گڈ لک ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
مکمل کہانی
فوزیہ باجی کے گھر کام کرتے تیسرا سال تھا۔
جب یہاں آیا تھا تو کم عمر لڑکا تھا۔ اب اچھی خاصی مسیں بھیگ چکی تھیں۔
بچپن کی معصومیت رخصت ہو گئی تھی اور چہرے پر مردانہ کشش جگہ بنا رہی تھی۔
عام طور پر بنگلوں میں گھریلو کاموں کے لیے لڑکیاں ملازم رکھی جاتی ہیں لیکن فوزیہ باجی کی سمجھ داری تھی کہ وہ مجھ سے باہر کے کام سودا سلف ، گاڑی کی صفائی وغیرہ کے ساتھ برتن کپڑے گھر کی جھاڑ پونچھ بھی کرواتی تھی یوں دو کے بجائے ایک کی تنخواہ میں مزے سے مالکن بنی بیٹھی تھی۔
شروع کا کچھ عرصہ چھوڑ کر یہ سب معاملہ میری سمجھ سے باہر نہ تھا لیکن یہ سارا کام اتنا کٹھن بھی نہ تھا کہ میں کام بدلتا۔
میرا رشتے کا چچا جو قریبی مارکیٹ میں پھل فروخت کرتا تھا اس کی بھی یہی تجویز تھی کہ جب تک یہاں سے روزی چلے ، کام کرتے رہو۔
ایسی مفت رہائش اور کھانے کے ساتھ نوکری چھوڑنے کی چیز نہیں۔
پرانے کپڑے بھی ملتے تھے۔
نوکری کی ابتدا میں ڈرائیور نے اردو پڑھنا بھی سکھا دیا تھا۔باقی کسر ٹیلیویژن نے پوری کی اور اب میں پٹھان ہوتے ہوئے بھی صاف اردو بولتا تھا۔
فوزیہ باجی کے بنگلہ پر ایک عورت نجمہ آتی تھی۔
ہفتے میں دو سے تین بار
عمر میں مجھ سے کم سے کم دگنی ہو گی یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہ ان کی دور کی رشتے دار ہے۔
ایک طرح سے وہ فوزیہ باجی کی ذاتی ملازمہ تھی
ٹیلر کی دکان کے کام سے لے کر سر میں تیل ڈالنے تک بےشمار کام اس کے حوالے تھے۔
اچھی بھلی خوبصورت اور دلکش عورت تھی۔
کچھ فاصلے پر کھیل کی میدان کے پار فلیٹوں میں اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی۔ میری ذات میں اس کو خاص دلچسپی تھی۔
شاید بےاولاد ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔
پہلی بار جب ملی تو میرا مکمل انٹرویو لیا۔۔۔۔
میری کمزور اردو پر کھل کر ہنستی رہی۔۔۔۔
اور مجھے تصیح کرتی رہی۔۔۔
بعد کے عرصہ میں بھی اس کا یہ معمول رہا کہ مجھ سے بات چیت میں اس کو مزا آتا۔۔۔۔
کبھی میری غیر موجودگی میں آ کر چلی جاتی تو اگلے چکر پوچھتی بتاؤ کہاں تھے۔
بےتکلفی الگ ہی نوعیت کی تھی۔۔۔
راستہ میں آتے جاتے سیاہ چادر بدن پر لپیٹ کر نکلتی۔۔۔
پھر ایک روز جب گرمیوں کے موسم کا آغاز باقاعدہ طور پر ہو چکا تھا۔
ظہر سے قبل فوزیہ باجی کسی فوتگی پر چلی گئی۔۔
گھر پر کوئی نہ تھا علاوہ فوزیہ باجی کی ساس کے جو اپنے کمرے سے کم ہی نکلتی تھی
میں نے حسب معمول گھر کی صفائی ختم کی اور اوپری منزل پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
کہنی سے چہرہ ڈھانپ کر گنگنا رہا تھا کہ زینے پر آہٹ ہوئی۔
چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو نجمہ چلی آ رہی
تھی۔۔۔
میں اسے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔
زمان ۔۔۔۔۔ تمہاری باجی کہاں ہیں۔۔۔؟
اپنے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی ہیں۔۔۔
مار ڈالا کمبخت نے۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ نے آنکھوں سے دھوپ کا چشمہ اتار کر رومال سے پسینہ خشک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ گلابی کلر کا لان کا سوٹ پہنے ہوئی تھی۔ ست رنگی دوپٹہ کاندھے پر رسی کی مانند ٹنگا ہوا تھا۔ سیاہ چادر ہاتھ میں تھی۔
دھوپ میں چل کر آنے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
وہ چشمے کی کمانی دانتوں میں دبا کر کچھ
سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔
میری نگاہیں اس کے حسین پیکر پر جمی ہوئی تھیں۔
جن جگہوں سے پسنے کی نمی نے لباس کو متاثر کیا تھا وہاں سے بدن جھلک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دراز قد کی دلکش اور صحت مند عورت تھی۔
اس کے سینے پر نگاہ گئی تو صبح کو خربوزے خریدنے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
میں نے کبھی کسی عورت کو بے لباس نہیں دیکھا تھا۔۔۔
بازارِ میں سبزیوں کی دکان پر کام کرنے والے لڑکے سے کچھ دوستی تھی اس نے مرد عورت کے تعلق کو مجھ پر ایک انگریزی رسالے کی مدد سے ظاہر کیا تھا۔۔۔۔
اس کو تجربہ بھی تھا ایک فقیرنی کے ساتھ۔۔۔
میں نجمہ کو کچھ دیر یوں ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
اس وقت وہ مجھ کو بہت اچھی معلوم ہو رہی تھی۔۔
چند سیکنڈ بعد میں نے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ضروری کام تھا۔۔۔۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔۔ نجمہ نے اسی طرح سوچتے ہوئے جواب دیا۔
گھر پر طبعیت گھبرائی۔۔۔۔
میں نے کہا چلو فوزیہ کے ہی پاس چل کر گپیں لڑائیں۔۔۔۔
تو پھر چلیے۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں بیٹھیے۔۔۔۔۔
نجمہ نے مجھے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
کچھ خاطر تواضع بھی کرو گے ۔۔۔۔۔
کیوں نہیں۔۔۔۔
میں نے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
وہ میرے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئی اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
میں نے پنکھا کھول دیا اور اس سے کہا۔۔۔۔۔
اب اس قدر گرمی میں کہاں جائیں گی۔۔۔۔۔۔
یہیں آرام کیجیے۔۔۔۔
سینڈل اتار ڈالیے۔۔۔
گھر سے یہاں تک آنے میں پسینے میں تر ہو گئی ہوں۔۔۔۔
غسل کر لیجیے۔۔۔بہتر محسوس ہوگا
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی، دوپٹہ سرہانے پھینکا اور سینڈل اتارتی ہوئی غسل خانے میں چلی گئی۔
میں کمرے کے دروازے کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
اندر سے فوارے کا پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
زمان یہاں تولیہ نہیں ہے۔
جسم کس چیز سے خشک کروں۔۔۔۔۔۔؟
اس کے لہجے کی شوخی نے مجھے ایک عجیب احساس سے دوچار کیا
میں نے الماری سے تولیہ نکالا اور غسل خانے کے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے پکارا۔۔۔۔
" تولیہ لیجیے "
ایک بار پھر دروازے کی جھری ایک بڑے خلا میں بدلی اور نجمہ کا چہرہ نمودار ہوا۔۔۔
اس نے تولیہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس قدر بڑھایا کہ اس کا سینہ بھی جھانکنے لگا۔۔۔
میرے قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔۔۔۔
اور تولیہ میرے ہاتھ سے گر گیا۔۔۔
اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور لٹوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔
دروازے کا کنارہ اس کے سینے سے چپکا ہوا تھا۔۔۔
اس کے کاندھوں تک ننگے بازو اور سینہ دیکھ کر میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہو گیا اور میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر میری کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پکارا۔۔۔
"تولیہ دے دو"
میں نے پر شوق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اگر آپ نے تولیے سے بدن خشک کر لیا تو غسل کا فائدہ ہی کیا۔
لطف تو جب آتا ہے جب پنکھے کی ہوا بھیگے ہوئے جسم پر لگتی رہے۔۔۔
تو نہ خشک کروں تولیہ سے۔۔؟
نجمہ نے معصومیت سے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے تو خشک کرنا بےکار ہے۔۔۔
تو پھر میرے کپڑے جو بھیگ جائیں گے۔۔۔۔ وہ بولی۔۔۔
ابھی کپڑے پہن کر کیا کیجیےگا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔
اس نے ہنس کر کہا۔۔۔
تو کیا میں یوں ہی ننگی آ جاؤں کمرے میں۔۔۔۔؟
ہرج ہی کیا ہے۔۔۔۔ میں نے دھیرے سے کہا۔۔۔
تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو کیا میں تمھارے سامنے ننگی آ جاؤں۔۔۔
میں تو آپ کا خادم ہوں۔۔۔
مجھ سے کیا پردہ۔۔۔
آپ کی سہیلی بھی مجھ سے کوئی تکلف نہیں کرتیں اگر لباس بدلنا ہو تو۔۔۔
میں نے اس کو بتایا۔۔۔۔
نہیں ، میں اس طرح نہ آؤں گی
تم مجھے کوئی چادر لا دو۔۔۔۔۔
نجمہ نے مجھے دیکھتے ہوئے نشیلی آواز میں کہا۔۔۔۔
میں نے ایک باریک ریشمی چادر نکال کر اس کو دے دی اور وہ اس کو اپنے بھیگے بدن پر لپیٹ کر باہر آ گئی۔۔۔
کچھ دیر قبل دیکھا ہوا اس کا تھن میرے حواس پر چھایا ہوا تھا۔
میں نے اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اس وقت تو آپ جل پری معلوم ہو رہی ہیں۔۔۔۔
وہ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔۔
اچھا جی۔۔۔۔
اب تمہیں مسکہ لگانا بھی آ گیا ہے۔۔۔۔۔
میں نے کہا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسم لے لیجیے اگر جھوٹ لگے تو۔۔۔۔۔۔
آپ زرا خود کو آئینے میں تو دیکھیں۔۔۔ یقین آ جائے گا۔۔۔
اپنی تعریف سن کر وہ اس درجہ خوش ہوئی کہ مدہوشی کے عالم میں فخر کے ساتھ خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔۔۔
پھر بولی ۔۔۔۔۔
زمان ۔۔۔۔!! ۔ دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔
اگر کوئی اس طرح مجھے اور تمھیں یہاں دیکھ لے تو کیا ہو۔؟
کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں نے کہا
میں تو ایک معمولی ملازم ہوں اور کوئی ہوتا تو چاہے کوئی شک بھی کرتا۔۔۔۔۔
نجمہ نے کہا۔۔۔۔۔۔
نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔
تم دروازہ بند کر دو۔۔۔۔
میں اب خوشی کے مارے اپنے حواس میں نہ تھا۔
کانوں کی لویں گرم ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی
اور
گلا خشک ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا دی پھر جو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو وہ پلنگ پر چت لیٹی چھت پر نظریں جمائے سوچ میں گم تھی۔
چادر جو غسل خانے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے لی تھی، زیادہ وسیع نہ تھی۔
پہلے بھی گھٹنوں سے اوپر تھی
اب لیٹنے سے اور بھی بے ترتیب ہو گئی تھی
اس کا جھلکتا بدن ایک یادگار نظارہ تھا
سینے کے ابھار دیکھ کر میری سانس رکنے لگی
بہت سوچ کر ایک خیال سوجھ ہی گیا
میں نے پاس جا کر کہا ہاتھ پاؤں دبا دوں ۔۔۔۔۔؟
آپ تھکی ہوں گی۔۔۔۔۔۔
اس نے مجھ پر ترچھی نظر ڈالی اور مسکراہٹ دبا کر کہا۔
جو چاہو دبا دو
واقعی میرے سارے جسم میں درد ہو رہا ہے۔
پھر کیا تھا، مجھے تو سمجھو اجازت کی صورت میں خزانہ مل گیا۔
میں نے گھٹنوں کو فرش پر ٹکایا اور اس کی برہنہ ٹانگیں پاؤں سے گھٹنوں تک دبانے لگا
پاؤں سے شروع کرتا اور گھٹنوں سے ایک مٹھی اوپر تک دبا کر واپس پاؤں پر لوٹ آتا
جب دونوں ٹانگوں کو بےشمار دفعہ دبا کر دل بھر گیا تو میری توجہ اپنی شلوار کی طرف گئی جہاں میرا ہتھیار پلنگ کی کناری سے ٹکرا ٹکرا کر بپھر چکا تھا
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مجھے آگے کی حکمت عملی سوجھ نہیں رہی تھی اور وہ مزے سے آنکھیں موند کر گہری سانسیں لے رہی تھی جس کے سبب سینہ کی بلندی کبھی بڑھ جاتی کبھی کم ہو جاتی۔
پھر سے شیطان نے آئیڈیا بھیجا اور میں نے یکایک نوٹ کیا کہ جیسے وہ چادر کو شال کی طرح لپیٹ کر باہر آئی ہے اسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چادر کا ایک سرا پکڑ کر یوں الٹ دیا جیسے آپ کتاب کا سرورق کھولتے ہیں۔
اگلے پل اس کا سینہ نصف سے زیادہ میرے سامنے ننگا تھا۔
فوراً ہی اس نے آنکھیں کھول کر حیرانگی اور بدحواسی سے مجھے دیکھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، میں نے اس کا ہاتھ کلائی سے پکڑا اور فضا میں بلند کرتا ہوا پلنگ کے سرہانے کی طرف لے گیا۔
ہاتھ کو وہاں ٹکا کر میں نے چادر پھر سے وہیں ڈال دی جہاں وہ پہلے تھی۔
اور بازو کو سرہانے سے واپس اس کے پہلو میں لے آیا۔
سیکنڈوں میں سب کچھ ہو گیا۔
وہ کچھ کہتے کہتے چپ رہ گئی لیکن کچھ سیکنڈ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتی رہی ۔
میں بے نیازی سے اس کے بازو کو دبانے میں خود کو مگن ظاہر کرتا رہا۔
اب ہمارے درمیان ایک طرح کا بلی چوہے کا کھیل چل رہا تھا کہ پہل کون کرتا ہے۔
میں اناڑی پن سے دوچار تھا اور وہ میرے حال سے لطف اٹھا رہی تھی۔
کچھ لمحوں کے لیے اس نے آنکھیں بند کیں تو میں نے وہی عمل دہرایا اور دوسرے ہاتھ کو بھی چادر سے ��اہر نکال دیا۔
اس بار چادر کو بے ترتیبی سے ڈالا کہ سینہ محض نام کو ڈھکا ہوا تھا اور بیشتر بالائی حصہ ظاہر تھا۔
یہاں ایک تجزیہ پیش کرتا چلوں کہ جو شاعروں نے ہزاروں پرچے محبوبہ کی زلفوں اور نگاہوں کی تعریف میں کالے کیے ہیں سب بےکار ہیں۔
میں جتنی دیر اس کے ساتھ رہا ایک پل بھی میری توجہ اس کی چھاتیوں سے کہیں اور منتقل نہ ہو سکی۔
آج اس کی شکل بھی یادداشت میں واضح نہیں لیکن اس کا سینہ ایک پل میں آنکھیں بند کر کے چشم تصور سے صاف طور سے دیکھ سکتا ہوں۔
شاید اس لیے کہ وہ پہلی بار تھا ۔
شاید اس لیے کہ وہ بے مثال تھا۔
لیکن اس کے بعد کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے ہر عورت کا موازنہ اس کے ساتھ نہ کیا ہو۔
بازو دبانے میں کچھ خاص لطف نہ تھا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں انگلیوں کی مدد سے چادر کو ذرا سرکایا کہ وہ دوبارہ سے برہنہ ہونے لگی۔
یہ بات اس نے محسوس کر لی اور دوسرے ہاتھ سے چادر کو درست کر لیا۔
میرے ذہن میں آگے کا کچھ خاکہ نہ تھا۔ میرا واحد مقصد اس کے سینے کو دوبارہ دیکھنا تھا لیکن بہرحال میں تھا تو ایک ملازم۔
وہ مالکن نہ سہی لیکن اس سے کم بھی نہ تھی۔
ماحول ایک دم سنجیدہ تھا کبھی اس کے چہرے پر مسکان جھلکتی تو کبھی چہرہ بےتاثر ہو جاتا۔
میں نے اکتا کر سوچا کچھ ایسا ہو کہ یہ پلنگ سے اترے۔۔
شاید کوئی صورت نکلے
ہاتھ دبانا چھوڑ کر میں نے کہا
سر دبا دوں
نہیں، وہ بولی
ادھر درد ہے۔ اس نے اپنی رانوں کو چھوا۔
دبا دیتا ہوں۔ میں نے کہا
نہیں۔ اوپر آؤ اور میری ٹانگوں پر بیٹھ جاؤ۔
میں تعجب کی کیفیت میں دونوں گھٹنے اس کے پہلوؤں سے ملا کر دوزانو ہو کر اس کی رانوں پر بیٹھ گیا۔
آ ہ ہ ہ ہ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے لبوں سے ایک کراہ برآمد ہوئی۔
میں نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ ٹکا کر اپنا وزن اس پر سے کم کیا۔
کہنے لگی۔ یوں تو دبلے پتلے ہو لیکن وزن رکھتے ہو۔
ذرا آگے سرک جاؤ۔
جی اچھا کہہ کر میں کچھ آگے ہو گیا۔
اب میری گیندیں عین اس کی شرم گاہ کے قریب تھیں
لیکن آپ میری سادگی دیکھیں کہ میرے ذہن میں اس وقت بھی ایک ہی خواہش تھی کہ میں کسی طرح اس کا سینہ دیکھ سکوں۔
اف........ آرام تو مل رہا ہے لیکن وزن زیادہ ہے تمہارا۔۔
یوں کرو کہ تم لیٹ جاؤ
یہ کہتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ میرے گھٹنوں سے اٹھائے اور انگلیاں پھیلا کر پنجے میں پنجہ جکڑ لیا۔ پھر جو اپنے ��ونوں ہاتھوں کو اس نے دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچا تو میں اس پر جھکتا چلا گیا
یہاں تک کہ میرا سینہ اس کے سینے پر ٹک گیا۔
دو سیکنڈ یا شاید تین گزرے ہں گے ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ چھوڑ کر مجھے شانوں سے پکڑا اور واپس اٹھا دیا
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو بولی۔۔۔
پسینہ کی بو آتی ہے۔۔
قمیض اتارو
میں نے بلا توقف قمیض اتار ڈالی
بنیان بھی اتارو
میں نے یہ بھی کیا
بنیان سے آخری بازو نکال کر کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے سینے سے چادر ہٹا دی ہے۔
میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پایا کہ اس نے مجھے کہنیوں سے تھام کر خود پر جھکا لیا
اس حد تک کہ میرا گال اس کے گال کو چھونے لگا
اور میرا ہتھیار جو پہلے سے سوجا ہوا تھا اب مکمل طور پر اکڑ کر اس کی ناف کے نچلے حصے سے رگڑ کھانے لگا۔
لاتیں بھی سیدھی کرو۔ وہ بولی
میں اب اس کے اوپر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے میری پشت کو سہلایا اور پھر ایک ہاتھ میرے سر کے پیچھے رکھ کر میرے گال سے گال رگڑنے لگی۔
میری خواہش قدرے مختلف انداز میں پوری ہو گئی تھی
گو کہ میں اس کے سینے کو دیکھ نہیں پا ��ہا تھا لیکن اپنے سینے پر اس کے سینے کا لمس ایک جادو بھرا احساس تھا۔
اس نے اپنی ایک ٹانگ میرے گرد لپیٹی اور یکایک پلٹی کھائی کہ میں اب اس کے نیچے تھا
وہ اپنی شرمگاہ کو میرے ہتھیار پر رکھ کر حرکت دینے لگی۔
اس نے اپنے پاؤں کو میری پنڈلی پر دو چار دفعہ رگڑا۔۔۔
میرے گال کا بوسہ لیا اور پھر اٹھ کر مجھ پر بیٹھ گئی
جیسے کچھ دیر قبل میں اسکے اوپر بیٹھا تھا
اب میں اس کا سینہ بہت قریب سے دیکھ رہا تھا
اس نے میری نگاہوں کا ہدف بھانپ لیا ۔
میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر ذرا سا جھکی اور میرے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر غمگین انداز میں بولی۔
ان سے میں بہت تنگ ہوں
دیکھو تو یہ کتنے بڑے ہیں
یہ مجھے بہت درد دیتے ہیں
میں نے دونوں تھن گرفت میں لینے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنی انگلیوں کی لمبائی کو ناکام پایا۔
زور سے پکڑو۔
آٹا گوندھا ہے کبھی تم نے۔۔۔؟
اس نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے بتایا
اچھا دیکھا تو ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا
بس وہی کرنا ہے۔۔۔
میں تو ایک ملازم تھا
اکیلے کمرے میں اس کے ساتھ تنہا
وہ بھی ایسی صورت حال میں کہ وہ مجھ کو بستر پر لٹا کر مجھ پر چڑھی بیٹھی تھی
انکار کی مجال ہوتی بھی تو ایسا غضب کا موقع کون جانے دیتا ہے
سو میں نے پوری تسلی سے اس کی چھاتیوں کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔
اس دوران وہ آنکھیں بند کیے عجیب سی مبہم آوازیں نکالتی رہی۔
آخر اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو گئی
کہنے لگی کچھ فرق پڑا ہے
ٹانگوں میں ابھی درد باقی ہے
میری نگاہ اس کی شرم گاہ کی طرف گئی۔
چادر ابھی بھی اس کے نچلے دھڑ سے الجھی ہوئی تھی۔
اس نے کہا
میری کسی بات کا برا تو نہیں لگا تم کو۔
نہیں بالکل نہیں۔
اس نے میرے ہتھیار پر اپنی شرمگاہ کو حرکت دی اور بولی
بس ایک آخری چیز اور
شاید چین آ جائے
تکیہ اٹھایا اور میرے چہرے پر رکھ کر بولی اپنے ہاتھوں کو اپنے سر کے نیچے رکھو۔
میں نے ایسا ہی کیا۔
وہ قدرے پیچھے کو سرک کر بیٹھی۔ تقریباً میرے گھٹنوں سے زرا سا اوپر ۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی رہنا۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ بولی
اور نہایت پھرتی سے اس نے میرا ناڑا کھینچ ڈالا
جوتوں کی لیس والی ڈیڑھ گرہ لمحے میں کھل گئی۔
دوسرے ہاتھ سے اس نے شلوار کا گھیر ڈھیلا کیا اور دونوں ہاتھ سے نیچے کھینچ دی
میں نے بوکھلا کر اپنے ہاتھ نکالے اور تکیہ ہٹایا لیکن میرے سنبھلنے تک وہ پوزیشن بدل کر عین میرےہتھیار کے اوپر تھی
جو کہ پہلے ہی راکٹ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھا
اس کاایک ہاتھ اپنی شرمگاہ پر تھا اور دوسرے سے اس نے میرے ہتھیار کو پکڑ کر پوزیشن بنائی
قبل اس کے میں کچھ کہتا سمجھتا
دخول شروع ہو چکا تھا
سیکنڈوں میں ہتھیار اس کے بدن کی گہرائی میں گم ہو چکا تھا۔
میں نے پاگلوں کی طرح اس کو شانوں سے پکڑ کر کھینچا اور خود پر گرا لیا عمر کے حساب سے وہ اپنی جوانی کے عروج پر تھی بدن بہت کسا ہوا اور متناسب تھا۔
میں اگر اس کی خلوت میں اس کو بےحجاب اور بے لباس اپنی دسترس میں پا سکا تو میرا اس میں کچھ کمال نہ تھا۔
یہ محض میرا گڈلک تھا
دراصل میں اس کے تصرف میں تھا۔
وہ مجھ کو حاصل کرنے کے ارادے سے یہاں ہرگز نہیں آئی تھی۔
غسل کے بعد سینے کی گولائی ظاہر کرنا بھی ممکنہ طور پر محض شرارت ہو سکتی تھی۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ عورت کو آج تک کوئی بھی نہیں سمجھ پایا۔
میں اس کے بدن تلے دبا اسی پیچیدگی سے فیض یاب ہو رہا تھا۔
میں نے اس کو خود پر گرا کر بازوؤں کے حلقے میں اس کے اوپری دھڑ کو دبوچ لیا۔
اب میرے ذہن میں کچھ غلط فہمی نہ تھی کہ یہ درد سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
میں سبزی والے اکرم کے پاس دیکھی ہوئی تصویروں سے ملتےجلتے منظر کا حصہ تھا اور وہ میری بانہوں کی قید میں تھی۔
میں نے ہاتھ میں اپنی دوسری کلائی کو تھام کر ایک زور کے جھٹکے سے گھیرا تنگ کیا۔
اس کے منہ سے ایک نشیلی ہائے نکلی ، میں نے اپنے ہاتھوں کا گھیرا اس کی کمر پر قدرے نیچے سیٹ کیا اور دوبارہ طاقتور جھٹکے سے اپنی طرف دبایا۔
مار ڈالا کمبخت، یوں تو میں تیری پسلیاں گن لوں۔ زور پتا نہیں کہاں سے لگا رہا ہے۔
تیسرا جھٹکا میں نے اس کی کمر کے اوپری حصے پر دیا تو وہ جھنجھلا گئی۔
موڈ خراب نہ کرو میرا ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بازو ڈھیلے کر دیے۔
وہ سیدھی ہوئی اور میرے ہاتھ قابو کر کے مجھ پر ایسے جھکی کہ سینے کی گولائی پر سجا انگور دانہ میرے ہونٹ چھونے لگا۔
میں نے چومنے کی کوشش کی تو اس نے ذرا سی حرکت سے میری کوشش ناکام کر دی۔
پھر دوبارہ وہی حرکت دہرائی اور پھر مجھے ناکامی ہوئی۔
تیسری بار میں تیار تھا۔اس کے قریب آتے ہی میں نے جھٹکے سے سر اٹھا کر منہ میں انگور سمیت پورا براؤن دائرہ قابو کر لیا۔
اس نے سیدھا ہونے کی کوشش کی تو میں نے دانت گاڑ دیے۔
اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ کر میرے چہرے پر اپنا سینہ اور سارا وزن ڈال دیا۔
اب میں کیا کرتا، میں نے منہ کھول دیا۔
وہ پھرتی سے سیدھی ہوئی اور مجھ پر سے اتر کر برابر میں لیٹ گئی۔
میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند تھیں۔
کیا ہوا۔۔۔ میں اٹھ بیٹھا۔۔۔
اس نے اوپری دھڑ کو ایک طرف موڑ کر دونوں ہاتھ بلند کیے اور زور کی انگڑائی لی۔۔
دونوں کام سکھا کر وہ مجھے کارکردگی دکھانے کا موقع دے رہی تھی۔
میں بےتاب ہو گیا۔اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو اس نے ٹانگیں کشادہ کر دیں۔
لیکن منہ سے کچھ بولی نہ آنکھیں کھولیں۔۔۔
میں اس کے اوپر آ کر دوبارہ ڈالنے لگا لیکن مجھے ہدف نہ ملا۔
دو تین کوششیں ناکام ہونے پر وہ آنکھیں کھول کر مسکرائی اور اپنی ٹانگیں سمیٹ کر پیٹ پر لے گئی۔
مجھے اس کے دونوں سوراخ واضح نظر آئے تو میں جلدی ��ے گھٹنوں کے بل اس کے کولہوں سے اپنی رانیں جوڑ کر پھر سے داخل کرنے لگا
جیسے ہی مجھے لگا جگہ مل گئی ہے میں نے یکدم پورا اندر کر دیا۔اور اس پر جھک کر دوسرا سبق دہرانے لگا۔
ایک سبق سینے سے متعلق تھا اور دوسرا نیچے شرمگاہ کی تواضع کا۔
میں اس پر جھکا دونوں گیندوں سے کھیلتا رہا۔
پہلے تجربے میں جتنی عجیب و غریب حرکات سرزد ہو سکتی ہیں۔
وہ سب میں نے کیں۔ ایک موقع پر میں اس کے دونوں پھل ملا کر دونوں انگور بیک وقت چوسنے میں کامیاب ہوا تو اس کی کیفیت عجیب ہو گئی، میں ڈر گیا کہ یہ کیسا دورہ پڑا ہے۔
اب تک میں نیچے کچھ نہیں کر رہا تھا داخل کرنے کے بعد سینے پر توجہ تھی۔
اس نے دونوں ہاتھ میرے پہلوؤں پر رکھ کر اپنی دونوں ٹانگوں سے میری کمر پر قینچی لگا لی۔
ہاتھوں کے دباؤ سے مجھے دور کرتی اور پیروں کے دباؤ سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔
کئی بار کرنے کے بعد بولی۔
اب یہی کرتے رہو۔۔۔
میں نے یہ حرکت دہرانا شروع کی تو لذت کے نئے زاویے سے واقف ہوا اور میری بھی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
تیز تیز کرو۔۔۔۔
میں نے رفتار بڑھا دی۔
اس کی کیفیت مجھے کچھ خبر نہ تھی۔بس یہ پتا تھا کہ جتنی تیز گھوڑے کو دوڑائیں گے اتنا ہی مزہ آئے گا۔
سواری بھی بھرپور مزہ لے رہی تھی۔میں نے اس کے سینے کو دبوچ رکھا تھا کہ اچانک اس نے مجھے کھینچ کر چمٹا لیا اور اپنے دانت میرے کاندھے پر گاڑ کر عجیب طریقے سے کمر پر ناخن سے کھروچنے لگی۔
اس کے بدن کا نچلا حصہ بدستور حرکت میں تھا۔ میرے ہتھیار میں سرسراہٹ ہوئی۔
میں نے سوچا باتھروم جاتا ہوں یہ پیشاب کی حاجت ہے لیکن اس کی گرفت میں ہلنے کے قابل بھی نہ تھا سو میں نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا لیکن ہتھیار کے ساتھ جو ہو رہا تھا اس کے بدن کے اندر ہی اندر۔۔۔۔۔
تو آخر وہ لمحہ آیا جب مجھے انزال ہوا اور لذت کے جھولے کی پہلی سواری کا مزہ نکتہ عروج پر پہنچ گیا۔
وہ بھی سکون پا کر نارمل ہو گئی اور ہم دونوں برابر لیٹ گئے ۔۔
میں کچھ دیر آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔
جب اٹھا تو وہ دوبارہ نہانے جا چکی تھی.
میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھول کر چوروں کی طرح باہر نکلا۔
کوٹھی میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور نیچے جا کر
ایک گلاس روح افزا بنا کر اوپر آ گیا۔
نجمہ غسل خانے سے لباس پہن کر آ چکی تھی اور سنگھار میز کے سامنے بیٹھی کنگھا کر رہی تھی۔
مجھے آئینے میں دیکھ کر کہنے لگی
دیکھو زمان!! میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کسی سے کچھ نہ کہنا۔
میں نے گلاس سنگھار میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
کیسی باتیں کرتی ہیں آپ۔۔۔۔
میں تو خادم ہوں آپ کا۔۔۔
بھلا میری اتنی ہمت پڑ سکتی ہے۔۔
وہ مطمئن ہو گئی اور میں باہر چلا آیا۔
کچھ دیر بعد نجمہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔
ختم شد
9 notes
·
View notes
میرے گاؤں کے نفاست علی نے جی بھر کر چودا
قسط 04
اس نے مجھے زور جکڑ لیا اور میں کوشش کرتی رہی اسکی گرفت سے نکلنے کی مگر اس نے مجھے نہیں چھوڑ تھا سالا گانڈ چودنے پہ کچھ برا لگا تھاا ذرا دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی میں نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا مگر اس نے انکار کردیا تھا
مجھے گانڈ میں وہ مزہ نہیں مل رہا تھااور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں میں خاموش ہوگئی میں نے خود کو پورا اسکے حوالے کیا ہوا تھا اس نے میری رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے آگیا میرے بوبز بری طرح سے ہل ہل کر میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے
اور میں بھی پوری ہل رہی تھی میں نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں پلیز میں تو اس نے کہا چلو نیچے زمین پر مجھے زمین پر لاکر اس نے پیٹ کے بل مجھے بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ میرے گھٹنے زمین پر لگے تھے اب وہ بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لوڑا میری گانڈ میں داخل کیا تھا
اب اس نے پورا لوڑا اندر ڈال کر مزید کنواری گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لوڑا کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا جس سے ایک بار پھر میری چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں بالاخر اسکا وقت پورا ہونے لگااس نے مجھ سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں
نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو میں نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے پورا لوڑا گانڈ میں گھسیڑا اور لوڑا نے منی اگلنا شروع کردی تھی میری گانڈ فل بھر دی اس نےمیری زندگی اتنی حسیں ہوتی جا رہی تھی کہ کیا بتاؤں دن بدن خشیوں میں اضافہ ہوتا گیا وقت اپنی فطری منزل کی جانب رواں دواں تھا
ہماری پیار کا صرف نفاست علی کےصرف دو دوستوں قیصر اور سرادر کے علاوہ کسی کو پتا نہیں تھا وہ اپنے دوستوں سے میری ��ات کرواتا میں اس کی پیار میں دیو��نی ہو گئی تھی وہ جتنے پیسے بھی مانگتا میں جہاں سے بھی لیتی مگر اس کو وقت پر دیتی وہ کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ناراض نا ہوتا نہ کبھی مجھے اس کو منانے کا بہانہ ملتا وہ اپنے وقت کا ہیرا تھا جس کا شوق صرف مجھے تھا مجھے اس کی ضرورت تھی
صرف میں ہی اسے پانا چاہتی تھی اسے کھونے سے پہلے میں اپنی جان دے دیتی ہم نادان لڑکیاں جب چاہتی ہیں تو اس طرح ہی چاہتی ہیں ایک دن اس کے دوست قیصر نے پتہ نہیں کس سے میرے ابا کا نمبر لیا تھا اور کال کر کے کہا کہ تمہاری بیٹی فلاں لڑکے سے پیار کرتی ہے اس کے بنا نہیں رہ سکتی وہ حالانکہ شادی شدہ ہے میرے ابا نے گھر آ کرفل مچا دی اور گھر والا سیل امی کو کہا کہ کومل کو نہیں دینا
لیکن مجھے تو نفاست علی نے سیل لے کر دیا ہوا تھا مگر شادی شدہ والی بات تو ایک دم میرے دل میں بیٹھ گئی کیا نفاست علی واقعی شادی شدہ تھا میں نے نفاست علی سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ قیصر ایسے ہی بکواس کرتا رہتا ہے تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا اس طرح اسکی میٹھی میٹھی باتوں کے بہکاوے میں آکر میں شادی شدہ والی بات بالکل بھول ہی گئی اب امی ابا مجھ سے ناراض رہنے لگے
مگر میں اس کی پیار میں اتنی جنونی ہو چکی تھی کہ اس بات پرتوجہ ہی نہ دیا میں بتانا بھول گئی کہ اس بات پر مجھے گھر والوں نے بہت مارا حتی کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا کہ ان کو شک ہوتا میرے ابا ویسے ہی سخت مزاج تھے میرے ماموں کے بیٹے کی اب شادی تھی ہم سب گھر والے ادھر گئے ہوئے تھے تو نفاست علی نے بیت ضد کی کہ مجھے ملو
میں نے وہاں ایک پکی سہیلی بنائی ہوئی تھی میں اس کے گھر رات کو نفاست علی کو لے گئی تھی سہیلی کے گھر اس رات کوئی بھی نہیں تھا مجھے چدانی تھی اس رات نفاست علی سے میری دوسرے ملاقات تھی اس سے بہت دل کی باتیں ہوئیں دل کی ایک بار پھر سے پیار کے عہد و پیماں ہوئے باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا
اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں نرم تم بہت خوبصورت ہووہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا ادھرپھدی گیلی ہو رہی تھی کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری چنی ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی
اب میں مدہوش سی ہو رہی تھی مگر پھر بھی اپنے اوپر قابا رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھاپھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے ریشمی بالوں میں گھس گیا میں چپ چاپ بیٹھی مست مست ہو رہی تھی اور میری سانسیں اور زیادہ گرم ہو رہی تھی
اس کا ایک ہاتھ میری گانڈ والی سائیڈ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف پہ تعریف کئے جا رہا تھا پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا تھا میں جان گئی کیا کرنا چاہتا ہےمیں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
اس نے اپنے رس بھرے لپس کو میرے لپس پر رکھ دیا اور میرے لپس کا رس چوسنا شروع کر دیامجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی تھی پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور مجھے اپنی مردانہ گرمی والی گود میں بٹھا لیا اب میرے دونوں نپلز اس کی چھاتی سے دب رہے تھے
اور کواری بڑھنے لگی تھی اس کا ہاتھ اب کبھی میری چکنی گانڈ پر کبھی بالوں میں کبھی گالوں میں اور کبھی میرے بوبز پر چل رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی پندرہ سے بیس منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے چوستے چاٹتے رہے تھے
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا میری بریزر میں سے میرے سفید دودھ جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے وہ بریزر کے اوپر سے ہی میرے بوبز مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا
پھر اس کا ہاتھ میری تنگ پجامی تک پہنچ گیا جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا
میری پجامی بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی مگر پجامی اتارتے ہی وہ میرے گول گول خوار پھدی کے درازدیکھ کر خوش ہو گیا اب میں اس کے سامنے بریزر اور پینٹی میں تھی اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیامیں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے خوارپھدی کے لپسوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب اپنے پیار کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا میں پیچھے مڑی اور چدائی کے لیئے فل گھوڑی بن کر اس کی پینٹ جہاں پر لوڑا تھا پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا میں بہت ہاٹ مست ہوتی جا رہی تھی
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی اس کا لوڑا انڈروئیر میں کسا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا اب اس طرح کا لن ہی مانگ رہی تھی
میں نے اس کی پینٹ اتار دی
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کیااس سے اس کی بالوں والی جگہ جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھینچااس کا ساڑھے سات انچ کا لوڑا میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا موٹا لن تھا
اور سرا بھی موتا تھا اتنا بڑا لوڑا اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی اس کا بڑا سا اور لمبا سا لوڑا مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھامیرے لپس اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا میرے ہونٹوں پر گرم گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی تبھی نفاست علی نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا
اور میرا سر اپنے لوڑا کی طرف دبانے لگامیں نے منہ کھولا اور اس کا لوڑا میرے منہ میں سمانے لگا اس کا لوڑا میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی نفاست علی بھی میرے سر کو اپنے لوڑا پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لوڑا گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لوڑا میرے گلے تک اترنے لگا میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ نفاست علی فارغ ہو گیا ہےتبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لوڑا بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیااس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا
کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہےتھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری بریزر کی ہک کھول دی میرے دونوں بوبز آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے
اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں بوبز اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا
وہ میرےممے کو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا میری تو جان نکلی جا رہی تھی میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا اس نے میری پینٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹانگیں پھیلا کر کھول دیوہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری خوار پھدی پر رکھ دی میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی
میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اس کا لوڑا میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا بڑالوڑا پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے میں نے نفاست علی کی ببازو پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا میری جان میرے اوپر آ جاؤ نفاست علی۔
(جاری ہے)
2 notes
·
View notes
تُو کہاں تھا؟
کہ جب میں بُریدہ مقدر لیے تیرے در پر صدائیں لگاتا رہا۔
تیرا سائل سوالی رہا،
تیرے سائل کا دستِ شکستہ ہمیشہ سے خالی رہا۔
تُو کہا تھا؟
کہ جب مجھ پہ دیوار و در ہنس پڑے،
میری مجبوریاں یعنی میری کنیزیں مِرے ہی حرم میں تماشائی بن کر کھڑی رہ گئیں۔
تیرے وعدوں بھری سب کتابیں کہیں دھول میں ہی پڑی رہ گئیں۔
میری سب آرزؤئیں دھری کی دھری رہ گئیں۔
تُو کہاں تھا؟
کہ جب رونے والوں سے رویا گیا ہی نہیں تھا،
اذیت کے مارے ہوئے سونے والوں سے سویا گیا ہی نہیں تھا۔
سبھی ہنسنے والوں نے ہنسنے کی ساری حدیں پار کیں۔
دکھ توجہ سے ملنے لگیں تو بھلا کوئی کیسے نہ لے؟
دکھ توانائی دینے لگیں تو بھلا کوئی انکار کیسے کرے؟
مجھ کو وہ دکھ ملے جن میں تیری توجہ کی تمثیل تک بھی نہ تھی۔
ان دکھوں نے تو میری توانائیاں چھین لیں،
سب سکھوں سے شناسائیاں چھین لیں
وقت کی گود اتنی ملائم نہ تھی،
جس میں سر رکھ کے ہم زندگی کاٹتے آئے ہیں۔
تو کہاں تھا؟
کہ جب میرے ساون ترستے رہے،
میری آنکھوں کے بادل برستے رہے،
بے بسی گیت گاتی رہی، تیری دوری ستاتی رہی،
چاندنی میری آنکھیں جلاتی رہی،
یاد آتی رہی، تیری ہر بات مجھ کو رلاتی رہی۔
دل کی تختی پہ اک نام تیرا لکھا سو لکھا رہ گیا
تُو نہ تھا پر تری انتظاری کا در تو کھلا رہ گیا
تُو نے روشن کیا تو ترے ہجر کی تیرگی کھا گئی
تُو نے مڑ کر نہ دیکھا ترا دیپ جب سے بجھا رہ گیا
میرے جذبوں کی قیمت لگائی گئی تیرے بازار میں
میرے جذبات کوئی خسارے میں ہی بیچتا رہ گیا
میرے دامن میں، دنیا، نہ دولت، فقط چاک ہی چاک ہیں
چاک ہی چاک ہیں، میرے دامن میں اب اور کیا رہ گیا
تیری عزت تری آبرو تیری چادر سدا سبز ہو
تجھ سے میرا تعلق تو ہے چاہے اب نام کا رہ گیا
تُو کہاں تھا کہ جب میں نے تیری محبت کا ماتم کیا
بس اُسی دن سے میرے مقدر میں فرشِ عزا رہ گیا
تُو کہاں تھا کہ جب اتنی آزردگی بھر گئی روح میں
اتنی افسردگی روح میں بھر گئی، اب خلا رہ گیا
شہر و بازار سے، دشت و کہسار سے، یار و اغیار سے
تُو کہاں تھا کہ جب تیرا شاعر ترا پوچھتا رہ گیا۔۔
تُو کہاں تھا کہ جب دھوپ جھلسا رہی تھی مجھے
گردشِ حال بھی کھا رہی تھی مجھے
اور تنہائی فرما رہی تھی مجھے
"آ اداسی کی بانہوں میں آ...
بسترِ رنج پر اپنی راتیں بِتا۔۔
فخر کر اپنی بربادیوں پر بھی
اور بین کر اپنی آزادیوں پر"
کہ جب میں نے اپنے ہی ہونے کو جھٹلا دیا
اور کھونے کو بھی کچھ نہیں رہ گیا
تب کسی درد مندی کے پیکر نے چھو کر مجھے روشنی بخش دی
میرے جذبات کو زندگی بخش دی
میرے لفظوں کو تابندگی بخش دی۔۔۔
تُو کہاں تھا کہ جب وہ محبت سے معمور،
دل کا سمندر وہ شیریں سخن،
میرے ٹکڑے بہت دیر تک جوڑتا رہ گیا۔
میں نے اپنا سبھی کچھ اُسی لے حوالے کیا۔
تُو نہیں تھا۔۔۔ کہیں بھی نہیں تھا
اگر اب تُو آئے بھی تو۔۔۔
تیرا آنا بھی کیا۔۔۔
تُو اگر ہو بھی تو۔۔۔
تیرا ہونا بھی کیا۔۔۔
تُو ندامت کے آنسو بہائے بھی تو
تیرا رونا بھی کیا۔۔۔
اب میں اپنا نہیں۔۔۔ اب ترے واسطے
میرا ہونا بھی کیا۔۔۔
- زین شکیل
6 notes
·
View notes