Tumgik
#ہائی
apnibaattv · 2 years
Text
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج کیس کے خلاف ریمارکس میں عمران خان کو 7 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج کیس کے خلاف ریمارکس میں عمران خان کو 7 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ۔ – IHC ویب سائٹ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اتوار کو اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ایک عوامی جلسے کے دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری اور پولیس افسران کے خلاف متنازعہ ریمارکس دینے پر اپنے خلاف دائر مقدمے میں حفاظتی ضمانت حاصل کر لی۔ پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے عمران خان کی جانب سے درخواست اسلام آباد کے مارگلہ پولیس اسٹیشن کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
حریم شاہ کی شوہر کے ہمراہ متنازع ویڈیو وائرل؛ صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا
پاکستان کی مشہور ٹک ٹاکر و اداکارہ حریم شاہ کی شوہر بلال شاہ کے ہمراہ متنازع ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ اداکارہ کی جانب سے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے۔ ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حریم شاہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے قبل حریم شاہ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ وائرل ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا…
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
لاہور میں نہر کے قریب بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر پر ایل ڈی اے سے جواب طلب
لاہور میں نہر کے قریب بلند و بالا عمارات کی تعمیرات کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر ایل ڈی اے سے جواب طلب کر لیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے وقاص محمود بٹ کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں پنجاب حکومت،ضلعی حکومت لاہور،ایل ڈی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نہر کے قریب بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر قانون کی خلاف ورزی ہے،نہر آثار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
پختونخوا انتخابات کیلیے گورنر کو جواب جمع کرانے کی آخری مہلت
پشاور( عکس آن لائن) ہائی کورٹ نے صوبائی انتخابات کے سلسلے میں گورنر پختونخوا کو جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دے دی۔90 روز میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس ارشد علی نے کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز،شوکت یوسفزئی،شاہ فرمان اور عاطف خان عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے گورنر کو جواب جمع کرنے کے…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
newstimeurdu · 2 years
Text
سپریم کورٹ : ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرنیوالے افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد
سپریم کورٹ : ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرنیوالے افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تبادلے اور تقرریاں روکنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے حکومتی شخصیات کی جانب سےتحقیقات میں مداخلت پرازخودنوٹس کی سماعت کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن تحقیقات برانچ کے اندر تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو بھی تاحکم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 22 days
Text
ویجائنہ کا سوراخ تنگ ہونا
.
نئی نویلی دلہنیں لڑکیوں کے ویجائنہ کا سوراخ تنگ ہونا یا چھوٹا ہونا orifice of the vagina , اینٹھن, زکی الحس, جماع ناممکن ہو, کیا ہے؟
.
Tumblr media
اس مرض میں اندام نہانی کے عضلات کھچ کر سخت ہو جایا کرتے ہیں, اور یہ شرم گاہ ایسی ذکی الحس حساسیت ہو جاتی ہے کہ بوقت مباشرت سخت تکلیف ہوتی ہے بلکہ مجامعت محال ہو جاتی ھے, دخول نہیں ہو سکتا عورت کو بے حد تکلیف ہوتی ہے سوراخ ہائی مین سر ویکس کا تنگ ہوتا ہے, کچھ لڑکیوں میں پیدائشی طور پر ویجائنہ فرج کا سوراخ (Orifice of the Vagina) تنگ ہوتا ہے جس کے اسباب میں رحم کی دیرینہ سختی, پردہ بکارت یا جھلی کا سخت اور موٹا ہونا یا بے سوراخ ہونا, خشکی بدن, ورم, ہارمون اور گروتھ عورت ٹرو پیلویس مکمل نہیں ہوئی ہوتی, اس میں ماہواری بھی کم اور تکلیف سے آتی ہے
.
Tumblr media
ایسے حالات کا سامنا اکثر شادی کرنے پر ہوتا ہے, یا نفسیاتی پہلو بھی کارفرما ہوتا ہے, یا پسند نہ پسند محرکات کار ہوتے ہیں, حساسیت خفیف سی چھوت سے بھی عضلات میں انیٹھن ہو کر سکڑ جاتے ہیں, کہیں اس میں عورت کی طرف سردمہری ٹھنڈک بھی اثرانداز ہوتی ہے, کبھی اندام نہانی میں زخم سوزش کبھی نئی نویلی دلہنیں بغیر کسی ظاہری سبب کے اس مرض تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہیں, کچھ اور مسائل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ملیحہ
Tumblr media
8 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
’’ مجھے بھی پتا ہے اور تم بھی جانتے ہو کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم اس واقعہ کی مذمت کرو گے، تحقیقات کا اعلان کرو گے مگر ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کہ یہ قتل تمہاری ناک کے نیچے ہی ہو گا۔ بس مجھے فخر ہے کہ میں نے سچ کے راستے کو نہیں چھوڑا۔‘‘ یہ طاقتور تحریر آج سے کئی سال پہلے جنوری 2009 میں سری لنکا کے ایک صحافی LASANTA WICKRAMATUNGA نے اخبار‘دی سنڈے لیڈر، میں اپنے قتل سے دو دن پہلے تحریر کی۔ بس وہ یہ لکھ کر دفتر سے باہر نکلا تو کچھ فاصلے پر قتل کر دیا گیا۔ اس کی یہ تحریر میں نے اکثر صحافیوں کے قتل یا حملوں کے وقت کے لیے محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے اداریہ میں اس وقت کے صدر کو جن سے اس کے طالبعلمی کے زمانے سے روابط تھے مخاطب کرتے ہوئے نہ صرف وہ پرانی باتیں یاد دلائیں جن کے لیے ان دونوں نے ساتھ جدوجہد کی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا،’’ میں تو آج بھی وہیں کھڑا ہوں البتہ تم آج اس مسند پر بیٹھ کر وہ بھول گئے ہو جس کے خلاف ہم دونوں نے ایک زمانے میں مل کر آواز اٹھائی تھی‘‘۔ 
مجھے ایک بار انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی طرف سے سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ صحافیوں کو درپیش خطرات پر تحقیق کر رہے تھے۔ یہ غالباً 2009-10 کی بات ہے وہاں کے حالات بہت خراب تھے۔ بہت سے صحافی ہمارے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کئی نے نامعلوم مقامات سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کی خبر آئی تو میری طرح بہت سے صحافیوں کے لیے یہ خبر نہ صرف شدید صدمہ کا باعث تھی بلکہ ناقابل یقین تھی۔ واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہےاس کا تو خیر پتا چل ہی جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کو ملک کیوں چھوڑ کر جانا پڑا؟ اس کی تحریر یا خیالات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر کیا کسی کو اس کے خیالات اور نظریات پر قتل کرنا جائز ہے۔ ہم صحافی تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔
ارشد نہ پہلا صحافی ہے جو شہید ہوا نہ آخری کیونکہ یہ تو شعبہ ہی خطرات کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک صحافی کا قتل دوسرے صحافی کے لیے پیغام ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی یوں ہے کہ بات ایک قتل پر آکر نہیں رکتی، ورنہ پاکستان دنیا کے تین سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہوتا جہاں صحافت خطرات سے خالی نہیں جب کہ انتہائی مشکل ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی کسی پاکستانی صحافی کا قتل ملک سے باہر ہوا ہو۔ ویسے تو پچھلے چند سال سے انسانی حقوق کے کچھ لوگوں کے حوالے سے یا باہر پناہ لینے والے افراد کے حوالے سے خبریں آئیں ان کے نا معلوم افراد کے ہاتھوں قتل یا پراسرار موت کی، مگر ارشد غالباً پہلا صحافی ہے جو اپنے کام کی وجہ سے ملک سے باہر گیا اور شہید کر دیا گیا۔ ہمارا ریکارڈ اس حوالے سے بھی انتہائ�� خراب ہے جہاں نہ قاتل پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزا ہوتی ہے۔ اکثر مقدمات تو ٹرائل کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ تحقیقاتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا۔ 
میں نے اس شہر میں اپنے کئی صحافیوں کے قتل کے واقعات کی فائل بند ہوتے دیکھی ہے۔ 1989 سے لے کر2022 تک 130 سے زائد صحافیوں کا قتل کراچی تا خیبر ہوا مگر تین سے چار کیسوں کے علاوہ نہ کوئی پکڑا گیا نہ ٹرائل ہوا۔ مجھے آج بھی کاوش اخبار کے منیر سانگی جسے کئی سال پہلے لاڑکانہ میں با اثر افراد نے قتل کر دیا تھا کی بیوہ کی بے بسی یاد ہے جب وہ سپریم کورٹ کے باہر کئی سال کی جدوجہد اور انصاف نہ ملنے پر پورے کیس کی فائلیں جلانے پہنچ گئی تھی۔ میری درخواست پر اس نے یہ کام نہیں کیا مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست کے سوا، مگر اسے انصاف نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہمارے ایک ساتھی حیات اللہ کی ہاتھ بندھی لاش اس کے اغوا کے پانچ ماہ بعد 2005 میں ملی تو کیا ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنا۔ 
اس کی بیوہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بیان دیا اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا جواس کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ وہ بھی مار دی گئی۔ میں نے دو وزرائے داخلہ رحمان ملک مرحوم اور چوہدری نثار علی خان سے ان کے ادوار میں کئی بار ذاتی طور پر ملاقات کر کے درخواست کی کہ کمیشن کی رپورٹ اگر منظر عام پر نہیں لاسکتے تو کم ازکم شیئر تو کریں مگر وہ فائل نہ مل سکی۔ صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک نجی چینل پر پروگرام کرنے گیا تھا واپس نہیں آیا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے قریب پیش آیا۔ صبح سویرے اس کی بیوہ نے مجھے فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس پر بھی ایک عدالتی کمیشن بنا اس نے ایک مفصل رپورٹ بھی تیار کی اور ٹھوس تجاویز بھی دیں مگر بات اس سے آگے نہیں گئی۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کروں مگر صحافت کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ناظم جوکھیو مارا گیا مگر قاتل با اثر تھے سیاسی سرپرستی میں بچ گئے بیوہ کو انصاف کیا ملتا دبائو میں ایک غریب کہاں تک لڑ سکتا ہے۔
ہر دور حکومت میں ہی صحافی اغوا بھی ہوئے، اٹھائے بھی گئے دھمکیاں بھی ملیںاور گمشدہ ہوئے پھر کچھ قتل بھی ہوئے سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامعلوم کون ہیں پھر بھی حکمران اپنی حکومت بچانے کی خاطر یا تو بعض روایتی جملے ادا کرتے ہیں یا خود بھی حصہ دار نکلتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں محترمہ شیریں مزاری کی کاوشوں سے ایک جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا تھا۔ ایسا ہی سندھ اسمبلی نے بھی قانون بنایا ہے۔ اب اسلام آباد کمیشن کے سامنے ارشد شریف کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ سندھ کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی فوری اعلان کا منتظر ہے۔ اتنے برسوں میں صحافیوں کے بہت جنازے اٹھا لیے ، حکومتوں اور ریاست کے وعدے اور کمیشن بھی دیکھ لیے۔ انصاف کا ترازو بھی دیکھ لیا، اب صرف اتنا کہنا ہے؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے   مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
pakistantime · 2 years
Text
یہ والا انصاف بھی نہ ملا تو؟
قتل تو خیر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ شاہ رخ جتوئی چونکہ ایک امیر کبیر اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ مقتول شاہ زیب ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ لہذا ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے طفیل یہ مقدمہ ابتدا ہی سے ہائی پروفائل بن گیا۔ اور پھر ملزمان کو قواعد و ضوابط کے برخلاف جیل کے اندر اور باہر رہائش و علاج معالجے کی، جو خصوصی سہولتیں فراہم کی گئیں، ان کے سبب بارہ برس کے دوران قتل سے سزائے موت اور سزائے موت کے عمر قید میں بدلنے اور پھر حتمی طور پر بری ہونے تک یہ مقدمہ کبھی بھی میڈیا اور عوامی یادداشت سے محو نہیں ہو سکا۔ عدالتِ عظمی کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر یہ فیصلہ نظامِ انصاف کے جسد پر مزید سوالیہ نیل چھوڑ گیا ہے۔ اتنے سوال کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی ریاست کے نمائندہ اٹارنی جنرل نے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی دائر کر دی۔ یقیناً ملزموں کی بریت کا فیصلہ عدالت کے روبرو پیش کردہ قانونی حقائق کی روشنی میں ہی ہوا ہو گا۔ مگر بقول شیسکپئیر، ”ریاستِ ڈنمارک میں کچھ تو ہے جو گل سڑ چکا ہے‘‘ (ہیملٹ)۔
کہتے ہیں انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ عملاً اس جملے کا پہلا نصف حصہ ہی اس وقت ریاستِ پاکستان پر منطبق ہے۔ مجھ جیسے لاکھوں شہریوں کا جی چاہتا ہے کہ اپنے نظامِ انصاف پر اندھا یقین کر سکیں مگر جب یہ لگنے لگے کہ انصاف اندھا نہیں بھینگا ہے تو اپنے وجود پر بھی اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ ایسا ملک، جہاں نہ اینگلو سیکسن قانون خالص ہے، نہ ہی شرعی قوانین اپنی روح کے ساتھ نافذ ہیں اور نہ ہی غیر رسمی جرگہ نظام اکسیویں صدی کا ساتھ دے پا رہا ہے۔ وہاں لا اینڈ آرڈر دراصل لیگل انارکی کا مہذب نام محسوس ہوتا ہے۔ اب تو فن ِ قیافہ اس معراج تک پہنچ چکا ہے کہ وارادت کی خبر میں کرداروں کے نام اور سماجی حیثیت دیکھ کے ہی دل گواہی دے دیتا ہے کہ کس مجرم کو زیادہ سے زیادہ کیا سزا ملے گی اور کون سا خونی کردار تمام تر روشن ثبوتوں کے باوجود آنکھوں میں دھول جھونکے بغیر صاف صاف بچ نکلے گا۔
بھلا ایسا کتنے ملکوں میں ہوتا ہو گا کہ دو بھائیوں ( غلام سرور اور غلام قادر ) کی سزائے موت کی توثیق ہائی کورٹ کی سطح پر ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے نظرِ ثانی کی اپیل زیرِ سماعت ہو اور سپریم کورٹ، جب ان ملزموں کو بے گناہ قرار دے دے، تب اس کے علم میں آئے کہ دونوں کو تو چند ماہ پہلے پھانسی دی بھی جا چکی ہے۔ ایسا کہاں کہاں ہوتا ہے کہ ایک چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کے تحت اقتدار پر غاصب کا قبضہ قانونی قرار دے دے اور لگ بھگ ساٹھ برس بعد ایک اور چیف جسٹس نظریہِ ضرورت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کا اعلان کر دے۔ یہ بھلا کس کس ریاست میں ہوتا ہے کہ ایک غریب مقتول کے ورثا ایک طاقت ور قاتل کو ”اللہ کی رضا‘‘ کی خاطر معاف کر دیں۔ تاہم کوئی ایسی مثال ڈھونڈھے سے بھی نہ ملے کہ کسی طاقتور مقتول کے ورثا نے کسی مفلوک الحال قاتل کو بھی کبھی ”اللہ کی رضا‘‘ کے لیے معاف کر دیا ہو۔ 
شاید یہ بھی اسی دنیا میں کہیں نہ کہیں تو ہوتا ہی ہو گا کہ ایک معزول وزیرِ اعظم ( بھٹو ) کو قانون کے مطابق مقدمہ چلا کے پھانسی دے دی جائے مگر پھانسی کے اس فیصلے کو قانونی نظائر کے ریکارڈ میں شامل نہ کیا جائے اور پھر اسی عدالت کا ایک جج وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ اعتراف بھی کر لے کہ ہم پر اس فیصلے کے لیے بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اور پھر کوئی بھی آنے والی حکومت تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے اس مقدمے کے ری ٹرائل کی درخواست دائر کرنے سے بھی ہچکچاتی رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت کا کوئی جج آئین کی ایک شق کی تشریح کے فیصلے میں یہ لکھ دے کہ پارٹی صدر کے فیصلے کی پابندی اس پارٹی کے ہر رکنِ اسمبلی پر لازم ہے بصورتِ دیگر وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور پھر وہی جج کچھ عرصے بعد بطور چیف جسٹس اپنے ہی سابقہ فیصلے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے یہ کہے کہ دراصل پارٹی صدر کے بجائے ارکانِ اسمبلی پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔
اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دے کہ ایک جج سے اگر پہلے فیصلے میں غلطی ہو جائے تو اسی نوعیت کے کسی اور مقدمے میں ��ہ اپنی سابقہ غلطی کو درست کرنے کا مجاز ہے۔ یہ روزمرہ گفتگو کتنے ملکوں کی زیریں عدالتوں کی غلام گردشوں میں ہوتی ہو گی کہ مہنگا وکیل کرنے کے بجائے ”مناسب جج‘‘ مل جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس وقت پاکستان کی تمام عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات سماعت یا فیصلوں کے منتظر ہیں مگر سیاسی نوعیت کے مقدمات ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت اور شہرت لے اڑتے ہیں۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے یہ تجویز بھی بارہا پیش کی گئی کہ آئینی نوعیت کے مقدمات نمٹانے کے لیے علیحدہ اعلی آئینی عدالت قائم کر دی جائے تاکہ لاکھوں فوجداری مقدمات کی بلا رکاوٹ سماعت ہو سکے۔ مگر یہاں تو روایتی عدالتوں کے ججوں کی آسامیاں کبھی پوری طرح نہیں بھری جا سکیں چے جائیکہ ایک اور اعلی عدالت قائم ہو سکے۔ چنانچہ اب عوامی سطح پر یہ کہہ کے صبر کر لیا جاتا ہے کہ جیسا کیسا ہی انصاف سہی، مل تو رہا ہے، یہ بھی نہ ملا تو کیا کر لو گے؟
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں (اقبال)
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو  
1 note · View note
apnibaattv · 2 years
Text
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی
اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کی عمارت۔ – IHC ویب سائٹ اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے ہفتہ کو پی ٹی آئی کی سینئر نائب صدر شیریں مزاری کی ملک سے بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کردی۔ IHC کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آج درخواست ناقابل سماعت ہونے کی وجہ سے خارج کر دی۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے جمعرات کو درخواست اس وقت دائر کی جب ان کی پارٹی کے ساتھی شہباز گل پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
عمران ریاض کی گرفتاری؛ اسلام آباد ہائی کورٹ ایک دفعہ پھر رات کو کھل گئی
عمران ریاض کی گرفتاری؛ اسلام آباد ہائی کورٹ ایک دفعہ پھر رات کو کھل گئی
اینکر پرسن عمران ریاض خان کی گرفتاری کا معاملہ، اسلام آباد ہائی کورٹ دائری برانچ کا عملہ کورٹ پہنچ گیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران ریاض خان کے وکلا نے توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عالیہ نے عمران ریاض خان کو گرفتار کرنے سے روکا ہوا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نامے کے باوجود عمران ریاض خان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 4 months
Text
شدید دھند کے باعث نیشنل ہائی وے پر 14 گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، ایک شخص جاں بحق
پتوکی میں نیشنل ہائی وے پر شدید دھند کے باعث 14 گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جب کہ 12 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ نیشنل ہائی وے پر شدید دھند کے باعث بھونیکی موڑ اور پھولنگر میں 14 گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں جس کے بعد ایک گاڑی میں آگ بھی بھڑک اٹھی، حادثے میں ایک شخص جاں بحق جب کہ 12 افراد شدید زخمی ہوئے۔ ریسکیو کی امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو طبی امداد کے اسپتال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 1 year
Text
ایک معاملے پر ملک بھر میں مقدمات درج کرانے کا ٹرینڈ شروع ہوگیا ہے، عدالت اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کرے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ
ایک معاملے پر ملک بھر میں مقدمات درج کرانے کا ٹرینڈ شروع ہوگیا ہے، عدالت اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کرے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ایک معاملے پر ملک بھر میں مقدمات درج کرانے کا ٹرینڈ شروع ہوگیا ہے، عدالت اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کرے گی،جاوید لطیف کی پریس کانفرنس پی ٹی وی پر نشر کرنے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے، سیکرٹری اطلاعات، ایم ڈی پی ٹی وی اور دیگر کی ہراساں کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
تھائی رائیڈ یا گُردوں کی خرابی، چمچ منہ میں رکھ کر صحت کا حال جاننے
تھائی رائیڈ یا گُردوں کی خرابی، چمچ منہ میں رکھ کر صحت کا حال جاننے
کچھ لوگ صحت کے معاملے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مرض کی علامات شدید ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے، اسی وجہ سے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ چمچ کے ذریعے گھر بیٹھے بیٹھے اپنی صحت کے بارے میں جان لیا جائے۔ اس طریقے سے آپ صرف ایک منٹ میں اپنی صحت اور بیماری کے بارے جان سکیں گے۔ طریقہ کار اس کے لئے صرف ایک اسٹیل کا چمچ درکار ہے۔ اسے منہ میں اچھی طرح لیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 2 months
Text
Can too much sex cause sperm death?
کیا بہت زیادہ سیکس سے سپرمز ختم یا مردہ ہوجاتے ہیں؟
Can too much sex cause sperm death?
اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو بہت زیادہ یا بہت کم سیکس کی کوئی تعریف یا پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ لوگ روزانہ سے لیکر ہفتے یا مہینے میں چند دفعہ تک سیکس کر سکتے ہیں۔ البتہ جیسے کہ پہلے بتایا گیا، سپرمز کی پیدائش اور پختگی کا ایک سائیکل 70 سے 80 دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے اگر بہت جلدی جلدی سیکس کیا جائے تو امکان ہے کہ سپرمز نا پختہ حالت میں ہی آنا شروع ہو جائیں۔ اس سے کچھ اور فرق تو نہیں پڑتا البتہ شادی شدہ اور اولاد کے خواہش مند افراد کے لیے حمل ٹھہرنے کے امکانات کچھ کم ہو سکتے ہیں ۔باقی یاد رکھیں بہت زیادہ سیکس یا مشتزنی سے سپرمز مردہ بالکل نہیں ہوتے،اور نہ ہی کوئی جسمانی بیماری ہوتی ہے ، لیکن سیمن ٹیسٹ میں sperm count کم ہو سکتا ہے، اس لیے سیمن ٹیسٹ کے لیے ڈاکٹر 3 سے 5 دن سیکس گیپ کا کہتے ہیں۔
Tumblr media
(یاد رکھیں مشتزنی سے بھی کوئی مردانہ کمزوری ، بانجھ پن ، کوئی جسمانی بیماری یا نفس کا اصل میں پتلا یا چھوٹا ہونا ، یہ سب بلکل نہیں ہوتا ، ہاں باقی کچھ لوگوں کو سٹریس ، تناؤ یا ہارمونز کی وجہ سے جنسی خواہش کی کمی، ہو سکتی ہے جس سے نفس میں مکمل تنائو نہیں آتا ،اور اس کا علاج بھی ہو سکتا ہے ، باقی ٹائمنگ کی کمی کو بھی مردانہ کمزوری نہیں کہا جا سکتا چاہے ٹائمنگ کچھ سیکنڈ کیوں نہ ہو ، اور نہ ہی منی کے پتلا ہونے سے مردانہ کمزوری یا بانجھ پن ہوتا ہے۔
Tumblr media
باقی ابھی تک مارکیٹ میں کوئی ایسی میڈیسن ،طلہ ، پھکی نہیں آئی جو عضو تناسل کو بڑا کر سکے ، جیسے 5 آنچ کو 6 یا 7 انچ کر سکے، لہذا عضو تناسل کو بڑا کرنے کی بے وقوفی کرنا چھوڑ دو ، باقی 3 انچ کے سائز سے بھی حمل ،اولاد ہو سکتی ہے اور عضو تناسل کا ایوریج م سائز تقریباً 5 انچ ہوتا ہے)
Tumblr media
باقی سپرمز مردہ ہونے کی درجنوں وجوہات اور بیماریاں ہوتی ہیں، جو مردانہ بانجھ پن کا سبب بنتی ہیں ، اگر کسی کو شادی کے ایک سال بعد بھی حمل نہ ہو رہا ہو تو پھر مردانہ بانجھ پن کی تشخیص اور علاج کےلئے ڈاکٹر سے رجوع کرے۔
مردانہ بانجھ پن کی وجوہات: جیسے کہ کروموسوم کی خرابی کا ہونا, وراثتی بانجھ پن کا مسلئہ ہونا، ہارمونز کا مسلئہ ہونا ، کن پیڑے , سوزاک,ذیابیطس, آتشک , شنگرف ,سینکھیا اور تانبہ کا استعمال کرنا , گردوں میں سوزش کا ہونا, varicocele کا ہونا ، ہائی پوٹینسی ادویات کا غلط استعمال کرنا ، مزید سگریٹ نوشی اور شراب بھی وجہ بن سکتی ہے اور تھرائڈ کا مسلئہ بھی اسکا سب بن سکتا ہے۔
Tumblr media
سپرمز کی نشو ونما کی بے قاعدگیاں:
(Sperm abnormalities)
1:اولیگو سپرمیا: (Oligospermia)
اس میں سپرمز کاؤنٹ 20 ملین سے بھی کم ہو جاتے ہیں ، جو نارمل 40 ملین سے زیادہ ہوتے ہیں، اولیگو سپرمیا کا علاج آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
Tumblr media
2:۔Pyospermia or leucocytospermia
اس کا مطلب سیمن ٹیسٹ میں پس ( pus cell) زیادہ ہوتی ہے، اسکی عموماً وجہ کوئی انفیکشنز ہو سکتا ہے۔
نارمل پس سیلز عموماً 2 سے 4 تک ہو سکتے ہیں۔ اس کا بھی میڈیکل علاج کیا جا سکتا ہے۔ ( اگر کسی مریض کے پس سیلز زیادہ ہوں جیسے 20 اور میڈیسن سے فائدا نہ ہو رہا ہو تو پھر semen culture and sensitivity test کیا جا سکتا ہے، کچھ مریضوں میں پس سیلز کا علاج مشکل بھی ہو سکتا ہے)
Tumblr media
۔3:Asthenospermia یعنی سپرمز کی حرکت کرنے کی صلاحیت (motility) کم ہونا۔ نارمل سپرم موٹیلیٹی تقریباً 60 پرسنٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔
اس کا بھی علاج ممکن ہے۔اس میں مریض کو سپرمز کو تقویت پہنچانے والی ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں۔وٹامنز سپلیمنٹ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
Tumblr media
۔Teratozoospermia:4 ایک ایسی حالت ہے جس کی خصوصیت غیر معمولی سپرم مورفولوجی سے ہوتی ہے۔ جیسے بہت زیادہ سپرم کا سائز، شکل یا ساخت غلط ہو سکتی ہے۔ سپرم سیل کے سر، مڈ پیس، یا دم میں خرابی شامل ہوسکتی ہے۔ اس کی نارمل تعداد 4 پرسنٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسکا علاج بھی مشکل ہو سکتا ہے۔
Tumblr media
5:ایزو سپرمیا: (Azospermia)
اس میں سپرمز بالکل نہیں بنتے۔ علاج بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر محض چانس لے کر علاج شروع کراتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے Azospermia کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے۔ایسے مریضوں کے لیے زیادہ تر ڈاکٹرز IVF یعنی In vitro fertilization جیسے پروسیجر کے ذریعے حمل ہونے کا کہتے ہیں.
Tumblr media
آخری ہدایت یہ ہے کہ جنسیات سے متعلق کسی بھی مسلے کی صورت میں خود سے کوئی دوائی استعمال نہ کریں، کیونکہ سیلف میڈیکیشن کرنے کے فائدے کی بجائے بہت سے سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔ بلکہ تشخیص اور علاج کےلئے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔لہذا ٹوٹکوں اور سیلف میڈیکیشن سے پرہیز کریں۔کیونکہ میڈیکل علاج ہر مریض میں مختلف ہوتا ہے۔
سب سے پہلے خرابی کو سمجھیں !!
لیبارٹری ٹسٹ کروائیں۔کہ مسلہ کیا ہے
سپرمز کی کمی ہے،یا بن نہی رہے یا کمزور ہیں،یا بیمار ہیں یا بن کے مر رہے ہیں۔باقی Urologist یا Endocrinologist ڈاکٹر اس فیلڈ کے ماہر ہوتے ہیں۔
Tumblr media
3 notes · View notes
jhelumupdates · 1 day
Text
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس موبائل ایجوکیشن یونٹ سیکٹر این فائیو نارتھ ٹو کا سیمینار کا انعقاد
0 notes