Tumgik
#چیف جسٹس
urduchronicle · 8 months
Text
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا آخری فیصلہ، نیب ترامیم کالعدم، تمام مقدمات بحال
نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست سپریم کورٹ نے قابلِ سماعت قرار دے دی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لیڈیز اینڈ جنٹلمین، دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا رہے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ سنایا جس کے مطابق عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کر دئیے گئے اور قرار دیا گیا کہ عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سلیمان شہباز کو ائیرپورٹ پر گرفتار کرنے سے روک دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سلیمان شہباز کو ائیرپورٹ پر گرفتار کرنے سے روک دیا
اسلام آباد (نمائندہ عکس)اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کے بیٹے سلیمان شہباز کو 13 دسمبر تک عدالت میں سرینڈر کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے سلیمان شہباز کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔سلیمان شہباز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سلیمان شہباز اکتوبر 2018 سے بیرون ملک ہیں اس کے بعد ایف آئی آر ہوئی جس پر عدالت نے کہا کہ پٹیشنر کی عدم موجودگی میں حفاظتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
سپریم کورٹ : ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرنیوالے افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد
سپریم کورٹ : ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرنیوالے افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تبادلے اور تقرریاں روکنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے حکومتی شخصیات کی جانب سےتحقیقات میں مداخلت پرازخودنوٹس کی سماعت کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن تحقیقات برانچ کے اندر تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو بھی تاحکم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
جسٹس عیسیٰ نے چیف جسٹس بندیال سے جے سی پی کا اجلاس 'فوری' طلب کرنے کی درخواست کی
جسٹس عیسیٰ نے چیف جسٹس بندیال سے جے سی پی کا اجلاس ‘فوری’ طلب کرنے کی درخواست کی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ کی خالی نشستوں کو پر کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس “فوری طور پر” طلب کریں کیونکہ خالی نشستیں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو “غیر فعال” کر سکتی ہیں۔ 28 ستمبر کو لکھے گئے خط میں، puisne جج نے CJP – جو JCP کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
- بول نیوزعدلیہ کی خودمختاری کے جواز پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس
– بول نیوزعدلیہ کی خودمختاری کے جواز پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے کیس میں ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خود مختاری کے جوازپرسپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف اپیل پرسماعت کرتے ہوئے عدالت نے کل اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کی ہدایت کردی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستا ن نے کہا کہ ہم اس کیس کو جلد سن کر سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔  اگلے ماہ بنچ کے ایک رکن جج ریٹائرہو جائیں گے۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
faheemkhan882 · 2 years
Text
Tumblr media
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا اور
اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا
جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر
چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا
سیدنا عباس آئے
دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے
پوچھا یہ کس نے اتارا
جواب ملا
امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا
سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا
امیر المومنین
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں
اور سیدنا عمر عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں
کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے
روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ہے
سیدنا عباس دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا
زمانہ نبوی کے بعد
سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہی رہا
لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے
لہذا مجھے انصاف چاہیے
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
آپ بے فکر رہیں آپ کو انصاف ملے گا
قاضی نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا
بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا
جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا
آبی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں پوچھا
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں
سیدنا عباس کہتے ہیں یہ جس جگہ میرا مکان ہے
یہاں رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو
رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا
چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا
مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا
یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا
ابی بن کعب نے پوچھا
اس کا کوئی گواہ ہے آپ کے پاس
سیدنا عباس جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی
کہ سیدنا عباس سچ کہہ رہے ہیں
یہ سنتے ہی
سیدنا عمر کے ہوش اڑ گئے
اور رونے لگے
آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی
اپنا پیارے نبی یاد آ گئے
اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا
عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے
جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا
سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ہے
آپ چلیے میرے ساتھ جیسے رسول پاک نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں
چشم کائنات نے دیکھا
وقت کا حاکم
دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاک کھڑے ہوئے تھے
سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ہوئے
اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا
وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا
(باب السلام سے داخل ھوں تو دائیں جانب دیوار میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس پرنالے کے مقام کی نشاندھی موجود ھے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أخرجه أحمد بن حنبل
في المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790....
6 notes · View notes
jhelumupdates · 1 day
Text
عدالت نے فواد چوہدری کو مزید 7 روز تک گرفتار کرنے سے روک دیا
0 notes
mediazanewshd · 8 days
Link
The swearing-in ceremony of Chief Justice Peshawar High Court Justice Ishtiaq Ibrahim will be held on Saturday
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مس��رہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
نئے آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کام کا طریقہ الگ ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ میری نئے آنے والے چیف جسٹس  سے مختلف رائے ہو سکتی ہے، نئے آنے والے چیف جسٹس پاکستان قابل تعریف انسان ہیں۔ نئے عدالتی سال پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میڈیا معاشرے کی آنکھیں اور کان ہیں، میرے حوالے سے میڈیا میں غلط رپورٹنگ بھی کی گئی، گڈ ٹو سی یو والے میرے جملے کو غلط رنگ دیا گیا، شارٹ اینڈ سویٹ ججمنٹ کے  بارے میں  آبرزویشن دی جس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا کراچی میں سیلاب متاثرہ بچی سے زیادتی کا نوٹس
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا کراچی میں سیلاب متاثرہ بچی سے زیادتی کا نوٹس
کراچی(کورٹ رپورٹر ) چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں سیلاب متاثرہ بچی سے اجتماعی زیادتی کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ سیلاب متاثرین میں شامل کم سن بچی کے ساتھ کراچی میں اجتماعی زیادتی کے واقعے پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے ڈی آئی جی جنوبی اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن جنوبی ون کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے رپورٹ کے ہمراہ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
عوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کیلئے ہر وقت تیار ہیں، چیف جسٹس
عوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کیلئے ہر وقت تیار ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین اور عوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔جس کے آغاز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
جی بی کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم ​​نے IHC میں غیر مشروط تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا۔
جی بی کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم ​​نے IHC میں غیر مشروط تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم۔ – جیو نیوز کے ذریعے اسکرین گریب اسلام آباد: گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم ​​نے اپنے خلاف دائر توہین عدالت کیس میں پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) میں غیر مشروط تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا۔ مذکورہ کیس ایک بیان حلفی کی اشاعت سے متعلق ہے جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) ثاقب نثار کے بارے میں سنگین الزامات تھے، جنہوں نے مبینہ طور پر سابق…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduintl · 2 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی ہے آج نہیں مگر پھر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ آج کی سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے‘۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
0 notes
abdulraa · 2 months
Video
youtube
چیف جسٹس کو فیصلہ واپس لینا ہو گا۔
0 notes