Tumgik
#حوالے
apnibaattv · 2 years
Text
عمران خان کا آڈیو لیکس کے حوالے سے دعویٰ
عمران خان کا آڈیو لیکس کے حوالے سے دعویٰ
پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان۔ — یوٹیوب/92 نیوز اسلام آباد: پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے پیر کے روز کہا کہ “ریاستی راز” اب کھلے عام ہیں اور پاکستان کے “دشمنوں” تک پہنچ چکے ہیں۔ خان کے تبصرے وزیر اعظم ہاؤس سے کئی آڈیو فائلز کے لیک ہونے کے بعد سامنے آئے – جن میں سابقہ ​​اور موجودہ حکومتی عہدیداروں کی گفتگو شامل تھی۔ نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
عالمی ادارہ برائے صحت کا کورونا کے حوالے سے اہم انکشاف
عالمی ادارہ برائے صحت کا کورونا کے حوالے سے اہم انکشاف
عالمی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ عالمگیروبا کورونا سے باربارمتاثرہونے والا فرد دیگرسنگین بیماریوں کا شکار بن جاتا ہے۔ اس بات کا انکشاف ڈبلیوایچ اوکے خصوصی نمائندے برائے کووڈ  19 ڈیوڈ ناباروایک انٹرویومیں کیا۔ ڈیوڈ ناباروکا کہنا تھا کہ’ ایک سے زائد مرتبہ کورونا میں مبتلا ہونا دیگرخطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سے طویل المدتی کورونا( لانگ کووڈ) کے خطرات بڑھ جاتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mtariqniaz · 9 months
Text
ڈاؤن سنڈروم بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند رہنما اصول
ڈاؤن سنڈروم والے بچوں کی تربیت کے لیے صبر، سمجھ بوجھ اور ان کی غیرمعمولی ضروریات کو پورا کرنے اور صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے دیگر بچوں کی بنسبت مختلف انداز اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق چند رہنما اصول درج ذیل ہیں: 1) ابتدائی تھیراپی: ابتدائی تھیراپی جیسے کہ اسپیچ تھیراپی، فزیکل تھیراپی اور پیشہ ورانہ تھیراپی ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں میں مہارتیں پیدا کرنے اور ان کی علمی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، جمعہ کو عدالت پیش کیا جائے گا
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، جمعہ کو عدالت پیش کیا جائے گا
اسلام آباد(نمائندہ عکس ) اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ۔ بدھ کو ��ہباز گل کو تھانہ کوہسار کی پولیس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے روبرو پیش کیا، اس موقع پر ڈیوٹی مجسٹریٹ عمر شبیر نے کیس کی سماعت کی ۔عدالت میں جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے پولیس حکام نے موقف اپنایا کہ ملزم شہباز گل سے اس کا موبائل فون برآمد کرنا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 11 months
Text
Tumblr media
میں جس ہستی کو شدت سے چاہتا ہوں اس کا ذکر کسی سے نہیں کرتا اس کا نام بھی کسی کو نہیں بتاتا محبوب کا نام ظاہر کرنا ایسا ہے کہ آپ اس کا ایک حصہ کسی اور کے حوالے کر دیں
I don't mention the entity I love so much to anyone, I don't even tell his name to anyone. Revealing the name of the beloved is like handing over a part of it to someone else.
Oscar Wilde
55 notes · View notes
amiasfitaccw · 2 months
Text
گڈ لک ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
مکمل کہانی
فوزیہ باجی کے گھر کام کرتے تیسرا سال تھا۔
جب یہاں آیا تھا تو کم عمر لڑکا تھا۔ اب اچھی خاصی مسیں بھیگ چکی تھیں۔
بچپن کی معصومیت رخصت ہو گئی تھی اور چہرے پر مردانہ کشش جگہ بنا رہی تھی۔
عام طور پر بنگلوں میں گھریلو کاموں کے لیے لڑکیاں ملازم رکھی جاتی ہیں لیکن فوزیہ باجی کی سمجھ داری تھی کہ وہ مجھ سے باہر کے کام سودا سلف ، گاڑی کی صفائی وغیرہ کے ساتھ برتن کپڑے گھر کی جھاڑ پونچھ بھی کرواتی تھی یوں دو کے بجائے ایک کی تنخواہ میں مزے سے مالکن بنی بیٹھی تھی۔
شروع کا کچھ عرصہ چھوڑ کر یہ سب معاملہ میری سمجھ سے باہر نہ تھا لیکن یہ سارا کام اتنا کٹھن بھی نہ تھا کہ میں کام بدلتا۔
Tumblr media
میرا رشتے کا چچا جو قریبی مارکیٹ میں پھل فروخت کرتا تھا اس کی بھی یہی تجویز تھی کہ جب تک یہاں سے روزی چلے ، کام کرتے رہو۔
ایسی مفت رہائش اور کھانے کے ساتھ نوکری چھوڑنے کی چیز نہیں۔
پرانے کپڑے بھی ملتے تھے۔
نوکری کی ابتدا میں ڈرائیور نے اردو پڑھنا بھی سکھا دیا تھا۔باقی کسر ٹیلیویژن نے پوری کی اور اب میں پٹھان ہوتے ہوئے بھی صاف اردو بولتا تھا۔
فوزیہ باجی کے بنگلہ پر ایک عورت نجمہ آتی تھی۔
ہفتے میں دو سے تین بار
عمر میں مجھ سے کم سے کم دگنی ہو گی یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہ ان کی دور کی رشتے دار ہے۔
ایک طرح سے وہ فوزیہ باجی کی ذاتی ملازمہ تھی
ٹیلر کی دکان کے کام سے لے کر سر میں تیل ڈالنے تک بےشمار کام اس کے حوالے تھے۔
اچھی بھلی خوبصورت اور دلکش عورت تھی۔
کچھ فاصلے پر کھیل کی میدان کے پار فلیٹوں میں اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی۔ میری ذات میں اس کو خاص دلچسپی تھی۔
شاید بےاولاد ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔
پہلی بار جب ملی تو میرا مکمل انٹرویو لیا۔۔۔۔
میری کمزور اردو پر کھل کر ہنستی رہی۔۔۔۔
اور مجھے تصیح کرتی رہی۔۔۔
بعد کے عرصہ میں بھی اس کا یہ معمول رہا کہ مجھ سے بات چیت میں اس کو مزا آتا۔۔۔۔
کبھی میری غیر موجودگی میں آ کر چلی جاتی تو اگلے چکر پوچھتی بتاؤ کہاں تھے۔
بےتکلفی الگ ہی نوعیت کی تھی۔۔۔
راستہ میں آتے جاتے سیاہ چادر بدن پر لپیٹ کر نکلتی۔۔۔
پھر ایک روز جب گرمیوں کے موسم کا آغاز باقاعدہ طور پر ہو چکا تھا۔
ظہر سے قبل فوزیہ باجی کسی فوتگی پر چلی گئی۔۔
گھر پر کوئی نہ تھا علاوہ فوزیہ باجی کی ساس کے جو اپنے کمرے سے کم ہی نکلتی تھی
میں نے حسب معمول گھر کی صفائی ختم کی اور اوپری منزل پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
کہنی سے چہرہ ڈھانپ کر گنگنا رہا تھا کہ زینے پر آہٹ ہوئی۔
چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو نجمہ چلی آ رہی
تھی۔۔۔
Tumblr media
میں اسے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔
زمان ۔۔۔۔۔ تمہاری باجی کہاں ہیں۔۔۔؟
اپنے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی ہیں۔۔۔
مار ڈالا کمبخت نے۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ نے آنکھوں سے دھوپ کا چشمہ اتار کر رومال سے پسینہ خشک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ گلابی کلر کا لان کا سوٹ پہنے ہوئی تھی۔ ست رنگی دوپٹہ کاندھے پر رسی کی مانند ٹنگا ہوا تھا۔ سیاہ چادر ہاتھ میں تھی۔
دھوپ میں چل کر آنے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
وہ چشمے کی کمانی دانتوں میں دبا کر کچھ
سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔
میری نگاہیں اس کے حسین پیکر پر جمی ہوئی تھیں۔
جن جگہوں سے پسنے کی نمی نے لباس کو متاثر کیا تھا وہاں سے بدن جھلک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دراز قد کی دلکش اور صحت مند عورت تھی۔
اس کے سینے پر نگاہ گئی تو صبح کو خربوزے خریدنے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
میں نے کبھی کسی عورت کو بے لباس نہیں دیکھا تھا۔۔۔
بازارِ میں سبزیوں کی دکان پر کام کرنے والے لڑکے سے کچھ دوستی تھی اس نے مرد عورت کے تعلق کو مجھ پر ایک انگریزی رسالے کی مدد سے ظاہر کیا تھا۔۔۔۔
اس کو تجربہ بھی تھا ایک فقیرنی کے ساتھ۔۔۔
میں نجمہ کو کچھ دیر یوں ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
اس وقت وہ مجھ کو بہت اچھی معلوم ہو رہی تھی۔۔
چند سیکنڈ بعد میں نے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ضروری کام تھا۔۔۔۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔۔ نجمہ نے اسی طرح سوچتے ہوئے جواب دیا۔
گھر پر طبعیت گھبرائی۔۔۔۔
میں نے کہا چلو فوزیہ کے ہی پاس چل کر گپیں لڑائیں۔۔۔۔
تو پھر چلیے۔۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
کمرے میں بیٹھیے۔۔۔۔۔
نجمہ نے مجھے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔۔
کچھ خاطر تواضع بھی کرو گے ۔۔۔۔۔
کیوں نہیں۔۔۔۔
میں نے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
وہ میرے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئی اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
میں نے پنکھا کھول دیا اور اس سے کہا۔۔۔۔۔
اب اس قدر گرمی میں کہاں جائیں گی۔۔۔۔۔۔
یہیں آرام کیجیے۔۔۔۔
Tumblr media
سینڈل اتار ڈالیے۔۔۔
گھر سے یہاں تک آنے میں پسینے میں تر ہو گئی ہوں۔۔۔۔
غسل کر لیجیے۔۔۔بہتر محسوس ہوگا
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی، دوپٹہ سرہانے پھینکا اور سینڈل اتارتی ہوئی غسل خانے میں چلی گئی۔
میں کمرے کے دروازے کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
اندر سے فوارے کا پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نجمہ نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
زمان یہاں تولیہ نہیں ہے۔
جسم کس چیز سے خشک کروں۔۔۔۔۔۔؟
اس کے لہجے کی شوخی نے مجھے ایک عجیب احساس سے دوچار کیا
میں نے الماری سے تولیہ نکالا اور غسل خانے کے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے پکارا۔۔۔۔
" تولیہ لیجیے "
ایک بار پھر دروازے کی جھری ایک بڑے خلا میں بدلی اور نجمہ کا چہرہ نمودار ہوا۔۔۔
اس نے تولیہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس قدر بڑھایا کہ اس کا سینہ بھی جھانکنے لگا۔۔۔
میرے قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔۔۔۔
Tumblr media
اور تولیہ میرے ہاتھ سے گر گیا۔۔۔
اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور لٹوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔
دروازے کا کنارہ اس کے سینے سے چپکا ہوا تھا۔۔۔
اس کے کاندھوں تک ننگے بازو اور سینہ دیکھ کر میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہو گیا اور میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر میری کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پکارا۔۔۔
"تولیہ دے دو"
میں نے پر شوق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اگر آپ نے تولیے سے بدن خشک کر لیا تو غسل کا فائدہ ہی کیا۔
لطف تو جب آتا ہے جب پنکھے کی ہوا بھیگے ہوئے جسم پر لگتی رہے۔۔۔
تو نہ خشک کروں تولیہ سے۔۔؟
نجمہ نے معصومیت سے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے تو خشک کرنا بےکار ہے۔۔۔
تو پھر میرے کپڑے جو بھیگ جائیں گے۔۔۔۔ وہ بولی۔۔۔
ابھی کپڑے پہن کر کیا کیجیےگا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔
اس نے ہنس کر کہا۔۔۔
تو کیا میں یوں ہی ننگی آ جاؤں کمرے میں۔۔۔۔؟
ہرج ہی کیا ہے۔۔۔۔ میں نے دھیرے سے کہا۔۔۔
تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو کیا میں تمھارے سامنے ننگی آ جاؤں۔۔۔
Tumblr media
میں تو آپ کا خادم ہوں۔۔۔
مجھ سے کیا پردہ۔۔۔
آپ کی سہیلی بھی مجھ سے کوئی تکلف نہیں کرتیں اگر لباس بدلنا ہو تو۔۔۔
میں نے اس کو بتایا۔۔۔۔
نہیں ، میں اس طرح نہ آؤں گی
تم مجھے کوئی چادر لا دو۔۔۔۔۔
نجمہ نے مجھے دیکھتے ہوئے نشیلی آواز میں کہا۔۔۔۔
میں نے ایک باریک ریشمی چادر نکال کر اس کو دے دی اور وہ اس کو اپنے بھیگے بدن پر لپیٹ کر باہر آ گئی۔۔۔
کچھ دیر قبل دیکھا ہوا اس کا تھن میرے حواس پر چھایا ہوا تھا۔
میں نے اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اس وقت تو آپ جل پری معلوم ہو رہی ہیں۔۔۔۔
وہ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔۔
اچھا جی۔۔۔۔
اب تمہیں مسکہ لگانا بھی آ گیا ہے۔۔۔۔۔
میں نے کہا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسم لے لیجیے اگر جھوٹ لگے تو۔۔۔۔۔۔
آپ زرا خود کو آئینے میں تو دیکھیں۔۔۔ یقین آ جائے گا۔۔۔
اپنی تعریف سن کر وہ اس درجہ خوش ہوئی کہ مدہوشی کے عالم میں فخر کے ساتھ خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔۔۔
پھر بولی ۔۔۔۔۔
Tumblr media
زمان ۔۔۔۔!! ۔ دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔
اگر کوئی اس طرح مجھے اور تمھیں یہاں دیکھ لے تو کیا ہو۔؟
کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں نے کہا
میں تو ایک معمولی ملازم ہوں اور کوئی ہوتا تو چاہے کوئی شک بھی کرتا۔۔۔۔۔
نجمہ نے کہا۔۔۔۔۔۔
نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔
تم دروازہ بند کر دو۔۔۔۔
میں اب خوشی کے مارے اپنے حواس میں نہ تھا۔
کانوں کی لویں گرم ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی
اور
گلا خشک ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے لپک کر دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا دی پھر جو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو وہ پلنگ پر چت لیٹی چھت پر نظریں جمائے سوچ میں گم تھی۔
Tumblr media
چادر جو غسل خانے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے لی تھی، زیادہ وسیع نہ تھی۔
پہلے بھی گھٹنوں سے اوپر تھی
اب لیٹنے سے اور بھی بے ترتیب ہو گئی تھی
اس کا جھلکتا بدن ایک یادگار نظارہ تھا
سینے کے ابھار دیکھ کر میری سانس رکنے لگی
بہت سوچ کر ایک خیال سوجھ ہی گیا
میں نے پاس جا کر کہا ہاتھ پاؤں دبا دوں ۔۔۔۔۔؟
آپ تھکی ہوں گی۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
اس نے مجھ پر ترچھی نظر ڈالی اور مسکراہٹ دبا کر کہا۔
جو چاہو دبا دو
واقعی میرے سارے جسم میں درد ہو رہا ہے۔
پھر کیا تھا، مجھے تو سمجھو اجازت کی صورت میں خزانہ مل گیا۔
میں نے گھٹنوں کو فرش پر ٹکایا اور اس کی برہنہ ٹانگیں پاؤں سے گھٹنوں تک دبانے لگا
پاؤں سے شروع کرتا اور گھٹنوں سے ایک مٹھی اوپر تک دبا کر واپس پاؤں پر لوٹ آتا
جب دونوں ٹانگوں کو بےشمار دفعہ دبا کر دل بھر گیا تو میری توجہ اپنی شلوار کی طرف گئی جہاں میرا ہتھیار پلنگ کی کناری سے ٹکرا ٹکرا کر بپھر چکا تھا
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مجھے آگے کی حکمت عملی سوجھ نہیں رہی تھی اور وہ مزے سے آنکھیں موند کر گہری سانسیں لے رہی تھی جس کے سبب سینہ کی بلندی کبھی بڑھ جاتی کبھی کم ہو جاتی۔
پھر سے شیطان نے آئیڈیا بھیجا اور میں نے یکایک نوٹ کیا کہ جیسے وہ چادر کو شال کی طرح لپیٹ کر باہر آئی ہے اسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور چادر کا ایک سرا پکڑ کر یوں الٹ دیا جیسے آپ کتاب کا سرورق کھولتے ہیں۔
اگلے پل اس کا سینہ نصف سے زیادہ میرے سامنے ننگا تھا۔
فوراً ہی اس نے آنکھیں کھول کر حیرانگی اور بدحواسی سے مجھے دیکھا۔
Tumblr media
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، میں نے اس کا ہاتھ کلائی سے پکڑا اور فضا میں بلند کرتا ہوا پلنگ کے سرہانے کی طرف لے گیا۔
ہاتھ کو وہاں ٹکا کر میں نے چادر پھر سے وہیں ڈال دی جہاں وہ پہلے تھی۔
اور بازو کو سرہانے سے واپس اس کے پہلو میں لے آیا۔
سیکنڈوں میں سب کچھ ہو گیا۔
وہ کچھ کہتے کہتے چپ رہ گئی لیکن کچھ سیکنڈ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتی رہی ۔
میں بے نیازی سے اس کے بازو کو دبانے میں خود کو مگن ظاہر کرتا رہا۔
اب ہمارے درمیان ایک طرح کا بلی چوہے کا کھیل چل رہا تھا کہ پہل کون کرتا ہے۔
میں اناڑی پن سے دوچار تھا اور وہ میرے حال سے لطف اٹھا رہی تھی۔
کچھ لمحوں کے لیے اس نے آنکھیں بند کیں تو میں نے وہی عمل دہرایا اور دوسرے ہاتھ کو بھی چادر سے ��اہر نکال دیا۔
Tumblr media
اس بار چادر کو بے ترتیبی سے ڈالا کہ سینہ محض نام کو ڈھکا ہوا تھا اور بیشتر بالائی حصہ ظاہر تھا۔
یہاں ایک تجزیہ پیش کرتا چلوں کہ جو شاعروں نے ہزاروں پرچے محبوبہ کی زلفوں اور نگاہوں کی تعریف میں کالے کیے ہیں سب بےکار ہیں۔
میں جتنی دیر اس کے ساتھ رہا ایک پل بھی میری توجہ اس کی چھاتیوں سے کہیں اور منتقل نہ ہو سکی۔
آج اس کی شکل بھی یادداشت میں واضح نہیں لیکن اس کا سینہ ایک پل میں آنکھیں بند کر کے چشم تصور سے صاف طور سے دیکھ سکتا ہوں۔
شاید اس لیے کہ وہ پہلی بار تھا ۔
شاید اس لیے کہ وہ بے مثال تھا۔
لیکن اس کے بعد کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے ہر عورت کا موازنہ اس کے ساتھ نہ کیا ہو۔
بازو دبانے میں کچھ خاص لطف نہ تھا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں انگلیوں کی مدد سے چادر کو ذرا سرکایا کہ وہ دوبارہ سے برہنہ ہونے لگی۔
یہ بات اس نے محسوس کر لی اور دوسرے ہاتھ سے چادر کو درست کر لیا۔
میرے ذہن میں آگے کا کچھ خاکہ نہ تھا۔ میرا واحد مقصد اس کے سینے کو دوبارہ دیکھنا تھا لیکن بہرحال میں تھا تو ایک ملازم۔
وہ مالکن نہ سہی لیکن اس سے کم بھی نہ تھی۔
ماحول ایک دم سنجیدہ تھا کبھی اس کے چہرے پر مسکان جھلکتی تو کبھی چہرہ بےتاثر ہو جاتا۔
Tumblr media
میں نے اکتا کر سوچا کچھ ایسا ہو کہ یہ پلنگ سے اترے۔۔
شاید کوئی صورت نکلے
ہاتھ دبانا چھوڑ کر میں نے کہا
سر دبا دوں
نہیں، وہ بولی
ادھر درد ہے۔ اس نے اپنی رانوں کو چھوا۔
دبا دیتا ہوں۔ میں نے کہا
نہیں۔ اوپر آؤ اور میری ٹانگوں پر بیٹھ جاؤ۔
میں تعجب کی کیفیت میں دونوں گھٹنے اس کے پہلوؤں سے ملا کر دوزانو ہو کر اس کی رانوں پر بیٹھ گیا۔
آ ہ ہ ہ ہ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے لبوں سے ایک کراہ برآمد ہوئی۔
میں نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ ٹکا کر اپنا وزن اس پر سے کم کیا۔
کہنے لگی۔ یوں تو دبلے پتلے ہو لیکن وزن رکھتے ہو۔
ذرا آگے سرک جاؤ۔
جی اچھا کہہ کر میں کچھ آگے ہو گیا۔
اب میری گیندیں عین اس کی شرم گاہ کے قریب تھیں
لیکن آپ میری سادگی دیکھیں کہ میرے ذہن میں اس وقت بھی ایک ہی خواہش تھی کہ میں کسی طرح اس کا سینہ دیکھ سکوں۔
Tumblr media
اف........ آرام تو مل رہا ہے لیکن وزن زیادہ ہے تمہارا۔۔
یوں کرو کہ تم لیٹ جاؤ
یہ کہتے ہوئے اس نے میرے دونوں ہاتھ میرے گھٹنوں سے اٹھائے اور انگلیاں پھیلا کر پنجے میں پنجہ جکڑ لیا۔ پھر جو اپنے ��ونوں ہاتھوں کو اس نے دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچا تو میں اس پر جھکتا چلا گیا
یہاں تک کہ میرا سینہ اس کے سینے پر ٹک گیا۔
دو سیکنڈ یا شاید تین گزرے ہں گے ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ چھوڑ کر مجھے شانوں سے پکڑا اور واپس اٹھا دیا
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو بولی۔۔۔
پسینہ کی بو آتی ہے۔۔
قمیض اتارو
میں نے بلا توقف قمیض اتار ڈالی
بنیان بھی اتارو
میں نے یہ بھی کیا
بنیان سے آخری بازو نکال کر کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے سینے سے چادر ہٹا دی ہے۔
Tumblr media
میں ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پایا کہ اس نے مجھے کہنیوں سے تھام کر خود پر جھکا لیا
اس حد تک کہ میرا گال اس کے گال کو چھونے لگا
اور میرا ہتھیار جو پہلے سے سوجا ہوا تھا اب مکمل طور پر اکڑ کر اس کی ناف کے نچلے حصے سے رگڑ کھانے لگا۔
لاتیں بھی سیدھی کرو۔ وہ بولی
میں اب اس کے اوپر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے میری پشت کو سہلایا اور پھر ایک ہاتھ میرے سر کے پیچھے رکھ کر میرے گال سے گال رگڑنے لگی۔
میری خواہش قدرے مختلف انداز میں پوری ہو گئی تھی
گو کہ میں اس کے سینے کو دیکھ نہیں پا ��ہا تھا لیکن اپنے سینے پر اس کے سینے کا لمس ایک جادو بھرا احساس تھا۔
Tumblr media
اس نے اپنی ایک ٹانگ میرے گرد لپیٹی اور یکایک پلٹی کھائی کہ میں اب اس کے نیچے تھا
وہ اپنی شرمگاہ کو میرے ہتھیار پر رکھ کر حرکت دینے لگی۔
اس نے اپنے پاؤں کو میری پنڈلی پر دو چار دفعہ رگڑا۔۔۔
میرے گال کا بوسہ لیا اور پھر اٹھ کر مجھ پر بیٹھ گئی
جیسے کچھ دیر قبل میں اسکے اوپر بیٹھا تھا
اب میں اس کا سینہ بہت قریب سے دیکھ رہا تھا
اس نے میری نگاہوں کا ہدف بھانپ لیا ۔
میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر ذرا سا جھکی اور میرے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر غمگین انداز میں بولی۔
ان سے میں بہت تنگ ہوں
دیکھو تو یہ کتنے بڑے ہیں
یہ مجھے بہت درد دیتے ہیں
میں نے دونوں تھن گرفت میں لینے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنی انگلیوں کی لمبائی کو ناکام پایا۔
زور سے پکڑو۔
آٹا گوندھا ہے کبھی تم نے۔۔۔؟
اس نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے بتایا
اچھا دیکھا تو ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
Tumblr media
جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا
بس وہی کرنا ہے۔۔۔
میں تو ایک ملازم تھا
اکیلے کمرے میں اس کے ساتھ تنہا
وہ بھی ایسی صورت حال میں کہ وہ مجھ کو بستر پر لٹا کر مجھ پر چڑھی بیٹھی تھی
انکار کی مجال ہوتی بھی تو ایسا غضب کا موقع کون جانے دیتا ہے
سو میں نے پوری تسلی سے اس کی چھاتیوں کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔
اس دوران وہ آنکھیں بند کیے عجیب سی مبہم آوازیں نکالتی رہی۔
آخر اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو گئی
کہنے لگی کچھ فرق پڑا ہے
ٹانگوں میں ابھی درد باقی ہے
میری نگاہ اس کی شرم گاہ کی طرف گئی۔
چادر ابھی بھی اس کے نچلے دھڑ سے الجھی ہوئی تھی۔
اس نے کہا
میری کسی بات کا برا تو نہیں لگا تم کو۔
Tumblr media
نہیں بالکل نہیں۔
اس نے میرے ہتھیار پر اپنی شرمگاہ کو حرکت دی اور بولی
بس ایک آخری چیز اور
شاید چین آ جائے
تکیہ اٹھایا اور میرے چہرے پر رکھ کر بولی اپنے ہاتھوں کو اپنے سر کے نیچے رکھو۔
میں نے ایسا ہی کیا۔
وہ قدرے پیچھے کو سرک کر بیٹھی۔ تقریباً میرے گھٹنوں سے زرا سا اوپر ۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی رہنا۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ بولی
اور نہایت پھرتی سے اس نے میرا ناڑا کھینچ ڈالا
جوتوں کی لیس والی ڈیڑھ گرہ لمحے میں کھل گئی۔
Tumblr media
دوسرے ہاتھ سے اس نے شلوار کا گھیر ڈھیلا کیا اور دونوں ہاتھ سے نیچے کھینچ دی
میں نے بوکھلا کر اپنے ہاتھ نکالے اور تکیہ ہٹایا لیکن میرے سنبھلنے تک وہ پوزیشن بدل کر عین میرےہتھیار کے اوپر تھی
جو کہ پہلے ہی راکٹ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھا
اس کاایک ہاتھ اپنی شرمگاہ پر تھا اور دوسرے سے اس نے میرے ہتھیار کو پکڑ کر پوزیشن بنائی
قبل اس کے میں کچھ کہتا سمجھتا
دخول شروع ہو چکا تھا
سیکنڈوں میں ہتھیار اس کے بدن کی گہرائی میں گم ہو چکا تھا۔
Tumblr media
میں نے پاگلوں کی طرح اس کو شانوں سے پکڑ کر کھینچا اور خود پر گرا لیا عمر کے حساب سے وہ اپنی جوانی کے عروج پر تھی بدن بہت کسا ہوا اور متناسب تھا۔
میں اگر اس کی خلوت میں اس کو بےحجاب اور بے لباس اپنی دسترس میں پا سکا تو میرا اس میں کچھ کمال نہ تھا۔
یہ محض میرا گڈلک تھا
دراصل میں اس کے تصرف میں تھا۔
وہ مجھ کو حاصل کرنے کے ارادے سے یہاں ہرگز نہیں آئی تھی۔
غسل کے بعد سینے کی گولائی ظاہر کرنا بھی ممکنہ طور پر محض شرارت ہو سکتی تھی۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ عورت کو آج تک کوئی بھی نہیں سمجھ پایا۔
میں اس کے بدن تلے دبا اسی پیچیدگی سے فیض یاب ہو رہا تھا۔
Tumblr media
میں نے اس کو خود پر گرا کر بازوؤں کے حلقے میں اس کے اوپری دھڑ کو دبوچ لیا۔
اب میرے ذہن میں کچھ غلط فہمی نہ تھی کہ یہ درد سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
میں سبزی والے اکرم کے پاس دیکھی ہوئی تصویروں سے ملتےجلتے منظر کا حصہ تھا اور وہ میری بانہوں کی قید میں تھی۔
میں نے ہاتھ میں اپنی دوسری کلائی کو تھام کر ایک زور کے جھٹکے سے گھیرا تنگ کیا۔
اس کے منہ سے ایک نشیلی ہائے نکلی ، میں نے اپنے ہاتھوں کا گھیرا اس کی کمر پر قدرے نیچے سیٹ کیا اور دوبارہ طاقتور جھٹکے سے اپنی طرف دبایا۔
مار ڈالا کمبخت، یوں تو میں تیری پسلیاں گن لوں۔ زور پتا نہیں کہاں سے لگا رہا ہے۔
تیسرا جھٹکا میں نے اس کی کمر کے اوپری حصے پر دیا تو وہ جھنجھلا گئی۔
موڈ خراب نہ کرو میرا ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بازو ڈھیلے کر دیے۔
Tumblr media
وہ سیدھی ہوئی اور میرے ہاتھ قابو کر کے مجھ پر ایسے جھکی کہ سینے کی گولائی پر سجا انگور دانہ میرے ہونٹ چھونے لگا۔
میں نے چومنے کی کوشش کی تو اس نے ذرا سی حرکت سے میری کوشش ناکام کر دی۔
پھر دوبارہ وہی حرکت دہرائی اور پھر مجھے ناکامی ہوئی۔
تیسری بار میں تیار تھا۔اس کے قریب آتے ہی میں نے جھٹکے سے سر اٹھا کر منہ میں انگور سمیت پورا براؤن دائرہ قابو کر لیا۔
اس نے سیدھا ہونے کی کوشش کی تو میں نے دانت گاڑ دیے۔
اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ کر میرے چہرے پر اپنا سینہ اور سارا وزن ڈال دیا۔
اب میں کیا کرتا، میں نے منہ کھول دیا۔
وہ پھرتی سے سیدھی ہوئی اور مجھ پر سے اتر کر برابر میں لیٹ گئی۔
میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند تھیں۔
Tumblr media
کیا ہوا۔۔۔ میں اٹھ بیٹھا۔۔۔
اس نے اوپری دھڑ کو ایک طرف موڑ کر دونوں ہاتھ بلند کیے اور زور کی انگڑائی لی۔۔
دونوں کام سکھا کر وہ مجھے کارکردگی دکھانے کا موقع دے رہی تھی۔
میں بےتاب ہو گیا۔اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو اس نے ٹانگیں کشادہ کر دیں۔
لیکن منہ سے کچھ بولی نہ آنکھیں کھولیں۔۔۔
میں اس کے اوپر آ کر دوبارہ ڈالنے لگا لیکن مجھے ہدف نہ ملا۔
دو تین کوششیں ناکام ہونے پر وہ آنکھیں کھول کر مسکرائی اور اپنی ٹانگیں سمیٹ کر پیٹ پر لے گئی۔
Tumblr media
مجھے اس کے دونوں سوراخ واضح نظر آئے تو میں جلدی ��ے گھٹنوں کے بل اس کے کولہوں سے اپنی رانیں جوڑ کر پھر سے داخل کرنے لگا
جیسے ہی مجھے لگا جگہ مل گئی ہے میں نے یکدم پورا اندر کر دیا۔اور اس پر جھک کر دوسرا سبق دہرانے لگا۔
ایک سبق سینے سے متعلق تھا اور دوسرا نیچے شرمگاہ کی تواضع کا۔
میں اس پر جھکا دونوں گیندوں سے کھیلتا رہا۔
پہلے تجربے میں جتنی عجیب و غریب حرکات سرزد ہو سکتی ہیں۔
وہ سب میں نے کیں۔ ایک موقع پر میں اس کے دونوں پھل ملا کر دونوں انگور بیک وقت چوسنے میں کامیاب ہوا تو اس کی کیفیت عجیب ہو گئی، میں ڈر گیا کہ یہ کیسا دورہ پڑا ہے۔
اب تک میں نیچے کچھ نہیں کر رہا تھا داخل کرنے کے بعد سینے پر توجہ تھی۔
اس نے دونوں ہاتھ میرے پہلوؤں پر رکھ کر اپنی دونوں ٹانگوں سے میری کمر پر قینچی لگا لی۔
ہاتھوں کے دباؤ سے مجھے دور کرتی اور پیروں کے دباؤ سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔
کئی بار کرنے کے بعد بولی۔
اب یہی کرتے رہو۔۔۔
میں نے یہ حرکت دہرانا شروع کی تو لذت کے نئے زاویے سے واقف ہوا اور میری بھی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
Tumblr media
تیز تیز کرو۔۔۔۔
میں نے رفتار بڑھا دی۔
اس کی کیفیت مجھے کچھ خبر نہ تھی۔بس یہ پتا تھا کہ جتنی تیز گھوڑے کو دوڑائیں گے اتنا ہی مزہ آئے گا۔
سواری بھی بھرپور مزہ لے رہی تھی۔میں نے اس کے سینے کو دبوچ رکھا تھا کہ اچانک اس نے مجھے کھینچ کر چمٹا لیا اور اپنے دانت میرے کاندھے پر گاڑ کر عجیب طریقے سے کمر پر ناخن سے کھروچنے لگی۔
اس کے بدن کا نچلا حصہ بدستور حرکت میں تھا۔ میرے ہتھیار میں سرسراہٹ ہوئی۔
میں نے سوچا باتھروم جاتا ہوں یہ پیشاب کی حاجت ہے لیکن اس کی گرفت میں ہلنے کے قابل بھی نہ تھا سو میں نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا لیکن ہتھیار کے ساتھ جو ہو رہا تھا اس کے بدن کے اندر ہی اندر۔۔۔۔۔
تو آخر وہ لمحہ آیا جب مجھے انزال ہوا اور لذت کے جھولے کی پہلی سواری کا مزہ نکتہ عروج پر پہنچ گیا۔
وہ بھی سکون پا کر نارمل ہو گئی اور ہم دونوں برابر لیٹ گئے ۔۔
Tumblr media
میں کچھ دیر آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔
جب اٹھا تو وہ دوبارہ نہانے جا چکی تھی.
میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھول کر چوروں کی طرح باہر نکلا۔
کوٹھی میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور نیچے جا کر
ایک گلاس روح افزا بنا کر اوپر آ گیا۔
نجمہ غسل خانے سے لباس پہن کر آ چکی تھی اور سنگھار میز کے سامنے بیٹھی کنگھا کر رہی تھی۔
مجھے آئینے میں دیکھ کر کہنے لگی
دیکھو زمان!! میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کسی سے کچھ نہ کہنا۔
میں نے گلاس سنگھار میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
کیسی باتیں کرتی ہیں آپ۔۔۔۔
میں تو خادم ہوں آپ کا۔۔۔
بھلا میری اتنی ہمت پڑ سکتی ہے۔۔
وہ مطمئن ہو گئی اور میں باہر چلا آیا۔
کچھ دیر بعد نجمہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔
ختم شد
Tumblr media
9 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے
مے برستی ہے، فضاؤں پہ نشہ طاری ہے
میرے ساقی نے کہیں جام اچھالے ہوں گے
شمع وہ لائے ہیں ہم جلوہ گہِ جاناں سے
اب دو عالم میں اجالے ہی اجالے ہوں گے
جن کے دل پاتے ہیں آسائشِ ساحل سے سکوں
اِک نہ اک روز طلاطم کے حوالے ہوں گے
ہم بڑے ناز سے آئے تھے تیری محفل میں
کیا خبر تھی لبِ اظہار پہ تالے ہوں گے
اُن سے مفہومِ غمِ زیست ادا ہو شاید
اشک جو دامنِ مژگاں نے سنبھالے ہوں گے
پروازؔ جالندھری
4 notes · View notes
uma1ra · 2 years
Text
Tumblr media
اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، پس پلک جھپکنے(ایک لمحے) کے لیے بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرے سب حالات سنوار دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
117 notes · View notes
apnibaattv · 2 years
Text
پی ایم سی نے امتحانی شیڈول کے حوالے سے بیان جاری کیا۔
پی ایم سی نے امتحانی شیڈول کے حوالے سے بیان جاری کیا۔
نمائندہ تصویر۔ اسلام آباد: پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) نے ہفتہ کو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ (MDCAT) 2022 کے شیڈول کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا اور امیدواروں کو مشورہ دیا کہ وہ اپ ڈیٹس کے لیے ویب سائٹ کو فالو کریں۔ پی ایم سی نے کہا، “ملک بھر میں جاری سیلاب کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیشنل میڈیکل اتھارٹی امتحان کے مقامات کا جائزہ لے رہی ہے۔” MDCAT امتحان 7 سے 30 ستمبر 2022…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
munsifurdu · 2 years
Text
مودی نے ملک کا بہت بڑا حصہ چین کے حوالے کردیا: راہول گاندھی
راہول گاندھی نے ٹویٹ کیا چین نے اپریل 2020 تک جمود کو بحال کرنے کے ہندوستان کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے بغیر کسی لڑائی کے چین کو 1000 مربع کلومیٹر زمین دے دی ہے۔ #Munsifurdu #Rahul_Gandhi
نئی دہلی: کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی زمین کا ایک بڑا حصہ خاموشی سے چین کے حوالے کر دیا ہے۔  گاندھی نے ٹویٹ کیا، “چین نے اپریل 2020 تک جمود کو بحال کرنے کے ہندوستان کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے بغیر کسی لڑائی کے چین کو 1000 مربع کلومیٹر زمین دے دی ہے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ چین نے سرحد پر جمود برقرار رکھنے کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
Tumblr media
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔ 
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
Tumblr media
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔ 
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
pakistantime · 5 months
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں
Tumblr media
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ 
Tumblr media
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔ 
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
 انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
0rdinarythoughts · 8 months
Text
Tumblr media
ھمیں آزاد جنا گیا اور دکھوں کے حوالے کر دیا گیا ھماری روحیں سکون کی تلاش میں اپنے ہی ہاتھوں مرکز کی جانب لوٹ جاتی ہیں
We are born free and surrendered to suffering, our souls return to the center with their own hands in search of peace.
20 notes · View notes
amiasfitaccw · 6 days
Text
میرے گاؤں کے نفاست علی نے جی بھر کر چودا
قسط 04
اس نے مجھے زور جکڑ لیا اور میں کوشش کرتی رہی اسکی گرفت سے نکلنے کی مگر اس نے مجھے نہیں چھوڑ تھا سالا گانڈ چودنے پہ کچھ برا لگا تھاا ذرا دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی میں نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا مگر اس نے انکار کردیا تھا
Tumblr media
مجھے گانڈ میں وہ مزہ نہیں مل رہا تھااور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں میں خاموش ہوگئی میں نے خود کو پورا اسکے حوالے کیا ہوا تھا اس نے میری رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے آگیا میرے بوبز بری طرح سے ہل ہل کر میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے
Tumblr media
اور میں بھی پوری ہل رہی تھی میں نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں پلیز میں تو اس نے کہا چلو نیچے زمین پر مجھے زمین پر لاکر اس نے پیٹ کے بل مجھے بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ میرے گھٹنے زمین پر لگے تھے اب وہ بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لوڑا میری گانڈ میں داخل کیا تھا
اب اس نے پورا لوڑا اندر ڈال کر مزید کنواری گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لوڑا کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا جس سے ایک بار پھر میری چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں بالاخر اسکا وقت پورا ہونے لگااس نے مجھ سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں
Tumblr media
نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو میں نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے پورا لوڑا گانڈ میں گھسیڑا اور لوڑا نے منی اگلنا شروع کردی تھی میری گانڈ فل بھر دی اس نےمیری زندگی اتنی حسیں ہوتی جا رہی تھی کہ کیا بتاؤں دن بدن خشیوں میں اضافہ ہوتا گیا وقت اپنی فطری منزل کی جانب رواں دواں تھا
ہماری پیار کا صرف نفاست علی کےصرف دو دوستوں قیصر اور سرادر کے علاوہ کسی کو پتا نہیں تھا وہ اپنے دوستوں سے میری ��ات کرواتا میں اس کی پیار میں دیو��نی ہو گئی تھی وہ جتنے پیسے بھی مانگتا میں جہاں سے بھی لیتی مگر اس کو وقت پر دیتی وہ کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ناراض نا ہوتا نہ کبھی مجھے اس کو منانے کا بہانہ ملتا وہ اپنے وقت کا ہیرا تھا جس کا شوق صرف مجھے تھا مجھے اس کی ضرورت تھی
Tumblr media
صرف میں ہی اسے پانا چاہتی تھی اسے کھونے سے پہلے میں اپنی جان دے دیتی ہم نادان لڑکیاں جب چاہتی ہیں تو اس طرح ہی چاہتی ہیں ایک دن اس کے دوست قیصر نے پتہ نہیں کس سے میرے ابا کا نمبر لیا تھا اور کال کر کے کہا کہ تمہاری بیٹی فلاں لڑکے سے پیار کرتی ہے اس کے بنا نہیں رہ سکتی وہ حالانکہ شادی شدہ ہے میرے ابا نے گھر آ کرفل مچا دی اور گھر والا سیل امی کو کہا کہ کومل کو نہیں دینا
لیکن مجھے تو نفاست علی نے سیل لے کر دیا ہوا تھا مگر شادی شدہ والی بات تو ایک دم میرے دل میں بیٹھ گئی کیا نفاست علی واقعی شادی شدہ تھا میں نے نفاست علی سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ قیصر ایسے ہی بکواس کرتا رہتا ہے تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا اس طرح اسکی میٹھی میٹھی باتوں کے بہکاوے میں آکر میں شادی شدہ والی بات بالکل بھول ہی گئی اب امی ابا مجھ سے ناراض رہنے لگے
Tumblr media
مگر میں اس کی پیار میں اتنی جنونی ہو چکی تھی کہ اس بات پرتوجہ ہی نہ دیا میں بتانا بھول گئی کہ اس بات پر مجھے گھر والوں نے بہت مارا حتی کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا کہ ان کو شک ہوتا میرے ابا ویسے ہی سخت مزاج تھے میرے ماموں کے بیٹے کی اب شادی تھی ہم سب گھر والے ادھر گئے ہوئے تھے تو نفاست علی نے بیت ضد کی کہ مجھے ملو
میں نے وہاں ایک پکی سہیلی بنائی ہوئی تھی میں اس کے گھر رات کو نفاست علی کو لے گئی تھی سہیلی کے گھر اس رات کوئی بھی نہیں تھا مجھے چدانی تھی اس رات نفاست علی سے میری دوسرے ملاقات تھی اس سے بہت دل کی باتیں ہوئیں دل کی ایک بار پھر سے پیار کے عہد و پیماں ہوئے باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا
Tumblr media
اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں نرم تم بہت خوبصورت ہووہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا ادھرپھدی گیلی ہو رہی تھی کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری چنی ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی
اب میں مدہوش سی ہو رہی تھی مگر پھر بھی اپنے اوپر قابا رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھاپھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے ریشمی بالوں میں گھس گیا میں چپ چاپ بیٹھی مست مست ہو رہی تھی اور میری سانسیں اور زیادہ گرم ہو رہی تھی
Tumblr media
اس کا ایک ہاتھ میری گانڈ والی سائیڈ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف پہ تعریف کئے جا رہا تھا پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا تھا میں جان گئی کیا کرنا چاہتا ہےمیں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
اس نے اپنے رس بھرے لپس کو میرے لپس پر رکھ دیا اور میرے لپس کا رس چوسنا شروع کر دیامجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی تھی پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور مجھے اپنی مردانہ گرمی والی گود میں بٹھا لیا اب میرے دونوں نپلز اس کی چھاتی سے دب رہے تھے
Tumblr media
اور کواری بڑھنے لگی تھی اس کا ہاتھ اب کبھی میری چکنی گانڈ پر کبھی بالوں میں کبھی گالوں میں اور کبھی میرے بوبز پر چل رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی پندرہ سے بیس منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے چوستے چاٹتے رہے تھے
Tumblr media
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا میری بریزر میں سے میرے سفید دودھ جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے وہ بریزر کے اوپر سے ہی میرے بوبز مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا
Tumblr media
پھر اس کا ہاتھ میری تنگ پجامی تک پہنچ گیا جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا
میری پجامی بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی مگر پجامی اتارتے ہی وہ میرے گول گول خوار پھدی کے درازدیکھ کر خوش ہو گیا اب میں اس کے سامنے بریزر اور پینٹی میں تھی اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیامیں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے خوارپھدی کے لپسوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب اپنے پیار کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا میں پیچھے مڑی اور چدائی کے لیئے فل گھوڑی بن کر اس کی پینٹ جہاں پر لوڑا تھا پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی
Tumblr media
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا میں بہت ہاٹ مست ہوتی جا رہی تھی
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی اس کا لوڑا انڈروئیر میں کسا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا اب اس طرح کا لن ہی مانگ رہی تھی
میں نے اس کی پینٹ اتار دی
Tumblr media
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کیااس سے اس کی بالوں والی جگہ جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھینچااس کا ساڑھے سات انچ کا لوڑا میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا موٹا لن تھا
اور سرا بھی موتا تھا اتنا بڑا لوڑا اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی اس کا بڑا سا اور لمبا سا لوڑا مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھامیرے لپس اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا میرے ہونٹوں پر گرم گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی تبھی نفاست علی نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا
اور میرا سر اپنے لوڑا کی طرف دبانے لگامیں نے منہ کھولا اور اس کا لوڑا میرے منہ میں سمانے لگا اس کا لوڑا میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی نفاست علی بھی میرے سر کو اپنے لوڑا پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لوڑا گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا
Tumblr media
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لوڑا میرے گلے تک اترنے لگا میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ نفاست علی فارغ ہو گیا ہےتبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لوڑا بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیااس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا
کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہےتھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری بریزر کی ہک کھول دی میرے دونوں بوبز آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے
Tumblr media
اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں بوبز اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا
وہ میرےممے کو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا میری تو جان نکلی جا رہی تھی میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا اس نے میری پینٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹانگیں پھیلا کر کھول دیوہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری خوار پھدی پر رکھ دی میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی
میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اس کا لوڑا میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا بڑالوڑا پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے میں نے نفاست علی کی ببازو پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا میری جان میرے اوپر آ جاؤ نفاست علی۔
(جاری ہے)
Tumblr media
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 7 months
Text
تُو کہاں تھا؟
کہ جب میں بُریدہ مقدر لیے تیرے در پر صدائیں لگاتا رہا۔
تیرا سائل سوالی رہا،
تیرے سائل کا دستِ شکستہ ہمیشہ سے خالی رہا۔
تُو کہا تھا؟
کہ جب مجھ پہ دیوار و در ہنس پڑے،
میری مجبوریاں یعنی میری کنیزیں مِرے ہی حرم میں تماشائی بن کر کھڑی رہ گئیں۔
تیرے وعدوں بھری سب کتابیں کہیں دھول میں ہی پڑی رہ گئیں۔
میری سب آرزؤئیں دھری کی دھری رہ گئیں۔
تُو کہاں تھا؟
کہ جب رونے والوں سے رویا گیا ہی نہیں تھا،
اذیت کے مارے ہوئے سونے والوں سے سویا گیا ہی نہیں تھا۔
سبھی ہنسنے والوں نے ہنسنے کی ساری حدیں پار کیں۔
دکھ توجہ سے ملنے لگیں تو بھلا کوئی کیسے نہ لے؟
دکھ توانائی دینے لگیں تو بھلا کوئی انکار کیسے کرے؟
مجھ کو وہ دکھ ملے جن میں تیری توجہ کی تمثیل تک بھی نہ تھی۔
ان دکھوں نے تو میری توانائیاں چھین لیں،
سب سکھوں سے شناسائیاں چھین لیں
وقت کی گود اتنی ملائم نہ تھی،
جس میں سر رکھ کے ہم زندگی کاٹتے آئے ہیں۔
تو کہاں تھا؟
کہ جب میرے ساون ترستے رہے،
میری آنکھوں کے بادل برستے رہے،
بے بسی گیت گاتی رہی، تیری دوری ستاتی رہی،
چاندنی میری آنکھیں جلاتی رہی،
یاد آتی رہی، تیری ہر بات مجھ کو رلاتی رہی۔
دل کی تختی پہ اک نام تیرا لکھا سو لکھا رہ گیا
تُو نہ تھا پر تری انتظاری کا در تو کھلا رہ گیا
تُو نے روشن کیا تو ترے ہجر کی تیرگی کھا گئی
تُو نے مڑ کر نہ دیکھا ترا دیپ جب سے بجھا رہ گیا
میرے جذبوں کی قیمت لگائی گئی تیرے بازار میں
میرے جذبات کوئی خسارے میں ہی بیچتا رہ گیا
میرے دامن میں، دنیا، نہ دولت، فقط چاک ہی چاک ہیں
چاک ہی چاک ہیں، میرے دامن میں اب اور کیا رہ گیا
تیری عزت تری آبرو تیری چادر سدا سبز ہو
تجھ سے میرا تعلق تو ہے چاہے اب نام کا رہ گیا
تُو کہاں تھا کہ جب میں نے تیری محبت کا ماتم کیا
بس اُسی دن سے میرے مقدر میں فرشِ عزا رہ گیا
تُو کہاں تھا کہ جب اتنی آزردگی بھر گئی روح میں
اتنی افسردگی روح میں بھر گئی، اب خلا رہ گیا
شہر و بازار سے، دشت و کہسار سے، یار و اغیار سے
تُو کہاں تھا کہ جب تیرا شاعر ترا پوچھتا رہ گیا۔۔
تُو کہاں تھا کہ جب دھوپ جھلسا رہی تھی مجھے
گردشِ حال بھی کھا رہی تھی مجھے
اور تنہائی فرما رہی تھی مجھے
"آ اداسی کی بانہوں میں آ...
بسترِ رنج پر اپنی راتیں بِتا۔۔
فخر کر اپنی بربادیوں پر بھی
اور بین کر اپنی آزادیوں پر"
کہ جب میں نے اپنے ہی ہونے کو جھٹلا دیا
اور کھونے کو بھی کچھ نہیں رہ گیا
تب کسی درد مندی کے پیکر نے چھو کر مجھے روشنی بخش دی
میرے جذبات کو زندگی بخش دی
میرے لفظوں کو تابندگی بخش دی۔۔۔
تُو کہاں تھا کہ جب وہ محبت سے معمور،
دل کا سمندر وہ شیریں سخن،
میرے ٹکڑے بہت دیر تک جوڑتا رہ گیا۔
میں نے اپنا سبھی کچھ اُسی لے حوالے کیا۔
تُو نہیں تھا۔۔۔ کہیں بھی نہیں تھا
اگر اب تُو آئے بھی تو۔۔۔
تیرا آنا بھی کیا۔۔۔
تُو اگر ہو بھی تو۔۔۔
تیرا ہونا بھی کیا۔۔۔
تُو ندامت کے آنسو بہائے بھی تو
تیرا رونا بھی کیا۔۔۔
اب میں اپنا نہیں۔۔۔ اب ترے واسطے
میرا ہونا بھی کیا۔۔۔
- زین شکیل
6 notes · View notes