Tumgik
#انیس
urduchronicle · 4 months
Text
ایم کیو ایم کے انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل
سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے سینئر رہنما انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ آصف علی زرداری نے انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون کو پی پی پی میں شمولیت پر خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے سابق رہنماؤں انیس ایڈووکیٹ اور رضا ہارون کے درمیان شہرِ قائد کی ترقی، خوش حالی، قیامِ امن اور مفاہمتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 1 year
Text
میر انیس وفات 10 دسمبر
میر انیس وفات 10 دسمبر
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔ مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔ شاعری و مرثیہ گوئی شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 5 days
Text
آگ
میرا نام بینش ہے اور میری عمر چالیس سال کے قریب ہو چکی ہے میں وہ بد نصیب عورت ہوں جس کو سیکس بہت کم وقت کے لیئے ملا تھا یہ کہانی جو میں آپکو سنا رہی ہوں
یہ میری اپنی آب بیتی ہے میری شادی انیس سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور جس کے ساتھ شادی ہوئی تھی وہ زیادہ عمر کا مرد تھا اور اس نے کئی جوان عورتوں کو چود کے اپنی تسکین لی ہوئی تھی میرا تعلق غریب خاندان سے تھا ماں باپ نے سوچا امیر کے گھر شادی کرینگے چاہے زیادہ عمر کا ہی مرد کیوں نا ہو
اور میری قسمت دیکھیں کہ جب میری شادی ہوئی میرے شوہر کی عمر پچاس سے اوپر جا رہی تھی اور اس کی بیوی مر گئی تھی لیکن اس نے جاتے ہوئے ایک بچہ چھوڑا تھا ذیشان جس کی عمر اس وقت ڈیڑھ دو سال تھی گویا اس کو بیوی نہیں بچے کی ماں چاہیئے تھی میں نادان تھی جو اس شادی پہ رضامند ہو گئی تھی میری شادی کے چند سال کے بعد میرے شوہر کی وفات ہو گئی تھی لیکن مجھے بچہ نہیں ہوا تھا بس میرا ایک ہی سوتیلا بیٹا تھا
Tumblr media
ان کی وفات کے بعد مجھ پہ کافی ذمہ داریاں آن پڑی تھی ذیشان کی دیکھ بھال سکولنگ کئی طرح کے کام تھے جو مجھے اکیلی کو کرنے تھے مجھے کام کرنے باہر جانا پڑا ہماری دولت رشتہ داروں میں بٹ گئی تھی
اور ہم زیادہ امیر نہیں رہے تھے کچھ شوہر کا مرنے سے قبل کاروبار مندا ہو گیا تھا میں ٹیچنگ کر کے اپنا اور ذیشان کا گزارہ کیا اور اس کو کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی شوہر کی ڈیتھ کے بعد کبھی کبھی مجھے سیکس کرنے کا دل کرتا پر میرے کسی مرد سے تعلقات نہ تھے اور نہ ہی اس طرح کرنے کا حوصلہ۔
صرف سیکس ننگی موویز دیکھ کر اور اپنی چوت میں ڈیلڈو (نقلی لنڈ) ڈال کر اپنی چوت کی پیاس بجھا لیتی تھی
اسی طرح میرا سیکس کا گزارا ہو رہا تھا جب ذیشان انیس سال کا ہوا تو اس کو بھی دنیا کی ہوا لگ گئی اور سیکس کی سمجھ آ گئی اس کا بھی سیکس کا موڈ ہوتا تھا وہ بھی میری طرح سیکسی موویزدیکھتا تھا ایک دن میں نے کیا دیکھا کہ ذیشان سیکسی مووی لگا کر دیکھ رہا ہے
Tumblr media
مووی دیکھتے دیکھتے جب وہ گرم ہوا تو اس نے اپنی شرٹ اور پینٹ اتار دی
جب اس نے اپنی پینٹ اتاری میں تو دیکھ کر حیران رہ گئی اس کا لنڈ کم سے کم سات انچ کا تھا موٹا بھی تھا اور جب وہ مٹھ مارنے لگا
تو اس کا لنڈ اتنا اچھا لگ رہا تھا کہ کیا بتاؤ میں نے اسے مٹھ مارتے ہوئے دیکھتی رہی اور اپنی چوت کو انگلی ڈال کر رگڑتی رہی جب وہ فارغ ہو کر کپڑے پہن رہا تھا جب میں وہاں سے چلی گئی لیکن ساری رات میری چوت میں ہلچل مچی رہی
Tumblr media
اب میرے اندر ایک آگ سی لگ گئی تھی اور میں اس اگ کو ڈیلڈو سے نہیں اصل لنڈ سے ہی بجھانا چاہتی تھی میں نے اپنے اپ کو کافی روکنا چاہا پر ایسا نہ کر سکی اور ایک دن میں ذیشان کے روم میں گھس گئی وہ میرا کمرے میں اس طرح گھسنے پر حیران ہوا لیکن میں نے اس کو اتنا موقع نہ دیا اور اس پر چ��ھ کر اس کے منہ پر فرنچ کس کرنے لگی میں جنونی ہوچکی تھی مجھے ہوش نہیں رہی تھی
پھر میں نے اس کی شرٹ پکڑ کر اتاری اور اسے بیڈ پر ہی وہیں لٹا دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اسے چیسٹ پر زبان پھرنے لگی وہ مجھے کہتا رہا کے ماما آپ یہ کیا کر رہی ہو پر میں نے لڑکے کی ایک نہ سنی اور اس کے چیسٹ کو چومتی چاٹتی رہی اور اس کا لنڈ مجھے اپنی گرم گرم چوت میں لینا تھا جس کے تصور سے میں رات بھر سو نہ سکتی تھی۔
Tumblr media
جب اس کا لنڈ باہر نکلا تو کس کر اسے چوسنے لگی اس کو بھی مزہ آنے لگا اور اس کی لذت آمیز سسکیاں آنے لگیں۔ عورت کی مرضی ہو تو مرد کی کہاں چلتی ہے جلد ہی وہ بھی سیکس کے لیے تیار ہوگیا اس نے مجھ نیچے لٹایا اور میرے زبردست گرم ہوتے ہونٹوں کو چوسنے لگا پھر میرے جسم سے کپڑے اتار کر میرے مموں پر ٹوٹ پڑا اور انہیں چوسنے لگا اور دبانے لگا مجھے بہت سیکسی والا لش مزہ آرہا تھا پھر اس نے اپنا لنڈ میری چوت پر رگڑا اور اندر گھسانا شروع کیا اور دو ہی جھٹکوں میں پورا لنڈ چوت کے اندر اتار دیا اور زور سے وہ اپنی ٹھرک کے مطابق چدائی کرنے لگا میری سسکیاں آنے لگیں اس نے مجھے اتنا چودہ اتنا چودہ جتنا اس کے باپ نے بھی نہیں چودہ تھا وہ اپنا لنڈ ڈال کر میری چوت مارتا جا رہا تھا۔
Tumblr media
پھر میری چوت سے گرم پانی نکل گیا اور میں تو فارغ ہو گئی پر وہ ابھی بھی چود رہا تھا کافی دیر کے بعد اس کے لنڈ میں کچھ زیادہ ہی اکڑ آگئی پھر کچھ ہی دیر میں اس کے لنڈ سے گرم گرم منی کی پچکاریاں نکلنے لگیں وہ میرے اندر ہی فارغ ہوگیا اس دن اس نے میرے اندر کی آگ کو بھجا دیا۔
جب تک اس کی شادی نا ہوئی مجھے وہ چودتا رہا اور اب میں پچپن سال کی ہو چکی ہوں اب میرے اندر وہ پہلے والی گرمی نہیں رہی اور بس اب تو میں فیس بک پر جوانی کی کہانی ہی پڑھنا ہی پسند کرتی ہوں یا پھر ماضی کی یادیں ہیں۔
ختم شد
Tumblr media
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لے کے آ
یہاں چشمِ تر کا رواج ہے، دلِ خونچکاں ہو تولے کے آ
یہ فضا ہے عنبَر و عود کی، یہ محل ہے وردِ دُرود کا
یہ نمازِ عشق کا وقت ہےکوئی خوش اذاں ہو تو لے کے آ
یہ جو اک عزا کا شعار ہے یہ عَجب دعا کا حصار ہے
کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لے کے آ
یہ حضورو غیب کے سلسلے، یہ مَدارِ عشق کے مرحلے
غمِ رائیگاں کی بساط کیا، غمِ جاوداں ہو تو لے کے آ
یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا یہ نشاں ہے اہلِ دلیل کا
کہیں اور ایسے قبیل کا کوئی سائباں ہو تو لے کے آ
سَرِ لوحِ آب لکھا ہُوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
سرِ فردِ ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تولے کے آ
ترے نقشہ ہائے خیال میں حدِ نینوا کی نظیر کا
کوئی اور خطّۂ آب و گِل تہہِ آسماں ہو تو لے کے آ
کبھی کُنجِ حُر کے قریب جا، کبھی تابہ صحنِ حبیب جا
کبھی سوئے بیتِ شبیب جا، زرِ ارمغاں ہو تو لے کے آ
مرے مدّ وجزر کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلۂ دہر کا
کہیں مثلِ نامِ حسینؑ بھی، کوئی بادباں ہو تو لے کے آ
میں وہ حال ہوں کہ بَحال ہُوں مرے فرقِ فَر پہ کُلاہ رکھ
میں صراطِ حُر کا ہُوں راہرو، کوئی ہفت خواں ہو تو لے کے آ
نہ انیس ہُوں نہ دبیر ہُوں، میں نصیر صرف نصیر ہوں
مرے ظرفِ حرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ
نصیر ترابی
ا
3 notes · View notes
touseefanees · 2 months
Text
قفس میں قید پنچھیوں کی طرح
ہم ان دیواروں کو تکتے رہتے ہیں
کہ جن دیواروں کی اوٹ نے ہماری جوانی چاٹ لی
اور ہم ان قید خانوں کی آخری نشانیاں ہیں جن کے قصے آباؤاجداد سناتے تھے
کہ جن قید خانوں میں عمر کے صفحے پلٹتے پلٹتے انگلیاں تھک جاتی ہیں
سانسیں مر جاتی ہیں
بال جھڑ جاتے ہیں
مگر کتاب زیست میں آزادی کا باب نہیں آتا
اور ہم عرب کے دور کی اس تہذیب کی بیٹیوں جیسے ہیں
کہ جن کی آہ پکار سننے والے بہرے تھے
اور جن کی چیخیں سینوں سے نکلنے سے پہلے ہی زمیں درگور ہوجاتی تھیں
ہم آخری آخری نشانیاں ہیں ان وقتوں کی جہاں وقت کی ساعتیں
اختتام ہوتے ہوتے عمر گزار دیتی ہیں
ہمارے اندر قید ہے درد کی وہ دنیا
کے جسے ہم خود جھانک کر دیکھتے ہیں تو ڈر جاتے
اور مرتے مرتے مر جاتے ہیں
ہم اس پروانے کی صورت ہیں
جو شمع پہ مرتے مرتے مر جاتا ہے
اور جسے آخری لمحات میں بھے وصل میسر نہیں ہوتا
کہ شمع جسے مرنے دیتی ہے اپنی روشنی کے تلے
مگر اس کے دل میں روشنی نہیں کرتی
ہم ساز کے اس تار کے جیسے ہیں
کہ جسے کوئی بے رحم موسیقار کھینچ کھینچ کے چھوڑ دیتا ہے
اور پھر اک پل میں توڑ دیتا ہے
ہم ان آخری آخری لوگوں میں ہیں
جنہیں محبت بھیک میں بھی نہیں ملی
کوئی رنگ نہیں چڑھا کوئی ریت نہیں ملی
کوئی ساتھ نہیں ملا
کوئی پریت نہیں ملی
کوئی پریت نہیں ملی
ازقلم توصیف انیس
2 notes · View notes
iamusn · 2 years
Text
Tumblr media
عباس نام ور بھی عجب سج کا ہے جوان
نازاں ہے جس کے دوشِ منور پہ خود نشان
حمزہ کا رعب صولت جفرؔ علی کی شان
ہاشم کا دل حسین کا بازو ، حسن کی جان
کیوں کر نہ عشق ہو شہ گردوں جناب کو
حاصل ہیں سیکڑوں شرف اس آفتاب کو
میر انیس
8 notes · View notes
jhelumupdates · 3 days
Text
جہلم میں موٹرسائیکلیں چوری اور گھروں میں چوریاں کرنے والے شانی گینگ کے 3 کارندے گرفتار
0 notes
urdustoriespoint · 19 days
Text
Romantic Urdu Kahani
Romantic Urdu Kahani ہم لوگ بڑے ہی شریف گھرانے سے تعلق رکھتے تھے. میرے باپ کی سب عزت کرتے تھے. میری چھوٹی بہن مریم بڑی ضدی طبیعت کی مالک تھی. اسے صحیح غلط کی پہچان بالکل نہیں تھی. میں انیس سال کی ہوئی تو میری شادی طے پا گئی. لڑکے کا نام راشد تھا. میں نے اسے نہیں دیکھا تھا. مگر اس نے مجھے ایک جھلک ضرور دیکھا تھا. گھر میں میری شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں. ہر طرف گہما گہمی تھی. کی پہلی شادی تھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 months
Text
آنسو بھری راہ گزر
Tumblr media
نقشے میں آپ دیکھیں گے کہ یورپ اور افریقہ کو جدا کرنے والے بحیرہ روم کو نہر سویز بحیرہ قلزم کے راستے بحرِ ہند اور پھر ایشیا اور آسٹریلیا سے جوڑتی ہے۔ بحر ہند میں کھلنے والا یہ راستہ یمن اور جیبوتی کے درمیان واقع چھبیس کلومیٹر چوڑی آبنائے باب المندب کا مرہونِ منت ہے۔ اگر نہر سویز یا باب المندب بند ہو جائے تو پھر یورپ اور ایشیا کے درمیان سفر کرنے والے ہر تجارتی جہاز کو پرانے زمانے کی طرح پورے براعظم افریقہ کا چکر لگاتے ہوئے بحر اوقیانوسں کے ذریعے براستہ جبل الطارق چھ ہزار کلو میٹر کا اضافی فاصلہ طے کر کے بحیرہ روم میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ یوں اشیا کی نقل و حمل کی لاگت میں کم از کم تین گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملانے والی نہر سویز اور آبنائے باب المندب ایک دوسرے پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ مثلاً انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بہت سے جنگی جہاز ڈوبنے کے سبب اور نہر کے آر پار اسرائیلی اور مصری فوجیوں کی آمنے سامنے مورچہ بندی نے نہر سویز بند کر دی۔ آٹھ برس بعد انیس سو پچھتر میں امریکی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے کامیاب مذاکرات کے سبب ہی نہر سویز کو کھولا جا سکا۔ 
(پہلی بار یہ نہر نومبر انیس سو چھپن میں مصر پر اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کے مشترکہ اچانک حملے کے نتیجے میں چار ماہ بند رہی۔ اس حملے کا سبب یہ تھا کہ مصر نے نہر برطانیہ اور فرانس سے چھین کر قومی ملکیت میں لے لی تھی)۔ ان دنوں نہر سویز تو کھلی ہوئی ہے مگر یمنی حوثیوں نے گزشتہ تین ماہ سے باب المندب میں اسرائیل کو رسد پہنچانے والے مال بردار جہازوں کی ٹریفک اپنے چھاپہ مار حملوں کے ذریعے روک دی ہے۔ حوثی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جب تک غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت جاری ہے باب المندب ایک خطرناک گزرگاہ بنی رہے گی۔حوثی کارروائیوں کے نتیجے میں اسرائیلی بندرگاہ ایلات میں تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔ یہ بندرگاہ زیادہ تر چین سمیت ایشیائی ممالک سے اسرائیلی تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مگر اسرائیلی معیشت کو اس ناکہ بندی سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ کیونکہ اس کی پچاسی فیصد تجارت بحیرہ روم کے راستے ہوتی ہے۔ اسرائیل کے چینل تھرٹین کے مطابق اسرائیل نے بحیرہ قلزم کے راستے ہونے والی تجارت کے لیے متبادل راستہ ڈھونڈھ لیا ہے اور غیر اعلانیہ طور پر دوبئی سے براستہ سعودی عرب و اردن اسرائیلی درآمد و برآمد کا سلسلہ جاری ہے۔
Tumblr media
جو خلیجی ممالک آج اسرائیل سے اقتصادی تعاون کر رہے ہیں وہی ممالک غزہ کی چار مہینے سے جاری خونی ناکہ بندی ختم کروانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ صرف یمنی حوثی ہی ہیں جو اس علاقے میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اپنی سکت کے مطابق مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے بدلے کسی ٹھوس بین الاقوامی ردِعمل کا سامنا نہیں۔ مگر حوثیوں کو باب المندب کی اقتصادی ناکہ بندی کی سزا مغربی فضائی افواج کی جانب سے مسلسل بمباری کی شکل میں مل رہی ہے۔ حالانکہ یمنیوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے انتہائی غریب ترین ممالک میں شمار یہ خطہ پچھلے آٹھ برس سے خلیجی ریاستوں کے فوجی اتحاد کے نشانے پر ہے اور اس کی تین چوتھائی آبادی یا تو دربدر ہو چکی ہے یا پھر ناکافی غذائیت اور فاقہ کشی میں مبتلا ہے۔ ان برسوں کے دوران خلیجی اتحاد کی جنگی مہم میں لگ بھگ ایک لاکھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔اقتصادی و تعمیراتی ڈھانچہ لگ بھگ برباد ہے۔
اس حالت میں بھی یمنی حوثی غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لیے اپنی تکالیف بھول کر جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس مصری کمپنیاں غزہ میں محصور فلسطینیوں کو محفوظ راہ داری دینے کے بدلے ان سے اور غزہ میں بین الاقوامی امداد لے کر داخل ہونے والے ٹرکوں سے بھاری رقوم اینٹھ رہی ہیں اور اس کارِ خیر میں رفاہ کی راہ داری پر متعین مصری سرحدی حکام بھی شریک ہیں۔حوثیوں کو مغربی فضائی افواج کے مشترکہ حملوں کا اس لیے سامنا ہے کہ بحری تجارت تلپٹ ہونے سے روانہ دس کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر صورتِ حال جوں کی توں رہی تو مغربی جہاز راں کمپنیوں اور معیشتوں کو سالانہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچے گا۔ نہر سویز اور باب المندب کے راستے بارہ فیصد عالمی تجارت ہوتی ہے۔ جہاز رانی کی چالیس فیصد ٹریفک یہاں سے گزرتی ہے۔گزشتہ برس نہر سویز سے گزرنے والوں جہازوں کی راہ داری سے مصر کو لگ بھگ دس ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ مگر باب المندب کے راستے جہاز رانی متاثر ہونے کے سبب نہر سویز سے ہونے والی آمدنی بھی بہت کم ہو گئی ہے۔ 
مغربی جہاز راں کمپنیوں کو اس راستے کے معطل ہونے کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی بھرپائی کے لیے انھوں نے اپنے مال برداری کے نرخوں میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ جب کہ صنعتی ممالک کو جو تجارتی نقصان ہو رہا ہے وہ بھی تیار شدہ مصنوعات اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے پورا ہو جائے گا۔ اصل گھاٹے میں ترقی پذیر دنیا ہے جو پہلے ہی روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب غلے اور کھاد کی مہنگائی و کمیابی کی زخم خوردہ ہے۔ اب اسے باب المندب بند ہونے سے برآمد و درآمد کے تناظر میں اضافی مالی بوجھ کا سامنا ہے۔ اور یہ بوجھ بھی حکومتیں خود اٹھانے کے بجائے اپنے عوام کی کمر پر لادنے پر مجبور ہیں۔  صنعتی و سرمایہ دار ممالک کی جانب سے یوکرین کی بھرپور عسکری و اقتصادی مدد اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ یوکرین اٹھارہ فیصد عالمی غلہ پیدا کرتا ہے۔ باب المندب کھلا رکھنا اس لیے اہم ہے کیونکہ نہ صرف خلیج کا تیل اس راستے سے گزرتا ہے بلکہ عالمی تجارت کی چالیس فیصد سپلائی چین کا دار و مدار باب المندب پر ہے۔ مگر غزہ میں سات اکتوبر کے بعد سے اٹھائیس ہزار سے زائد انسانوں کا قتل اور تئیس لاکھ انسانوں کی املاکی و غذائی بربادی کو روکنا اس لیے اہم نہیں کیونکہ غزہ کی اقتصادی و اسٹرٹیجک اہمیت مغربی دنیا کے لیے زیرو ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں باب المندب کا کیا لغوی مطلب ہے ؟ آنسو بھری راہ گزر۔۔ تکلیف زدہ راستہ۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 2 months
Text
ووٹ کو نہ سہی خود کو ہی عزت دے دو
Tumblr media
ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔ جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی گئی کہ ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پی کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی مشرقی پاکستان کی 162 نشتسوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ چار و ناچار انھیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہو گا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔ پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔ 
2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔ جن کی مشکیں کسنی تھیں انھوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔ پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔
Tumblr media
مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔ مر جائیں گے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا۔ انھیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔ مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعوی دار ہے۔ مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈہ ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔ یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔ آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔
انھیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔ ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مصر ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔ بہتر ہے کہ انھیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔ اگر آپ خدا سے لو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
پس ثابت ہوا امریکا یاروں کا یار ہے
Tumblr media
سامانِ مرگ و حرب ساختہِ امریکا ہے۔ اسرائیل تو بس غزہ اور غربِ اردن اذیت ساز لیبارٹری میں چابک دست نسل کشی اور صنعتی پیمانے پر املاکی بربادی کے لیے تیار اس سامان کا آزمائشی آپریٹر ہے۔ اسرائیل کے ایک مقبول ٹی وی چینل بارہ کے مطابق سات اکتوبر تا تئیس دسمبر امریکا سے آنے والی دو سو سترہ کارگو پروازوں اور بیس مال بردار بحری جہازوں کے ذریعے دس ہزار ٹن جنگی ساز و سامان اسرائیل میں اتارا جا چکا ہے۔ اس وزن میں وہ اسلحہ اور ایمونیشن شامل نہیں ہے جو امریکا نے اسرائیل میں اپنے استعمال کے لیے زخیرہ کر رکھا ہے اور اس گودام کی ایک چابی اسرائیل کے پاس ہے تاکہ نسل کشی کی مشین سست نہ پڑنے پائے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہنگامی سپلائی کے لیے لگ بھگ تین ارب ڈالر کے آرڈرز بھی جاری کیے ہیں۔ اسرائیل نے امریکا سے ہلاکت خیز اپاچی ہیلی کاپٹرز کی تازہ کھیپ کی بھی فرمائش کی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹرز اسرائیل غزہ کو مٹانے کے لیے فضائی بلڈوزرز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ خود اسرائیل کا شمار دنیا کے دس بڑے اسلحہ ساز ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم اس نے فی الحال تمام بین الاقوامی آرڈرز موخر کر دیے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خانہ ساز اسلحہ صنعت کی پروڈکشن لائن چوبیس گھنٹے متحرک ہے۔
جب چھ ہفتے میں لاہور شہر کے رقبے کے برابر تین ہیروشیما بموں کے مساوی طاقت کا بارود برسا دیا جائے تو سپلائی اور پروڈکشن لائن کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ امریکا اس بات کو ہمیشہ کی طرح یقینی بنا رہا ہے کہ اسرائیل کا دستِ مرگ کہیں تنگ نہ پڑ جائے۔ اب تک جو ہنگامی رسد پہنچائی گئی ہے اس میں اسمارٹ بموں کے علاوہ طبی سازو سامان ، توپ کے گولے ، فوجیوں کے لیے حفاظتی آلات ، بکتر بند گاڑیاں اور فوجی ٹرک قابلِ ذکر ہیں۔ اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ دانتوں تک مسلح اسرائیلی بری، بحری اور فضائی افواج کے لیے تیسرے مہینے میں بھی غزہ لوہے کا چنا ثابت ہو رہا ہے۔ ابتدا میں اسرائیل کا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین ہفتے میں غزہ کی مزاحمت ٹھنڈی پڑ جائے گی مگر اب اسرائیلی فوجی ہائی کمان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے مطلوبہ نتائج فروری سے پہلے ظاہر نہیں ہوں گے۔ البتہ بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈان ہالوٹز نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا جتنا بھی فوجی تجربہ ہے اس کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل یہ جنگ ہار گیا ہے۔
Tumblr media
بقول ��نرل ہالوٹز جنگ جتنا طول پکڑے گی اتنے ہی ہم دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ اب تک ہمیں بارہ سو اسرائیلیوں کی ہلاکت، جنوبی اور شمالی اسرائیل میں دو لاکھ پناہ گزین اور حماس کی قید میں ڈھائی سو کے لگ بھگ یرغمالی سویلینز اور فوجی تو نظر آ رہے ہیں مگر کامیابی کہیں نظر نہیں آرہی۔ واحد فتح یہی ہو گی کہ کسی طرح بنجمن نیتن یاہو سے جان چھوٹ جائے۔ جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو جو بائیڈن اسرائیل نواز امریکی کانگریس سے بھی زیادہ اسرائیل کے دیوانے ہیں۔ اس وقت بائیڈن کی اسرائیل پالیسی یہ ہے کہ ’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔‘‘ چنانچہ دو ہفتے پہلے ہی بائیڈن نے کانگریس کے ذریعے اسرائیل کے لیے ہنگامی امداد منظور کروانے کی تاخیری کھکیڑ اور فالتو کے سوال جواب سے ب��نے کے لیے ہنگامی قوانین کی آڑ میں کانگریس سے بالا بالا چودہ ارب ڈالر کے فنڈز کی منظوری دے دی جو اسرائیل کی فوجی و اقتصادی ضروریات کو مختصر عرصے کے لیے پورا کرنے کے قابل ہو گا۔ اسرائیل کو جب بھی ضرورت پڑی امریکی انتظامیہ اس کے لیے سرخ قالین کی طرح بچھتی چلی گئی۔ 
مثلاً چھ اکتوبر انیس سو تہتر کو جب مصر اور شام نے اپنے مقبوضہ علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل کو بے خبری میں جا لیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے پہلا فون رچرڈ نکسن کو کیا کہ اگر ہمیں بروقت سپلائی نہیں ملی تو اپنی بقا کے لیے مجبوراً جوہری ہتھیار استعمال کرنے پڑ سکتے ہیں۔ نکسن اشارہ سمجھ گیا اور اس نے جنگ شروع ہونے کے چھ دن بعد بارہ اکتوبر کو پینٹاگون کو حکم دیا کہ اسرائیل کے لیے اسلحہ گودام کھول دیے جائیں۔ محکمہ دفاع کو اس ضمن میں جو فائدہ خسارہ ہو گا اس سے بعد میں نپٹ لیں گے۔ اسرائیل نے اپنی قومی ایئرلائن ال آل کے تمام کارگو طیارے امریکا سے فوجی امداد ڈھونے کے لیے وقف کر دیے۔ مگر یہ اقدام ناکافی تھا۔ سوویت یونین نے مصر اور شام کی ہنگامی فوجی امداد کے لیے دس اکتوبر کو ہی دیوہیکل مال بردار انتونوف طیاروں کا بیڑہ وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ امریکی فضائیہ کا مال بردار بیڑہ جس میں سی ون فورٹی ون اور سی فائیو گلیکسی طیارے شامل تھے۔ ضرورت کا ہر سامان ڈھونے پر لگا دیے۔ یہ آپریشن تاریخ میں ’’ نکل گراس ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے امریکا اور اسرائیل کے درمیان ساڑھے چھ ہزار ناٹیکل میل کا ایئرکوریڈور بنا دیا گیا۔
پہلا سی فائیو گلیکسی مال بردار طیارہ چودہ اکتوبر کو ایک لاکھ کلو گرام کارگو لے کر تل ابیب کے لوڈ ایئرپورٹ پر اترا اور آخری طیارے نے چودہ نومبر کو لینڈ کیا۔ پانچ سو سڑسٹھ پروازوں کے ذریعے تئیس ہزار ٹن جنگی سازو سامان پہنچایا گیا۔جب کہ تیس اکتوبر سے امریکی کارگو بحری جہاز بھی بھاری سامان لے کر حیفہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے لگے۔ اس کے برعکس سوویت یونین ایک ماہ کے دوران نو سو پینتیس مال بردار پروازوں کے ذریعے پندرہ ہزار ٹن ساز و سامان مصر اور شام پہنچا سکا۔ حالانکہ روس سے ان ممالک کا فضائی فاصلہ محض سترہ سو ناٹیکل میل تھا۔ امریکا نے تہتر ٹن سامان اٹھانے والے سی فائیو گلیکسی کے ذریعے اسرائیل کو ایک سو پچھتر ملی میٹر تک کی توپیں ، ایم سکسٹی اور ایم فورٹی ایٹ ساختہ بھاری ٹینک ، اسکوراسکی ہیلی کاپٹرز ، اسکائی ہاک لڑاکا طیاروں کے تیار ڈھانچے اور بارودی کمک پہنچائی۔ یہ طیارے صرف پرتگال میں ری فیولنگ کے لیے رکتے تھے۔ اور اسپین ، یونان ، جرمنی اور ترکی نے انھیں اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اگر یہ کاریڈور نہ ہوتا تو اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کے لالے پڑجاتے۔ پس ثابت ہوا کہ امریکا یاروں کا یار ہے۔ وہ الگ بات کہ امریکا کو اسرائیل اپنی بین الاقوامی عزت سے بھی زیادہ پیارا ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
اگر مرد عورت کی عزت کرنا سیکھ جائے تو معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے،ا��یس ہارون
آرٹس کونسل پاکستان کے زیر اہتمام چارروزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”خواتین کی جدوجہد اور چیلنجز“ کے عنوان سے سیشن آڈیٹوریم 1 میں منعقد کیا گیا۔ جس میں نظامت کے فرائض فضہ پتافی نے انجام دیے۔ شرکائے گفتگو میں انیس ہارون ،عائشہ میاں، عظمیٰ الکریم اور کشورناہید شامل تھیں۔ لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے انیس ہارون نے اپنی زندگی کا قصہ کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت خوش قسمت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 6 months
Text
نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان
Tumblr media
میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا
انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں
ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
Tumblr media
گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔
نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔
ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ ��ہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ��یوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔
میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
amiasfitaccw · 3 months
Text
قسمت کا مارا
ہر طرف مکمل خاموشی کا عالم تھا سورج اپنی پوری آب وتاب سے آگ برسا رھا تھا گرمیوں کی اس گرم دوپہر میں جب لوگ اپنے گھروں میں دبکے سکون کی گہری نیند سو رہے تھے
قسمت کا مارا روفی چھت کے ایک کونے پر لیٹا اپنی قسمت کو کوس رھا تھا واہ کیا قسمت تھی جو اسے آج اسے اس موڑ پر لےآئی تھی کہ آج وہ اپنے تمام خدشات اور شکوک وشبہات کو دور کرنے کاپختہ ارادہ کرچکا تھا
اسے شدت سے نائیلہ کے چھت پر آنے کا انتظارتھا وقت کافی بیت چکا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ ہو سکتا ہے نہیں آئیے گی پھر نیچے سیڑھیوں پر کسی کی آھٹ سنتے ہی اسے لگا کہ اس کا انتظار رائیگاں نہیں گیا
چھت کی سیڑھیوں کے دروازے سے نمودار ہوتی نائیلہ دبے قدموں چھت کے سرے پر واقع پانی کی ٹینکی کی طرف بڑھ رہی تھی
کافی عرصے سے اسے یہ شک ہوچلا تھا
کہ نائیلہ کا پڑوس میں کسی سےکوئی چکر چل رہا ہے پہلے پہل تو اس نےاس کو اپنا وہم جانا اور اپنی سوچ کو انتہائی لغو تصور کیا مگرپھر نائیلہ کو بڑی باقاعدگی سے بے مقصد چھت پر جاتے دیکھا تو اسےبھی کھد بد رہنے لگی نائیلہ کی شوخ اور بےباک طبیعت کا تو اندازہ تھا مگر شک کرنے پر بھی دل آمادہ نہ ہوتا
آخر مجبور ہوکر سارے معاملے کی کھوج لگانے کا فیصلہ کیا اس وقت بھی چلچلاتی دھوپ میں وہ پسینے سے شرابور چھپ کر چھت پر تاک لگائیے بیٹھا تھانائیلہ کو چھت پر آئیے کچھ دیر ہوچلی تھی اور بے سکونی کے ساتھ ٹہلتے ہوئیے کسی کا انتظار اس کے چہرے پر صاف عیاں تھا روفی کوبھی اس کی طرح اب کسی دوسرے مردکی آمد کا انتظارتھا
اس کی نگاہیں چھت پرہی لگی ہوئی تھیں پر کافی دیر سے چھپ کر اس طرح الٹا لیٹے روفی کو اکتاہٹ ہو رہی تھی تھکاوٹ اور گرمی سے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جارہے تھے
اپنے اندیشےبھی بےبنیاد ثابت ہوتے دکھائی دے رہے تھےپھر اس کی سوئی ہوئی حسیات جاگنے لگیں اور رگوں میں خون کی گردش تیز ونے لگی دوسرا فریق بھی اب ظاہر ہوچکا تھا
اسے دیکھ کر روفی کو شدید حیرت نے آ لیا تھا اس کا خیال تھا کہ نائیلہ کا اڑوس پڑوس کے کسی نوجوان سے آنکھ مٹکا چل رہا ہوگا مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت برابر والی چھت پر خضر انکل کو دیکھے گا
روفی کو خضر انکل سے ہرگز ایسی امید نہیں تھی اس کی جوانی اور عمر سے کئی گنا بڑے مرد سے بھی چکر ہو سکتا تھا تو ان کے بچے تھے پھر ان دو گھروں کے اہل خانہ میں راہ وسم بھی کافی پرانا تھا
بڑا ہونے کے ناطے وہ ان کی عزت بھی بہت کرتا تھا اور پڑوسی ہونے کے وجہ سے کچھ بے تکلفی بھی تھی گھر پر کوئی بڑا نہ موجود ہونے کی وجہ سے وہ اکژاوقات مختلف امور میں اس کی مدد بھی کرتے رہتے تھے
یہ تواسے معلوم تھا کہ پچاس سے اوپر کے ہونے کے باوجود محلہ کی بہت سی عورتیں ان کی شاندار شخصیت اور مردانہ وجاہت پر مرتیں تھیں ان کا اونچا قد کاٹھ اور مظبوط کسرتی جسم اس عمر میں بھی اچھے اچھے جوانوں کو حسد میں مبتلا کردیتا تھا
بڑی میچور عمر کی عورتیں تو ایک طرف بہت سی جوان لڑکیاں بھی دل وجان سے ان پر فدا تھیں یہ بھی اس کو اندازہ تھا کہ بہت سی حسین لڑکیوں کو تو وہ فیض یاب بھی کرچکے ہیں
بہرحال اپنی بڑی آپی کو خضر انکل کے لیے بے تاب دیکھ کر روفی کو دکھ اور افسوس نے آلیا انیس برس کا خوبرو مگر سیدھا سادھا روفی گھر میں سے سب سے چھوٹا اور کالج کے دوسرے سال میں تھا
ماں باپ تو بچپن میں گزر گئیے تھے، ایک بڑا بھائیی تھا جو روزگار کے لیئیے بیرون ملک مقیم تھا گھر کے کل افراد فل وقت دو بڑی بہنوں اور ایک پیاری بھابی پرہی مشتمل تھے صحت مند سیکسی جوان بدن اور کی مالک ستایئیس برس کی نائیلہ دونوں بہنوں میں بڑی اور شادی کو تیاربیٹھی تھی
چھوٹی بہن چوبیس سالہ نورین ابھی کالج کے چوتھے سال میں تھی اور بی اے کی تیاری میں مصروف تھی اوپر والے نے دونوں بہنوں کو حسن وجمال سے اس طرح نوازا تھا کہ ان کی جوانی اور سیکسی پن بہت سے دیکھنے والوں کو مشکل میں ڈال دیتی تھی
شروع جوانی سے ہی اپنےقیامت خیز جوانی پر اُٹھنے والی پرستائیش نظروں اور پزیرائی نے نائیلہ کو شوخ اور بےباک بنادیا تھا اپنی وبصورتی سے بھی واقف تھی اور اپنی جوانی پر کچھ ناز بھی تھا اس جوانی کے عاشق اور طلبگار تو کئی تھے اور اسکو بھی ان کی توجہ اچھی محسوس ہوتی
مگر وہ بھی ہر کسی کو گھاس نہیں ڈالتی تھی مغرور لڑکی مشہور ہو چکی تھی کالج کےآغازمیں کئی لوگ دوستی اور قربت کے خواہشمند ہوئیے تو اس نے اپنی تمام تر بےباکی کوچند لو لیٹرز کے تبادلےتحفوں نذرانوں کی وصولی اور ایک آدھ خوش نصیب کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے تک محودود رکھا
اس نے کبھی کسی کو چوت کا اصل دیدار تک نا کرایا تھا سب اس کی پھدی لینے کے دعوے دار تو بن چکے تھے لیکن سچ پوچھیں تو جہاں تک میرا خیال ہے ا سنے پھدی اوپر اوپر سے لن رکھنے کے لیئیے بھی نہیں دی ہوگی کیونکہ لڑکی پھدی اگر ایک بار کسی مرد کے سامنے ننگی کر لے تو پھر اس کو لن لینے سے کوئی نہیں روک سکتا
عورت تمام تر شر و حیا کے باوجود بھی لن لینے نا کام نہیں لوٹا کرتی یہ الگ بات ہے کہ وہ شلوار نا اتار چکی ہو چوما چاٹی تک رکھا ہو تو چوت دینے سے بچ سکتی ہے تو ادھر بھی معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہی دکھائی دینے لگا تھا لیکن روفی کو اس نائیلہ کی بچی سے کچھ زیادہ ہے وابستی ہو چکی تھی وہ ا سکی پھدی مارے بنانہیں ٹلنے والا تھا
نائیلہ کی جوانی تڑپ تڑپ کے اب لن مانگنے کے لیئے اوتاولی ہو چکی تھی اور اس کو ہر صورت سکون کے ساتھ اس کرد کی بانہوں کی ضرورت تھی اور وہ اس مرد کی اسیر ہو جانے کے لیئیے بہت بے قرار ہو چکی تھی
جوانی کے منہ زور گھوڑے کے آگے اب اس کا بس نہیں چل رہا تھا کیسے ا سکو روکے جوانی ایک دم سے آتی ہے اور اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کے لے جاتی ہے
اس کے ساتھ بھی اب ایسا ہی سین ہونے والا تھااس کی الہٹر جوانی کو انکل روندنے والا تھااور اپنی مرادنگی کی دھاک بٹھانے کو وہ بھی بہت بے قرار ہو چکا تھا یوں تو وہ کئی لڑکیون کے ساتھ سیکس کر چکا تھا لیکن اس کے خیال کے مطابق نائیلہ کے ساتھ سہانی دوپر جو گرم ہونے کے باوجود بھی کسی سہاگ رات سے کم دکھائی نا دیتی تھی
وہ میچور مرد تھا بڑی عمر کا اس کی عمر میں کچھ بڑی اورمحلہ کے رنگین سہانے سے واقف ایک دوست سے جب انکل خضر کی تعریف سنی تو نائیلہ کا بھی انکل کو دیکھنے کا انداز اور خیال ہی بدل گیا جوانی کی ترنگ نے انکل سے دوستی اوآغوش کی خواہش کو جنم دیا
کچھ جھجک بھی ہوئی تھی اور ڈر بھی لگا پرانکل کی اس جانداراور زندہ دلی دلی میں چھپی مزیدار باتوں اور اندازکے سامنے رہا نہ گیا انکل کے ہاں آمدورفت توپہلے سے بھی تھی،
نگاہوں کی زبان سے دل کا پیغام پہنچایا یہ تواندازہ تھا کہ اس سیکسی خوبصورت پیشکش سے انکار کون بدنصیب کرے گا اور انکل کے ساتھ بات راز ہی میں رہنے کا سکون بھی تھا
ابھی کالج نہیں چھوڑاتھا کہ نائیلہ کی خضر انکل سے پہلی سیکسی سہانی ملاقات ہوئی چھت پر ہی ملاپ ہوا اور وہیں کلی سے پورا پھول بنی انکل نے بھی اس کے کنوار پن کی کچی تند دھاگےبڑے چاؤ سے توڑے اور کھولے
لیکن ایک بات توپ بھی جانتے ہٰں کھلنے کے بعد سلتے نہیں پھر مزید اور لڑکی سےعورت کا روپ دیا مرد سے اپنے پہلے وصال کی پر کیف لذت نے نائیلہ کو کافی دن مسرور اور شاداں رکھا جسم کے زیریں حصے سے اٹھتی درد کی میٹھی سی ٹیس بھی کچھ دن اس کو مزہ دیتی رہی اور چھت پرانکل کے ساتھ گزارے ان رنگین لمحات کی رنگینی کا احساس دلاتی رہی
اس کی منہ زور جوانی کو بھی جیسے ایک بھرپور مرد کی تلاش تھی سلسلہ چل نکلا اور ملاقات بلکہ کئی ایک ملاقاتیں ہونے لگیں انکل کا دل بھی اس کی الہڑ اور بھرپور جوانی پر خوب آیا گرمیوں کی ایسی کئی دوپہریں انکل نے اس کے بدن کی گہرائی ناپنے اور اس کی جوانی کو آسودگی دینے کرنے پر صرف کیں
پہلی سیکسی اور بھرپور ملاقات میں آشکار ہونے والے درد دور ہوئیے تو نائیلہ بھی اس کھیل کی ماہر ہکھلاڑی کی طرح ہوتی گئی برابرکا کھلاڑی ملا تو انکل بھی سب کو چھوڑ کر پوری توجہ اور زور اسی پر لگانے کرنے لگے اب تک وہ نائیلہ کے جسم کا ہر سیکسی انگ اور اس کی ترنگ کو ناپ چکے تھے
اور بدن کا ہر ایک انگ انگ کھول چکے تھے اور وپ مکمل عورت تھی ا ب وہ بھی نکھر کر ایک بھرپورجوان عورت کے روپ میں ڈھل چکی تھی اس کےصحتمند کسے ہوئیے جوان لچکیلے بدن پرغضب ڈھاتی چھاتیوں بوبز کی اٹھان اور اس کی چونچیوں کی کشادگی دیکھنے والوں کے جسم کے کچھ حصوں میں خون کی گردش میں اور بھی تیز ی کردیتی تھی
کافی مدت ہو چلا تھا روفی اب بڑا ہو گیا تھا اور سمجھنے لگا تھا نائیلہ اب اس سے محتاط رہنے لگی تھی ویسے تووہ بدھو پن کی حد تک سادہ بھی تھا تھا پراس سے کافی مانوس بھی تھا
اس کے گھر پر موجودگی میں وہ کم مکم ہی اوپر جاتی تھی یا پھر اس کی باہر دوستوں کے پاس نکلنے کا انتظار کرتی ابھی تک تو سارے معاملے کی واحد صرف ایک ہی راز دار تھی
رازدار نورین تھی جو پیچھے گھر پر نظر رکھتی تھی کام کو سنبھالتی تھی شائید کہ کبھی اس کی باری بھی آئیے تو نائیلہ بھی اس کا اچھا ساتھ دیکر ا سکی کنواری چوت کھلنے میں مدد دے گی
کچھ دنوں سےروفی کا معمول تھا کہ کالج سے واپسی پر اچھے اور کچھ نئیے دوستوں کی طرف نکل جاتا آج بھی کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ شام تک وآپس لوٹنے کا کہہ کر جلدی باہر نکل گیا نائیلہ کو اب اپنی بھابی کے سونے کا انتظار تھا اور نورین کے پیارے اشارےکا بھی انتطار تھا جانے کب سگنل ملے اور وہ چدائی لگوانے چلی جائیے
ہفتے میں آج کے دن انکل سے ملاقات اس کا معمول بنا ہوا تھا اور بھی تھا اور پھر وہ کل شام خضر انکل سے ملنے کی فرمائیش بھی کرآئی تھی کیونکہ ا سکی چوت گرم ہو چلی تھی
بھابی کے خراٹوں کی بلند آواز بلند ہوتے ہی نورین کا اشارہ پا کر وہ بھی چھت کی جانب بڑھی اور ا سکے قدم نا جانے کیون آج تھوڑے لرز رہے تھے جیسے کچھ انہونی ہونے جا رہی ہو
روفی آج نائیلہ کو موقع پہ ہی رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ارادہ کر کے آیا تھا پاپی خضر انکل کو دیکھ کر روفی کو حیرت بھی ہوئی تھی اور افسوس بھی ہورہا تھا کہ اس کی آپی نے یہ کیا ظلم کیا ہے کاش کسی نوجونا لڑکے سے دوستی کر لیتی تو اس کی کم از کم شادی بھی اس کے ساتھ ہو سکتی تھی
انکل کو دیکھ نائیلہ کے چہرے پر کھیلتی مسکراہٹ بھی روفی کو بالکل زہر لگ رہی تھی آس پاس کا جائیزہ لینے کے بعد خضر انکل خاموشی کے ساتھ دبے قدموں اس جانب بڑھنے لگے جہاں نائیلہ بےصبری بے قراری سےان کی منتظر تھی ان کا لن لینے کی طلب گار تھی
قریب پہنچتے ہی انکل نے اس کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اور ان کے ہونٹ اس کے گرم رسیلے ہونٹوں کا رس پینے لگے اور ان کو تر کرنے لگے ان کے ہاتھوں کو اپنی آپی کی سیکسی گداز پشت پر ابھری بھری بھری گولائیوں میں پیوست ہوتے دیکھ کر روفی کا خون کھولنے لگا تھا لیکن وہ شش و پنج میں پڑتا گیا
اس واقع کو گزرے پانچ سال ھو ئیے ھوں گے لیکن آج بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ھوں تو میری چْوت گیلی ھو جاتی ھے حالاں کے میں ابھی دو بچوں کی ماں ھوں۔ میں ایک درمیانے درجے کے گھر میں پیدا ھو ئی تھی۔ میرا صرف ایک بھائی تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔
Tumblr media
یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں کالج میں پڑھتی تھی۔ھم لاھور میں رھتے تھے۔ میرے ابو ایک دفتر میں ملازم تھے اور بھائی پنڈی میں کام کرتے تھے۔ میری دنیا میں ایک ھی دوست تھی جس کا نام تھا نازیہ تھا۔ وہ میری کزن بھی تھی۔ میرے امی ابو بہت سخت تھے اس لیے
نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود بھی میں فیشن نہیں کر سکتی تھی اور بڑی چادر کر کے کالج جاتی تھی۔
کالج کی بہت سی لڑکیاں مجھے صرف دیکھنے میری کلاس آتی تھیں۔ چونکہ میری ماں پٹھان تھی اسلیے میرا رنگ گورا اور صاف تھا اور بڑی بڑی کالی آنکھیں لال گلابی ہونٹ اور خوبصورت جسم۔ مجھ میں ایسی کوئی برائی بھی نہ تھی ہاں البتہ کبھی کبھی انٹرنیٹ پے سیکس کی فلم یا ویب سائیٹ دیکھ لیتی تھی اور ہاں نازیہ مہینے میں جب ایک یا دو بار میرے گھر سوتی تو ہم دونوں ایک دوسرے سے کھیلتے۔ میرا اپنا کمرہ تھا۔ رات کو دونوں ننگے ہو کر سوتے تھے اور ایک دوسرے کے سینے دباتے اور چوت بھی ملتے تھے جس سے ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔بس یہی ہماری انجوائیمنٹ تھی۔ہم ہر ایک بات ایک دوسرے سے شئیر کرتے تھے۔
پھر کیا ہوا کیایک لڑکا نازیہ کو پسند کرنے لگا۔اور نازیہ بھی اسے پسند کرتی تھی۔ نازیہ جب بھی کالج سے چھٹی کر کے علی سے ملنے جاتی تو میں سارا معاملہ سنبھال لیتی۔ چند ہی ملاقاتوں کے بعد انھوں نے سیکس بھی شروع کر دیا۔ اب جب رات کو نازیہ میرے ساتھ سوتی تو مجھے اپنے سیکس کے قصے سناتی اورسناتے ہوۓ میری چوت بھی ملتی تھی جس سے مجھے بہت مزہ آتا تھا۔اس کی باتیں سن کے میرا بھی بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی کسی سے چدوایا کروں لیکن ماں باپ کا سوچ کے خاموش ہو جاتی۔
ہمارے پڑوس میں بی بی پیراں رہتی تھی۔ اس کے چار بچے تھے۔ اس کاخاوند ایک مل میں ملازم تھا اور ۳۸ یعنی اڑتیس سال کا ہو گا لیکن دیہات کا ہونے کی وجہ سے بڑے قد کاٹھ کا اور سخت جسم کا تھا اور کافی سانولا رنگ تھا۔ بس ایسا تھا کہ اگر ایک بار دیکھا تو شاید دوسرے بار آپ دیکھنے کی تکلیف نہ کریں۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے چھت پہ چڑھ کہ تاڑتا رہتا ہے۔میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ایک دفعہ امی ابو نے دوسرے شہر جانا تھا اور رات ٹھہرنا تھا تو میں نے نازیہ کہ سونے کے لیے بلا لیا۔اکثر ہم ایسے ہی کرتے تھے۔ شام کو نازیہ نے مجھے منت سماجت کر کے را ضی کر لیا کے وہ علی کو رات کو یہاں بلا لے۔ رات دس بجے علی آیا اور ساتھ ہی ہمارے لیے کھانا بھی لے آیا۔کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں میرے کمرے میں چلے گیے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ ابھی اندر کیا ہو گا۔ مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے کی ہول سے
اندر جھانکنا شروع کر دیا۔کیا دیکھتی ہوں کے علی نے نازیہ کو گلے لگایا ہوا ہے اور ایک ہاتھ سے نازیہ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر رہا ہے۔چند ہے لمحوں بعد نازیہ جھکی اور علی کی پینٹ کی ہک کھول کے اس کا لن نکال کے ہاتھ میں لیا اور پھر منہ میں لے کے چوسنے لگی۔یہ منظر دیکھ کے میرے بدن میں بجلی دوڑنے لگی اور میرا ہاتھ میرے شلوار میں چلا گیا اور میں نے محسوس کیا کے میرے چوت گیلی ہو رہی ہے۔
Tumblr media
تھوڑی دیر میں علی نے کپڑے اتار دیے اور نازیہ کو بھی ننگا کر دیا۔اور پھر علی نے اپنا لن نازیہ کی چوت کے ہونٹوں پہ ملنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی اپنی انگلی سے اپنی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔پھر علی بیڈ پے لیٹ گیا اور نازیہ اس کے اوپر آ گئی اور اس کے لن پے ایسے بیٹھی کے علی کا سارہ کا سارہ لن نازیہ کی چوت میں چلا گیا۔ اب اور آگے مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ سامنے دیکھا تو وہی پڑوسی مجھے اشارے کر رہا ��ھا۔ پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں مسکرا دی۔ اب وہ اس بیڈ روم میں گیا جو میرے بیڈروم کے سامنے تھا اور وہاں سے اشارہ کیا۔ میں پھر مسکرا دی۔ وہ دھوتی پہنے کھڑا تھا۔ اس نے دھوتی میں سے اپنا کالا لن نکال کے مجھے دیکھایا۔ میں نے گھبرا کے بتی بجھا دی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ مجھے غُصہ بھی بہت آیا کے دیکھو چار بچوں کا باپ اور مُجھ اٹھارہ سالہ لڑکی سے عشق لڑاتا ہے۔ خیر میں پھر کی ہول سے علی اور نازیہ کا تماشہ کرنے لگی۔اب دیکھا کے علی نازیہ پے چڑھا ہوا ہے اور نازیہ کی ٹانگیں
اپنے کاندھے پے رکھ کے زور زور سے گھسے مار رہا ہے۔علی کا لُلا نازیہ کی چُوت میں اندر باہر ہوتے دیکھ کر مجھے بہت بے چینی سی ہوئی۔ میں نیچے آ کے کمپیوٹر پے سیکس فلمیں دیکھنے لگی۔ ایک فلم میں ایک بڑا کالا لن دیکھا۔ یہ بالکل پڑوسی ناصر کے کالے لن کی طرح تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مجھے دیکھایا تھا۔ فلم میں اس کالے لن نے گوری کو اتنا مزہ کروایا کے گوری پاگل ہو گئی۔ اب میرے ذہن میں بار بار ناصر کے کالے لن کے خیال آنے لگے۔ خیر میں نے پھر جا کر اُن کو دیکھا تو اب نازیہ ڈوگی سٹائیل میں چودا رہی تھی۔ میں اپنے کمرے میں آکے لیٹ گئی لیکن بہت دیر تک نیند نہ آئی۔
اگلے دن صبح سویرے ہے علی چلا گیا۔ شام کو امی ابو بھی آگیے۔ اگلے دن میں بی بی کے گھر گئی۔ وہ بہت نیک اور اچھی عورت تھی۔ مجھ سے کہنے لگی کے میری بہن کی شادی ہے اور ہم لوگ اگلے جمعرات کو گاوں جا رہے ہیں دو ہفتے کے لیے۔ ناصر یہاں ہو گا اگر چھٹی ملی تو ولیمے کو آ جاۓ گا۔آج اتوار ہے کافی تیاری کرنی ہے۔ خیر میں گھر آ گئی۔ رات کو سوتے میں پھر مجھے ناجانے کیوں ناصر کا کالا لن آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں ساری رات اُس کے بارے میں سوچتی رہی۔کالج میں بھی اس خیال سے چُھٹکارا نہ پا سکی۔ شام کو ابو کے کزن نے ملتان سے فون کیا کہ اُن کے ہاں شادی ہے اور سب کو آنا پڑے گا اور آپ لوگ اس بُدھ کو پہنچ جائیں کیوں کہ تیاری بھی آپ لوگوں نے کروانی ہے۔ میں نے تو جانے سے صاف انکار کر دیا اور بہانا بنایا کہ میرے ٹیسٹ ہیں۔
اگلے دن جب میں نے نازیہ کو یہ بتایا تو وہ تو خوشی سے پاگل ہو گئی۔ اب تو دو یا تین دن خوب عیاشی کریں گے۔ مجھے کوئی خوشی نہ ہوئی کیونکہ نازیہ تو اپنے یار سے چُوت مرواےٌ گی اور میں ویسے ہی پریشان ہوں گی۔
رات کو پھر مجھے ناصر کا کالا لن آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ پھر میں نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ میں ناصر سے یاری لگاوں گی۔ اس میں ایک فائدہ ہے کہ شادی شدہ شخص ہے کم از کم بلیک میل تو نہیں کرے گا۔ اپنے بیوی بچوں کی خاطر احتیاط برتے گا۔ یہ فیصلہ کر کے میں اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگی۔اب میں نازیہ کو بتاوں گی کہ اس بار ایک کمرے میں وہ علی سے چدوایے گی تو دوسرے کمرے میں میں بھی مزے کروں گی۔ لیکن یہ سب میں نے نازیہ کو نہیں بتایا۔ دوسرےدن میں بی بی پیراں کے گھر گئی تو ناصر بھی تھا۔ اس نے چُھپ کے مُجھے آنکھ ماری تو میں مُسکرادی۔وہ بُہت خُوش ہوا اور سمجھا کہ لڑکی پھنس گئی۔ خیر امی ابو نے جمعرات کو مُلتان جانے کا فیصلہ کیا ۔ بُدھ کے دن بی بی پیراں اپنے گاوں چلی گئی اپنے بچوں سمیت اور میرے امی ابو اگلے صُبح جانے کی تیاری کرنے لگے۔ شام کو میں بُہت بے چین تھی۔ وقت نہیں کٹ رہا تھا۔ اپنے کمرے میں آگئی اور شلوار اُتار کے شیشے کے سامنے اپنی کنواری چُوت دیکھنے لگی۔ اپنی چُوت کے ہونٹوں کو کھول کے اپنا تنگ سا سُوراخ دیکھا اس میں میرے چھوٹی اُنگلی بھی نہیں جاتی تھی لیکن کل اس میں ناصر کا بڑا کالا لن جاۓ گا اور پھر یہ سُوراخ اتنا تنگ نہیں ہو گا۔میں اندر باتھروم گئی اور اپنی چُوت بال سفا کریم سے شیشے کی طرح صاف کی تاکہ ناصر کو پسند آۓ۔ یہ سب کُچھ کرنے کے بعد سوچا کہ یہ سب ہو گا کیسے۔ آخر میرے ذہن میں ایک پلان آیا۔ میں نیچے کچن میں گئی اور کھیر بنانے لگی۔
Tumblr media
کھیر تھوڑی زیادہ رکھی تاکہ میں کل کھیر دینے کے بہانے جب ناصر کے گھر جاوں گی تو وہ اکیلا ہو گا اور مُجھ پر ضرور ٹرائی مارے گا۔ سو اگلے دن کے سوہانے سپنے لیے میں سو گئی۔
دوسرے دن امی ابو صُبح سویرے چلے گیے اور نازیہ نے کالج کے بعد آنے کا کہا تھا۔ اب میں تیار ہونے لگی۔ کُھلے گلے والی قمیص پہنی تاکہ سینے نظر آسکیں۔ شلوار پہنی لیکن پینٹی نہیں پہنی۔سوچا ناصر کو اسکو اُتارنے میں وقت لگے گا۔ جب امی ابو کو گیے دو گھنٹے ہو گیے اور مُجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ چلے گیے ہوں گے تو میں دھڑکتے دل کے ساتھ کھیر کی پلیٹ لیے ناصر کے گھر کا داورازہ کھٹکھٹایا۔ ناصر نے دروازہ کھولا۔ میں (جی کھیر لائی ہوں آپ کے لیے ) ناصر ( شُکریہ پلیز فریج میں رکھ دیں) مُجھے پتہ تھا فریج کہاں ہے سو میں کچن میں گئی اور کھیر رکھنے لگی۔ اس تمام وقت میرا دل دھک دھک کرتا رہا۔ میں جیسے ہی کچن میں گئی ناصر نے دروازے پے پکا لاک چڑھا دیا۔ میرا دل اُچھل کے حلق میں آ گیا۔ میں نے انجان بن کے پوچھا ( بی بی کہاں ہے ؟) ناصر نے جواب دینے کی بجائےمُجھے
پیچھے سے ایسے دبوچا کہ اُسکے دونوں ہاتھ میرے سینے پے اور اپنا لن میرے گانڈ پے رگڑنے لگا۔ میں نے کہا ( پلیز مُجھے جانے دو میں بی بی کو بتاوں گی۔ دیکھو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ پلیز مُجھے جانے دو لیکن دل ہی دل میں خُوش تھی کہ ناصر نے سب کُچھ وہی کیا جو میں نے سوچا تھا۔ ناصر ( دیکھو گھر میں کوئی نہیں ہے لہذا شور سے کچھ نہیں بنے گا ہاں کوئی آ گیا تواُلٹی تُمہاری بدنامی ہو گی۔ میں ( پلیز مُجھے جانے دو مُجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پلیز کوئی دیکھ لے گا ) ناصر ( یہاں کوئی بھی نہیں ہے گھبراو نہیں کوئی نہیں دیکھے گا ) یہ کہہ کر ناصر نے دھوتی سے اپنا کالا لن نکالا اور میری گانڈ پے رگڑنے لگا اور ہاتھوں سے میرے ممے بھی دبانے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میں نے گہری سانسیں لینا شروع کر دیں ۔ میرا یہ حال دیکھ کر ناصر کا اور حوصلہ بڑھا اور اُس نے اپنا ہاتھ میری قمیض میں ڈالا اور میرے ممے پکڑ لیے۔
میں ( پلیز ایسا نا کرو اور مُجھے جانے دو) اُس نے میرا جواب دینے کی بجاۓ میرے شلوار نیچے کی اور اپنے لن اب میری ننگی گانڈ پے ملنے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میرے جسم میں بجلیاں سے دوڑنے لگیں۔ اب میں نے سوچا کے اب اور نہیں منع کروں۔ میں ( اچھا پلیز وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاو گے۔ اور پلیز دروازاہ بند کر لو۔ ) ناصر ( وعدہ کے یہ راز اآپ کے اور میرے درمیان رہے گا ۔ اچھا اب مان جاو اور چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں ) یہ کہہ کے وہ میرا ہاتھ پکڑ کے بیڈ روم لے گیا۔ میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے لیکن چہرے پہ پریشانی سجائی تھی۔ بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنی شرٹ اور دھوتی اُتار دی اور اپنا کالا لن لے کے میرے قریب آیا اور مُجھے گلے لگایا اور بولا ( صبا جانی آ گھبراو نہیں ہم بلوچ ہیں جاں دے دیں گے لیکن یار پے آنچ نہیں آنے دیں گے) اس کی یہ بات سُن کر تھوڑا حوصلہ ہوا اور میں نے بھی اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ناصر آگے بڑھا اور مُجھے بچوں کی طرح گود میں اُٹھا کر بیڈ پے لٹا دیا اور میری قمیض اُٹھا کر اور میرے نپل چُوسنے لگا۔ میں ( دیکھو ناصر مُجھے بُہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا اور سنا ہے کہ پہلی بار بُہت تکلیف ہوتی ہے) ناصر ( فکر نہ کرو جانی میں ایسے پیار اور آرام سے کروں گا کے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں ہو گی ) یہ کہتے ہی وہ میرے قمیض اُتارنے لگا اور پھر اُس نے میرے شلوار نیچے کرنے لگا۔ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں ( نہیں نہیں مُجھے شرم آتی ہے ناصر پلیز یہ نا اُتاور) ناصر ( شرماو نہیں ادھر تو صرف میں اور آپ ہیں اور شلوار نہیں اتارو گی تو مزہ نہیں آے گا) یہ کہہ کر اس نے میری شلوار گُھٹنوں تک نیچے کر لی اور پھر میری ٹانگیں اُوپر کر کے ساری اُتار لی۔ اب میں
بالکل ننگی لیٹی تھی۔ اور ناصر کے بڑے کالے لن کو دیکھ رہی تھی اور گھبرا بھی رہی تھی کہ اتنی موٹی بلا میرے چُوت میں کیسے جاۓ گی اور اگر گئی بھی تو یہ تو سب کُچھ پھاڑ کے رکھ دے گی۔
Tumblr media
ناصر نے اب مُجھے سر سے پاوں تک کس کیا۔ پھر میرے پاؤں کھولے اور پیرسے چُوت سہلانے لگا۔ مُجھے بُہت مزہ آیا۔ پھر ناصر نے اپنی چھوٹی اُنگلی میری چُوت میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مُجھے بہت درد ہوا۔ میں ( ناصر یہ کیسے ہو گا۔ اتنا تنگ سُوراخ ہے کے اُنگلی بھی نہیں جاتی تو یہ آپ کی اتنی بڑے چیز کیسے جاۓ گی ؟ مُجھے ڈر لگتا ہے بُہت درد ہو گا نا؟ ) ناصر ( ارے نہیں میرے رانی بس تھورا سا درد ہو گا پہلی بار پھر مزا آے گا آپ کو) میں ( اچھا پلیز آرام سے کرنا ) ناصر گیا اور الماری سے کریم نکال لایا۔ پہلے اُس نے اپنے لُلے پے کریم لگائی پھر میرے چُوت پر اور میری ٹانگوں کے درمیان آ گیا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس نے میری ٹانگیں کھولیں اور اپنا لن ہاتھ میں لے کر آگے آیا اور اپنے لن کی ٹوپی میری چُوت پے ملنے لگا۔ میرے بدن میں بجلیاں سی دوڑ گئیں۔ پھر اُس نے اپنے للے کو میرے چُوت کے سُوراخ پے رکھ کر تھوڑا دبایا تو میری چیخیں نکل گئیں۔ میں ( پلیز ناصر آرام سے بُہت دُکھتی ہے) ناصر پیچھے ہٹ گیا اور پھر اپنے لن کی ٹوپی میرے چُوت کے ہونٹوں پے ملنے لگا۔ مُجھے پھر بُہت مزا آیا اور فیصلہ کیا کہ اب تھوڑا درد برداشت کر ہی لوں ایک بار۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور اپنے لن کی ٹوپی میری چُوت کے سُوراخ پے رکھی۔ میرے چُوت میں گُدگُدی ہونے لگی اور میں ناصر کا لن اپنی چُوت میں لینے کے لیے بےتاب ہونے لگی۔ اب ناصر نے اپنے لن کو ٹھیک کر کے زور سے جھٹکا لگایا اور اپنے لن کی ٹوپی اندر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ درد سے میرے چیخیں نکل گئی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مُجھے بُہت درد ہوا اور درد سے میرے آنسو بہنے لگے۔ ناصر یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور گھبرا کر اپنا لن باہر نکال لیا۔
ناصر کے لن کی ٹوپی خُون سے بھری تھی اور خُون نیچے چادر پے بھی گرا تھا۔ ناصر میرے اُوپر جُھک گیا اور میرے آنسو بھری آنکھیں چُومنے لگا۔ پھر ناصر نے تولیے سے میرے چُوت صاف کی اور شیٹ بھی۔ ناصر ( صبا مُجھے پتا نہیں تھا کہ اتنا درد ہو گا آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل کٹاجا رہا ہے۔) ناصر کی یہ باتیں سُن کے میں اپنے سارے درد کو بھول گئی اور مُسکرانے لگی اور اُٹھ کے اپنے ہونٹ ناصر کے ہونٹوں پے رکھ دیے۔میں ( ناصر آپ بُہت اچھے ہیں آپ کی خوشی کے لیے میں ہر درد سہنے کو تیار ہوں۔ یہ کہہ کے میں اپنی ٹانگیں کھول کے لیٹ گئی۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور پوزیشن لی اور اپنی لن کی ٹوپی میری چُوت پے
رگڑنے لگا۔ مُجھے درد کے باوجود پھر مزہ آنے لگا اور میرے چُوت گیلے ہونے لگی۔
Tumblr media
ناصر نے یہ دیکھ کر اپنا لُلا پھر میری چُوت کے سُوراخ پے رکھا اور میرے اُوپر جُھک کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور پھر اپنے لن کی ٹوپی میرے چُوت کے اندر کی۔ مُجھے پھر درد ہوا لیکن میں برداشت کرتی رہی۔ اب ناصر نے اپنے لن کی ٹوپی کے بعد تھوڑا اور اندر کیا۔ مُجھے بُہت درد ہو رہا تھا لیکن میں چُپ تھی۔ مُجھے خاموش دیکھ کر ناصر نے دو انچ اور اندر کر دیا۔ اب درد میرے برداشت سے باہر ہونے لگا۔ میں ( ناصر پلیز بس کرو مُجھے بُہت درد ہو رہا ہے۔ ) ناصر ( اچھا اور اندر نہیں کرتا بس اس کو ادھر ہی رہنے دیتے ہیں۔ آپ پلیز ہلو نہیں) یہ کہہ کر ناصر نے میرے بدن سے کھیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں درد کم ہوا تو اب مُجھے مزا آنے لگا۔ میرے چہرے پہ مُسکراہٹ دیکھ کے ناصر نے اپنا لن آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اب مُجھے تھوڑا تھوڑا مزہ آنے لگا۔
میرے چہرے پر اطمینان دیکھ کر ناصر نے اب اپنا لن آزادی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ ناصر نے چند ہی بار اندر باہر کیا ہو گا کے میں فارغ ہو گئی اور میری چُوت کا گرم گرم پانی باہر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر ناصر نے اپنا لن باہر نکال لیا جو کے میرے پانی اور خُون سے بھرا ہوا تھا۔ ناصر جلدی سے اُٹھ کر گیا اور تولیا لے کر آیا ، پہلے میری چُت صاف کی پھر اپنا لن صاف کیا۔ پھر میرا سر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گیا اور پیار سے میرے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگا اور کبھی کبھی نیچے جُھک کے میرے آنکھیں بھی چُوم لیتا۔ناصر (میں بُہت خُوش قسمت ہوں کے مُجھ جیسے شخص کوا ٓپ جیسے پیارے دوست ملی ہے۔ میرے عُمر بھی زیادہ ہے اور شکل و صورت بھی کوئی خاص نہیں اور شادی شُدہ بھی ہوں۔ پھر بھی ا ٓپ نے مُجھے پسند کیا۔ھالانکہ آپ جیسے نوجوان اور خوبصورت لڑکی کسے اچھے سے اچھے نوجوان کو اشارہ بھی کرتی تو وہ دوڑہ چلا آتا۔) میں ( آ پ بُہت اچھے انسان ہیں اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ ) ناصر ( یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ناصر اپنا سر کٹا دے گا لیکن آپ کی عزت پے آنچ نہیں آنے دے گا ۔) میں ناصر کی گود سے اُٹھی اور ناصر کو گلے لگا لیا اور اپنے گُلابی ہونٹ ناصر کے سگریٹ کے جلے ہوے ہونٹوں پے رکھ دیے۔ میں ( کام پے کب جائیں گے آپ ؟) ناصر ( آج رات آٹھ بجے ۔ کیوں کیا بات ہے؟ ) میں ( جی امے ابو گھر پے نہیں ہیں اور اگر آپ کی چُھٹی ہوتی تو رات کہ بھی ملاقات بھی ہو سکتی تھی۔) ناصر ( آج رات ڈیوٹی تو تھی لیکن اب نہیں ہے۔ سو آج رات آپ آئیں تو میں کھاناباہر سے لے آون گا اور دونوں مل کے کھائیں گے ۔
Tumblr media
میں ( پکا ) ناصر ( پکا) ناصر ’’ میری رانی ایک بات مانو گی ؟ ‘‘ میں ’’ کیوں نہیں آپ کہہ کے تو دیکھیں ‘‘
ناصر ’’ آپ مُجھ سے سیکسی باتیں کیا کریں اور بلکل آزادی کے ساتھ یعنی شرمائیں نہیں ‘‘ میں ’’ ٹھیک ہے کوشش کروں گی ‘‘ میں نے اُٹھ کر کپڑے پہن لیے اور ناصر نے بھی اپنی دھوتی باندھ لی۔ ناصر صوفے پہ بیٹھ گیا اور میں اُس کی گود میں بیٹھ گئی ناصر ’’ آپ میرے پالتو بلی ہو ‘‘ میں نے پیار سے اُس کی گردن کے گرد اپنی بانہیں ڈال دیں اور بُہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ میں ابھی تک ناصر کی گود میں بیٹھی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میری گانڈ کے نیچے ناصر کی گود میں کوئی چیز سخت سی چُبھ رہی ہے۔ در اصل یہ ناصر کا لن تھا جو پھر جُوش میں آ رہا تھا اور میرے نرم نرم گانڈ کو گُدگُدا رہا تھا۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کے ناصر سے شرماوٗں گی نہیں۔ سو میں نے ہاتھ بڑھا کے ناصر کی دھوتی میں ڈالا اور اُسکے سخت لن کو باہر نکالا۔ میں ’’ تو جناب کو پھر جُوش آگیا ہے؟ ناصر یہ بتاوٗ یہ آپ نے اتنا بڑا کیسے کیا یہ تو بہُت بڑا ہے۔کیا کھلاتے ہو اس کو ؟ ‘‘ ناصر ’’ ہم دیہاتی لوگ ہیں بس دودھ لسی اور مکھن کا کمال ہے اور یہ آپ کے احترام میں دوبارہ کھڑا ہوا ہے۔ اگر آپ کا مُوڈ ہو تو ایک بار پھر سیکس ہو جاےٗ۔ ‘‘ میں ’’ ایک شرط پر کے اس بار میں سب کچھ کروں گی ۔ ‘‘ ناصر ’’ یہ تو اور بھی اچھا ہے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں صوفے سے اُتری اور ناصر کی دھوتی اُتار کے ننگا کر دیا اور اُس کا کھڑا ہوا لُلا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پہلے اُس کی ٹوپی کو چومتی رہی پھر اُسے مُنہ میں لے لیا۔ پھر اُسکے لُلے کی ٹوپی سے لے کے ٹٹوں تک اپنی زُبان سے چاٹتی رہی۔ پھر میں نے ناصر کے ٹٹے اپنے مُنہ میں لے کر چُوسے۔ مُجھے ایسا کرتے دیکھ کر ناصر کو بُہت مزہ آرہا تھا۔ اب میں اُٹھی اور اپنے کپڑے بھی اُتار دیے اور صوفے پے چڑھ کر ناصر کی گود میں ایسے بیٹھی کے میرا مُنہ ناصر کی طرف تھا۔ پھر تھوڑی سی گانڈ اُوپر کی اور ناصر کا موٹا لن ہاتھ میں لیکر تھوڑی سی گانڈ ایسے نیچے کی کہ اُسکے لن کی ٹوپی میرے چوپت کی اندر چلی گئی۔میں ’’ آہ اُی ‘‘ ناصر ’’ کیا ہوا پھر درد ہو رہا ہے کیا؟ ‘‘ میں ’’ نہیں یار مزہ آ رہ�� ہے ‘‘ ناصر ’’ سارہ اندر جانے دو نا تو اور بھی مزہ آےٗ گا ‘‘ میں ’’ اچھا نہ اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو۔ پہلے مُجھے ٹوپی کا تو پورہ مزہ لُوٹ لینے دو ‘‘ اب میں نے اپنی گانڈ اور نیچے کی اور ناصر کا لن دو انچ اور اندر چلا گیا ۔ میں ’’ اہ اُف میں مر گئی آہ ۔ بُہت مزہ آ رہا ہے یار مجُھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ‘‘
اب میں نے گانڈ ساری ایسے نیچے کی کے ناصر کا لن جڑوں تک میرے چوُت میں چلا گیا اور مزے سے چکرا گئی ۔۔ میں ’’ ہمم ای اہ ‘‘ اب میں نے اپنے جسم کو ناصر کے قریب کیا اور دیوانوں کی طرح ناصر کو چوُمنے لگی۔ کبھی ماتھے پہ تو کبھی آنکھوں پہ تو کبھی ہونٹوں پہ تو کبھی گردن پہ۔ ناصر نے بھی اپنی مضبوط بانہوں سے میری کمر کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ میں ’’ ناصر کاش وقت یہاں رُک جاےٗ،۔ دل کرتا ہے آپ کا لن ساری عمُر میری چوُت میں اسی طرح پڑا رہے اور میں مزے لیتی رہوں ۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے ہونٹ پھر ناصر کے ہونٹوں پہ رکھ دیےٗ ۔ اب میں نے اپنی زبان ناصر کے منہ میں ڈالی اور پھر اُسکی زبان چوسی۔ مجُھے بہُت مزہ آ رہا تھا کیوں کہ ناصر کا پورہ لن میری چوُت میں تھا، اُسکے ہاتھ میری کمر کے گرد تھے اور وہ میرے ممے چوُس رہا تھا۔ اب میں نے اپنی گانڈ آگے پیچھے ایسے ہلانی شروع کر دی اور پاگلوں کی طرح ناصر کو چُومتی رہی۔ اب ناصر بھی گرم ہو گیا اور دونوں ھاتھوں سے میری گانڈپکڑ لی اور آگے پیچھے کرنے لگا۔
اُس کے ایسا کرنے سے اُس کا کالا للُا میرے چوُت کے اندر باہر آجا رہا تھا۔میں مزے سے پاگل ہویٗ جا رہی تھی۔زندگی میں پہلی بار اتنا مزہ آیا تھا۔ مجُھے کیا پتا تھا کے سیکس میں اتنا مزا آتا ہے۔
ختم شُد
Tumblr media
0 notes
forgottengenius · 8 months
Text
ہم چاند کب تلک دوربین سے دیکھیں گے ؟
Tumblr media
سب جانتے ہیں کہ امریکا اور چین کے بعد جاپان تیسری بڑی اقتصادی طاقت ہے اور اس کا خلائی پروگرام بھی اسی تناسب سے ہے۔ مگر گزشتہ برس نومبر میں چاند پر اترنے کی پہلی جاپانی کوشش ناکام ہو گئی۔ گزشتہ ماہ اس مقصد کے لیے تیار کیا جانے والا ایک طاقتور راکٹ بھی آزمائش کے دوران پھٹ گیا۔ اگلے ہفتے جاپان مون سنائپر کے نام سے ایک اور خلائی مشین چاند کی جانب روانہ کرے گا۔ روس کا خلائی پروگرام امریکا سے بھی پرانا ہے۔ چار اکتوبر انیس سو ستاون کو سوویت یونین نے پہلا مصنوعی سیارہ سپوتنک خلا میں بھیج کر امریکا کو چیلنج کیا۔ اپریل انیس سو اکسٹھ میں پہلے سوویت انسان یوری گگارین نے ستائیس ہزار کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کے گرد چکر لگا کے امریکی خلائی ادارے ناسا کو چکرا دیا۔ صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ ساٹھ کا عشرہ ختم ہونے سے پہلے امریکا چاند پر انسان اتار دے گا اور سولہ جولائی انیس سو انہتر کو نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر پہلے انسانی قدم نے یہ دعوی سچ کر دکھایا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے سویوز خلائی اسٹیشن خلا میں بھیجا۔ امریکا نے جواباً اسکائی لیب خلا میں بھیجی۔ دونوں ممالک نے دوسرے ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کا کاروبار بھی شروع کیا۔ اور پھر چین بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔
گزشتہ بیس برس کے دوران چاند پر جو تین مشنز اتارے گئے۔ وہ تینوں چینی تھے۔روس نے سینتالیس برس کے وقفے سے گزرے بیس اگست کو لونا پچیس مشن چاند کے مشکل ترین قطبِ جنوبی میں اتارنے کی ناکام کوشش کی۔ تین روز بعد ( تئیس اگست ) بھارت پہلا ملک بن گیا جس نے چاند کے جنوبی کرے میں کامیاب لینڈنگ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ بھارتی خلائی پروگرام کی اس اعتبار سے بھی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ کامیابیاں بہت کم بجٹ میں حاصل کی گئیں۔ مثلاً چاند پر اترنے والے چندریان تھری مشن پر چھ ارب روپے لاگت آئی۔ یہ رقم بالی وڈ کی تین بلاک بسٹر ہندی فلموں کے بجٹ کے برابر ہے اور ناسا کے اسی طرح کے خلائی مشنز کی لاگت کا صرف بیس فیصد بنتی ہے۔ بھارت کا خلائی بجٹ کل قومی آمدنی کے محض صفر اعشاریہ 33 فیصد کے برابر ہے یعنی ایک فیصد کا بھی ایک تہائی۔ بھارت کا اگلا ہدف خلا میں اسپیس اسٹیشن بھیجنا اور چاند پر انسانی مشن اتارنا ہے۔ بھارت کا خلائی پروگرام پاکستان کے خلائی پروگرام کے ایک برس بعد ( انیس سو باسٹھ ) شروع ہوا۔ مگر اکسٹھ برس سے اس پروگرام کو آگے بڑھانا ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ پچاس کی دہائی میں پنڈت نہرو کے سائنسی ترقی کے ویژن کے تحت بھارت کے اہم شہروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( آئی آئی ٹی ) قائم ہوئے۔
Tumblr media
ان میں داخلے کا معیار کسی بھی اے گریڈ مغربی یونیورسٹی میں داخلے کے معیار کے برابر رکھا گیا۔ چنانچہ ان اداروں سے وہ کریم نکلی جس نے بھارت کو پچھلی تین دہائیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید تربیت یافتہ افرادی قوت کی مسلسل رسد کو یقینی بنایا۔ اور کل کے یہ طلبا آج بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں جدید سائنس کے میدان میں کلیدی صف میں ہیں۔ اس افرادی قوت نے بھارت کے خلائی ادارے اسرو کو بھی مالامال رکھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ انیس سو پچھتر میں سوویت یونین کی مدد سے پہلا مصنوعی سیارہ آریا بھٹ خلا میں بھیجا گیا۔ ا��یس سو چوراسی میں کیپٹن راکیش شرما نے سوویت خلائی اسٹیشن سویوز میں کئی ماہ گذارے۔ پچھلے بیس برس میں بھارت مختلف ممالک کے مصنوعی سیارے اپنے راکٹوں کے ذریعے خلا میں بھیجنے کی صنعت میں ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔ اب تک وہ چونتیس ممالک کے چار سو سترہ سیارے خلا میں لانچ کر چکا ہے۔ خود بھارت نے اپنے لیے جو مصنوعی سیارے لانچ کیے ان میں سے چودہ فوجی مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔
دو ہزار تیرہ میں مریخ کی جانب منگل یان کے نام سے ایک کامیاب مشن بھیجا گیا۔چندریان سیریز کے اب تک تین مشنز چاند کی جانب بھیجے گئے۔ ان میں سے دو ہزار آٹھ کا پہلا اور دو ہزار انیس کا دوسرا مشن ناکام ہوا مگر تئیس اگست کو چندریان تھری چاند کے مشکل ترین علاقے میں لینڈنگ میں کامیاب ہو گیا۔ اس مشن کی کامیابی کے پیچھے نصف کوشش بھارت کی خواتین خلائی سائنس دانوں کی ہے۔ پاکستان نے اپنا خلائی پروگرام انیس سو اکسٹھ میں امریکی ادارے ناسا کی مدد سے شروع کیا اور اس میں صدر ایوب ِخان کے مشیرِ سائنس ڈاکٹر عبدالسلام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ انیس سو سڑسٹھ تک پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کے منتظم رہے۔ اس دوران ایک سمجھوتے کے تحت پاکستان کے خلائی ماہرین کی تربیت ناسا کے تحت ہوئی۔ اپنے قیام کے دوسرے ہی برس جون انیس سو باسٹھ میں سپارکو نے پہلا خلائی تحقیقی راکٹ کراچی کے قریب سونمیانی کے ساحل سے چھوڑا۔ یوں پاکستان ان گنے چنے اس وقت دس ممالک کے کلب میں شامل ہو گیا جو خلا میں لانچنگ کی اہلیت رکھتے تھے۔
رہبر راکٹ سیریز انیس سو بہتر تک فعال رہی۔ پھر فنڈز کی قلت آڑے آنے لگی۔ انیس سو چوہتر میں بھارت نے جب پہلا جوہری دھماکا کیا تو ایٹمی پروگرام اور میزائل لانچنگ پروجیکٹ کی تیز رفتار ترقی ریاستی ترجیحات میں اوپر آ گئے۔ راکٹ ٹیکنالوجی میں ترقی کا رخ دفاعی ضروریات کی جانب مڑتا چلا گیا۔ ضیا دور میں سپارکو کو تحقیق و تخلیق کی مد میں بہتر بجٹ ملنا شروع ہوا۔ چین سے خلائی ٹیکنالوجی میں تعاون شروع ہوا۔ انیس سو نوے میں شنجیانگ کے خلائی مرکز سے بدر اول نامی مصنوعی سیارہ لانچ ہوا۔ دو ہزار چار میں پاک سیٹ لانچنگ سیریز پر کام شروع ہوا۔ انیس سو ننانوے میں سرکار نے جوہری تجربات کی کامیابی کے جوش میں اعلان کر ڈالا کہ پاکستان اگلے تین برس میں اس قابل ہو جائے گا کہ اپنے مصنوعی سیارے خود لانچ کر سکے۔ چوبیس برس گذر گئے اور یہ دعوی عملی جامہ نہ پہن سکا۔ اس دوران دو ہزار اٹھارہ میں چین کی مدد سے ریموٹ سینسنگ میں مدد کے لیے دو سیارے لانچ ہوئے۔ 
سن دو ہزار سے سپارکو نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس عرصے میں فوج کی انجینئرنگ کور سے تعلق رکھنے والے چار اعلیٰ افسر یکے بعد دیگرے سپارکو کی سربراہی کر چکے ہیں۔ دنیا بدل چکی ہے۔ پاکستان کے تین اطراف ایڈوانس خلائی پروگرام سے لیس طاقتیں ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی میں روز افزوں تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جو انتہائی تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہے۔ اس کی کھپت اندرونِ ملک نہ ہونے کے سبب نوجوان ٹیلنٹ کا ہدف بیرونِ ملک نوکری ہے۔ مگر خلائی دنیا میں داخلے کے لیے پاکستان کا ویژن دو ہزار چالیس منصوبہ بہرحال اپنی جگہ قائم ہے۔ فی زمانہ عالمی خلائی دوڑ میں نجی شعبہ بھی برابر کا شریک ہے مگر پاکستان میں خلائی سائنس اور متعلقہ ادارے ابھی تک روائیتی بیورو کریٹک چنگل میں ہیں۔ ارادے ہمیشہ کی طرح بلند ہیں مگر عمل کب ٹیک آف کرے گا ؟ اس بابت یقین سے کچھ کہنا اپنی پیش گویانہ شہرت کو داؤ پر لگانے جیسا ہے۔ اللہ مالک ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
touseefanees · 10 months
Text
وہ خوش تھی
جب خاک پہ بیٹھتی تھی
وہ خوش تھی
جب اسے درگاہ کی دہلیز پہ
عشق دکھائی دیتا تھا
نہ کوئی اور آواز تھی
نہ ہی کچھ سنائی دیتا تھا
وہ خوش اپنی روح کے ساتھ
کہ جب جسموں کی سرحدوں پہ کو پہرے نہ تھے
جب اس کے اردگرد رہنے والے بہرے نہ تھے
وہ خوش تھی اس اک شخص کے ساتھ
جو تہی دست تھا مگر
اپنے ساتھ چاند ستارے سب لاتا تھا
جو گھنٹوں جدوجہد کر کے اسے ہنساتاتھا
جو اپنے لمحوں کی ساری بارشیں فقط اس پہ لٹاتا تھا
جو اسکے جسم سے بہت دور روح میں سما جاتا تھا
وہ خوش تھی
کہ جب وہ قید نہ تھی سنگ مرمر کی دیواروں میں
جب وہ تنہا نہ تھی ہزاروں میں
کہ جب کھڑکی کے سرہانے چاند تکتی تھی
آنکھوں کی چمک سے شمع سی چمکتی تھی
جب اندھیروں میں نور ہوتا تھا
اس کے چہرے پہ یار کا نور ہوتا تھا
وہ خوش تھی جب فراق منہ زور نہ تھا
جب وصل بس میں تھا درمیاں کوئی اور نہ تھا
جب ہجر کے ناخن روح کو نہ نوچتے تھے
جب پہروں بیٹھ کے نہ سوچتے تھے
وہ خوش تھی
جب کاجل پانی بن کے نہ بہتا تھا
کوئی ہر پل چاکا و چوبند آنکھوں میں رہتا تھا
خوابوں کی کھڑکیاں جب کھلی تھیں
جب نیندوں پہ نہ کوئی پہرہ تھا
ہاں وہ خوش تھی
جب پگڑیوں نے اسے قربان نہ کیا تھا
جب اسکے دل کی دنیا کو ویران نہ کیا تھا
ہاں وہ خوش تھی
کہ جب رات یوں کالی نہ تھی
کہ جب اسکے کانوں میں غیر کی بالی نہ تھی
کہ جب کھڑکی کی دوسری طرف کوئی جالی نہ تھی
کہ جب کھڑکی کی دوسری طرف کوئی جالی نہ تھی
ازقلم توصیف انیس
3 notes · View notes