مولانا مودودی کی رائے میں قصاص کی حقیقت
مولانا مودودی لکھتے ہیں:
اس سے بدرجہا غیر آئینی طرزِ عمل دوسرے فریق یعنی حضرت معاویہؓ کا تھا جو معاویہ بن ابی سفیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شام کے گورنر کی حیثیت سے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے اُٹھے، مرکزی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا، گورنری کی طاقت اپنے مقصد کے لیے استعمال کی اور مطالبہ یہ بھی نہیں کیا کہ حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دیں بلکہ یہ کہا کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ خود انہیں قتل کریں۔ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو وزٹ کریں:
۱۔ جب حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا تو مختلف طبقات کے لوگ حضرت علیؓ کے پاس آتے رہے کہ آپ بامِ خلافت سنبھال لیں لیکن آپؓ مسلسل انکار فرماتے رہے۔ حضرت علیؓ کے پاس صحابہؓ سے پہلے باغی آئے تھے کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے آپؓ کو ڈرایا دھمکایا لیکن آپؓ نے خلافت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ طبری لکھتے ہیں:
جب حضرت عثمانؓ شہید کر دیئے گئے تو قاتلین جمع ہو کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچے۔ اس وقت حضرت علیؓ مدینہ کے بازار میں تھے۔ ان لوگوں نے حضرت علیؓ سے کہا ’’اپنا ہاتھ پھیلائیے، ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔‘‘ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو وزٹ کریں:
اس کائنات میں موجود ہر شے خواہ جاندار ہو یا بے جان ،ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں موجود زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، سیارے،حیوان الغرض ہر ایک چیز اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح انسان کو فقر کی امانت اور اللہ کی نیابت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو وزٹ کریں:
بمطابق حدیث مجدد ہر صدی کے شروع میں ظاہر ہوتا ہے اور دین محمدی کو موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ مجدد کی کاوشیں مخلوق کے ماننے پر موقوف نہیں جیسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی حقیقی پہچان بطور فنا فی اللہ بقاباللہ فقیر ولی اللہ زمانے کو تب ہوئی جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو امانتِ الٰہیہ منتقل ہوئی وگرنہ اس سے قبل انہیں صرف ایک صوفی شاعر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا قول کہ میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹیں گے اور دنیا بھر میں پھیل جائیں گے دراصل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مجدد ہونے کی دلیل ہے۔ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
حقیقی خوشی کی تعریف ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں ہم نہ صرف مسرت و اطمینان اور مثبت جذبات محسوس کرتے ہیں بلکہ ہماری زندگی معیاری اور بامقصد ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مقصد ِ حیات کے حصول کا نام خوشی ہے اور اس کا متلاشی ہر انسان ہے۔ خوشی د و طرح کی ہے:
مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو وزٹ کریں:
بمطابق حدیث مجدد ہر صدی کے شروع میں ظاہر ہوتا ہے اور دین محمدی کو موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ مجدد کی کاوشیں مخلوق کے ماننے پر موقوف نہیں جیسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی حقیقی پہچان بطور فنا فی اللہ بقاباللہ فقیر ولی اللہ زمانے کو تب ہوئی جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو امانتِ الٰہیہ منتقل ہوئی وگرنہ اس سے قبل انہیں صرف ایک صوفی شاعر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا قول کہ میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹیں گے اور دنیا بھر میں پھیل جائیں گے دراصل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مجدد ہونے کی دلیل ہے۔ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔جن میں سے ایک عظیم نعمت دینِ اسلام اور اللہ تک پہنچنے کازینہ ہے۔ اس کے مختلف درجات ہیں۔دینِ اسلام کا مکمل نفاذ احکامِ شرعیہ کی کامل پابندی کی بدولت ہی ممکن ہے۔ ان احکامات کی پابندی سے بندۂ مومن اپنی ذات، ساخت اور باطن کو سنوارتا اور نکھارتاہے۔
شریعت اور فقر اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کو پانے کے لیے ایک ہی راستے کی طرف رجوع کرنے کا نام ہے۔
مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔