہوئی۔ سرکلر ریلوے جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں تعمیرکی گئی، اس وقت شہر میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ S.I.T.S میں بہت سے کارخانے قائم ہوئے یوں سرکلر ریلوے ایک نیم دائرہ کی شکل میں چلنے لگی۔ یہ سرکلر ریلوے پپری سے کراچی آنے کے لیے کم وقت میں سب سے زیادہ مناسب سواری تھی۔ اسی طرح وزیر منشن کیماڑی سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، یونیورسٹی روڈ سے سی او ڈی تک کے علاوہ سے ہوتی ہوئی مرکزی ریلوے سے منسلک ہوجاتی تھی۔ پھر مضافات کے علاقوں سے روزانہ علیٰ الصبح ہزاروں مسافر آدھے گھنٹہ میں (لانڈھی اور ملیر سٹی سے ) سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
اس وقت تمام مالیاتی ادارے سرکاری ادارے، اسکول اور دیگر کاروباری اداروں کے دفاتر میکلوروڈ، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ مسافر سرکلر ریلوے کے ذریعے اپنے گھروں تک آرام دہ سفر کے ذریعے واپس پہنچ جاتے تھے۔ اس زمانے میں اندرون شہر میں ٹرام وے چلتی تھی۔ سٹی اسٹیشن سے کینٹ اسٹیشن، سولجر بازار اور چاکیواڑہ تک ٹرام سفر کے لیے بہترین سواری تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت میں ٹرانسپورٹ مافیا ارتقاء پذیر ہوئی۔  بیوروکریسی نے ساری دنیا کی طرح الیکٹرک ٹرام میں تبدیلی کرنے کے بجائے اس بناء پر بند کرنے کا فیصلہ کیا کہ ٹرام کی پٹری ٹریفک میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ٹرام کی جگہ چھوٹی منی بسوں نے لے لی جن میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرکلر ریلوے 1984 میں بند ہو گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے گورنر عشرت العباد نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو کراچی بلا کر سرکلر ریلوے کے افتتاح کی تقریب منعقد کی۔
یہ سرکلر ریلوے چنیسر ہالٹ تک جاتی تھی مگر کچھ عرصے بعد یہ بھی بند ہو گئی، بعد ازاں شیخ رشید کے پاس ریلوے کا محکمہ آگیا۔ انھوں نے ریلوے کے ملازمین کو صبح پپری مارشلنگ یارڈ لے جانے والی ریل گاڑی کو سرکلر ریلوے کا نام دیا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ کی بناء پر 80ء کی دہائی میں کراچی خون ریز ہنگاموں کا شکار ہوا مگر کسی حکومت نے کراچی میں جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ پر کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال کراچی والوں پر ایک احسان کیا۔ پیپلز بس سروس کے نام پر 250 بسیں چلنے لگیں۔ اس سروس سے مسافروں کو خاصا فائدہ ہوا مگر نگران صوبائی وزیر منصوبہ بندی کے وزیر یونس دھاگہ کا تجزیہ ہے کہ شہر میں کم از کم 5 ہزار بسیں چلنی چاہئیں۔ اب نگران وزیر اعلیٰ نے سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کا عزم کیا ہے مگر کوئی شہری اس خبر پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو ممبئی، کلکتہ، دہلی اور ڈھاکا کی طرز پر انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور جدید سفر کی سہولتیں سے اس صدی میں مستفید ہونے کا موقع ملے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
jobsinfoandnewsupdate · 4 months
Text
Pakistan General Election 2024
General election are going to be held in February 2024 in Pakistan. It should be remembered that before this, the general elections were held on 25 July 2018. In which three major parties of Pakistan participated, namely Pakistan Muslim League-N, Pakistan Tehreek-e-Insaf, and Pakistan Peoples Party. But the Pakistan Tehreek-e-Insaf won 149 seats in the National Assembly While the Pakistan Muslim…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
اقتصادی ترقی : چین سے کیا سیکھیں؟
Tumblr media
عوامی جمہوریہ چین کے 74ویں یوم تاسیس پر جہاں پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور اہم شخصیات دونوں ممالک کی لازوال دوستی کو مزید مضبوط اور مستحکم بن��نے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہیں ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے چین آج دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور بن چکا ہے اور ہم دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران غیر معمولی اقتصادی ترقی کا تجربہ کیا ہے، جس سے وہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک ماڈل بن گیا ہے۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں نظریاتی اختلافات کے باوجود چین سے تعلقات کے معاملے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح چین نے بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ چین نے پاکستان کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ بھی اسی لئے شروع کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے معاشی تعلقات میں اضافہ کیا جائے۔ 
64 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر سنکیانگ کو گوادر سے سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کے ذریعے کارگو، تیل اور گیس کی ترسیل کیلئے ملایا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے اور لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیلئے متعدد بجلی گھر بھی کام شروع کر چکے ہیں جبکہ کچھ دیگر منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ صنعتی تعاون کے اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بننے والے نو خصوصی ترجیحی اکنامک زونز ہیں جہاں پر چینی کمپنیوں نے صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور روزگار فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے چار اکنامک زونز کو فاسٹ ٹریک پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت پنجاب کا واحد اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد میں بنایا جا رہا ہے جس کا 35 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ رشاکائی اسپیشل اکنامک زون خیبر پختونخواپر 30 فیصد، بوستان اسپیشل اکنامک زون بلوچستان پر 20 فیصد اور دھابیجی اسپیشل اکنامک زون سندھ پر پانچ فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔ 
Tumblr media
اس سلسلے میں طے شدہ اہداف کے مطابق تمام اکنامک زونز 2020ء تک مکمل ہونے تھے تاہم کورونا کی وبا کے باعث ان کی تکمیل تاخیر کا شکار ہوئی لیکن اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ اکنامک زونز جلد سے جلد مکمل ہو جائیں گے جس سے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ چین کے سرمایہ کار پاکستان کی ترقی اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے حوالے سے جو اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا بطور چیئرمین فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (فیڈمک) میں خود مشاہدہ کر چکا ہوں۔ فیڈمک کے زیر انتظام بننے والے سی پیک کے سب سے بڑے ترجیحی اسپیشل اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹری سٹی کا سنگ بنیاد جنوری 2020ء میں رکھا گیا تھا۔ اس اکنامک زون میں چین کی 150سے زائد کمپنیاں اور سرمایہ کار تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں فیڈمک کی طرف سے سرمایہ کاروں کو دس سال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس اکنامک زون میں بعض صنعتی یونٹس کی جانب سے پروڈکشن یونٹس لگا کر پیداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ چینی سرمایہ کار اس اکنامک زون سمیت ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
چین سے صنعتی تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے بھی چین کی پیروی کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ چین نے 40 سال کی مدت میں 80 کروڑ چینی عوام کو غربت سے نجات دلا کر انسانی تاریخ کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین نے پاکستان سے دو سال بعد آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کا یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی فوجی اور اقتصادی قوت ہے۔ اس لئے اگر ہم بھی چینی تعاون سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلیں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہ صرف غربت سے نجات حاصل کر سکتا ہے بلکہ صنعتی ترقی کی حقیقی منزل سے بھی ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ چین تخفیف غربت کیلئے پاکستان سے تعاون کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں دونوں ممالک کے مابین مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہو چکے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان غربت کے خاتمے کیلئے چین کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ اسی طرح پاکستان کو چین کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے تعلیم اور افرادی قوت کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ 
ملک میں بہتر ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک سے جدید معیشت بنایا جا سکے۔ چینی ماڈل کے مطابق ہمارے لئے دوسرا اہم قومی ہدف گرین انرجی اور پائیدار ترقی کا فروغ ہونا چاہیے۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے، آلودگی کم کرنے اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہم چین کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے حقیقی معنوں میں عالم اسلام اور اقوام عالم کا ایک اہم رکن بننا ہے تو یہ ہدف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے ہی چین نے ای کامرس، ٹیلی کمیونیکیشن اور مینوفیکچرنگ سمیت مختلف شعبوں کو فروغ دیا ہے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
munaeem · 8 months
Text
How will the India Middle East Corridor impact India's economy?
The India Middle East Corridor, often referred to as the IMEC, has the potential to significantly impact India’s economy in various ways. This corridor, which aims to enhance trade and connectivity between India and the Middle East, holds immense promise for economic growth and development. One of the key benefits of the IMEC is the expansion of trade opportunities. With improved infrastructure…
View On WordPress
0 notes
ij-reportika · 2 years
Text
#Chinese investments in #Pakistan facing serious threats as:
1. Failing Economy,
2. Power Projects defaults,
3. Cultural and religious barriers,
4. Security Threats Recent
Attack on Chinese citizens in #Karachi reignited the same debate. Complete report: https://ij-reportika.com/threat-to-chinas-investment-in-pakistan/
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
totamil3 · 2 years
Text
📰 CPEC இல் இணையும் ஆர்வமுள்ள மூன்றாம் நாடுகளை பாகிஸ்தான், சீனா வரவேற்கின்றன | உலக செய்திகள்
📰 CPEC இல் இணையும் ஆர்வமுள்ள மூன்றாம் நாடுகளை பாகிஸ்தான், சீனா வரவேற்கின்றன | உலக செய்திகள்
பல பில்லியன் டாலர் சீனா-பாகிஸ்தான் பொருளாதார வழித்தடத்தில் (CPEC) சேரும் “ஆர்வமுள்ள” மூன்றாம் நாடுகளை வரவேற்க அனைத்து வானிலை நட்பு நாடுகளான பாகிஸ்தானும் சீனாவும் முடிவு செய்துள்ளன, இது பரஸ்பர நன்மை பயக்கும் ஒத்துழைப்புக்கான “திறந்த மற்றும் உள்ளடக்கிய தளம்” என்று கூறியுள்ளது. 2013 இல் தொடங்கப்பட்டது, CPEC என்பது வடமேற்கு சீனாவின் ஜின்ஜியாங் உய்குர் தன்னாட்சி பிராந்தியத்தில் உள்ள கஷ்கருடன் அரபிக்…
View On WordPress
0 notes
The economic stability of any country is depends on factor of loan on the country. The increase of loan makes the country fully unstable. The instability define when a country or person couldn’t be able repay the loan, even if they sell all its asset. Don’t make liability so much that couldn’t be handled with. The status of Sri-Lanka defines it all. Now it’s turns for the Pakistan. The economic…
View On WordPress
0 notes
gyanjarahatke · 2 years
Text
Pakistan is short of papers & giving Gilgit Baltistan to China? झंडुवोका सब गिरवी रखने का समय आ गया?
Pakistan is short of papers & giving Gilgit Baltistan to China? झंडुवोका सब गिरवी रखने का समय आ गया?
A recent report has said that Pakistan may cede Gilgit Baltistan to China on lease to pay off its mounting debt. Mumtaz Nagri, the chairman of the Karakoram National Movement expressed fear that the isolated Gilgit Baltistan- in the PoK region could become a future battleground for the world powers to compete. They are asking their people to protest against it, not fear ISI and even stay ready to…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
don-lichterman · 2 years
Text
Pakistan Foreign Minister arrives in China today
Pakistan Foreign Minister arrives in China today
Pakistan Foreign Minister Bilawal Bhutto-Zardari is set to arrive in China on Saturday on a two-day trip to hold talks with Chinese Foreign Minister Wang Yi. Bilawal Bhutto, who will be travelling with a delegation, will hold extensive consultations with the Chinese foreign minister. “The two leaders will review the entire gamut of bilateral relations, with a particular focus on stronger trade…
View On WordPress
0 notes