Tumgik
urduu · 14 hours
Text
شوکت تھانوی اپنے شیعہ دوست کے ساتھ ایک محفل میں شریک تھے، مجلس میں جب مصائب بیان کیے جانے لگے تو ان کے دوست کی رِِقت کے باعث حالت خراب ہوگئی، بار بار اپنا سینہ پیٹتے اور بولتے، ھائے میں کیا کروں، ھائے میں کیا کروں، شوکت تھانوی یہ دیکھ کر اپنے دوست کے کان میں بولے، سُنی ھو جاؤ۔
2 notes · View notes
urduu · 4 months
Text
“محبت میں ذاتی آزادی کو طلب کرنا شرک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیک وقت دو افراد سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ ۔ ۔ ۔ محبوب سے بھی اور اپنی ذات سے بھی ۔ محبت غلامی کا عمل ہے اور آزاد لوگ غلام نہیں رہ سکتے ۔”
— بانو قدسیہ  حاصل گھاٹ سے اقتباس 
12 notes · View notes
urduu · 4 months
Text
“محبت ہمیشہ سفید لباس میں عمرو عیار ہے ۔ ہمیشہ دوراہوں پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ہے ۔ محبت جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے ۔ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے کہیں ٹکتا نہیں ۔ محبت میں بیک وقت جوڑنے اور توڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ محبت ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے ۔ جب تک روز اس تصویر میں رنگ نہ بھرو تصویر فیڈ کرنے لگتی ہے ۔ روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا ۔ جس روز محبت کا سورج طلوع نہ ہو تو اندھیرا ہی ہوتا ہے ۔”
—  بانو قدسیہ  " راجہ گدھ “ سے اقتباس  "Raja Gidh”-  The Book I love. Highly recommended to everyone who can read URdu.
13 notes · View notes
urduu · 4 months
Text
“آگے جانے والے پیچھے رہے ہوئے لوگوں کو کبھی یاد نہیں کرتے۔ جس کو کچھ مل جائے، اچھا یا برا، اس کی یاد داشت کمزور ہونے لگتی ہے۔ اور جن کو سب کچھ کھو کر اس کا ٹوٹا پھوٹا نعم البدل بھی نہ ملے، ان کا حافظہ بہت تیز ہو جاتا ہے۔۔۔ اور ہر یاد بھالے کی طرح اترتی ہے۔”
~ بانو قدسیہ “راجہ گدھ”
6 notes · View notes
urduu · 5 months
Text
3 notes · View notes
urduu · 6 months
Text
پیٹرن کو اگر غور سے اسٹڈی کریں تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب دہشتگردی کے واقعات بڑھ جائیں، تو سمجھ جائیں پاکستان عن قریب کسی بڑے آپریشن یا جنگ میں جانے والا ہے
ان معاملات کی پلاننگ کئی سال پہلے شروع ہوچکی تھی
عمران خان کی حکومت میں، پی ڈی ایم جماعتوں پر کریک ڈاؤن جاری تھا۔ کرپشن کیسز میں پکڑ دھکڑ جاری تھی۔ ان سے سیاسی اسپیس باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ چھین لی گئی تھی۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ عمران خان، جنرل فیض کے ساتھ مل کر اگلے دس سال کی پلاننگ کرچکا ہے
تحریک چلانے کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ تیار نہیں تھے تو فضل الرحمن کو ٹاسک دیا گیا کہ ان جماعتوں کو اکسائے۔
ن لیگ تو کافی حد تک تیار تھی البتہ پیپلز پارٹی زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی۔ انھیں پش کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سرکردہ لوگوں پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا
بالآخر،
پی ڈی ایم جماعتیں عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد سے رجیم چینج پلان کے لیے تیار ہوگئیں
اسٹیبلشمنٹ نے یہ جال کیسے بنا اور ان کی لانگ ٹرم پلاننگ کیا تھی؟
جیسا کہ کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں، پی ڈی ایم سے ہر طرح کی اسپیس چھینی گئی اور انھیں مستقبل سے ڈرایا گیا
انھیں بھرپور پریشر میں لاکر، دو آپشنز دئیے گئے
1- یوں ہی اقتدار سے باہر بیٹھے، مار کھاتے رہو
2- ہمارا ساتھ دو، عمران خان کو نکالو اور اقتدار میں آجاؤ
لیکن،
اقتدار میں آکر، کسی بھی قسم کی چوں چرا کی قطعی اجازت نہیں ہوگی
ظاہر ہے، پی ڈی ایم نے آپشن 2 کا انتخاب کیا جو قدرتی بات تھی
اپنے دور حکومت میں، تحریک انصاف، پی ڈی ایم پر جاری کریک ڈاؤن کے حوالے سے یہ سمجھتی رہی کہ ریاست نیک نیتی سے کرپشن کے خلاف اقدامات کررہی ہے۔ اسی حماقت میں تحریک انصاف باجوہ کو قوم کا باپ قرار دیتی رہی۔ ان جانے میں اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی رہی
تحریک انصاف کو اس بات کا بالکل بھی سیاسی شعور نہیں تھا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ میاں صاحب یا زرداری کی کرپشن نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا مکروہ کھیل ہے
جب کہ اسٹیبلشمنٹ، اپنا لانگ ٹرم کھیل کھیل رہی تھی
پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مکمل سرنڈر کردیا اور رجیم چینج میں بھرپور رول ادا کیا۔ ن لیگ نے اگلے سیٹ اپ میں کلیدی رول کے عوض لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ لی جو اسے ریاستی سرپرستی میں دی جارہی ہے
کسی نے یہ سوچا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے بدلے، ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کو کیا دے کر آئی ہے؟
ن لیگی دانشور اور ان کے ہمدرد اس احمقانہ تھیوری پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ،
پاکستان تباہ ہوگیا تھا۔ معیشت کا برا حال تھا۔ جرنیلوں کے ہاتھ سے معاملات نکلتے جارہے تھے لہذا اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب کے پاؤں پڑی اور کہا کہ ہم عمران خان پراجیکٹ کو رول بیک کررہے ہیں لہذا آپ ہمیں معاف کریں واپس آکر پاکستان "سنبھالیں"
لفظ سنبھالیں بہت اہم ہے
خیر،
اس بدمزہ لطیفے پر تو ہنسی بھی نہیں آتی
میں آپ کو دلیل سے بتاتا ہوں کہ اس لطیفہ نما تھیوری کی اصل اوقات کیا ہے
جیسا کہ اس تھیوری کا سینٹرل نکتہ یہ ہے کہ میاں صاحب، آپ پاکستان کو سنبھالیں
تو آئیے، کچھ زمینی حقائق دیکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ، میاں صاحب کو پاکستان سنبھالنے واسطے تھمانے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے:
- ن لیگ کی حکومت نے، نادرا میں سویلین کی جگہ حاضر سروس افسر لگانے کی راہ ہموار کی
- ن لیگ کی حکومت نے قانون پاس کیا کہ ملک بھر میں سرکاری تعیناتیوں کے لیے ایجنسیوں کی کلئیرنس درکار ہوگی
- ن لیگ کی حکومت میں، قانون پاس کیا گیا کہ کسی کو بھی بناء وارنٹ کے گرفتار کیا جاسکتا ہے
- قانون پاس کرکے، نگراں حکومت کو آئین میں مخصوص کیے ڈومین سے بڑھ کر اختیارات تھما دئیے گئے (سب جانتے ہیں کہ نگراں حکومت کون لگاتا ہے)
- ان کی حکومت کے دوران، پنجاب میں سال بھر سے زیادہ ہوا، صوبائی نگراں حکومت لگی ہوئی ہے جن کی ناک کے نیچے استحکام پارٹی یعنی ق لیگ پارٹ 2 بنائی گئی تاکہ دس بارہ سیٹیں جیت کر، اگلے جمہوری سیٹ اپ کو "اوقات" میں رکھنے کے لیے بلیک میل کیا جاسکے۔ جمہوریت کے گلے پر یہ چھری ن لیگ نے اپنے ہاتھوں سے پھیری ہے
- میاں صاحب کو پاکستان واپسی پر "عام معافی" کے اعلانات کرنے پڑے۔ وہ ابھی تک عام انتخابات کے حوالے سے مکمل خاموش ہیں
- آہستہ آہستہ ہر ادارے میں حاضر سروس افسران بیٹھتے چلے جارہے ہیں اور میاں صاحبان اور ان کے ہمدردوں کی چوں بھی نہیں نکل رہی
یہ ہے "میاں صاحب واپس آئیں اور پاکستان سنبھالیں" کی اصل اوقات
پاکستان کون سنبھال رہا ہے اور روز بروز سنبھالتا چلا جارہا ہے، سب آپ کے سامنے ہے
اصل نکتے پر واپس آتے ہیں،
تو پی ڈی ایم کو اسپیس دینے لیے سب سے بڑی شرط ہی یہی تھی کہ آپ نے اقتدار انجوائے کرنا ہے، پر معاملات کے حوالے سے چوں بھی نہیں کرنی
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم جماعتیں، خاص کر ن لیگ چوں بھی نہیں کررہی
کہیں کہیں آپ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی سمیت چھوٹی جماعتوں جیسے متحدہ وغیرہ کو چوں کرتے دیکھیں گے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اگلے سیٹ اپ میں، زیادہ سے زیادہ شئیر کے لیے بارگین کرنا ہے، اور بس۔۔۔۔۔۔۔
سویلین بالادستی کا وہ حشر کیا گیا ہے، کہ اب اسے سالوں کے لیے بھول جائیں
میں اس تمام صورتحال میں، تحریک انصاف کو بھی بری الزمہ نہیں سمجھتا۔ اپنے وقت میں انھوں نے بھی بھیانک غلطیاں کرتے ہوئے اس بلا کو قوت پہنچائی تھی
اب سوال یہ ہے کہ یہ سارا چکر چلا کر، تمام سیاسی قوتوں کو کھڈے لائن لگا کر، اسٹیبلشمنٹ کیا کرنا چاہتی ہے؟
اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ دکھاوے کے لیے جمہوری حکومت بن جائے، ایک کٹھ پُتلی وزیراعظم (جس کے لیے نواز شریف کو تیار کیا جارہا ہے) آکر بیٹھ جائے، اور پیچھے یہ اپنا گریٹ گیم کھیلتے رہیں
یہ گریٹ گیم کیا ہے؟
اس کے خدو خال ابھی پوری طرح واضح نہیں۔
لیکن،
ان کی تاریخ دیکھتے ہوئے، اور ماضی کے پیٹرن کو فالو کرتے ہوئے، میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان امریکی جنگ میں کودنے کے لیے ایک بار پھر پر تول رہا ہے
اس کھیل کے نتیجے میں جو آگ لگے گی، اسے بجھانے کی زمہ داری سول حکومت پر ڈالی جائے گی۔ جو کالک اس قوم کے حصے میں آئے گی، اس سے سول حکومت کا منہ کالا کیا جائے گا
بالکل ویسے ہی جیسے 2008 سے 2018 تک ہونے والے ڈرون حملوں کا گند پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر ڈالا جاتا رہا
جیسا کہ پوسٹ کے شروع میں کہا کہ دہشتگردی کے سلسلے پوری توانائی سے شروع ہوچکے۔ مغربی بارڈر گرم ہونے لگا ہے۔ افغان حکومت کو سبق سکھانے کے لیے، 17 لاکھ مہاجرین کو پاکستان چھوڑنے کے لیے محض چند دنوں کی ڈیڈ لائن دی گئی
لہذا، جھاڑ پونچھ کر وہی پرانی گریٹ گیم نکالی گئی ہے جو ہم ستر کی دہائی سے کھیلتے آرہے ہیں
عمران خان کے ہوتے اس گریٹ گیم میں جانا بہت مشکل تھا۔ وہ کھلم کھلا اینٹی وار ہے۔ پی ڈی ایم کے ہوتے یہ خاص مشکل نہیں، خاص کر جب انھیں واضح طور پر شٹ اپ کال دے کر چپ کروا دیا گیا ہو
لہذا مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان جلد افغان حکومت یعنی تال بان کے ساتھ وار میں جانے والا ہے
ایک دلچسپ امر کا ذکر کرتا چلوں
آپ 2019 سے 2021 تک دیکھ لیجیے۔ آپ کو بھارت کی ٹاپ لیڈرشپ پاکستان کے خلاف کھلم کھلا بیانات دیتی نظر آئے گی
مودی کا بیان کے گھر میں گھس کر ماریں گے
ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے بیانات جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خلاف پے درپے بیانات مل جائیں گے
پھر 2022 اور اس کے بعد ایسا اچانک کیا ہوا کہ بھارتی لیڈرشپ پاکستان کو اب سیریس تھریٹ ہی نہیں سمجھتی
مودی کا کچھ ہی عرصے پہلے دیا بیان کہ پاکستان اب ہمارا فوکس نہیں۔ وہ خود ہی اپنی موت آپ مر رہا ہے
آپ کو کیا لگتا ہے کہ یکایک بھارت کے رویے میں ایسا بدلاؤ کیوں؟
کیا ہمارے ایف سولہ طیارے چرمرا گئے؟ یا ہمارے میزائلوں کو پھپوند لگ گئی؟ یا ایٹم بم کا تیل نکل گیا؟
میرے پاس اس بڑی تبدیلی کا کوئی واضح جواب نہیں لیکن ایک تھیوری سمجھ میں آتی ہے۔ یہ صحیح ہے یا غلط، اس کا جواب وقت دے گا
تھیوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک ساتھ مشرقی اور مغربی بارڈر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہ افغانستان والی بارڈر پر وار میں جارہے ہیں، تو انھیں مشرقی بارڈر ٹھنڈا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان کے سب سے طویل بارڈرز ہی یہ دونوں ہیں
مجھے لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے، اندر کھاتے بھارت کو تسلی کروادی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا اب ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم آپ کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نواز شریف کو بھی واپس لارہے ہیں۔
پاکستان اب شاید غیر اعلانیہ طور پر، بھارت کو خطے کا چوکیدار یا بڑا بھائی بھی تسلیم کرلے گا۔ دکھاوے واسطے مشرقی بارڈرز پر ہلکی پھلکی پھلجڑیاں شاید چل جائیں لیکن اب ہم بھارت کے لیے بڑا خطرہ نہ بننے کی یقین دہانی کروا چکے ہیں
آپ نے حالیہ کچھ عرصے میں، پاکستان میں موجود کشمیر اور خالصتان تحریک کی اہم لیڈرشپ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے دیکھا ہوگا۔ ساتھ نواز شریف نے اپنے جلسے میں بھی بھارت سے دوستی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے
یہ سب اسی پلان کا حصہ ہے
تاکہ،
پورے فوکس کے ساتھ، مغربی بارڈر پر وہی پرانا کھیل کھیلا جاسکے جس میں ایک طرف خون اور دوسری طرف ڈالرز ہوتے ہیں
پاکستان کے پاس اس بلا سے نبٹنے کا اب یہی آپشن بچا ہے کہ سیاسی جماعتیں، خواہ آپس میں جس قدر لڑیں مریں پر وہ سب مل کر، کسی بھی پرائی جنگ میں حصہ بننے سے انکار کردیں ورنہ بہت سے معصوموں کا (خاص کر پختونوں کا) پھر سے خون بہے گا
نواز شریف کٹھ پُتلی بن کر وزیراعظم نصب ہونے سے انکار کردے۔ تمام جماعتیں جمہوری و سیاسی طریقے سے الیکشنز میں حصہ لیں
کیا سیاسی جماعتیں اس میچیوریٹی کا مظاہرہ کرپائیں گی؟
شاید نہیں۔۔۔۔۔۔!!!!
.
0 notes
urduu · 8 months
Text
Rai Nasir Kharal, Nanakana Sahib
4 notes · View notes
urduu · 8 months
Text
مدارس میں جنسی استحصال کی چار بنیادی وجوہات
حاشر ابن ارشاد
کیتھولک چرچ کو ایک ہزار سال لگے یہ تسلیم کرنے میں کہ چرچ اور اس سے ملحقہ اداروں بالخصوص تعلیمی اداروں میں جنسی استحصال اور زیادتی ایک شرمناک اور کربناک حقیقت ہے اور یہ بھی کہ چرچ کے ذمہ داران ہمیشہ سے اس پر پردہ ڈالتے چلے آئے ہیں تاکہ مسیحیت پر حرف نہ آئے۔ سن 2001 میں پوپ جان پال دوئم کا اس حوالے سے اقرار، سن 2009 میں پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کی معافی اور سن 2018 میں پوپ فرانسس کی عوامی شرمندگی اور پھر ان کے اظہار معذرت سے کلیسائی اصلاحات کا ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ چرچ کو یہ اقرار بھی کرنا پڑا کہ ایسے واقعات کے ثبوت گیارہوں صدی سے ذمہ داران کلیسا کے پاس ہیں لیکن مسیحیت کے دفاع کے لیے ان کو چھپائے رکھنا ہی بہتر سمجھا گیا پر اب چرچ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ حکمت عملی نہ صرف غلط تھی بلکہ یہ ان تمام لوگوں کے ساتھ بھی شدید ظلم تھا جو اس ایک ہزار سال میں پادریوں، ننز اور کلیسا کے عہدیداران کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ جنسی استحصال کے ایسے ہی قصے ہندو مندروں اور بدھ خانقاہوں کے حوالے سے بھی منظر عام پر آئے۔ تحقیق کا در کھلا تو معلوم ہوا کہ چھوٹے بڑے اکثر مذاہب میں یہ کہانی عام ہے ، سب اس سے واقف ہیں اور سب اس سے چشم پوشی برتتے ہیں۔
رفتہ رفتہ یہ تحریکیں اپنی اپنی جگہ طاقت کے متوازی مراکز میں تبدیل ہو گئیں اور چرچ ہی کی طرح ان کا سیاسی نفوذ اور انتظامی اثرورسوخ اس حوالے تک پہنچ گیا کہ ایک مسلم مملکت کے بنیادی خدوخال بھی انہی کی مرضی سے تشکیل پاتے چلے گئے۔ سنی شیعہ خلیج سے لے کر خوارج، معتزلہ اور باطنیہ کی قدیم بحث، فاطمیوں اور دعوت اسماعیلیہ سے لے کر سعودی عرب کی وہابی فکر، ایران کی ولایت فقیہہ اور پاکستان کی قرارداد مقاصد تک یہ سب ایک ہی بنیادی فکر کا تسلسل رہا ہے جس کا واحد مقصد تقدس کے پردے میں لامساوی طاقت کا حصول تھا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فقہہ سے جڑے مدارس کا باقاعدہ اور بڑے پیمانے پر ظہور گیارہوں صدی میں ہوا۔ یہ وہی وقت ہے جب کیتھولک چرچ کی شان وشوکت اپنے عروج پر پہنچی اور اس کا اثر اور نفوذ تمام دنیا کو نظر آنا شروع ہو گیا۔ چرچ سے جڑے تعلیمی اداروں کا جال مربوط ہوا اور چرچ ہی کے حالیہ اعتراف کے مطابق جنسی استحصال کی تاریخ بھی اسی دور سے شروع ہوئی۔ اس حسین اتفاق پر مزید لب کشائی شاید بہت سوں پر بہت گراں گزرے گی اس لیے فی الحال اس پر بحث موخر کر کے ہم وطن عزیز میں لوٹتے ہیں اور مدارس کی تاریخ پر تھوڑی سی نظر ڈالتے ہیں، ساتھ ساتھ اس تعمیر میں مضمر خرابی کو تھوڑا سا پرکھ لیتے ہیں۔
سن 1947 میں مغربی پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ تھی جس کے لیے 189 مدارس موجود تھے۔ یاد رہے کہ ہمارے اکابرین کے مطابق ہماری مذہبی وابستگی میں پچھلے ستر سال میں محض زوال کی کیفیت رہی ہے۔ یہ بات ہم مان لیتے ہیں پر اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہبی وفور سے لبریز ایک بہتر اسلامی معاشرے میں ہر پونے دو لاکھ لوگوں کے لیے مذہبی تعلیم کا ایک مدرسہ کافی تھا۔ یاد رکھیے کہ عمومی تعلیم ، صنعت یا زراعت کے حوالے سے ہمیں ایسا کوئ زوال مسلسل کا دعوی کہیں نہیں ملا تو اس حوالے سے موازنہ بیکار ہو گا۔
اب آجائیے سن 2021 میں جہاں ہماری آبادی 623 فی صد اضافے کی ساتھ 21 کروڑ کو پہنچ چکی ہے۔ اگر مدارس کی تعداد میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوتا تو آج یہ تعداد کوئی بارہ سو مدارس تک محدود ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے ، مدارس کی تعداد میں 16,000 فی صد، جی سولہ ہزار فی صد، اضافے کے بعد یہ تعداد آج تیس ہزار سے زائد ہے۔ ایک طرف اضافہ چھ گنا ہے اور دوسری طرف ایک سو ساٹھ گنا۔ اور اس کے باوجود ہمارے مذہبی اکابرین ہی کے مطابق ہماری اخلاقی حالت، جو کہ دین سے دوری کی وجہ سے ہے، روز بہ روز پست سے پست تر ہو رہی ہے۔ اب یا تو اعدادوشمار غلط ہیں، ان کا دعوی غلط ہے، اخلاقی گراوٹ مذہب کی بڑھتی ہوئی تعلیم کے سبب ہے یا پھر شماریاتی لحاظ سے اخلاقی زبوں حالی یا اعلی اخلاقی قدروں دونوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مشہور ادارے پیو نے کچھ سال پہلے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق اخلاقی لحاظ سے پست ترین ممالک وہ نکلے جہاں مذہب روزمرہ کے فیصلوں میں نوے فی صد سے زیادہ دخیل تھا اور اخلاقی لحاظ سے بہترین ممالک وہ تھے جہاں مکمل سیکولرمعاشرے اور سیکولر حکومت تھی اور انفرادی سطح پر آبادی کی اکثریت مذہب سے لاتعلق تھی۔ یعنی کہ قارورہ وہ بتا رہا ہے جو ہمارے مقدمے سے الٹ ہے۔
اس کے جواب میں بن بیاہی ماؤں، ناجائز بچوں، ریپ کے اعداد و شمار اور جنسی آزادی والے گھسے پٹے اعتراضات رکھنے سے پہلے یہ سوچ لیجیے کہ آپ کی کم عمر بیٹی یا بیٹا رات کو اوسلو کی ایک سڑک پر زیادہ محفوظ ہو گا یا کراچی میں۔ جواب مل جائے گا، اگر آپ آنکھیں بند اور ذہن استعمال نہ کرنے پر بضد نہ ہوئے۔ ان حوالوں سے ہماری غلط فہمیوں یا خوش فہمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن اس پر بات پھر کبھی۔
مدارس کی اس روزافزوں ترقی کا جائزہ لیں تو پتہ لگتا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ تیزی مرد مومن کے دور میں آئی جب سرکاری سرپرستی میں دیوبندی مکتبہ فکر کو فروغ دینا مقصود تھا۔ اس حوالے سے لازمی زکات فنڈ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ غربت کے خاتمے کے لیے اکٹھی کی گئی رقم کا بیشتر حصہ پنجاب اور صوبہ سرحد میں سینکڑوں مدارس کے قیام میں خرچ کر دیا گیا۔ 1980 کی دہائی میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کے نتیجے میں بھی دونوں مخالف فقہی گروہوں کے ان گنت مدارس ملک کے طول وعرض میں غیر ملکی امداد سے وجود میں آئے۔ انہی مدارس کے ساتھ جڑے لوگ اس کے بعد ایک پر تشدد مسلکی جنگ میں الجھے رہے جس کے شعلے اب بھی سرد نہیں پڑے۔ سن 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد اگلے اٹھارہ سال میں یعنی ضیاء صاحب کے مارشل لاء کے اختتام تک مدارس کی تعداد 900 سے بڑھ کر پچیس ہزار تک جا پہنچی۔ اب یار لوگ اس عظیم الشان ترقی کو سیاسی پس منظر سے الگ دیکھنے پر بضد رہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ افغان "جہاد" اور کشمیر کی حریت پسندی کا ایندھن کہاں سے فراہم کیا جاتا رہا، کون نہیں جانتا۔
اسلام کے بارے میں یہ بات بھی بار بار سننے کو ملتی ہے کہ یہ دین فطرت ہے ،اس میں خدا اور بندے کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہے اور اسے سمجھنا انتہائی آسان اور اس پر عمل کرنا اس سے بھی آسان ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہندوازم یا مسیحیت کو دیکھیں تو وہاں بنیادی دعوی ہی یہ ہے کہ مذہبی متن کو سمجھنا اور اس کی کی تشریح کرنا تو دور، اس کو درست پڑھنا بھی محض ایک خاص طبقے کا استحقاق ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس کے سب کو پیر چھونے ہوں گے، یہی وہ طبقہ ہے جو جنت کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرے گا اور یہی وہ طبقہ ہے جس کے بتائے گئے اصول حتمی تسلیم کیے جائیں گے۔ ہم انہی موضوعات کو لے کر جہاں ان مذاہب کو ہدف تنقید بناتے ہیں وہاں یہ بھول جاتے ہیں کہ فقہی فکر، علم الحدیث، صرف، نحو ، مذہبی منطق اور تجوید جیسے "علوم" کو مذہب کی بنیاد بنا کر ہم نے بعینیہہ یہی روش اختیار کر لی ہے۔ مذہب کو تخصیص کا پیرایہ پہنانے یعنی اسے ایک سپیشلائزیشں بنانے کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سپیشلائزیشن کی تعلیم کے لیے مدارس کا ایک خصوصی نظام وجود میں آ گیا جس کی کوئی مثال اُس دور میں نہیں ملتی جسے ہم اسلام کا سنہری دور گردانتے ہیں۔
مذہب کو اگر تخصیصی مان لیا جائے تو ہر ایک سے اس کا تقاضا ویسے ہی فضول ہو جاتا ہے۔ طب سپیشلائزیشن ہے اس لیے یہ مطالبہ صرف ڈاکٹر سے ہو گا کہ وہ مرض کی درست تشخیص کرنے کے قابل ہو، دوائیوں کا علم رکھتا ہو، انجکشن گھونپنے کا ہنر جانتا ہو یا نشتر سے انسانی جسم کھول کر ایسی قطع برید کرنے کے قابل ہو جس سے صحت مقصود ہو۔ اگر مذہب بھی ایسی ہی سپیشلائزیشن ہے، تو پھر عام شخص کو اس کے اخلاقی تقاضوں پر پرکھنا، اس سے درست عبادت کی توقع رکھنا، اس سے مذہبی قانون کی پاسداری کا خیال سب کچھ باطل ہو جاتا ہے۔ اگر فقہہ، حدیث، صرف، نحو، قواعد زبان اور عربی تمرین کے بغیر مذہب سمجھنا ممکن ہی نہیں تو پھر عام آدمی سے اس اسوہ پر چلنے کی توقع جو کہ ایک مثالی مسلمان کے لیے طے کر دیا گیا ہے، ایسی ہی ہے جیسا کہ مچھلی سے درخت پر چڑھنے کی امید۔
دل چسپ امر البتہ یہ بھی ہے کہ برصغیر میں خاص طور پر پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں سب سے غیر اختلافی متن یعنی قرآن کی بھی نئی نئی تشریحات قائم ہونا شروع ہو گئیں کیونکہ بدلتے ہوئے زمانے اور سائنس کی ترقی کے ساتھ قرآن سے اخذ کردہ کئی تصورات کی نئی تفہیم نہ ہونے کی صورت میں بہت سے ایسے سوال اٹھنے کا اندیشہ تھا جن کا کوئی جواب اہل مذہب کے پاس نہیں تھا۔ موجودہ پاکستان میں پرویزی فکر، فراہی فکر یا اب جاوید احمد غامدی صاحب اس کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔ ان متجددین نے تیرہ سو سالہ طے شدہ فکر کے کئی زاویے یکسر مسترد کر دیے۔ جن باتوں کو واضح حقیقت کہا جاتا رہا، وہ تمثیل کے زمرے میں ڈال دی گئیں اور بے شمار اخلاقی اور معاشرتی احکامات کی ایک دورازکار تاویل وضع کر لی گئی۔ ہمارے ایک دوست تو اس کا دفاع کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے کہ انہوں نے قرآن کو دیوان غالب سے تشبیہہ دے ڈالی کہ اس کے معنی بھی انہی پر کھلتے ہیں جن کی فکر ایک خاص مقام تک پہنچ جاتی ہے۔ اس پر ہم انہیں غالب کا "نہ سہی گر میرے اشعار میں معنی نہ سہی" والا مصرع سناتے پر حد ادب میں خاموش رہ گئے۔ اچھا، دل چسپ بات یہ ہے کہ متجددین فقہی اصولوں پر استوار مدارس کے بھی خلاف ہیں اور صدیوں کی فقہی روایت کے بھی لیکن اپنی نئی تشریح کے لیے وہ اسی جواز کا سہارا لیتے ہیں جس کے سہارے یہ مسلکی مدارس صدیوں سے کھڑے ہیں۔ اس سے بھی دل چسپ امر یہ ہے کہ کلاسیکی مذہب کے مقلدین اور ان متجددین کے درمیان ایسا کڑا اختلاف ہے کہ یہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔
صدیوں سے یہی دلیل کہ "دین سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں" ، مدارس کے دفاع میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اس دلیل کا عَلم اٹھانے والے قرآن کے اپنے بیان کے مخالف سمت کھڑے ہو جاتے ہیں جس کے مطابق یہ متن پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جبکہ علمبرداروں کا کہنا یہ ہے کہ یہ متن محض تقی عثمانی، اویس نورانی، ہشام الہی ظہیر یا ساجد نقوی کے لیے اترا ہے۔ عام انسان خدا کا پیغام سمجھنے کے لیے ان کی ترجمانی کا محتاج ہے جو اسی متن کی تشریح میں ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں۔ اس پر جب ہم کہیں کہ مذہب نہ طب ہے نہ مہندسی بلکہ اپنے ہی دعوے کے مطابق زندگی گزارنے کا وہ طریق ہے جس پر ہر ماننے والے کو خود سمجھ کر، نہ صرف عمل کرنا ہے بلکہ حساب بھی دینا ہے کہ عمل ٹھیک کیوں نہیں کیا تو سب خفا ہو جاتے ہیں۔ وہ بضد ہیں کہ متن کو سمجھنا محض چند لوگوں کا خاصہ ہے تاہم اس پر عمل نہ کرنے کا حساب سب کو اپنی اپنی جگہ دینا ہے۔ اگر تو قیامت کے دن اپنی کم فہمی کا خسارہ قاسم نانوتوی، احمد رضا خان ، سیستانی یا احسان الہی ظہیر کے حساب میں منتقل کرنے کا انتخاب دیا جاتا تو شاید ہم اس دلیل سے اتفاق کر لیتے پر ظاہر ہے ایسے معاملے میں شریعت خاموش ہے۔ اس پر منٹو کا ایک مشہور فقرہ یاد آ رہا ہے لیکن میں لکھوں گا نہیں۔ آپ خود ڈھونڈ کر پڑھ لیجیے، بات سمجھ میں آ جائے گی۔
یاد رہے کہ مذہب کے ادراک کا کچھ علوم یا ایک سند سے مخصوص ہونا وہی دلیل ہے جو غلام احمد پرویز، مولانا مودودی یا جاوید احمد غامدی کے خلاف استعمال ہوتی رہی ۔ دوسری طرف اسی کا رد کرنے والے انہی متجددین نے اپنی تشریح پر اٹھنے والے اعتراضات کے دفاع میں تقریبا یہی دلیل استعمال کی بس اس میں سے سند کی شرط نکال دی۔ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
چلیے صاحب، یہاں ابھی یہ نکتہ رکھا ہی جا سکتا تھا سو رکھ دیا گیا۔ آگے چلتے ہیں۔ مدارس کا نصاب فرسودہ ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں اور اسی وجہ سے جدید دور سے اس کا ہم آہنگ ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ مسئلہ عصری علوم کی درسگاہوں میں نہیں ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں اس کو حل کرنے کے لیے مولانا قاسم نانوتوی اور احمد رضا خان کے سخت موقف کے برعکس عصری علوم کا کچھ پیوند لگانے کی مدارس میں کوشش کی گئی لیکن یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام رہا۔ مدارس کے طلباء جدید معاشرے میں اسی طرح مس فٹ رہے جیسا کہ وہ پہلے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس کے کارپرداز ایسی ہر کوشش کو دل میں اپنے اکابرین کے موقف کے برخلاف اور اپنی مملکت میں مداخلت سمجھتے ہیں۔
یہاں تک یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مدارس اپنی ساخت میں محض طاقت کے مراکز اور سیاسی نرسریاں ہیں جہاں مسلک اور فقہہ کے تحفظ کے لیے ایک ایسی فوج تیار کرنا ہے جو فرسودہ ہوتے افکار کے تحفظ کے لیے ایک زومبی کی طرح مدارس کے کرتادھرتاؤں کے اشارے پر چلنے کو تیار ہوں۔ ایک سادہ، غیر پیچیدہ اور فطرت سے قریب تر مذہب کو مخالف تشریحات کے اس جمعہ بازار سے اصولا کوئی سروکار ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ بھی ایسے علوم پر مبنی تفاہیم جن کا وجود نہ رسول کے دور میں تھا نہ ان کے خلفائے راشدین کے دور میں۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ ان علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے مسلسل زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔ علم کی دینی اور دنیاوی تخصیص نے ہمارے سوشل فیبرک سے لے کر ہماری عصری ترقی تک سب پر ایک جان لیوا ضرب لگائی ہے۔
برین واشنگ ہو یا شعوری ارتقاء جسے انگریزی میں کوگنیٹو ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے، کے لیے ایک کچے ذہن کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ذہن ہے جو پانچ سے بارہ تیرہ سال کی عمر تک کسی بھی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مدارس کا زور کبھی بھی اختصاصی مذہبی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام نہیں رہا۔ جامعات کا کردار اس منصوبے میں ہمیشہ ثانوی تھا۔ آج دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کم ازکم ابتدائی دس سے بارہ برس کی تعلیم ریاضی، زبان، آفاقی اخلاقیات، شہری ذمہ داریوں اور سائنس کی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ہر طالب علم کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اختصاصی شعبے میں قدم رکھے جو طب، مہندسی، کمپیوٹر یا پھر مذہب کا ہو سکتا ہے۔ مذہبی متن آفاقی اخلاقیات کا داعی نہیں ہوتا بلکہ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کا قائل اور بلحاظ اقدار کا پرچار کرتا ہے۔ مذہبی سوچ اصولی طور پر ایک اختیاری سوچ ہے جس کے انتخاب کا حق ایک بالغ ذہن کو ہی کرنا چاہیے۔ تاہم اس اصول کو ماننے کی صورت میں مذہبی مدارس کے وجود کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
مذہبی فلسفہ اور علوم بہرحال اہم ابحاث کو جنم دیتے ہیں اور طب، قانون، مہندسی یا سائنسز کی طرح اس کی اعلی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ فیکلٹیز ہونی چاہئیں تاکہ اس موضوع پر بہتر گفتگو بھی ہو سکے اور ہمیں اس حوالے سے بہتر ذہن بھی میسر آ سکیں جو روح عصر سے ہم آہنگ ہوں۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم یا ایلیمنٹری ایجوکیشن آفاقی موضوعات پر ہو، معروضی ہو اور سب کے لیے ایک جیسی ہو۔ یہ تو ہو گئی مثالی صورت حال لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ مذہبی تنظیموں اور مذہبی اکابرین کا زور ہمیشہ سے اس بات پر رہا ہے کہ مدارس ابتدائی تعلیم سے شروع ہوں گے یعنی بچے کا فطری رجحان لایعنی ہے اور یہ فیصلہ کچی عمر میں ہی ہو جانا ہے کہ اس نے عالم دین ہی بننا ہے۔ نصاب کے حوالے سے اگر ہم اپنے سکولوں اور مدارس کو ایک ٹوکری میں بھی رکھ لیں تو ان سے نکلنے والے بچے جاپان، سنگاپور یا ناروے کے بچے کے مقابلے میں انتہائی کمتر صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ اس کی وجہ ضیاء صاحب کے دور میں کی گئی بے دریغ اسلامائزیشن ہے جس میں اخلاقیات کی جگہ اسلامیات، علاقائی زبانوں کی جگہ عربی اور خالص سائنس کے بجائے اسلامی سائنس رکھ دی گئی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی ایک عام سکول کا بچہ کسی حد تک عصری علوم کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہ انتخاب رکھتا ہے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنی زندگی اور اپنے پیشے یا اعلی تعلیمی ڈگری کا انتخاب کر سکے۔ یہ انتخاب ایک مدرسے کے بچے کے پاس نہیں ہوتا اور اس سے بڑی محرومی ممکن نہیں۔
ہمارے یہاں خلط مبحث کے لیے مدارس کا موازنہ اعلی تعلیم کے لیے مخصوص جامعات سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر ایک مذہبی جامعہ کا موازنہ ایک یونیورسٹی سے کیا جائے لیکن مدارس کا موازنہ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے موضوع پر لوٹتے ہیں جو کہ مدارس میں ہونے والا جنسی استحصال ہے اور اس استحصال کی بنیاد میں کارفرما چار اہم عوامل کا ایک مختصر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس میں سب سے بڑا کردار اس معلم کا ہے جو بچوں کو پڑھاتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو بالعموم اور مونٹیسوری میں بلا استثناء خواتین اساتذہ کو پڑھانے کی لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے قربت، محبت اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس معاملے میں صدیوں کی فہم یہ طے کر چکی ہے کہ عورت مرد سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ اس پر جنسی حوالے سے کہیں زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ہم کسی بھی عام گھر میں خواتین کے بچوں کو چھونے پر عام حالات میں معترض نہیں ہوتے لیکن مردوں کو یہ اجازت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں والے گھر میں اگر ملازم رکھنا ہو تو بھی ایک خاتون کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیم میں بھی یہی روایت مناسب سمجھی جاتی ہے۔ عصری تعلیم کے ابتدائی اداروں میں نوے فی صد خواتین اساتذہ ہیں جبکہ مدارس میں یہی تناسب بالکل الٹ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم معاشرتی، عمرانی اور نفسیاتی تحقیق کے بالکل برع��س بچوں کو ایسے معلمین کے سپرد کر دیتے ہیں جو ان کو درکار محبت اور شفقت مہیا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور جنسی حوالے سے بھی وہ ایک محفوظ اور بااعتماد انتخاب نہیں ہیں۔
مدارس اور عام سکولوں میں دوسرا فرق مخلوط تعلیم سے گریز ہے۔ ہماری عمومی سوچ کے برعکس جنسی گھٹن کا ایک بڑا سبب مرد اور عورت کو ایک معاشرے میں برابر اظہار اور رسائی کے مواقع نہ دینا ہے۔ چھوٹے بچوں کی شعوری تربیت میں مخلوط طرز تعلیم کی وجہ سے صنفی امتیاز میں کمی ہوتی ہے۔ جنس ایک چبھتا ہوا سوال نہیں رہ جاتا۔ عورت سے تعارف محض فحش جنسی لطیفوں کے ذریعے نہیں ہوتا۔ ورنہ مردوں کے لیے عورت محض ایک خواہش اور ہوس بن جاتی ہے۔ وہ عورت کو اپنے جیسا ایک انسان نہیں سمجھ پاتے ۔ اسے عام نظر سے دیکھنا بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ مرد اور عورت کے بیچ گھر کی حرمت کے باہر سوائے جنسی رشتے کے کوئی اور رشتہ ممکن نہیں رہ جاتا۔ جنس کو ایک شجر ممنوعہ اور گناہ بنانے سے اس کی کشش میں اضافہ ہوتا ہے ، کمی نہیں ہوتی۔ کیا وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے لے کر سب سے زیادہ بکنے والے کالم نگار عورت کے بارے میں صرف جنسی زاویہ آواز لگا کر بیچتے ہیں۔ معلمین بھی اسی چھلنی سے گزر کر اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں جہاں انہوں نے محض جنسی گھٹن کی تربیت پائی ہوتی ہے۔ اسی تربیت کا شاخسانہ اور خمیازہ کبھی ان کے زیر تسلط مدرسے کے بچے بھگتتے ہیں ، کبھی بچیاں بھگتتی ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے عام سکول بھی غیر مخلوط ہیں اور اس میں یورپ کی قدیم روایتوں کے امین کچھ سکول بھی شامل ہیں۔ میں ان کو بھی درست خیال نہیں کرتا۔ پدر سری معاشروں کی سب روایات نے ابھی انتہائی ترقی یافتہ معاشروں میں بھی دم نہیں توڑا۔ جو غلط ہے، وہ ہر جگہ غلط ہے۔ تاہم جہاں سارے مدارس غیر مخلوط ہیں وہاں سکولوں میں یہ تعداد بمشکل دس فی صد ہے اس لیے مسئلے کی سنگینی بھی مدارس کے لیے کئی گنا ہے۔ غیر مخلوط اداروں میں جنس کی غیر متوازن نفسیاتی تربیت کا نتیجہ بھی اغلام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ مدارس کا رہائشی ہونا ہے۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی طرز تعلیم میں ، خواہ وہ عصری ادارے ہوں یا مدارس، ابتدائی درجوں کے بچوں بلکہ ثانوی درجوں میں بھی بورڈنگ سکول کا حامی نہیں ہوں۔ بچوں کو عاقل اور بالغ ہونے سے پہلے ایسے منتظمین کو کلی طور پر دن رات کے لیے سونپ دینا جن سے ان کے رشتے کی کوئی حرمت ہو نہ ان سے محبت اور شفقت کا کوئی تعلق ہو، صرف ظلم ہی نہیں، جرم بھی ہے۔ مدارس میں جنسی استحصال کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کا تدارک اس لیے ممکن نہیں کہ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت وہ ہے جسے والدین مذہبی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی مدرسے میں چھوڑنے پر راضی ہوتے ہیں کہ سر پر چھت اور پیٹ میں روٹی کا خرچ انہیں بچ جاتا ہے۔ اگر آج مدارس کو ڈے سکول میں بدل دیا جائے تو جنسی زیادتی کے واقعات بہت کم رہ جائیں گے۔
تاہم ان سب عوامل سے زیادہ چوتھا اہم ترین محرک وہ نفسیاتی کجی ہے جو ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ میں اس کو مدارس سے مخصوص نہیں کر رہا لیکن اس کا سب سے اثرانگیز مظہر مدارس میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے تو کیا کیجیے۔ عصری تعلیم کے ادارے اخلاقی تعمیر و تطہیر کے دعوے پر استوار نہیں ہیں۔ ایک سپیس سائنسز کی ڈگری میں خلا بازی سکھائی جاتی ہے اور اس کا معلم بھی خلابازی کا ہی ماہر ہوتا ہے۔ طب سے لے کر آثار قدیمہ کی پڑھائی تک، ہر جگہ یہی معاملہ ہے۔ تاہم مدارس مذہب کو اخلاق کی اساس سمجھتے ہوئے یہ دعوی رکھتے ہیں کہ مدارس کی تعلیم بہترین اخلاقی وجود اور برتر اسوہ تشکیل دیتی ہے۔ یہ کہنے کے بعد وہ قبائلی معاشرت، رجعت پسندی اور ناقابل عمل اور ناقابل قبول اخلاقی قدروں پر اپنے نصاب اور تعلیم کے ذریعے مصر رہتے ہیں۔ ایسے کسی دعوے کی نظیر کسی عصری ادارے میں نہیں ملتی۔ عصری اداروں کے معلم انبیاء کے وارث نہیں ٹھہرائے جاتے۔ ان کو کوئی پاکیزگی اور تقدس کا لبادہ نہیں اوڑھاتا لیکن اس کے باوجود ان کے لیے معیار اس قدر سخت ہے کہ صرف سوشل میڈیا پر جنسی ہراسانی کے الزام میں ایک جامعہ کا استاد آٹھ سال کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اس کی پوری برادری میں سے کوئی ایک اس کی تاویل نہیں دیتا۔ دوسری طرف مدارس کا مقدمہ تاویل در تاویل اور عذر در عذر پر کھنچتا چلا جاتا ہے۔ مدارس میں موجود اخلاقی گراوٹ کو انفرادی معاملہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مدارس اسی اخلاق کی لاٹھی ٹیکے ہی تو کھڑے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو تو ان کے وجود کی آخری دلیل بھی دم توڑ دے۔ مذہبی تعلیم میں اخلاقی جرائم اتنے عام ہو چکے کہ اب انہیں شاید کوئی جرم سمجھتا ہی نہیں ، رہا ان کے گناہ ہونے کا سوال تو وہی تعلیم یہ بھی بتاتی ہے کہ شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو جائے گا خواہ ریپ ہی کیوں نہ ہو۔ نہیں تو وظائف اور عبادات کے راستے توبہ کا در ہمیشہ کھلا ہی رہتا ہے۔ لیجیے کوتوال کا ڈر پہلے ہی نہیں تھا، خوف خدا کا بھی علاج کر لیا گیا۔ اب کوئی کیا اس پر بحث کرے۔ رہی عوامی جواب دہی کا خوف تو وہ شاید ہے اسی لیے جہاں ہر سکول میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی موجود ہیں اور ہر کوئی موبائل بھی لیے پھرتا ہے وہاں یہی دونوں اشیاء اکثر مدارس میں شجر ممنوعہ نہ ہوتیں۔
پیو کا سروے آپ کے سامنے ہے۔ ایک کے بعد ایک مثال روز اخبار میں لپٹی چلی آتی ہے۔ ہم یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ خرابی کی جڑ مدارس کے نظام، نصاب اور فکر میں پوشیدہ ہے۔ کہانی کہیں اور بگڑی ہے، ہم سرا کہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم جنس پرستی کو گناہ کہنے والے سدومیت کے بغیر ایک دن نہیں گزار پاتے۔ عورتوں کی عزت کے دعوے کرنے والے بینگن اور بستر کی مثالیں منبر پر دیتے ہیں۔ مخلوط سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تہذیب نفس کا ماتم کرنے والے صبح شام اغلام کے عادی نکلتے ہیں۔ جنسی رویوں کی تشریح اب سائنس اور نفسیات سے ہوتی ہے۔ اس کی تفہیم بلکہ قانون سازی تک مذہب سے کرنے پر بضد رہیں گے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو نکل رہا ہے۔
ایک مہذب اور باشعور معاشرے میں مدارس جیسے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اختصاصی ادارے صرف بگاڑ ، محرومی اور استحصال کے کارخانے ہیں۔ مذہب کی تعلیم اعلی تعلیمی اداروں کا مضمون ہے اور وہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ یہ حقیقت ہم جتنی جلدی سمجھ لیں، اتنا اچھا ہے۔ کتنی نسلیں برباد ہو چکی ہیں۔ اپنی اگلی نسل کو تو بچا لیجیے۔
47 notes · View notes
urduu · 8 months
Text
گماں تیری ہی لغزش کا نہیں ہے
میں خود پر بھی نظر رکھّے ہوئے ہوں
43 notes · View notes
urduu · 8 months
Text
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ھے ،
اِس یونیورسٹی میں 16 ہزار ملازم ہیں۔
جن میں سے ڈھائی ہزار پروفیسر ہیں ۔
سٹوڈنٹس کی تعداد 36 ہزار ھے۔
اس یونیورسٹی کے 160 سائنسدانوں اور پروفیسرز نے نوبل انعام حاصل کئے ہیں
ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ دعویٰ ھے کہ ہم نے دنیا کو آج تک جتنے عظیم دماغ دیۓ ہیں وہ دنیا نے مجموعی طور پر پروڈیوس نہیں کیۓ اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ھے کیونکہ دنیا کے 90 فیصد سائنسدان ، پروفیسرز ، مینجمنٹ گرو اور ارب پتی بزنس منیجرز اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رھے ہیں ،
اس یونیورسٹی نے ہر دور میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ھے.
ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک میگزین ھے ، جس کا نام ھے
Harvard University Business Review
اور اس کا دنیا کے پانچ بہترین ریسرچ میگزینز میں شمار ہوتا ھے ،
اس میگزین نے پچھلے سال تحقیق کے بعد یہ ڈکلئیر کیا کہ ہماری یونیورسٹی کی ڈگری کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے ، یعنی اگر آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں سے بھی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ محض پانچ سال تک کارآمد ھو گی.
یعنی پانچ سال بعد وہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی ۔
آپ خود بھی یقیناً ایک ڈگری ہولڈر ہوں گے ، چند لمحوں کے لیے ذرا سوچئے اور جواب دیجئے
آپ نے آخری مرتبہ اپنی ڈگری کب دیکھی تھی اور آپ کی ڈگری اِس وقت کہاں پڑی ھے شائد آپ کو یہ یاد بھی نہ ہو ۔
ہمارے پاس اِس وقت جو علم ھے اُس کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے یعنی پانچ سال بعد وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہوگا اور اس کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی
آپ اگر آج ایک سافٹ ویئر انجینئر بنتے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کا نالج کارآمد نہیں رہے گا اور آپ اس کی بنیاد پر کوئی جاب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔
اس کو اس طرح سمجھ لیں جیسے کمپیوٹر کی ڈپریسیشن ویلیو %25 ہے مطلب چار سال بعد ٹیکنالوجی اتنا آگے بڑھ جا چکی ہوگی کہ آج خریدا ہوا کمپیوٹر چار سال بعد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔
*آج کے دور میں انسان کے لۓ بہت زیادہ ضروری ھے*
*مسلسل نالج*
آپ خود کو مسلسل اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرتے رھیں ۔۔پھر ہی آپ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں
*آپ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے شعبے سے متعلق کوئی نیا کورس ضرور کریں*
یہ کورس آپ کے نالج کو بڑھا دے گا اور نئی آنے والی ٹیکنالوجی سے آپ کو باخبر رکھے گا۔
نالج بھی اس وقت تک نالج رہتا ھے جب تک آپ اُس کو ریفریش کرتے رہتے ہیں ۔۔
آپ اسے ریفریش نہیں کریں گے تو وہ ٹہرے ہوئے گندے پانی کی طرح بدبو دینے لگے گا۔
آج آپ دیکھیں ہم دنیا سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
دو وجوہات تو بہت واضع ہیں اکثر شعبوں میں ہم 50 سال یا اس سے بھی پرانی ٹیکنالوجی سے کام چلا رہے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہمارا ریلوے نظام۔۔ہمارا نہری نظام، فی ایکڑ پیداواری نظام ،خوراک کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ
دوسری وجہ نوکری مل جانے کے بعد مکھی پر مکھی مارنے کی عادت ، ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب نوکری کا حصول تھا وہ مل گئی۔۔جس طرح سالوں سے وہ شعبے چل رہے ہیں ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے علم سے وہاں بہتری لائیں ، ادارے کی کارکردگی میں ایفشینسی لائیں اور خود اپنے اور لوگوں کے لئیے سہولتیں پیدا کریں۔
دنیا میں بارہ برس میں آئی فون کے چودا ورژن آگئے ، لیکن آپ اپنے پرانے نالج سے آج کے دور میں کام چلانا چاہ رھے ھیں ۔۔
یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اَپ گریڈیشن آپ کو ہر سال دوسروں کے مقابلے کی پوزیشن میں رکھے گی ۔ ورنہ
دنیا آپ کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دے گے
9 notes · View notes
urduu · 8 months
Photo
Tumblr media Tumblr media
8 notes · View notes
urduu · 8 months
Text
Tumblr media
‏یہ خاتون جنکی تصویر میں نے لگائ ہے، یہ محترمہ بیک وقت مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال دونوں کی محبوبہ تھیں انکا نام "عطیہ فیضی" ہے، وہ ان میں سے کسی کے بھی ہاتھ نہ آئیں دونوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتی رہیں اور جب فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو ایک یہودی نَژاد (بعد میں مسلمان ہوجانے کا بھی ذکر ملتا ہے) کے ساتھ شادی کر کے بیرون ملک جا بسیں شبلی اس کے غم میں نڈھال ہو گئے اور اقبال اس کی بے وفائی پر شکوہ کناں رہے
‏شبلی محقِق تھے اور اقبال مُفکر تھے... اس کے باوجود وہ دونوں ہی ایک عورت کو اپنا نہ بنا سکے
‏ عطیہ فیضی کو محبت کرنے والا لائف پارٹنر مطلوب ہی نہیں تھا بلکہ اس کو جدید اور پر آسائش لائف سٹائل کی چاہت تھی اِس سے یہ معلوم ہوا کہ خالی جیب والے مفکرین اور محققین عموماً محبت کی بازی ہار جاتے ہیں اور یہی ہار ان کے علمی اور فکری عروج کی مہمیز بن جاتی ہے محبت کی اس ناکامی کے سبب نہ تو علمی حلقوں میں شبلی کا قد چھوٹا ہوا اور نہ ہی اقبال کے نام پر کوئی داغ لگا- تاریخ ایسی عورتوں کے نام یاد رکھتی ہے، کردار یاد رکھتی ہے اور پڑھ نے والوں کو یہ سکھاتی ہے کہ عورتوں کے چکر میں مت پڑو ...بیٹا
11 notes · View notes
urduu · 3 years
Video
youtube
Sajjad Ali - RAVI (Official Video)
9 notes · View notes
urduu · 3 years
Text
دل پہ اب الہام اترتے ہیں عذابوں کی طرح
ہیں سروں پر کیسے کیسے آسماں ٹھہرے ہوے
22 notes · View notes
urduu · 3 years
Text
پلائو سے بریانی تک کا سفر
بریانی جنوبی ایشیا کی مقبول ترین ڈش ہے۔ مصالحوں کی مہک اور پیاز لہسن ادرک اور ٹماٹروں میں رچے بسے گوشت کی بوٹیاں گرما گرم بھاپ اڑاتے چاولوں کے ساتھ ۔۔۔ ساتھ میں دہی پودینے کا رائتہ اور کھیرے پیاز ٹماٹر کا سلاد ۔۔۔۔
اہتمام کے ساتھ دسترخوان پررونق افروز بریانی اپنی خوشبو سے کھانے والوں کی بھوک اور اشتیاق بڑھا دیتی۔ کھاتے جاؤ پیٹ بھر جائے جی نہ بھرے کا معاملہ ہوتا۔ اس کے ذائقہ نے ایسا رنگ جمایا کہ کوئی دعوت بغیر بریانی کے دعوت نہیں مانی جاتی ہے۔ ۔ بچے کی پیدائش پر چھلہ ، چھٹی، عقیقہ ، شادی بیاہ کونسی تقریب ہے جس کے کھانے میں بریانی نہ ہو یہاں تک کہ مرنے کے بعد زیارت اور چہلم میں بھی بریانی ہی مرنے والے کی مغفرت کا سہارا بن گئی ہے۔
بریانی کہاں سے شروع ہوئ اور کس طرح موجودہ شکل و صورت کو پہنچی، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
بریانی کا نام :
اس سلسلے میں دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بریانی فارسی لفظ برنج بمعنی چاول سے نکلی ہے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ فارسی لفظ بریاں سے نکلی ہے جس کا مطلب بھوننا یا گھی میں چرب کر کے کسی چیز کو تلنا۔ بریانی میں کیونکہ گوشت کو مصالحوں کے ساتھ تل کر چاولوں میں شامل کیا جاتا ہے اس لئے اس کا نام بریانی پڑ گیا۔
پلاؤ:
ایک تاریخ دان کے مطابق آج سے کوئ چار ہزار سال قبل وسط ایشیا کے لوگوں نے چاولوں میں مختلف جانوروں جیسے کہ گائے، بھیڑ بکری اور مرغ وغیرہ کا گوشت شامل کر کے پکانا شروع کیا اور یہ ڈش پلائو کہلائ۔ جب مغلوں نے انڈیا کا رخ کیا تو وہ اپنے ساتھ پلاؤ بھی برصغیر میں لائے۔
لیکن ابتدا میں یہ پلائو محض گوشت چاول اور خشک میوہ جات پر
مشتمل ہوتا تھا جیسا کہ آجکل کا افغانی پلائو۔
بکرے کے گوشت کا پلاﺅ برصغیر کے پکوانوں کی تاریخ میں ایک مقبول پکوان رہا ہے اور اب بھی اسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ پلاؤ بنانے کے لئے بکرے کے گوشت ،گرم مصالحوں اور ثابت دھنیا و سونف کو لہسن ادرک اور پیاز کے ساتھ کے ساتھ ابال کر یخنی بنائ جاتی ہے۔ پھر اس یخنی میں چاول پکا کر تلی ہوئ براؤن پیاز اور زعفران اور کیوڑے کے ساتھ دم دیا جاتا ہے۔
یہ پکوان عید الاضحیٰ کے موقع پر لگ بھگ ہر گھر میں تیار کیا جاتا ہے اور خصوصی مواقعوں پر بھی اسے بےحد پسند کیا جاتا رہا ہے۔ بریانی دہلی میں زیادہ مقبول تھی جبکہ لکھنؤ میں پلاﺅ، دونوں شہروں کے رہائشیوں کی چاول کے ان دونوں پکوانوں کے لیے ترکیب بھی اپنی تھی۔
بریانی:
جب مغلوں نے ایران سے راہ و رسم بڑھائے تو ایرانی مصالحے بھی پلائو میں شامل ہو گئے۔ فارسی کھانا پکانے کی ایک سب سے امتیازی تکنیک گوشت کو دہی میں بھگونا ہے۔ بریانی کے لیے پیاز، لہسن، بادام اور مصالحوں کو دہی میں شامل کرکے ایک گاڑھا پیسٹ تیار کیا جاتا ہے جس کی کوٹنگ گوشت پر کی جاتی ہے۔ ایک بار جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو گوشت کو ��کانے کے برتن میں منتقل کرنے سے قبل کچھ دیر تل لیا جاتا ہے، اس کے بعد پلاﺅ کو پکانے کی تکنیک پر عمل کیا جاتا ہے، چاولوں کو پکا کر گوشت پر ڈال دیا جاتا ہے، زعفران ملے دودھ کو چاولوں پر انڈیلا جاتا ہے تاکہ اس پر رنگ چڑھ سکے اور خوشبو پیدا ہو اور پھر پورے پکوان کو ڈھکن سے ڈھک کر کم کوئلوں کی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بریانی درحقیقت فارسی پلاﺅ کا ہندوستانی مصالحہ دار روپ ہے، کچھ مورخین کا یہ خیال ہے کہ بریانی دوران جنگ فوجیوں کے لئے تیار کی جاتی تھی کہ جنگ کے دوران وقت اورجگہ کی کمی کے سبب ��یک ایسی ڈش تیار کی جاتی تھی جو جلدی بن جائے اور ہر طرح کے غذائیت سے بھرپور ہو۔ اس سلسلے میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کو جدید بریانی تخلیق کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس مکمل پکوان کا خیال پیش کیا اور تجویز دی کہ اسے جنگوں اور امن کے زمانوں میں فوجیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے۔
بریانی کی اقسام:
یہ مانا جاتا ہے کہ چاولوں کو تلنے سے ان میں خشک میوے کا ذائقہ آجاتا ہے جبکہ نشاستے کو جلانے سے چاولوں کی اوپری تہہ لیس دار ہوکر جم جاتی ہے۔
اس سے الگ ایک بکرے کی ران کو دہی، مصالحوں اور پپیتے میں رچایا جاتا ہے اور پھر نرم ہونے تک پکائی جاتی ہے۔ ایک بار جب گوشت پک جاتا ہے تو اسے ادھ پکے چاولوں پر تہہ کی صورت میں بچھا دیا جاتا ہے، پھر اس میں عرق گلاب کے چند قطرے، زعفران اور جاوتری کو ڈالا جاتا ہے، پھر ایک دیگ میں سیل بند کرکے ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے اس وقت تک چھوڑ دیا جاتا ہے جب تک چاول مکمل طور پر پک اور پھول نہ جائیں، اور پیش کرنے کے لیے تیار نہ ہوجائیں
اب جب بریانی برصغیر میں مقبول ہوئ تو مختلف علاقوں میں اس کی مختلف اقسام بھی وجود میں آتی گئیں۔
حیدرابادی بریانی:
کہا جاتا ہے کہ نظام حیدراباد آصف جاہ اول کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا ایک شاہی پکوان یا ڈش ہو۔ اس سلسلے میں چوٹی کے باورچیوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے چٹپٹی حیدرابادی بریانی کی صورت موجود ہے۔
۔
میسوری بریانی:
ٹیپو سلطان بریانی کو کرناٹک سے میسور لے گئے اور بریانی کی ایک نئ شکل میسوری بریانی وجود میں آئی۔
دہلی بریانی:
جب مغلوں نے اپنا دارالسلطنت دہلی کو بنایا تو بریانی ایک شاہی پکوان تھا۔ شاہی باورچیوں نے بریانی میں مختلف مصالحہ جات کی آمیزش سے اس کو ایک ایسی ڈش بنا دیا کہ جس کی شہرت عوام سے نکل کر خواص تک پہنچ گئی۔ سن 1950 تک بریانی لوگ گھروں میں ہی تیار کرتے تھے اور یہ بازار میں بہت کم ملتی تھی۔ دہلی میں حضرت نظام الدین کی درگاہ پر لنگر میں تقسیم کی جانے والی بریانی کا اپنا ایک الگ رنگ اور ذائقہ تھا۔ اسی طرح دہلی کی جامع مسجد کے اطراف مختلف باورچی اور بھٹیارے بریانی تیار کر کے فروخت کرتے تھے۔
تہاری:
بریانی کی شہرت اور ذائقے سے متاثر ہو کر کچھ لوگوں نے بغیر گوشت کی بریانی بھی بنانا شروع کردی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان ہندوئوں کے لئے بنائ گئ ہو جو گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔ عام طور پر تاہری میں آلو چاول اور مصالحے شامل کئے جاتے ہیں۔
سندھی بریانی:
پاکستان میں مصالحے دار سندھی بریانی سب سے زیادہ مقبول ہے کہ جس میں پلائو کی یخنی کے ساتھ خوب مصالحہ دار گوشت ، دہی ٹماٹر اور ہرے مصالحے کی تہہ لگا کر دم دیا جاتا ہے۔ اس میں آلو بھی شامل کئے جاتے ہیں۔ کراچی اور پاکستان کے مختلف شہروں میں یہی سندھی بریانی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر جگہ دستیاب ہے۔ کراچی کی اسٹوڈنٹ بریانی کا اس شہرت میں بڑا ہاتھ ہے کہ آج سے کوئ تیس پینتیس برس قبل صدر کی ایمپریس مارکیٹ کے عقب میں ٹین کی چادروں کے شیڈ تلے یہ بریانی فروخت کے لئے پیش کی گئ اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئے۔ آج نہ صرف پورے ملک میں اس کی فرنچائز ہیں بلکہ بیرون ممالک بھی بہت مقبول ہے۔
اس کے علاوہ بمبئی بریانی، کچے گوشت کی بریانی، میمنی بریانی، برمی بریانی، انڈا بریانی، کوفتہ بریانی وغیرہ ۔ غرض یہ کہ برصغیر کے ہر علاقے نے بریانی کو اپنے انداز میں ڈھال کر اس کا نام اپنے علاقے سے جوڑ دیا ہے۔
جھینگا اور مچھلی بریانی:
نہ صرف گائے بھینس بھیڑ بکرے اور مرغ کے گوشت کی بریانی بنائ جاتی ہے بلکہ مچھلی بریانی اور جھینگا بریانی بھی اپنا رنگ جما چکی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب شتر مرغ بریانی بھی دستیاب ہوگی۔
لیکن بریانی کا گوشت روکھا اور نرم ہونا چاہئے تاکہ اس میں مصالحوں کا ذائقہ اچھی طرح رچ بس جائے۔ بریانی کے بنانے میں دوسرا سب سے بڑا اور اہم انتخاب چاولوں کا ہے۔ بریانی عام طور پر باسمتی چاولوں سے بنائ جاتی ہے تاکہ پکنے کے بعد چاول کھلے کھلے رہیں اور ان کی مہک محسوس ہو۔
بریانی کی بین الاقوامی مقبولیت:
بریانی اب نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ کے تقریبا" ہر شہر میں دستیاب ہے۔ ہمارے دوست چینی بھی بریانی سے پورا انصاف کرتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی ڈش بن چکی ہے۔ لیکن اس کی تخلیق کا سہرا یقینا" مغلوں سے کوئ نہیں چھین سکتا۔
ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ اچھی بریانی کے لئے شادی بیاہ یا دعوتوں کا انتظار کرتے تھے لیکن اب سینکڑوں ریسٹورنٹس بہترین دیگی بریانی ایک فون کال پر آپ کو گھر بیٹھے مہیا کر دیتے ہیں۔
لیکن یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اصلی بریانی کا لازمی جز زعفران، کیوڑہ، جائفل جوتری اور دیگر کچھ مصالحے اب بریانی میں نہیں ڈالے جاتے۔ ان گنت ہوٹلیں بریانی کے اشتہار سے چمک اٹھی ہیں مگر اس میں وہ مزہ نہیں۔ گوشت کی دو چار بوٹیاں ، چاول تو بریانی کے ہوتے ہیں لیکن خوشبو شاید ہی ہو۔ نہ اب وہ باذوق لوگ رہے اور نہ بریانی کا ذائقہ رہا۔ جب تک انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں کی سگھڑ خواتین حیات رہیں وہ بریانی کو اس کی اصل ترکیب اور ذائقے کے ساتھ بناتی رہیں اور کچھ نے یہ فن و ترکیب اپنی آنے والی نسل کو سونپ دی۔ اب نہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی قوس قزح ہے نہ وہ لوگ تو صاحب باورچی کی بریانی میں مزہ کیسے آئے گا وہ لذت کہاں سے آئے گی جو اصلی بریانی کی شان امتیاز تھی۔
لیکن بہرحال کراچی آج بھی بریانی میں نمبر ون ہے۔
تو پھر کیا خیال ہے ، ہو جائے ایک گرما گرم بریانی؟؟؟
(اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، ویب سائٹس، بلاگز، انسائیکلوپیڈیا اور کوکنگ ویب سائٹس سے بھی مددلی گئ
‏Sanaullah Khan Ahsan
13 notes · View notes
urduu · 3 years
Text
مدارس میں جنسی استحصال کی چار بنیادی وجوہات
حاشر ابن ارشاد
کیتھولک چرچ کو ایک ہزار سال لگے یہ تسلیم کرنے میں کہ چرچ اور اس سے ملحقہ اداروں بالخصوص تعلیمی اداروں میں جنسی استحصال اور زیادتی ایک شرمناک اور کربناک حقیقت ہے اور یہ بھی کہ چرچ کے ذمہ داران ہمیشہ سے اس پر پردہ ڈالتے چلے آئے ہیں تاکہ مسیحیت پر حرف نہ آئے۔ سن 2001 میں پوپ جان پال دوئم کا اس حوالے سے اقرار، سن 2009 میں پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کی معافی اور سن 2018 میں پوپ فرانسس کی عوامی شرمندگی اور پھر ان کے اظہار معذرت سے کلیسائی اصلاحات کا ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ چرچ کو یہ اقرار بھی کرنا پڑا کہ ایسے واقعات کے ثبوت گیارہوں صدی سے ذمہ داران کلیسا کے پاس ہیں لیکن مسیح��ت کے دفاع کے لیے ان کو چھپائے رکھنا ہی بہتر سمجھا گیا پر اب چرچ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ حکمت عملی نہ صرف غلط تھی بلکہ یہ ان تمام لوگوں کے ساتھ بھی شدید ظلم تھا جو اس ایک ہزار سال میں پادریوں، ننز اور کلیسا کے عہدیداران کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ جنسی استحصال کے ایسے ہی قصے ہندو مندروں اور بدھ خانقاہوں کے حوالے سے بھی منظر عام پر آئے۔ تحقیق کا در کھلا تو معلوم ہوا کہ چھوٹے بڑے اکثر مذاہب میں یہ کہانی عام ہے ، سب اس سے واقف ہیں اور سب اس سے چشم پوشی برتتے ہیں۔
رفتہ رفتہ یہ تحریکیں اپنی اپنی جگہ طاقت کے متوازی مراکز میں تبدیل ہو گئیں اور چرچ ہی کی طرح ان کا سیاسی نفوذ اور انتظامی اثرورسوخ اس حوالے تک پہنچ گیا کہ ایک مسلم مملکت کے بنیادی خدوخال بھی انہی کی مرضی سے تشکیل پاتے چلے گئے۔ سنی شیعہ خلیج سے لے کر خوارج، معتزلہ اور باطنیہ کی قدیم بحث، فاطمیوں اور دعوت اسماعیلیہ سے لے کر سعودی عرب کی وہابی فکر، ایران کی ولایت فقیہہ اور پاکستان کی قرارداد مقاصد تک یہ سب ایک ہی بنیادی فکر کا تسلسل رہا ہے جس کا واحد مقصد تقدس کے پردے میں لامساوی طاقت کا حصول تھا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فقہہ سے جڑے مدارس کا باقاعدہ اور بڑے پیمانے پر ظہور گیارہوں صدی میں ہوا۔ یہ وہی وقت ہے جب کیتھولک چرچ کی شان وشوکت اپنے عروج پر پہنچی اور اس کا اثر اور نفوذ تمام دنیا کو نظر آنا شروع ہو گیا۔ چرچ سے جڑے تعلیمی اداروں کا جال مربوط ہوا اور چرچ ہی کے حالیہ اعتراف کے مطابق جنسی استحصال کی تاریخ بھی اسی دور سے شروع ہوئی۔ اس حسین اتفاق پر مزید لب کشائی شاید بہت سوں پر بہت گراں گزرے گی اس لیے فی الحال اس پر بحث موخر کر کے ہم وطن عزیز میں لوٹتے ہیں اور مدارس کی تاریخ پر تھوڑی سی نظر ڈالتے ہیں، ساتھ ساتھ اس تعمیر میں مضمر خرابی کو تھوڑا سا پرکھ لیتے ہیں۔
سن 1947 میں مغربی پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ تھی جس کے لیے 189 مدارس موجود تھے۔ یاد رہے کہ ہمارے اکابرین کے مطابق ہماری مذہبی وابستگی میں پچھلے ستر سال میں محض زوال کی کیفیت رہی ہے۔ یہ بات ہم مان لیتے ہیں پر اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہبی وفور سے لبریز ایک بہتر اسلامی معاشرے میں ہر پونے دو لاکھ لوگوں کے لیے مذہبی تعلیم کا ایک مدرسہ کافی تھا۔ یاد رکھیے کہ عمومی تعلیم ، صنعت یا زراعت کے حوالے سے ہمیں ایسا کوئ زوال مسلسل کا دعوی کہیں نہیں ملا تو اس حوالے سے موازنہ بیکار ہو گا۔
اب آجائیے سن 2021 میں جہاں ہماری آبادی 623 فی صد اضافے کی ساتھ 21 کروڑ کو پہنچ چکی ہے۔ اگر مدارس کی تعداد میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوتا تو آج یہ تعداد کوئی بارہ سو مدارس تک محدود ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے ، مدارس کی تعداد میں 16,000 فی صد، جی سولہ ہزار فی صد، اضافے کے بعد یہ تعداد آج تیس ہزار سے زائد ہے۔ ایک طرف اضافہ چھ گنا ہے اور دوسری طرف ایک سو ساٹھ گنا۔ اور اس کے باوجود ہمارے مذہبی اکابرین ہی کے مطابق ہماری اخلاقی حالت، جو کہ دین سے دوری کی وجہ سے ہے، روز بہ روز پست سے پست تر ہو رہی ہے۔ اب یا تو اعدادوشمار غلط ہیں، ان کا دعوی غلط ہے، اخلاقی گراوٹ مذہب کی بڑھتی ہوئی تعلیم کے سبب ہے یا پھر شماریاتی لحاظ سے اخلاقی زبوں حالی یا اعلی اخلاقی قدروں دونوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مشہور ادارے پیو نے کچھ سال پہلے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق اخلاقی لحاظ سے پست ترین ممالک وہ نکلے جہاں مذہب روزمرہ کے فیصلوں میں نوے فی صد سے زیادہ دخیل تھا اور اخلاقی لحاظ سے بہترین ممالک وہ تھے جہاں مکمل سیکولرمعاشرے اور سیکولر حکومت تھی اور انفرادی سطح پر آبادی کی اکثریت مذہب سے لاتعلق تھی۔ یعنی کہ قارورہ وہ بتا رہا ہے جو ہمارے مقدمے سے الٹ ہے۔
اس کے جواب میں بن بیاہی ماؤں، ناجائز بچوں، ریپ کے اعداد و شمار اور جنسی آزادی والے گھسے پٹے اعتراضات رکھنے سے پہلے یہ سوچ لیجیے کہ آپ کی کم عمر بیٹی یا بیٹا رات کو اوسلو کی ایک سڑک پر زیادہ محفوظ ہو گا یا کراچی میں۔ جواب مل جائے گا، اگر آپ آنکھیں بند اور ذہن استعمال نہ کرنے پر بضد نہ ہوئے۔ ان حوالوں سے ہماری غلط فہمیوں یا خوش فہمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن اس پر بات پھر کبھی۔
مدارس کی اس روزافزوں ترقی کا جائزہ لیں تو پتہ لگتا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ تیزی مرد مومن کے دور میں آئی جب سرکاری سرپرستی میں دیوبندی مکتبہ فکر کو فروغ دینا مقصود تھا۔ اس حوالے سے لازمی زکات فنڈ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ غربت کے خاتمے کے لیے اکٹھی کی گئی رقم کا بیشتر حصہ پنجاب اور صوبہ سرحد میں سینکڑوں مدارس کے قیام میں خرچ کر دیا گیا۔ 1980 کی دہائی میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کے نتیجے میں بھی دونوں مخالف فقہی گروہوں کے ان گنت مدارس ملک کے طول وعرض میں غیر ملکی امداد سے وجود میں آئے۔ انہی مدارس کے ساتھ جڑے لوگ اس کے بعد ایک پر تشدد مسلکی جنگ میں الجھے رہے جس کے شعلے اب بھی سرد نہیں پڑے۔ سن 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد اگلے اٹھارہ سال میں یعنی ضیاء صاحب کے مارشل لاء کے اختتام تک مدارس کی تعداد 900 سے بڑھ کر پچیس ہزار تک جا پہنچی۔ اب یار لوگ اس عظیم الشان ترقی کو سیاسی پس منظر سے الگ دیکھنے پر بضد رہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ افغان "جہاد" اور کشمیر کی حریت پسندی کا ایندھن کہاں سے فراہم کیا جاتا رہا، کون نہیں جانتا۔
اسلام کے بارے میں یہ بات بھی بار بار سننے کو ملتی ہے کہ یہ دین فطرت ہے ،اس میں خدا اور بندے کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہے اور اسے سمجھنا انتہائی آسان اور اس پر عمل کرنا اس سے بھی آسان ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہندوازم یا مسیحیت کو دیکھیں تو وہاں بنیادی دعوی ہی یہ ہے کہ مذہبی متن کو سمجھنا اور اس کی کی تشریح کرنا تو دور، اس کو درست پڑھنا بھی محض ایک خاص طبقے کا استحقاق ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس کے سب کو پیر چھونے ہوں گے، یہی وہ طبقہ ہے جو جنت کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرے گا اور یہی وہ طبقہ ہے جس کے بتائے گئے اصول حتمی تسلیم کیے جائیں گے۔ ہم انہی موضوعات کو لے کر جہاں ان مذاہب کو ہدف تنقید بناتے ہیں وہاں یہ بھول جاتے ہیں کہ فقہی فکر، علم الحدیث، صرف، نحو ، مذہبی منطق اور تجوید جیسے "علوم" کو مذہب کی بنیاد بنا کر ہم نے بعینیہہ یہی روش اختیار کر لی ہے۔ مذہب کو تخصیص کا پیرایہ پہنانے یعنی اسے ایک سپیشلائزیشں بنانے کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سپیشلائزیشن کی تعلیم کے لیے مدارس کا ایک خصوصی نظام وجود میں آ گیا جس کی کوئی مثال اُس دور میں نہیں ملتی جسے ہم اسلام کا سنہری دور گردانتے ہیں۔
مذہب کو اگر تخصیصی مان لیا جائے تو ہر ایک سے اس کا تقاضا ویسے ہی فضول ہو جاتا ہے۔ طب سپیشلائزیشن ہے اس لیے یہ مطالبہ صرف ڈاکٹر سے ہو گا کہ وہ مرض کی درست تشخیص کرنے کے قابل ہو، دوائیوں کا علم رکھتا ہو، انجکشن گھونپنے کا ہنر جانتا ہو یا نشتر سے انسانی جسم کھول کر ایسی قطع برید کرنے کے قابل ہو جس سے صحت مقصود ہو۔ اگر مذہب بھی ایسی ہی سپیشلائزیشن ہے، تو پھر عام شخص کو اس کے اخلاقی تقاضوں پر پرکھنا، اس سے درست عبادت کی توقع رکھنا، اس سے مذہبی قانون کی پاسداری کا خیال سب کچھ باطل ہو جاتا ہے۔ اگر فقہہ، حدیث، صرف، نحو، قواعد زبان اور عربی تمرین کے بغیر مذہب سمجھنا ممکن ہی نہیں تو پھر عام آدمی سے اس اسوہ پر چلنے کی توقع جو کہ ایک مثالی مسلمان کے لیے طے کر دیا گیا ہے، ایسی ہی ہے جیسا کہ مچھلی سے درخت پر چڑھنے کی امید۔
دل چسپ امر البتہ یہ بھی ہے کہ برصغیر میں خاص طور پر پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں سب سے غیر اختلافی متن یعنی قرآن کی بھی نئی نئی تشریحات قائم ہونا شروع ہو گئیں کیونکہ بدلتے ہوئے زمانے اور سائنس کی ترقی کے ساتھ قرآن سے اخذ کردہ کئی تصورات کی نئی تفہیم نہ ہونے کی صورت میں بہت سے ایسے سوال اٹھنے کا اندیشہ تھا جن کا کوئی جواب اہل مذہب کے پاس نہیں تھا۔ موجودہ پاکستان میں پرویزی فکر، فراہی فکر یا اب جاوید احمد غامدی صاحب اس کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔ ان متجددین نے تیرہ سو سالہ طے شدہ فکر کے کئی زاویے یکسر مسترد کر دیے۔ جن باتوں کو واضح حقیقت کہا جاتا رہا، وہ تمثیل کے زمرے میں ڈال دی گئیں اور بے شمار اخلاقی اور معاشرتی احکامات کی ایک دورازکار تاویل وضع کر لی گئی۔ ہمارے ایک دوست تو اس کا دفاع کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے کہ انہوں نے قرآن کو دیوان غالب سے تشبیہہ دے ڈالی کہ اس کے معنی بھی انہی پر کھلتے ہیں جن کی فکر ایک خاص مقام تک پہنچ جاتی ہے۔ اس پر ہم انہیں غالب کا "نہ سہی گر میرے اشعار میں معنی نہ سہی" والا مصرع سناتے پر حد ادب میں خاموش رہ گئے۔ اچھا، دل چسپ بات یہ ہے کہ متجددین فقہی اصولوں پر استوار مدارس کے بھی خلاف ہیں اور صدیوں کی فقہی روایت کے بھی لیکن اپنی نئی تشریح کے لیے وہ اسی جواز کا سہارا لیتے ہیں جس کے سہارے یہ مسلکی مدارس صدیوں سے کھڑے ہیں۔ اس سے بھی دل چسپ امر یہ ہے کہ کلاسیکی مذہب کے مقلدین اور ان متجددین کے درمیان ایسا کڑا اختلاف ہے کہ یہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔
صدیوں سے یہی دلیل کہ "دین سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں" ، مدارس کے دفاع میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اس دلیل کا عَلم اٹھانے والے قرآن کے اپنے بیان کے مخالف سمت کھڑے ہو جاتے ہیں جس کے مطابق یہ متن پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جبکہ علمبرداروں کا کہنا یہ ہے کہ یہ متن محض تقی عثمانی، اویس نورانی، ہشام الہی ظہیر یا ساجد نقوی کے لیے اترا ہے۔ عام انسان خدا کا پیغام سمجھنے کے لیے ان کی ترجمانی کا محتاج ہے جو اسی متن کی تشریح میں ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں۔ اس پر جب ہم کہیں کہ مذہب نہ طب ہے نہ مہندسی بلکہ اپنے ہی دعوے کے مطابق زندگی گزارنے کا وہ طریق ہے جس پر ہر ماننے والے کو خود سمجھ کر، نہ صرف عمل کرنا ہے بلکہ حساب بھی دینا ہے کہ عمل ٹھیک کیوں نہیں کیا تو سب خفا ہو جاتے ہیں۔ وہ بضد ہیں کہ متن کو سمجھنا محض چند لوگوں کا خاصہ ہے تاہم اس پر عمل نہ کرنے کا حساب سب کو اپنی اپنی جگہ دینا ہے۔ اگر تو قیامت کے دن اپنی کم فہمی کا خسارہ قاسم نانوتوی، احمد رضا خان ، سیستانی یا احسان الہی ظہیر کے حساب میں منتقل کرنے کا انتخاب دیا جاتا تو شاید ہم اس دلیل سے اتفاق کر لیتے پر ظاہر ہے ایسے معاملے میں شریعت خاموش ہے۔ اس پر منٹو کا ایک مشہور فقرہ یاد آ رہا ہے لیکن میں لکھوں گا نہیں۔ آپ خود ڈھونڈ کر پڑھ لیجیے، بات سمجھ میں آ جائے گی۔
یاد رہے کہ مذہب کے ادراک کا کچھ علوم یا ایک سند سے مخصوص ہونا وہی دلیل ہے جو غلام احمد پرویز، مولانا مودودی یا جاوید احمد غامدی کے خلاف استعمال ہوتی رہی ۔ دوسری طرف اسی کا رد کرنے والے انہی متجددین نے اپنی تشریح پر اٹھنے والے اعتراضات کے دفاع میں تقریبا یہی دلیل استعمال کی بس اس میں سے سند کی شرط نکال دی۔ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
چلیے صاحب، یہاں ابھی یہ نکتہ رکھا ہی جا سکتا تھا سو رکھ دیا گیا۔ آگے چلتے ہیں۔ مدارس کا نصاب فرسودہ ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں اور اسی وجہ سے جدید دور سے اس کا ہم آہنگ ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ مسئلہ عصری علوم کی درسگاہوں میں نہیں ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں اس کو حل کرنے کے لیے مولانا قاسم نانوتوی اور احمد رضا خان کے سخت موقف کے برعکس عصری علوم کا کچھ پیوند لگانے کی مدارس میں کوشش کی گئی لیکن یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام رہا۔ مدارس کے طلباء جدید معاشرے میں اسی طرح مس فٹ رہے جیسا کہ وہ پہلے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس کے کارپرداز ایسی ہر کوشش کو دل میں اپنے اکابرین کے موقف کے برخلاف اور اپنی مملکت میں مداخلت سمجھتے ہیں۔
یہاں تک یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مدارس اپنی ساخت میں محض طاقت کے مراکز اور سیاسی نرسریاں ہیں جہاں مسلک اور فقہہ کے تحفظ کے لیے ایک ایسی فوج تیار کرنا ہے جو فرسودہ ہوتے افکار کے تحفظ کے لیے ایک زومبی کی طرح مدارس کے کرتادھرتاؤں کے اشارے پر چلنے کو تیار ہوں۔ ایک سادہ، غیر پیچیدہ اور فطرت سے قریب تر مذہب کو مخالف تشریحات کے اس جمعہ بازار سے اصولا کوئی سروکار ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ بھی ایسے علوم پر مبنی تفاہیم جن کا وجود نہ رسول کے دور میں تھا نہ ان کے خلفائے راشدین کے دور میں۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ ان علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے مسلسل زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔ علم کی دینی اور دنیاوی تخصیص نے ہمارے سوشل فیبرک سے لے کر ہماری عصری ترقی تک سب پر ایک جان لیوا ضرب لگائی ہے۔
برین واشنگ ہو یا شعوری ارتقاء جسے انگریزی میں کوگنیٹو ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے، کے لیے ایک کچے ذہن کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ذہن ہے جو پانچ سے بارہ تیرہ سال کی عمر تک کسی بھی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مدارس کا زور کبھی بھی اختصاصی مذہبی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام نہیں رہا۔ جامعات کا کردار اس منصوبے میں ہمیشہ ثانوی تھا۔ آج دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کم ازکم ابتدائی دس سے بارہ برس کی تعلیم ریاضی، زبان، آفاقی اخلاقیات، شہری ذمہ داریوں اور سائنس کی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ہر طالب علم کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اختصاصی شعبے میں قدم رکھے جو طب، مہندسی، کمپیوٹر یا پھر مذہب کا ہو سکتا ہے۔ مذہبی متن آفاقی اخلاقیات کا داعی نہیں ہوتا بلکہ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کا قائل اور بلحاظ اقدار کا پرچار کرتا ہے۔ مذہبی سوچ اصولی طور پر ایک اختیاری سوچ ہے جس کے انتخاب کا حق ایک بالغ ذہن کو ہی کرنا چاہیے۔ تاہم اس اصول کو ماننے کی صورت میں مذہبی مدارس کے وجود کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
مذہبی فلسفہ اور علوم بہرحال اہم ابحاث کو جنم دیتے ہیں اور طب، قانون، مہندسی یا سائنسز کی طرح اس کی اعلی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ فیکلٹیز ہونی چاہئیں تاکہ اس موضوع پر بہتر گفتگو بھی ہو سکے اور ہمیں اس حوالے سے بہتر ذہن بھی میسر آ سکیں جو روح عصر سے ہم آہنگ ہوں۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم یا ایلیمنٹری ایجوکیشن آفاقی موضوعات پر ہو، معروضی ہو اور سب کے لیے ایک جیسی ہو۔ یہ تو ہو گئی مثالی صورت حال لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ مذہبی تنظیموں اور مذہبی اکابرین کا زور ہمیشہ سے اس بات پر رہا ہے کہ مدارس ابتدائی تعلیم سے شروع ہوں گے یعنی بچے کا فطری رجحان لایعنی ہے اور یہ فیصلہ کچی عمر میں ہی ہو جانا ہے کہ اس نے عالم دین ہی بننا ہے۔ نصاب کے حوالے سے اگر ہم اپنے سکولوں اور مدارس کو ایک ٹوکری میں بھی رکھ لیں تو ان سے نکلنے والے بچے جاپان، سنگاپور یا ناروے کے بچے کے مقابلے میں انتہائی کمتر صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ اس کی وجہ ضیاء صاحب کے دور میں کی گئی بے دریغ اسلامائزیشن ہے جس میں اخلاقیات کی جگہ اسلامیات، علاقائی زبانوں کی جگہ عربی اور خالص سائنس کے بجائے اسلامی سائنس رکھ دی گئی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی ایک عام سکول کا بچہ کسی حد تک عصری علوم کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہ انتخاب رکھتا ہے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنی زندگی اور اپنے پیشے یا اعلی تعلیمی ڈگری کا انتخاب کر سکے۔ یہ انتخاب ایک مدرسے کے بچے کے پاس نہیں ہوتا اور اس سے بڑی محرومی ممکن نہیں۔
ہمارے یہاں خلط مبحث کے لیے مدارس کا موازنہ اعلی تعلیم کے لیے مخصوص جامعات سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر ایک مذہبی جامعہ کا موازنہ ایک یونیورسٹی سے کیا جائے لیکن مدارس کا موازنہ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے موضوع پر لوٹتے ہیں جو کہ مدارس میں ہونے والا جنسی استحصال ہے اور اس استحصال کی بنیاد میں کارفرما چار اہم عوامل کا ایک مختصر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس میں سب سے بڑا کردار اس معلم کا ہے جو بچوں کو پڑھاتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو بالعموم اور مونٹیسوری میں بلا استثناء خواتین اساتذہ کو پڑھانے کی لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے قربت، محبت اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس معاملے میں صدیوں کی فہم یہ طے کر چکی ہے کہ عورت مرد سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ اس پر جنسی حوالے سے کہیں زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ہم کسی بھی عام گھر میں خواتین کے بچوں کو چھونے پر عام حالات میں معترض نہیں ہوتے لیکن مردوں کو یہ اجازت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں والے گھر میں اگر ملازم رکھنا ہو تو بھی ایک خاتون کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیم میں بھی یہی روایت مناسب سمجھی جاتی ہے۔ عصری تعلیم کے ابتدائی اداروں میں نوے فی صد خواتین اساتذہ ہیں جبکہ مدارس میں یہی تناسب بالکل الٹ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم معاشرتی، عمرانی اور نفسیاتی تحقیق کے بالکل برعکس بچوں کو ایسے معلمین کے سپرد کر دیتے ہیں جو ان کو درکار محبت اور شفقت مہیا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور جنسی حوالے سے بھی وہ ایک محفوظ اور بااعتماد انتخاب نہیں ہیں۔
مدارس اور عام سکولوں میں دوسرا فرق مخلوط تعلیم سے گریز ہے۔ ہماری عمومی سوچ کے برعکس جنسی گھٹن کا ایک بڑا سبب مرد اور عورت کو ایک معاشرے میں برابر اظہار اور رسائی کے مواقع نہ دینا ہے۔ چھوٹے بچوں کی شعوری تربیت میں مخلوط طرز تعلیم کی وجہ سے صنفی امتیاز میں کمی ہوتی ہے۔ جنس ایک چبھتا ہوا سوال نہیں رہ جاتا۔ عورت سے تعارف محض فحش جنسی لطیفوں کے ذریعے نہیں ہوتا۔ ورنہ مردوں کے لیے عورت محض ایک خواہش اور ہوس بن جاتی ہے۔ وہ عورت کو اپنے جیسا ایک انسان نہیں سمجھ پاتے ۔ اسے عام نظر سے دیکھنا بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ مرد اور عورت کے بیچ گھر کی حرمت کے باہر سوائے جنسی رشتے کے کوئی اور رشتہ ممکن نہیں رہ جاتا۔ جنس کو ایک شجر ممنوعہ اور گناہ بنانے سے اس کی کشش میں اضافہ ہوتا ہے ، کمی نہیں ہوتی۔ کیا وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے لے کر سب سے زیادہ بکنے والے کالم نگار عورت کے بارے میں صرف جنسی زاویہ آواز لگا کر بیچتے ہیں۔ معلمین بھی اسی چھلنی سے گزر کر اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں جہاں انہوں نے محض جنسی گھٹن کی تربیت پائی ہوتی ہے۔ اسی تربیت کا شاخسانہ اور خمیازہ کبھی ان کے زیر تسلط مدرسے کے بچے بھگتتے ہیں ، کبھی بچیاں بھگتتی ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے عام سکول بھی غیر مخلوط ہیں اور اس میں یورپ کی قدیم روایتوں کے امین کچھ سکول بھی شامل ہیں۔ میں ان کو بھی درست خیال نہیں کرتا۔ پدر سری معاشروں کی سب روایات نے ابھی انتہائی ترقی یافتہ معاشروں میں بھی دم نہیں توڑا۔ جو غلط ہے، وہ ہر جگہ غلط ہے۔ تاہم جہاں سارے مدارس غیر مخلوط ہیں وہاں سکولوں میں یہ تعداد بمشکل دس فی صد ہے اس لیے مسئلے کی سنگینی بھی مدارس کے لیے کئی گنا ہے۔ غیر مخلوط اداروں میں جنس کی غیر متوازن نفسیاتی تربیت کا نتیجہ بھی اغلام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ مدارس کا رہائشی ہونا ہے۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی طرز تعلیم میں ، خواہ وہ عصری ادارے ہوں یا مدارس، ابتدائی درجوں کے بچوں بلکہ ثانوی درجوں میں بھی بورڈنگ سکول کا حامی نہیں ہوں۔ بچوں کو عاقل اور بالغ ہونے سے پہلے ایسے منتظمین کو کلی طور پر دن رات کے لیے سونپ دینا جن سے ان کے رشتے کی کوئی حرمت ہو نہ ان سے محبت اور شفقت کا کوئی تعلق ہو، صرف ظلم ہی نہیں، جرم بھی ہے۔ مدارس میں جنسی استحصال کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کا تدارک اس لیے ممکن نہیں کہ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت وہ ہے جسے والدین مذہبی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی مدرسے میں چھوڑنے پر راضی ہوتے ہیں کہ سر پر چھت اور پیٹ میں روٹی کا خرچ انہیں بچ جاتا ہے۔ اگر آج مدارس کو ڈے سکول میں بدل دیا جائے تو جنسی زیادتی کے واقعات بہت کم رہ جائیں گے۔
تاہم ان سب عوامل سے زیادہ چوتھا اہم ترین محرک وہ نفسیاتی کجی ہے جو ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ میں اس کو مدارس سے مخصوص نہیں کر رہا لیکن اس کا سب سے اثرانگیز مظہر مدارس میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے تو کیا کیجیے۔ عصری تعلیم کے ادارے اخلاقی تعمیر و تطہیر کے دعوے پر استوار نہیں ہیں۔ ایک سپیس سائنسز کی ڈگری میں خلا بازی سکھائی جاتی ہے اور اس کا معلم بھی خلابازی کا ہی ماہر ہوتا ہے۔ طب سے لے کر آثار قدیمہ کی پڑھائی تک، ہر جگہ یہی معاملہ ہے۔ تاہم مدارس مذہب کو اخلاق کی اساس سمجھتے ہوئے یہ دعوی رکھتے ہیں کہ مدارس کی تعلیم بہترین اخلاقی وجود اور برتر اسوہ تشکیل دیتی ہے۔ یہ کہنے کے بعد وہ قبائلی معاشرت، رجعت پسندی اور ناقابل عمل اور ناقابل قبول اخلاقی قدروں پر اپنے نصاب اور تعلیم کے ذریعے مصر رہتے ہیں۔ ایسے کسی دعوے کی نظیر کسی عصری ادارے میں نہیں ملتی۔ عصری اداروں کے معلم انبیاء کے وارث نہیں ٹھہرائے جاتے۔ ان کو کوئی پاکیزگی اور تقدس کا لبادہ نہیں اوڑھاتا لیکن اس کے باوجود ان کے لیے معیار اس قدر سخت ہے کہ صرف سوشل میڈیا پر جنسی ہراسانی کے الزام میں ایک جامعہ کا استاد آٹھ سال کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اس کی پوری برادری میں سے کوئی ایک اس کی تاویل نہیں دیتا۔ دوسری طرف مدارس کا مقدمہ تاویل در تاویل اور عذر در عذر پر کھنچتا چلا جاتا ہے۔ مدارس میں موجود اخلاقی گراوٹ کو انفرادی معاملہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مدارس اسی اخلاق کی لاٹھی ٹیکے ہی تو کھڑے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو تو ان کے وجود کی آخری دلیل بھی دم توڑ دے۔ مذہبی تعلیم میں اخلاقی جرائم اتنے عام ہو چکے کہ اب انہیں شاید کوئی جرم سمجھتا ہی نہیں ، رہا ان کے گناہ ہونے کا سوال تو وہی تعلیم یہ بھی بتاتی ہے کہ شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو جائے گا خواہ ریپ ہی کیوں نہ ہو۔ نہیں تو وظائف اور عبادات کے راستے توبہ کا در ہمیشہ کھلا ہی رہتا ہے۔ لیجیے کوتوال کا ڈر پہلے ہی نہیں تھا، خوف خدا کا بھی علاج کر لیا گیا۔ اب کوئی کیا اس پر بحث کرے۔ رہی عوامی جواب دہی کا خوف تو وہ شاید ہے اسی لیے جہاں ہر سکول میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی موجود ہیں اور ہر کوئی موبائل بھی لیے پھرتا ہے وہاں یہی دونوں اشیاء اکثر مدارس میں شجر ممنوعہ نہ ہوتیں۔
پیو کا سروے آپ کے سامنے ہے۔ ایک کے بعد ایک مثال روز اخبار میں لپٹی چلی آتی ہے۔ ہم یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ خرابی کی جڑ مدارس کے نظام، نصاب اور فکر میں پوشیدہ ہے۔ کہانی کہیں اور بگڑی ہے، ہم سرا کہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم جنس پرستی کو گناہ کہنے والے سدومیت کے بغیر ایک دن نہیں گزار پاتے۔ عورتوں کی عزت کے دعوے کرنے والے بینگن اور بستر کی مثالیں منبر پر دیتے ہیں۔ مخلوط سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تہذیب نفس کا ماتم کرنے والے صبح شام اغلام کے عادی نکلتے ہیں۔ جنسی رویوں کی تشریح اب سائنس اور نفسیات سے ہوتی ہے۔ اس کی تفہیم بلکہ قانون سازی تک مذہب سے کرنے پر بضد رہیں گے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو نکل رہا ہے۔
ایک مہذب اور باشعور معاشرے میں مدارس جیسے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اختصاصی ادارے صرف بگاڑ ، محرومی اور استحصال کے کارخانے ہیں۔ مذہب کی تعلیم اعلی تعلیمی اداروں کا مضمون ہے اور وہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ یہ حقیقت ہم جتنی جلدی سمجھ لیں، اتنا اچھا ہے۔ کتنی نسلیں برباد ہو چکی ہیں۔ اپنی اگلی نسل کو تو بچا لیجیے۔
47 notes · View notes
urduu · 3 years
Text
دل پہ اب الہام اترتے ہیں عذابوں کی طرح
ہیں سروں پر کیسے کیسے آسماں ٹھہرے ہوے
22 notes · View notes