Tumgik
#کررہے
paknewsasia · 2 years
Text
''وفاق کو شہباز شریف اور پنجاب کو حمزہ شہباز معاشی طور پر تباہی سے دو چار کررہے ہیں''
”وفاق کو شہباز شریف اور پنجاب کو حمزہ شہباز معاشی طور پر تباہی سے دو چار کررہے ہیں”
چوہدری پرویز الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ وفاق کو شہباز شریف اور پنجاب کو بیٹا حمزہ شہباز معاشی طور پر تباہی سے دو چار کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی سے تحریک انصاف کے ارکان پنجاب اسمبلی اور سابق وزراء کی ملاقات ہوئی، سابق صوبائی وزراء میں سردار آصف نکئی، محمد اخلاق ، سردار وسیم خان بادوزئی شامل تھے۔ ملاقات میں سیاسی ، معاشی صورتحال اور عوامی مشکلات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
جوفرا آرچر: انگلینڈ کے کوچ میتھیو موٹس ایشز اور ورلڈ کپ سال میں 'باکس آفس' کے ساتھ صبر کی تلقین کررہے ہیں
click here
1 note · View note
amiasfitaccw · 29 days
Text
داماد کی خواہش
شازیہ میرے سامنے بیٹھی تھی. اور میں پریشانی کے عالم میں اسکی شکل تک رہی تھی. میری بچی کی آنکھوں میں آنسو تھے. اور میں جانتی تھی کہ اسکا دل بہت چھوٹا سا ہے
زرا سی کوئی اونچ نیچ ہو اور اسکا دل ہول جاتا تھا.
اور آج وہ جس مصیبت سے دوچار ہوئی تھی. تو اس پر تو بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں. میری اکلوتی بیٹی تو میرے پاس بڑے ناز ونعم میں پلی تھی.
شازیہ کی شادی کو تین ہی مہینے ہوئے تھے. وسیم کا رشتہ شازیہ کیلیے آیا. اور میں نے جب وسیم کو دیکھا. تو وسیم مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگیا. باقی دیکھ پرکھ میرے میاں اور دیوروں نے کرلی تھی. اور وہ بھی ہر طرح سے مطمئن تھے. اور یوں صرف تین ماہ کے عرصے میں ہی شازیہ کی شادی وسیم سے کردی گئی.
شادی کے دن شروع شروع کے تو بہت ہی پیار سے گزررہے تھے
بچی میکے آتی. تو اسکے چہرے پر جیسے قوس قزح بکھری ہوتی. خوشی اور مسرت اسکے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی ہوتی تھی.
لیکن........ آہستہ آہستہ وسیم کے روئیے میں تبدیلی آتی گئی.
اور اسکا رویہ شازیہ سے سرد ہوتا گیا. پہلے پہل تو میں نے اسکو کوئی اہمیت نہ دی. لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا تھا.
میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی تھی.
سو میں نے وسیم سے بات کرنیکا فیصلہ کرلیا.
اور آج دوپہر کو میں نے وسیم کو گھر بلوایا تھا. کیونکہ بوقت دوپیر میرے میاں جوکہ بیمار رہتے ہیں. سورہے ہوتے ہیں. اور میرے دونوں بیٹے رضوان اور عمران اپنے اپنے آفسز میں ہوتے ہیں .
اور تقریبا تین بجے دروازے کی بیل بجی. میں وسیم کو ڈرائینگ روم میں لے آئی. اسکو بٹھایا اور اسکے لیے کچھ ناشتے کا سامان میز پر سجادیا. وسیم کیا بات ہے.؟ تمہارا رویہ شازیہ سے کچھ سرد ہے . کیا کوئی بات ہوئی ہے.؟ میں نے اسکے بلکل قریب ہوکر رازداری سے دریافت کیا. اور اسکے ج��اب میں وسیم نے جو کچھ کہا. مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا. میں حیرت اور تعجب کے مارے ہونقوں کی طرح اس کی شکل تک رہی تھی. وسیم کہہ رہا تھا کہ بات یہ ہے میں نے یہ شادی صرف اور صرف آپکی وجہ سے کی ہے. کیونکہ مجھے تو آپ اچھی لگی تھیں. ظاہر ہے کہ میں تو وسیم سے شادی کر نہیں سکتی تھی. میرے میاں موجود تھے . اور میرے تو بچے جوان تھے. یعنی .......مجھ تک پہنچنے کیلیے میری بیٹی کو چارہ بنایا گیا تھا. میں آپکو پانا چاہتا ہوں عشرت بیگم. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وسیم کے مسکراتے ہوئے کہے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے. اور میں گم سم بیٹھی تھی. کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ نکلے. وسیم......یہ کیسے ممکن ہے.؟ میں تمہاری ساس ہوں. تمہاری بیوی کی ماں ہوں میں.......میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا.
Tumblr media
جانتا ہوں آپ میری ساس ہیں. لیکن آپ ایک عورت بھی ہیں اور میری طلب ہر رشتے ناطے سے آزاد ہے. اور میں نے آپکو صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں نے یہ شادی ہی صرف آپکو حاصل کرنے کیلیے کی ہے.
وسیم نے میرا ہاتھ تھام کر کہا. اور اسکے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرلیا. سرعت کے ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے پیوست کرلیے.
بری بات.......وسیم یہ کیا کررہے ہو......؟
میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے.
اگر آپ مجھے نہ ملیں. تو یاد رکھئے گا. کہ میرا اور شازیہ کا تعلق ایسا ہی نام کا رہیگا.....بس.....!
اور گویا اس نے دوٹوک الفاظ دھمکی دیدی.
وسیم.......بات کو سمجھنے کی کوشش کرو.......میری گھگھی بندھ گئی تھی. مجھے اندازہ ہورہا تھا. کہ اگر داماد کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو بیٹی کو طلاق بھی ہوسکتی ہے.
مجھ کو جو بتانا تھا میں نے آپکو بتادیا آگے آپکی مرضی.
اور اتنا کہکر وہ اٹھا. اور بےنیازی سے چلا گیا.
اور میں سوچوں کے سمندر میں گھری رہ گئی تھی. ایک طرف داماد کی خواہش تھی. اسمیں جتنی شدت میں دیکھ چکی تھی. اسکے بعد کچھ پوچھنا گچھنا بیکار ہی تھا. دوسری طرف بیٹی تھی. اگر وسیم کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو اسکا گھر برباد ہونا یقینی تھا.
میں ایک خوبصورت اور جاذب نظر عورت تھی. شوہر بیمار رہتے تھے. اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنسی زندگی میں ایک مرد کی کمی شدت سے محسوس کرتی تھی. میرا بھی دل تھا. جو چاہتا تھا. کہ مجھے کوئی خوب شدت سے چودے.
اور میری قسمت .....کہ یہ مرد میرے سامنے آچکا تھا.
لیکن......کس روپ میں سامنے آیا تھا..........داماد کے........؟
میں شش و پنج میں تھی. بات ایسی تھی. کہ کسی سے مشورہ بھی نہیں کرسکتی تھی. کوئی سنتا تو کیا کہتا.....؟
لہذا....یہ فیصلہ مجھے ہی کرنا تھا. اور بالاآخر میں نے بیٹی کا گھر بچانے کا فیصلہ کرلیا.
وسیم......مجھے اپنی بچی کا گھر بچانے کیلیے تمہاری یہ شرط منظور ہے. لیکن مجھے اس بات کی ضمانت دو . کہ تمہارا رویہ شازیہ کیساتھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا.........؟؟؟
جی بلکل....آپ اسکی فکر نہ کریں....جب وجہ ہی نہیں رہیگی سردمہری کی تو موڈ تو اپنے آپ ہی اپنے آپ صحیح ہونا ہی ہے نہ.....!
وہ اپنی فتح پر مسکرا رہا تھا.....اور میں گم سم تھی.
لیکن.......میری ایک شرط ہے وسیم......��س بار میں نے دل کڑا کر کہا.
جی کہیے.....اس کی آواز گونجی.
وسیم تمکو جو کرنا ہے کرلو....میں وہ سب کچھ کروائونگی جو تم چاہتے ہو.......لیکن صرف ایک بار......تمہاری خواہش پوری کرنے کی خاطر.....اپنی بیٹی کی خاطر......بس....دیکھو میں تمہاری بات رکھ رہی ہوں نہ.....اب تم بھی میری بات یہ بات مانو.........!
اور اتنا ہی کہ کر رسیور فون پر رکھ کر میں صوفے کی پشت پر سر ٹکا آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئ. آنسو میری آنکھوں میں ڈبڈبانے لگے.......!
Tumblr media
دو دن گزر چکے تھے...... مجھ کو وسیم سے حامی بھرے ہوئے.
اور میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ جو کام کرنا ہے..وہ تو کرنا ہی ہے......سو داماد سے دریافت کیا جائے. کہ وہ کب اپنی ساس کو نوش فرمانا پسند کرینگے,,,؟
وسیم کو فون لگا چکی تھی میں....تیسری بیل پر اس نے فون ریسیو کیا.
جی جناب.......کہئیے.....اس کی شوخ آواز ابھری.
وسیم میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہاری خواہش پوری کردی جائے......میں چاہتی ہوں تم مجھکو بتادو . کب اور کہاں.....؟
میں نے صاف اور سپاٹ لب و لہجے میں کہا.
آپ دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں نہ..... آپ یہ کریں گھر آجائیں میرے پاس....ٹھیک ہے...؟.....وہ خوش خوش بولے.
لیکن گھر میں شازیہ موجود ہوگی. اسکی موجودگی میں یہ سب کروگے میرے ساتھ.....میں نے جل کر کہا.
جی نہیں......بات یہ ہے. کہ شازیہ کل گیارہ بجے ہی پڑوس والوں کے ساتھ فارم ہاؤس جارہی ہیں. اور میں گھر پر بلکل اکیلا ہی ہونگا....!
اس نے پوری بات بتائی.
اوہ.......اچھا ٹھیک ہے. شازیہ کے نکلتے ہی مجھے کال کرکے بتادینا.....میں تمہارے پاس پہنچ جاؤنگی.
اور اتنا کہہ کر میں نے فون بند کردیا.
اور دوسرے دن دوپہر کے وقت میں تیار تھی. نہا کر کپڑے بدل کر میں ہلکا سا میک اپ کرکے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی. میں بلکل ٹھیک نظر آرہی تھی.ظاہر ہے کہ میں جو کام کرنے کیلیے جارہی تھی. وہ غلط تھا. مگر میں مجبور تھی. اگر اجاڑ ویران حالت میں جاتی تو شائد وسیم آپے سے باہر ہی نہ ہوجاتا.
اور آدھے گھنٹے بعد ہی میں وسیم کے سامنے تھی.
بیٹی پڑوس کے لوگوں کیساتھ پکنک پر جاچکی تھی. اور ساتھ ہی وسیم بھی نہا دھو کر تیار تھا. وہ مجھ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہی لیکر آگیا. میں اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی تھی.
وسیم میرے لیے سوفٹ ڈرنک لے آیا. جو میں نے اس سے لیکر فورا ہی اپنے لبوں سے لگالیا اور گلاس خالی کردیا.
اب میں بہت بہتر محسوس کررہی تھی. میں نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھا. کہ وہ کیا چاہتے ہیں.؟
اور غالبا وہ میرا مطلب جان گیا تھا. یہی وجہ ہے کہ وہ میرے پاس ہی نیم دراز تھا. اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنے سے چپکالیا. اور اس کے لب میرے لبوں سے پیوست ہوگئے. اب وہ میری زبان کو اپنے لبوں سے چوس رہا تھا.
وسیم......تم کو میری بات یاد ہے نہ....میں نے ایک لمحے کیلیے اس کو روک کر کہا.
جی.....مجھے آپکی شرط اور اپنا وعدہ یاد ہے...انھوں نے فورا ہی جوابا کہا.....اور فورا ہی اس نے پھر میری زبان کو چوسنا لگا.
Tumblr media
اور اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر حرکت میں آگئے.
انھوں نے میری قمیض اوہر کرنی شروع کی. میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے اپنی قمیض اتروانے میں اس کی مدد کی......اور دوسرے ہی لمحے میری قمیض اتر کر فرش پر گر چکی تھی.......اب اس کا ہاتھ میری شلوار پر تھا.
انھوں نے ایک ہی جھٹکے میں میرا ازاربند کھینچا. اور میری شلوار بھی کھولدی.
اور یوں اب میں صرف ایک Bra میں رہ گئی تھی.
کالے رنگ کا نیٹ کا Braجس میں سے میرے ممے صاف نظر آرہے تھے....... وسیم مجھے ننگا دیکھکر بہت ہی جذباتی ہورہا تھا. یہی وجہ ہے کہ اس نے فورا ہی اپنے کپڑے بھی اتار پھینکے. اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میرے بدن کو اپنے بازووں میں جکڑا. اور میرے ہونٹوں اور گالوں کو دیوانہ وار چوسنے اور چاٹنے لگا. اور مجھے ایسا لگنے لگا. کہ جیسے پیاسی زمین پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ کرکے گررہے ہوں.
اس کی زبان اور ہونٹ بہت ہی گرم ہورہے تھے. ہونٹوں سے سانس اگ کیطرح نکل رہی تھی. اور میں بستر پر بلکل چت لیٹی یہ سب کروارہی تھی.
اوووووہ.........اوووووف........اوووووووف.
میں اپنے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کررہی تھی.
یہ جتانا چاہ رہی تھی. کہ یہ سب میں مجبورا کررہی ہوں.
وسیم کے ہاتھ میرے بدن کو سہلارہا تھا. ہونٹ میرے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہا تھا. وہ مجھ سے لپٹے ہوئے تھے. اس طرح کہ جیسے وہ میرے اندر اتر چکے ہوں.
اور میری اپنی یہ کیفیت ہورہی تھی. کہ میرے اندر کی عورت اس پہلے ہی مرحلے پر مستی بھری انگڑائیاں لینے لگی تھی. دل پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ عشرت بیگم مزے کرلو. جو کام کرنا ہی کرنا ہے. تو پھر اس کو بھرپور مزے لیکر کیا جائے تو کیا حرج ہے.؟
میں گو مگوں کی کیفیت میں وسیم کے نیچے تھی.
اور اب وسیم نیچے ہوتے ہوتے میرے گلے کو چومنے لگا تھا.
اوووف......گلے کو چومنے اور چوسنے میں مزہ ہونٹوں کو چوسنے سے بھی زیادہ مل رہا تھا.
میں بے اختیار ہی سسک پڑی........ہااااااااااااہ............!
اور میں نے اپنے ہاتھ پھیلا لئے. اور مجھ کو محسوس ہونے لگا. کہ میں کسی بھی وقت یہ سب خوشی سے کرواسکتی ہوں.
وسیم چند ہی لمحوں میں گلے سے ہوتے ہوتے مزید نیچے آرہا تھا. اب وہ Bra اتار کر میرے مموں کو چوس رہا تھا. وہ کبھی ایک دودھ اپنے منھ میں لیکر اس کو چوستا اور دوسرے والے کو اپنی انگلیوں سے دباتا. تو کبھی دوسرے والے کو چوستا
اور پہلے والے کو دباتا.........!
اور ادھر میری حالت غیر ہورہی تھی......!
Tumblr media
جسم چوسے اور چاٹے جانے سے گرم ہوچکا تھا. دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی. انگ انگ میں میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہورہی تھیں. مجھ کو لگ رہا تھا. کہ وسیم کا لورا میری چوت میں گھسنے سے پہلے ہی میں اپنی شرم کو بالائے طاق رکھکر وسیم کو اپنے سے لپٹا کر اس کا برابر کا ساتھ دینے لگوں گی.
میں ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت تھی. تین بچوں کی ماں تھی. لیکن میرے میاں نے مجھ کو بلکل واجبی انداز میں ہی چودا تھا. اور آج میں جس طرح چدوانے کے عمل سے گزر رہی تھی. اسطرح کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا......!
اور اب وہ میری چھاتیاں خوب چوس چوس کر میرے پیٹ پر گہرےگہرے بوسے لے رہا تھا. اور اس کے بوسے لینے سے مجھے اپنا پیٹ لرزتا ہوا محسوس ہورہا تھا.
میں "ہاں. اور. ناں " کی اضطرابی کیفیت میں الجھی ہوئی تھی.
اور جب وہ پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میری چؤت پر آیا اور میری ٹانگیں چیریں. اور اپنے ہونٹ چؤت پر گاڑ کر اس کو چوسنے لگا......وہ کبھی چؤت کو اوپر سے چوستا تو کبھی اس کے اندر زبان ڈال کر اسکا اندرونی حصہ چاٹنے لگتا.
اور مجھ کو اب احساس ہورہا تھا. کہ میرے ضبط کا بندھن اب ٹوٹا ........اور جب ٹوٹا..........کیونکہ مجھے اچانک ہی احساس ہوا کہ میری چؤت نے لذت اور جوش میں آن کر اپنے اندر سے پانی چھوڑنا شروع کردیا ہے. جو اس بات کی دلیل تھی. کہ یہ بھرپور چؤدائی چاہتی ہے. ہر رشتہ ناطہ کو بالائے طاق رکھکر...........!
وسیم میری ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے میری چؤت پر جھکا ہوا اس کو اپنی زبان سے گرم دہکتا ہوا انگارہ بنارہا تھا. میرے بدن پر لرزہ طاری تھا.
اور پھر بالاآخر..........میں نے بھی اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک فیصلہ لیلیا.
میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے وسیم کے سر کو پکڑا. اور مزے کے مارے اس کے سر کو اپنی چؤت کے اور اندر کرنے کی کوشش کرنے لگی....اور ساتھ ہی میرے ہونٹوں سے پرکیف آہیں نکلنے لگیں. اور وہ بھی ایسی کہ کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا. اور میں نے وسیم سے اپنے رشتے ناطے کا لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنا آپ اس کے حوالے کردیا.
وسیم......وسیم........اوووہ جانوں .....یہ کیا کررہے ہو تم...
میری جان میں تو ساس ہوں تمہاری.........یہ کیا کردیا تم نے مجھے.....میرا دم نکال دیا تم نے تو مزے کے مارے..........
اور دوسری طرف وسیم میری غیر متوقع رضامندی اور اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمارہا تھا.
وہ دوزانو ہوکر بیٹھا. میرے بھاری چوتڑوں کو اوپر اٹھایا. اور اپنی گرفت میں میری کمر کو لے کر زبان پھر سے میری چؤت میں گھسائی اور اس کو چاٹنے لگا.
میرا دھڑ بستر پر لگا ہوا تھا. اور ٹانگیں فضاء میں معلق اور ٹانگوں کے درمیان میں اس نے اپنا سر پھنسایا ہوا. اور دیوانہ وار میری چؤت کو چوس چوس کر پاگل کررہا تھا.
میں جو کچھ دیر پہلے یہ سوچ کر وسیم کے نیچے لیٹی تھی.
کہ اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کرونگی. کہ میں مجبور ہوکر یہ سب کروارہی ہوں. اب مزے میں ڈوب چکی تھی. بند آنکھوں میں لطف کے رنگ اتررہے تھے. اور لبوں سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھیں . چہرے پر ماتمی تاثرات کی جگہ شرمیلی سی مسکراہٹ نے لے لی تھی. کہ اب داماد جی میری چوت میں اپنا تنا لؤڑا چڑھائیں گے تو کتنا مزہ آئیگا.
میں یہ سوچکر ہی شرمائے جارہی تھی.
Tumblr media
میری چوت کو چوس چوس کر بھرپور طریقے سے وسیم نے اسکو گرم بھی کیا. گیلا بھی کیا. وہ اس قابل ہوگئی تھی. کہ باآسانی لؤڑا اپنے اندر سمو سکے.
وسیم نے میری چؤت چسائی روکی . اور میرے چہرے کے پاس آن کر اپنا لؤڑا میرے سامنے کردیا.
وسیم چودو نہ آپ مجھے...میں نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا.
پہلے آپ کو میرا لؤڑا چوسنا ہوگا.....اس نے خمار آلود لہجے میں کہا.
وسیم.....نہیں نہ.......میں نے تمہارے سسر کا بھی کبھی نہیں چوسا.......میں نے انھیں دھیرے سے سمجھایا.
تو داماد کا چوس لیں.....کیا آپ کو میرے ساتھ مزہ نہیں آرہا.
اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا تھا. کہ میں انکار نہ کرسکی. میں نے اپنے لبوں کو کھول لیا.اور اس نے اپنا لؤڑا میرے منھ میں داخل کردیا.
میں زندگ�� میں پہلی بار لؤڑا چوس رہی تھی. لیکن پہلی ہی بار میں مجھے لؤڑا چوسنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا. میں بلکل لولی پوپ کی طرح اس کو چوس رہی تھی.
دھیرے دھیرے میرے ہونٹ اس کو اپنے منھ میں اوپر نیچے کررہے تھے. اس کو چوس کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا. کہ پورے بدن میں سب سے زیادہ چکنی جلد لؤڑے کی ہی ہوتی ہے. .......میری پوری کوشش تھی کہ صرف میرے ہونٹ ہی لؤڑے کو چھوتے رہیں. میرے دانت ہرگز اس پر نہ لگیں. ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی رگڑ لگنے سے اس کو خراش وغیرہ نہ آجائے.
وسیم بہت ہی خوش لگ رہا تھا . وہ میرے لؤڑا چوسنے سے آہیں بھررہا تھا. جو بہت ہی پرکیف اور لذت بھری تھیں. اس کی ان آہوں اور پیار بھری سسکیوں سے مجھے حوصلہ مل رہا تھا. ہاں یہ ضرور تھا کہ لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے مجھ کو اپنا منھ بلکل پورا کھولنا پڑ رہا تھا. لیکن اب میں بھی ڈٹ چکی تھی.
کیونکہ وسیم جب اپنا لؤڑا میرے منھ سے نکالنے لگے. تو میں نے انکو روک دیا.
اور پھر میں اسکو پورا ہی اپنے منھ میں سمونے کی کوشش کرنے لگی. میں نے زور لگا کر لؤڑے کو اندر اور اندر لیا. اور آہستہ آہستہ لؤڑا میرے حلق کے اندر تک آگیا.
میں وہیں رک گئی. اور اپنے منھ سے باہر کیطرف سانس خارج کرنے لگی. اور نتیجہ ہی ہوا. کہ اس عمل سے وسیم کے لؤڑے کو گرمائی ملنے لگی. وہ مزے کے مارے بہکنے لگا.
اووووووہ... ممی...ممی.....یہ کیا کررہیں ہیں آپ... ممی میں تو یہیں پر ہی خالی ہوجاؤنگا.
وہ مزے کے مارے بول پڑا تھا.
اس کی یہ بات سنکر میں نے اس کے لؤڑے کو چھوڑ دیا.
وسیم .....چلو چؤدو مجھے.....میں نے اس کو گرین سگنل دیدیا
اور وسیم میرے اوپر لیٹا. اپنا لؤڑا میری چؤت پر رکھا. اور ساتھ ہی زور کا دھکا مارا.
حالانکہ میری چؤت چوسنے کی وجہ سے بلکل گیلی تھی.
لؤڑا اس میں ایک دم پھسلتا ہوا گیا تھا. مگر دھکا تو پھر دھکا ہی تھا. وہ پھر بھی اسقدر تگڑا محسوس ہوا تھا مجھکو. کہ لؤڑا اندر لینے کے نتیجے میں میری چوت لرز کر رہ گئی.
میں زور کی آہ بھر کر رہ گئی.
Tumblr media
وسیم .......پلیز.....رسانی سے زرا....پلیز.....میں نے اس کو سمجھایا.
فکر نہ کریں...... چؤدائی مزے اور لذت کا نام ہے. آپ کو صرف مزہ ملے گا......اور اس کی بات سن کر میں بے فکر ہوگئی.
اب اس نے اپنا لؤڑا ہولے ہولے آگے پیچھے چلانا شروع کیا .
اور میں مزے میں ڈولنے لگی. لؤڑا اندر سے میری چؤت کو رگڑ رہا تھا. لگ رہا تھا جیسے چؤت اندر سے حرارت خارج کررہی ہے. دھواں چھوڑ رہی ہے. میرے چہرے پر مسکراہٹ آچکی تھی. جو اس بات کا کھلا اظہار تھی. کہ میں اپنے داماد کی ممنون و مشکور تھی.
میں داماد کے نیچے لیٹی چدوارہی تھی.وہ پورے پیار کیساتھ اپنا لؤڑا میری چؤت میں دھکم دھکا چلا رہا تھا.
میں اس کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے تھی.
وسیم.....ڈارلنگ کیا شازیہ کو بھی ایسے ہی چودتے ہو.
میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی.
جی نہیں.....آپکو دیکھ کر یہ سب کرنے کا دل چاہتا ہے. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئ کشش محسوس نہیں ہوتی.
اس نے صاف الفاظ میں کہا.
اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے دھکے لگانے کی رفتار تیز کردی.
مجھ کو لگا کہ کوئی لوہے کا گرم گرم ڈنڈا میری چؤت میں اوپر نیچے کسی پسٹن پمپ کی طرح آنا جانا کررہا ہو.
میں نے مضبوطی سے وسیم کی کمر میں بانہیں ڈال دیں تھیں. لؤڑا میری چوت کی آخری حد تک جاکر ٹکرا ریا تھا. جس سے مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا. لیکن مجھے اسقدر لطف اور مزہ مل رہا تھا. کہ اس کے آگے اس درد کی کوئی اوقات نہیں تھی.
وسیم چؤد رہا تھا ....آہیں بھر رہا تھا مزے کے مارے.
میں چدوارہی تھی. اور مزے کے مارے سسک رہی تھی.
وسیم..... وسیم......اووووہ.....اووووووووہ.......
نڈھال کردیا تم نے تو مجھے......
میں مکمل طور پر اب اس کے قابو میں آچکی تھی.
مجھے معلوم تھا....آپ جیسی خوبصورت اور گرم عورت پہلی ہی چدائی میں میری ہوجائیگی.
وہ مجھے چؤدتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہا تھا.
تم نے چؤدا بھی تو اسطرح ہے. مجھے میرے میاں نے کبھی اس طرح نہیں چؤدا.
میں بھی پوری طرح مزے میں آچکی تھی.
اور میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ اچانک ہی مجھے اپنی چؤت میں شدید قسم کی مستی بھری گدگدی محسوس ہوئی. مجھ کو احساس ہوگیا کہ میں جانے والی ہوں. مارے جوش کے میرے منھ سے زور دار چیخ نکلی.
اووووووووووو.........اوووووووووووووو.......!
میرا پورا جسم اکڑ گیا . میں نے وسیم کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا. میرا ہورا بدن بری طرح لرزا ....اور
ساتھ ہی میری چؤت نے اپنے اندر سے لیس دار پانی باہر نکال دیا.
اور فورا ہی میں بے دم ہوکر بستر پر ڈھیلی پڑگئ.
لیکن وسیم مجھے برابر کے دھکے مار رہا تھا.
میں اپنے خالی ہونے سے پہلے جس طرح اس کا جم کے ساتھ دے رہی تھی. اب مجھے اس کا چؤدنا بوجھ لگ رہا تھا.
لگ رہا تھا کہ میرے ہوش و حواس جواب دے جائینگے.
وسیم پلیز بس ......بس کرو......بس کرو .......میں منمنائی.
آپ فارغ ہوئیں ہیں میں تو نہیں ہوا نہ....وہ مسلسل ��جھے چودے ہی جارہا تھا..
رحم کرو.......وسیم میرا دم نکل جائیگا.....اووووہ....
کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑدو...
اور ساتھ ہی میرا سانس ہانپنے لگا. اور میں بلکل ہی بے سدھ ہوگئی.
اور وسیم جو کسی طور نہیں مان رہا تھا. میری اس بات پر خوشی سے پاگل ہوگیا کہ کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑ دو.
Tumblr media
اس نے اپنا لؤڑا میری چوت سے نکالا. اورمجھے سیدھا کرکے لٹایا. اور اپنا لوڑا میرے چہرے کے عین سامنے لاکر اس کی مٹھ مارنے لگا.
اور بمشکل....ڈیڑھ دو منٹ ہی اسے رگڑا تھا کہ اس کے لؤڑے نے زور کی گرم گرم دھار منی اگل دی. جو بلکل سیدھی میرے چہرے پر آئی. میں اس کو کچھ بھی نہ کہہ پائی. کیونکہ اس کو اس محبت بھرے کھیل کا انجام یادگار بھی تو کرنا تھا.
اس کے لؤڑے نے اپنی ساری آگ میرے چہرے پر اگل دی تھی. اور وہ بھی خالی ہوکر میرے ہونٹوں سے چوم رہا تھا. اور میں آنکھیں بند کرکے سکون سے لیٹی ہوئی تھی.مجھ کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی. کہ میرا چہرہ اس کی منی سے چپک رہا ہے.
وسیم مجھ پر جھکا اس نے میرے لبوں پر ایک گہرا بوسہ لیا. اور مجھ سے بولا.
آپ میری ساس ہیں. میں نے آپکو چؤدا ہے. مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے. میں آپ کو چود کر بے انتہا خوش ہوں. اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور باتھ روم کی طرف نہانے چلدیا. جبکہ میں نے بستر پر ہی لیٹے رہنے کو ترجیح دی. شام 6 بجے تک وسیم مجھے میرے گھر وآپس لا چکا تھا. آج تیسرا دن تھا. میں گھر کے کام نمٹا کر تیار ہورہی تھی.
میں نے وسیم کو فون لگایا. جی.....اس کی شوخ چنچل آواز آئی. آجاؤ وسیم تمہاری دعوت ہے....میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی . جی میں آرہا ہوں....وہ بھی خوشی سے بولا.
میری قربانی کے نتیجے میں بیٹی خوش ہے ......! داماد بھی بہت خوش ہیں. لیکن میں سب سے زیادہ خوش ہوں. کیونکہ میری ویران زندگی میں بھی بہار آگئی ہے ۔
ختم شد
Tumblr media
9 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
Tumblr media
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔ 
Tumblr media
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ 
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی  
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
7 notes · View notes
risingpakistan · 6 months
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
faheemkhan882 · 1 year
Text
Tumblr media
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 notes · View notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
25 سال کے اندر ترقی یافتہ ملک ہونا چاہیے۔پی ایم نے 2047 کا نیا ہدف مقرر کیا. لال قلعہ کی فصیل سے گاندھی کے ساتھ ساورکرکا نام آزادی کے متوالوں میں لیا گیا
25 سال کے اندر ترقی یافتہ ملک ہونا چاہیے۔پی ایم نے 2047 کا نیا ہدف مقرر کیا. لال قلعہ کی فصیل سے گاندھی کے ساتھ ساورکرکا نام آزادی کے متوالوں میں لیا گیا
25 سال کے اندر ترقی یافتہ ملک ہونا چاہیے۔پی ایم نے 2047 کا نیا ہدف مقرر کیا. لال قلعہ کی فصیل سے گاندھی کے ساتھ ساورکرکا نام آزادی کے متوالوں میں لیا گیا     نئی دہلی:15اگسٹ( ایجنسیز/الہلال میڈیا)     ہندوستان آج آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے، وزیر اعظم نریندر مودی تقریبات کی قیادت کر رہے ہیں۔ پی ایم مودی نے قومی پرچم لہرایا ہے اور وہ مشہور لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کررہے ہیں۔ پی ایم…
Tumblr media
View On WordPress
9 notes · View notes
jhelumupdates · 7 days
Text
سولر پینل کو پائیدار رکھنا ہے تو یہ آسان طریقے جاننا ضروری ہے
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب
لاہور،فون نمبر 99201390
عظمی زبیر/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر1150
لاہور26اپریل:وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر کوکویوشییامہ(Coco Ushiyama)سے ملاقات کی-اس موقع پر پنجاب میں سٹنٹڈ بچوں میں غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے ون تھاؤزنڈ ڈے پروگرام شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا-بغیرناشتے کے سکول جانے پر مجبور 8فیصد بچوں کی سٹنٹڈ گروتھ پر قابو پانے کے لئے سکول میل پروگرام شروع کرنے کا جائزہ بھی لیا گیا-
سینئر وزیرمریم اورنگزیب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیوٹریشن فورس کاقیام وزیراعلی مریم نواز شریف کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔بہبود آبادی، صحت،صفائی،سکول ایجوکیشن اور سٹنٹڈ بچوں کی صحت کے حوالے سے دوطرفہ تعاون بارے تبادلہ خیال کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ پنجاب فوڈ باسکٹ ہے لیکن بیشتر مائیں اور بچے غذائی قلت کا شکارہیں -انہوں نے کہا کہ ڈونرز اور پارٹنرز کے باہمی اشتراک سے اس سماجی مسئلے پرقابو پایا جاسکتاہے۔
سینئر وزیر نے کہا کہ ای میکانائزیشن پروگرام،فوڈسیفٹی،کسانوں کوجدید ایگری مشینری اور آئی ٹی سے مزین کررہے ہیں۔ وزیراعلی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام کا جلدآغاز کریں گی، پہلے فیز میں 16 بڑے شہروں میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا کام ہوگا۔سینئر وزیر نے بتایا کہ وزیر اعلی مریم نواز شریف کی قیادت میں ماحولیاتی چیلنجز اورسموگ کے خاتمے کے لیے ملٹی سیکٹورل سموگ ایکشن پلان پر آئندہ ہفتے سے عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی نمائندہ نے غذائی قلت سے متعلق یونیورسٹیز میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ،ایکواکلچر فارمنگ،کاربن فنانسنگ،بڑھتی آبادی،مدراینڈ چائلڈ ہیلتھ،ماحولیاتی تبدیلی اور کسانوں کی کیپسٹی بلڈنگ میں بھرپور معاونت کی یقین دہانی کرائی۔
٭٭٭٭
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب
لاہور،فون نمبر 99201390
عظمی زبیر/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر1151
لاہور26اپریل:- حکومت پنجاب نے سموگ کے خاتمے اور ماحول کو بہتر بنانے کے لئے تحفظ ماحول کی اتھارٹی (انوائرنمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی)بنانے کا فیصلہ کیا ہے-یہ اتھارٹی ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات اور قوانین پر موثر عمل درآمد یقینی بنائے گی-
سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے آج یہاں جاری ایک بیان میں بتایا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی صدارت میں انسداد سموگ کابینہ کمیٹی تشکیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے -اس حوالے سے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں سموگ مانیٹرنگ سیکٹورل سیل بنایا گیا ہے جس میں ہرمحکمے کا نمائندہ موجود ہے - اس کے ساتھ ساتھ ماحول کی بہتری کے لئے وزیراعلی کے وژن پر عمل درآمد کے لئے لیگل فریم ورک تشکیل دینے کا کام شروع کردیا ہے-انہوں نے بتایا کہ ہر شعبے کے لحاظ سے قوانین اور ضابطوں پر عمل درآمد کے لئے ہنگامی اقدامات کا ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے -انہوں نے کہا کہ ماحول کے تحفظ کے لئے خصوصی فورس بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے-کون سا شعبہ سموگ میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے، ڈیجیٹل ڈیٹا جمع کیاجائے گا-
سینئر وزیر نے کہا کہ سموگ، زہریلے مادوں اور دھوئیں کے اخراج کے ذرائع پر کریک ڈاؤن ہوگااور حکومت صنعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے متعلق ماحولیاتی قوانین اور ضابطوں پر سختی سے عمل درآمد کرائے گی-انہوں نے واضح کیا کہ زگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی بھٹہ نہیں چلے گا،زگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغی�� چلنے والے بھٹے بندکئے جا رہے ہیں اورگاڑیوں کے لئے فٹنس سر ٹیفکیٹ لازمی قرار دیاجارہا ہے-اسی طرح زیادہ دھواں چھوڑنے اور خراب انجن والی گاڑیوں کو بند کیاجائے گا- اس کے ساتھ ساتھ خراب انجن والی گاڑیوں کی مانیٹرنگ اور سرٹیفکیشن کا نظام بھی لایا جا رہا ہے اورزہریلے دھوئیں پر کنٹرول کے لئے تمام صنعتوں کو ’ایمشن کنٹرول سسٹمز‘ لگانے کا پابند کرنے کا نظام تیار کر لیا گیا ہے-
٭٭٭٭
0 notes
airnews-arngbad · 1 month
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 09 April-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  ۹؍  اپریل  ۲۰۲۴ء؁
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭              لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں ریاست کے 204امیدوار،ہنگولی 33،ناندیڑ23جبکہ پربھنی میں34امیدوارانتخابی میدان میں۔
                ٭              وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کاسیاسی طورپراستعمال معاملہ میںافسران کووجہ بتائونوٹس۔
                ٭              قریبی رشتہ داروں اوراوبی سی میں سے ریزرویشن دینے کامطالبہ منوج جرانگے پاٹل نے دہرایا۔
اور۔۔۔٭      آج گڑی پاڑواکے موقع پربازاروںمیںہجوم۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                لوک سبھاالیکشن کے دوسرے مرحلہ کیلئے امیدواری پرچہ واپس لینے کی مدت کل ختم ہوگئی۔اس مرحلہ میںریاست کے بلڈھانہ ،اکولہ ، امراوتی،وردھا،ایوت محل ،واشم ،ہنگولی،پربھنی اورناندیڑ یہ آٹھ پارلیمانی حلقے شامل ہیں۔ ان تمام حلقوںکی تصویراب صاف ہوچکی ہے۔اور ان تمام نشستوں میں منجملہ 204 امیدوارمیدان میں ہیں۔ریاست کے چیف الیکشن کمشنروپرنسپل سیکریٹری ایس چوک لنگم نے یہ اطلاع دی ہے۔ وہ کل منترالیہ میںصحافتی کانفرنس سے مخاطب تھے۔ان تمام حلقوں میں26اپریل کورائے دہی ہوگی۔ناندیڑ میں66اہل امیدواروں میں سے تقریباً43 افرادکے پرچے واپس لینے سے اب23امیدوارمیدان میں ہیں۔پربھنی حلقے میں41 اہل امیدواروں میں سے7 امیدواروں کے پرچے واپس لینے کی وجہہ سے وہاں اب34 امیدوارمیدان میں ہیں۔
                ہنگولی میں48اہل امیدواروں میں سے15افرادکے نا م واپس لینے سے اب 33امیدوارمیدان میں ہیں۔عظیم اتحاد کے نشستوں کی تقسیم میںہنگولی لوک سبھا حلقہ شیوسینا کے حصہ میںآیاہے۔جس کی وجہہ سے بی جے پی کے 3 عہدیداروں نے بطورآزادامیدوار عرضی داخل کی تھی۔ جس میںرامداس پاٹل اورشیام بھارتی مہاراج نے کل امیدواری عرضی واپس لے لی۔جبکہ بی جے پی کے سابق ضلع صدرشیواجی جادھو نے اب تک واپس نہیں لی ہے۔
                بلڈھانہ حلقہ میں اکیس امیدوارانتخابی میدان میں ہیں۔ اکولہ حلقے سے پندرہ ،امراوتی حلقے سے37، وردھا حلقے میں24       جبکہ ایوت محل ،واشم حلقے میں17                امیدوارالیکشن میںحصہ لے رہے ہیں۔
***** ***** *****
                پربھنی میں عظیم اتحاد کے امیدوارمہادیوجانکر کے سیٹی اس نشان پرالیکشن لڑنے کی اطلاع ہمارے نامہ نگارنے دی ہے۔پرکاش امبیڈکر کے ونچت بہوجن آگھاڑی کوپریشرکوکریہ انتخابی نشان ملاہے۔اس پارٹی نے گیس سیلنڈرنشان کامطالبہ کیاتھا۔لیکن قرعہ اندازی میںانہیں وہ نہیں ملا۔
***** ***** *****
                دوسرے مرحلے کے آٹھ لوک سبھا حلقوں میںتقریباً ایک کروڑ49لاکھ 25ہزار912ووٹرس ہیں۔ جن میں سے18ہزار471 افراد بذریعہ پوسٹ اور14ہزار612افراد گھرسے ووٹ دیںگے۔گھر سے ووٹ دینے والوں میں سے دس ہزار672افراد85برس سے زائد عمر کے سینئرسٹیزن میں اورتین ہزار555افرادیہ 40فیصد سے زائدمعذورہیں۔جبکہ 385افرادیہ لازمی خدمات شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
***** ***** *****
                ملک بھر میںانتخابی تشہیر میںتیزی آگئی ہے اورمختلف پارٹیوں کے لیڈران ملک کے مختلف علاقوں میں تشہیری مہم میںحصہ لے رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے کل چندرپوراورگڑھ چرولی ،چیمورلوک سبھا حلقہ کیلئے چندرپورمیں اجلاس سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن مستحکم وغیرمستحکم کے درمیان ہے۔ ریاست کے وزیرجنگلات سدھیرمنگٹی وار، چندرپورلوک سبھا حلقہ سے اورموجودہ رکن پارلیمان اشوک نیتے گڑھ چرولی حلقے سے عظیم اتحاد کے امیدوارہیں۔وزیراعظم کل10تاریخ کوناگپورمیںتشہیری مہم میں حصہ لیںگے۔
***** ***** *****
                وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ ورشا کاسیاسی استعمال ہونے سے متعلق افسران کووجہ بتائونوٹس جاری کی گئی ہے۔ اس نوٹس کاجواب ملنے کے بعدکاروائی کرنے کی اطلاع ریاست کے چیف الیکشن کمشنر ایس چوک لنگم نے دی ہے۔اس معاملہ میںشکایت موصول ہونے پرممبئی شہرضلع کلکٹر نے نوٹس جاری کی ہے۔
***** ***** *****
                وَنچت بہوجن آگھاڑی کے سربراہ ا یڈوکیٹ پرکاش امبیڈکر نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کیلئے مہاوِکاس آگھاڑی کی پارٹیوں میں تال میل نہیں ہے۔ وہ کل اکولہ میں صحافتی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وَنچت بہوجن آگھاڑی نے اب تک 19 نشستوں کیلئے اُمیدوار وں کا اعلا ن کیا ہے۔ ریاست کی بقیہ نشستوں سے متعلق فیصلہ آئندہ دو دِنوں میں کیا جائےگا۔
***** ***** *****
                شیوسینا اُدّھو بالا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے رہنما امول کیرتیکر سے کل انفورسمنٹ ڈائر یکٹوریٹ (ED) کے دفتر میں آٹھ گھنٹے پوچھ تاچھ ہوئی۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے مبینہ کھچڑی گھوٹالے کے معا ملے میں ای ڈی نے انھیں گذشتہ 25 تاریخ کو سمن بھیجا تھا۔ دریں اثنا شیوسینا ٹھاکرے گروپ نے امول کیرتیکر کو پارلیمانی انتخاب میں اپنا اُمیدو ا ر بنایا ہے۔
***** ***** *****
                مراٹھا ر یزرو یشن تحر یک کے رہنما منوج جرانگے پاٹل نے کہا ہے کہ مراٹھا سماج نے پارلیمنٹ کے عام انتخابات میں کسی کو اُمیدواری یا حمایت نہیں دی ہے۔ ر یزرو یشن کیلئے قر یبی رشتہ دار وں کے متعلق مطالبہ کا جو بھی سیاسی جماعت حمایت کرے گی‘ مراٹھا سماج اسی جماعت کے امیدو ار وں کی حمایت کرے گا۔ ناسک ضلعے کے سِنّر تعلقے کے پانگری میں مراٹھا سماج کے اجلاس کے بعد وہ نامہ نگاروں سے مخاطب تھے۔ انھوں نے کہا کہ 57 لاکھ کُنبی اندراج پائے جانےکے بعد بھی انھیں OBC زمرے سے ریزرویشن فراہم نہیں کیا گیا، لہٰذا مراٹھا سماج کو او بی سی زمرے سے ہی ریزرویشن دینے کے مطالبہ پر اب بھی قائم رہنے کی وضاحت بھی جر انگے پاٹل نے کی۔
***** ***** *****
                سامعین! پارلیمانی انتخابات کے ضمن میں ’’لوک نِرنئے مہاراشٹراچا‘‘ پر وگرام آکاشو انی نے شرو ع کیا ہے۔ اس پرو گرام کے آج کے نشریہ میں ناند یڑ پارلیمانی حلقہ کا جائزہ پیش کیا جائےگا۔ شام سوا سات بجے یہ پرو گرام سُنا جاسکے گا۔
***** ***** *****
                نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ ا ینڈ ٹریننگ NCERT نے اپنے تعلیمی مواد کے مالکانہ حقوق سے متعلق احکامات جار ی کیے ہیں‘ اگر کوئی شخص یا تنظیم بغیر اجازت NCERT کی نصا بی کتب کا روباری استعمال کیلئے شائع کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا ئے گی۔
***** ***** *****
                ہند و کیلنڈر کے مطابق آج یعنی گڑی پاڑوا سے نئے سال کی شر وعات ہورہی ہے۔ وزیرِ اعظم نر یندر مودی نے کل چندر پور میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے عو ام کو مر اٹھی میں گڑی پاڑوا کی مبارکباد دی۔ صدرِ جمہوریہ دَرَوپد ی مُرمو اور ریاستی گورنر رمیش بئیس نے گڑی پاڑوا اور مراٹھی نئے سال کے موقع پر ریاست کی عو ام کو مبارکباد د ی ہے۔
                چھترپتی سمبھاجی نگر میں گلمنڈی علاقے میں ہر سال گڑی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج صبح نو بجے شیوسینا رہنما چندر کانت کھیرے کے ہاتھوں گڑی پوجا کی جائےگی۔ دریں اثنا گڑی پاڑوا کیلئے بازار سج گئے ہیں۔
***** ***** *****
                رمضان عید او ر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یومِ پید ائش کے موقع پر خریداری کیلئے پربھنی کے بازارو ں میں گاہکوں کی بھیڑ ہورہی ہے۔ خصوصی طورپر کپڑے ‘ زیورات‘ عطریات اور خشک میوہ جات کی دُکا نوں میں خریداروں کی بھیڑ ہونے کی خبر ہمارے نمائندے نے د ی ہے۔
                کل شام شوال کا چاند دکھائی د ینے پر پرسوں عیدالفطر متوقع ہے۔
***** ***** *****
                لاتور میں کل ’’میرا ایک دِن رائے دہند گان کی بیداری کیلئے‘‘ سرگرمی انجام دی گئی۔ ضلع کے شہری اور د یہی علاقوں میں بیک وقت ر ائے دہندگان بیداری ریلیوں کا انعقاد کیا گیا اور تقریباً ڈھائی لاکھ خاندانوں تک ر ائے دہی سے متعلق بیداری کا پیغام پہنچایا گیا۔
***** ***** *****
                 جالنہ ضلعے کے دیہی اور شہری علاقوں میں کل رائے دہی سے متعلق ��سکولی طلباء کی عوامی بیداری ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی میں شریک طلباء نے شہریوں کو اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنےکا پیغام د یا۔
***** ***** *****
                 بیڑ میں واقع سنسکار اسکول میں کل رنگولی مقابلہ منعقد ہوا۔ اس موقع پر مقابلے کے شرکا نے ر ائے دہی کی اہمیت واضح کرنے والی 43 مختلف رنگولیاں تیار کیں۔
***** ***** *****
                ناندیڑ پارلیمانی حلقۂ انتخابات 2024کی معلومات پر مبنی پارلیمنٹری ڈائریکٹری کی اشاعت کل ناندیڑ کے ضلع کلکٹر ابھیجیت رائوت کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس ڈائریکٹری میں 1951 سے 2019 کے ناندیڑ پارلیمانی حلقۂ انتخاب کے نتائج اور دیگر معلومات شامل ہیں۔
***** ***** *****
                مراٹھی وِگیان پریشد کی جانب سے دیا جانے والا وسنت راؤ نائیک زرعی پرتشٹھان ایوارڈ چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے دھنے گاؤں کے کسان یگنیش وسنت کاتبنے کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 10 ہزار روپےنقد اور توصیف نامے پر مشتمل یہ ایوارڈ کاتبنے کو آئندہ 28 تاریخ کو ممبئی میں دیا جائے گا۔
***** ***** *****
                لاتور میونسپل کارپوریشن نے شہریوں کو چار دن کے وقفے یعنی پانچویں دن پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن انتظامیہ نے شہریوں سے بھی پانی کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے اور پانی کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
                انڈین پریمیر لیگ (IPL) کرکٹ ٹورنامنٹ میں کل‘ چنئی سپر کنگز نے کولکتہ نائٹ رائیڈرز کو سات وکٹوں سے شکست دے دی۔ اس ٹورنامنٹ میں آج پنجاب کنگز اور سن رائزرز حیدرآباد کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
***** ***** *****
                پانی کی بڑھتی ضرورت اورلاتورشہرمیںپیش آنے والی پانی کی قلت کومدنظررکھتے ہوئے لاتورمیونسپل کارپوریشن نے آج سے شہریان کیلئے چاردنوں کے وقفے سے نلوں کے ذریعہ پانی فراہمی کافیصلہ کیاہے۔لاتورشہرمیںشہریان کوبیڑ ضلع کے کیج تعلقہ کے دھنے گائوں کے مانجرا آبی منصوبہ سے پانی فراہمی کی جاتی ہے۔ اس سال بارش کی کمی کی وجہ سے اس آبی منصوبہ میں کافی پانی کاذخیرہ نہیں ہے۔لیکن پھربھی پانی کامناسب استعمال کرکے انہیں ہرپانچویں دن پانی فراہم کئے جانے کی اطلاع ہے۔ میونسپل کارپوریشن نے اپیل کی ہے کہ پانی ضائع نہ کریں۔
***** ***** *****
                محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے مطابق آئندہ چار دنوں میں مراٹھواڑہ کے بیشتر اضلاع میں ہلکی سے اوسط درجے کی بارش ہونے کا امکان ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
                ٭              لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں ریاست کے 204امیدوار،ہنگولی 33،ناندیڑ23جبکہ پربھنی میں34امیدوارانتخابی میدان میں۔
                ٭              وزیراعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کاسیاسی طورپراستعمال معاملہ میںافسران کووجہ بتائونوٹس۔
                ٭              قریبی رشتہ داروں اوراوبی سی میں سے ریزرویشن دینے کامطالبہ منوج جرانگے پاٹل نے دہرایا۔
اور۔۔۔٭      آج گڑی پاڑواکے موقع پربازاروںمیںہجوم۔
***** ***** *****
                اس کے ساتھ ہی علاقائی خبریں ختم ہوئیں۔
                 ان خبروں کو آپ AIR چھترپتی سمبھاجی نگر یوٹیوب چینل‘ پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
***** ***** *****
0 notes
urduintl · 2 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) حماس کے ایک سینئر اہل کار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل مصر میں جاری مذاکرات کے دوران مطالبات تسلیم کرتا ہے تو غزہ میں 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران جنگ بندی ممکن ہو سکتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی‘ کے مطابق حماس اہل نے قاہرہ میں جاری مذاکرات کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات کہی۔
مذکورہ اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل، شمالی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی اور امداد میں اضافے پر رضا مند ہوتا ہے تو اس پیش رفت کے نتیجے میں اگلے 24 اور 48 گھنٹوں میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مصر، قطر اور امریکا نے غزہ جنگ بندی میں ثالثی کے لیے حالیہ ہفتوں میں بات چیت کی ہے جس کا مقصد تقریباً 5 ماہ سے جاری جنگ کو رکوانا اور انسانی امداد کی تقسیم ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ جنگ بندی کے لیے ثالثی کرنے والے یہ تینوں ممالک رمضان سے قبل جنگ بندی کے لیے کوششیں کررہے ہیں تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
الیکشن سے متعلق بعض ملکوں کے بیانات میں حقائق کو نظرانداز کیا گیا، ترجمان دفتر خارجہ
ترجمان دفترخارجہ نے کہا ہے کہ عام انتخابات سے متعلق بعض ممالک اور تنظیموں کے بیانات کو دیکھا ہے،بعض بیانات انتخابی عمل کی پیچیدگی کو مدنظر نہیں رکھتے۔ ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ بیانات لاکھوں پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کےآزادانہ اور پرجوش استعمال کو تسلیم نہیں کررہے،یہ بیانات ناقابل تردید حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں،پاکستان نے عام انتخابات پرامن اور کامیابی کے ساتھ منعقد کئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 19 days
Text
کوفت بھی مزہ بھی
یہ گذشتہ سال نومبر کی بات ہے جب مجھے اپنے دفتر میں بہت زیادہ کام تھا اور کام کرتے کرتے مجھے رات کے تقریباً گیارہ بج گئے اور کام ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا میں بہت تھک چکا تھا اور میرے کندھوں میں بھی تھکن کی وجہ سے درد شروع ہوگیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ ابھی میں گھر جاکر آرام کروں اور کل صبح وقتی دفتر آکر باقی کے کام کو نمٹا لوں میں یہ سوچ کر اٹھا اور دفتر کے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو چل دیا نہر والی سڑک پر راستے میں جیل روڈ انڈر پاس پر ٹریفک کافی پھنسی ہوئی تھی جس پر میں نے انڈر پاس کی بجائے گاڑی اوپر والی روڈ پر ڈال دی ٹریفک سگنل بند تھا میں نے گاڑی روک دی سامنے سے گزرنے والی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے سگنل کھلنے کا انتظار کرنے لگا کچھ دیر کے بعد اشارہ کھلا اور میں نے گاڑی چلا دی سٹرک کے اس بس سٹاپ پر دو تین سواریاں بس کے انتظار میں کھڑی تھیں جبکہ ان سے تھوڑا ہٹ کرایک چادر میں لپٹی ہوئی لڑکی کھڑی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر میری رال ٹپکنے لگی میں نے سوچا یہ کوئی پروفیشنل لڑکی کھڑی ہے چلو آج اس کے ساتھ مستی ہی کی جائے میں نے اس کے بالکل پاس جاکر گاڑی کھڑی کردی اور فرنٹ کا دروازہ کھول دیا لڑکی چند لمحے خاموش کھڑی رہی پہلے اس نے میری طرف دیکھا ہی نہیں پھر چند لمحے بعد میری طرف دیکھنے لگی میں بھی کچھ دیر دیکھتا رہا پھر میں نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیٹھ جائیے میں آپ کو چھوڑ دوں گا لڑکی چند لمحے مجھے دیکھنے کے بعد گاڑی میں بیٹھ گئی اور دروازہ بند کرلیا میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے تو کہنے لگی کہ مجھے ڈاکٹرز ہسپتال کے پاس جانا ہے میں نے خاموشی سے گاڑی چلا دی میں دل میں سوچا کہ شائد یہ میرے مطلب کی لڑکی نہیں ہے چلو اس کو اس کے گھر تک ڈراپ کردیا جائے
Tumblr media
لڑکی فیروز پور روڈ تک پہنچنے تک خاموش رہی اس کے بعد میں نے ہی خاموشی کا سلسلہ توڑا اور اس سے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے آرہی ہیں تو کہنے لگی کہ میں اپنی ایک دوست کے گھر گئی تھی مجھے میرے شوہر نے لےنے آنا تھا مگر ان کو کوئی کام پڑ گیا سو گھر جانے کے لئے بس کا انتظار کررہی تھی ”آپ کیا کرتے ہیں “اس نے اپنی بات ختم کرتے ہی مجھ سے سوال کیا ” میں ایک پرآئیویٹ محکمہ میں جاب کرتا ہوں“ محکمہ کا نام لئے بغیر ہی اس کو بتایا ” میرے خاوند ایک سرکاری محکمہ میں آفیسر ہیں “اس نے اپنے خاوند کے محکمہ کا نام اور ان کا عہدہ بھی بتایا ” پھر تو آپ بہت بڑے لوگ ہوئے“ ”جی “ اس کے چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ پھیل گئی ”چلو ان سے کبھی کوئی کام پڑا تو آپ سے مدد لی جاسکتی ہے“میں جان بوجھ کر باتوں کو طول دے رہا تھاکہ شائد اپنی بات آج نہیں تو پھر کبھی ہی بن جائے ”ضرور‘ جائز ہوا تو خود ہی ہوجائے گا اگر ناجائز ہوا تو مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں “ لڑکی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میرا نام پپو ہے (اس کو پپو کی جگہ اپنا اصل نام بتایا) اور آپ ؟ ” میرا نام ارم ہے‘ یہاں سے لیفٹ “ لڑکی نے ڈاکٹرز ہسپتال پہنچنے پر مجھے بتایا اور میں نے اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے گاڑی اسی طرف موڑ دی راستے میں اس نے مجھے مزید گائڈ کیا اور کچھ دیر کے بعد ہم لوگ اس کے گھر کے باہر پہنچ گئے وہ گاڑی سے اتری تو میں نے کہا کہ اچھا میں چلتاہوں جس پر اس نے مجھے اندر آنے کی دعوت دی اور کہا کہ ابھی عمران بھی آنے والے ہوں گے ان سے مل کر جائےے گا ان کو آپ سے مل کر خوشی ہوگی اور اتنی دیر میں چائے بھی تیار ہوجائے گی میں نے اس کی دعوت کو چانس سمجھتے ہوئے قبول کرلیا اور گاڑی اس کے گھر کے باہر ہی پارک کردی اور اس کے ساتھ ہی گھر کے اندر چلا گیا گھر کافی ڈیکوریٹڈ اور خوب صورت تھا ارم نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود تھوڑی دیر بعد چائے لے آئی وہ میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اب اس کے سر پر چادر نہیں بلکہ اس کے گلے میں دوپٹہ تھا اس نے ہلکے گلابی رنگ کے پرنٹ والے کپڑے پہن رکھے تھے اس کی عمر قریب 28 سال ہوگی قد 5 فٹ 5 انچ کے قریب تھا اور غضب کی خوب صورت تھی اس نے چائے کا کپ مجھے دیا
Tumblr media
اور ساتھ ہی اس کے فون پر بیل ہوئی ”ہیلو آپ سیدھا گھ�� آجائیے میں آگئی ہوں “فون کرنے والا شائد اس کا شوہر عمران تھا جس پر نہ جانے کیا بات کی جس پر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لفٹ مل گئی تھی آجائے وہ مہربان بھی آپ کا انتظار کررہے ہیں ——– نہیں بابا وہ صرف آپ کا انتظار کررہے ہیں اور آپ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کہہ رہے ہیں ———- او کے اوکے میں کوشش کرتی ہوں ان کو بٹھانے کی اور آپ بھی ذرہ جلدی آنے کی کوشش کیجئے گا “ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا اور ہنستے ہوئے مجھے بتانے لگی کہ عمران ایک ڈیڑھ گھنٹہ تک آئیں گے اور وہ کہہ رہے تھے کہ آپ کو بٹھا کر رکھوں آپ کو جلدی تو نہیں ”نہیں اب میں چلتا ہوں صبح سے کام کرکرکے کافی تھک گیا ہوں“ ”ارے نہیںایسے کیسے جاسکتے ہیں ۔عمران کو دوبارہ کہتی ہوں جلدی آجائیں گے“ میں پھر کبھی چکر لگا لوں گا نہیں پھر معلوم نہیں آپ کو کب فرصت ملے اصل میں مجھے کل صبح وقتی آفس جانا ہے ”پپوجی پلیزز ز ز ز ز ز ز ز زز ز ز“ اس کے منہ سے پلیز کا لفظ اتنے پیار اور سیکسی انداز میں نکلا کہ مجھے ہاں میں سرہلانا پڑا ”بہت اچھا آپ چائے پیجیئے میں ابھی چینج کرکے آئی“یہ کہتے ہوئے وہ ڈرائنگ روم سے نکل گئی اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آئی اس نے کھلے گلے والی ململ کی قمیض پہنی ہوئی تھی جس کے نیچے برا نہیں تھا مجھے اس کے مموں کے نپلز صاف دکھائی دے رہے تھے اور میرا لن کھڑا ہوگیا میں نے دل میں سوچا پپوجی ٹھیک جگہ پر پہنچے ہو وہ ڈرائنگ روم میں میرے سامنے والے کی بجائے میرے ساتھ اسی صوفے پر بیٹھ گئی جس پر میں بیٹھا تھا اس نے ٹیبل سے ٹی وی کا ریموٹ پکڑا اور ٹی وی آن کردیا ”آپ کون سا چینل دیکھتے ہیں“ چینل چینج کرتے ہوئے اس نے پوچھا ” کوئی بھی میوزک والا لگا دیجیئے “ یہ سن کر اس نے پنجابی مجروں کا چینل لگا دیا اور میری طرف دیکھنے لگی میں نے بھی ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اس پر جما دی وہ غضب ڈھا رہی تھی اس کی آنکھوں میں عجیب سا نشہ تھا جسے دیکھ کر مجھے بھی نشہ ہورہا تھا میرا لن جینز کی پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کی کوشش کررہا تھا ”آپ شادی شدہ ہیں“ ” نہیں ابھی ڈھونڈ رہا ہوں“ ”دیٹس گڈ“اس نے اپنا نیچے والا ہونٹ سیکسی انداز میں دانتوں کے نیچے دبایا تو میں سمجھ گیا کہ یہ کیا چاہتی ہے میں نے اپنا ہاتھ صوفے کی بیک پر رکھ دیا
Tumblr media
اور ٹی وی کی بجائے اس کی طرف دیکھنے لگا باریک ہونٹوں اور نشیلے نینوں والی گوری چٹی ارم کسی انگریزی میم سے کم نہیں لگ رہی تھی ”یو آر ویری ہینڈسم اینڈ بیوٹی فل بوائے “یہ کہتے ہوئے اس نے میرے بازو پر اپنا سر رکھ دیا ”اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں “میں نے فوری طورپر اپنے بازو سے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا اور اس کے ہونٹوں پر کس کردیا جس پر اس نے بھی بھرپور جواب دیا ”وہ آپ کے شوہر آنے والے ہوں گے “ میں نے خود کو ایک دم پیچھے کرتے ہوئے کہا ” ابھی کہاں آئیں گے ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو خود کہہ رہے ہیں صبح چھ بجے سے پہلے نہیں آئیں گے“ یہ جواب دے کر اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور بھوکوں کی طرح چوسنے لگی ”بیٹا یہ تو تیری بھی استاد نکلی تو نے نہیں اس نے تجھے لفٹ دی ہے اور اس کا پورا پورا معاوضہ وصول کرے گی “میں نے دل ہی دل میں سوچا پھر دل میں ہی سوچا ”چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر کام تو ایک ہی ہوگا“ اس نے مجھے زبردست قسم کی کس کی اور میری شرٹ سے پکڑ کر زور سے بھینچتے ہوئے کہنے لگی ”پپووووووو“ میں نے ایک بار پھر اس کو گردن سے پکڑ کر اس کے ہونٹ اپنے منہ کے پاس کئے اور ان کو چوسنے لگا اور اپنے ایک ہاتھ سے قمیض کے اوپر سے ہی اس کے مموں کو دبانے لگا جس سے وہ مزید وحشی ہورہی تھی تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنا ہاتھ اس کی قمیض کے نیچے سے ڈال لیا اور اس کے مموں کو دبانے لگا جبکہ میرے ہونٹ بدستور اس کے ہونٹوں پر ہی تھے چند لمحوں بعد اس نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور کھڑی ہوکر اپنی قمیض اتار دی واہ کیا بات تھی 34 سائز کے بالکل سفید رنگ کے ٹائٹ گول ممے اور ان کے اوپر گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے سے نپلز میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ممے پکڑنا چاہے تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک کر پیچھے کردیا اور خود شلوار بھی اتاردی میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اس کے بے داغ گورے چٹے بدن کو دیکھ کر میری آنکھیں چندھیارہی تھیںاس کی گول گول رانیں میرے اعصاب پر بجلیاں گرانے لگی اس کی رانوں پر ایک بال تک نہ تھا جبکہ پھدی کے اوپر بال کافی بڑے تھے کم از کم ڈیڑھ انچ لمبے تھے لیکن دھوئے ہوئے تھے تاہم بالوں کی وجہ سے پھدی کالی تھی
Tumblr media
اور صاف دکھائی نہیں دے رہی تھی اس کا پیٹ نہ ہونے کے برابر تھا میں ابھی اس کا جسم بھی اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکا تھا کہ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور میں اس کے گلے لگ گیا اس نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور میرا اپر اتار کر شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اس نے میری شرٹ اتار اور پھر پینٹ کی بیلٹ پھر بٹن اور پھر زپ کھول دی اور پھر اس نے پینٹ سے ہاتھ ہٹا کر میری بنیان اتاری اور مجھے صوفے کے اوپر دھکا دے دیا اس کے بعد اس نے میری ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور میری پینٹ اتاردی ایسے لگ رہاتھا آج میں اس کو نہیں بلکہ وہ مجھے چودے گی میرا لن انڈر ویئر کے اندر سے باہر آنے کو بے تاب ہورہا تھا میں نے انڈر ویئر اتارنا چاہا تو اس نے میرا ہاتھ ہٹا دیا اور خود اپنے ہاتھوں سے انڈر ویئر اتار دیا ”واﺅﺅﺅﺅﺅﺅﺅ واٹ آ لینتھ“ میرا سات انچ کے قریب لن دیکھ کر اس کے منہ سے بے ساختہ نکل آیا میں نے اٹھ کر اس کے ممے پکڑنا چاہے تو اس نے ایک بار پھر میرا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا پپو تم نہیں صرف میں‘ میں نے خاموشی سے ہاتھ صوفے کی ٹیک پر رکھ لئے اس نے مجھے ایک اور دھکا دے کر صوفے کے اوپر لٹا لیا اور خود میرے اوپر لیٹنے کے انداز میں آگئی اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پیوست کردیئے ہونٹوں کے بعد اس نے میری کانوں پر کسنگ کی اور پھر میری گردن پر اپنے ہونٹ گارڈ دیئے وہ میری گردن کے اوپر کاٹنے لگی میں خاموشی سے لیٹا رہا اس نے میری گردن پر چار جگہ پر نشان بنا دیئے اس کے بعد اس نے میرے سینے پر کسنگ کی اور یہاں بھی اپنے ہونٹوں سے جگہ جگہ نشان بنادئیے پھر اچانک اسے جانے کیا ہوا وہ مجھ سے علیحدہ ہوگئی اور کھڑی ہوکر کہنے لگی پپو یہاں ٹھیک نہیں چلو اندر بیڈ پر چلتے ہیں اور چل پڑی میں بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چل کر اندر چلا گیا اندر بیڈ کے قریب جاکر وہ کھڑی ہوگئی اور میرے پہنچتے ہی اس نے مجھے پھر دھکا دے دیا اور میں بیڈ کے اوپر لیٹ گیا وہ پھر سے مجھ پر ٹوٹ پڑی اور ہونٹوں سے کسنگ شروع کرکے سینے پر پہنچی پھر پیٹ سے ہوتے ہوئے لن تک پہنچ گئی اور پھر اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور میرے منہ پر آکر بیٹھ گئی میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو پیچھے کیا اور کہا ” یہ نہیں“ کیوں تم نے تو صفائی بھی نہیں کی صفائی کی ہے اوہ تم بالوں کی بات کرتے ہو ابھی تھوڑی دیر پہلے جب کپڑے چینج کئے ہیں ان کو دھویا ہے اور میں تم کو یہ بھی بتادوں کو یہ بال عورت کی شہوت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں لن کے ساتھ یہ بال بھی جب پھدی میں جاتے ہیں
Tumblr media
تو مزہ ہی دوبالا ہوجاتا ہے ” اس کی اس بات نے میرے جنرل نالج میں اضافہ کردیا“ خیر اس نے دوبارہ میرے منہ پر اپنی پھدی رکھ دی اور میرا لن اپنے منہ میں لے لیا اب ہم 69 کی پوزیشن میں تھے وہ لالی پاپ کی طرح میرے لن کو چوس رہی تھی جبکہ میں نے اپنے منہ سے ہی اس کی پھدی کے بالوں کو پیچھے کیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی زبان اس کی پھدی کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردی اس کے بعد میں نے اپنی زبان اس کی پھدی کے اندر ڈالی تو اس کو جیسے وحشت ہونے لگی اس نے میرے لن پر کاٹنا شروع کردیا اور ناک سے ہوں ہوووووووں ہوووووووں کی آوازیں بھی نکالنا شروع کردیںمیرے لن کی صرف ٹوپی ہی اس کے منہ میں جارہی تھی جبکہ ٹوپی کے نیچے سے میرے لن کو اس نے ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے میرے ٹٹوں کو سہلا رہی تھی جس سے مجھے عجیب سا مزہ آرہا تھا تقریباً پانچ منٹ کے بعد اس کی پھدی سے پانی نکلا اور میرے منہ پر ہی پچکاری نکل گئی جبکہ وہ ہٹی نہیں میں نے اپنے منہ کو سختی سے بند کرلیا تاکہ یہ پانی منہ کے اندر نہ جائے جبکہ اس پانی سے عجیب سی گندی بدبو آرہی تھی وہ مسلسل میرے لن کو چوس رہی تھی چند منٹ کے بعد میری بھی منی نکل گئی اس نے ساری منی چوس لی اور پھر میرے اوپر سے ہٹ کر باتھ روم میں چلی گئی میں بھی اس کے پیچھے ہی باتھ روم میں چلا گیا اس نے قلی کی اور ہٹ گئی اس کے بعد میں نے بھی اپنے منہ کو اچھی طرح سے دھویا اور باہر آگیا اس نے مجھے بیڈ پر لٹایا اور پھر فریج سے جوس کے دو پیکٹ نکال کرلے آئی اور ہم نے جوس پیا پھر پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگی ” اصل میں عمران خسرہ ٹائپ ہیں ان کو معلوم ہے کہ میں نے کسی سے کس مقصد کے لئے لفٹ لی ہے ہماری شادی کو 6 ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے تب سے عمران ہفتے میں ایک دو بار کسی نہ کسی لڑکے کو ساتھ لے آتے ہیں جس سے پہلے وہ اور پھر میں چدائی کرواتی ہوں ان کے ساتھ جو لڑکے بھی آتے ہیں ان میں اکثر پروفیشنل ہوتے ہیں اور وہ پیسے بھی لیتے ہیں اکثر اوقات آنے والے لڑکوں میں اتنا دم نہیں ہوتا کہ وہ عمران کے بعد مجھے چود سکیں آج میں نے خود عمران کو کہا تھا کہ میں انتظام کرتی ہوں عمران مجھے نہر کے کنارے سڑک پر اتار کر خود چلے گئے تھے وہ بھی دوسرے کمرے میں ہیں اور میرے بعد اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں “ ”کیا مطلب “ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ”مطلب یہ کہ میرے بعد ان کو بھی تم سے گانڈ مروانی ہے “ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
Tumblr media
اور اس نے مجھے پھرسے کسنگ شرو ع کردی میرا لن کھڑا ہونے کی بجائےمزید بیٹھ گیا۔ اس نے میرے لن کو پھر سے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا جس سے لن میں پھر سے کچھ جان پیدا ہوئی چند منٹ کے بعد وہ پھر سے لوہے کے راڈ کی طرح ایک دم سخت ہوگیا اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکالا اور خود لیٹ کر کہنے لگی اب تم کرو میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور ہونٹوں سے کسنگ کرنے لگا پھر اس کے مموں کے نپلز اپنے منہ میں لے کر ان کو چوسنا شروع کردیا آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی ان کو دانتوں سے دباﺅ “ اس نے کہا میں نے اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک نپل کو دانتوں سے دبایا ” آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ایسے ہی دوسرے کو بھی “ میں نے اس کو منہ سے نکا ل کر دوسرا نپل منہ میں لیا اور اس کو چوسا پھر اس کو دانتوں سے دبایا تو اس کے منہ سے پھر آہ نکل گئی اس کے بعد میں اٹھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا میں نے اپنا لن ہاتھ سے پکڑ کر اس کی بالوں سے بھری پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور اس پر تھوڑا سا دباﺅ دیا اس س س س س س س س وہ پھر سے منمنا اٹھی میں نے تھوڑا سااور دباﺅ دیا تو میرے لن کی ٹوپی اندر چلی گئی جس پر اس کے منہ سے آہ کی آواز نکلی میں نے تھوڑا سا اور اندر کرنے کی کوشش کی تو مجھے لگا کہ یہ آسانی کے ساتھ اندر نہیں جائے گا میں نے اپنے ہاتھ بیڈ پر اس کے جسم کے ادھر ادھر رکھے اور زور سے گھسا مارا ”ہائے ئے ئے “وہ تھوڑا سا بلبلائی اور میرا آدھے سے تھوڑا سا کم لن اس کی پھدی میں چلا گیا میں نے رکنے کی بجائے پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ گھسا مارا اور وہ چیخ اٹھی ”ہائے امی جی میں مرررررر گئی ئی ی ی ی ی ی ی ی ی“اس کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل آئے تھے میں نے تھوڑی دیر کے لئے دم لیا اور اس کے مموں کو چوسنے لگا چند منٹ تک ایسا کرنے سے اس کے منہ سے مزے کی آوازیں آہ ہ ہ ام م م م م م م س س س س س س نکل شروع ہوگئی میں پھر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنا لن اس کی پھدی سے نکال لیا پاس پڑا ایک تکیہ اس کی گانڈ کے نیچے رکھا اور اس کی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں پھر اپنے لن کو اس کی پھدی پر سیٹ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پر اس کے بازوﺅں پر رکھ کر زور زور سے جھٹکے دینا شروع کردئیے ہائے میں مر گئی ی ی ی ی ی تھوڑا آراااام سے آہس س س س تہ پپو جی ی ی ی آرام سے میں مررررر گئی“
Tumblr media
میں نے رکنے کی بجائے اپنے سپیڈ اور بڑھا دی تھوڑی دیر کے اس کا جسم اکڑنا شروع ہوگیا اور چند لمحے بعد وہ چھوٹ گئی اس کی پھدی سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے میرے گھسا مارنے پر شڑپ شڑپ جبکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے منہ سے آہ آہ م م م م م م پپوووووو آہ س س س س س س ام م م آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازیں نکل رہی تھیں جس سے کمرے کا ماحول خاصہ سیکسی ہوچکا تھا چند منٹ مزید گھسے مارنے کے بعد میں نے اپنا لن اس کی پھدی سے نکالا اور بیڈ شیٹ سے اس کی پھدی صاف کی اور اس کو کہا کہ بیڈ کے نیچے گھٹنوں کے بل کھڑی ہوجائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بیڈ کو پکڑ لے اس نے ایسا ہی کیا اور گھوڑی بن گئی میں اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور اس کی پھدی پر پیچھے سے اپنا لن سیٹ کیا اس کے بازوﺅں کے نیچے سے اپنے ہاتھ نکال کر اس کے ممے پکڑ لئے اور پھر سے اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا اور پہلے کی نسبت زیادہ طاقت سے دھکے دینا شروع کردئےے میرے جھٹکے کے ساتھ ہی آگے کی طرف تقریباً الٹ جاتی میں مموں سے پکڑ کر اس کو پھر پیچھے کرتا اور میرا لن اس کی پھدی سے باہر نکل آتا اور پھر سیکنڈ کے آدھے حصے سے بھی کم وقفے کے ساتھ دوسرا جھٹکا لگتا چند جھٹکوں سے ہی اس کے منہ سے بس بس س س س کی آواز آنے لگی اس نے اپنا جسم ڈھی��ا چھوڑ دیا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بری طرح نڈھال ہوچکی ہے اگر میں نے اس کو نہ پکڑا ہوتا تو میرے جھٹکے کے ساتھ وہ گر جاتی میں نے اپنی سپیڈ مزید تیزی کردی اور جھٹکے پہ جھٹکے دیتا رہا وہ پھر چھوٹی اور گھسوں سے شڑپ شڑپ کی آواز پھر سے آنے لگی
Tumblr media
اب میں نے جھٹکے روکے اور اس کے مموں کو چھوڑا تو بیڈ کے اوپر ہی گر گئی میں نے اس کو سنبھالا دے کر بیڈ کے اوپر لٹایا اور اس کے ساتھ ہی خود بھی لیٹ گیا اور اس کو کہا کہ اب وہ اوپر آجائے اس نے کہا مجھ سے اب کچھ بھی نہیں ہوگا میں نے اس کو مزید اصرار کیا تو وہ میرے اوپر آگئی میں نے اپنے ہاتھ سے لن کو پکڑا اور اس کی پھدی میں ڈالا اور اس کو کہا کہ چلو تو وہ میری پھدی کے اوپر بیٹھ گئی میرا لن اس کی پھدی کے اندر گیا وہ میرے اوپر ہی لیٹ گئی اور کہنے لگی پپو مجھ سے نہیں ہوگا میں نے اس کو مزید اصرار کیا تو وہ اٹھ گئی اور آہستہ آہستہ سے اوپر نیچے ہونے لگی میں نے اس کے دونوں ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور ان کو دبانے لگا وہ آہ آہ آہ کی آوازیں نکالتی اوپر نیچے ہورہی تھی سات آٹھ منٹ کے بعد میں چھوٹنے کے قریب پہنچ گیا تو میں نے اپنے ہاتھ اس کے مموں سے ہٹا کر اس کی پیٹھ کے نیچے کیئے اور اس کو تیزی سے اوپر نیچے ہونے میں مدد دینے لگا چند لمحے بعد میں اور وہ اکٹھے ہی منزل پر پہنچ گئے او میرے اوپر گر گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں چند منٹ کے بعد میں نے اس کو خود سے ہٹایا وہ ابھی تک نڈھال تھی میں اٹھا اور باتھ روم میں چلا گیا جہاں جاکر میں نے اپنا لن دھویا اور باہر آکر کپڑے ڈھونڈنے لگا پھر خیال آیا وہ تو ڈرائنگ روم میں ہیں میں کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگا تو ایک شخص دروازے پر ہی کھڑا تھا وہ شائد ارم کا شوہرعمران تھا ”کدھر“اس نے زنانہ انداز میں پوچھا میں گھبرا گیا تم تو بہت گھبرو ہو میری بیوی کو نڈھال کردیا میں نے پہلے اس کی یہ حالت کبھی نہیں دیکھی میرے ساتھ بھی ایسا ہی کرو سر ابھی کافی دیر ہورہی ہے مجھے صبح آفس جانا ہے
Tumblr media
تو میں نے کب کہا کہ نہ جانا آفس پہلے میرے ساتھ بھی تو کچھ کرو میں نے آج تک کسی بھی مرد کے ساتھ سیکس نہیں کیا تھا تھوڑا گھبرا رہا تھا لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا اب تو اس کو بھی راضی کرنا تھا اسی لمحے اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور کمرے کے وسط میں بیڈ کے پاس لے آیا جہاں خود نیچے جھک کر میرے لٹکتے ہوئے لن کو منہ میں لے کر چوسنے لگا میں نے اس کو کہا کہ ابھی چند منٹ ٹھہر جائیں تو اس نے اپنے منہ سے لن کو نکال دیا پھر اپنی بیوی کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا جو ابھی تک آنکھیں بند کئے پڑی تھی اس نے اسے آواز دی اور پھر اس کو اٹھایا تو وہ بولی کہ عمران آج تو مزہ آگیا“ تم کو بھی مزہ آئے گا ”میں سب دیکھ رہا تھا“ ”یور چوائس از رئیلی گڈ مائی ڈارلنگ“یہ کہتے ہوئے عمران نے میری طرف دیکھا اور پھر چند منٹ کے بعد کھڑا ہوکر اس نے میرا لن پھر منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا اس میں آہستہ آہستہ پھر حرکت پیدا ہونا شروع ہوگئی اس کے بعد اس نے اپنی پینٹ اتار دی اور خود گھوڑی بن گیا اس کی گانڈ پر کوئی بال نہیں تھے شائد آج ہی شیو کی تھی اس نے اپنے منہ سے تھوک نکالا اور ہاتھ پیچھے کرکے گانڈ پر مل دیا میں نے اپنا لن اس کی گانڈ پررکھا اور تھوڑا سا دباﺅ دیا تو وہ سارا اندر چلا گیا میں نے تیزی سے گھسے مارنا شروع کردیئے مجھے اس کی گانڈ مارنے سے کوفت ہورہی تھی میں نے پانچ منٹ تک اس کی گانڈ میں گھسے مارے پھر اپنا لن نکال لیا اور اس سے کہا کہ اب میں تھک گیا ہوں پھر کبھی کرلیں گے تو کہنے لگا جانو تم لیٹومیں اوپر آجاتا ہوں میں جلدی سے اس کی بات ان سنی کرکے ڈرائنگ روم کی طرف چل دیا جہاں جاکر میں نے فوری طورپر کپڑے پہن لئے وہ میرے پیچھے آیا اس کے ساتھ ارم بھی تھی انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی مگر میں نے کپڑے پہنے اور ان کے گھر سے نکل آیا گھر سے نکلتے ہوئے ارم کی آواز آئی ” اپنا نمبر تو دے جائیں پھر کیسے ملیں گے“ میں نے رک کر ایک نظر اس کو دیکھا اور پھر مڑ کر گاڑی میں بیٹھ کر چل دیا پھر یہ سوچ کر دوبارہ کبھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کی کہ ارم کے ساتھ گانڈو عمران کو بھی راضی کرنا پڑے گا جو میرے بس کی بات نہیں ہے
---ختم شد---
Tumblr media
6 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 3 months
Text
🌹🌹𝗘𝗖𝗢𝗡𝗢𝗠𝗜𝗖 𝗦𝗧𝗔𝗕𝗜𝗟𝗜𝗧𝗬:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
7️⃣8️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗘𝗖𝗢𝗡𝗢𝗠𝗜𝗖 𝗦𝗧𝗔𝗕𝗜𝗟𝗜𝗧𝗬:
𝗢𝗻𝗰𝗲 𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝗼𝗯𝘀𝗲𝗿𝘃𝗲𝗱: "𝗪𝗵𝗲𝗻 𝗚𝗼𝗱 𝗺𝗮𝗸𝗲𝘀 𝗮 𝘀𝗼𝘂𝗿𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝘀𝘂𝘀𝘁𝗲𝗻𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗳𝗼𝗿 𝘀𝗼𝗺𝗲𝗼𝗻𝗲, 𝗵𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗼𝘁 𝗴𝗶𝘃𝗲 𝗶𝘁 𝘂𝗽 𝗼𝗻 𝗵𝗶𝘀 𝗼𝘄𝗻 𝗲𝘅𝗰𝗲𝗽𝘁 𝗶𝗳 𝗼𝗻𝗲 𝗵𝗮𝘀 𝘁𝗼 𝗯𝗲𝗰𝗮𝘂𝘀𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗰𝗼𝗺𝗽𝘂𝗹𝘀𝗶𝗼𝗻 𝗼𝗳 𝗼𝗻𝗲’𝘀 𝗰𝗶𝗿𝗰𝘂𝗺𝘀𝘁𝗮𝗻𝗰𝗲𝘀.”
(Musnad Ahmad, Hadith No. 20649)
● 𝗔𝗰𝗰𝗼𝗿𝗱𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼 𝘁𝗵𝗲 𝘁𝗲𝗮𝗰𝗵𝗶𝗻𝗴𝘀 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺, 𝘀𝘂𝘀𝘁𝗲𝗻𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗯𝗲𝗹𝗼𝗻𝗴𝘀 𝘁𝗼 𝗚𝗼𝗱.
● 𝗧𝗵𝗲𝗿𝗲𝗳𝗼𝗿𝗲, 𝘄𝗵𝗲𝗻 𝗮 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻 𝗳𝗶𝗻𝗱𝘀 𝗮 𝘀𝗼𝘂𝗿𝗰𝗲 𝗼𝗳 𝘀𝘂𝘀𝘁𝗲𝗻𝗮𝗻𝗰𝗲, 𝗵𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗴𝗶𝘃𝗲 𝘁𝗵𝗮𝗻𝗸𝘀 𝘁𝗼 𝗚𝗼𝗱 𝗮𝗻𝗱 𝘀𝘁𝗶𝗰𝗸 𝘁𝗼 𝗶𝘁.
● 𝗜𝗳 𝗵𝗲 𝗹𝗲𝗮𝘃𝗲𝘀 𝗶𝘁 𝘄𝗶𝘁𝗵𝗼𝘂𝘁 𝗮 𝗿𝗲𝗮𝗹 𝗿𝗲𝗮𝘀𝗼𝗻, 𝗵𝗲 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗹𝗼𝘀𝗲 𝗚𝗼𝗱’𝘀 𝗳𝗮𝘃𝗼𝗿.
● 𝗣𝗲𝗿𝘀𝗲𝘃𝗲𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝘀𝗲𝗰𝗿𝗲𝘁 𝘁𝗼 𝘀𝘂𝗰𝗰𝗲𝘀𝘀 𝗶𝗻 𝗹𝗶𝗳𝗲.
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝘁𝗲𝗮𝗰𝗵𝗲𝘀 𝘂𝘀 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗲𝘃𝗲𝗿𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗮𝗻𝗱 𝘀𝘁𝗮𝗯𝗶𝗹𝗶𝘁𝘆.
● 𝗦𝘂𝗰𝗰𝗲𝘀𝘀 𝗶𝗻 𝗲𝗰𝗼𝗻𝗼𝗺𝗶𝗰 𝗹𝗶𝗳𝗲 𝗶𝘀 𝗮𝗹𝘄𝗮𝘆𝘀 𝗮𝗰𝗵𝗶𝗲𝘃𝗲𝗱 𝘁𝗵𝗿𝗼𝘂𝗴𝗵 𝗵𝗮𝗿𝗱 𝘄𝗼𝗿𝗸.
● 𝗔 𝗺𝗮𝗻 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗹𝗼𝗼𝗸 𝘁𝗼 𝘁𝗵𝗲 𝗳𝘂𝘁𝘂𝗿𝗲 𝗶𝗻𝘀𝘁𝗲𝗮𝗱 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗲𝘀𝗲𝗻𝘁.
● 𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝘁𝗲𝗹𝗹𝘀 𝘂𝘀 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝘄𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗻𝗼𝘁 𝗳𝗲𝗲𝗹 𝗱𝗶𝘀𝗰𝗼𝘂𝗿𝗮𝗴𝗲𝗱 𝗯𝘆 𝗹𝗼𝗼𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗮𝘁 𝘁𝗵𝗲 𝗽𝗿𝗲𝘀𝗲𝗻𝘁 𝘀𝗶𝘁𝘂𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻.
● 𝗥𝗮𝘁𝗵𝗲𝗿 𝘄𝗲 𝘀𝗵𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗺𝗮𝗸𝗲 𝗲𝗳𝗳𝗼𝗿𝘁𝘀 𝘁𝗼 𝗰𝗿𝗲𝗮𝘁𝗲 𝗮 𝘁𝗲𝗺𝗽𝗲𝗿𝗮𝗺𝗲𝗻𝘁 𝗼𝗳 𝗳𝗼𝗿𝗲𝘀𝗶𝗴𝗵𝘁 𝗶𝗻 𝗲𝗰𝗼𝗻𝗼𝗺𝗶𝗰 𝗮𝗰𝘁𝗶𝘃𝗶𝘁𝗶𝗲𝘀.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 معاشی استحکام:
ایک مرتبہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ کسی کے لیے رزق کا ذریعہ بناتا ہے، تو اسے خود سے اسے ترک نہیں کرنا چاہیے، سوائے اس کے کہ اسے کسی حالات کی مجبوری کی وجہ سے کرنا پڑے۔"
(مسند احمد، حدیث نمبر 20649)
● اسلام کی تعلیمات کے مطابق رزق اللہ کا ہے۔
● اس لیے جب انسان کو رزق کا ذریعہ مل جائے تو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور اس پر قائم رہے۔
● اگر وہ بغیر کسی وجہ کے اسے چھوڑ دیتا ہے، تو وہ اللہ کے فضل سے محروم ہو جاتا ہے۔
● ثابت قدمی زندگی میں کامیابی کا راز ہے۔
● یہ روایت ہمیں ثابت قدمی اور استقامت کا درس دیتی ہے۔
● معاشی زندگی میں کامیابی ہمیشہ محنت سے حاصل ہوتی ہے۔
● انسان کو حال کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔
● یہ روایت ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں موجودہ حالات کو دیکھ کر حوصلے کو پست نہیں کرنا چاہیے۔
● بلکہ ہمیں معاشی سرگرمیوں میں دور اندیشی کا مزاج پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 لگے ہوئے روزگار کو کسی معقول وجہ کے بغیرتبدیل کرنا:
● مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں ایک روایت ہے کہ حضرت نافع فرماتے ہیں: میں اپنا سامانِ تجارت شام اور کبھی مصر کی طرف بھیجا کرتا تھا، ایک مرتبہ میں نے عراق کی طرف تجارتی سامان بھجوانے کی تیاری کی، میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور انہیں صورتِ حال بتائی، اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا نہ کرو! تمہیں اور تمہاری جائے تجارت کو کیا ہوا؟ (یعنی کوئی نقصان ہوا؟ کوئی وجہ ہے جو تجارتی رخ تبدیل کررہے ہو؟)
🔹 پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے لیے کسی جگہ رزق کا سبب بنائے تو وہ اسے ترک نہ کرے یہاں تک کہ اس میں خود تبدیلی نہ آجائے۔ (مثلاً: نقصان ہوجائے یا اس چیز کی تجارت ختم ہوجائے یا کوئی اور مسئلہ پیش آجائے۔)
● لہٰذا اگر کسی شخص کی روزی یا تجارت کسی مناسب جگہ جاری وساری ہو تو کسی معتبر وجہ کے بغیر اسے نہیں چھوڑنا چاہیے، کیوں کہ اسے ترک کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی روزی کو چھوڑنا اور دنیا زیادہ جمع کرنے کی لالچ پائی جاتی ہے، اس وجہ سے شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ اور بندہ اللہ کے فضل سے محروم ہو جاتا ہے۔
🔹 اور اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
○تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ○ [ 28-القصص:83]
”یہ اخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور نا فساد کرنا چاہتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔"
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
آخر جنوبی افریقہ ہی کیوں؟
Tumblr media
جنوبی افریقہ ہی کیوں؟ دنیا کے 195 ممالک میں سے صرف جنوبی افریقہ ہی کیوں ہے جو مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے کر گیا ہے؟ مسلم اور عرب ممالک کے برعکس جنوبی افریقہ کی فلسطین کے ساتھ کوئی اخلاقی، ثقافتی یا مذہبی وابستگی نہیں ہے۔ وہ عرب ممالک کے مقابلے میں فلسطین سے تقریباً 7 ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ تو پھر جنوبی افریقہ نے ہی کیوں صہیونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی حالانکہ دیگر ممالک جوکہ فلسطین سے ہر لحاظ سے زیادہ قریب ہیں، ان کے قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملتا ہے کیونکہ فلسطین کی طرح جنوبی افریقی باشندے بھی سفید فام آبادکاروں کی بربریت کا شکار ہو چکے ہیں جوکہ اپنے خونی جبر اور نسل پرستی پر فخر کیا کرتے تھے۔ اسرائیل 1948ء میں بنا، اسی سال ہی جنوبی افریقہ میں نسل پرست نوآبادیاتی دور نے اپنے قدم جمائے۔ اس اتفاق سے قطع نظر دونوں ریاستوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ مقامی آبادی کی قیمت پر ان کی سفید فام آبادکاروں کی نوآبادی کی حیثیت ان میں ایک تعلق پیدا کرتی ہے۔ یوں ان دونوں ریاستوں کے ناپاک اتحاد کا باقاعدہ آغاز 1953ء میں تب ہوا جب جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم ڈینیئل ملان نے جنوبی افریقہ کا سرکاری دورہ کیا۔ یوں ان دونوں آبادکار حکومتوں کے درمیان ایک قریبی اتحاد کی ابتدا ہوئی۔
آنے والے برسوں میں ان دونوں آبادکار قوتوں کا اتحاد مضبوط ہوتا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے سیکھا اور اپنے اپنے زیرِ قبضہ ریاستوں میں مظلوم عوام کو دبا کر رکھنے میں ایک دوسرے کی حمایت بھی کی۔ فلسطینی آبادی کا بھی مرکز سے تعلق منقطع کر دیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کے لیے ’بنتوستان‘ بنائے گئے تاکہ انہیں ملک کے سیاسی نظام سے دور رکھا جا سکے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان مماثلت کو حکومتی سطح پر بھی مانا گیا جیسے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم ہینڈرک ویرورڈ جو بنتوستان پروجیکٹ کے معمار کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے خود کہا ’یہودیوں نے عربوں کے ہاتھ سے اسرائیل لے لیا حالانکہ وہ اس زمین پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کی طرح اسرائیل بھی ایک نسل پرست ریاست ہے‘۔ اور جہاں اسرائیل بین الاقوامی فورمز پر نسل پرستی کی مذمت کرتا تھا، حقیقت یہ تھی کہ وہ جنوبی افریقہ کو اپنا قریبی سمجھنے لگا جبکہ اسرائیل کے جنرل رافائل ایتان نے جنوبی افریقی سیاہ فاموں کے بارے میں کہا کہ ’وہ سفید فام اقلیت پر قابض ہونا چاہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے عرب ہمیں اپنے زیرِ کنٹرول لانا چاہتے ہیں۔ ہم جنوبی افریقہ میں موجود سفید فام اقلیت کی طرح ہیں اور ہمیں ان لوگوں کو روکنا ہے جو ہمیں اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں‘۔
Tumblr media
ان دونوں زیرِ تسلط آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھنا دونوں آباد کار حکومتوں نے اپنی ترجیح بنا لیا۔ اسی مقصد کے تحت اسرائیل نے جنوبی افریقی سفیدفاموں کو مظاہرین کو کنٹرول کرنے والی گاڑیاں اور ہتھیار فراہم کیے اور ان کی افواج کو تربیت دی۔ 1980ء کی دہائی میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ میں تعینات کیے جبکہ جنوبی افریقہ کے فوجی اسرائیل میں تربیت حاصل کررہے تھے۔ اسرائیل نے جوہری پروگرام میں بھی اپنے نظریاتی ساتھیوں کی مدد کی۔ ان کی مدد سے جنوبی افریقہ نے 6 جوہری بم تیار کیے لیکن ان تمام بموں کو اس وقت تلف کر دیا گیا جب جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک نے اپنے ملک کی عالمی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش میں جوہری پروگرام کو ترک کر دیا تھا۔ ساکھ کی بات کی جائے تو اسرائیل نے اپنے اتحادی کو عالمی دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے اکثر مداخلت کی پھر چاہے وہ 1975ء میں ’پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ‘ کے لیے ’جوائنٹ سیکریٹریٹ فار پولیٹیکل اینڈ سائکالوجیکل وارفیئر‘ کا قیام ہی کیوں نہ ہو جو جنوبی افریقہ کی عالمی ساکھ کو بحال رکھنے کے لیے مالی امداد کے ساتھ ہونے والی دوطرفہ مہم کا حصہ تھا۔
لیکن ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے، جہاں ایک جانب اسرائیل اور نسل پرست جنوبی افریقی حکومت ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی تھیں وہیں دوسری جانب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)، نیلسن منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس سے اپنے تعلقات استوار کررہی تھی۔ جس وقت سفید فام برتری پر یقین رکھنے والے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا وہیں جنوبی افریقہ کے رہنماؤں میں سے ایک نیلسن منڈیلا نے 1990ء میں جیل سے اپنی رہائی کے بعد یاسر عرفات سے ملاقات کی جنہوں نے اوسلو معاہدے سے قبل منڈیلا سے اس معاملے پر مشورہ طلب کیا۔ نیلسن منڈیلا بذاتِ خود قضیہِ فلسطین کے بہت بڑے حمایتی تھے جن کا اس حوالے سے مذکورہ قول بھی کافی مقبول ہے ’ہماری آزادی، فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‘۔ یہ صرف کوئی نعرہ نہیں تھا بلکہ اپنی پوری زندگی میں نیلسن منڈیلا نے اخلاقی اور مادی بنیادوں پر ان کی حمایت کی بات کی بالکل اسی طرح، جس طرح پی ایل او اور فلسطینیوں نے ہر موقع پر سیاہ فام جنوبی افریقی لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔
نتیجتاً جب بات نیلسن منڈیلا اور افریقی نیشنل کانگریس کو پسپا کرنے کی آئی تو اسرائیلی لابی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسرائیل کی حمایت یافتہ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ نے افریقی نیشنل کانگریس کو ’جابر، انسانیت مخالف، جمہوریت مخالف، اسرائیل مخالف اور امریکا مخالف‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکا نے بھی اس معاملے میں مکروہ کردار ادا کیا۔ شواہد سے ثابت ہوا کہ سی آئی اے نے نیلسن منڈیلا کی نقل وحرکت پر نظر رکھی اور معلومات جنوبی افریقہ کی نوآبادیاتی حکومت تک پہنچائی جس کے نتیجے میں انہیں گرفتاری کے بعد 27 سال قید میں گزارنے پڑے۔ نیلسن منڈیلا 2008ء تک امریکا کے مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں شامل تھے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ جنوبی افریقی قوم جس نے تسلط اور ناانصافی کا سامنا کیا اب وہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو قاتل اور قابض قوت کے شکنجے سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔
ضرار کھوڑو   یہ مضمون 15 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
پاکستان کا سیاسی اور معاشی ماڈل
Tumblr media
سیاسی ماڈل ہو یا معاشی اس کی بنیاد محض جذباتیت اور روایت نظام کے تحت نہیں ہونی چاہیے۔ نظام کی کامیابی کی کنجی ایک گہری یا تدبر پر مبنی سوچ کا تقاضہ کرتی ہے۔ آج کی دنیا کے جدید ترقی کے سیاسی اور معاشی ماڈل کو بنیاد بنا کر ہی ہم مستقبل کی تعمیر نو کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں اور خود کو دنیا کے ساتھ جوڑ کر نئے سیاسی اور معاشی امکانات کو پیدا بھی کرسکتے ہیں۔ سیاسی تنہائی اور روایت سوچ کو بنیاد بنا کر جو بھی ترقی کے ماڈل کو اختیار کرے گا اسے دونوں سیاسی و معاشی محاذ پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اصل نقطہ مسائل کی درست نشاندہی اور آگے بڑھنے کے لیے درست تجزیہ، منصوبہ بندی اور عملدرآمد کا شفافیت سے جڑا نظام ہوتا ہے۔ اداروں کے مقابلے میں فرد واحد کو بنیاد بنا کر ترقی کے نقشے بنانا یا اس میں رنگ بھرنے کی مشق کوئی پائیدار نتیجہ نہیں دے سکے گی۔ یہ جو جذباتیت کے ساتھ ساتھ نعرے بازیوں سمیت خوش نما نعروں اور دعوؤں کی بنیاد پر ریاستیں نہیں بدلتیں بلکہ آگے بڑھنے کی جستجو کے ساتھ ساتھ دانش اور حکمت سمیت دنیا سے کچھ سیکھ کر آگے بڑھنے کا عمل بھی ضروری ہوتا ہے۔ 
حالیہ دنوں میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسائن کا ایک تجزیاتی مضمون یو این ڈی پی کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے معاشی ماڈل اور نئے امکانات و خدشات کے تناظر میں شایع ہوا ہے۔ اس مضمون کا بنیادی نقطہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کا معاشی سطح کا جو ماڈل ہے وہ ساتھی ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ اس معاشی ماڈل کے نتیجے میں پاکستان میں غربت اور معاشی سطح کی ناہمواریاں بہت بڑھ رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں جن چند نکات کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود، قرضوں کی لاگت اور آمدنی کے ذرایع پائیدار نہیں، افراد اور انفرااسٹرکچر کی ترقی پر خرچ کا محدود ہونا، اصلاحات کے نظام میں رکاوٹیں ، زرعی اور توانائی کے شعبوں کی خرابیوں ، عدم کاروباری ماحول کا نہ ہونا اور بالخصوص چھوٹے کاروبار کے لیے مواقع کی کمی، حکومتی اخراجات میں کمی یا اصلاحات کا نہ ہونا اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے مسائل شامل ہیں۔ بنیادی طور پر ہماری داخلی یا عالمی سطح سے جب بھی سیاسی اور معاشی بحران کو بنیاد بنا کر کئی رپورٹس یا تجزیاتی بنیادوں پر اسی طرح کے خدشات و امکانات کے پہلوؤں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ 
Tumblr media
کیونکہ آج کی عالمی دنیا میں ہمیں تنہائی کی بنیاد پر نہیں دیکھا جاتا اور جو کچھ بھی یہاں ہورہا ہے اس پر عالمی دنیا کی نہ صرف آنکھیں کھلی ہوتی ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کئی شکلوں میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس پر ہم کو بلاوجہ کا غصہ دکھانے کے بجائے سوچ بچار کرنا چاہیے کہ ہم سے داخلی محاذ پر کیا ایسی غلطیاں ہورہی ہیں جو ہمارے سیاسی اور معاشی سطح پر اشاریوں کو چیلنج کررہے ہیں اور دنیا بھی اور داخلی علمی و فکری پہلو بھی سوالات کو اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ہمارا سیاسی بیانیہ معاشی مسائل سے جڑے معاملات کی کوئی عکاسی نہیں کررہا۔ نہ تو سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی معاشی سطح کا مربوط بیانیہ ہے اور نہ سیاسی جماعتیں ہی معاشی مسائل کو بنیاد بنا کر کوئی انتخابی منشور پیش کرسکی ہیں۔ جو بیانیہ ہے یا جن کو بنیاد بنا کر انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اس میں غیر حقیقی سیاسی و معاشی مسائل، جذباتیت کی سیاست، الزام تراشیوں سے جڑی نظر آتی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ہمیں بطور ریاست کسی بھی قسم کے معاشی بحران کا سامنا نہیں ہے۔
مسئلہ محض معیشت کی بدحالی یا برے اشاریوں یا مستقبل کے امکانات میں کمزور پہلوؤں کا ہی نہیں بلکہ ہم بطور ریاست سیاست، جمہوریت یا معیشت سمیت سیکیورٹی یا ادارہ جاتی بحران میں کہیں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے بحران کی نوعیت سیاسی یا معاشی کے ساتھ ساتھ ریاستی بحران کا بھی ہے جہاں مختلف اداروں کے درمیان بداعتمادی اور ٹکراؤ کا ماحول ہے۔ ریاست لانگ ٹرم منصوبوں یا بہت گہرائی کو بنیاد بنا کر مسائل کے حل کی تلاش میں غیر سنجیدہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایک ردعمل کی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم نے فوری طور پر معاملات میں خود کو اتنا الجھا دیا ہے کہ دور تک دیکھنے یا دور تک دیکھ کر منصوبہ بندی ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ہم یا تو سب ہی کچھ جانتے ہیں کہ ہماری ناکامیوں کی کیا وجوہات ہیں اور ہم خود کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے یا واقعی ہم میں سوچنے اور سمجھنے سمیت صلاحیتوں کا عملی فقدان ہے جو ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایک بنیادی نقطہ کہ کیا سیاست کو بہتر بنائے بغیر یا ریاستی نظام میں بنیادی تبدیلیوں یا اصلاحات یا ایک بھاری بھرکم اسٹراکچرل تبدیلیوں کے بغیر ہم معاشی ترقی کے عمل کو ممکن بناسکیں گے۔
مسلسل سیاسی عدم استحکام، کمزور سیاسی حکومتیں، غیر جمہوری نظام کو جمہوری نظام کی شکل دے کر ہائبرڈ جمہوری نظام یا کنٹرولڈ نظام کو قائم کرنا، سیاسی، نیم سیاسی یا غیر سیاسی آمریتوں کو فروغ دینا ، سیاسی نظام کے تسلسل سے جڑے مسائل ، سیاسی قیادتوں کا خود غیر جمہوری ہونا یا جمہوریت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا جنون، قومی سطح پر اداروں کی خودمختاری کو چیلنج کرنا اور آئین و قانون کے مقابلے میں مخصوص افراد یا اداروں کی فیصلوں پر بالادستی، جوابدہی، نگرانی سمیت احتساب یا شفافیت کا غیر موثر نظام ، بھاری بھرکم سیاسی و انتظامی ڈھانچوں یا غیر موثر اور غیر شفاف حکمرانی یعنی گورننس کا بحران اور عدالتی سطح یا بیوروکریسی میں عدم اصلاحات کے بغیر آگے بڑھنے کی خواہش ہمیں کچھ نہیں دے سکے گی۔ سیاست اور معیشت کی ترقی کا باہمی تعلق اور ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کا عمل ہی ہماری مجموعی ��رقی کی کنجی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم سیاسی نظام کو پس پشت ڈال کر معاشی ترقی کے عمل میں شریک ہو سکتے ہیں ،غلط تصور ہے۔
اسی طرح جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سخت اور ناگزیر اصلاحات کو نظر انداز کر کے یا اسٹراکچرل یا ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر کچھ کر سکیں گے وہ بھی غلط سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارا مجموعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کو داخلی محاذ پر نئی تبدیلیوں کے ساتھ جوڑنا نہیں چاہتے۔ ہماری سیاست ہو یا معیشت ہمارا بڑا انحصار عالمی دنیا سے ملنے والی سیاسی سطح کی یا معاشی سطح کی امداد سے جڑا ہوتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سیاسی اور معاشی امداد سے ہم آگے بڑھ سکیں گے، حالانکہ نہ تو ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ہم پر عالمی دنیا کے فیصلوں کی بالادستی ہو گئی ہے اور ہماری خود مختاری یا سلامتی کو بھی خطرات رہتے ہیں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی اور معاشی ترقی کا ایک ہی بڑا اشاریہ ہوتا ہے اور وہ عام آدمی یا افراد کی ترقی ہوتی ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ یہاں صرف غربت بڑھ رہی ہے یا معاشی ناہمواریاں بڑھ رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں داخلی سیاسی و معاشی انتشار ایک بڑی بدامنی، انتہا پسندی یا شدت پسندی کی صورت میں ریاستی نظام کو اور زیادہ کمزور کررہا ہے۔
لوگوں میں ریاستی و حکومتی نظام پر شدید نوعیت کے تحفظات ہیں اور یہ عمل ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ ہمارا حکومتی ماڈل ہو یا انتظامی، سیاسی، معاشی اور قانونی ماڈل ایک بڑے بھاری بھرکم ماڈل کے طور پر موجود ہے جو ریاستی و حکومتی نظام پر ایک بڑے معاشی بوجھ کی عکاسی کرتا ہے۔ فرسودہ اور روایت یا پرانے خیالات کی بنیاد پر نظام کو چلانے کی خواہش ہمیں مسلسل پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ یعنی ہم جدیدیت کی طرف اور عالمی ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں جب کہ عمل ہمارا کچھ بڑا نہ کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے سیاسی طبقہ نے پورے ریاستی و حکومتی نظام کو اپنے مفادات کے تابع کیا ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ حکومتی سطح پر کمزوری اور عام آدمی کی سنگین نوعیت کی مشکلات کی صورت میں دیکھنا پڑرہا ہے۔ اس لیے اگر ہم واقعی کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس میں خود کو تبدیل کرنے سمیت پورے ریاستی و حکومتی نظام میں مثبت تبدیلیاں ہیں تو ہمیں اپنے موجودہ طرزعمل اور فیصلوں سے کھل کر بغاوت کی ضرورت ہے۔ ہمیں سیاسی اور معاشی محاذ پر ایک متبادل ترقی کا ماڈل درکار ہے جو موجودہ فرسودہ نظام سے بالکل مختلف ہونا چاہیے اسی میں ہمارا قومی مفاد جڑا ہوا ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes