بِچھڑتے دامنوں میں پُھول کی کُچھ پتیاں رکھ دو
تعلق کی گہرائی میں تھوڑی سی نرمیاں رکھ دو
بھٹک جاتی ہیں تُم سے دُور چہروں کے تعاقب میں
جو تُم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی اُنگلیاں رکھ دو
برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے
ابھی کُچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو
دُھواں سگرٹ کا، بوتل کا نشہ سب دُشمنِ جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو
بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹُوٹ کر ملنا
کوئی بڑھتی ہوئی دُوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو
نقوشِ خال و خد میں دِل نوازی کی ادا کم ہے
حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو
ہمیں پر ختم کیوں ہو داستانِ خانہِ ویرانی
جو گھر صحرا نظر آئے تو اُس میں بِجلیاں رکھ دو
زبیرؔ رضوی
13 notes
·
View notes
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ...
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
― فیض احمد فیض
1 note
·
View note
اُس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
رنگ دیکھو غریب خانے کا
25 notes
·
View notes
چل انشاء اپنے گاؤں میں
یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت
پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا
جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مُفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سُکھ والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
43 notes
·
View notes
اس بستی کے اک کوچے میں
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
اک نار پہ جان کو ہار گیا مشہور ہے اس کا افسانا
اس نار میں ایسا روپ نہ ��ھا جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
نا چنچل کھیل جوانی کے نا پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے بے حاصل سا بے حاصل تھا
اک زور بپھرتے ساگر میں نا کشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
اک روز مگر برکھا رت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیئے یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی 'مجبوری ساجن مجبوری'
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا سب اپنوں کو بیگانوں کو
'کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
اب آگے کا تحقیق نہیں گو سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اس کو بلوایا کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات یہ قصہ پاک کیا کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشا نام کا دیوانا
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں تم ہم کو کہانی کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے یہ اپنی کتھا ہو ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
16 notes
·
View notes
For a tough kid I had a bad habit of getting attached to people.
4 notes
·
View notes
Don’t fight darkness. Bring the light, and darkness will disappear.
- Mahesh Yogi
15 notes
·
View notes
پتھر بن کر بیٹھا ہے جو پتھر پھینکا کرتا تھا
کم ظرفی کے تانے میرے دل پر پھینکا کرتا تھا
کہتے ہیں یہ تارے پہلے صحرائوں میں ملتے تھے
ایک دیوانہ پاگل مجنوں اوپر پھینکا کرتا تھا
اس کا چہرہ آنکھوں میں آجاتا سب تھم جاتا تھا
پھر میں جھیل کے پانی میں کچھ کنکر پھینکا کرتا تھا
رضا اصیل
20 notes
·
View notes
The impossible could not have happened, therefore the impossible must be possible in spite of appearances.
- Murder on the Orient Express
6 notes
·
View notes
If you retain nothing else, always remember the most important rule of beauty, which is: who cares?
Tina Fey
8 notes
·
View notes